Tag: بولی ووڈ

  • جب ‘فلپ کمار’ کی دیوانی اینا ممبئی پہنچی!

    جب ‘فلپ کمار’ کی دیوانی اینا ممبئی پہنچی!

    مجھے یاد ہے کہ ایک دن آسٹریلیا سے نریش نام کے ایک آدمی کا میرے پاس فون آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔

    میں نے سوچا کہ کوئی NRI ہے جو مجھ سے فلم بنوانا چاہتا ہے۔ وہ کم بخت جب تک نہیں ملا میں نئے نئے خواب بُنتا رہا۔ آخر خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اور وہ ایک دن ایک دو تحفے لے کر میرے دفتر میں حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بہت دیر تک دھڑکتا رہا۔ سوچا پتا نہیں کہ کیا مژدہ سنانے والا ہے۔ جب کفر ٹوٹا تو میں ٹھس سے نیچے بیٹھ گیا۔ پتا چلا کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون ہے جو دلیپ صاحب کی زبردست فین ہے اور ایک بار دلیپ صاحب کا دیدار کرنا چاہتی ہے۔

    کچھ دیر تک میں آنا کانی کرتا رہا۔ جب اس نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجھے ہامی بھرنی پڑی۔ وہ اگلے دن اس خاتون کے ہمراہ آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ سوچا یہ خاتون کون ہے۔ کیا سائرہ جی کے ہوتے ہوئے اس کی ملاقات دلیپ صاحب سے ممکن ہے۔ میں رات بھر اسی ادھیڑ بن میں پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔

    اگلے روز جب میں آفس میں پہنچا تو ایک عمر رسیدہ، پر بے حد خوب صورت خاتون کو دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ مجھے لگا کہ میں نے اپنی رسوائی کا سامان خود ہی کر لیا ہے۔ میں بڑا حساس اور جذباتی آدمی ہوں۔ چہرے سے آدمی کے دل کی بات پڑھ سکتا ہوں۔ ایک عورت اتنی دور سے چل کر آئی تھی۔ انسانیت کے ناتے میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں اس کے ساتھ پیار سے پیش آؤں۔

    نریش نے جب اس خاتون سے میرا تعارف کرایا تو میں اسے ازراہِ مروّت آفس میں لے آیا۔ چائے، شربت سے اس کی خاطر تواضع کی۔ بہت جلد وہ مجھ سے گھل مل گئی۔ پتا چلا کہ وہ ایک آرمینین خاتون ہے۔ ایک بار اس نے محبوب خان کی فلم "آن” دیکھی۔ یہ فلم آرمینی زبان میں ڈب ہوئی تھی۔ اس زبان میں اس کا ٹائٹل "منگلا” رکھا گیا تھا۔ (فلم میں نمی کا نام منگلا تھا) کاسٹنگ میں دلیپ کمار کا نام فلپ کمار لکھا گیا تھا۔ اینا (یہ اس خاتون کا نام تھا) نے جب یہ فلم دیکھی تو دلیپ کمار پر فدا ہو گئی۔

    ان دنوں وہ ایک دم جوان تھی، خوب صورت تھی۔ وہ اپنے خوابوں کے شہزادے فلپ کمار کی تلاش میں بمبئی چلی آئی۔ لوگوں سے پوچھا۔ اسٹوڈیو کے چکر لگائے مگر اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ فلپ کمار کہیں نہیں ملا۔ وہ اگر فلم کا اصلی نام بھی جانتی تو اس کی مشکل آسان ہو سکتی تھی مگر نام میں بھی لوچا تھا۔ یہاں نہ کوئی فلپ کمار کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی نے "منگلا” فلم کے بارے میں سنا تھا۔ (وہ منگلا بھی صحیح ڈھنگ سے بول نہیں پا رہی تھی منگلا کو منگالا کہتی تھی) آخر ایک مہینے تک ممبئی کی خاک چھاننے کے بعد جب کچھ بھی اس کے ہاتھ نہ آیا تو وہ مایوس و نامراد اپنے وطن واپس لوٹ گئی۔

