Tag: بورس جانسن

  • رواں برس اکتوبر کے اختتام پر برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیں گے، بورس جانسن

    رواں برس اکتوبر کے اختتام پر برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیں گے، بورس جانسن

    لندن : بورس جانسن کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اندیشہ ہے ہمیں ایک المیے کی صورت میں سیاست میں شہریوں کے اعتماد سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزارت عظمی کے لیے مضبوط ترین امیدوار اور سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ 31 اکتوبر تک برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیں گے۔

    بورس جانسن نے باور کرایا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت المناک طور پر اعتماد سے محروم ہو جائے گی۔

    برطانوی وزارت عظمی کے منصب کی دوڑ میں شامل دیگر چار امیدواروں کے ساتھ ٹی وی پر مناظرے کے دوران جانسن کا کہنا تھا کہ ہمیں 31 اکتوبر تک نکلنا ہو گا کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مجھے اندیشہ ہے کہ ہمیں ایک المیے کی صورت میں سیاست میں (شہریوں کے) اعتماد سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن نے تھریسامے کے بعد ملک کے اگلے وزیراعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ بورس جانسن نے 313 میں سے 126 ووٹ حاصل کرکے تیسرے مرحلے کے لیے جگہ بنائی ہے جبکہ دیگر 4 امیدواروں نے 33 یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

  • برطانوی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں‌ بورس جانسن دوسرے مرحلے میں بھی آگے

    برطانوی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں‌ بورس جانسن دوسرے مرحلے میں بھی آگے

    لندن : وزارت عظمیٰ کےلیے دوسرے مرحلے میں وزیر برائے بریگزٹ ڈومینک راب مقابلے سے باہر ہوگئے جو صرف 30 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن نے تھریسامے کے بعد ملک کے اگلے وزیراعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ بورس جانسن نے 313 میں سے 126 ووٹ حاصل کرکے تیسرے مرحلے کے لیے جگہ بنائی ہے جبکہ دیگر 4 امیدواروں نے 33 یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

    رپورٹ کے مطابق سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ نے 46، سیکریٹری ماحولیات مائیکل گوو نے 41، سیکریٹری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ روری اسٹیورٹ نے 37 اور ہوم سیکریٹری ساجد جاوید نے 33 ووٹ حاصل کیے۔

    بورس جانسن نے پہلے مرحلے کے مقابلے میں 12 ووٹ زیادہ حاصل کیے جبکہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں سب سے زیادہ 12 ووٹ اسٹورٹ نے حاصل کیے، دوسرے مرحلے میں بریگزٹ کے وزیر ڈومینک راب مقابلے سے باہر ہوگئے ہیں جنہیں صرف 30 ووٹ ملے تھے۔

    برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ اور لندن کے سابق میئر بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ برطانیہ کو 31 اکتوبر تک یورپین یونین سے باہر نکال لیں گے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے، پہلے مرحلے میں برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ 43 ووٹ کے ساتھ دوسرے، وزیر ماحولیات مائیکل گوو 37 ووٹ کے ساتھ تیسرے اور سابق وزیر بریگزٹ ڈومینِک راب 27 ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے تھے۔

    سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید 23 ووٹ کے ساتھ پانچویں، سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک 20 ووٹ کے ساتھ چھٹے اور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سیکریٹری روری اسٹیورٹ 19 ووٹ کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہے تھے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کے استعفے کے بعد ملک کے نئے وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل امیدواروں کی تعداد پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد 10 سے کم ہو کر 7 رہ گئی تھی۔

    برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق آخری مرحلے میں کامیاب ہونے والا امیدوار پارٹی کا نیا سربراہ ہوگا اور ساتھ ہی تھریسا مے کی جگہ ممکنہ طور پر جولائی کے آخر میں ملک کا نیا وزیر اعظم بنے گا۔

  • برطانیہ کے نئے وزیراعظم کے لیے ووٹنگ، پہلے مرحلے میں بورس جانسن کامیاب

    برطانیہ کے نئے وزیراعظم کے لیے ووٹنگ، پہلے مرحلے میں بورس جانسن کامیاب

    لندن: سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے برطانیہ کے نئے وزیراعظم کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرلی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بریگزٹ کے حامی سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے برطانوی پارلیمنٹ میں کنزرویٹو پارٹی کے قانون سازوں کی خفیہ ووٹنگ میں ڈالے جانے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے۔

    برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ مقابلے کے پہلے مرحلے میں 43 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، وزیر ماحولیات مائیکل گوو 37 ووٹ کے ساتھ تیسرے اور سابق وزیر بریگزٹ ڈومینک راب 27 ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔

    برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید 23 ووٹ کے ساتھ پانچویں، سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک 20 ووٹ کے ساتھ چھٹے اور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سیکریٹری روری اسٹیورٹ 19 ووٹ کے ساتھ ساتویں نمبر پر رہے۔

    مزید پڑھیں: نوڈیل بریگزٹ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، رپورٹ

    برطانیہ کے وزیراعظم کے لیے 2016 میں ہونے والی ووٹنگ میں دوسرے نمبر پر رہنے والی اینڈریا لیڈسم، مارک ہائیپر اور ایستھر مک وے مطلوبہ 17 ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔

    اس طرح تھریسامے کے استعفے کے بعد برطانیہ کے نئے وزیراعظم کی دوڑ میں شامل امیدواروں کی تعداد 10 سے کم ہوکر 7 رہ گئی ہے۔

    بورس جانسن کے ترجمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یقیناً اب تک کے نتائج سے مطمئن ہیں لیکن مقابلہ جیتنے کے لیے ابھی طویل سفر باقی ہے۔

    آخری مرحلے میں کامیاب ہونے والا امیدوار پارٹی کا نیا سربراہ ہوگا اور تھریسامے کی جگہ ممکنہ طور پر جولائی کے آخر میں برطانیہ کا نیا وزیراعظم بنے گا۔

  • بریگزٹ : تھریسامے یورپی یونین سے بیک اسٹاپ مراعات کو محفوظ کریں، بورس جانسن

    بریگزٹ : تھریسامے یورپی یونین سے بیک اسٹاپ مراعات کو محفوظ کریں، بورس جانسن

    لندن : سابق وزیر بورس جانسن نے تھریسامے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کو محفوظ بنانے کیلئے شمالی آئرش بیک اسٹاپ کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمنٹ سے بریگزٹ ڈیل منظور کروائیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر ہم فریڈم کلوز (یورپی یونین کے شہریوں کو رکن ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کی آزادی) برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو یہ بریگزٹ کی اچھی خبر ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ایم پیز منگل کے روز وزیر اعظم تھریسامے کی ترمیم شدہ بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کریں گے، جو مستقبل میں بریگزٹ کی سمت طے کرے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آئرلینڈ کے ڈپٹی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ سخت بارڈر کو روکنے کےلیے بیک اسٹاپ میں کی گئی تبدیلی قابل قبول نہیں ہوگی۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کیلئے بیک اسٹاپ(اوپن بارڈر) ’انشورنس پالیسی‘ ہے، جس کے ذریعے یورپی یونین برطانیہ کے انخلاء کے بعد بھی شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رہے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین اور برطانیہ کو یقین ہے کہ شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد قائم کرنا امن کے لیے خطرناک ہوگا لیکن بریگزٹ کے حامی ایم پیز بیک اسٹاپ پلان کو پسند نہیں کرتے۔

    بریگزٹ کے حامی ایم پیز کا خیال ہے کہ اگر بریگزٹ کے بعد ہی بیک اسٹاپ پلان رہا تو برطانیہ یورپی یونین سے انخلاء کے باوجود یورپی یونین کے قوانین میں بندھا رہے گا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت میں فیصلہ دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیے تھے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگنے کا خطرہ

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگ سکتا ہے، اندرونی خانہ جنگی ہوئی تو آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے، ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے فوج کی مدد کے ساتھ کرفیو کا آپشن بھی زیر غور کررہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر جارج اوسبورن کا کہنا ہے کہ یورپین یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے۔

  • لندن: چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے، بورس جانسن

    لندن: چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے، بورس جانسن

    لندن : سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے وزیر اعظم تھریسامے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2016 برطانوی عوام نے اپنی آزادی کے لیے بریگزٹ کو ووٹ دئیے تھے لیکن حکومت ان کی امید کو پورا نہیں کرسکی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے بریگزٹ کے حوالے سے تھریسامے کے تیار کردہ پلان پر نشتر چلاتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے جو تکلیف دہ ہے۔

