Tag: بلیک ہول

  • بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کائنات میں بکھرے ہوئے وہ عجیب و غریب ستارے ہیں جن سے کوئی بھی چیز باہر نہیں نکل سکتی، یہاں تک کے روشنی بھی نہیں، اس لیے ان کو براہ راست دیکھ پانا ناممکن ہے، اس دقت کے باوجود ماہرین کو یقین ہے کہ کائنات میں بہت سارے بلیک ہول موجود ہیں، اسی وجہ سے سن 2020 کے فزکس نوبل انعام سے ان کی دریافت اور ان سے متعلق اہم تحقیقات پر تین سائنس دانوں: راجر پنروز (انگلستان)، رائنہارڈ گنزل (جرمنی) اور اندرے گیز (امریکا) کو نوازا گیا۔

    بلیک ہول کا خیال 18 ویں صدی میں سائنسی حلقوں میں آیا۔ نیوٹن کے دیے ہوئے مقولوں کو استمال کرکے ایک انگریز پادری سائنسدان جان مائیکل اور عظیم فرانسیسی ریاضی داں سائمن لاپلاس نے بلیک ہول کے وژن اور اس کے سائز کا فارمولا حاصل کرلیا۔

    غور کریں کہ اگر کسی راکٹ کی رفتار 40 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے سے کم ہو تو وہ زمینی کشش سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ وہ زمین کی طرف واپس آجائے گا۔ یہ رفتار اسکیپ رفتار کہلاتی ہے اور یہ زمین کے وزن اور اس کے سائز پر منحصر کرتی ہے۔ اگر پوری زمیں سکڑتے ہوئے ایک شیشے کی چھوٹی گولی کے برابر ہو جائے تو اسکیپ رفتار بڑھتے بڑھتے یعنی روشنی کی رفتار (ایک لاکھ اسی ہزار میل فی سیکنڈ) کے برابر ہو جائے گی اور تب زمین سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پائے گی۔ یعنی ہماری زمین ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جانے گی۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کائنات میں بکھرے ہوئے بلیک ہولز کو ڈھونڈ پانا ایک مشکل کام ہے۔

    سنہ 1915 میں آئن سٹائن نے زمینی کشش کو سمجھنے کے لیے انوکھا طریقہ کار پیش کیا جس کے مطابق مادہ اپنے چاروں طرف کائنات میں گھماؤ پیدا کر دیتا ہے اور جتنا زیادہ مادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ گھماؤ ہوگا۔ دوسری اور تمام چیزیں جو اس بڑے مادے کے نزدیک آئیں گیں وہ اسی گھماؤ دار راستے پر چلیں گیں۔

    جرمن سائنسدان کارل شوارزچائلڈ نے آئن سٹائن کے مقالوں کو استعمال کر کے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کے وزن اور اس کے سائز میں تقریباً وہی رشتہ ہے جو بہت پہلے مائیکل اور لاپلاس حاصل کر چکے ہیں۔ بلیک ہول کے چاروں طرف وہ حد جہاں جا کر کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی، وہ شوارزچائلڈ حد کہلاتی ہے۔

    چندرشیکھر کی اہم تحقیقات اور پھر امریکی ایٹم بم سے منسلک مشہور سائنسداں اوپن ہائمر نے یہ محسوس کیا کہ اگر مردہ ستاروں میں بہت زیادہ مادہ ہو تو وہ کشش کی وجہ سے حد درجہ سکڑنے پر بلیک ہول بن سکتے ہیں۔ اس سمجھ کے ساتھ یہ مشکل مسئلہ تھا کے ستارے کے حد درجہ سکڑ نے کی وجہ سے اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائے گا اور پھر فزکس کے تمام اصول وہاں پر ناقص ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے بلیک ہول میں سائنسدانوں کی دلچسپی صرف ریاضیات کی حد تک رہ گئی ہے۔ خود آئن سٹائن کو بلیک ہول کی حقیقت پر یقین نہیں تھا۔

