Tag: بورنگ

  • بورنگ سے زیر زمین پانی نکالنے کا ہولناک انجام کیا ہے؟

    بورنگ سے زیر زمین پانی نکالنے کا ہولناک انجام کیا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ جب ہم بورنگ سے پانی نکالتے ہیں تو زمین کے گردشی محور کو تبدیل کرنے کا سبب بنتے ہیں؟ سوچیں، ہم اپنے ہاتھوں زمین کو ایک بڑی تباہی کی طرف کس طرح دھکیل رہے ہیں۔

    ماہرین کی رائے ہے کہ دنیا بھر میں پانی کے زیر زمین ذخائر کے کثرت استعمال سے زمین کا گردشی محور اسی 80 سینٹی میٹر مشرق کی طرف سرک گیا ہے، جس سے زمین کے محور کے گرد گردش متاثر ہو رہی ہے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کے ماہر کلارک آر ولسن نے زیر زمین پانی کے استعمال پر تحقیق کی ہے ان کے مطابق یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے کہ تحقیق کے 17 سال کے عرصے میں زمین سے تقریباً 2100 گیگا ٹن پانی نکالا گیا، جس کے نتیجے میں عالمی سمندروں میں پانی کی سطح میں 1.3 ملی میٹر سالانہ کی شرح سے اضافہ بھی ہوا۔

    اس تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں پانی نکالے جانے کا اثر زمین کے گردشی محور پر بھی پڑا، جو اب 80 سینٹی میٹر مشرق کی جانب سرک چکا ہے۔

    ولسن کے مطابق اگرچہ ماحولیاتی تبدیلیوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سطح سمندر میں اضافے سے بھی زمین کی اس کے محور کے گرد گردش میں تبدیلیاں آتی ہیں، تاہم یہ امر پہلی مرتبہ باقاعدہ اور درست اعداد و شمار کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ حد سے زیادہ گراؤنڈ واٹر پمپنگ بھی زمین کی اس کے محور کے گرد گردش کو متاثر کر رہی ہے۔

    دنیا بھر میں کئی دہائیوں سے خشک سالی اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین سے پانی نکالے جانے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ جس سے بہت سے علاقوں میں زمین کی گہرائی میں پانی کی سطح اس حد تک گر چکی ہے کہ بورنگ سے بھی پانی نکالنا ممکن نہیں رہا۔

    زمینی پانی کے نکالے جانے اور زمین کی گردش میں تعلق؟

    اس تحقیق کے مصنف کی ویون سیو کے مطابق زمین کی اس کے محور کے گرد گردش کو قطبی گردش بھی کہا جاتا ہے۔ زمین پر مادے کی تقسیم میں ہونے والی تبدیلیاں اس گردش کا سبب بنتی ہیں، جس سے زمین کے قطبین  کی پوزیشن میں بھی وقت کے ساتھ تغیر آتا رہتا ہے اور یہ ایک بالکل قدرتی عمل ہے۔

    مگر پچھلی تین دہائیوں سے زمین کے گردشی محور میں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ انسانی عمل و دخل ہے۔

    پاکستان میں صورت حال کیسی ہے اور پاکستان میں زمین سے کتنا پانی نکالا جا رہا ہے؟

    2020 میں ملٹی ڈسپلنری ڈیجیٹل پبلشنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں زیر زمین پانی کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں استعمال ہونے والے کل پانی کا 60 فی صد گراؤنڈ واٹر پمپنگ یا بورنگ سے حاصل کیا جاتا ہے۔

    زیر زمین پانی پر تحقیق کے ماہر اسد سرور قریشی کے مطابق پاکستان میں زیر زمین پانی کے استعمال کا آغاز 1960 میں ہوا تھا جب ٹیوب ویلوں کی مدد سے زیر زمین پانی نکالا جانے لگا، جس کا مقصد فصلوں کو سیراب کرنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1960 تک ملک بھر میں ان ٹیوب ویلوں کی تعداد محض 30 ہزار تھی، جو 2018 تک درجنوں گنا زیادہ ہو کر 12 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔

    اسد سرور قریشی کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹیوب ویلوں سے پانی بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے نکالا جا رہا ہے، جس سے بہت سے انتہائی سنجیدہ ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا ہے۔

