بونیر: خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں آسمانی بجلی گرنے سے ایک بچہ جاں بحق اور چار افراد زخمی ہوگئے تاہم زخمیوں کواسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں شدید بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ نے تباہی مچا دی۔ گیرو بگڑا میں آسمانی بجلی گرنے سے ایک بچہ جاں بحق جبکہ چار افراد زخمی ہوگئے، جنہیں ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈگر منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ گزشتہ رات ہونے والی طوفانی بارش کے باعث پیربابا میں سیلابی ریلے گھروں اور دکانوں میں داخل ہوگئے، جبکہ قادر نگر اور ٹانثابٹئی سمیت متعدد علاقوں میں پانی کا تیز بہاؤ جاری ہے، پیربابا بازار اور ملحقہ علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ غازی خانہ اور سلطان وس کے مقام سے گزرنے والے ریلے کے بعد سڑک ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے، تاہم چغرزی بامے روڈ پر لینڈ سلائیڈنگ کے باعث آمدورفت متاثر ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر کاشف قیوم نے بتایا کہ ضلع بھر میں مسلسل بارشوں کے بعد ہائی الرٹ جاری ہے، پیربابا کھوڑ میں پانی کی سطح بلند ہو کر مرکزی بازار کے عقب اور سڑک تک پہنچ گئی ہے جبکہ مساجد اور لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے اعلانات جاری ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق ریسکیو 1122، سول ڈیفنس، پولیس اور دیگر ادارے فیلڈ میں متحرک ہیں جبکہ سرکاری رہائش گاہوں کو ہنگامی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
یہ جمعہ پندرہ اگست دو ہزار پچیس کی دوپہر کا وقت تھا۔ میں اپنے اے آر وائے نیوز پشاور بیورو میں موجود تھا اور صبح سے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات کے اضلاع، شانگلہ، سوات، دیر، باجوڑ، بٹ گرام، مانسہرہ، چترال اور بونیر میں شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات آرہی تھیں اور جب کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال جنم لیتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ابتدائی ویڈیو یا تصاویر موبائل سے بنا کر واٹس ایپ سے شیئر کر دی جائیں اور جہاں ممکن ہو وہاں فوراً لائیو کوریج کے لئے سیٹیلائٹ لنک سے جوڑنے والی گاڑی جس پر ڈش لگی ہوتی ہے اسے روانہ کیا جائے عرف عام میں ہم اس کو ڈائرکٹ سٹیلائیٹ نیوز گیدرنگ ( ڈی ایس این جی ) گاڑی پکارتے ہیں اور اس گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو ایمبولینس کا ہوٹر لگا کر پہنچائے کیونکہ فوراً سے پیشتر پہنچ کر لائیو کوریج شروع کرنے کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔
یقیناً یہ ایک خطرناک عمل ہوتا ہے لیکن ہر چینل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین تک کیمرے کی آنکھ سے تازہ صورتحال سب سے پہلے بتائے۔ خیر یہ تو لائیو کوریج کی بات ہوگئی تو اسی تناظر میں ہم نے اپنے بیورو میں میٹنگ کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ پہلا خیال تھا کہ باجوڑ جایا جائے لیکن ہمارے ساتھی ظفر اللہ نے بتایا وہاں اب سیلابی صورتحال کنٹرول میں ہے اور دوسرا سیکیورٹی نقطۂ نظر سے یہاں حالات بہتر نہیں کیونکہ سیلاب سے قبل شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن چل رہا تھا اور ماموند تحصیل میں کچھ گاؤں سے نقل مکانی بھی ہوئی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ بونیر اور سوات میں سیلابی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے تو فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد بیورو سے رابطہ کرکے وہاں کی ایک ڈی ایس این جی سوات جہاں ہمارے ساتھی شہزاد عالم اور کیمرہ میں کامران کوریج کررہے تھے انکو بھیجی جائے جبکہ پشاور کی دو ڈی ایس این جیز میں ایک بونیر لے جانا کا فیصلہ ہوا۔ جہاں ہمارے ساتھی شوکت علی بھر پور کوریج کر کے پل پل کی خبر دے رہے تھے۔