    اس بیچ اس کی شادی ہوئی۔ اس نے پہلی ہی رات کو اپنے شوہر کو صاف لفظوں میں بتا دیا کہ وہ فلپ کمار سے جنون کی حد تک پیار کرتی ہے۔ وہ بھلے ہی اس کی بیوی بن چکی ہے پر وہ یہی تصور کرے گی کہ وہ جسمانی اور روحانی طور پر اسی کے ساتھ ہے جسے وہ دیوانگی کی حد تک چاہتی ہے۔ اس کا شوہر بھی بڑا دل دار اور وسیع القلب تھا۔ اس نے اس کے جذبات کو سراہا اور کوئی ایسی بات نہ کی جس سے اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔

    اسی بیچ اینا آسٹریلیا آگئی۔ ایک دن وہ ایسے ہی گھومتے گھماتے نریش کی دکان کے پاس آ کے رک گئی جہاں ہندی فلموں کے کیسٹ ملتے تھے۔ اینا نے اس سے فلم "منگالا” کا کیسٹ مانگا۔ نریش نے اپنے رجسٹر کو خوب کھنگالا مگر "منگلا” نام کی کوئی فلم اس پورے رجسٹر میں کہیں دکھائی نہ دی۔ دل برداشتہ ہو کر وہ ایک ایک کیسٹ بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی خوشی اور حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا جب اس کے ہاتھ "آن” کا کیسٹ لگا۔ وہ دیوانہ وار اس کیسٹ کو چومنے لگی۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اس فلم کے پیچھے اس نے کس قدر خاک چھانی تھی اس نے نریش کو اپنے دل کی کیفیت سے آشنا کر دیا اور اس نے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے انڈیا لے جا کر دلیپ کمار سے ایک بار ملا دے گا۔

    نریش نے فلم ڈائریکٹری سے میرے آفس کا نمبر ڈھونڈ نکالا تھا، اس طرح نریش نے مجھ سے رابطہ قائم کیا تھا اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

    یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی لو اسٹوری تھی اور اس لو اسٹوری کے ٹوٹے تار کو جوڑنے کا ذمہ مجھے سونپا جارہا تھا۔ میں محبت کرنے والوں کا امین ہوں، پر یہ جو عشقیہ داستان تھی اس میں ملن کم اور جوکھم زیادہ نظر آرہا تھا۔ میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف اینا کی تڑپ اور دوسری طرف میری مجبوریاں۔ یہ تو ایک آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا اتنا آسان نہ تھا۔

    اینا بھی اب کے طے کرکے آئی تھی کہ وہ دلیپ کمار سے مل کے ہی جائے گی چاہے دنیا اِدھر ادھر ہو جائے۔ میں نے اینا سے دو دن کی مہلت مانگی۔ وہ خوشی خوشی نریش کے ساتھ چلی گئی مگر میں اضطراب اور تذبذب کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگا۔

    میں اسی دن شام کے وقت صاحب سے ملنے سائرہ جی کے بنگلے پر چلا گیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اصلی مدعے پر آگیا۔ میں نے دلیپ کمار صاحب سے کہا کہ ایک خاتون آسٹریلیا سے خاص طور پر ان سے ملنے چلی آئی ہے۔ اسے صرف پانچ منٹ چاہییں۔ وہ بس ان سے مل کر چلی جائے گی۔ دلیپ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی یہ پراسرار خاموشی میرے لیے سوہان روح بنتی جا رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔ وہ میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ کر بولے: "کیوں مجھے آپ مشکل میں ڈالنا چاہتے ہو؟”

    میں نے انہیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ خاتون پانچ منٹ مل کر چلی جائے گی۔ کافی سوچ بچار کے بعد آخر کار انہوں نے ملنے کے لیے ہامی بھرلی۔ میں نے اسی وقت نریش کو فون کرکے اطلاع دی۔

