Tag: بٹ کوائن

  • بٹ کوائن کی قیمت میں اچانک کمی کیوں ہوئی؟

    بٹ کوائن کی قیمت میں اچانک کمی کیوں ہوئی؟

    کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کی قیمت میں اچانک کمی واقع ہوگئی جس کی وجہ برقی کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا کا انہیں قبول کرنے سے انکار تھا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برقی کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا نے کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کو وصول کرنے سے انکار کردیا ہے جس کے بعد بٹ کوائن کی قیمت میں کمی ہوگئی۔

    کمرشل خلائی پروازیں شروع کرنے والی کمپنی اسپیس ایکس اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس بات کا اعلان کیا، ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تحفظات کے پیش نظر ہم نے ادائیگیوں کے لیے بٹ کوائن وصول کرنا بند کردیا ہے اور اب صارفین بٹ کوائن کی مدد سے ٹیسلا نہیں خرید سکتے۔

    ایلون مسک کی اس ٹویٹ کے بعد بٹ کوائن کی قیمت میں 10 فیصد سے زائد کی کمی ہوگئی، جبکہ ٹیسلا کے حصص کی قیمتیں بھی گر گئیں۔ ٹیسلا نے رواں سال مارچ میں ہی کچھ ماہرین ماحولیات اورسرمایہ کاروں کی مخالفت کے باوجود اعلان کیا تھا کہ اب ٹیسلا کی گاڑیوں کو بٹ کوائن کی مدد سے خریدا جاسکتا ہے۔

    اس سے ایک ماہ قبل ٹیسلا نے ڈیڑھ ارب ڈالر کے بٹ کوائن خریدنے کا بھی انکشاف کیا تھا تاہم ایلون مسک کی ٹویٹ کے بعد ٹیسلا پھر اپنی ڈگر پر واپس آگئی ہے۔

    ایلون مسک نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ بٹ کوائن کی مائننگ اورٹرانزیکشن میں فاسل فیولز خصوصاً کوئلے کے بڑھتے ہوئے استعمال پر ہمیں تحفظات ہیں، کرپٹو کرنسی اچھا آئیڈیا ہے، لیکن اسے ماحولیاتی نقصان کے ساتھ نہیں لایا جاسکتا۔

  • مہنگی ترین گاڑیاں لیمبر گینی، بگاٹی اب صرف ایک سکے میں

    مہنگی ترین گاڑیاں لیمبر گینی، بگاٹی اب صرف ایک سکے میں

    کرپٹو کرنسی جس تیزی سے دنیا کی معیشت میں اپنی جگہ بنا رہی ہے، جلد ہی لیمبر گینی اور بگاٹی جیسی دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں بھی صرف ایک سکے میں خریدی جا سکیں گی۔

    دراصل بٹ کوائن کی بڑھتی قیمت کے پیش نظر لیمبر گینی اور بگاٹی کے بارے میں یہ خیال پیش کیا جا رہا ہے کہ انھیں مستقبل میں بٹ کوائن کے بیرومیٹر کے طور پر لیا جا سکے گا۔

    ڈالر کی قیمت میں گراوٹ کے خطرے کے پیش نظر کریکن ایکسچینج کے سی ای او جیسی پاؤل کا کہنا ہے کہ لیمبرگینی اور بگاٹی بٹ کوائن کے مستقبل کی قیمت کا ایک بہتر بیرومیٹر ثابت ہو سکتے ہیں۔

    جیسی پاؤل کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن کی قیمت جس طرح بڑھتی جا رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے رواں سال کے اختتام پر لیمبرگینی کی قیمت ایک بٹ کوائن، اور 2023 کے آخر تک بگاٹی کی قیمت بھی ایک بٹ کوائن ہو جائے گی۔

    یعنی اب دنیا کی مہنگی ترین لیمبرگینی اور بگاٹی کاریں صرف ایک سکے کی قیمت میں حاصل کی جا سکیں گی۔

    کریکن ایکسچینج کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ڈالر کے ساتھ بٹ کوائن کو ناپنا مناسب نہیں ہے، کیوں کہ بٹ کوائن کی بڑھتی ہوئی قیمت ڈالر کو بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال کے اختتام تک بٹ کوائن کی قیمت اتنی بڑھی کہ اس سے نئی ہونڈا سوکس خریدی جا سکتی تھی، جب کہ گزشتہ ماہ ایک بٹ کوائن کی قیمت 60 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