    سابق وزیر خارجہ نے ٹوری کانفرنس سے پہلے ہی تھریسامے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیکرز پلان مضحکہ خیز اور جمہوری تباہی پر مبنی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں نے رواں سال جولائی میں قیادت کے لیے مدد کی تھی، چیکرز پلان اخلاقی طور پر توہین آمیز ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے ابتداء میں چیکرز پلان کی حمایت کی تھی تاہم مستعفی کے بعد وہ تھریسا مے کی منصوبہ بندی کے خلاف ہوگئے اور اسے تباہ کن قرار دیا۔

    بورس جانسن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تھریسامے کے چیکرز پلان کے ذریعے برطانیہ آدھا یورپی یونین اور آدھا یونین سے باہر ہوجائے گا جو صدیوں کی کامیابیوں سے انحراف ہوگا۔

    بورس جانسن نے برطانوی خبر رساں ادارے میں تحریر کیے گئے کالم میں کہا تھا کہ شہریوں نے سنہ 2016 میں اپنی آزادی کے لیے ووٹ دیا تھا لیکن افسوس حکومت نے برطانوی شہریوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے رواں ماہ کے اوائل میں برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے کالم میں تھریسا مے کے نامناسب زبان استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا کر ریمورٹ برسلز کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر نے کالم میں لکھا کہ تھریسا مے نے چیکر معاہدے کے ذریعے برطانیہ میں بلیک میلنگ کی سیاست کے لیے راشتہ کھول دیا ہے۔

  • تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی، بورس جانسن

    تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی، بورس جانسن

    لندن : برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے تھریسا کے خلاف تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھریسا مے نے برطانیہ کے آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اتوار کے روز برطانوی خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والے کالم میں تھریسا مے کے نامناسب زبان استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا کر ریمورٹ برسلز کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر نے کالم میں لکھا کہ تھریسا مے نے چیکر معاہدے کے ذریعے برطانیہ میں بلیک میلنگ کی سیاست کے لیے راشتہ کھول دیا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ٹوری پارٹی کے بیشتر ارکان پارلیمنٹ نے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کی کالم کے میں استعمال کی گئی نازیبا زبان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے ’دی میل آن لائن‘ میں برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کالم بھی شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے برطانوی عوام سے گذارش کی تھی وزیر اعظم کے بریگزٹ معاہدے کی حمایت کریں۔

    خیال رہے کہ بورس جانسن کی جانب سے اپنی اہلیہ سے علیحدگی کی تصدیق کے بعد یہ پہلا کالم ہے، اس تصدیق سے قبل ایک خبر رساں ادارے میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ بورس جانسن کا کسی دوسری خاتون ساتھ تعلق ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 میں بورس جانسن کو حکمران جماعت کے سربراہ نے ایک خاتون صحافی کے ساتھ تعلقات رکھنے کی بنا پر وزارت کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔

    دی سنڈے ٹائمز کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسز مے کے معاونین نے 4000 الفاظ پر مشتمل ’نازیبا دستاویز‘ لکھی تھی۔

    اخبار کا کہنا ہے کہ اس نے وہ دستاویز دیکھی ہے جسے کنزروٹیو لیڈرشپ کے مقابلے کے وقت تحریر کیا گیا تھا تاہم ڈاؤننگ سٹریٹ کے حکام اور پارٹی کے ہیڈکوارٹر نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز سابق وزیر خارجہ بورس جانسن اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس کے بعد سے برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی حکومت بحران کی زد میں ہے۔

