Tag: بولی وڈ

  • ابراہیم اشک: مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ابراہیم اشک: مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ابراہیم اشک کو بولی وڈ فلم فلم ’کہو نہ پیا ر ہے‘ سے بطور گیت نگار بے مثال شہرت ملی۔ بولی وڈ کی اس کام یاب فلم میں اداکار ریتھک روشن پہلی مرتبہ بطور ہیرو اسکرین پر نظر آئے تھے۔ فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور ابراہیم اشک کا بولی وڈ میں سفر اسی فلم کی بدولت آگے بڑھا۔

    ابراہیم اشک بھارت کے ان شاعروں اور اہلِ‌ قلم میں‌ سے ایک تھے جنھوں نے اردو اور ہندی دونوں زبانو‌ں میں‌ لکھا۔ وہ 16 جنوری 2022ء کو ممبئی میں کورونا کی وبا میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی تیسری برسی ہے۔ ابراہیم اشک کو ممبئی کے نواح میں قائم ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں وہ ہفتہ بھر زیر علاج رہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    شاعری کے ساتھ ابراہیم اشک نے کہانیاں اور ٹی وی ڈراموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان کا پیشہ صحافت تھا۔ وہ ہندوستان کے متعدد اردو اخبارات سے منسلک رہے۔ ابراہیم اشک جن کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا، وہ بھارت کے معروف شعرا میں سے ایک تھے۔ ابراہیم اشک نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل اور نظم کے علاوہ دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں الہام اور آگہی قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم اشک نے شاعری کے علاوہ ادبی تنقید بھی لکھی۔ اقبال اور غالب پر ابراہیم اشک کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کا ثبوت ہیں۔

    مقبول فلمی گیتوں کے خالق ابراہیم اشک کا تعلق اجین، مدھیہ پردیش سے تھا جہاں وہ 20 جولائی 1951ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اجین میں ہی مکمل ہوئی، بعد میں ابراہیم اشک نے ہندی ادبیات میں ایم اے کیا۔

    وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئے تو اشک تخلّص اختیار کیا۔ بولی وڈ کی فلموں کہو نہ پیار ہے کے علاوہ کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے وہ فلمیں تھیں جن کے گیت ابراہیم اشک نے تحریر کیے اور ان فلموں کے گیت مقبول ہوئے۔ بھارتی فلم انڈسٹری اور گائیکی کی دنیا کے معروف ناموں نے ان کے تحریر کردہ نغمات گائے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    فلم کہو نہ پیار ہے، جس نے بطور نغمہ نگار ابراہیم اشک کو مقبولیت دی، اس کے گیتوں کو شاعر کی کام یابی میں اوّلین اور سرفہرست کہا جاسکتا ہے۔ اس فلم کی ہدایات ریتھک روشن کے والد راکیش روشن نے دی تھیں۔ فلم میں ریتھک روشن کے مقابل امیشا پٹیل ہیروئن کے طور پر جلوہ گر ہوئی تھیں۔ فلم کے دوسرے کرداروں میں انوپم کھیر، جونی لیور اور فریدہ جلال شامل تھیں۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد یہ بات فلم بینوں کے لیے دل چسپی سے خالی نہ تھی کہ ہیروئن کا کردار بولی وڈ اداکارہ کرینہ کپور کو آفر کیا گیا تھا لیکن ان کے انکار کے بعد امیشا پٹیل نے اس فلم میں کام کیا۔ فلم نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے تھے۔ اس سال فلم کہو نہ پیار ہے کی ریلیز کو 25 سال مکمل ہوگئے ہیں۔

  • شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    دنیا میں دو مرکزی طرز کا سنیما تخلیق ہوتا ہے، جس کو کمرشل اور آرٹ سنیما کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں وفات پانے والے بھارتی فلم ساز شیام بینیگل کا تعلق دوسری طرز کے سنیما سے ہے۔ وہ ایک بہت عمدہ اسکرپٹ نویس بھی تھے۔انہوں نے اپنی فلموں میں ہندوستانی سیاست، مسلم سماج، خواتین کی حالت زار اور معاشرتی بدصورتی کو بیان کیا۔ وہ ایک عمدہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ، ادب شناس، سنیما کی دنیا کے فلسفی اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست ہنرمند تھے۔

    شیام بینگل نے سماج میں بہتری کے لیے اپنے حّصے کی شمع سنیما سازی کے ذریعے روشن کی۔ شیام بینگل ہم سے رخصت ہوچکے ہیں، مگر ان کی فلمیں اور کہانیاں، برصغیر پاک و ہند کے منظر نامے پر، انہیں ایک محسن فلم ساز کے طور پر پیش کرتی رہیں گی۔ پاکستان اور اردو زبان کی طرف سے شیام بینگل کو خراج تحسین کرنے کے لیے یہ تحریر پیشِ خدمت ہے۔

