Tag: بندر

  • صحت ایک نعمت: بندر نے ویٹ لفٹنگ میں انسانوں کو پیچھے چھوڑ دیا، ویڈیو دیکھیں

    صحت ایک نعمت: بندر نے ویٹ لفٹنگ میں انسانوں کو پیچھے چھوڑ دیا، ویڈیو دیکھیں

    بنکاک: آپ نے دنیا بھر میں انسانوں کو ورزش اور ویٹ لفٹنگ کرتے دیکھا ہوگا لیکن ان دنوں سوشل میڈیا پر ایسی حیرت انگیز ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک بندر ویٹ لفٹنگ کرتا نظر آرہا ے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ کے صوبے پھوکٹ میں قائم ایک پارک سے یہ ویڈیو سامنے آئی جس نے سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا، مذکورہ بندر نہ صرف ویٹ لفٹنگ کرتا ہے بلکہ پش اپ کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے کرتب بھی دکھاتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح یہاں دیگر جانوروں کو بھی ٹرین کیا جاتا ہے تاکہ وہ آنے والے سیاحوں کو خوب محظوظ کرسکیں، ویڈیو میں نظر آنے والا بندر پانی میں تیراکی بھی بڑی مہارت سے کرتا ہے۔

    ’اماں اٹھو‘ : بندر کے بچے کی مری ہوئی ماں کو جگانے کی کوشش، دل سوز ویڈیو وائرل

    دوسری جانب جانوروں کا خیال رکھنے والی تنظیموں نے اس ویڈیو پر پارک انتظایہ کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا، ان کے مطابق جانوروں کو تشدد کرکے کسی کام پر مجبور کرنا جرم ہے، جبکہ کسی بھی خطرے کے پیش نظر انتظامیہ بندروں کے دانت بھی کاٹ ڈالتے ہیں۔

    غیرملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر جانور کرتب نہ دکھائیں تو انہیں سزا بھی دی جاتی ہے۔

  • بندروں کی بھرمار سے گاؤں والے ہجرت پر مجبور

    بندروں کی بھرمار سے گاؤں والے ہجرت پر مجبور

    بھارت کے ایک گاؤں میں بندروں کی بھرمار نے گاؤں والوں کو ہجرت پر مجبور کردیا، یہ بندر فصلوں کو تباہ کر رہے تھے جبکہ گھروں میں گھس کر سامان بھی اٹھا لے جاتے تھے۔

    بھارتی گاؤں ناراس پور سے اب تک 20 سے زائد خاندان ہجرت کر کے جا چکے ہیں، وجہ اس گاؤں میں بندروں کی بھرمار ہے جن کی تعداد اندازاً 400 ہے۔

    یہ بندر فصلوں کو تباہ کر کے کسانوں کو مالی نقصان پہنچا رہے تھے جبکہ گھروں میں بھی گھس جاتے جہاں سے وہ مختلف سامان اٹھا کر بھاگ جاتے تھے۔

    تاہم اب گاؤں کے سرپنج نے گاؤں والوں کی مشکل حل کرنے کے لیے ان بندروں کو پکڑنے کے لیے ایک ٹیم بلا لی ہے جنہیں 15 سو روپے دیے جائیں گے۔ اس ٹیم نے اب تک 100 بندر پکڑ کر گھنے جنگل میں چھوڑ دیے ہیں جہاں سے وہ واپس نہ آسکیں۔

    سرپنچ کا کہنا ہے کہ ان بندروں نے گھروں اور فصلوں پر تباہی مچادی تھی اور اس وجہ سے کسان بہت پریشان تھے۔

    ان میں سے کچھ کسان ایسے تھے جنہیں صرف ایک ہی قسم کی فصل اگانے پر مہارت حاصل تھی اور ان کی وہ واحد فصل بھی بندروں کے ہاتھوں تباہ ہوجاتی تھی، چنانچہ کسان پریشان ہو کر یہاں سے جانے لگے تھے۔

    تاہم اب جب کسانوں کو علم ہوا کہ آہستہ آہستہ بندروں کا خاتمہ ہورہا ہے تو وہ اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں۔

  • انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    ہم نے اب تک زمین پر ارتقا کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق ہمارے اجداد، ہم سے ملتے جلتے کچھ جانور تھے جیسے بندر۔ ہم ان کی جدید ترین شکل ہیں۔

    زمین پر موجود زیادہ تر جانداروں کے پاس دم ہے، جیسے مچھلیاں، پرندے اور رینگنے والے جانور۔ بندروں کی کچھ اقسام بھی دم رکھتی ہے۔ لیکن انسانوں کی دم نہیں، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

    دم دراصل 50 کروڑ سال قبل مختلف جانداروں میں منظر عام پر آنا شروع ہوئی۔ تب سے اب تک یہ کئی کاموں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ جیسے چھپکلی کی ایک قسم گیکوس دم میں چربی محفوظ کرتی ہے۔

    پرندے ہوا کے درمیان سے گزرنے کے لیے دم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سانپ کی ایک قسم ریٹل اسنیک اپنی دم سے شکاریوں کو ڈراتے ہیں۔ دوسری طرف ممالیہ جانوروں کی دم کا سب سے بڑا مقصد ان کا جسمانی توازن برقرار رکھنا ہے۔

    اگر آپ زمین پر زندگی کے ارتقا کے بارے میں مطالعہ کریں تو آپ صرف انسان ہی نہیں، بلکہ انسانوں سے ملتے جلتے، اور ارتقائی طور پر انسان کے قریب جانوروں میں بھی دم غائب پائیں گے۔ جیسے گوریلا، چمپینزی یا بن مانس۔

    اور یہ دم کسی کے پاس کیوں ہے اور کسی کے پاس کیوں نہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو مختلف جانداروں کے چلنے پر غور کرنا ہوگا۔

    زمین پر موجود کچھ جاندار 4 پیروں پر چلتے ہیں، کچھ اکڑوں چلتے ہیں جبکہ کچھ، بشمول انسان بالکل سیدھا چلتے ہیں۔

    4 پیروں پر چلنے والے جانداروں کو ہر قدم پر اپنی توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس 2 پیروں پر چلنے والے جاندار، 4 پیروں والے جاندار کی نسبت چلنے پر 25 فیصد کم توانائی کم خرچ کرتے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ 2 پیروں پر چلنے والے زمین کی کشش ثقل کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2 پیروں والے جانداروں کو قدم اٹھانے میں تو توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے، تاہم قدم رکھنے میں ان کی کوئی توانائی نہیں صرف ہوتی اور وہ کشش ثقل کی وجہ سے خودبخود بغیر کسی توانائی کے زمین پر پڑتا ہے۔

    اب جب چلنے میں اس قدر آسانی ہو، تو چلتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور دم کی ضرورت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

    حالانکہ انسانی سر 5 کلو گرام کا وزن رکھتا ہے اور چلتے ہوئے ایک اتنی وزنی شے کو سنبھالنے کے لیے کوئی سہارا درکار ہے۔ تاہم انسانوں اور دیگر 2 پیروں والے جانداروں کو یہ فائدہ ہے کہ ان کا سر چلتے ہوئے، سیدھا اوپر ٹکا رہتا ہے۔

    اس کے برعکس 4 پیروں والے جانوروں کا سر آگے کی طرف ہوتا ہے اور اس کا توازن برقرار رکھنے کے لیے دم معاون ترین ثابت ہوتی ہے۔

    ویسے ہمارے جسم میں اب بھی ناپید شدہ دم کی نشانی موجود ہے۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا جسے ٹیل بون یا دمچی کہا جاتا ہے، اس کی ساخت ایسی ہے کہ موافق تبدیلیوں کے بعد یہاں سے دم نکل سکتی ہے۔

    دم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی حقیقت

    اکثر اوقات ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن کے مطابق کسی بچے نے دم کے ساتھ جنم لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں اب دم کا کوئی تصور نہیں۔

    اس طرح کے کیس میں دم کی طرح دکھنے والا جسم کا حصہ کوئی ٹیومر یا سسٹ ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ یہ مکمل نشونما نہ پا سکنے والا جڑواں جسم بھی ہوسکتا ہے۔