    اگلے دن ہم بغل کی بلڈنگ میں شوٹنگ کر رہے تھے کہ ایک نوکر میرے پاس یہ خبر لے آیا کہ اینا، نریش کے ساتھ نیچے کھڑی ہے۔ پتا نہیں اینا کے نام سے مجھ پر لرزہ کیوں طاری ہوگیا۔ میں سوچنے لگا کہ اینا پاگل پن کی حد تک دلیپ صاحب کو چاہتی ہے۔ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔

    میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری حالت تو اس سانپ سے بدتر تھی جس کے منہ میں چھچھوندر ہو۔ جسے وہ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی۔ میں عجیب مشکل سے دوچار تھا۔ نہ ہی میں سامنے آنے کی حالت میں تھا اور نہ ہی پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں۔ آگے پیچھے کے راستے مجھے مسدود نظر آرہے تھے۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ان کے گھر کے ہی ایک آدمی کو اعتماد میں لیا اور اس کے ساتھ نریش اور اینا کو روانہ کر دیا۔

    جونہی دلیپ صاحب اینا سے ملنے نیچے اتر آئے تو میں اپنے دل کو تھام کر ایک کونے میں چھپ کر کھڑا رہا۔ وہ آدھے گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اینا نے اپنے محبوب کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ جب تک دلیپ صاحب کے پاس بیٹھی رہی بہت ہی ڈھنگ اور قاعدے سے بیٹھی رہی۔ اس میٹنگ کے دوران سائرہ جی برابر موجود رہیں، مگر اینا نے کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ میٹنگ آدھے پونے گھنٹے کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ اینا کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور میری بات بھی رہ گئی۔ سب سے خوش کن بات یہ تھی کہ ہم سب کی عزّت سلامت رہی۔

    (ہندوستانی ہدایت کار اور ادیب دیپک کنول کی کتاب ‘دلیپ صاحب’ سے)

  • خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    میری این ایوانز المعروف نادیہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی وومن اسٹنٹ تھیں۔ انھیں بے خوف نادیہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انھوں‌ نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی خطرناک مناظر عکس بند کروائے تھے۔

    وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے ایسے اسٹنٹ کیے جنھیں بظاہر بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک مرد بھی شاید کرنے سے انکار کردیتے، لیکن نادیہ نے فلمی دنیا کے لیے حقیقی خطروں کا سامنا کیا اور خوب شہرت پائی۔ وہ 1930ء اور 1940ء کے عشرے میں ہندوستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔

    نادیہ نے ہیروئن یا کسی دوسرے اہم کردار کی جگہ گھڑ سواری کی، پہاڑیوں پر جان بچانے کے لیے بھاگیں، کود کر باڑ عبور کی۔ اسی طرح تیز رفتار ٹرین میں فائٹنگ کے مناظر عکس بند کرواتی اور ندی یا دریا عبور کرکے پار پہنچنے کی کوشش کرتی دکھائی دیں۔ انھوں نے فلم کے سین کی ڈیمانڈ کے لیے خطرناک جانوروں کا سامنا کیا، گھوڑے کی پیٹھ سے چھلانگ لگائی، تلوار چلائی اور انھیں فضا میں ہوائی جہاز سے بھی لٹکتا ہوا دیکھا گیا۔ انھوں نے نہایت سنسنی خیز اور جان کو خطرے میں‌ ڈال دینے والے سین کیے جس پر انھیں ’اسنٹنٹ کوئن‘ کہا جانے لگا تھا۔

    نادیہ کا جنم آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں سن 1908 میں ہوا تھا۔ ان کے والد برطانوی اور ماں یونان نسل کی تھیں۔ ان کے والد کا نام اسکاٹ مین ہربرٹ ایوانز تھا۔ وہ برطانوی فوج میں رضاکار تھے۔ میری 1913ء میں کم عمری ممبئی میں آئیں جب ان کے والد برطانوی فوجی کی حیثیت سے لڑ رہے تھے۔ 1915ء میں پہلی جنگِ عظیم میں محاذ پر بھیجے گئے اور وہاں‌ لڑائی کے دوران مارے گئے۔ تب نادیہ کی والدہ پشاور منتقل ہوگئیں۔ یہاں اپنے قیام کے دوران نادیہ نے گھڑ سواری اور رقص میں مہارت حاصل کی۔ وہ 1928ء میں ممبئی چلی گئیں‌ جہاں ابتدا میں سرکس میں کام کیا اور وہیں‌ انھیں نادیہ کا نام دیا گیا۔