بونیر روانگی
بونیر جانے والی ڈی ایس این جی میں راقمِ حروف اپنے کیمرہ مین ارشد خان، ڈی ایس این جی آپریٹر لئیق اور ڈرائیور رؤف کے ساتھ روانہ ہوا۔ چونکہ ہنگامی صورتحال تھی تو بیورو میں موجود، اسائنمٹ ایڈیٹر وقار احمد، رپورٹر ظفر اقبال، عدنان طارق، نواب شیر، عثمان علی، شازیہ نثار اور مدیحہ سنبل کو پشاور میں سیلاب کی صورتحال اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کی ہدایت دی جبکہ عدنان طارق کو ریسکیو کے ہیڈ کوارٹر بھیج دیا جہاں وزیر اعلیٰ کے پی علی امین کی ہدایت پر آپریشن روم بن چکا تھا۔ ہم نے پشاور میں جو انتطامات کئے تھے اس حوالے سے کراچی ہیڈ آفس میں صدر اے آر وائی نیوز عماد یوسف اور سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر فیاض منگی کو بھی آگاہ کیا۔ اس دوران ہم دن دو بجے پشاور سے نکلے تو کراچی سنٹرل ڈیسک سے فون موصول ہوا کہ چھ بجے آپکا بونیر سے لائیو بیپر ہوگا۔ کیونکہ میں نے انکو بتایا تھا کہ ہم چار گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ جب ہم پشاور سے نکلے تو موسم ابر آلود تھا اور ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ پتہ چلا خیبر پختونخواحکومت نے امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لئے زمینی اور فضائی ٹیمیں روانہ کردی ہیں اور فضائی ریسکیو کے لئے دو ہیلی کاپٹر استعمال میں لائے جا رہے ہیں لیکن ان میں ایک ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا ہے اب یہ خبر جب ملی تو مصدقہ نہیں تھی اور میری کوشش تھی کہ اسکی تصدیق ہوسکے جس کے لئے جہاں نے میں پشاور کی ٹیم کو متحرک کیا وہیں باجوڑ میں ظفر اللہ اور مہمند میں اپنے ساتھی فوزی خان سے رابطہ کیا ۔ فوزی خان نے واقعہ کے رونما ہونے کے بارے میں بتایا لیکن تصدیق نہیں کرسکا۔ میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو میں بونیر کے راستے میں تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے موبائیل سگنل بھی نہیں مل رہے تھے اس دوران میرا رابطہ کچھ ذمہ دار حکام سے ہوگیا جنہوں نے پہلے لاپتہ ہونے کی تصدیق کردی تو میں نے فیاض منگی کو بتایا اور انہوں نے خبر اے ار وائے نیوز پر بریک کروا کے میرا بیپر لے لیا اور اس دوران وزیراعلیٰ علی امین کا بیان بھی آگیا کہ ہیلی کاپٹر کریش ہوگیا ہے جس میں پائلٹ سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس خبر کو کور کرتے کرتے ہم سوات موٹر وے کے راستے کاٹلنگ مردان سے ہوتے ہوئے بونیر پہنچ گئے۔
بونیر کا ماحول اور ڈگر ہسپتال کی صورتحال
جب بونیر میں داخل ہوئے تو پہلا گاؤں کنگر گلی تھا لیکن وہاں زندگی معمول پر تھی حالانکہ اس وقت تک صرف بونیر میں سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ادھر سے ہم تیزی سے بونیر کے صدر مقام ڈگر کو روانہ ہوئے جہاں ضلعی ہسپتال تھا۔ وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اے آر وائے نیوز پہلا چینل ہے جس کی ڈی ایس این جی پہنچی ہے۔ یہاں ایک افراتفری والا ماحول تھا، ایمرجنسی ہوٹر والی گاڑیوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا ۔ وہیں ہم نے ہسپتال کے باہر ڈی ایس این جی سے سٹیلائیٹ رابطہ کرکے ہسپتال کے اندر اور باہر کی فوٹیجز بھیجیں اور ساتھ لائیو تبصرہ بھی دیا ۔ میرے ساتھ ہمارے ساتھی شوکت علی بھی لائیو تھے جنہوں نے بتایا کہ بونیر کے اہم علاقے جو سیلاب سے متاثر ہوئے ان میں پیر بابا بازار، بیشنوئی،قدر نگر اور حصار تنگی ہیں ۔ ابھی ہم لائیو تبصرہ دے رہے تھے کہ اس دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر جو بونیر سے ممبر قومی اسمبلی بھی ہیں پہنچ گئے اور ہمارے ساتھ گفتگو کی جو آن ائیر تھی ۔
پیر بابا کا سفر اور سیلاب سے متاثرہ خاندان سے ملاقات