    ادھر ٹیسلا کمپنی کے سربراہ ایلون مسک نے خوش خبری دی ہے کہ رواں ماہ امریکا میں کمپنی کی گاڑیاں کرپٹو کرنسی سے خریدنا ممکن ہو جائے گا، اور رواں سال کے اختتام پر دیگر ممالک کے لوگ بھی بٹ کوائن کے ذریعے ٹیسلا کی کاریں خرید سکیں گے۔

  • بل گیٹس کا بٹ کوائن خریدنے سے متعلق اہم مشورہ

    بل گیٹس کا بٹ کوائن خریدنے سے متعلق اہم مشورہ

    واشنگٹن: دنیا کے امیر ترین شخص اور مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ ایلون مسک سے زیادہ دولت مند ہیں تو ہی بٹ کوائن خریدیں۔

    بل گیٹس کا کہنا ہے کہ جب تک آپ دنیا کے امیر ترین شخص نہ ہوں، تب تک بٹ کوائن ڈیجیٹل کرنسی خریدنے سے گریز کرنا چاہیے۔

    بلومبرگ کو دیے گئے انٹرویو میں دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص بل گیٹس نے کہا بٹ کوائن میں سرمایہ کاری عام لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے، یہ ماحولیات کے لیے بھی نقصان دہ ہے، اس کی کان کنی کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    واضح رہے کہ ٹیسلا اور اسپیس ایکسس جیسی کمپنیوں کے بانی ایلون مسک نے بٹ کوائن کرنسی میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے، ایک سال کے دوران بٹ کوائن کی قدر میں 400 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا تھا، مگر اب اس میں دوبارہ کمی آئی ہے، اس کے باوجود دنیا بھر میں اس ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے لوگوں کی دل چسپی بڑھی ہے۔

    بل گیٹس کا کہنا تھا ایلون مسک کے پاس بہت زیادہ دولت ہے، وہ بہت زیادہ ہوشیار بھی ہیں، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں کہ ان کے بٹ کوائنز کی قیمت اوپر نیچے ہوتی رہے، لیکن جن کے پاس اتنے پیسے نہیں انھیں بٹ کوائن نہیں خریدنا چاہیے۔

    اس سے قبل ایک انٹرویو میں بل گیٹس نے کہا تھا کہ کرپٹو کرنسی جس طرح کام کرتی ہے، اس سے مخصوص مجرمانہ سرگرمیوں کا موقع ملتا ہے اور بہتر ہے کہ اس سے نجات حاصل کی جائے، اس کے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے۔

  • بٹ کوائن: پاکستان کی تاریخ میں منفرد ڈکیتی

    بٹ کوائن: پاکستان کی تاریخ میں منفرد ڈکیتی

    لاہور: پاکستان کی تاریخ کی منفرد ڈکیتی کی گئی ہے، 2 غیر ملکیوں کو 1 کروڑ مالیت سے زائد کے بٹ کوائن کرنسی سے محروم کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق دو غیر ملکی باشندوں سے ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کے بٹ کوائن تاوان وصولی کا پہلا کیس سامنے آ گیا ہے، واقعے کا مقدمہ تھانہ ریس کورس میں درج کر لیا گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ آن لائن کرنسی کی شکل میں تاوان کی وصولی کے کیس میں رانا عرفان محمود اور اس کے نامعلوم ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، ڈکیتی کی یہ واردات سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کے شہریوں کے ساتھ پیش آئی۔

    ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ میگرون ماریا سپاری اور اسٹیفن نامی سوئس اور جرمن شہری 10 فروری کو لاہور آئے، دونوں غیر ملکیوں کو رانا عرفان نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے بلایا تھا، پاکستان پہنچنے پر دونوں نے مال روڈ پر معروف ہوٹل میں قیام کیا۔

    ایف آئی آر کے مطابق رانا عرفان سیر کے لیے دونوں غیر ملکیوں کو ہوٹل کی گاڑی میں اپنے ہمراہ لے گیا، پھر اس نے ہوٹل کی گاڑی واپس بھجوا دی اور 2 نئی گاڑیوں میں دونوں کو کہیں اور لے گیا۔

    ایک مقام پر ویرانے میں نیلی لائٹ والی پرائیویٹ گاڑی نے غیر ملکیوں کو روک کر تلاشی لی، ایک آدمی نے غیر ملکی شہری اسٹیفن کوگاڑی سے نکالا اور کپڑوں پر ہیروئن پاؤڈر مل دیا، پھر ملزمان نے دونوں غیر ملکی شہریوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور ایک ڈیرے میں لے گئے۔