    فلم ساز جمشید بومنا ہومی واڈیا (جے بی ایچ) نے انھیں بڑے پردے پر چھوٹا سا کردار دیا اور وہ 1933ء میں پہلی بار فلم ’دیش دیپک‘ میں نظر آئیں۔ نادیہ ایک مضبوط جسم کی مالک اور خاصی پھرتیلی تھیں جنھوں نے سرکس سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اسی بنیاد پر مسٹر واڈیا نے ان کی شخصیت کے مطابق ایک فلم ’ہنٹر والی‘ بنائی، اور نادیہ کو مرکزی کردار سونپا۔ اس فلم میں وہ ایک شہزادی بنی تھیں‌، جو اپنے والد کی سلطنت میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لڑتی ہے۔ یہ فلم ہٹ ہوئی۔ نادیہ نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران کل 38 فلموں میں کردار ادا کیے اور مختلف اسٹنٹ کیے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر کردار ناانصافی کے خلاف اور عورت کے حق کے لیے لڑائی والے تھے، جس نے نادیہ کو ہندوستانیوں‌ سے توجہ اور محبّت سمیٹنے کا موقع دیا اور وہ صرف اداکارہ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر بھی دیکھی گئیں۔

    نادیہ نے فلم ساز ہومی واڈیا سے شادی کی تھی۔ وہ 8 جنوری 1908ء کو پیدا ہوئی تھیں اور ممبئی میں 9 جنوری 1996ء کو وفات پائی۔

  • بولی ووڈ میں‌ نئے سال کے پہلے ہفتے کا خوف

    بولی ووڈ میں‌ نئے سال کے پہلے ہفتے کا خوف

    کیا آپ جانتے ہیں کہ نئے سال کا پہلا ہفتہ بولی ووڈ کی فلموں کے لیے اچّھا ثابت نہیں‌ ہوتا۔ یہ ایسا خوف ہے کہ سال کے پہلے جمعے کو کوئی فلم نمائش کے لیے پیش نہیں‌ کرنا چاہتا۔

    بھارت میں فلم سازوں کے اس وہم کی بنیاد وہ اعداد و شمار ہیں‌ جن سے ظاہر ہوتا ہے نئے سال کے آغاز پر ریلیز ہونے والی بیش تر فلمیں‌ ناکام ہوئیں۔ بولی ووڈ میں‌ مشہور ہے کہ سال کے پہلے جمعے پر ریلیز ہونے والی فلمیں‌ یا تو بری طرح فلاپ ہوتی ہیں یا پھر اچّھا بزنس نہیں کر پاتیں۔

    اسے ایک وہم یا مفروضہ کہہ کر مسترد کردینا کسی کے لیے بھی بہت آسان ہے، لیکن بھاری بجٹ سے تیار کی جانے والی فلموں اور ان کی تشہیر پر خرچ کی جانے والی رقم ضایع ہونے کا خوف فلم سازوں اور کمپنیوں کو اس سے باز رکھتا ہے۔‌ فلم انڈسٹری کے بڑے فلم ساز ادارے بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں‌ اور اس حوالے سے ان اعداد و شمار کو پیش کرتے ہیں‌ جن سے واضح ہے کہ سال کے پہلے ہفتے میں ریلیز ہونے والی فلمیں اصل سرمایہ بھی نہیں‌ لوٹا سکیں۔

    اگر صرف 2007ء کے بعد دس سال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گاکہ اس عرصے میں جمعے کو ریلیز ہونے والی فلموں میں صرف ’نو ون كلڈ جیسیکا‘ نے اچّھا بزنس کیا تھا، لیکن ایسی کسی فلم کو شائقین کی وہ تعداد میسر نہیں‌ آئی جس سے اخراجات پورے ہوئے ہوں۔