یہاں سے ہم پیر بابا بازار کے لئے روانہ ہوئے تو مجھے ساتھی نے بتایا کہ سیلاب نے بجلی کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے ۔ کھمبے زمین سے اکھڑ چکے ہیں ،تاریں سڑکوں پر گری ہوئی ہیں اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے موبائیل فون بھی کام نہیں کررہے ۔ ہم اپنے ساتھ احتیاطاً سٹیلائیٹ فون لے کر گئے تھے لیکن اس کے ذریعے بھی رابطہ مشکل سے ہو رہا تھا اس لئے ہم نے ہیڈ آفس سے ڈی ایس این جی کے لئے فکس پیرامیٹر لئے کہ اگر رابطہ نہ ہو تو ہم چینل کو فوٹیجز اور ریکارڈڈ تبصرہ یا انٹرویو بھیجتے رہیں جو کہ کامیاب تجربہ رہا ۔ کیونکہ جب ڈگر سے پیر بابا کے لئے روانہ ہوئے تو سلطان وس تک موبائل سگنل تھے اس وقت تک رات کی تاریکی شروع ہوچکی تھی اور یہیں میں نے گاڑی روکی تو سیلاب سے تباہ حال ایک غریب مزدور کا مکان نظر آیا جو پہلے ہی کچا تھا میں نے میری وہاں گھر کے چند مرد حضرات سے ملاقات کی جو کیچڑ سے لت پت تھے اور پاوں میں جوتے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا سیلابی پانی اچانک آیا اور بس انکو اتنا موقع ملا کہ خواتین کو گھر سے نکال سکیں باقی زیادہ تر جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی اور وہ یہاں اس لئے موجود ہیں جو بچ گیا ہے اسکی حفاطت کرسکیں۔
اس موقع پر میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سے بھوکے پیاسے ہیں کیونکہ سیلاب نے کنویں اور ہینڈ پمپ کے پانی کو بھی متاثر کیا ہے ۔یہ گھر پیر بابا بازار کے راستے میں آتا تھا اور اس وقت ریسکیو اہلکار ایمبولینس کے ذریعے مردہ و زخمی افراد کو ہسپتال پہنچا رہے تھے ۔ جب میں نے اس شخص کے ساتھ لائیو تبصرہ شروع کیا تو چند مقامی رہنما کیمرے کو دیکھ کر رک گئے تاکہ انٹرویو دے سکیں لیکن میں انکو آن ایئر شرم دلائی کہ آپکے علاقے کا یہ شخص اپنی مدد آپ کے تحت گھر سے سامان نکال رہاہے کم از کم اس کی مدد نہیں کرسکتے تو کھانے یا پانی کا بندوبست کر دیں تو انکا جواب تھا پیر بابا بازار میں بہت تباہی ہوئی ہے آپ وہاں جائیں ۔ اس دوران لائیو شو میں ہمارے چینل نے وزیر اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل سے بھی رابطہ کیا اور انکو بتایا کہ ابھی تک حکومتی امداد نہیں پہنچ سکی جبکہ انہوں نے وضاحت دی کہ ریسکیو ۱۱۲۲کے اہلکار اور ایمبولینس پہنچ چکی ہے بلکہ آرمی اور صوبائی حکومت کا ایک ہیلی کاپٹر بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔
پیر بابا بازار کی رات کا منظر
خیر ہم وہاں سے جب پیر بابا بازار کی طرف روانہ ہوئے تو آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا اور زمین کی بھی یہی صورتحال تھی کیونکہ ہم نے راستہ میں دیکھا جہاں کھڑی فصلیں ، جنگل تباہی کا منظر پیش کررہے تھے وہیں بڑی تعداد میں درخت، بجلی کی تاریں اور کھمبے گرے ہوئے تھے جسکی وجہ سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے نہ صرف بونیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں بلکہ سواتاور شانگلہ میں بھی بجلی منقطع کردی تھی ۔ بہرحال ہم آگے بڑھے تو پیر بازار جہاں جنرل سٹور، کھانے پینے ، مٹھائی ، کپڑے ، الیکٹرانکس، ورکشاپس۔ پیربابا مزار سے متصل سوغات سے بھری سو سے زائد دکانیں تھیں وہ سامان سمیت تباہی کا منظر پیش کررہی تھیں ۔ راستے بند تھے ہر طرف کیچڑ نظر آرہا تھا ، گھر، دکانیں، گیراج، کاروباری عمارتیں سیلابی پانی اور اس میں آنے والی ریت سے بھر چکی تھیں ۔ جو گاڑی سیلاب سے پہلے زمین پر کھڑی تھی وہ یا تو سیلابی پانی کی نذر ہو گئی یا عمارتوں کی چھتوں پر پہنچ گئی تھیں جو افراد سیلاب سے بچ گئے تھے وہ بے بسی اور صدمے میں ڈوبے ہوئے تھے کیونکہ کسی کا گھر تباہ تھا تو کسی کے پیارے سیلابی پانی کی وجہ سے لاپتہ یا جاں بحق ہوگئے تھے ۔ جس سے بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ سیلاب کی توقع نہیں تھی اور وہ بھی اتنا شدید جسکی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے ۔ سب کچھ آناً فاناً ہوااور ہر طرف ایک افراتفری کا عالم تھا۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اپنے آپ اور پیاروں کو بچائے ۔ مقامی افراد کے مطابق چونکہ یہ سب کچھ اچانک ہوا اس لئے امدادی ادارے موجود نہیں تھے اور امدادی سرگرمیاں بھی سیلاب کے کچھ گھنٹوں بعد شروع ہوئیں ۔ چونکہ رات گہری ہوگئی تھی تو ہم نے کوریج کو روکا اور صبح کا انتظار کرنے لگے اور نزدیک درگاہ شلبانڈی شریف تھی تو وہاں قیام کیا وہاں ہماری بہترین مہان نوازی کی گئی ۔
پیر بابا بازار کا سیلاب کے دوسرے دن صبح کا منظر
سیلاب کے دوسرے دن صبح ہم ڈگر سے متصل دیہات گئے جہاں ہم نے سیلاب سے منہدم اور بہہ جانے رابطہ پل دیکھے اور جب پیر بابا پہنچے تو سڑک سے کیچڑ ہٹانے کے لئے ضلعی انتظامیہ کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں لیکن بڑی تعداد میں عوام پیدل ، موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر جائے وقوعہ کی طرف رواں دواں تھے ان میں اجتماعی نمازہ جنازہ میں شرکت کرنیوالے ،رضاکار ، سرکاری حکومتی ،منتخب ممبران پارلیمنٹ ، سیاسی شخصیات میڈیا سے وابستہ افراد اور عام شہری شامل تھے ۔ کچھ تو ایسے تھے جو تماش بین تھے جس کے باعث روڈ پر جہاں صفائی کا کام جاری تھا گاڑیوں کی آمد سے بلاک ہورہا تھا اور امدادی کاموں اور ایمبولینس کی آمدورفت میں خلل پڑ رہا تھا ۔پیر بابا بازار ہر قدم پر ایک نئی کہانی تھی راستے دریا برد ہوچکے تھے ہم کیچڑ اور سیلابی پانی سے پیدل گزر کر کوریج کررہے تھے اور اس دوران ایک پرائیویٹ سکول پہنچے جہاں اساتذہ نے جب اچانک سیلاب آیا تو مختلف کلاس روم میں موجود پرائمری تا مڈل کے ڈھائی سو بچوں کو بچایا ۔ اسکی ہم نے کوریج کی جو اے آر وائے نیوز پر ایکسلوسیو چلی ہے
قدر نگر اور بیشنوئی کا منظر
پیر بابا سے آگے ہم قدر نگر اور بیشنوئی گئے جہاں سب زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا جو اے آر وائے نیوز نے مختلف زاویوں سے کور کیا اور اپنے ناظرین کو بھی اس سے آگاہ کیا، یہ سر سبز جاذب نظر پہاڑی علاقے ہیں اور الم کا پہاڑی علاقہ بھی اس کے قریب ہے جہاں اکثر سیکیورٹی فورسز کلئیرنس آپریشن بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تو پورے کے پورے گاوں زمین بوس ہوچکے تھے ، رابطہ پل ٹوٹ چکے تھے لیکن حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے عارضی راستہ بنایا۔ یہاں نقصان کی وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ پہاڑوں پر شراٹے دار بارش کا پانی گرا تو اس نے پہاڑوں کی نرم زمین کو چیرنا شروع کیا تو اس میں سے مٹی ،ریت بھی آبادی کی طرف بہنا شروع ہوگئی جسکی وجہ سے بڑے دیو ہیکل پتھر وہ بھی تیزی سے نیچے لڑکھتے ہوئے آبادی پر گرنا شروع ہوگئے اور چونکہ سر سبز ہونے کے باوجود یہاں درختوں کی انتہائی محدود تعداد تھی تو پانی ریت پتھر اور مٹی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔ اس علاقے کی آبادی کا رہن سہن کا اپنا طریقہ ہے ۔ چونکہ یہاں وسائل کم ہوتے ہیں گزر بسر مقامی کھیتی باڑی ،جنگل سے لکڑی کاٹ کر اسکا ایندھن کے طور پر استعمال ہے اور گھر کشادہ اور منزل بہ منزل ہوتے ہیں تو ایک ایک گھر میں پچیس تا تیس افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تیز سیلابی پانی جو اپنے ساتھ پانی ،بجری، ریت اور پتھر لایا وہ اس آبادی سے ٹکرایا تو جہاں بڑی تعداد میں مکانات زمین بوس ہوئے اور ملبہ کا ڈھیر بن گئے وہیں ان میں موجود آبادی کی بھی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور پھر ہر گھر کی اپنی کہانی تھی ۔ ان میں کچھ تو ایسے بھی تھے جنکے خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا اور وہ ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے اور کچھ کو سیلابی پانی بہا کر لے گیا پھر ان میں سے جن کی لاشیں ملیں وہ اکثر مسخ شدہ تھیں کہ شناخت بھی مشکل تھی اور جب امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تو وہ سست تھیں کیونکہ حکام کا بتانا تھا کہ وہ ملبے کو فورا ًبھاری مشینری سے ہٹانے سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی زندہ ہو تو بھاری مشین سے اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم جب یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی زندہ نہیں بچا تو پھر بھاری مشین استعمال کی گئی ۔