    رپورٹ کے مطابق ملزمان نے غیر ملکیوں کو منشیات کیس کی دھمکی دے کر آن لائن پیسے منگوائے، ملزمان نے 6300 یورو (1 کروڑ 47 لاکھ روپے) مالیت کے 1.8 بٹ کوائن ٹرانسفر کرائے۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ موقع پر جعلی پریس ٹیم نے بلیک میلنگ کی غرض سے ویڈیو بھی بنائی، ملزمان نے مزید 30 کروڑ روپے کا تقاضا کیا، اور نہ دینے پر ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دی۔

  • بٹ کوائن کی قیمت، نیا ریکارڈ قائم

    بٹ کوائن کی قیمت، نیا ریکارڈ قائم

    ڈیجیٹل کرنسی کے طور پر استعمال ہونے والے بٹ کوائن کی قیمت نے پہلی بار 50 ہزار ڈالرز کی حد کو عبور کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی سب سے مقبول کرپٹو کرنسی بٹ کوائن نے پہلی بار 50 ہزار ڈالرز (80 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) کی حد کو عبور کر لیا ہے۔

    حالیہ مہینوں میں بٹ کوائن کی قدر میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا، اس سے قبل بٹ کوائن نے 2017 میں پہلی بار 10 ہزار ڈالرز اور 2020 میں 20 ہزار ڈالرز کی حد کو عبور کیا تھا، بٹ کوائن کی مارکیٹ ویلیو اب 930 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق منگل کو بٹ کوائن کی قیمت نے 50 ہزار 689 ڈالرز کی سطح کو چھوا مگر پھر اس میں کمی آنے لگی اور اس کی سطح پچاس ہزار ڈالرز سے نیچے آئی۔

    معروف کمپنی بٹ کوائن کے عوض مصنوعات فروخت کرنے کیلیے تیار

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں معروف امریکی الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا نے 1.5 بلین ڈالر مالیت کے بٹ کوائن خریدے تھے، جس کے بعد بٹ کوائن کی قیموں میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور اس کی قیمت 38 ہزار ڈالرز سے چھلانگ لگا کر 46 ہزار ڈالرز تک پہنچ گئی تھی۔

    بٹ کوائن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی کے مقابلے میں اس بار قیمت مستحکم رہنے کا زیادہ امکان ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اب کمپنیوں کی سطح پر سرمایہ کار کرپٹو کرنسی کو خرید رہے ہیں، اور انھیں اس کا مستقبل نظر آ رہا ہے، 2017 میں اس کرنسی کی قدر میں 900 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا تھا، تاہم مالیاتی ماہرین کے انتباہ کے مطابق فروری 2018 میں اس کی قیمت 7 ہزار ڈالرز سے بھی نیچے چلی آ گئی تھی۔

  • بٹ کوائن کی قیمت کو مزید پر لگ گئے

    بٹ کوائن کی قیمت کو مزید پر لگ گئے

    ڈیجیٹل کرنسی کے طور پر استعمال ہونے والے بٹ کوائن کی قیمت 48 ہزار ڈالرز (76 لاکھ 34 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) کی حد کو عبور کرگئی ہے۔

    یہ اضافہ ان خبروں کے بعد ہوا جن میں بتایا گیا کہ ماسٹر کارڈ، بینک آف نیویارک اور ٹویٹر کی جانب سے بٹ کوائن سے ادائیگی کو سپورٹ کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

    اس کے بعد 11 فروری کو بٹ کوائن کی قدر 7.4 فیصد اضافے سے 48 ہزار 364 ڈالرز تک پہنچ گئی۔

    ماسٹر کارڈ کے ڈیجیٹل ایسٹ اینڈ بلاک چین کے نائب صدر راج داھمودرھن نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ کمپنی کی جانب سے رواں سال مخصوص ڈیجیٹل کرنسیوں کی سپورٹ کی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اس سپورٹ میں صارفین کے تحفظ کا خیال رکھا جائے گا جس میں پرائیویسی اور کنزیومر انفارمیشن کی سخت نگرانی ہوگی، یہ بالکل اسی سطح کی سیکیورٹی ہوگی جیسی لوگ کریڈٹ کارڈز میں توقع رکھتے ہیں۔

