Tag: بپی لہری

  • بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری ‘ڈسکو کنگ’ کے نام سے مشہور تھے۔ بطور گلوکار اور موسیقار بپّی لہری نے بولی وڈ میں اسّی اور نوے کے عشرے میں ڈسکو میوزک کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔

    گلوکار اور موسیقار بپّی لہری اپنے مداحوں میں ڈسکو گیتوں کے علاوہ اپنے ‘ڈسکو حلیے’ کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ زرق برق لباس، سونے کے زیورات اور آنکھوں پر خوب صورت چشمہ بپّی لہری کی پہچان تھا۔ 15 فروری 2022ء کو بپّی لہری چل بسے تھے۔ اپنی موت سے ایک روز قبل ہی تقریباً ایک ماہ اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہو کر گھر آئے تھے، لیکن اچانک طبعیت بگڑ گئی اور وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ بپّی لہری کورونا سے بھی متاثر ہوئے تھے۔

    بولی وڈ کی فلم ‘نمک حلال’،’ڈسکو ڈانسر’ اور ڈانس ڈانس میں بپّی لہری کے ڈسکو گانے بہت مقبول ہوئے تھے۔ بطور موسیقار انھوں نے 700 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی دی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں‌ مقبول ہوئے۔

    بپّی لہری کا تعلق مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی سے تھا جہاں انھوں نے 1952ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام آلوکیش لہری تھا۔ گانا بجانا اور موسیقی ان کا ورثہ تھی۔ ان کے والد اپریش لہری اور والدہ بنساری لہری بنگلہ زبان کے گلوکار اور موسیقار تھے۔ بپّی لہری کے مطابق ان کا موسیقی سے تعلق صرف تین برس کی عمر میں قائم ہوگیا تھا۔ اس عمر میں وہ طبلہ بجانے لگے۔ گھر میں راگ راگنیوں کی باتیں ہوتیں اور ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا۔ اس ماحول میں بپّی لہری پروان چڑھے۔

    فلمی صنعت کے لیے انھوں نے اپنا نام بپّی لہری منتخب کیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ اپنے فلمی کیریئر میں بپّی لہری نے زیادہ تر پارٹی ڈانس کی موسیقی ترتیب دی۔ بولی وڈ میں بپّی لہری نے بطور موسیقار اپنا سفر 1973 میں شروع کیا تھا۔ ’ننھا شکاری‘ کے سارے گیت انہی کی موسیقی سے سجے تھے۔ بپّی لہری کو فلم ’شرابی‘ کے لیے سنہ 1985 میں بہترین میوزک ڈائریکٹر کا انعام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک سال کے دوران وہ سب سے زیادہ گیت ریکارڈ کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والے موسیقار بنے اور سنہ 2018 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے گئے۔ بولی وڈ کے اس مشہور گلوکار اور موسیقار نے سنہ 2020 میں فلم ’باغی 3‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی اور یہی اُن کی آخری فلم ثابت ہوئی۔

    بپّی لہری نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی۔ وہ سنہ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور عام انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر کام یاب نہ ہوسکے۔ وہ اس سے قبل سنہ 2004 میں کانگریس کے انتخابی مہم میں بھی حصّہ لے چکے تھے۔

    بھارت کے اس معروف گلوکار اور موسیقار نے اپنے مخصوص حلیے اور زیبائش کے بارے میں‌ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ امریکی راک اسٹار ‘ایلوس پریسلے’ کے بہت بڑے مداح تھے اور اسے پرفارمنس کے دوران سونے کی چین پہنے دیکھتے تھے تو یہیں سے شوق ہوا اور اپنا ایک الگ امیج بنانے کی خواہش کرتے ہوئے سونے کے زیورات اور کڑے وغیرہ پہننا شروع کیے۔ انھیں اکثر بھارتی اخبار اور دوسرے ذرایع ابلاغ میں ‘گولڈن مین’ بھی کہا اور لکھا جاتا تھا۔

    بپّی لہری کے لیے سونا اور چاندی خوش قسمتی کی علامت تھے۔ لوک سبھا کے الیکشن میں امیدوار بننے کے بعد انھوں نے اپنے اثاثوں بشمول سونے اور چاندی کی تفصیلات بتائی تھیں۔ ان کے پاس اس وقت کُل 752 گرام سونا اور 4.62 کلو چاندی تھی۔

    بولی وڈ کے عظیم گلوکار اور اداکار کشور کمار آنجہانی بپّی لہری کے ماموں تھے۔ بپّی لہری کشور کمار کو ’ماما جی‘ کہتے تھے۔

    گریمی ایوارڈ حاصل کرنا بپّی لہری کی وہ خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی، لیکن وہ اس ایوارڈ کی جیوری کے رکن ضرور بنائے گئے۔

  • پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    دنیا بھر میں‌ تخلیقی کاموں کا اعتراف اور اس کی پذیرائی کے لیے ہر سال اپریل کے مہینے میں‌ ’انٹلکچوئل پراپرٹی‘ کا دن منایا جاتا ہے۔ پاک و ہند کی فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو یہاں کسی تخلیق کی نقل اور چوری کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے فن کار ایک دوسرے پر اکثر موسیقی یا شاعری نقل اور چوری کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