عوام کے تاثرات
ان علاقوں میں جن افراد سے ملاقات ہوئی ان کا ایک لفظ تھا کہ بس قدرتی آفت تھی تاہم زیادہ تر امدادی کاموں سے خوش تھے اور کچھ کی یہ شکایت تھی کہ رضاکار ،خیراتی ادارے و امدادی ادارے بڑی تعداد میں ان علاقوں کی طرف جارہے ہیں جہاں تباہی زیادہ ہوئی ہے اور کم تباہی والوں کو امداد کے حوالے سے کم توجہ مل رہی ہے حالانکہ نقصان انکا بھی ہوا ہے ۔وہ اپنے برباد گھروں کے دوباری اباد کاری پر پریشان نظر ارہے تھے کیونکہ انکی جمع پونجی سب سیلاب کی نظر ہوچکی تھی ۔کچھ ایسے بھی ملے جنکی بچیوں کی شادی ہونے تھی تو زیور اور دیگر سامان بھی نہیں رہا ۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ایک طرف اتنی زیادہ خوراک تھی کہ ضائع ہورہی تھی اور دوسری طرف لوگ خوراک کے لئے بھاگ رہے ہوتے تھے ۔ جب کبھی ایسی صورتحال ہوتی تو تماش بین بھی بڑی تعداد میں پہنچ جاتے ہیں جسکی وجہ سے روڈ بلاک ہو جاتے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔ اس واقعے کو سات روز ہوچکے ہیں لیکن اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھی ملبہ ہٹایا جارہا ہے ۔ آخری موصولہ اطلاع کے مطابق صوبہ بھر میں 393 افراد جاں بحق، 423 مکان اور 50 سکول مکمل تباہ، 1288 گھر اور 216 سکول جزوی تباہ ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ریسکیو کاررائیوں کے بعد اب متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے کام کا آغاز ہوچکا ہے اور متاثرہ افراد کو امدادی چیکس بھی حوالے کر دیے گئے ہیں۔
اس المناک سانحے اور قدرتی آفت کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کرنیوالے سٹاف کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے دن رات ایک کرکے ناظرین تک اصل حقائق پہنچائے میں بطور بیوروچیف خیبرپختونخوا تمام سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن میں رپورٹرز ظفر اقبال، شازیہ نثار، نواب شیر،عدنان طارق،مدیہہ سنبل نمائندہ بونیر سید شوکت علی، نمائندہ بونیر ریاض خان، نمائندہ سوات شہزادعالم و کامران ، نمائندہ شانگلہ سرفراز خان، نمائندہ باجوڑ ظفر اللہ بنوری، نمائندہ مانسہرہ طاہر شہزاد، نمائندہ اپردیر جمیل روغانی، نمائندہ لوئر دیر حنیف اللہ، نمائندہ بٹگرام نورالحق ہاشمی، کیمرہ مین ، ارشد خان، حیات خان، ارسلان جنید، واحد خان۔ عدیل اور محمد شکیل، ڈی ایس این جی انجینئرز طائفل نوید ۔روح اللہ ،لئیق علی شاہ، شکور، سجاد۔ ڈرائیورز محمد رؤف، عرفان، عظمت ۔آصف اور ہیلپر ہارون شامل ہیں۔
پشاور (25 اگست 2025): بونیر میں کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب کے بعد مقامی لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں مون سون کے دوران کلاؤڈ برسٹ اور تباہ کن سیلابی ریلوں سے متاثر ہونے والے لوگوں میں نفسیاتی مسائل ابھرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
اس سلسلے میں بونیر سے تعلق رکھنے والے سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر عبد الشکور نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بیشونڑی، گوکند، قدر نگر، بٹائی اور سیلاب سے متاثر دیگر علاقوں کے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔
ماہر نفسیات عبد الشکور نے بتایا کہ انھوں نے اب تک 120 سے زائد افراد کو سائیکلوجیکل فرسٹ ایڈ فراہم کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور پاکستان سائیکاٹریک سوسائٹی ان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔
ڈاکٹر عبد الشکور کے مطابق مقامی لوگوں کی نفسیاتی بحالی کے لیے انھیں مرد اور خواتین ماہر ڈاکٹروں کا تعاون بھی حاصل ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب قدرتی آفت آتی ہے تو لوگ مختلف ذہنی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں، ایسی صورت حال میں بچوں کے ذہن پر زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں کے لوگ بے چینی، گھبراہٹ، اور چڑچڑے پن جیسے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں، پہلے سے ذہنی طور پر کمزور لوگ ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عبد الشکور نے بتایا ’’ہم اس وقت لوگوں کو سائیکالوجیکل فرسٹ ایڈ فراہم کر رہے ہیں، بیشونڑی، قدر نگر، گوکند میں سیلاب سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں، متاثرہ بچوں کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘‘
پشاور (23 اگست 2025): خیبرپختونخوا کے علاقے بونیر میں کلاؤڈ برسٹ سے ہونے والی اموات سے متعلق سرکاری رپورٹ جاری کر دی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ بونیر میں 234 افراد جاں بحق ہوئے۔
بونیر میں کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ بونیر میں دو سو چونتیس افراد جاں بحق ہوئے، کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب سے 162 گھر تباہ جب کہ 575 گھر جزوی متاثر ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب سے 110 کلو میٹر سڑکیں، پل اور دیگر انفرااسٹرکچر شدید متاثر ہوا ہے، اور 55890 ایکڑ زرعی اراضی سیلاب کی نذر ہو گئی ہے، 825 دکانیں تباہ ہو گئیں، اور 3638 مویشی ہلاک ہوئے۔
سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ندی نالے ٹوٹنے سے محکمہ پبلک ہیلتھ کو 19 کروڑ 48 لاکھ کا نقصان ہوا، 29 تعلیمی ادارے متاثر ہوئے، جن میں سے 23 میل تعلی ادارے جزوی طور پر، 1 میل مکمل طور پر، اور 5 فیمیل تعلیمی ادارے جزوی متاثر ہوئے۔
محکمہ زراعت کی 26142 ایکڑ اراضی برباد ہو گئی، جس پر 25 کروڑ سے زائد نقصان ہوا ہے، ہائی وے اتھارٹی کی 4 کلو میٹر سڑک بہہ گئی، جس سے 32 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
اسلام آباد (22 اگست 2025): چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بونیر میں سیلاب سے تباہی کی دل دہلا دینے والی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔
پاکستان اس وقت طوفانی بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے۔ گزشتہ ہفتے صوبہ خیبر پختونخوا میں کلاؤڈ برسٹ، طوفانی بارش اور سیلابی ریلوں سے تاریخ کی بدترین تباہی ہوئی۔ 350 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، درجنوں اب بھی لاپتہ ہیں جب کہ اربوں مالیت کا مالی نقصان ہوا ہے۔
سب سے زیادہ تباہی ضلع بونیر میں آئی جہاں سیلابی ریلوں اور بجلی گرنے سے 250 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ آن کی آن میں پورے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، خاندان اجڑ گئے۔
اسی بونیر سے تباہی کی ایک اور دل دہلا دینے والی تصویر پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کی ہے، جو وہاں ہونے والی تباہی کی شدت بیان کر رہی ہے۔
اس تصویر میں دیوہیکل پتھروں تلے ایک کار دبی ہوئی ہے اور مکمل طور پر کچل چکی ہے۔ نہیں معلوم کہ کار میں کوئی سوار تھا یا نہیں۔
اس دلخراش تصویر کے ساتھ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنا دکھ لفظوں میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بونیر کے حالیہ سیلاب کی یہ تصویر ہزار لفظوں کے برابر ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت بیان کرتی ہے۔