    زرخیز ذہن اور متوازی سنیما

    پوری دنیا میں آرٹ سینما جس کو پیررل سینما (متوازی فلمی صنعت) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سینما میں کام کرنے والے فلم سازوں کو سب سے بڑی جس چیز سے واسطہ پڑتا ہے، وہ فکری طور پر مضبوط ہونا ہے، جس طرح کوئی ادیب یا مصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا بھر میں ان فلم سازوں کو متوازی سنیما میں بہت شہرت اور مقبولیت ملی، جنہوں نے اپنے کام کو فکری بنیادوں پر استوار کیا۔ ہم اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بین الاقوامی سینما میں ایسے کئی مقبول نام دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے اس روش کو اختیار کیا اور شان دار فلمیں دنیا کو دیں۔ ان فلم سازوں نے انسانی سوچ اور افکار پر گہرے اثرات مرتب کیے، ان بین الاقوامی متوازی سینما کے فلم سازوں میں الفریڈ ہچکاک (اٹلی) فرانسز فورڈ کوپولا (امریکا)، آکیراکورو ساوا (جاپان)، مارٹن سیکورسیزی (امریکا)، فیڈریکو فیلینی (اٹلی) جیسے مہان فلم ساز شامل ہیں، جب کہ انڈیا سے بنگالی فلم ساز ستیا جیت رے، مرینال سین، ریتوک گھاتک جیسے ہیرے بھی متوازی سینما میں عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں۔ پاکستان سے اے جے کاردار اور جمیل دہلوی بھی اسی قبیلے کے فلم ساز ہیں، جس سے شیام بینیگل کا تعلق تھا۔ یہ تمام فلم ساز فکری اساس رکھنے والے، حساس طبیعت کے مالک فلم ساز تھے، جنہوں نے انسانی کیفیات اور احساسات کو بڑے پردے پر ایسے پیش کیا، جس طرح کوئی ادیب کہانی لکھ کر اظہار خیال کرتا ہے۔

    فلمی کہانیوں اور تخلیقی ادب کے مابین تعلق

    شیام بینیگل کی فلموں کی کہانیوں اور ادب کے درمیان گہرا تعلق ہے، کیونکہ وہ ادب کے بھی رسیا تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی فلموں کے اسکرپٹس کی بنیاد مختلف زبانوں میں تخلیق کیے گئے ادب پر رکھی اور ساتھ ساتھ ادبی تحریکوں کے اثرات بھی فلمی دنیا میں منتقل کیے۔

    ان کی چند مقبول فلموں میں اس تعلق کو دیکھا جا سکتا ہے اور مختلف ادبی تحاریک کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی فلم انکور جو 1974 میں ریلیز ہوئی، اس فلم کی کہانی تھامس ہارڈی جارج ایلیٹ کے کئی کہانیوں سے مماثلت رکھتی ہے، خاص طورپر جس طرح اس میں انگریزی ادب میں وارد ہونے والی ادبی تحریک realism یعنی حقیقت پسندی کو برتا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی دیہی ہندوستان کے پس منظر میں جاگیردارانہ نظام کے جبر اور انسانی رشتوں کی زبوں حالی کی عکاسی کرتی ہے۔

    ایک اور مشہور فلم بھومیکا 1977 میں ریلیز ہوئی، جس کی کہانی ہنسا واڈکر کے سوانحی ناول سنگتی ایکا سے ماخوذ تھی، جس میں ایک عورت کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مابین رکاوٹوں کی عکاسی کی گئی۔ یہ فلم ادبی تحریک حقوق نسواں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور فلم جنون جو 1978 میں ریلیز ہوئی، اس کے اسکرپٹ کی بنیاد رسکن بانڈ کا ناول اے فلائٹ آف پیجنز تھا۔ اس ناول میں اٹھارہ سو ستاون کے تناظر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کہانی کو بیان کیا گیا۔

    اسی طرز پر مزید چند فلموں کا احاطہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کہانیوں پر بھی کافی ادبی چھاپ ہے، جیسا کہ 1981 میں ریلیز ہونے والی فلم کلیوگ ہے، جس کی کہانی مہا بھارت سے ماخوذ ہے اور عہدِ جدید میں کارپوریٹ ثقافت کی اثر اندازی کو مخاطب کرتی ہے، جس میں سرمایہ دارانہ نظام، جدیدیت کے نظریات ہیں، جن کو ادب میں موضوع بنایا گیا۔ 1983 میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم منڈی جس کو غلام عباس کی مختصر کہانی سے اخذ کرکے فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا گیا۔ اس کہانی میں بھارتی نوکر شاہی اور دیہاتی ہندوستان میں ہونے والی کرپشن کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ عورت بطور طوائف اور دیگر رشتوں میں اس کی اہمیت کے تانے بانے کو بھی کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ 1985 میں ریلیز ہونے والی فلم تریکال گوا میں رہنے والے ایک خاندان کی کہانی ہے، جس کو نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی میں جیمز جوائس کی کہانیوں کا نقش دکھائی دیتا ہے۔

    شیام بینیگل کی فلموں کا مزید جائزہ لیا جائے تو 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم زبیدہ کی کہانی، تخلیق کار اور ادیب خالد محمد کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ شاہی زندگی میں قید ایک عورت جو بغاوت پر آمادہ ہے، کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔

    ایک رومانوی المیے پر مبنی یہ فلم اپنے وقت کی خوبصورت اور یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور شیام بینیگل کے تخلیقی ذہن کی انتہا بھی ، جس کو دیکھتے ہوئے فلم بین اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔ اس کہانی کے پس منظر میں کہیں ہمیں برطانوی ادب کی برونٹے سسٹرز کے اثرات بھی مرتب ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔

    2009 میں ریلیز شدہ فلم شاباش ابّا اردو کی معروف ہندوستانی ادیبہ جیلانی بانو کی تین کہانیوں سے ماخوذ ہے، جو ہندوستان میں نوکر شاہی طبقے پر لطیف پیرائے میں طنز ہے۔ انہوں نے مختلف سیاسی شخصیات پر بھی فلمیں بنائیں، جن میں بالخصوص مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس اور شیخ مجیب الرحمان سرفہرست ہیں جب کہ دستاویزی فلموں کے تناظر میں جواہر لعل نہرو اور ستیا جیت رے جیسی شخصیات پر بھی کام کیا۔ یہ تمام طرز بیان ہمیں شیام بینیگل کے سنیما اور ان کی فکر اور دانش کی مکمل تفہیم دیتا ہے۔

    پسندیدہ کردار اور محبوب عورتیں

    شیام بینیگل کے ہاں صرف دلچسپی کردار اور کہانی تک محدود نہیں تھی، وہ اپنی فلموں میں کرداروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ان کو ادا کرنے والے اداکار یا اداکارائیں کون ہوں گی، اگر ان کو محسوس ہوا کہ کوئی فن کار ان کے کرداروں کی نفسیات کو سمجھ رہا ہے اور ان کی ذہنی ہم آہنگی ان سے اچھی ہورہی ہے تو پھر وہ اس کے ساتھ باربار کام کرتے تھے، یہ معاملہ خاص طورپر اداکاراؤں کے لیے کئی بار ہوا، جیسا کہ سمیتا پاٹیل ، شبانہ اعظمی اور نینا گپت اکی مثالیں سامنے ہیں۔ خاص طور پر اپنے کیریئر کی ابتدائی فلمیں صرف سمیتا پاٹیل کے ساتھ کیں اور سب ایک کے بعد ایک مقبول بھی ہوئیں۔ ان کی فلموں میں دیگر جو اداکارائیں شامل ہوئیں، ان میں ریکھا، نینا گپتا، ایلا ارون، لیلیٰ نائیڈو، فریدہ جلال، کیرن کھیر، سریکا سکری، راجیشوری سچدیو، نندیتا داس، کرشمہ کپور، لیلیتے ڈوبے، دیویادتا، امرتا راؤ، منیشا لامبا اور نصرت امروز تیشا اور نصرت فاریہ شامل ہیں۔

    بالی ووڈ پر عنایات 

    شیام بینیگل نے سماجی قیود کی تاریکی میں جہاں اپنے حصے کی شمع روشن کی، وہاں کچھ ایسے چراغ بھی جلائے، جن کی روشنی سے ابھی تک معاشرہ منور ہے۔ جی ہاں، انہوں نے اننت ناگ جیسے اداکار اور شبانہ اعظمی جیسی اداکارہ فلمی دنیا میں متعارف کروائی۔ دیگر فن کاروں میں سمیتا پاٹیل اور نینا گپتا جیسی اداکارہ کو مقبول اداکارائیں بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ نصیرالدین شاہ، اوم پوری، رجت کپور جیسے اداکاروں کے کیریئر کو استحکام دیا۔ ان کی فلموں میں کام کرنے والے اداکار آگے چل کر بڑے فن کار بنے اور انہوں نے بالی ووڈ کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں معاونت کی۔ انہی کی وجہ سے کمرشل سنیما میں بھی ادبی اور تخلیقی رنگ بھرے گئے اور بہت ساری اچھی کمرشل فلمیں، آرٹ سنیما میں کام کرنے والے ان اداکاروں کی وجہ سے بہترین ثابت ہوئیں۔

    انہوں نے فیچر فلموں کے علاوہ، دستاویزی فلمیں، مختصر دورانیے کی فلمیں، ٹیلی وژن ڈراما سیریز بنائیں۔ وہ مستقبل میں معروف برطانوی شخصیت نور عنایت خان جس نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی جاسوس کے طور پر شہرت حاصل کی، ان کی زندگی پر فلم بنانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے 80 کی دہائی کے بعد جب آرٹ سنیما زوال پذیر ہونا شروع ہوا، تو فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر کے خود کو چھوٹی اسکرین (ٹیلی وژن) تک محدود کر لیا مگر خود کو کمرشل سنیما کے حوالے نہیں کیا۔ بعد میں چند ایک فلمیں بنائیں، مگر وہ کامیاب نہ ہوئیں، جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر مرکزی سنیما سے دور ہو گئے۔وہ کہتے تھے کہ فلم ڈائریکٹر کا میڈیم ہے، لیکن بالی ووڈ میں اب ہیرو ازم کو طاری کر لیا گیا ہے، جو فلمی دنیا کے لیے نقصان دہ ہے۔ موجودہ سنیما کی بے توقیری اور عمدہ موضوعات سے عاری فلمیں اس بات پر تصدیق کی مہر ثبت کرتی ہیں۔

    خراجِ تحسین 

    ہرچند کہ شیام بینیگل بھارت سے تعلق رکھنے والے فلم ساز تھے، لیکن انہوں نے جو بامعنی سنیما تخلیق کیا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت جہاں جہاں اردو اور ہندی بولنے سمجھنے والے موجود تھے، وہ فیض یاب ہوئے۔ ایسے بے مثل فن کار، عمدہ فلم ساز اور حساس دل رکھنے والے اس ہنرمند کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے دنیا کو سنیما کے ذریعے باشعور کیا اور دکھی دلوں کی آواز بنے۔

