Tag: بنگالی ادب

  • عشق کی داستان کو الم ناک انجام سے دوچار کرنے والے شرت چندر کا تذکرہ

    عشق کی داستان کو الم ناک انجام سے دوچار کرنے والے شرت چندر کا تذکرہ

    شرت چندر کا شمار بنگالی ہی نہیں ہندوستانی ادبیات کے چند منتخب روزگار شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کے شاہ کار ناولوں میں ’دیو داس ‘، ’پرینیتا‘،’پنڈت جی‘،’دیہاتی سماج‘،’شری کانت‘،’آوارہ‘، ’برہمن کی بیٹی‘، ’راستے کی پکار‘اور’آخری سوال‘وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔

    ان کے ناولوں میں بیسویں صدی کے بنگالی معاشرے کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات میں سماجی، سیاسی، معاشی، اور معاشرتی زندگی کے بے شمار پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ موضوعِ گفتگو ناول ”دیو داس“ میں بھی ان مسائل کو مفصل انداز میں پیش کیا گیا ہے جو شرت چندر کا شاہ کار ناول ہے۔ یہ ناول 1917 میں منظرِ عام پر آیا۔ اس کا ترجمہ نہ صرف ہندوستانی زبانوں بلکہ غیر ہندوستانی زبانوں میں بھی ہوا۔

    16 ابواب پر مشتمل یہ ناول ایک عشق کی داستان ہے جس کا اختتام الم ناک ہے۔ اس ناول میں تین بنیادی کردار ہیں۔ دیو داس، پاروتی (پارو) اور چندر مکھی۔ دیو داس اس کا مرکزی کردار ہے جس کے حرکات و سکنات آخرالذّکر دونوں کرداروں کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔

    اس ناول میں بنیادی طور پر شرت چندر نے جاگیر دارانہ نظام، ذات پات، بے میل شادی اور طوائف کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ دیو داس کا تعلق ایک جاگیردار خاندان سے ہے۔ اس کا خاندانی رتبہ ہی اس کی محبت کے راستہ کی رکاوٹ بنتا ہے۔ ناول کا قصہ کچھ یوں ہے کہ دیوداس اور پارو بچپن سے ساتھ رہتے ہیں اور پارو دیو داس سے اس وقت سے محبت کرتی ہے جب وہ محبت کے معنی سے بھی آشنا نہیں ہوتی۔ دیو داس اس کی کُل کائنات ہے۔وہ اس کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لیکن طبقاتی سماج عاشق و معشوق کی جدائی کا سبب بنتا ہے۔ پارو کی دادی جب دیو داس کی ماں سے ان دونوں کے رشتہ کی بات کرتی ہے تو وہ کہتی ہے:

    ”دونوں میں بہت پیار ہے، لیکن اس پیار کے لیے کیا میں لڑکی بیچنے والے خاندان سے لڑکی لا سکتی ہوں؟ اور گھر کے پڑوس میں رشتہ داری چھی چھی۔“

    مندجہ بالا اقتباس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں محبت کی کیا اہمیت ہے؟ عام طور پر سماج میں محبت پر خاندانی وقار اور عظمت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ طبقاتی فرق ہی پارو اور دیو داس کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتے ہیں۔ شرت چندر نے ناول میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سماجی رسم و رواج کس طرح انسان کو متاثر کرتے ہیں اور اسے اس حد تک کم زور و مضمحل کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے فہم و فراست کو استعمال کرنے کے بجائے فرسودہ روایت کی پیروی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

    پارو کی شادی ایک عمر رسیدہ زمین دار بھون موہن سے کر دی جاتی ہے۔ اس کی پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا ہے اور اس کے بچوں کی عمر بھی پارو سے زیادہ ہے۔ اس طرح شرت چندر بے میل شادی کے مسئلہ کو اجاگر کرتے ہیں۔

    ناول ’دیو داس‘میں شرت چندر نے طوائف کے مسئلہ کو بھی پیش کیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طوائفیں سماج کی ہی پیداوار ہوتی ہیں کیوں کہ ان کا پیشہ ان شریف اور خاندانی مردوں کی وجہ سے چلتا ہے جو اپنی تمام خطاؤں کے باوجود خود کو پاک باز سمجھتے ہیں لیکن ان عورتوں کو انسان کا بھی درجہ نہیں دینا چاہتے۔

    ناول حقیقت نگاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس ناول میں شرت چندر سماج کے فرسودہ روایات پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں کہ ذات پات کی پابندیوں کی اصل حقیقت کیا ہے یا ایسی پابندیاں جن میں انسان کی خوشیوں اور غموں کا خیال نہیں رکھا گیا ہو اس قابل ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے؟