    آب پاشی کے لیے دنیا بھر میں زمین سے پانی نکالا جاتا ہے مگر وہاں زیر زمین پانی کے استعمال کا طریقہ کار موجود ہے مگر پاکستان میں زیر زمین پانی بغیر کسی منصوبہ بندی کے بورنگ کے ذریعے نکالنے سے زمین کھوکھلی ہو رہی ہے۔ آبادی میں اضافہ اور پانی کی طلب کی بنا پر پچھلے چند سالوں سے زیر زمین پانی کو بورنگ کے ذریعے نکالنے میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو ماحولیات اور زمین پر موجود درختوں اور سبزے کی بقا کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔

    پاکستان کے واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 12.5 ہارس پاور کا ایک شمسی ٹیوب ویل روزانہ 35 ہزار گیلن پانی زمین سے نکالتا ہے، یہ شرح 1.5 کیوسک ماہانہ بنتی ہے، جو انتہائی حد تک زمین کے تحفظ کے لیے تشویش ناک ہے۔

  • بارش کے صاف پانی کو کیسے استعمال میں لایا جاسکتا ہے؟

    بارش کے صاف پانی کو کیسے استعمال میں لایا جاسکتا ہے؟

    کراچی: صوبہ سندھ سمیت ملک بھر میں ہونے والی موسلا دھار بارشیں اکثر اوقات سیلاب لے آتی ہیں جس سے بے تحاشہ نقصان ہوتا ہے، دنیا بھر میں اس پانی کو مختلف طریقوں سے محفوظ کیا جاتا ہے اور کراچی کے شہری نے بھی ایسا ہی کارنامہ انجام دیا ہے۔

    کراچی کے رہائشی محمد امان خان کاکا خیل نے حالیہ مون سون بارش کے کروڑوں گیلن پانی کو محفوظ کر کے مختلف کنوؤں تک پہنچا کر ارد گرد کی خشک بورنگز کو دوبارہ بھر دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے محمد امان نے بتایا کہ ہم رین ہارویسٹنگ کے سسٹم پر آئے ہیں اوریہ نظام دنیا میں بہت کامیاب ہے۔ اس سے سیلاب کی تباہ کاریاں اورپانی کی کمی کوحل کیا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شہر کراچی کنکریٹ کا جنگل بنا ہوا ہے، سڑکیں بھی کنکریٹ کی ہے اور عمارتیں بھی کنکریٹ سے بنی ہیں۔ شہر کی عمارتیں اس لیے ٹیڑھی اور بیٹھ رہی ہیں کیوںکہ زمین میں پانی نہیں ہے۔

    محمد امان نے بتایا کہ ہمارے 32 کےقریب پروجیکٹس ہیں، کوئی پروجیکٹ 1 لاکھ گیلن پانی محفوظ کرتا ہے تو کہیں 6 لاکھ گیلن، کہیں 30 لاکھ گیلن پانی محفوظ ہوتا ہے۔ ہم تقریباً کروڑوں گیلن پانی اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ بنا رہے ہیں۔

  • کراچی سمندر کے پانی میں دھنس سکتا ہے، حیران کن انکشاف

    کراچی سمندر کے پانی میں دھنس سکتا ہے، حیران کن انکشاف

    کراچی: شہر قائد میں پانی بحران کا خاتمہ ہوا نہیں تھا کہ ایک اور انکشاف سامنے آیا ہے کہ کراچی سمندر کے پانی میں دھنس سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں آر او پلانٹ مافیا نے شہر کو خطرے میں ڈال دیا، گلی گلی آر او پلانٹ لگائے جانے سے زیر زمین پانی چوری کیا جارہا ہے جس سے کراچی کے سمندر کے پانی میں دھنس جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق شہر بھر میں گلی گلی بورنگ کیے جانے سے زیر زمین پانی ختم ہونے لگا ہے، زیر زمین پانی جو پہلے 50 فٹ بورنگ پر دستیاب تھا اس کے لیے اب 200 فٹ بورنگ کی جارہی ہے۔