    سنہ 1960 کے آس پاس فلکیاتی سائنسدانوں نے ایک بہت ہی حیرت انگیز ستارہ دریافت کیا۔ اس کو کواسار کہتے ہیں۔ اس دریافت نے تمام فلکیاتی سائنسدانوں میں بلیک ہول سے دلچسپی کو پھر سے زندہ کر دیا۔ کواسار وہ ستارے ہیں جن سے بے انتہا روشنی نکلتی ہے جو ہماری کہکشاں یا انڈرومیدہ کہکشاں کے کروڑوں ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے۔ کسی ستاروں کے جھرمٹ یا کسی ستارے کے پھٹنے سے اتنی روشنی نہیں نکل سکتی۔ صرف ایک ہی بات ممکن ہے کے کسی بڑے بلیک ہول کی وجہ سے آس پاس کا مادہ کائنات میں گھماؤ کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ بلیک ہول میں گر رہا ہو اور وہ تیز رفتاری کی وجہ سے بے حد گرم ہوکر بے پناہ روشنی پیدا کر رہا ہے۔ اس سمجھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید بلیک ہول کواسار ایک حقیقت ہیں۔

    کوا سار کی دریافت سے متاثر ہوکر راجر پنروز نے ریاضیات کے استمال سے بلیک ہول کی دریافت کو حقیقت کے نزدیک کر دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جب کوئی بڑا مردہ ستارہ بغیر کسی روک ٹوک کے سکڑنا شروع ہوگا تو بالآخر اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائۓ گا۔ اس ستارے کے باہر گولائی کی ایک حد ہوگی جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی۔ یہ وہی حد ہے جس کا ذکر اوپن ہائمر اور شوارز چائلڈ پہلے کر چکے ہیں۔

    یہ ایسی حد ہے جس کے بعد صرف مستقبل ہے اور پھر بلیک ہول کے سینٹر پر وقت ہمیشہ کے لیے رک جائے گا۔ وقت کے خاتمے جیسی انوکھی بات کو سمجھنے کے لیے شاید فزکس کے نئے مقولوں کی ضرورت ہوگی لیکن بلیک ہول کے چاروں طرف کی حد اس کے اندر کی لامحدودیت کو چھپائے ہوئے ہے۔ اس سمجھ نے سائنسدانوں میں بلیک ہول کی لامحدودیت کی وجہ سے تکلف کو ختم کر دیا۔ ان دلائل کے بعد بلیک ہول کو دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کے اب ہم صرف بلیک ہول کے آس پاس ان ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو تیزی کے ساتھ بلیک ہول میں ہضم ہوتے جا رہیں ہیں۔ اس سمجھ نے بلیک ہول کی دریافت کی دوڑ کو تیز کر دیا۔

    سنہ 1990 کے آس پاس گینزل اور ان کے فلکیاتی ساتھیوں نے انفراریڈ روشنی کا استمال کرکے بلیک ہول کی تلاش میں ساری توجہ اپنی کہکشاں کے سینٹر پر مرکوز کر دی جہاں پر ایک بڑے بلیک ہول کے ہونے کے بہت امکانات تھے۔ انفراریڈ روشنی کا استمال اس لئے کیا گیا کے آس پاس کی کائناتی دھول کی وجہ سے ٹیلی اسکوپ کے مشاہدات میں رکاوٹ نہ آسکے۔ دوسری دقت یہ تھی کہ ہماری زمین کے چاروں طرف پھیلی ہوا کے وجہ سے ستارے جگ مگ کرتے ہیں اس لئے ان کی تصویر دھندلی ہو جاتی ہے اور پھر ان ستاروں کی صحیح رفتار معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لئے گیز نے کیک کے بہت طاقتور ٹیلی اسکوپ کو استمال کیا تاکہ بہت کم وقت میں اچھی تصویر لی جا سکے۔