    قوی امکان ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کا اضافی حصہ ہو جو زیادہ نشونما پا کر باہر نکل آیا ہو تاہم یہ صرف چربی اور ٹشوز کا بنا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ہڈی نہیں ہوتی۔

    یہ ریڑھ کی ہڈی کی خرابی ہے جسے طبی زبان میں اسپائنا بفیڈا کہا جاتا ہے، ڈاکٹرز سرجری کے ذریعے بچے کو بغیر کسی نقصان کے اسے باآسانی جسم سے الگ کرسکتے ہیں۔

  • بندروں کا طالبات کے اسکول پر حملہ

    بندروں کا طالبات کے اسکول پر حملہ

    مکہ مکرمہ: مکہ مکرمہ کے مشرقی علاقے الزیما میں بندروں کے حملوں سے نہ صرف اسکول کی طالبات بلکہ علاقے میں رہنے والے بچے بھی محفوظ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مکہ مکرمہ کے طالبات کے اسکول میں بندروں نے دسترخوان پر دھاوا بول دیا اور سارا ناشتہ لے کر فرار ہوگئے۔

    اسکول میں پڑھانے والی خاتون ٹیچر کا کہنا ہے کہ بندروں کے حملے کی وجہ سے نہ صرف اساتذہ بلکہ طالبات بھی ڈری ڈری رہتی ہیں۔ بندروں کے حملے کی وائرل ہونے والی ویڈیو پر متعدد لوگوں نے تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ طالبات کو تحفظ فراہم کیا جائے، دہشت کے ماحول میں طالبات کے لیے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہیں۔

    علاقہ مکینوں کے مطابق بندروں کے حملے نہ صرف اسکول پر ہوتے ہیں بلکہ علاقے میں رہنے والے بچے بھی حملوں سے محفوظ نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ علاقے کو بندروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے پاک کیا جائے۔

    یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں جدہ کے علاقے الفیصلہ میں واقع طالبات کے اسکول پر بندروں نے حملہ کردیا تھا۔ بڑی تعداد میں بندر اسکول کی عمارت میں اس وقت گھسے تھے جب طالبات بریک ٹائم کے دوران اسکول کے احاطے میں تھیں۔

  • فضاگٹ میں بندروں کے ٹولے نے سیاحوں کو حیران کر دیا، ویڈیو دیکھیں

    فضاگٹ میں بندروں کے ٹولے نے سیاحوں کو حیران کر دیا، ویڈیو دیکھیں

    جہاں وادیٔ سوات میں موسم سرما کی بارشیں اور برف باری نے ماحول خوب صورت بنایا ہوا ہے وہاں خیبر پختون خوا کے مشہور ترین سیاحتی مقام فضاگٹ میں سیاحوں کے لیے ایک اور نظارے نے دل چسپی پیدا کر دی ہے۔

    وادیٔ سوات کے مشہور ہل اسٹیشن فضاگٹ میں مرکزی سڑک کے کنارے بلند پہاڑوں کے درمیان چند بندروں نے ڈیرہ جما لیا ہے، جو سیاحوں کو دیکھ کر اچھل کود شروع کر دیتے ہیں، سیاح بھی گاڑیاں روک کر نظارہ دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔

    معلوم ہوا ہے کہ بندروں کا یہ ٹولہ جس میں حال ہی میں پیدا ہونے والے بندر بچے بھی شامل ہیں، پہاڑ پر موجود گھنے جنگل سے کھانے کی چیزوں کی تلاش میں نیچے اترتا ہے۔

    سیاح بندروں کو دیکھ کر رکتے ہیں اور انھیں کھانے کی چیزیں پیش کرتے ہیں، قریب ہی بھٹے والے نے بھی ڈیرا جما لیا ہے، جس سے سیاح بھٹے خرید کر بندروں کو کھلاتے ہیں۔

    مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ بندروں کا یہ ٹولہ کافی عرصے سے پہاڑی جنگل سے کھانے کی اشیا کی تلاش میں اتر کر نیچے آ رہا ہے، سڑک پر مٹر گشت کرنے کی وجہ سے اکثر ٹریفک بھی جام ہو جاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سیاحت کا فروغ، سوات ایئرپورٹ دوبارہ کھولنے کی تیاری، ترقیاتی کام آخری مراحل میں