    واٹر بورڈ کمیشن نے سب سوئل واٹر پر پابندی عائد کی تھی تاہم اب منرل واٹر کے نام سے زیر زمین پانی کی فروخت کا منافع بخش کاروبار عروج پر ہے جسے شہری حلقوں نے ٹینکر اور ہائیڈرنٹس مافیا سے بڑی مافیا قرار دیا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال کٹاس راج کیس میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ زیر زمین پانی پر صرف سرکار کا حق ہے کوئی بھی اس پانی کو حکومت کی مرضی کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا بصورت دیگر پانی چوری کی ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے۔

    سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کراچی کا زیرزمین پانی چوری کرکے دھرلے سے بیچا جارہا ہے جبکہ انتظامیہ سب کچھ جان کر بھی انجان بنی ہوئی ہے۔

    ماہر ارضیات پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسن نے کہا کہ کراچی میں زراعت کے لیے زیر زمین پانی استعمال ہوتا تھا جس میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے اس کی وجہ ریتی بجری کے کاروبار نے ان تمام دریاؤں کو خشک کرنے کی کوشش کی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب پانی کے لیے زیادہ گہرائی کے لیے بورنگ کی جاتی ہے تو پھر وہ پانی آہستہ آہستہ ختم ہوتا ہے اور پھر کراچی کے سمندر میں دھنس جانے کے امکانات ہیں۔

  • کام میں دل نہیں لگ رہا؟

    کام میں دل نہیں لگ رہا؟

    عید کی ایک ہفتہ طویل چھٹیوں کے بعد بہت سے لوگ سست ہوگئے ہیں۔ انہیں اپنے کام دوبارہ سے شروع کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہورہا ہے کیونکہ اس سے قبل ہم ایک ماہ رمضان کا گزار چکے ہیں جس میں کام کرنے کا وقت گھٹا دیا جاتا ہے۔

    اگر آپ بھی ایسے ہی افراد میں شامل ہیں جنہیں عید کے بعد 8 گھنٹے کی نوکری دشوار معلوم ہورہی ہے تو آپ کے لیے اپنے جسم کو کام کی طرف مائل کرنے کی کچھ تجاویز دی جارہی ہیں۔

    :اپنے مقاصد کو یاد کریں

    eid-1

    زندگی میں طے کیے ہوئے مقاصد کو پھر سے دہرائیں۔ ان کے نتائج اور ان سے ملنے والے فائدوں کو یاد کریں۔ ان احباب کا رویہ یاد کریں جو آپ کو صرف آپ کے اچھے وقت میں یاد رکھتے ہیں اور برے وقت میں بھول جاتے ہیں۔

    :نیند پوری کریں

    eid-2

    یہ بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کی نیند پوری نہیں ہوگی تو آپ بڑے سے بڑے موقع میں بھی کوئی دلچسپی نہیں دکھا سکیں گے۔ کتنا ہی دلچسپ کام کیوں نہ ہو آپ اسے نہیں کرسکیں گے۔ یہ زیادہ ضروری اس لیے بھی ہے کیونکہ عید کی چھٹیوں میں آپ بہت گھومے پھرے ہوں گے اور اب تھکن کا شکار ہوں گے۔ اپنے مقررہ وقت سے جلدی سوئیں تاکہ آپ کی نیند پوری ہوسکے۔

    :غذا پر دھیان دیں

    eid-3

    اپنے آپ کو جگانے کے لیے اضافی چائے کافی کا استعمال مت کریں۔ یہ آپ کو مزید تھکا دے گا۔ بھرپور ناشتہ کریں اور اتنی ہی چائے کافی استعمال کریں جتنی آپ رمضان سے قبل استعمال کرتے تھے۔

    :ورزش کریں

    h1

    ہلکی پھلکی ورزش آپ کے تھکے ہوئے جسم کو چاق و چوبند کر سکتی ہے۔ 15 منٹ کی چہل قدمی اس سلسلے میں نہایت مددگار ثابت ہوگی۔

    :پانی پئیں

    h2

    پانی آپ کی کھوئی ہوئی توانائی کو بحال کرتا ہے۔ اکثر اوقات دن کے کسی وقت میں آپ تھکان محسوس کریں تو یہ ڈی ہائیڈریشن کی نشانی ہے۔ اس صورت میں ایک گلاس پانی بہترین دوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    !تو ان تجاویز پر عمل کریں اور پھر سے دنیا فتح کرنے کے لیے تیار ہوجائیں