This picture of Buner Flood last Friday is worth a thousand words. This reflects on the magnitude of flood. We are trying to help our people rebuild from scratch. Please don’t leave us alone in this struggle. I request everyone to help us. May God protect us all, Aameen. pic.twitter.com/Xs4i82c1FV
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس موقع پر ہماری مدد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اپنے لوگوں کو دوبارہ سہارا دینےکی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس جدوجہد میں اکیلا نہ چھوڑے اور سب کی حفاظت فرمائے۔
(18 اگست 2025): کے پی میں بارش کی صورت قدرتی آفات نے تباہی مچا دی ہے سب سے زیادہ متاثرہ بونیر میں پورے پورے گاؤں دفن ہو گئے۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے اس بار سب سے زیادہ گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کو متاثر کیا۔ بالخصوص حالیہ چند روز میں ہونے والے کلاؤڈ برسٹ سے ہونے والی تباہی کبھی تاریخ میں نہیں دیکھی گئی۔ اب تک 500 کے قریب افراد سیلابی ریلوں میں بہہ کر جاں بحق ہو چکے ہیں جب کہ اربوں روپے مالیت کی عوامی املاک اور سرکاری انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔
خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ متاثر ضلع بونیر ہے جہاں پورے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور پورے پورے خاندان اجڑ گئے۔ صرف بونیر میں ہی اب تک 290 اموات کی تصدیق ہوچکی ہے۔ تباہی کے سنگین اور دلخراش مناظر حساس دلوں کو رنجیدہ کر رہے ہیں۔
بونیر میں ہر جگہ ملبے اور کیچڑ کا ڈھیر ہے اور لاشیں ملبے تلے دب کر اجتماعی قبریں بن چکی ہیں۔ سینکڑوں اموات کے ساتھ 120 سے زائد اب بھی لاپتہ ہیں اور 230 سے زائد زخمی ہیں۔ لاشیں اسپتالوں میں موجود ہیں، مگر انہیں شناخت کرنے والا کوئی نہیں۔
بونیر سمیت کے پی میں سوات، مینگورہ اور دیگر علاقوں میں سیلابی ریلا جہاں بھی آیا۔ اپنے سامنے آنے والے ہر انسان، مویشی گاڑیوں، مکانات، عمارات اور بڑے بڑے پل تک بہا کر لے گیا۔ امدادی سرگرمیوں جاری ہیں تاہم جاری بارش اس میں رکاوٹ بن رہی ہے اور رابطہ سڑکیں بھی نہیں کھولی گئی ہیں۔
اسلام آباد (17 اگست 2025): پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں تباہ کن سیلاب پر سعودی عرب، ترکیہ، روس، برطانیہ و دیگر ممالک نے اظہار افسوس کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر سعودی عرب، یو اے ای، ایران، ترکیہ، کویت، روس اور برطانیہ نے اظہارافسوس کیا ہے،اور متاثرین کی بحالی کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم متاثرین کے ساتھ ہیں، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے تعزیتی پیغام میں کہا ایران پاکستان کے لیے ہر طرح کے تعاون، امداد اور ریلیف کے لیے تیار ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے صدر آصف زرداری کے نام تعزیتی خط میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا۔ اماراتی وزارت خارجہ نے کہا کہ یو اے ای مشکل کی اس گھڑی میں سیلاب متاثرین کے ساتھ ہے۔
ترک وزارت خارجہ نے بھی سیلاب متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ کویتی وزیر خارجہ ولی عہد صباح الخالد الصباح نے اسحاق ڈار کو ٹیلی فون کر کے کہا کہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کو ٹیلی فون کیا اور سیلاب سے جانی نقصان پر تعزیت کی، برطانوی وزیر خارجہ نے مشکل وقت میں پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
بونیر (17 اگست 2025): وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بونیر میں جاں بحق افراد کے ورثا کو فی کس 20 لاکھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے کلاؤڈ برسٹ کے بعد تباہی کی زد پر آنے والے علاقے بونیر کا دورہ کیا، اور سیلاب سے نقصان اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لیا۔
