سپریم کورٹ نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں واضح کیا گیا ہے کہ عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ، نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا 53 واں اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت ہوا جس میں تمام ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سمیت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے خصوصی شرکت کی۔
اس اجلاس کے حوالے سے کمیٹی کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں عدالتی کارکردگی اور ٹیکنالوجی پر اہم فیصلے کیے گئے۔ جبری گمشدگیوں پر نوٹس اور ادارہ جاتی ردعمل کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
اجلاس میں تجارتی تنازعات کے حل کے لیےکمرشل لٹی گیشن کوریڈور قائم کرنے کی منظوری دی گئی اور چند اضلاع میں ڈبل ڈاکیٹ کورٹ رجیم بطور پائلٹ پراجیکٹ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ٹیکس ومالیاتی آئینی درخواستیں صرف ڈویژن بنچز میں سنی جائیں گی۔
اعلامیہ کے مطابق عدالتی افسران کو دباؤ سے بچانے کے لیے اجلاس میں رپورٹنگ اور ازالے کا نظام قائم کرنے ہدایت کرنے کے ساتھ ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹس کا فریم ورک بھی منظور کیا گیا، جہاں فوجداری مقدمات وقت کی پابندی سے نمٹائےجائیں گے۔
اجلاس میں عدالت سے منسلک مصالحتی نظام کا پائلٹ پراجیکٹ شروع کرنے کی منظوری دینے کے ساتھ ضلعی عدلیہ میں بہتری کے لیےجسٹس (ر) رحمت حسین جعفری کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی۔ جو ضلعی مصالحتی مراکز، فیملی کورٹس مراکز اور ایس او پیز تیار کیے جائیں گے۔
اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں عدلیہ میں وکلا کی شمولیت کے لیے پروفیشنل ایکسیلنس انڈیکس تیار کرنے کی منظوری دی گئی جب کہ ہائیکورٹ کو ماڈل 30 دن کے اندر تیار کر کے حتمی شکیل دینے اور عدالتی کاموں میں اے آئی کے استعمال پر پالیسی اور اخلاقی اصول وضع کرنے اور نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کو جنریٹو اےآئی کیلیے جامع چارٹر تیار کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔
اجلاس میں آئی جی پنجاب پولیس کی اصلاحاتی تجاویز پر مشتمل پریزنٹیشن کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ زیر سماعت قیدیوں اور سرکاری گواہوں کی ویڈیو لنک حاضری کے لیے ایس او پیز جاری کیے جائیں گے۔ پولیس افسران کی تربیت عدالتی اکیڈمیز آئی جی کی درخواست پر کریں گ۔ی
سپریم کورٹ، نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے متعلق جاری اعلامیہ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایگزیکٹو کے خدشات مدنظر رکھ کر ردعمل اٹارنی جنرل کے ذریعے پہنچایا جائیگا۔ اس کے علاوہ تمام ہائیکورٹس کو سہولتوں کے لیے اپنی اپنی صوبائی حکومتوں سے رابطہ کرنے کی ہدایات بھی کی گئیں۔