     

  • فلمی دنیا کے وہ نام جو اپنی شہرت برقرار نہ رکھ سکے

    فلمی دنیا کے وہ نام جو اپنی شہرت برقرار نہ رکھ سکے

    تقسیمِ ہند کے بعد چند سال تک پاکستان اور بھارت کی فلم انڈسٹریوں میں فن کاروں‌ کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ فلموں کی نمائش کا منافع بخش کاروبار بھی ہوتا رہا، لیکن پھر حالات بدل گئے اور سنیما پر نمائش کا یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ مگر چند دہائیوں پہلے تک پاکستان میں انڈین فلموں کے کیسٹ خوب فروخت ہوتے تھے۔ اس دور کے شائقین کو بولی وڈ کے وہ نام شاید یاد ہوں جنھوں نے اپنی پہلی ہی فلم سے شہرت اور مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کرلیے۔ مگر پھر وہ بڑے پردے پر دوبارہ نہیں دکھائی دیے۔

    فلمی دنیا میں‌ جن فن کاروں‌ کی قسمت کا ستارہ چمکا اور معدوم ہوگیا، ان میں گورو کمار بھی شامل ہیں جو بولی وڈ کے مشہور اداکار راجندر کمار کے بیٹے ہیں۔

    کمار گورو کی پہلی فلم ’لو اسٹوری‘ تھی۔ 1981ء کی یہ سپر ہٹ فلم تھی جس کے بعد اداکار نے اپنا سفر جاری رکھنے کی ٹھانی مگر قسمت کی دیوی اداکار پر مہربان نہیں ہوئی۔ پہلی فلم کے بعد کمار گورو کو بولی وڈ میں خاطر خواہ کام یابی نہ مل سکی۔ کمار گورو کا بولی وڈ میں سفر جلد ہی تمام ہوگیا۔ ’لو اسٹوری‘ کی بدولت گورو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئے تھے۔ اس زبردست پذیرائی کو دیکھ کر راجندر صاحب کے کہنے پر فلم سازوں نے گورو کو مزید فلموں میں مرکزی کردار سونپے، لیکن ان کی کوئی فلم قابلِ‌ ذکر ثابت نہیں ہوسکی۔

    مہیش بھٹ کی فلم ’نام‘ میں کمار گورو نے ایک مرتبہ پھر خود کو آزمایا مگر نہیں چل سکے۔ 2002 میں فلم ’کانٹے‘ میں گورو کمار نے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی، مگر اس مرتبہ بھی ان کے مقدر کا ستارہ نہیں چمکا۔

    بولی وڈ میں کپور خاندان کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ پرتھوی راج کپور سے رنبیر کپور تک ہر نسل نے فلموں میں قسمت آزمائی کی اور شہرت بھی حاصل کی۔ لیکن اس خاندان کے چند نام ایسے ہیں جو اپنے بڑوں کی شہرت اور تعلقات کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ ان میں سب سے بڑی مثال راج کپور کے بیٹے راجیو کپور کی ہے جن کی ’رام تیری گنگا میلی‘ جیسی سپر ہٹ فلم میں منداكنی کے ساتھ جوڑی بھی خوب مقبول ہوئی۔ مگر راجیو کو بڑے پردے پر 10 سے 12 فلمیں کرکے بھی کچھ نہ ملا۔

    راجیو ان ناکامیوں کے بعد اسکرین سے غائب ہو گئے۔ راجیو کے علاوہ ششی کپور کے بیٹے کنال اور کرن کپور کا حال تو اس سے بھی برا ہوا اور وہ کوئی قابلِ ذکر فلم نہیں حاصل کرسکے۔

    بھاگیہ شری کا نام فلم ’میں نے پیار کیا‘ کے بعد شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ اسے شاید دماغ بہت ہوگیا تھا یا دماغ نے درست فیصلہ کرنے کی سکت کھو دی تھی۔ شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ کر اس اداکارہ نے شادی کا اعلان کیا اور یہ تک کہہ دیا کہ وہ جو بھی فلم کرے گی اپنے شوہر ہماليہ کے ساتھ ہی کرے گی۔ دوسرے لفظوں میں اس نے کہا تھاکہ وہ کسی اور ہیرو کے ساتھ کام نہیں کرے گی۔ اور تب وہ بولی وڈ میں زیرو ہوگئی۔ بعد میں بھاگیہ شری کو بھوجپوری، مراٹھی اور جنوبی بھارتی فلموں کے علاوہ ٹی وی پر کام کرتے دیکھا گیا۔

    راہول رائے اور انو اگروال کی فلم ’عاشقی‘ 1990 میں بنی تھی۔ اس فلم کے ہیرو ہیروئن کو جو شہرت ملی وہ بلاشبہ انھیں انڈسٹری کے چند خوش قسمت فن کاروں‌ میں سے ایک ثابت کرتی ہے۔ راہول اور انو اگروال اس زمانے میں نوجوانوں کے دلوں میں بستے تھے۔ بھارت میں اکثر نوجوان راہول کا ہیئر اسٹائل کی نقل کرتے تھے اور لڑکیوں کے بالوں میں وہی ربن نظر آتا تھا جو فلم کی ہیروئن یعنی انو کے بالوں میں انھوں نے دیکھا تھا۔ اس مقبولیت کے باوجود ان فن کاروں کو بڑے پردے پر مزید کام یابی نہیں ملی۔

