Tag: بٹیر کی لڑائی

  • اہلِ لکھنؤ اور بٹیر کی لڑائی

    اہلِ لکھنؤ اور بٹیر کی لڑائی

    پرندوں میں بٹیر کی لڑائی سب سے دل چسپ ہوتی۔ اس کی بھی دو قسمیں تھیں۔ ایک گھاگس اور دوسری چننگ۔

    چننگ، گھاگس سے قدرے چھوٹا اور نازک ہوتا اور زیادہ دل کش مقابلہ اسی کا ہوتا۔ اس کا معرکہ ایک کمرے ہی میں ہوجاتا اس لیے اہلِ لکھنؤ کی تفریح کے لیے یہ بڑا دل چسپ مشغلہ تھا۔

    بٹیروں کی تربیت کے بھی تین مرحلے ہوا کرتے تھے۔ پہلا مرحلہ ابتدائی یعنی اگر بٹیر ابتدا میں جیت حاصل کر لیتا اور اس کے نئے پر نکل آتے تو اگلے سال یہ دوسرے درجے پر پہنچ جاتا جسے ’نوکار‘ کہا جاتا۔ اسی طرح یہ سال بھی فتح یابی کے ساتھ گزر جاتا تو اب تیسرے سال ’کریز‘ کا اعلٰی منصب اسے حاصل ہوجاتا۔ اکثر بٹیر باز اسی اعلٰی درجے والے بٹیر کو کام میں لاتے۔

    بٹیر کی لڑائی بھی تقریباً مرغ جیسی ہی ہوتی البتہ بٹیر مرغ کی طرح کئی دنوں تک لڑائی کی سکت نہیں رکھتا۔ اس کی لڑائی پندرہ بیس منٹ اور آدھے گھنٹے ہی میں نمٹ جاتی۔ بٹیر کے سدھانے کا طریقہ بھی بڑا اچھوتا تھا۔ مولانا شرر نے لکھا ہے:

    ’’اس کا کھیل یوں ہے کہ پہلے موٹھ یعنی پانی میں بھگو بھگو کے گھنٹوں ہاتھوں میں دبائے رہنے سے اس کی وحشت دور ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ وہ بولنے اور چونچیں مارنے لگتا ہے۔ اس کے بعد بھوک دے کے اور دست آور اجزا جن میں مصری بہت مخصوص ہے، دے دے کے اس کا جسم درست کیا جاتا ہے، پھر رات گئے یا آدھی رات کو ان کے کان میں چلّا کے ’’کو‘‘ کہا جاتا ہے، جسے کوکنا کہتے ہیں۔ غرض ان تدبیروں سے چربی چھٹ جاتی ہے، بھدا پن دور ہوجاتا ہے اور جسم نہایت ہی پھرتیلا اور قوی ہوجاتا ہے۔ یہی بٹیر کی تیاری ہے۔‘‘

    بٹیروں میں جوش پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی انھیں نشہ آور گولیا ں بھی دی جاتیں اور اہلِ ہنر بڑی ہنر مندی سے بیکار سے بیکار اور بیمار سے بیمار بٹیر کو کام میں لے آتے۔

    (بھارت کے محمد اظہار انصاری کے تحقیقی مضمون لکھنوی تہذیب اور معرکہ ٔحیوانات: امتیاز و انفراد سے انتخاب)

  • بٹیر: کھیت کھلیان سے لڑائی کے میدان اور کھانے کی میز تک

    بٹیر: کھیت کھلیان سے لڑائی کے میدان اور کھانے کی میز تک

    انڈے دینے والے چھوٹے پرندوں میں بٹیر کا تعلق مرغ کے خاندان سے ہے۔

    انسان اس کے انڈے ہی نہیں کھاتا بلکہ بٹیر کا گوشت بھی دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بٹیر کا گوشت کھایا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے جال کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں فرانس کے ایک باورچی نے اس پرندے کے گوشت سے نہایت ذائقے دار پکوان تیار کیے تھے جن کا خوب شہرہ ہوا۔

    ذائقے اور افادیت کی وجہ سے لوگ بٹیر کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کے گوشت میں پروٹین شامل ہوتا ہے جو انسانی جسم کے لیے مفید ہے۔

    یہ پرندہ مختلف فصلوں کے پکنے کے بعد کھیتوں اور ایسے مقامات پر نظر آتا ہے جہاں جھاڑیاں اور گھاس وغیرہ ہو۔ سردیوں میں بٹیر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاتا ہے۔ اس پرندے کو جال لگا کر پکڑنے والے اسے پالتے بھی ہیں اور اس کے انڈے حاصل کرتے ہیں۔

    یہ پرندہ پیدائش کے چھے ہفتے بعد ہی انڈے دینے کے قابل ہو جاتا ہے اور سال بھر میں یہ تقریبا 300 سو انڈے دیتا ہے۔
    بٹیر صرف ہندوستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں پالتو پرندے کے طور پر گھروں میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے انڈے اور گوشت بھی ہمارے پڑوسی ممالک کے علاوہ امریکا، جاپان، فرانس اور دیگر تمام ملکوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    ہندوستان اور پاکستان کی بات کریں تو یہاں اس پرندے کو نہ صرف شوقیہ پالنے کا رواج ہے بلکہ بٹیروں کو لڑانے اور ان پر شرطیں لگانے والے بھی موجود ہیں۔ تاریخ کے صفحات میں یہ بھی لکھا ہے کہ مغلیہ دورِ حکومت کے زوال کے دنوں میں لکھنؤ میں بٹیر بازی زوروں پر تھی۔ اس زمانے میں عام لوگ ہی نہیں امرا اور دربار میں اہم منصب پر فائز شخصیات تک بٹیر کی لڑائی اور جال لگا کر اس پرندے کے پھنسنے کا نظارہ کرکے لطف اندوز ہوتے تھے۔
    پاکستان میں پشاور، اٹک اور ملتان کے اضلاع کسی زمانے میں بٹیر بازی کے لیے مشہور تھے۔