    ماہرین کے مطابق یہ صرف ایک خوف نہیں‌ بلکہ اس کے کئی اسباب بھی ہیں۔

    اس کا ایک سبب نئے سال میں لوگوں کا فلموں سے زیادہ اپنے کاموں پر توجہ دینا ہے۔ دسمبر کے اختتام تک چھٹیوں کا ماحول بن جاتا ہے اور نئے سال پر لوٹنے والے کاموں پر اور اپنے کاروبار یا معاش سے متعلق نئے اہداف پر توجہ مرکوز کردیتے ہیں اور سنیما کے لیے وقت نہیں‌ نکال پاتے۔ اس کے علاوہ فلموں کی تشہیر کا عمل بھی سست روی کا شکار رہتا ہے۔

    کئی بڑی فلمیں بھی ریلیز کے پہلے ہی ہفتے میں سنیما سے باہر ہوجاتی ہیں اور ہر لحاظ سے مکمل اور بھاری بجٹ کے باوجود شائقین کی توجہ حاصل نہیں‌ کر پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال کے پہلے ہفتے میں بولی ووڈ اور باکس آفس پر کوئی ہلچل اور ہنگامہ نظر نہیں آتا۔

  • ایک سیکرٹ ایجنٹ کی کہانی جو مکمل نہیں ہوسکی

    ایک سیکرٹ ایجنٹ کی کہانی جو مکمل نہیں ہوسکی

    ہندوستانی سنیما میں فن کاروں اور دیگر آرٹسٹوں کے مابین چپقلش، رنجشیں، فلم سازوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور مختلف معاملات پر مختلف نوعیت کے تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ اسی طرح بھاری بجٹ کے ساتھ فن کاروں سے معاہدہ کرکے معاوضہ طے کرنے اور خوب سوچ بچار کرنے کے بعد کسی فلم کی عکس بندی شروع کرنے والے فلم ساز اچانک ہی کام بھی سمیٹ لیتے ہیں اور اکثر اس کی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں لائی جاتی۔

    ہم ایک ایسی ہی فلم کی بات کررہے ہیں جس کی شوٹنگ ہفتے بھر بعد ہی روک دی گئی تھی۔ یہ مشہور ہدایت کار اور اداکار ٹینو آنند کی فلم تھی۔

    1988 میں ٹینو آنند نے اپنی نئی فلم ”شناخت“ کی شوٹنگ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ فلم ساز نے اس کا اعلان کرتے ہوئے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اس میں مرکزی کردار بڑے پردے کے مشہور ہیرو امیتابھ بچن اور مقبول ترین اداکارہ مادھوری ڈکشٹ ادا کریں گے۔

    ٹینو آنند نے فلم کی کہانی کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک ایسے سیکرٹ ایجنٹ کے گرد گھومتی ہے جو ایک مشن کے دوران اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔ یہ کردار امیتابھ بچن ادا کر رہے تھے۔

    شناخت کی شوٹنگ شروع کر دی گئی اور ایک ہفتے تک یہ سلسلہ جاری رہا، مگر ٹینو آنند نے اچانک مزید کام روک دیا۔

    اس پر سوال کیا گیا تو انھوں نے بتای کہ کسی نے توجہ دلائی ہے کہ یہ فلم گنگا جمنا سرسوتی کا چربہ ہے جو اس دور کی ایک کام یاب ترین فلم تھی۔

  • ضد اور انا "دیوا” کو لے ڈوبی

    ضد اور انا "دیوا” کو لے ڈوبی

    بولی وڈ میں پروڈیوسر اور اداکاروں کے درمیان معاوضے یا اسکرپٹ میں ردوبدل اور جھگڑے فلموں کو شوٹنگ شروع ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ہی "انجام” سے دوچار کردینے کا باعث بنتے رہے ہیں۔

    یہاں ہم امیتابھ بچن کی اس فلم کا ذکر کررہے ہیں جس کی شوٹنگ چند ہفتے جاری رہنے کے بعد روک دی گئی تھی۔