    فلم ’سوداگر‘ میں منیشا كوئرالا کے ساتھ وویک مشران نے بڑی داد سمیٹی تھی۔ یہ سبھاش گھئی کی فلم تھی لیکن شائقین اور ناقدین کے چاہنے اور سراہنے کے بعد اس اداکار کو گویا نظر لگ گئی۔ وویک نے ’رام جانے‘ اور ’فرسٹ لو لیٹر‘ جیسی فلمیں کیں مگر کام یابی نہ ملی۔ بعد میں وویک نے ٹی وی کا رخ کیا۔

    50 کی دہائی میں ’جادو‘ وہ فلم تھی جسے بہت کام یابی ملی اور اداکارہ نلنی جيوت کے ساتھ ہیرو کے طور پر سوریش کو بھی بہت سراہا گیا۔ مگر اداکار اس کے بعد فلم نگری میں نظر نہیں آئے۔

    سپر ہٹ فلم ’دوستی‘ کے اہم اداکار سشیل کمار اور سدھیر کمار کا بھی یہی حال رہا۔ ان کے علاوہ بھی ہندی سنیما کے کئی اور نام ایسے ہیں جنھیں اپنی پہلی کام یاب فلم کے بعد دوبارہ بڑے پردے پر نہیں دیکھا گیا۔

  • مادھوری ڈکشٹ کے ‘ہیرو’

    مادھوری ڈکشٹ کے ‘ہیرو’

    مادھوری ڈکشٹ نے شہرت اور مقبولیت کے کئی برسوں پر محیط اپنے سفر میں بلاشبہ کروڑوں دلوں‌ پر راج کیا۔ بہترین اداکاری اور شان دار رقص کے بل بوتے پر مادھوری ایک عرصہ تک اسکرین پر چھائی رہی ہیں۔

    آج بھی بولی وڈ فلم اسٹار کا جادو برقرار ہے۔ اداکارہ کی شہرت کا سفر 1990ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا، جس میں مادھوری نے اپنے وقت کے لیجنڈ اداکاروں دلیپ کمار، جتیندر، امیتابھ بچن، ونود کھنہ کے ساتھ کام کیا اور بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے مقبول ترین ہیرو عامر خان، سلمان خاں، شاہ رخ خاں، انیل کپور، سنجے دت، متھن چکرورتی اور دیگر کے ساتھ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔

    یہاں ہم اپنے وقت کے معروف و مقبول فلمی رسالے "شمع” کے 1990ء کے ایک شمارے میں مادھوری ڈکشٹ کے اپنے ساتھی مرد اداکاروں سے متعلق تاثرات شایع ہوئے تھے جس میں سے فلم اسٹار سنجے دت اور گوندا کے بارے میں ہم مادھوری ڈکشٹ کے خیالات یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    سنجے دت
    سنجے بابا کو میں شرارتوں کی پوٹ کہتی ہوں۔ ہنسنے ہنسانے سے وہ کسی وقت بھی باز نہیں رہ سکتا۔ اس کی موجودگی میں ساتھی ستارے اپنی ہنسی پر قابو پا ہی نہیں سکتے۔ وہ خود خوشی کے پَروں پر اڑ رہا ہو یا کسی غم کے دور سے گزر رہا ہو۔ اس کی بشاشت کسی بھی حال میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ سنجو کے ساتھ بمبئی، مدراس، حیدرآباد، کہیں بھی سیٹ پر یا لوکیشن پر میری شوٹنگ ہوتی ہے تو وہ مجھے دل کھول کر قہقہے لگانے کے مواقع فراہم کر دیتا ہے۔ شکار اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اپنے شکار کے واقعات وہ اس انداز سے سناتا ہے کہ مزہ آ جاتا ہے۔ حوصلے کا یہ عالم ہے کہ جب اس کا کیریئر اسے ڈانوا ڈول ہوتا دکھائی دے رہا تھا تو بھی مسکراہٹ ہر آن اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی تھی۔

    گووندا
    سنجو کی طرح گووندا بھی ہمیشہ ہسنتا، مسکراتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اندر برتری کا احساس نام کو بھی نہیں۔ انا اسے کبھی پریشان نہیں کرتی۔ زندگی کی حرارت اس کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ اتنا چلبلا ہے کہ سیٹ پر ہر پل ایک سرے سے دوسرے سرے تک لپکتا نظر آئے گا۔ خوب قہقہے لگاتا ہے، خوب زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ بہت اچھا ڈانسر ہے اس سے بھی بڑھ کر ایک اچھا انسان ، ایک چاہنے والا شوہر، ایک جان چھڑکنے والا باپ۔ پہلے دن جب میں ، ‘پاپ کا انت’ کے لئے اس کے ساتھ شوٹنگ کرنے کی غرض سے پہنچی تو دل ہی دل میں کافی ڈر رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے فلم ‘سدا سہاگن’ میں اس کے ساتھ کام کرنے کی ٹی راما راؤ کی آفر نامنظور کر دی تھی اور اس واقعہ کے بعد پہلی مرتبہ اس کا اور میرا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔ رسالوں، اخباروں نے اس واقعہ کو اس طرح اچھالا تھا کہ رائی کا پربت بنا دیا تھا، اور مجھے ویمپ کا درجہ دے ڈالا تھا۔ لیکن پاپ کا انت کے سیٹ پر گووندا کے رویہ میں رنجش کی کوئی جھلک نہ تھی۔ وہ بہت تپاک سے ملا اور اس طرح میری ساری بوکھلاہٹ دور ہو گئی۔ اس نے مجھ سے یہ کہا کہ اگر میری جگہ وہ ہوتا تو کسی آفر کے پرکشش نہ ہونے کی صورت میں وہ بھی صاف انکار کر دیتا۔ میں نے بھی اسے بتا دیا کہ اگر میں نے اس فلم میں کام کرنا قبول نہیں کیا تھا تو اس کا سبب رول کا غیر اہم ہونا تھا۔ گووندا کے خلاف میرے دل میں کوئی جذبہ نہ تھا۔ بعد میں یہ رول انورادھا پٹیل نے کیا اور دیکھنے والوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا کہ یہ رول نہ ہونے کے برابر تھا۔

