Tag: بورس جانسن

  • وزیر اعظم بننے کے بعد بورس جانسن کی آمدنی میں ریکارڈ کمی

    وزیر اعظم بننے کے بعد بورس جانسن کی آمدنی میں ریکارڈ کمی

    لندن:برطانیہ کے نئے وزیراعظم بورس جانسن کو وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کی بھاری قیمت اپنی سالانہ آمدنی میں واضح کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف برطانوی انویسٹمنٹ ہاؤس نے اپنی تجزیاتی رپورٹ بتایا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر گذشتہ 12 ماہ کے دوران 55 سالہ بورس جانسن کی مجموعی آمدنی 829255 برطانوی پاؤنڈ رہی۔

    تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس آمدنی میں جانسن کی بطور رکن پارلیمنٹ تنخواہ کے علاوہ عوامی خطابات ، اخباری کالم نگاری اور اپنی تحریر کردہ کتابوں کی رائلٹیز سے حاصل ہونے والی رقم بھی شامل ہےتاہم اب توقع ہے کہ جانسن کی اگلے 12 ماہ کی آمدنی بڑی حد تک کم ہو کر صرف 150402 پاؤنڈز رہ جائے گی۔

    برطانوی انویسٹمنٹ ہاؤس کا کہناتھا کہ یہ رقم انہیں بطور وزیراعظم تنخواہ کی مد میں حاصل ہو گی،اس طرح بورس جانسن کی سالانہ آمدنی میں گذشتہ برس کے مقابلے میں 678853 پاؤنڈز کی بھاری کمی واقع ہو گی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جانسن کو وزارت عظمی کے منصب پر رہتے ہوئے دیگر سرگرمیاں انجام دینے کی ممانعت ہو گی، لہذا اب وہ نہ تو اخبار کے لیے کالم لکھ سکیں گے اور نہ ہی آمدنی کی غرض سے لیکچرز دے سکیں گے۔

    دنیا میں کم ترین تنخواہ پانے والے سربراہان میں شامل بورس جانسن کے لیے یہ بات اطمینان کا باعث ہو سکتی ہے کہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کا سربراہ اپنی تنخواہ کی مد میں صرف ایک ڈالر وصول کر رہا ہے۔ اس سربراہ کا نام ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنی ذاتی دولت کے لحاظ سے ارب پتی ہیں۔

    ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد تنخواہ کی مد صرف ایک ڈالر لیں گے اور وہ اپنے وعدے کو پورا کررہے ہیں، ایک ڈالر وصول کرنے کے بعد ٹرمپ کی بقیہ ساری تنخواہ مختلف شعبوں میں بطور عطیات دے دی جاتی ہے ۔

  • یورپی یونین بریگزٹ ڈیل پرنظر ثانی کرے، بورس جانسن

    یورپی یونین بریگزٹ ڈیل پرنظر ثانی کرے، بورس جانسن

    نلندن: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے یورپی یونین کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لندن کے ساتھ طے کردہ بریگزٹ معاہدے پر نظر ثانی نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے برطانوی پارلیمان سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ یورپی یونین بریگزٹ ڈیل پر نظر ثانی کرے۔

    انہوں نے یورپی یونین کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لندن کے ساتھ طے کردہ بریگزٹ معاہدے پر نظر ثانی نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیں۔

    دوسری جانب برطانیہ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت لیبرپارٹی نے وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف فوری طور پر عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت سے انکار کر دیا۔عدم اعتماد کی اس تحریک کی حمایت کا مطالبہ لبرل ڈیموکریٹک رہنما جوسوِنسن نے کیا تھا۔

    برطانوی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک لانا بورس جانسن کو مضبوط بنانے کے مترادف ہوگا۔

    برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے پاس کوئی نیا بریگزٹ معاہدہ طے کرنے کے لیے سو دنوں سے بھی کم کا وقت ہے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    یاد رہے کہ ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی تھریسا مے نے گزشتہ ماہ بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