    بلاگ میں کہا گیا کہ ماسٹر کارڈ نئی ڈیجیٹل کرنسیوں کو متعارف کروانے کے اپنے منصوبے کے حوالے سے دنیا بھر کے مرکزی بینکوں سے متحرک انداز سے رابطے میں ہے۔

    دوسری جانب بینک آف انگلینڈ میلون کارپوریشن نے 11 فروری کو بتایا کہ وہ مخصوص صارفین کے لیے بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیز کو رکھنے، ٹرانسفر اور اجرا کی سروس متعارف کروانے پر غور کررہی ہے۔

    یاد رہے کہ سنہ 2017 میں اس کرنسی کی قدر میں 900 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا تھا اور وہ 20 ہزار ڈالرز کے قریب پہنچ گئی تھی، مگر اس موقع پر مالیاتی ماہرین نے انتباہ کیا تھا کہ یہ قیمت بہت تیزی سے نیچے جا سکتی ہے۔

    پھر ایسا ہوا اور فروری 2018 میں قیمت 7 ہزار ڈالرز سے بھی نیچے چلی گئی۔

    کچھ ماہرین کے خیال میں بٹ کوائن سونے کا متبادل بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ پے پال جیسی بڑی کمپنیوں کی جانب سے اسے قبول کیا جارہا ہے۔

  • ایران کو بٹ کوائن انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کرنا پڑا؟

    ایران کو بٹ کوائن انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کرنا پڑا؟

    تہران: ایران کے متعدد شہروں میں بجلی کی بندش کے بعد حکومت نے بٹ کوائن انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایران میں حالیہ ہفتوں میں دارالحکومت تہران سمیت متعدد شہر اندھیرے میں ڈوب گئے تھے اور لاکھوں لوگوں کو کئی گھنٹے تک بجلی کے بغیر رہنا پڑا، بجلی کے اس بریک ڈاؤن کے لیے بٹ کوائن انڈسٹری کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی بحران کے لیے بٹ کوائن انڈسٹری کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر لوگوں نے اس ’غیر متوقع مجرم‘ کی طرف انگلیاں اٹھائیں، جس پر حکومت نے بھی عوام میں بڑھتے غصے کے پیش نظر بٹ کوائن پروسیسنگ سینٹرز کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ بٹ کوائن سینٹرز کو بہت زیادہ مقدار میں بجلی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے مخصوص کمپیوٹرز کو چلا سکیں اور انھیں ٹھنڈا رکھ سکیں، جسے ایران کے پاور گرڈ پر ایک بوجھ قرار دیا گیا، اس سلسلے میں پہلے سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہوا اور پھر حکومت بھی حرکت میں آ گئی۔

    ایرانی حکام نے پورے ملک میں 16 سو سینٹرز کو بند کر دیا ہے، پہلی بار ان سینٹرز کو بھی بندش کا سامنا کرنا پڑا ہے جنھیں قانونی طور پر کام کی اجازت ہے، حکومت کے یہ اقدامات متنازع بن گئے ہیں اور کرپٹو انڈسٹری کش مکش میں مبتلا ہو چکی ہے، یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ملکی مسائل کی دھند میں بٹ کوائن انڈسٹری کو بلی کا بکرا بنایا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ 2018 میں امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکلنے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد ہونے کے بعد ملک میں کرپٹو کرنسی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

  • بٹ کوائن کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ

    بٹ کوائن کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ

    ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن کی قیمت 25 ہزار ڈالرز سے تجاوز کر گئی، اتوار کو اس کی قیمت 28 ہزار ڈالر عبور کر گئی تھی تاہم بعد میں وہ نیچے آگئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے معروف کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کی قیمت پہلی بار 25 ہزار ڈالرز کی حد عبور کر گئی ہے اور 28 ہزار ڈالرز تک پہنچنے کا ریکارڈ بھی بنا لیا۔

    اتوار کو بٹ کوائن کی قدر 28 ہزار ڈالرز عبور کرگئی تھی تاہم 28 دسمبر کو کم ہوکر 26 اور 27 ہزار ڈالرز کے درمیان ہے۔

    اس وقت دنیائے انٹرنیٹ کی اس کرنسی کے ایک یونٹ یا یوں کہہ لیں کہ ایک روپے کی قیمت 26 ہزار 700 ڈالرز سے زائد (لگ بھگ 43 لاکھ پاکستانی روپے) تک پہنچ چکی ہے۔