  • ودیا بالن کی نئی فلم ’نیت‘ بھی ہالی وڈ فلم کا چربہ

    ودیا بالن کی نئی فلم ’نیت‘ بھی ہالی وڈ فلم کا چربہ

    بولی وڈ دنیا کی چند بڑی فلمی صنعتوں میں سے ایک ہے مگر کیا وہاں کے ہدایتکار اور رائٹرز اوریجنل کام بھی کرتے ہیں؟

    ویسے یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ سب بولی وڈ فلمیں ہی غیرملکی یا ہولی وڈ فلموں کی نقل ہوتی ہیں، یقیناً وہاں اپنی صلاحیت یا اوریجنل فلمیں بھی بنتی ہیں مگر اکثر بولی وڈ فلموں کا مرکزی خیال لے کر فلم بنائی جاتی ہے۔

    تاہم اب بالی وڈ کی اداکارہ ودیا بالن 3 سال کے بعد بڑے پردے پر واپسی آرہی ہیں لیکن یہ کہا جارہا ہے کہ ان کی نئی فلم ’ نیت‘ بالی وڈ کی فلم کا چربہ ہے۔

    ودیا بالن کی نئی فلم ‘نیت کا پری ٹیزر جاری کیا گیا ہے جسے سوشل میڈیا صارفین نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس پر تنقید کے نشتر برساتے ہوئے اسے ہالی وڈ فلم  ’نائیوز آؤٹ‘ کاچربہ قرار دیا ہے۔

    بڑے پردے پر واپسی، ودیا بالن کی نئی فلم کا ٹیزر جاری

    فلم سسپنس سے بھرا ہوا ہے، 17 سکینڈ کے ٹیزر میں آگ، پانی اور گھڑی دیکھا گیا ہے، ٹیزر میں سنا جاسکتا ہے کہ لوگوں تیار ہو جاؤ۔

    اس فلم میں اداکارہ ودیا بالن ایک جاسوس کا کردار ادا کررہی ہیں، فلم کا پلاٹ ایک ایسے جاسوس پر مرکوز ہے جو ایک ارب پتی کی مشکوک پارٹی میں پراسرار قتل کی تحقیقات کررہی ہے جہاں تمام مشتبہ افراد ایک یا دو راز چھپاتے نظر آتے ہیں۔

    جبکہ 2019 میں ریلیز ہونے والی  ہالی وڈ فلم ’ نائیوز آؤٹ کی کہانی بھی کچھ اس طرح کی تھی، اس فلم میں مرکزی کرادار بھی جاسوس کا تھا، جو ایک ناول نگار کی موت اور اس کے پریشان کن خاندان کا جھوٹ پکڑتی ہے جو ایک دوسرے سے کئی راز چھپائے پھرتے تھے۔

    اس فلم میں بالی وڈ کی اداکارہ ودیا بالن سمیت رام کپور، پراجکتا کولی، راہول بوس، شاہانہ گوسوامی، دیپنیتا شرما اور دیگر شامل ہیں۔

    سسپنس تھرلر فلم نیت 17 جولائی کو تھیٹر کی زینت بنے گی، اس فلم کو پریا وینکٹارمن، گیروانی دھیانی نے لکھا ہے اس فلم کے ڈائریکٹر انو ہے۔

  • نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    ہر عہد جو دس، بیس، تیس سال پر محیط ہوتا ہے اپنا الگ موسم رکھتا ہے۔

    کسی عہد پر بہار کی حکومت ہوتی ہے اور کسی عہد پر خزاں کا راج ہوتا ہے۔ اور اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ کسی عہد میں دیو زاد ہستیاں ابھرتی ہیں اور کسی عہد میں بونے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کے لوگ اپنی بڑائی کی ڈینگ ہانکتے رہتے ہیں۔ نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی۔

    یہ وہ عہد تھا جس میں سیاست کی دنیا پر مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کا سایہ تھا۔ ادب میں ٹیگور اور اقبال کے انتقال کے بعد بھی انہیں کی حکم رانی تھی اور جوش ملیح آبادی کا جاہ و جلال تھا۔ فلمی دنیا کے ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں میں محبوب خاں اور شانتا رام کا سکہ چلتا تھا۔ ان کے بعد والی نسل میں جو نرگس کی ہم عمر تھی راج کپور، دلیپ کمار اور گرو دَت جیسے فن کار تھے اور ان کے پیش رو سہگل، پرتھوی راج اور اشوک کمار تھے۔