    واضح ر ہے کہ آج سے تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    اس وقت ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور وہ بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے جس کے سبب انہوں نے عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔ استعفیٰ دیتے وقت ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کا انعقاد پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، چھ سال تک برطانیہ کا وزیر اعظم بنے رہنے پر فخر ہے، برطانیہ کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہے اور سرمایہ کاروں کو یقین دلاتا ہوں کہ برطانوی معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہوگا، جس کے لیے سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی ایئر لینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے ابتداء میں مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا۔

  • وزیراعظم عمران خان کی بورس جانسن کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد

    وزیراعظم عمران خان کی بورس جانسن کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد

    اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے بورس جانسن کو برطانیہ کے نئے وزیراعظم بننے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا امیدہےبرطانیہ کیساتھ دوطرفہ تعلقات کوبھی جلا ملے گی، میں بورس جانسن کے ساتھ باہم کام کرنے کوتیار ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بورس جانسن کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا امیدہےآپ کی قیادت میں برطانیہ اورعوام ترقی کریں گے اور برطانیہ کیساتھ دوطرفہ تعلقات کوبھی جلا ملے گی، میں بورس جانسن کے ساتھ باہم کام کرنے کوتیار ہوں۔

    خیال رہے برطانیہ کےنئےوزیراعظم بورس جانسن کےوزیراعظم عمران خان سےدیرینہ تعلقات اوراچھی دوستی ہے، بورس جانسن نےعمران خان کےساتھ سیلفی بھی بنائی، جوسوشل میڈیا پروائرل ہوئیں تھیں ۔

    بورس جانسن کےآباؤاجداد ترک تھے جبکہ بورس جانسن نے خود اعتراف کیا تھا کہ ان کے پڑدادا سلطنت عثمانیہ کے آخری دورکی اہم شخصیت تھے،ترکی کی اشرافیہ میں ایک اہم مقام رکھتےتھے۔

    نئے برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پڑ دادا کا برطانیہ آنا اس امرکی گواہی تھی کہ برطانیہ محفوظ ملک ہے، پڑدادا کا نام علی کمال تھا اور وہ مسلمان تھے۔

    یاد رہےبرطانوی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے ، بورس جانسن نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی اورپھروزارت اعظمی کا منصب سنبھالا۔

    برطانوی وزیراعظم کے سرکاری رہائش گاہ اوردفترٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو میں بورس جانسن کا کہنا تھا کہ بغیرکسی اگرمگرکے برطانیہ اکتیس اکتوبرکویورپی یونین سے الگ ہوجائے گا۔

    کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ اورنئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن دومرتبہ لندن کے مئیر رہ چکے ہیں جبکہ مسلمانوں اور تارکین وطن کیخلاف سخت ریمارکس پرتنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔

  • نومنتخب برطانوی وزیراعظم کو عہدہ سنبھالتے ہی مشکلات کا سامنا

    نومنتخب برطانوی وزیراعظم کو عہدہ سنبھالتے ہی مشکلات کا سامنا

    لندن: برطانیہ کے نومنتخب وزیراعظم بورس جانسن نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی، جس کے بعد وہ واپس ڈاؤننگ اسٹریٹ روانہ ہورہے تھے کہ انہیں احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی جس کے بعد جاتے ہوئے بورس جانسن کو وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔

    بکھنگم پیلس کے باہر کلائمنٹ ایمرجنسی کے کارکنان کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مظاہرین نے ہاتھوں کی چین بنا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور سڑک بلاک کردی۔

    ملکہ برطانیہ سے ملاقات کے بعد بورس جانسن وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا پہلا خطاب ڈاؤننگ اسٹریٹ پر کریں گے۔

    رپورٹ کے مطابق آئندہ چند دن برطانوی وزیراعظم کیبنٹ مممبر کے ساتھ گزاریں گے جس میں بریگزٹ کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مشہور تنازعات

    بورس جانسن کی ڈومینک کمنز سے ملاقات کو اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔

    بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وزرا اس بات کو یقینی بنائیں کہ برطانیہ یورپی یونین سے بغیر کسی ڈیل کے علیحدہ ہونے میں کامیاب ہوجائے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز نومنتخب برطانوی وزیراعظم کے ماضی کے تنازعات سامنے آئے تھے جس میں صحافتی کیریئر میں مضمون میں جھوٹ بولنے پر نوکری سے برخاست ہونا، خاتون سے غیرازدواجی تعلقات ودیگر شامل تھے۔

    بورس جانسن کا ایک اور جھوٹ 2016 میں بریگزٹ مہم کے دوران سامنے آیا جب انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بریگزٹ سے نکلنے کے بعد برطانیہ کو یورپی یونین کو ہر ہفتے 388 ملین یوروز نہیں دینے پڑیں گے۔

  • نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مشہور تنازعات

    نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مشہور تنازعات

    لندن: برطانیہ کے نومنتخب وزیراعظم بورس جانسن کا کیریئر کئی دہائیوں پر مشتمل ہے، اس دوران وہ کئی تنازعات کی زد میں رہے، ان کے وزیراعظم بنتے ہی وہ تنازعات پھر سامنے آگئے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپنے سیاسی کیریئر میں تنازعات کی زد میں رہے لیکن وہ اب ان سب مشکلات کو عبور کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد 1978 میں انہیں دی ٹائمز اخبارمیں ٹرینی رپورٹر کی نوکری ملی تھی تاہم بورس جانسن کو ایک سال کے اندر ہی نوکری سے فارغ کردیا گیا تھا جس کی وجہ ایک آرٹیکل میں جھوٹ بولنا تھا۔

    سنہ 2004 میں وہ پارلیمںٹ کے رکن منتخب ہوچکے تھے اور شیڈو آرٹس منسٹر اور کنزرویٹو پارٹی کے وائس چیئرمین کے طور پر کام کررہے تھے جب ایک خاتون کے ساتھ غیرازدواجی تعلقات کے بارے میں جھوٹ بولنے پر انہیں ان دونوں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔

    اس وقت بورس جانسن کے اپنی دوسری بیوی سے چار بچے تھے جب ان کے بارے میں ایک خاتون سے تعلقات کی خبریں پھیلیں، اس پر کنزرویٹو پارٹی کے رہنما مائیکل ہاورڈ نے ان سے استعفیٰ طلب کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

    ایک اور تنازع میں لندن کے میئرکے طور پر بورس جانسن نے دریائے ٹیمز پر گلستان پل بنانے کا منصوبہ پیش کیا تھا جس کے مطابق دریائے ٹیمز پر ایک نیا پل بنانا تھا اور اس کے ارد گرد درخت اور پھول اگائے جانے تھے۔

    اس منصوبے کی لاگت مسلسل بڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کی مخالفت میں بھی اضافہ ہوتا گیا، آخرکار لندن کے نئے میئر صادق خان نے اس نامکمل منصوبے کو ختم کردیا۔

    بورس جانسن کا ایک اور جھوٹ 2016 میں بریگزٹ مہم کے دوران سامنے آیا جب انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بریگزٹ سے نکلنے کے بعد برطانیہ کو یورپی یونین کو ہر ہفتے 388 ملین یوروز نہیں دینے پڑیں گے۔

    نومنتخب برطانوی وزیراعظم کا یہ بیان بعدازاں غلط ثابت ہوا جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

  • بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

    بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

    لندن: برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی نے بورس جانسن کو اپنا نیا چیئر مین اور ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کرلیا ہے، بورس جانسن اکثریتی ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں ہونے والے وزارت ِ عظمیٰ کے انتخابات میں بورس جانسن 66.4 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا انتخاب سابق وزیر اعظم تھریسا مے کے استعفے کے بعد عمل میں لایا گیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے لیے متفقہ بریگزٹ معاہدے کی تشکیل میں ناکامی پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ برطانیہ نے سنہ 2016میں ریفرنڈم کے ذریعے طے کیا تھا کہ انہیں یورپین یونین سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے ، یہ انخلا مارچ 2019 میں طے تھا تاہم فریقین کے درمیان معاہدہ طے نہ پانے کے سبب اسے ملتوی کرنا پڑا۔