  • بورس جانسن نے اہلیہ مرینہ وئیلر سے علیحدگی کی تصدیق کردی

    بورس جانسن نے اہلیہ مرینہ وئیلر سے علیحدگی کی تصدیق کردی

    لندن : برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ اور ان کی اہلیہ سے متعلق گردش کرنے والی خبروں کی بورس جانسن نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہت جلد ہم قانونی طور پر علیحدہ ہوجائیں گے‘۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن اور ان کی اہلیہ مرینہ وئیلر نے اپنے علیحدہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے مشترکہ بیان میں بتایا ہے کہ ’ہم کچھ مہینوں سے علیحدہ ہیں اور بہت جلد ہمارے درمیان طلاق ہونے والی ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سابق وزیر خارجہ اور ان کی اہلیہ کے درمیان گھریلو تنازعے کی خبر برطانوی اخبار ’دی سن‘ نے شائع کی تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ بورس جانسن اور مرینہ کی 25 برس قبل شادی ہوئی تھی تاہم انہوں نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کچھ ماہ قبل ہی کیا ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کی بریگزٹ منصوبہ بندی پر بورس جانسن کے کابینہ سے استعفیٰ دینے کے بعد سے انہیں ٹوری پارٹی کا مستقبل کے سربراہ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا تھا۔

    شوہر اور اہلیہ نے مشترکہ بیان میں بتایا ہے کہ طلاق کی درخواست منظوری کے مراحل میں ہے، لیکن ہم ایک دوست کی طرح اپنے بچوں کی معاونت جاری رکھیں گے تاہم اس کے علاوہ ہمارے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

    واضح رہے کہ جانسن اور وئیلر کی شادی سنہ 1993 میں ہوئی تھی اور بورس جانسن کے مرینہ وئیلر سے چار بچے ہیں ’لارا، میلو آرتھر، کاسیہ، تھیوڈور‘جو اپنے والدین کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ بورس جانسن کچھ دو برس قبل برطانیہ کے وزیر خارجہ منتخب ہوئے تھے، جبکہ اس سے قبل وہ 3 سال یوایس برج کے ایم پی، 8 برس تک لندن کے میئر، 7 سال ہینلی کے ایم پی اور 6 سال تک اسپیکٹر کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔

  • برقع پربیان کے بعد بورس جانسن کو پارٹی کی تفتیش کا سامنا

    برقع پربیان کے بعد بورس جانسن کو پارٹی کی تفتیش کا سامنا

    لندن: برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کو برقع سے متعلق اپنے بیان پر اب پارٹی کی جانب سے تفتیش کا سامنا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برقع کے حوالے سے بورس جانسن کے بیان نے پارٹی قیادت کا خواب دیکھنے والے بورس جانسن کو بظاہر پارٹی سے ہی نکال پھینکا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر خارجہ  نے وضاحت کی ہے کہ وہ عام مقامات پر برقع کی پابندی کے مخالف ہیں لیکن انہوں نے اسلامی لباس کے حوالے سے قابل اعتراض بیانات بھی دئیے ہیں جس پر فوری طور پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔

    ٹوری پارٹی کے مسلمان لارڈ شیخ کا کہنا ہے کہ بورس جانسن کو معطل کیا جانا چاہئے جبکہ مسلم گروپ برہم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شاید بورس جانسن سے ٹوری پارٹی کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

    مزید پڑھیں: مسلم خواتین برقعہ پہن کر لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں، بورس جانسن کی ہرزہ سرائی

    پارٹی کے ضابطہ اخلاق کے تحت پارٹی کے عہدیداروں کو اپنی پوزیشن کسی کو ڈرانے دھمکانے، بدتہذیبی کرنے، انتقام کا نشانہ بنانے، ہراساں کرنے یا غیرقانونی طور پر دوسروں سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بورس جانسن کو معذرت کرنے کے مشورے کو تسلیم کرنے سے تنازع شدت اختیار کرگیا ہے۔

    خیال رہے کہ سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے ڈنمارک میں برقعہ کے استعمال پر پابندی بیان میں کہا تھا کہ مسلم خواتین برقعہ میں لیٹر بکس کی طرح دکھائی دیتی ہیں جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے۔

  • برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    لندن : برطانیہ کی معروف جامعہ آکسفورڈ کے امام تاج ہرگئی نے کہا ہے کہ برقعے سے متعلق قرآن مجید میں کوئی قانون موجود نہیں ہے، یہ مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے اسلام کا حصّہ ہے جو خواتین کو قابو کرنے کا طریقہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی نامور یونیورسٹی آکسفورڈ کی اسلامی جماعت کے امام تاج ہرگئی نے مسلم خواتین کے برقعے سے متعلق متنازعہ بیان پر بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سابق وزیر خارجہ کا بیان حقیقت پر مبنی تھا‘۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے امام تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بورس جانسن کو برقعے سے متعلق بیان معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور ان کا بیان ناکافی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تاج ہرگئی کی جانب سے ’دی ٹائمز‘ کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ برقعے کے متعلق قرآن میں کوئی قانون نہیں ہے، بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے اسلام کا ایک حصّہ ہے۔