    اس پہاڑی پر محکمہ جنگلات کی جانب سے جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ہدایات پر مبنی ایک بورڈ بھی نصب کیا گیا ہے، جس پر لکھا گیا ہے کہ جنگلی حیات کا تحفظ ہر شہری کا قومی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

    مقامی شہری محمد یاسین کا کہنا تھا کہ وادیٔ سوات کو دنیا کے حسین ترین مقامات میں سے ایک شمار کیا جا سکتا ہے، ان سیاحتی مقامات کو مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے، وزیر اعظم عمران خان نے پختون خوا میں سیاحت کے فروغ کے لیے بلاشبہ قابل تعریف کام کیا ہے۔

  • بھارت، پولیس آفیسر کے سر پر جوئیں تلاش کرنے والے بندر کی ویڈیو وائرل

    بھارت، پولیس آفیسر کے سر پر جوئیں تلاش کرنے والے بندر کی ویڈیو وائرل

    نئی دہلی: بھارتی ریاست اترپردیش میں پولیس آفسر کے سر پر جوئیں تلاش کرنے والے بندر کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی ریاست اترپردیش کے تھانے میں بندر نے انٹری دی اور 20 منٹ تک پولیس آفیسر کے سر پر بیٹھ کر جوئیں تلاش کرتا رہا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    رپورٹ میں مطابق دلچسپ واقعہ بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر پلی بھت میں پیش آیا۔

    بندر بھوکا تھا اور کھانے کی تلاش میں تھانے میں گھس گیا، پولیس آفیسر دی ویدی اپنے کام میں مصروف تھا کہ بندر ان کے کاندھے پر چڑھ گیا اور سر میں جوئیں تلاش کرتا رہا۔

    عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بندر گزشتہ روز صبح تھانے میں داخل ہوا اور بیس منٹ تک موجود رہا۔

    بندر جب بور ہوگیا تو وہ تھانے سے بھاگ نکلا اور تھانے سے باہر ایک درخت پر چڑھ گیا۔

    واضح رہے کہ بھارت میں بندر کثیر تعداد میں موجود ہیں اس سے قبل بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک گاؤں میں بندر نے بچہ چرانے کی کوشش کی جس کا منظر دیکھ کر والدین اور گاؤں والے حیران رہ گئے تھے۔

  • سنہری بالوں والا معصوم بندر

    سنہری بالوں والا معصوم بندر

    کیا آپ سنہری بالوں والے بندر کے بارے میں جانتے ہیں؟

    چین کے جنوبی صوبے یونن میں پائے جانے والے بندر کی ایک قسم کو اپنی ناک اور خوبصورت بالوں کی وجہ سے نہایت منفرد سمجھا جاتا ہے۔ غیر معمولی ہیئت کی ناک کی وجہ سے اسے سنب نوزڈ منکی کہا جاتا ہے۔

    یہ بندر ماحول سے مطابقت کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں اور منفی درجہ حرارت میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ان بندروں کو اپنی پناہ گاہوں کے چھن جانے کی وجہ سے معدومی کا خطرہ ہے، اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے چین میں ان بندروں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جارہا ہے تاکہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

    1980 کی دہائی میں ان بندروں کا بے دریغ شکار کیا گیا تاہم اس کے بعد سے ان بندروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب بھی ان کی تعداد مستحکم نہیں کہلائی جاسکتی۔

    چین اور میانمار کی سرحد پر رہنے والے ان جانداروں کے تحفظ کے لیے چینی حکومت بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہی ہے۔

  • میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔

    دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔

    ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔

    ’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔

    اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔

    اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔

    اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟

    جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔

    تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔

    اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔

    دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔

    مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

    اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

    فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔

  • بندر کو بس کیوں چلانے دی؟ ڈرائیور معطل

    بندر کو بس کیوں چلانے دی؟ ڈرائیور معطل

    بنگلور: بھارتی شہر بنگلور میں ایک بس ڈرائیور کو اس لیے معطل کر دیا گیا کہ اس نے ایک بندر کو گاڑی کی اسٹیئرنگ تھما دی تھی اور اس نے بڑے مزے سے بس چلائی۔