    کچھ دن قبل برطانوی وزارت عظمی ٰکے منصب کی دوڑ میں شامل دیگر چار امیدواروں کے ساتھ ٹی وی پر مناظرے کے دوران جانسن کا کہنا تھا کہ ہمیں 31 اکتوبر تک نکلنا ہو گا کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مجھے اندیشہ ہے کہ ہمیں ایک المیے کی صورت میں سیاست میں (شہریوں کے) اعتماد سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

    بورس جانسن نے 313 میں سے 126 ووٹ حاصل کرکے تیسرے مرحلے کے لیے جگہ بنائی تھی جبکہ دیگر 4 امیدواروں نے 33 یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے ۔

    سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ نے 46، سیکریٹری ماحولیات مائیکل گوو نے 41، سیکریٹری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ روری اسٹیورٹ نے 37 اور ہوم سیکریٹری ساجد جاوید نے 33ووٹ حاصل کیے تھے ۔

    اس سے قبل بورس جانسن نے پہلے مرحلے کے مقابلے میں 12 ووٹ زیادہ حاصل کیے جبکہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں سب سے زیادہ 12 ووٹ اسٹورٹ نے حاصل کیے، دوسرے مرحلے میں بریگزٹ کے وزیر ڈومینک راب مقابلے سے باہر ہوگئے ہیں جنہیں صرف 30 ووٹ ملے تھے۔

    برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے، پہلے مرحلے میں برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ 43 ووٹ کے ساتھ دوسرے، وزیر ماحولیات مائیکل گوو 37 ووٹ کے ساتھ تیسرے اور سابق وزیر بریگزٹ ڈومینِک راب 27 ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے تھے۔

    سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید 23 ووٹ کے ساتھ پانچویں، سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک 20 ووٹ کے ساتھ چھٹے اور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سیکریٹری روری اسٹیورٹ 19 ووٹ کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہے تھے۔

    برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

  • برطانوی پارلیمنٹ میں کوکین استعمال کیے جانے کا انکشاف

    برطانوی پارلیمنٹ میں کوکین استعمال کیے جانے کا انکشاف

    لندن: برطانوی پارلیمنٹ کے اندر کوکین استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، پارلیمنٹ ہاؤس میں 9 جگہوں پر کوکین استعمال کرنے کے شواہد پائے گئے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں کوکین کا نشہ کیا جانے لگا، پارلیمنٹ ہاؤس کی 9 جگہوں پر کوکین استعمال کرنے کے شواہد پائے گئے ہیں اور ان میں 4 جگہوں پر صرف ممبر پارلیمنٹ ہی جاسکتے ہیں۔

    سروے رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس کے باتھ روم، بار اور دیگر جگہوں پر کوکین کے پیکٹس برآمد ہوئے ہیں، کنزرویٹو پارٹی نے حال ہی میں غیرقانونی ڈرگس کے استعمال کے خلاف بیان دیا تھا۔

    کنزرویٹو ممبر صوبائی اسمبلی مائیکل گوو نے اعتراف کیا کہ انہوں نے متعدد بار آئس نشہ استعمال کیا اور پہلی بار اُس وقت آئس نشہ کیا تھا جب وہ نوجوان صحافی تھے، جبکہ راری اسٹیورتھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایران دورے کے موقع پر ایک شادی کی تقریب میں منشیات استعمال کی۔

    مزید پڑھیں: موبائل میں‌ کوکین سے متعلق میسج پر برطانوی سیاح کی امریکا سے ملک بدری

    سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ، ڈومینک راب اور اینڈرا لیڈسوم نے اعتراف کیا کہ ماضی میں ہم افیون کا استعمال کرچکے ہیں جبکہ وزیر داخلہ ساجد جاوید نے اس قسم کے کسی بھی نشے کے استعمال سے انکار کردیا۔

    برطانوی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے کہا کہ میں نے ان میں سے کئی چیزوں کا لطف اٹھایا ہے لیکن انہوں نے کوکین کے استعمال پر متضاد بیانات پیش کیے۔