    اس ڈیجیٹل کرنسی کی مارکیٹ ویلیو پہلی بار اتوار کو 500 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھی۔

    بٹ کوائن نے 12 روز قبل ہی پہلی بار 20 ہزار ڈالرز کی حد کو عبور کیا تھا اور ایسا لگتا ہے اس ہفتے 30 ہزار ڈالرز کا ہدف بھی حاصل کرلے گا۔ رواں برس کے دوران اس میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھی ہے جو ممکنہ طور پر فوری منافع کے لیے اسے خرید رہے ہیں۔

    سرمایہ کاروں کی جانب سے بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیوں پر کووڈ 19 کی وبا کے دوران سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔

    بٹ کوائن کی قیمتوں میں اس طرح کا اتار چڑھاؤ نیا نہیں، سنہ 2017 میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا تھا، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس بار قیمت مستحکم رہنے کا امکان زیادہ ہے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق کمپنیوں کی سطح پر زیادہ سرمایہ کاروں کی جانب سے اس کرپٹو کرنسی کو خریدا جارہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار اس لیے بھی کرپٹو کرنسی میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ انہیں مستقبل میں اس شعبے میں زیادہ مواقع نظر آرہے ہیں۔

    سنہ 2017 میں اس کرنسی کی قدر میں 900 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا تھا اور وہ 20 ہزار ڈالرز کے قریب پہنچ گئی تھی، مگر اس موقع پر مالیاتی ماہرین نے انتباہ کیا تھا کہ یہ قیمت بہت تیزی سے نیچے جا سکتی ہے۔

    پھر ایسا ہوا اور فروری 2018 میں قیمت 7 ہزار ڈالرز سے بھی نیچے چلی گئی۔

    بٹ کوائن کی قیمت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے کچھ ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے ہفتوں میں بھی یہ سلسلہ برقرار رہ سکتا ہے۔

    کچھ ماہرین کے خیال میں بٹ کوائن سونے کا متبادل بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ پے پال جیسی بڑی کمپنیوں کی جانب سے اسے قبول کیا جارہا ہے۔

  • مشہور کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کا مالک پاکستانی نکلا

    مشہور کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کا مالک پاکستانی نکلا

    گزشتہ سال انٹرنیٹ کی دنیا میں بٹ کوائن کا سال تھا، اس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہر خبرنامے کا حصہ تھیں، حال ہی میں برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بٹ کوائنز کا خالق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بٹ کوائن کی مالک سمجھی جانے والی ویب سائٹ کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ اس کا مالک بلال خالد نامی پاکستانی ہے۔

    سمجھا جاتا تھا کہ ساتوشی ناکا موتو نامی شخص دنیا بھر میں موجود بٹ کوائن کا مالک ہے جن کی مالیت اس وقت دس ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے لیکن حالیہ حیرت انگیز انکشاف نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

    بلال خالد کے مطابق اس نے اپنی شناخت چھپا کررکھی تھی لیکن اب اس نے اپنی اصلی شناخت کے ساتھ سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح اس نے جیمز کان کا نام قا نونی طور پر حاصل کیا ۔

    بتایا جارہا ہے کہ بلال خالد راولپنڈی کے رہائشی ہیں اور الخیر یونی ورسٹی میں تعلیم پذیر تھے جب انہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا۔ وہ پاکستانی بینکر اور بی سی سی آئی نامی بینک کے مالک آغا حسن عابدی سے بے پناہ متاثر تھے اور یہ سارا نظام انہوں نے ان ہی کی طرز پر کھڑا کیا تھا۔

    بلال نے اس سفر کے ساتھ ہی ییل ، ڈیوک اور کیلی فورنیا یونی ورسٹی سے کورسز کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کا خیال تھا کہ بٹ کوائن جب مشہور ہوجائے گا تب کوئی نہ کوئی ان کی اصل شناخت ڈھونڈ نکالے گا لیکن کئی سال میں کسی نے بھی ایسا نہیں کیا۔

    یہاں یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ اپنے شہریوں کے پیسے کی حفاظت کے پیشِ نظر پاکستان میں تما م اقسام کی کرپٹو کرنسی پر پابندی ہے اور حیرت انگیز طور پر دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی کا خالق ایک پاکستانی ہی نکلا ہے۔