    چند ہی سالوں میں باریکی سے مشاہدات کے بعد دونوں تجرباتی تحقیقاتی گروپ ہماری کہکشاں کے بیچ میں بلیک ہول کے چاروں طرف تیزی سے چلتے ہوئے تاروں کے گھماؤ دار راستوں کو باریکی سے ناپنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان مشادات نے یہ ثابت کر دیا کے ہماری کہکشاں کے سینٹر پرایک بڑا بلیک ہول ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس حیرت انگیز دریافت کی اہمیت کی وجہ سے ان سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اس بات کا بہت ذکر ہوا کے ان تینوں انعام یافتہ سائنسدانوں میں گیز، نوبل انعام کی 120 سال کی تاریخ میں صرف چوتھی خاتون ہیں۔

    فزکس ایسا مضمون ہے، جس کا وہ دعویٰ بھی کرتا ہے، جو بنا کسی تفریق کے اچھے دماغوں کو نوازتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ سائنسدان عورت ہے یا مرد۔ لیکن فزکس کے نوبل انعام یافتہ لوگوں کی فہرست اس بات کی گواہی دیتی ہے کے شاید سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ پہلی خاتون سائنسدان مادام کیوری کو شروع ہی میں 103 میں نوبل انعام ملا، لیکن اس کے 60 سال کے بعد دوسری خاتون سائنسدان ماریا جیوپورٹ میر کو 1963 میں اور تیسری خاتون ڈونا اسٹرکٹ کو 2018 میں نوبلے انعام ملا۔ ایسی بہت ساری خاتون سائنسدان رہی ہیں جن کی مایہ ناز تحقیقات نوبل انعام کی مستحق ہونے کے باوجود اس انعام سے محروم رہیں۔ ان میں خاص نام ہیں: لیز مایٹنر، چین شنگ وو، ویرا ربن اور ہندوستان کی بیبھا چودھری جن کے نام سے ایک ستارہ بھی منسوب ہے۔

    گیز نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کی بڑے ہوتے ہوئے ہر منزل پر یہ سننا پڑا کہ تم یہ نہیں کر سکتیں کیونکہ تم لڑکی ہو، تمہارا داخلہ کیل ٹیک جیسی مشہور جگہ نہیں ہو سکتا۔ کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہر پڑھنے لکھنے والی لڑکی کو سننا پڑتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گیز نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کے کام کو ان تمام لڑکیوں کے نام منسوب کیا ہے جو تمام رکاوٹوں کے باوجود تحقیقات کے کام میں اچھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    فزکس کی تحقیقات کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کے ریسرچ کرنے کی سہولتیں ٹیکس دینے والوں کی عنایت ہے۔ ساری کامیابیاں اسی عنایت کی دین ہے اور اس لیے ہر ناانصافی کو ختم کرنا ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کوئی دباؤ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے تاکہ ریسرچ کے لیے بہتر ماحول بنے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کے پچھلے دو سالوں میں دو خواتین کو نوبل انعام ملا۔ کیا یہ اس بات کی نشان دہی ہے کے آنے والے وقت میں لڑکیوں کے لیے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا آسان ہوجائے گا؟ کیا فزکس میں لڑکیوں کے لیے رکاوٹیں کم ہو جائیں گی؟

  • بلیک ہول  کا پُراسرار  زار ، جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    بلیک ہول کا پُراسرار زار ، جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    لندن: برطانوی ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کے مرکز میں پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کی تصویر پہلی بار حاصل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کے گرد پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کی ایسی بے مثال مختصر ویڈیو حاصل کی ہے جسے انسانی آنکھ نے اس سے پہلے نہیں دیکھا۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سولر سسٹم میں موجود بلیک ہول کے مرکز میں پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کے ذریعے ماہرین فلکیات ایک اور اہم راز سے روشناس ہوئے۔