    تاج ہرگئی کا مزید کہنا تھا کہ برقعے کے معاملے میں پر انتہا پسند مذہبی طبقے نے بیمار سوچ کے مسلمانوں ترغیب دلائی کے خدا چاہتا ہے کہ خواتین اپنے چہرے کو چھپائیں، جبکہ حقیقت میں مذکورہ طبقے نے ’خواتین کو قابو کرنے کے لیے ایسا حربہ اپنایا تھا‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بہت سی جوان خواتین نے مردوں کی جبری سرپرستی کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کو اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ چہرے کو چھپانا ان کا انسانی حق ہے۔


    بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ


    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب ریس موگ نے سابق وزیر خارجہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورس جانسن کا پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے اور مذکورہ ٹرائل کا مقصد جانسن کو مستقبل کا لیڈر بننے سے روکنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برٹش پارلیمنٹ اور کنزرویٹو پارٹی کے رکن نے وزیر اعظم تھریسا مے پر الزام عائد کیا کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کی آڑ میں بورس جانسن سے ذاتی دشمنی نکال رہی ہیں‘۔


    بورس جانسن کو مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے، مسٹر بین


    واضح رہے کہ  گذشتہ روز معروف مزاحیہ اداکار روون اٹکنسن (مسٹر بین) نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جانسن کا بیان ایک اچھا لطیفہ ہے‘ اور انہیں مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے جس پر انہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ مسلمان خواتین برقعہ پہن کر ’لیٹر بُکس‘ اور بینک چوروں کی طرح لگتی ہیں۔ جس کے بعد بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بورس جونسن اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا ہے۔

  • بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ

    بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ

    لندن : کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب موگ نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے تھریسا مے پر الزام عائد کیا ہے کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کے معاملے پر بورس جانسن سے ذاتی انارکی نکال رہی ہیں‘۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب ریس موگ نے سابق وزیر خارجہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورس جانسن کا پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے اور مذکورہ ٹرائل کا مقصد جانسن کو مستقبل کا لیڈر بننے سے روکنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برٹش پارلیمنٹ اور کنزرویٹو پارٹی کے رکن نے وزیر اعظم تھریسا مے پر الزام عائد کیا کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کی آڑ میں بورس جانسن سے ذاتی دشمنی نکال رہی ہیں‘۔

    برطانیہ کی ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ذرائع نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ سابق وزیر خارجہ کے خلاف کی جانے والی تحقیقات میں کسی قسم کی ذاتی انارکی شامل نہیں ہے۔

    ڈاؤننگ اسٹریٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پارٹی بورس جانسن کے خلاف موصول ہونے والی ہر شکایت پر تحقیقات کرے گی‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پارٹی کو موصول ہونے والی تمام شکایات کی جانچ پڑتال ایک آزاد پینل کرے گا اور وہی پینل جانسن کا معاملہ پارٹی بورڈ کے حوالے کرے گا، جس کے پاس پارٹی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین کو برطرف کرنے کا اختیار ہے۔

    جیکب موگ کا اپنے کالم میں کہنا تھا کہ ’برقعے کے معاملے پر میں بھی بورس جانسن سے اتفاق کرتا ہوں‘ لیکن یہ واضح کردوں کہ برقعے پر پابندی کی حمایت نہیں کرتا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کنزرویٹو پارٹی کے کچھ سینئر رہنماؤں کی جانب سے جانسن کو ’حسد اور نفرت‘ کے باعث نشانہ بنایا جارہا ہے کیوں کہ بورس جانسن نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ان کی شخصیت میں جازبیت ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز معروف مزاحیہ اداکار روون اٹکنسن (مسٹر بین) نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جانسن کا بیان ایک اچھا لطیفہ ہے‘ اور انہیں مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے جس پر انہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ مسلمان خواتین برقعہ پہن کر ’لیٹر بُکس‘ اور بینک چوروں کی طرح لگتی ہیں۔ جس کے بعد بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بورس جونسن اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا ہے۔