    نرگس کی ہم عمر ہیروئنوں میں مینا کماری جیسی باکمال اور وجنتی مالا جیسی دلنواز ہستیاں تھیں۔ ستاروں کے اس خوب صورت جھرمٹ میں نرگس اپنے نور کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو سب سے پہلے اس عمر میں دیکھا تھا جب یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ فن کی اُن بلندیوں کو چُھوئے گی جن کی حسرت میں نہ جانے کتنے فن کار اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں۔

    1942ء میں جب میں بمبئی آیا تھا تو دو تین سال کے اندر نرگس کی والدہ جدن بائی کا نام سنا۔ وہ مرین ڈرائیو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھیں اور مجھے کئی بار جوش ملیح آبادی کے ساتھ شیٹو ونڈسر میں جانے کا موقع ملا۔ جدن بائی خود ایک باوقار شخصیت کی مالک تھیں اور ان کی زندگی میں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ تھا۔ ورنہ جوش ملیح آبادی جیسا تنک مزاج اور بلند مرتبہ شاعر وہاں ہرگز نہ جاتا۔ میں نے وہاں نرگس کو کم عمری کے عالم میں دیکھا تھا۔

    وہ زمانہ ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ تھا اور جدن بائی بھی اکثر نرگس کے ساتھ ہمارے جلسوں میں شریک ہوتی تھیں۔ اس زمانے کی ایک تصویر میرے پاس تھی جس میں جدن بائی اور نرگس بیٹھی ہوئی سجاد ظہیر کی تقریر سن رہی ہیں۔ ہم ترقی پسند مشاعروں اور جلسوں کے لیے جدن بائی سے چندہ بھی حاصل کرتے تھے۔ 1947ء سے پہلے بمبئی کی ایک پنجاب ایسوسی ایشن ہر سال یومِ اقبال مناتی تھی۔ نرگس جدن بائی کے ساتھ ان جلسوں میں بھی شریک ہوتی تھی۔ فلمی زندگی کی مصروفیات کے باوجود ادب اور شاعری کا یہ ذوق نرگس میں آخر وقت تک باقی رہا۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    ایک روز دسمبر 1953ء میں، مَیں ماسکو کے ایک ہوٹل میں چلی کے شاعر پابلو نرودا، ترکی کے شاعر ناظم حکمت، سویت ادیب ایلیا اہرن برگ اور میکسیکو کے ناول نگار امارد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دورانِ گفتگو "آوارہ” کا ذکر آیا۔ ناظم حکمت جو ایک صوفے پر لیٹا ہوا تھا ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اتنی خوب صورت لڑکی اس سے پہلے اسکرین پر نہیں آئی تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ نرگس کے سادہ اور پُر وقار چہرے میں وہ کون سا حُسن آگیا جس نے ناظم حکمت کو تڑپا دیا اور سوویت یونین کے نوجوانوں کو دیوانہ کر دیا۔ یہ اس کے فن کا حُسن تھا جس نے اس کی پوری شخصیت کو بدل دیا تھا۔ اور چہرے کو وہ تاب ناکی دے دی تھی جو صرف عظیم فن کاروں کو فطرت کی طرف سے عطیہ کے طور پر ملتی ہے۔ نرگس کو جو مقبولیت سوویت یونین میں ملی، وہی مقبولیت ہندوستان میں بھی حاصل تھی لیکن یہ سستی قسم کی فلمی مقبولیت نہیں تھی۔ لوگوں کی نظروں میں نرگس کا احترام تھا۔

    فلمی دنیا بڑی حد تک نمائشی ہے جس کو شو بزنس کہا جاتا ہے اور اپنی مقبولیت کے زمانے میں بہت سے فلمی ستاروں کو اس بات کا اندازہ نہیں رہ جاتا کہ ان کی مقبولیت میں نمائش کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ اور وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نرگس کو اپنی فلمی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی دل چسپی تھی، سیاست سے بھی لگاؤ تھا۔

    نرگس کی آخری اور شہکار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

    (ممتاز ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کے مضمون سے اقتباس)

  • یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    بالی وڈ کے معروف مزاحیہ اداکار جگدیپ گزشتہ سال 8 جولائی کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے بالی وڈ کی مشہور اور کام یاب ترین فلم شعلے کے ایک کردار سورما بھوپالی کے سبب شہرت اور مقبولیت حاصل کی تھی۔

    جگدیپ کا اصل نام سّید اشتیاق احمد جعفری تھا۔ وہ 29 مارچ 1939ء کو مدھیہ پردیش کے شہر داتیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کیریئر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ فلم افسانہ سے ہوا اور بعد میں‌ جگدیپ کے نام سے انھیں کئی فلموں میں اہم اور نمایاں کردار نبھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے چار سے سو زائد فلموں‌ میں کام کیا جن میں‌ سے اکثر سپرہٹ اور یادگار ثابت ہوئیں۔