    برطانیہ میں واقع ’ساؤت امٹن‘ یونیورسٹی میں ہونے والی اس تحقیق میں خطریر رقم خرچ ہوئی ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی سے لیز کیمروں کا استعمال کیا گیا ہے۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ شعاعوں کا یہ عمل بیلک ہول میں موجود گریوٹی اور میگنٹک فیلڈ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے کیناری جزیرے سے اپنا تحقیقی ٹیلی اسکوپ استعمال کیا تاہم تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے انہوں نے عالمی ادارے ناسا سے مدد حاصل کی۔

    بلیک ہول کی پہلی تصویرجاری کردی گئی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جس بلیک ہول پر شعاعیں نکل رہی ہیں اس کا وزن تقریباً سورج سے زیادہ 7 گنا زیادہ ہے، لیکن حجم کے لحاظ سے برطانوی شہر لندن سے بھی چھوٹا ہے۔

    خیال رہے کہ 10 اپریل 2019 کا دن سائنسی تاریخ کا ایک اہم دن تھا کیونکہ ماہرین فلکیات طویل عرصے سے سحر زدہ کیے رکھنے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

  • کیا بلیک ہول کی تصویر ساڑھے 5 کروڑ سال پرانی ہے؟

    کیا بلیک ہول کی تصویر ساڑھے 5 کروڑ سال پرانی ہے؟

    کائنات کے بڑے رازوں میں سے ایک سمجھے جانے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کردی گئی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ تصویر 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانی ہے؟

    10 اپریل 2019 کا دن سائنسی تاریخ کا ایک اہم دن تھا کیونکہ ماہرین فلکیات طویل عرصے سے سحر زدہ کیے رکھنے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوگئے، تاہم یہ تصویر 5 کروڑ 50 سال لاکھ سال پرانی ہے۔ جان کر حیران ہوگئے نا؟

    مزید پڑھیں: بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کردی گئی

    یہ بلیک ہول جسے اب تک دریافت کیے جانے والے بلیک ہولز میں سب سے زیادہ وزنی قرار دیا جارہا ہے، ہم سے 5 کروڑ 50 لاکھ نوری (روشنی کے) سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

    یعنی اس وقت اگر ہم زمین سے آنکھوں کو چکا چوند کردینے والی کوئی ایسی روشنی خارج کرسکیں جو اس بلیک ہول تک پہنچ سکے تو اسے وہاں تک پہنچنے میں 5 کروڑ 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہے، اور یقیناً یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ روشنی ہماری کائنات کی سب سے تیز رفتار شے ہے۔

    تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلیک ہول کے آس پاس کا علاقہ جسے ایونٹ ہورائزن کہا جاتا ہے خاصا روشن ہے، وہ اس لیے کیونکہ مادہ، گیس، پلازمہ یا کوئی بھی دوسری شے بلیک ہول کے اندر داخل ہونے سے قبل اس مقام (ایونٹ ہورائزن) پر نہایت تیز ہو کر بھڑک جاتی ہے اور روشن ہوجاتی ہے، یہ روشنی انہی اشیا کی ہے۔

    یہاں سے یہ روشنی اپنا سفر شروع کرتی ہے، یہ روشنی جب اس مقام تک پہنچتی ہے جہاں سے ہم اسے دوربین کی آنکھ میں قید کرسکیں تو اسے اپنے اصل مقام سے سفر شروع کیے 5 کروڑ 50 لاکھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔

    گویا آج دیکھی جانے والی بلیک ہول کی تصویر بلاشک و شبہ 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب یہ بلیک ہول ایسا نہ ہو جیسا اس تصویر میں دکھائی دے رہا ہے، ہوسکتا ہے اب اس کا حجم بڑا یا چھوٹا ہوگیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بلیک ہول ختم ہوچکا ہو۔

    اسی کلیے کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرض کیا جائے کہ اگر اس بلیک ہول کے مقام پر کھڑے ہو کر، کسی طاقتور دوربین کے ذریعے زمین کی طرف دیکھا جائے تو اس دوربین میں زمین کا 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانا منظر نظر آئے گا۔