    خیال رہے کہ بورس جانسن اس سے قبل بی بی سی سے گفتگو میں 2005 میں دوستوں کے ساتھ ایک بار کوکین کے استعمال کا انکشاف کیا تھا لیکن پھر اگلے ہی لمحے انہوں نے اسے مذاق قرار دیا تھا۔

  • بورس جانسن کے ٹرمپ کے سابق مینیجر سے رابطے کا انکشاف

    بورس جانسن کے ٹرمپ کے سابق مینیجر سے رابطے کا انکشاف

    لندن : برطانوی اخبار نے سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن اور ٹرمپ کے سابق معاون اسٹیو بینن کے درمیان مبینہ رابطوں کا انکشاف کرتے ہوئے دونوں کے مابین گفتگو کا ویڈیوثبوت جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی حکمران جماعت کی قیادت سنبھالنے کی دوڑ میں سب پر سبقت لےجانے والے سیاست دان اور برطانیہ کے متوقع وزیر اعظم بورس جانسن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق مینیجر کے ساتھ مبینہ رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ اسٹیو بینن سن 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کمپین مینیجر تھے، اس کے علاوہ ایک انتہائی دائیں بازو کی نیوز ویب سائٹ برائٹ بارٹ نیوز کے ایگزیکٹو چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ بینن اور بورس جانسن کے مبینہ رابطوں اور تعلقات کا انکشاف برطانوی اخبار نے کیا ۔

    برطانوی اخبار نے ایک ویڈیو کلپ بھی جاری کیا ہے جس میں بورس جانسن اور بینن کے درمیان گفتگو دیکھی جا سکتی ہے، اس گفتگو میں دونوں حضرات سابق وزیر خارجہ کے منصب وزارت سے مستعفی ہونے سے قبل پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر بات کر رہے تھے۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی حکمران جماعت کی سربراہی کی دوڑ میں بورس جانسن کو موجودہ وزیر خارجہ جریمی ہنٹ کے چیلنج کا سامنا ہے،یہاں یہ امربھی اہم ہے کہ اس برطانوی سیاستدان نے کچھ دن قبل ٹرمپ کی صدارتی مہم کے سابق منیجر اسٹیو بینن کے ساتھ رابطوں کی خبروں کو بے بنیاد اور حقیقت کے برعکس قرار دیا تھا۔

    انہوں نے ان باتوں کو انتہا پسندانہ فریب قرار دیا، اسی ویڈیو کلپ میں امریکی صدر کے سابق معاون جانسن یہ کہتے سنے گئے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کا انخلا برطانیہ کے لیے یوم آزادی کے مساوی ہو گا۔ پارلیمان میں بورس جانسن کی تقریر اسی بات کے گرد گھومتی رہی۔

  • بورس جانسن کے گھر بحث و تکرار پر پولیس پہنچ گئی

    بورس جانسن کے گھر بحث و تکرار پر پولیس پہنچ گئی

    لندن : برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ کے گھر سے بحث و تکرار کی بلند ہوتی تیز آوازوں نے پڑوسیوں کو پولیس سے مدد طلب کرنے پر مجبور کردیا، اہلخانہ کے تسلّی بخش بیان پر پولیس واپس چلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن اور ان کی ساتھی کیری سائمنڈ کے درمیان جمعے کے روز نامعلوم وجوہات پر تیز آواز میں بحث و تکرار ہونے پر پڑوسیوں نےپولیس کو بلایا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پڑوسیوں نے کیری سائمنڈ کو بلند آواز میں بورس جانسن سے یہ کہتے سنا تھا کہ ’چھوڑو مجھے اور میرے گھر سے نکل جاؤ‘۔

    میٹروپولیٹن پولیس نے خبر رساں ادارے ٍکو بتایا کہ ’گھر میں سب خیرت ہے اہلخانہ نے اطمئنان دلایا جس کے بعد پولیس اہلکار واپس چلے گئے۔

    پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بورس جانسن کے گھر میں کارروائی کی وجہ نہیں تھی‘ جبکہ بورس جانسن کے ترجمان نے واقعے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