    1957ء میں بمل رائے کی فلم دو بیگھا زمین نے ان کے کیریئر کو مہمیز دی اور یہاں سے وہ ایک کامیڈین کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں‌ نے 1975ء میں فلم شعلے میں جگدیپ نے سورما بھوپالی کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ لوگوں کے دلوں میں‌ اتر گئے۔ کہتے ہیں ان کے اس کردار نے گویا بھوپال کا کلچر ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ اپنے اس کردار میں انھوں نے اپنے اندازِ تخاطب سے جان ڈالی تھی اور ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنا رول نبھانے کے لیے جس قدر محنت کی تھی، اسی کی بدولت یہ کردار ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ سورما بھوپالی کا یہ کردار لکڑی کا ایک تاجر ہے جو بہت زیادہ پان کھاتا ہے اور مخصوص لب و لہجے میں‌ بات کرتا ہے۔

    جگدیپ کی یادگار فلموں میں شعلے کے علاوہ انداز اپنا اپنا، افسانہ، آر پار اور دیگر شامل ہیں۔ انھیں آخری بار 2017ء میں فلم ’مستی نہیں سستی‘ میں دیکھا گیا تھا۔

    جگدیپ کے تین بیٹے جاوید جعفری، نوید جعفری اور حسین جعفری بھی بالی وڈ سے وابستہ ہیں۔ جاوید جعفری معروف کامیڈین، میزبان، اداکار اور ماہر ڈانسر ہیں۔

  • مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

    ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہنامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز دان ایم اے، کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔

    راز دان صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔

    بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز دان کے حوالے کر دیا۔

    مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

    (وشو ناتھ طاؤس کے قلم سے)

  • بامبے ٹاکیز: فن کاروں کے لیے شہرت اور نام وَری کا زینہ ثابت ہوا

    بامبے ٹاکیز: فن کاروں کے لیے شہرت اور نام وَری کا زینہ ثابت ہوا

    "بامبے ٹاکیز” کا نام بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں فلم بینوں کے سامنے آیا۔

    اس فلم اسٹوڈیو کے بانیوں میں راج نارائن دوبے، ہمانشو رائے اور دیویکا رانی شامل ہیں۔ اس کے بینر تلے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، کشور کمار، ستیہ جیت رے، بمل رائے اور دیو آنند جیسے فن کاروں نے شہرت اور نام وری کا سفر شروع کیا اور آج بھی شائقینِ سنیما کے دلوں میں اور فلم انڈسٹری میں نمایاں مقام اور بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔

    ہندوستانی سنیما سے متعلق راج نارائن نے اپنی یادداشتیں رقم کیں تو اس پروڈکشن ہاؤس کے آغاز اور کام یابیوں کے ساتھ اپنے وقت کے نام ور فن کاروں اور دیگر آرٹسٹوں کے بارے میں کئی دل چسپ باتیں اور مختلف واقعات بھی سامنے آئے جو خوب صورت یادگار ہیں۔ ان میں مختلف فن کاروں کا پروڈیوسر سے جھڑکیاں اور ڈانٹ سننے کے علاوہ اپنی غلطی پر تھپڑ کھانا بھی شامل ہے۔

    یہ مشہور اور سب سے پرانا پروڈکشن ہائوس دہاءیوں قبل ہندی سنیما کو نئی وسعتوں کی طرف دھکیلنے، اس شعبے میں جان ڈالنے اور نئی کام یابیوں سے ہم کنار کرنے کا سبب بنا۔

    بامبے ٹاکیز نے فلم انڈسٹری کو دلیپ کمار، اشوک کمار، محمود علی، راج کپور، دیویکا رانی اور مدھو بالا جیسے اداکار دیے اور ہندی سنیما کو نئے رجحانات سے متعارف کروایا۔

    دلیپ کمار اور مدھو بالا جیسے فن کاروں نے اپنی پہلی فلم اسی بینر تلے کی تھی۔ یہ پروڈکشن ہائوس 1934 میں قائم کیا گیا۔ تاہم آپس کے اختلافات کے بعد 1954 میں اسے بند کردیا گیا تھا۔

  • فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    ’بامبے ٹاکیز‘ نے بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں ہندوستان کے فلم سازوں اور شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بینر تلے بننے والی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی فلم اسٹوڈیو سے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، دیوآنند جیسے فن کاروں کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔

    ہندوستانی سنیما کے مشہور اداکار راج کپور نے اسی اسٹوڈیو میں ڈانٹ سنی اور انھیں ایک روز تھپڑ بھی پڑا۔

    فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ کی جارہی تھی جس میں راج کپور کا بھی ایک کردار تھا۔ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیدار شرما تھے۔

    ایک سین کی عکس بندی کے لیے جب وہ شوٹنگ شروع کرنے کو کہتے تو راج کپور کیمرے کے سامنے آتے اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگتے۔ ایسا دو تین بار ہوا اور جب بار بار راج کپور نے یہی حرکت کی تو کیدار شرما برداشت نہ کرسکے اور آگے بڑھ کر انھیں ایک تھپڑ لگا دیا۔

    ڈائریکٹر کی جھڑکیاں اور وہ تھپڑ راج کپور کے کام آیا اور ہندی سنیما کے شائقین نے انھیں بے حد سراہا اور ان کے کام کو پسند کیا، بعد کے برسوں میں راج کپور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے باکمال فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے ہوئے اور ان کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    (ہندوستانی سنیما سے متعلق راج نارائن کی یادداشتوں سے ایک ورق)