    یہاں ہم بھارت کے موسیقاروں کی جانب سے ان چند پاکستانی گانوں کی نقل کا تذکرہ کررہے ہیں جو نام ور موسیقاروں اور مشہور ترین گلوکاروں کے تخلیق کردہ اور فن کا اظہار تھے۔

    میڈم نور جہاں کا گانا ‘تیرے در پر صنم چلے آئے…’ پچاس کی دہائی میں‌ مقبول ہوا تھا اور اسی طرح 60 کے عشرے میں ‘بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں…’ بھی کئی برس بعد الزام اور تنازع کی زد میں آگیا بھارتی موسیقاروں نے موسیقی ہی نہیں بلکہ گیتوں کے بول اور کبھی پورا ہی گانا کاپی کر لیا۔

    ستّر اور اسّی کی دہائی میں مشہور بھارتی موسیقاروں نے یہ سلسلہ شروع کیا اور آر ڈی برمن، لکشمی کانت پیارے لال اور بپّی لہری اور 90 کی دہائی میں انو ملک، ندیم شرون اور آنند ملند پر موسیقی اور گیت کاپی کرنے کے الزام لگے، لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں۔

    دونوں ممالک کی فلم انڈسٹری نے جب نئی صدی میں قدم رکھا تو پریتم جیسے موسیقاروں نے پاکستانی گانے کاپی کیے۔ سرحد پار سب سے زیادہ گانے مہدی حسن کے کاپی کیے گئے۔ اس کے بعد میڈم نور جہاں اور دیگر گلوکاروں کا نام آتا ہے جن کے گانوں کی نقل بھارتی فلم انڈسٹری میں‌ پیش کی گئی۔

    مہدی حسن کی آواز میں ‘تیرے میرے پیار کا’ اور ‘بہت پیار کرتے ہیں’ جیسے گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے جنھیں بالی وڈ میں کاپی کیا گیا۔ بالی وڈ اسٹار عامر خان ہوں یا شاہ رخ ان کی فلموں میں مہدی حسن کے نقل کیے گئے گانے شامل تھے۔ پاکستان میں مقبول ‘رفتہ رفتہ وہ میری’ ایسا کلام تھا، جسے بالی وڈ کی کام یاب فلم ‘بازی’ کے لیے موسیقار انو ملک نے کاپی کیا۔

    میڈم نور جہاں کی آواز میں مقبول ترین گانے بھارتی فلموں میں شامل ہوئے اور ‘وہ میرا ہو نہ سکا….’ کو بالی وڈ نے ‘دل میرا توڑ دیا اس نے…’ کی تبدیلی کے ساتھ پیش کردیا۔

    اپنی مسحور کن گائیکی سے شہرت اور مقبولیت پانے والے اخلاق احمد کے کئی گانے بھارت میں کاپی کیے گئے جن میں ‘سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل’ بھی شامل ہے۔ اسے موسیقار آنند ملند نے ‘چھوٹی سی دنیا ‘ بنا کر پیش کیا تھا۔

  • بھارتیوں کو آسکر اور گریمی کے منتظمین پر غصہ کیوں آیا؟

    بھارتیوں کو آسکر اور گریمی کے منتظمین پر غصہ کیوں آیا؟

    آسکر اور گریمی ایوارڈز 2022 میں بھارتی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر اور گلوکار بپی لہری کو خراج عقیدت پیش نہ کرنے پر بھارتیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

    رواں ماہ آسکر اور گریمی ایوارڈز 2022 کے سلسلے میں ہونے والی تقریبات میں بھارتی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر اور گلوکار بپی لہری کو خراج عقیدت پیش نہ کرنے پر بھارتی سوشل میڈیا پر سیخ پا نظر آ رہے ہیں۔

    گزشتہ روز لاس ویگس میں منعقد ہونے والے 64 ویں گریمی ایوارڈز میں، ایوارڈز کی انتظامیہ لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر اور بپی لہری کو خراج عقیدت پیش کرنا بھول گئی، جس کے نتیجے میں بھارتیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

    گزشتہ روز منعقد ہونے والے گریمی ایوارڈز 2022 اور اس سے قبل 27 فروری کو اکیڈمی ایوارڈز کی 94ویں تقریب، آسکر ایوارڈز 2022 کے دوران دونوں ایوارڈز کی انتظامیہ نے اپنے میموریم سیکشن میں دو بھارتی لیجنڈ گلوکاروں کو خراج عقیدت حتیٰ کہ ان کا ذکر تک نہیں کیا۔

    گزشتہ روز گریمی ایوارڈ 2022 کے میموریم سیکشن کے دوران براڈوے کے مرحوم موسیقار اسٹیفن سونڈہیم، ٹیلر ہاکنز اور ٹام پارکر کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا تھا۔

    دوسری جانب رواں سال ہی انتقال کر جانے والے بھارتی گلوکاروں لتا منگیشکر یا بپی لہری کا اس ایوارڈ شو کے دوران کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

    آسکر اور گریمی کی انتظامیہ کی جانب سے ان دو بھارتی لیجنڈز کو نظر انداز کیے جانے پر بھارتی شائقین کافی نالاں نظر آرہے ہیں جس کا اظہار وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال اکیڈمی ایوارڈز، آسکر نے اپنے میموریم سیکشن میں عرفان خان، بھانو اتھیا، سوشانت سنگھ راجپوت اور رشی کپور کو شامل اور خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