    بلال نے اپنی ویب سائٹ پر بٹ کوائن کی کہانی انتہائی طویل اور مفصل طور پر بیان کی ہے جس کے مطابق ان کے پاس نو لاکھ اسی ہزار بٹ کوائن تھے جن کی مالیت آج دس ارب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے انہوں نے وہ ہارڈ ڈسک کھو دی جس میں ان کے ابتدائی بٹ کوائن تھے اور انہیں اس پر افسوس ہے ورنہ وہ آج اس روئے زمین پر سب سے امیر پاکستانی شہری ہوتے جو کہ دنیا کی سب سے طاقت ور کرپٹو کرنسی کا مالک ہوتا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب انہوں نے حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے اور اسی لیے انہوں نے واپس اپنی اصل شناخت کے ساتھ سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ بٹ کوائن کو مزید بہتر اور محفوظ بنا سکیں۔
    بلال خالد نے اپنی شناخت اپنے ویب بلاگ کے ذریعےظاہر کی ہے ، ابھی آزاد ذرائع سے یہ بھی تصدیق نہیں کی جاسکی کہ آیا یہ بات درست بھی ہے کہ نہیں۔

  • کیا آپ جانتے ہیں کہ آج کل’بٹ کوائن‘کتنے کا ہے

    کیا آپ جانتے ہیں کہ آج کل’بٹ کوائن‘کتنے کا ہے

    کچھ عرصے قبل ڈیجیٹل مارکیٹ میں بٹ کوائن کے سوا کوئی بات سننے کو نہیں ملتی تھی، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آج بٹ کوائن کتنے کا ہے؟۔

    آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ بٹ کوائن ہے کیا اور ایسا کیا ہوا تھا، جس کا سبب اس نظر نہ آنے والے شے کی اتنی شہرت ہوئی تھی۔

    بٹ کوائن عام کرنسی کا متبادل ہے جوکہ اکثر آن لائن استعمال ہوتا ہے اس کی اشاعت نہیں ہوتی اور یہ بینکوں میں نہیں چلتا۔اس وقت اسے متعدد ممالک جیسے کینیڈا، چین اور امریکا وغیرہ میں استعمال کیا جارہا ہے تاہم دنیا میں انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والا ہر شخص اس کرنسی کو خرید سکتا ہے۔

    سنہ 2015 تک ا یک بٹ کوائن 283.90 ڈالرز کا تھا ۔ اس کے بعد اس کے استعمال کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ، جس کی وجہ سے بڑی کمپنیاں انہیں آن لائن خریداری کے لیے قبول کرنے لگی تھیں۔

    ایک وقت ایسا آیا کہ یہ بٹ کوائن اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا یعنی کہ 19,783.06امریکی ڈالر کی شرح پر ، اور یہ ریٹ گیا تھا 17 دسمبر 2017 کو۔ اسی دن کو اب ماہرین بٹ کوائن کا سیچوریشن پوائنٹ قرار دے دیتے ہیں کہ جہاں سے اس کا زوال شروع ہوا۔

    جس وقت بٹ کوائن اپنے عروج پر تھا اس وقت ماہرین کا ماننا تھا کہ یہ ایک ملین امریکی ڈالر تک جائے لیکن اس کے بعد ہوا کچھ یوں کہ زیادہ منافع کے پیش نظر لوگوں نے بٹ کوائن بیچنا بند کردیے ، جس سےطلب اور رسد کا توازن بگڑ گیا اور آن لائن مارکیٹ میں اس کی ٹریڈنگ مشکلات کا شکار ہوگئی۔

    اس وقت ایک کوائن 3،618 امریکی ڈالر میں دستیاب ہے جس کی پاکستانی روپے میں مالیت 5 لاکھ 4 چار ہزار روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ لیکن اب یہ کرنسی بہت سے ایشیائی ممالک کے لیے اپنی قدر کھو چکی ہے، کیونکہ یہ یہاں کے عوام کی قوت ِ خرید سے باہر ہے۔

    ویسے کیا آپ جانتے ہیں کہ سنہ 2009 میں جب اس کا آغاز ہوا تھا تب یہ ایک امریکی ڈالر سے بھی کم کا تھا۔ آج کل اسی ریٹ پر ایک اور کرپٹو کرنسی مل رہی ہے جس کا نام ’رپل‘ہے۔ تو پھر گوگل کریں، کیا پتا کل کو یہ بھی ایسے ہی مہنگا ہوجائے۔