    دیو داس، پاروتی اور چندر مکھی تینوں ہی فرض اور محبت کے درمیان ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ یہ ناول رومانوی ہونے کے ساتھ المیہ بھی ہے جہاں کبھی جذباتیت کا اظہار ہوتا ہے تو کبھی شدت پسندی کا۔

    ناول کی اس کہانی سے متاثر ہوکر اس پر فلمیں‌ بھی بنائی گئیں جو سنیما کے شائقین نے بہت پسند کیا۔

  • سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    غفور علی مول تلا میں گوہر علی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک دن نہ جانے اسے کیا ہوا کہ کُدال لے کر سڑک کو دیوانہ وار توڑنے پھوڑنے لگا۔

    دیکھنے میں تو اس کا یہ فعل بڑا ہی مجنونانہ تھا، لیکن درحقیقت یہ کوئی اضطراری فعل نہ تھا۔ اس کے پیچھے حالات کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ ورنہ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سڑک گاؤں کے سب سے لوگوں نے مل جل کر بنائی تھی اور جس کے لیے خود گوہر علی نے اپنی زمین کا بہت سا حصہ دیا تھا، وہ اسی کو دیوانہ وار تباہ کرنے کی کوشش کرے۔

    مول تلا ان چھوٹے چھوٹے دیہات میں سے تھا جن کا جنگ سے پہلے باہر کی دنیا سے بہت کم میل جول تھا۔ اور لوگ وہی پرانے زمانے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کم ازکم سڑک بننے سے پہلے اس کی وضع اور ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور تھا تو بالکل برائے نام۔

    وہ ایک خاص وضع کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں ان کی اپنی ہی رسموں اور ریتوں کو دخل ہوتا تھا۔

    ایک مرتبہ اس گاؤں کا نوجوان اس زندگی سے دامن چھڑا کر باہر نکل گیا۔ جب وہ واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ روپیہ پیسہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا تصور اور بلند تر معیار زندگی بھی لے کر آیا۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ مول تلا کی ندیوں اور نہروں سے پرے، ایک جگہ ہے جسے ”شہر“ کہتے ہیں۔ زندگی کے بہتر پہلو سے روشناس ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شہروں اور بندرگاہوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ یہ مسئلہ فی الفور ایک سڑک تعمیر کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔

    اسی دن سے جناب علی حوالدار نے عہد کیا کہ اپنی ساری قوت اور ذرائع گاؤں کی ترقی پر صرف کرے گا۔ اس نے ڈسٹرکٹ بورڈ کو بھی سڑک بنانے پر آمادہ کرلیا ۔ گاؤں کے دوسرے مرفہ الحال لوگوں نے بھی بڑی سرگرمی سے سدھار کا بیڑا اُٹھایا جو ان کے خیال میں ضرور سماجی ترقی کا باعث ہوگا۔

    اس سلسلے میں زیادہ مشکل گوہر علی جیسے غریب کسانوں کے سبب پیدا ہوئی۔ جن کی زرعی زمینوں کا حصہ سڑک کی بھینٹ چڑھتا تھا۔ لیکن سڑک کے بارے میں دل میں عجیب و غریب تصورات کا ایک طلسم پیدا ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کب تک اس زمین کی معمولی سی پیداوار کو دانہ دانہ کرکے چُنتا رہے گا۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ وہ نئی زندگی کا خیر مقدم کرے۔ گھر واپس جاکر اس نے اپنی بیوی کو بھی اس زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

    آخر کار سڑک تعمیر ہوگئی۔ لوگوں نے شہر آنا جانا شروع کردیا۔ جب سڑک کا پہلا پہلا طلسمی اثر دور ہوگیا تو لوگ سڑک کے کنارے اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے لگے۔ اس کے کنارے بیٹھ کر حقہ پیتے اور گپیں ہانکتے۔ ادھر بعض نوجوان گاؤں کو چھوڑ کر دھن دولت کی تلاش میں شہر کو روانہ ہوجاتے۔

    ایک دن گوہر علی نے سج دھج کر تین دن کے لیے شہر میں رہنے کو چل پڑا۔ واقعی شہر کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی گئی تھیں۔ وہ بالکل صحیح تھیں۔ اس میں ایسے لوگ بستے تھے جن کی زندگیاں خوشی اور خوش نصیبی سے بھرپور تھیں، لیکن اس کے باوجود دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔

    ان لوگوں کو سمجھنا، ان کے دل کی تہ تک پہنچنا دشوار تھا۔ انھیں اس جیسے غریبوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اور کوئی اس سے ایک دو منٹ بھی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔

    گوہر علی نے پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ شہروں میں ہر بات پیسے کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ تیسرے دن وہ شہر کے خلاف بڑی نفرت اور غصے سے بھرا ہوا دل لے کر گاؤں واپس چلا آیا۔