    یہ وہ عرصہ ہوگا جب ہماری زمین پر ڈائنو سارز موجود تھے اور انسان کو زمین پر آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ گویا اس وقت جس روشنی نے زمین سے خارج ہو کر اپنا سفر شروع کیا ہوگا اسے اس بلیک ہول تک پہنچنے میں اتنا وقت لگا ہوگا کہ زمین پر سال 2019 شروع ہوچکا ہوگا۔

  • بلیک ہول کی پہلی تصویرجاری کردی گئی

    بلیک ہول کی پہلی تصویرجاری کردی گئی

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ نے انسانی تاریخ میں پہلی بار بلیک ہول کی تصویر جاری کردی ہے، لیکن کیا یہ واقعی بلیک ہول کی تصویر ہے۔

    یہ تصویر ناسا کے زیر اہتمام ادارے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ کی جانب سے جاری کی گئی ہے، یہ بلیک ہول ایم 87 ورگو اے کے نام سے پہچانی جانے والی کہکشاں کے وسط میں واقع ہے۔

    عالمی ادارے کا دعویٰ ایک طرف لیکن پرائمری کی سائنس جنہیں یاد ہے وہ جانتے ہیں کہ بلیک ہول ایک ایسے فلکی جسم کا نام ہےجس کی بے پناہ کشش ِ ثقل کے سبب کوئی بھی شے اس میں سے نہیں گزر سکتی ، حتیٰ کہ روشنی بھی نہیں اور روشنی کسی بھی شے کی تصویر کھینچنے کے لیے لازمی عنصر ہے۔

    آئن اسٹائن ہمیں بتاچکے ہیں کہ کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کرسکتی اور بلیک ہول کی تصویر لینے کے لیے ضروری ہے کہ روشنی اپنی موجودہ رفتار یعنی 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ سے بھی تیز سفر کرے، جو کہ ممکن نہیں ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بلیک ہو ل کو دیکھ لیا جائے۔

    پھر بین الاقوامی سائنسد اں اسے بلیک ہول کی تصویر کیوں قرار دے رہے ہیں۔ پہلے ذرا ایک بار غور سے تصویر کو دیکھیے۔ یہ تصویر بالکل ایسی ہی ہے جیسا کہ کوئی ڈونٹ، درمیان میں ایک سیاہ دھبا اور اس کے گرد روشنی ۔

    سائنس دانوں نے جو تصویر لی ہے وہ درحقیقت اس کے ارد گرد موجود روشنی کی ہے ، اور اس روشنی کےدرمیان موجود بلیک ہول جو کہ اس کہکشاں میں موجود ہر شے کو نگلنے کے صلاحیت رکھتا ہے ، روشنی کے اس دائرے کے اندر واقع ہے ، یوں سمجھ لیں کہ جہاں پر روشنی کااندرونی ہالہ ختم ہورہا ہے ، وہ سارا علاقہ بلیک ہول ہے۔

    اب ذرا یہ بھی جان لیں کہ آخر یہ روشنی ہے کیا۔ بلیک ہول کی شدید کششِ ثقل کے اثرات اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتے ہیں جسے ایونٹ ہورائزن یا ’واقعاتی افق‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کسی بھی بلیک ہول کے گرد یہ واقعاتی افق نہ ہو تو وہ بلیک ہول تنہا پوری کائنات کو ہڑپ کرجائے ۔ واقعاتی افق سے دور جاتے ہوئے، بلیک ہول کی کششِ ثقل بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے؛ اس لیے کسی بلیک ہول سے دور دراز مقامات پر موجود اجسام پر اس کشش کے اثرات بھی اتنے معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں بہ مشکل ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

    فلکیاتی اجسام جو کسی بلیک ہول کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں،جیسے جیسے واقعاتی افق کے قریب پہنچتے ہیں، ان کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور وہ بلیک ہول کے گرد اسپائرل ( لہردار )راستے پر چکر لگاتے ہوئے، واقعاتی افق سے قریب تر ہونے لگتے ہیں۔ ہر چکر میں ان کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ عین واقعاتی افق پر پہنچ جاتے ہیں۔