    فلم ”دیوا“ کا اسکرپٹ سبھاش گھئی نے خصوصی طور پر لکھوایا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ سپر اسٹار امیتابھ بچن کے ساتھ کام کریں۔ جب اس اسٹوری کے لیے امیتابھ بچن سے بات کی تو انھیں فلم کا اسکرپٹ اور اس میں اپنا کردار پسند آیا اور معاملات طے کرکے شوٹنگ کا آغاز کر دیا گیا۔

    1987 میں اخبارات میں اس فلم کا بڑا چرچا ہوا، مگر اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ فلم کی شوٹنگ روک دی گئی ہے۔

    بولی وڈ سے "اندر” کی خبر لانے والوں کا کہنا تھاکہ انڈسٹری کے دونوں بڑے ناموں کے درمیان کچھ معاملات پر بات بگڑی اور انھوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔

    سبھاش گھئی سمجھتے تھے کہ وہ فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں اس لیے ان کی ہر بات مانی جائے جب کہ بگ باس کا کہنا تھاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کریں گے اور جہاں ضرورت محسوس ہو گی سین میں ردوبدل کروائیں گے۔
    یوں یہ فلم ضد اور انا کی نذر ہو گئی اور چند ہفتوں بعد اس کی شوٹنگ روک دی گئی۔

  • کشمیر سے تعلق رکھنے والی سابق اداکارہ زائرہ وسیم کا پیمانہ صبر بھی لبریز

    کشمیر سے تعلق رکھنے والی سابق اداکارہ زائرہ وسیم کا پیمانہ صبر بھی لبریز

    نئی دہلی: کشمیر سے تعلق رکھنے والی سابق بھارتی اداکارہ زائرہ وسیم کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو گیا، بھارت کے خلاف پھٹ پڑیں۔

    تفصیلات کے مطابق بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں مختصر عرصے میں کئی ایوارڈ حاصل کرنے والی سابق بھارتی اداکارہ زائرہ وسیم نے کہا ہے کہ بھارتی میڈیا کشمیر کی جو تصویر دکھا رہا ہے وہ غلط معلومات پر مبنی ہے، اس پر یقین نہ کریں۔

    زائرہ وسیم نے عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیر سے متعلق بھارتی میڈیا کی غلط حقائق پر مبنی خبروں پر یقین نہ کریں، جو تصویر دکھائی جا رہی ہے وہ درست نہیں ہے۔ زائرہ نے نہایت دکھ سے کہا کہ کوئی نہیں جانتا ہماری آوازیں کب تک کے لیے خاموش کی گئی ہیں، کشمیریوں کی زندگی پابندیوں اور رکاوٹوں تک سمٹ گئی ہے۔

    مقبوضہ کشمیر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے: بی بی سی رپورٹ

    دنگل اداکارہ کا کہنا تھا کہ کشمیر مسلسل تکلیف میں ہے، جہاں مایوسی اور دکھ بڑھ رہا ہے۔ خیال رہے کہ آج برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں لوگوں میں مایوسی اور ڈپریشن کا مرض بڑھ رہا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلسل لاک ڈاؤن اور کرفیو کے شکار مقبوضہ کشمیر میں لوگ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں، پلواما میں ڈپریشن کے مریضوں میں 150 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔ سرینگر میں بھی ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، کشمیریوں میں زیادہ خوف بھارتی فوج کی جانب سے حراست میں لینے کا ہے، کشمیریوں کا کہنا ہے کہ وہ خواب میں بھی بھارتی فوجیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوتے ہیں۔

    یاد رہے کہ زائرہ وسیم کے بالی ووڈ چھوڑنے پر انتہا پسندوں نے انھیں دھمکیاں دی تھیں۔

