نئی دہلی: بھارتی ریاست گجرات میں بندر بھی انتہاء پسندوں کے نقشِ قدم پر چلنے پڑے اور انہوں نے معصوم شہریوں پر تشدد کرنا شروع کردیا۔
تفصیلات کے مطابق بھارت کے علاقے گجرات میں واقع گاؤں سوپا کے جنگلی بندر آپے سے باہر ہوگئے اور وہ سڑک پر چلنے والے شہریوں پر کھلے عام حملے کر کے انہیں زخمی کررہے ہیں۔
نووساری کے قریب واقع گاؤں میں بندروں کی جانب سے شہریوں پر ہونے والے حملوں کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شہری موٹرسائیکل پر سڑک پر سے گزر رہا ہے تو اسی دوران دوسری طرف سے ایک بندر نے اُس پر حملہ کردیا۔
بندر کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ موٹرسائیکل سوار شہری نیچے گر گیا اور زخمی ہوا، اسی طرح فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سڑک پر چلتے ہوئے شہری کی پشت پر بندر نے زور سے مارا جس کے بعد وہ اوندھے منہ گر گیا۔ اسی طرح ایک اور فوٹیج میں جب شہری بندر سے اپنی قیمتی چیز بچانے لگا تو اُس نے کھمبے پر چڑھ کر حملہ کیا اور وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔
مکینوں کے مطابق وہ بندر سے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں اُن کا کہنا ہے کہ ’ہم جیسے ہی اکیلے یا کسی کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں بندر ہم پر حملہ کردیتے ہیں‘۔ اہل علاقہ نے اس واقعے کی شکایت متعلقہ حکام کو بھی درج کرائی تاہم ابھی تک اُن کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات بروئے کار نہیں لائے گئے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
فطرت کے قریب مقامات جیسے سمندر، پہاڑ، جنگلات وغیرہ میں جاتے ہوئے سیاحوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیئے کہ وہ جہاں جا رہے ہیں وہ کوئی خالی جگہ نہیں بلکہ ’ کسی‘ کی ملکیت ہے، اور وہاں مختلف اقسام کی سمندری و جنگلی حیات رہائش پذیر ہوگی۔
اکثر جانور انسانوں کو اپنے گھر میں دیکھ کر سیخ پا ہوجاتے ہیں اور ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ لیکن تھائی لینڈ کا یہ ساحل اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہاں کے رہائشی نہایت کھلے دل سے انسانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
یہ رہائشی یہاں رہنے والے بندر ہیں۔ بندروں کی انسان سے دوستی تو ویسے بھی مشہور ہے کیونکہ وہ انہیں مزیدار کھانے پینے اور کھیلنے کے لیے چیزیں دیتے ہیں۔
تھائی لینڈ کا کو فیفی ڈون نامی ساحل بے شمار بندروں کی آماجگاہ ہے۔ یہ بندر ساحل سے قریب واقع پہاڑوں میں رہتے ہیں اور اکثر ساحل پر سیر و تفریح یا کھانے پینے کی اشیا کی تلاش میں گھومتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
یہ یہاں آنے والے سیاحوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچاتے مگر ان کے پاس موجود کھانے پینے کا سامان اور دیگر اشیا لے اڑتے ہیں۔
ایک بار جب وہ سیاحوں کو لوٹ لیتے ہیں تو اس کے بعد انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ وہ سیاح وہاں کیا کر رہے ہیں۔
گویا اس خوبصورت ساحل پر گھومنے پھرنے کی قیمت اپنے پاس موجود تمام سامان ان بندروں کے حوالے کردینا ہے۔
کیا آپ اس قیمت پر اس ساحل پر جانے کو تیار ہیں؟
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
شمالی جاپان کے ایک چڑیا گھر میں 57 بندروں میں غیر معمولی حملہ آور جنیز کی موجودگی کے انکشاف کے بعد انہیں زہر آلود انجکشن دے کر ہلاک کردیا گیا۔
جاپان کے شہر چیبا میں واقع اس چڑیا گھر میں ان بندروں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا جس میں انکشاف ہوا کہ یہ بندر دوغلی نسل کے ہیں اور ان میں پائے جانے والے جینز ان جینزوں سے مختلف ہیں جو ان جیسے دیگر بندروں کے ہیں۔
مکاک نامی یہ بندر جنہیں اسنو منکی بھی کہا جاتا ہے، صدیوں سے جاپان کی سرزمین پر موجود ہیں اور یہ جاپان کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے۔
دوسری جانب جاپان میں ان بندروں سمیت دیگر مقامی و منفرد حیاتیاتی اقسام کی حفاظت کے لیے دوغلی نسل کے جانوروں کی افزائش پر پابندی عائد ہے۔ دوغلی نسل کے کئی جانوروں کو اس سے قبل بھی ہلاک کیا جاچکا ہے۔