    زبردست رفتار کے سبب یہ اجسام انتہائی زیادہ توانائی پیدا کرتے ہیں اور ان سے روشنی یا ریڈی ایشن خارج ہونے لگتی ہے۔ واقعاتی افق جو کہ بلیک ہول کی سرحد ہے وہاں سے بلیک ہول میں گرتے وقت یہ آخر ی بار انتہائی تیز ترین شعاعیں خارج کرتے ہیں جس سے واقعاتی افق روشن ہوجاتا ہے۔

    سو ہم جو یہ تصویر دیکھ رہی ہیں یہ درحقیقت ایونٹ ہورائزن پر فلکی اجسام سے پیدا ہونے والی روشنی کی ہے اور اس روشنی کے درمیان جو اندھیرا ہے ، وہ بلیک ہول ہے ، سو اس طرح سائنس دانوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ یہ تصویر بلیک ہول کی ہے ، فی الحال موجودہ ٹیکنالوجی سے بلیک ہول کو اتنا ہی دیکھ پانا ممکن ہوسکا ہے۔

    ہوسکتا ہے مستقبل میں کبھی سائنس اس قدر ترقی کرلے کہ بلیک ہول کے اندر بھی جھانک سکے اور ہمیں بتاسکے کہ وہاں یہ زبردست سرگرمی کس سبب ہورہی ہے ، فی الحال آپ اس تصویر سےگزارا کریں۔

  • کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    سڈنی: آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ ایک منحوس بلیک ہول ہمارے سورج کو ہر دو دن بعد آہستہ آہستہ کھاتا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ معلوم کائینات میں یہ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا قدیم ترین بلیک ہول ہے جس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی ہے، جو ہردودن میں ایک درندے کی طرح ہمارے سورج کو کھا کر تابکاری کا ایک طوفان خارج کررہا ہے۔

    فلکیات اور خلائی طبیعیات سے متعلق آسٹریلوی قومی یونی ورسٹی کے محقق کرسچن وولف نے کہا کہ یہ بلیک ہول تیز رفتاری سے بڑھنے کی وجہ سے  ایک پوری کہکشاں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ طاقت کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کی وجہ وہ گیسیں ہیں جو یہ روزانہ نگلتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے پناہ حرارت اور رگڑ پیدا ہوتی ہے۔

    برطانوی میگزین ’آسٹرونامی ناؤ‘ کے مطابق اگر یہ عفریت ہماری کہکشاں کے ملکی وے کے وسط میں ہو تو یہ ایک پورے چاند سے دس گنا زیادہ چمکتا دکھائی دے گا۔ اس کی چمک اتنی حیرت انگیز ہوگی کہ آسمان کے تمام ستارے فنا ہوجائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    اس بلیک ہول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کائینات کی تشکیل کے ابتدائی زمانے میں بنا تھا، جب ماہرین فلکیات نے اسے پایا تو اس وقت یہ بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر تھا اور اس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی تھی۔ یہ عظیم الجثہ بلیک ہول بالا بنفشی شعاعیں اور ایکس رے توانائی خارج کرتا ہے جسے یہ گیس اور دھول کی صورت میں نگلتا ہے اور پھر اتنی غضب کی حرارت پیدا کرتا ہے جس سے کوئی بھی مہمان کہکشاں تباہ ہوسکتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    وولف کا کہنا تھا کہ اگر یہ ملکی وے میں ہوتا تو زمین پر ایکس ریز کی وجہ سے زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔ اس بلیک ہول کی نشان دہی اسکائی میپر ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی گئی ہے۔ کئی ماہ کی اس تلاش میں یورپی خلائی ایجنسی کے سیٹلائٹ گایا نے بھی مدد کی جو فلکیاتی اجسام کی معمولی سی حرکت کو بھی معلوم کرلیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