  • مودی سرکار نے میرے گھر کو تقسیم کر دیا ہے، معروف بھارتی اداکارہ کی شدید تنقید

    مودی سرکار نے میرے گھر کو تقسیم کر دیا ہے، معروف بھارتی اداکارہ کی شدید تنقید

    ممبئی: بالی ووڈ کی اداکارہ پوجا بھٹ نے بھی مودی سرکار کو تنقید کی زد پر رکھ لیا ہے، بھارتی اداکارہ کا کہنا تھا کہ مودی سرکار نے ‘میرے گھر کو تقسیم کر دیا ہے۔’

    تفصیلات کے مطابق انتہا پسند مودی سرکار کے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج بھارت بھر میں جاری ہے، اداکارہ پوجا بھٹ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہریت کے متنازعہ قانون کی حمایت نہیں کرتیں، کیوں کہ اس نے میرے گھر کو تقسیم کر دیا ہے۔

    پوجا بھٹ نے احتجاج کرنے والوں کو سب سے بڑا محب وطن بھی قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے حب الوطنی کی سب سے اعلیٰ شکل ہے، جو طلبہ متنازع قوانین CAA-NRC کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ حکمران جماعت نے ہمیں متحد کر دیا ہے۔

    جواہر نہرو یونی ورسٹی کے طالب علم شرجیل امام، جس کی تلاش میں دہلی پولیس چھاپے مار رہی ہے

    بھارتی ادکارہ نے احتجاج کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ہماری خاموشی ہمیں نہیں بچائے گی، نہ ہی حکومت کو بچا سکے گی، طلبہ ہمیں پیغام دے رہے ہیں کہ یہی وقت ہے اپنی آوازیں بلند کرنے کا، ہم اس وقت تک آواز بلند کرتے رہیں گے جب تک ہماری آواز نہ سنی جائے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت میں عورتیں، شاہین باغ اور لکھنؤ کی مانند، احتجاج جاری رکھیں گی اور خاموش نہیں ہوں گی، یہاں تک کہ ان کی آواز واضح طور پر سن لی جائے۔

    ادھر جواہر نہرو یونی ورسٹی کے طالب علموں کے خلاف 6 ریاستوں میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، شاہین باغ میں تقریر میں آسام، شمال مغربی ریاستوں کی آزادی کی بات کرنے والے طالب علم شرجیل امام کے گھر پر دہلی پولیس نے چھاپا مارا اور ان کے بھائی اور 2 رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا۔ شرجیل امام کی گرفتاری کے لیے ممبئی، پٹنا اور دہلی میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے گئے، ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ شرجیل امام ‘آسام کو انڈیا سے کاٹ دو‘ کی تقریر کے بعد پورے انڈیا میں مشہور ہو گئے ہیں، اور ان کی گرفتاری کے لیے کئی پولیس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

  • قطرینہ کیف کو رنبیر کپور کے ساتھ اداکاری کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا

    قطرینہ کیف کو رنبیر کپور کے ساتھ اداکاری کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا

    بولی ووڈ کی معروف اداکارہ قطرینہ کیف کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بوائے فرینڈ رنبیر کپور کے ساتھ اداکاری کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

    32سالہ اداکارہ نے اپنے حالیہ انٹرویو کے دوران بتایا کہ ان کے خیال کے مطابق آپ جان پہچان والوں کے مقابلے میں اجنبی لوگوں کے سامنے بہتر اداکاری کر سکتے ہیں۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ چونکہ جنہیں آپ قریب سے جانتے ہیں وہ آپکے متعلق تمام حقائق سے واقف ہوتے ہیں لہٰذا آ پ کو یہ احساس شدت سے رہتاہے کہ آپ ان سے جھوٹ بو ل رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق یہ خوبصورت جوڑی آجکل انوراگ باسو کی نئی آنے والی فلم جگا جاسوس میں ایک ساتھ کام کر رہی ہے۔ انوراگ کی جگا جاسوس کے بارے میں کہا جا رہا کہ یہ آئندہ سال جون میں نمائش کیلئے پیش کی جائے گی۔

    واضح رہے اس سے قبل قطرینہ کیف اور رنبیر کپور ’عجب پریم کی غضب کہانی‘ اور ’راج نیتی ‘ میں ایک ساتھ کام کر چکے ہیں۔