    تفصیلات کے مطابق انڈیا میں ایک بس ڈرائیور کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے کے بعد اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ گئے، اس نے ایک بڑے سے بندر کو گود میں بٹھایا تھا اور اسٹیئرنگ اس کے حوالے کر دی تھی۔

    [bs-quote quote=”سوشل میڈیا پر ڈرائیور کے خلاف اور حق میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اگرچہ یہ واقعہ بس ڈرائیور کے لیے نا خوش گوار نتیجے کا باعث بنا تاہم ایک مسافر کی بنائی ہوئی ویڈیو نے اگر ایک طرف عوام میں غصے کو جنم دیا تو دوسری طرف لوگوں کے لیے ہنسی کا سامان بھی بنا۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بس ڈرائیور نے بندر کو چلتی بس کی اسٹیئرنگ وھیل پر بٹھایا ہوا ہے اور مسکرا کر  لنگور نسل کے بندر کو پچکار رہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈرائیور ایم پرکاش سے بندر کو بس چلانے پر سرکاری ادارے روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے ڈیوٹی واپس لے لی۔


    یہ بھی پڑھیں:  بندر بنا اغوا کار، بچہ اغوا کرنے کی کوشش، ویڈیو وائرل


    سرکاری ادارے نے کہا کہ مسافروں کے تحفظ کے معاملے پر ذرا بھی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، کسی ڈرائیور کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ بندر کو اسٹیئرنگ وھیل پر بٹھانے کا خطرہ مول لے لے۔

    سوشل میڈیا پر لوگوں نے مختلف رد عمل دیا، کسی نے کہا کہ ڈرائیور کو صرف تنبیہہ کر کے چھوڑنا چاہیے تھا، کسی نے معطلی کی سزا کو درست قرار دیا اور کسی نے کہا ڈرائیور غلط پیشے میں آ گیا ہے اور وہ جانوروں کے حوالے سے بہت حساس معلوم ہوتا ہے۔

  • اربوں ڈالر کی صنعت بندروں کی جان توڑ محنت کی مرہون منت

    اربوں ڈالر کی صنعت بندروں کی جان توڑ محنت کی مرہون منت

    دنیا بھر میں اس وقت ناریل کے مختلف استعمالات کی صنعت تقریباً 2 ارب 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی مالیت رکھتی ہے، تاہم یہ صنعت بندروں کی جان توڑ محنت اور مشقت کی مرہون منت ہے۔

    دنیا بھر میں ناریل کے تیل اور پانی کی بہت زیادہ طلب ہے جبکہ ناریل کو دیگر مختلف اشیا میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    ہر سال اس کی طلب میں مزید 10 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ ناریل حاصل کرنے کے مرکزی ذرائع تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور فلپائن ہیں۔

    بڑی کمپنیاں یہاں کے چھوٹے کسانوں سے ناریل لیتی ہیں، یہ کسان خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔

    یہ کسان اونچے بلند و بالا درختوں سے ناریل اتارنے کے لیے بندروں کا سہارا لیتے ہیں۔

    اس کام کے لیے بندر کی ایک نسل مکاک کو استعمال کیا جاتا ہے جو تیزی سے نایاب نسل کی فہرست میں شامل ہورہی ہے۔

    اس کام کے لیے ننھے بندروں کو ان کی پناہ گاہوں سے نکال لیا جاتا ہے جس کے بعد ان کی تربیت کی جاتی ہے کہ کس طرح درخت سے ناریل اتارنا ہے۔

    یہ بندر عموماً 24 گھنٹے لوہے کی زنجیر سے بندھے رہتے ہیں۔

    زنجیروں سے بندھے یہ بندر روزانہ 9 گھنٹے تک بار بار درختوں سے اترتے اور چڑھتے ہیں۔ ایک دن میں یہ 1 ہزار ناریل درخت سے اتارتے ہیں۔

    ماہرین ان بندروں کا استحصال روکنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے پر زور دے رہے ہیں۔