علی امین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جاں بحق افراد کے ورثا کو فی کس بیس لاکھ روپے دیے جائیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کے شکر گزار ہیں کہ بونیر کے عوام کا مشکل گھڑی میں ساتھ دیا۔
دورے کے موقع بونیر کے ڈپٹی کمشنر آفس میں سیلابی صورت حال اور ریلیف سرگرمیوں پر اجلاس بھی منعقد ہوا، جس میں صوبائی وزرا، ارکان اسمبلی، چیف سیکریٹری اور ضلعی حکام شریک ہوئے، تباہ کاریوں پر تفصیلی بریفنگ میں بتایا گیا کہ بونیر کی 7 ولیج کونسلوں میں 5380 مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور اب تک 209 اموات، 134 لاپتا، اور 159 زخمی ہوئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا جاں بحق افراد کے لواحقین اور زخمیوں کو فوری معاوضہ دیا جائے گا، حکومت نے ریلیف کے لیے 1.5 ارب روپے جاری کر دیے ہیں، وزیر اعظم اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے تعاون پر شکر گزار ہوں۔
اجلاس میں بریفنگ کے مطابق
خیبرپختونخوا میں 223 ریسکیو اہلکار، 205 ڈاکٹرز، 260 پیرا میڈکس، 400 پولیس اہلکار متحرک ہیں، پاک فوج کی 3 بٹالین ریلیف آپریشن میں شریک ہیں، خوراک، ٹینٹس، کمبل، دیگر ضروری اشیا فراہم کی جا رہی ہیں، پیر بابا اور گوکند کی سڑکیں بحال، 15 مقامات سے ملبہ ہٹا دیا گیا ہے، بونیر سمیت 8 اضلاع میں ریلیف ایمرجنسی نافذ ہے، 3500 پھنسے افراد کو بہ حفاظت نکال لیا گیا ہے، اور لاپتا افراد کی تلاش جاری ہے۔
وزیر اعظم کی ہدایت
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ہدایت جاری کی ہے کہ بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے بند راستوں کو فوری بحال کیا جائے، بند شاہراہوں پر پھنسے مسافروں کو جلد از جلد مدد پہنچائی جائے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ چیئرمین این ڈی ایم اے سے مسلسل رابطے میں ہیں، اور ریسکیو ریلیف آپریشن اور امدادی سامان کی ترسیل کی نگرانی کر رہے ہیں۔
بونیر : بونیر میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 75 افراد جاں بحق ہوگئے ، جس کے بعد ضلع بھر پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے اضلاع بونیر اور سوات میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی، جس کے نتیجے میں بونیر میں 75 اور سوات میں 5 افراد جاں بحق ہوگئے، جاں بحق ہونے والوں میں اسکول کے 8 بچے بھی شامل ہیں۔
ڈپٹی کمشنر بونیر کاشف قیوم نے بتایا کہ ضلع میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں، ہیلی کاپٹر کے ذریعے دشوار گزار علاقوں میں ریسکیو آپریشن کیا جا رہا ہے۔
پیربابا بازار اور اس سے متصل محلہ مکمل طور پر ڈوب چکا ہے، گوکند میں ایک مسجد شہید ہوگئی جبکہ بڑی تعداد میں مویشی بھی ہلاک ہوئے۔
مختلف مقامات پر راستے بند ہیں اور لاپتہ افراد کی حتمی تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی، سیلابی پانی کم ہونے کے بعد ہی لاپتہ افراد کی صحیح تعداد کا پتہ چل سکے گا۔
دوسری جانب سوات میں بھی سیلابی ریلوں نے تباہی پھیلائی، مینگورہ شہر زیرِ آب آگیا، ملا بابا، حاجی بابا، خوازہ خیلہ اور مرغزار کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا، متعدد گھر بہہ گئے اور 3 افراد لاپتہ ہیں۔ پانی گھروں میں داخل ہونے کے باعث کئی افراد نے چھتوں پر پناہ لے رکھی ہے۔
دریائے سوات اور قریبی ندی نالوں میں طغیانی کے باعث سیکڑوں افراد پھنس گئے ہیں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔.
پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے مجموعی طور پر 30 گھروں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ شدید بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے 21 اگست تک جاری رہنے کا امکان ہے۔