جاپانی ماہرین حیاتیات کے مطابق دوغلی نسل کے جانور مقامی جنگلی حیات کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اکثر اوقات تشدد پسند نکل آتے ہیں جن سے خاص طور پر کمیاب جانوروں کی نسل کے خاتمے کا خدشہ ہوتا ہے۔
چڑیا گھر کی انتظامیہ نے ان بندروں کو ہلاک کرنے پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا اور ان کی باقاعدہ آخری رسومات بھی منعقد کی گئیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مختلف جینز کے جانوروں کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ دیگر جنگلی حیات محفوظ رہے۔
کیا آپ جانتے ہیں جس طرح انسانوں کے جذبات ہوتے ہیں اسی طرح جانوروں اور درختوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ جیسے انسان غم، خوشی، تکلیف اور راحت محسوس کر سکتا ہے اسی طرح درخت اور جانور بھی ان تمام کیفیات کو محسوس کر سکتے ہیں۔
ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جب ہم کسی درخت یا پودے کے قریب بیٹھ کر خوشگوار گفتگو کریں اور انہیں پیار سے چھوئیں تو ان کی افزائش کی رفتار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ نہایت صحت مند ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر پودوں اور درختوں کا خیال نہ رکھا جائے، یا ان کے سامنے منفی اور نفرت انگیز گفتگو کی جائے تو ان پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ مرجھا جاتے ہیں۔
اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جب ہم کسی بچے کی حوصلہ افزائی اور تعریف کریں تو وہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کام سر انجام دیتا ہے جبکہ جن بچوں کو ہر وقت سخت سست سننی پڑیں، برے بھلے الفاظ کا سامنا کرنا پڑے ان کے کام کرنے صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔
اب بات کرتے ہیں جانوروں کی۔ جانوروں کو اپنے مالک کی جانب سے پیار اور نفرت کے رویے کا احساس تو ہوتا ہی ہے، اور وہ اکثر خوش ہو کر ہنستے اور تکلیف کا شکار ہو کر روتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی جدائی کو بھی ایسے ہی محسوس کرتے ہیں جیسے انسان اپنے قریبی عزیز کے بچھڑنے پر دکھ کا شکار ہوتے ہیں۔
یہاں ہم نے جانوروں کی کچھ ایسی ہی تصاویر جمع کی ہیں جن میں وہ اپنے ساتھی، اولاد یا ماں کی جدائی پر افسردہ اور غمگین نظر آرہے ہیں۔ ان تصاویر کو دکھانے کا مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ جانوروں کے بھی نازک جذبات ہوتے ہیں اور انہیں ان کے پیاروں سے جدا کر کے قید کرنا ہرگز انسانی عمل نہیں۔
یہ تصاویر دیکھ کر یقیناً آئندہ آپ بھی جانوروں کا خیال رکھیں گے۔
اس کتے کی غیر موجودگی میں اس کے بچوں پر کسی شکاری جانور نے حملہ کردیا اور انہیں مار ڈالا۔ کتے کا دکھ ہر صاحب دل کو رونے پر مجبور کردے گا۔
بھارت کی ایک سڑک پر ایک کتا اپنے ساتھی کی موت پر اس قدر افسردہ ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں کہ سڑک سے گزرنے والی کوئی گاڑی اس کے اوپر سے بھی گزر سکتی ہے۔
ایک چڑیا اپنے چڑے کی موت پر رو رہی ہے۔
ننھے معصوم سے اس کتے کو یقیناً شدید تکلیف پہنچی ہے جو اس کی آنکھوں میں آنسو لانے کا باعث بنی۔
ہاتھی کا ننھا بچہ اپنی ماں کی موت پر شدید دکھ کا شکار ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔
ایک چڑیا گھر میں موجود بن مانس اپنے ساتھی کی موت پر اداس بیٹھا ہے۔ اس کے پیچھے کھڑے ننھے بچے بھی اس کی توجہ حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
نہایت ظالمانہ طریقے سے قید کیے گئے اس بندر کی تکلیف اور اداسی اس کے انداز سے عیاں ہے۔
گدھے کو عموماً ایک بوجھ ڈھونے والا جانور خیال کیا جاتا ہے اور اسے بغیر کسی احساس کے شدید تکالیف سے دو چار کیا جاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ جو بوجھ اس پر لادا جارہا ہے کیا وہ اسے اٹھانے کی سکت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔
اور ایک پالتو کتا جب اپنے مالک کی قبر پر گیا تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اسے یاد کر کے رونے لگا۔