    پڑوسی نے اخبار کو بتایا کہ ’اس کو گھر سے کسی خاتون کے چیخنے کی آواز آئی اور گھر سے کچھ ٹوٹنے کی بھی آواز آئی تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ سابق وزیر خارجہ خاتون سے کہہ رہے تھے کہ میں گھر سے نہیں جاؤں گا میرا لیپ ٹاپ جلدی میرے والے کرو۔

    برطانوی میڈیا کے کیری سائمنڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایم پی نے ریڈ وائن صوفے خراب کردیا’تمہیں کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں کیوں تم خود خراب ہو،تمہیں پیسوں کی پرواہ ہے نہ کسی اور چیز کی‘۔

    خیال رہے کہ 55 سالہ بورس جانسن 10 پاؤنڈ مالیت کے اس گھر میں اپنی دوست کیری سائمنڈکے ساتھ مقیم ہیں۔

    بورس جانسن برطانیہ کی حکمراں جماعت ٹوری پارٹی کی سربراہی کے لیے انتخاب کی دوڑمیں سرِ فہرست ہیں ان کامقابلہ جریمی ہنٹ سے ہوگا، جو کامیاب ہو گا وہی برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم ہو گا۔

  • برطانوی وزارتِ عظمیٰ کے امیدواربورس جانسن کے اجداد مسلمان تھے، انکشاف

    برطانوی وزارتِ عظمیٰ کے امیدواربورس جانسن کے اجداد مسلمان تھے، انکشاف

    لندن:برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے نقاب پہننے والی خواتین کے حوالے سے اپنے سابقہ اہانت آمیز تبصروں پر معذرت کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیش رفت جانسن کے اس دھماکا خیز انکشاف کے بعد سامنے آئی جس میں سابق وزیر خارجہ نے بتایا تھا کہ ان کے دادا کے والد (پر دادا) مسلمان تھے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا جب وزارت عظمیٰ کے ایک اور امیدوار پاکستانی نژاد برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے مطالبہ کیا کہ کنزرویٹو پارٹی کے اندر اسلام مخالف عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔

    ساجد جاوید کو جواب دیتے ہوئے بورس جانسن نے ٹی وی مناظرے میں انکشاف کیا کہ میرے پر دادا 1912 میں یہاں آئے تھے،وہ اس ملک کو امید کا مینار جان کر آئے تھے جو دنیا بھر سے آنے والوں کا خیر مقدم کرنے کے واسطے تیار رہتا ہے۔یاد رہے کہ بورس جانسن کے پر دادا علی کمال کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے دور میں صحافی، سیاست دان اور شاعر کے طور پر کام کیا تھا۔

    اس موقع پر نقاب پہننے والی خواتین کے متعلق اپنے سابقہ تبصروں پر بورس جانسن نے پشیمانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان تبصروں میں نقاب پوش خواتین کو پوسٹ بکس اور بینک لوٹنے والی قرار دیا تھا۔

    جانسن نے کہا کہ یہ ،یہ جملے 20 سے 30 برس پرانے ہیں جب وہ بطور صحافی کام کرتے تھے۔ لوگوں نے ان کے مضمون سے یہ عبارتیں الگ کر لیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ یقیناً میں ان الفاظ کے سبب جنم لینے والی اہانت پر معذرت خواہ ہوں۔ رائے شماری کے تیسرے مرحلے میں حامیوں کی تعداد میں اضافے کے بعد بورس جانسن نے برطانیہ کی وزارت عظمی کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی ہے۔

    جانسن کو 313 میں سے 143 ووٹ ملے جبکہ وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ 54 ووٹوں کے ساتھ دوسرے ، وزیر ماحولیات مائیکل جوو 51 ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور وزیر داخلہ ساجد جاوید 38 ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔ بین الاقوامی ترقی کے برطانوی وزیر روری اسٹیورٹ صرف 27 ووٹ حاصل کر سکے اور وزارت عظمی ٰکی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔

    برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق آخری مرحلے میں کامیاب ہونے والا امیدوار پارٹی کا نیا سربراہ ہوگا اور ساتھ ہی تھریسا مے کی جگہ ممکنہ طور پر جولائی کے آخر میں ملک کا نیا وزیر اعظم بنے گا۔