    وہ خیالات میں کھویا رہا۔ آخر فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کی بنیاد دولت ہی پر رکھے۔ چنانچہ اس نے ایک کام شروع کردیا۔ ایک دن ہاجرہ کو کہنا ہی پڑا، ”اے میاں! جس طرح تم نے بے تحاشا چیزیں بیچنی شروع کردی ہیں کچھ عجب نہیں کہ ایک دن میں بھی بکاؤ مال میں شامل ہو جاؤں۔“

    گوہر علی اب دونوں ہاتھوں سے دھن کما رہا تھا۔ تین سال میں اس کی کٹیا پر ٹین کی چھت پڑ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی طرف آمد و رفت بھی شروع ہوگئی۔ دیہاتیوں کی سیدھی سادی زندگی میں سازش اور مکاری بھی شامل ہوگئی۔

    سڑک کے دونوں طرف کتنے ہی گلی کوچے بن گئے جن میں خدا جانے کتنے ہیر پھیر تھے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن کسی شخص کی چند گائیں چرتی چرتی کسی اور کے کھیت میں جا نکلیں۔ جس پر جھگڑا ہوگیا اور ایک آدمی مارا گیا۔

    جب تک جناب علی کو اس کی خبر ہو اور وہ موقع واردات پر پہنچے۔ سڑک کا کافی حصہ بھی نابود ہوچکا تھا کیوں کہ لڑنے والوں نے اس کے اکھڑے اکھڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔

    جناب علی نے سب کو بلایا اور کہا ”کیا ہم نے سڑک اسی لیے بنائی تھی؟ ارے گنوار وحشیو!“ لیکن اس کے الفاظ کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ سب تو تھانے، عدالت اور مقدمے کی فکر میں تھے۔

    اسی اثنا میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ جو کچھ گزشتہ کئی صدیاں نہیں کرسکی تھیں، وہ انگریزوں کی دو سو سال کی حکومت نے کر دکھایا۔

    اناج کا بھاؤ تیزی سے چڑھنے لگا۔ زندگی کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے سڑک کے راستے قحط بھی آن پہنچا اور چور بازاری اور اس قسم کے اور وتیرے بھی ریلے مار مار کر آنے لگے۔ ان کی امڈتی ہوئی موجیں اپنے ساتھ امن کو بہا لے گئیں۔

    ساتھ ہی سرکاری حکام سڑک کے راستے گاؤں میں آنے لگے۔ یہ لوگ اپنی جیبیں رشوتوں سے بھر بھر کر واپس جاتے۔ شہر کے ایک بڑے رئیس کا باورچی لطفو ایک شخص اصغر اللہ کی جوان بیٹی کلثوم کو لے بھاگا۔

    فوجیوں کی رسد کے لیے ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ سبزیاں، ترکاریاں، لکڑی، کاٹھ اور مرغیاں وغیرہ لینے آتے۔ گوہر علی کی ان میں سے ایک کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ گوہر علی بڑی مشکل میں تھا۔ اس نے سوچا کہ اپنے نئے دوست کے اثر و رسوخ سے آمدنی بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کرے۔ لیکن اس کی کوششوں کے باوجود کچھ بھی بن نہ پڑا۔ صرف ایک صبح ہاجرہ گھر سے کہیں غائب ہوگئی۔ وہ دوست اس کے بعد کبھی دکھائی نہ دیا۔

    پوچھ گچھ کرنے پر سات میل دور ایک کسان سے پتا چلا کہ اس نے ایک دن صبح سویرے ایک عورت کو کسی مرد کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

    قحط نے گوہر علی کو ظاہری حیثیت سے پہلے ہی قلاش کردیا تھا۔ اب وہ روحانی طور پر بھی قلاش ہوگیا۔ ایک دن گاؤں میں خبر مشہور ہوگئی کہ گوہر علی اپنی بیوی کے چلے جانے پر دیوانہ ہوگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنے کے لیے دوڑ دوڑ کر آنے لگے۔

    گوہر علی سڑک پر اندھا دھند کدال پر کدال برسا رہا تھا۔ سب پوچھنے لگے یہ کیا کر رہا ہے؟“ اس نے کدال روکے اور آنکھیں اٹھائے بغیر جواب دیا۔

    ”اس سڑک کا صفایا کر رہا ہوں۔“

    ”وہ کیوں؟“

    اس لیے کہ اس سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی۔ اسے ہرگز نہیں بننا چاہیے تھا۔“

    گوہر علی نے کدال سے تابڑ توڑ چوٹیں برساتے ہوئے یہ الفاظ کچھ اس طرح کہے گویا وہ اپنے دل سے کوئی بات کررہا ہو۔

    (ابوالکلام شمس الدین کے بنگالی زبان کے افسانے کا ترجمہ)