Tag: بچوں کا ادب

  • تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔

    جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے لیے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا کہ اس کی شادی کس سے کرے۔ اس نے اس بارے میں ملکہ سے بھی مشورہ کیا مگر وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

    مزید دل چسپ کہانیاں اور حکایتیں پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    وہ دونوں پڑوسی ملکوں کے شہزادے تھے۔ ایک شہزادے کا نام شان دار تھا اور وہ نہایت نیک، عقلمند، بہادر اور بہت خوب صورت تھا۔ دوسرے شہزادے کا نام دلشاد تھا۔ وہ نہ تو نیک اور عقلمند تھا اور نہ ہی بہادر۔ اس نے چپکے چپکے دل میں سوچ لیا تھا کہ شہزادی نگینہ سے شادی کرنے کے بعد کوئی سازش کر کے بادشاہ کے تخت پر قبضہ کر لے گا۔

    چونکہ شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتی ہے اس لیے ملکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں شہزادی نگینہ سے اس کی رائے معلوم کرے گی – وہ جس شہزادے کو بھی پسند کرلے گی، اس سے اس کی شادی کروا دی جائے گی۔

    جب اس نے دونوں شہزادوں کے بارے میں ساری معلومات بتا کر شہزادی نگینہ سے اس کی پسند پوچھی تو وہ بولی۔ “امی حضور۔ آپ نے میری تربیت کچھ اس طرح کی ہے کہ میں اپنے ماں باپ کے فیصلوں پر سر جھکانے والی لڑکی بن گئی ہوں۔ آپ جہاں بھی کہیں گی اور جس سے بھی کہیں گی میں شادی کر لوں گی”۔

    ملکہ یہ بات سن کر خوش ہوگئی۔ اس نے شہزادی نگینہ کو گلے سے لگا کر پیار کیا اور بولی۔“جیتی رہو۔ تمہارے لیے دو شہزادوں کے رشتے آئے ہیں جن کے بارے میں ہم تفصیل تمہیں بتا ہی چکے ہیں۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کسے ہاں کریں اور کسے انکار۔ تم فیصلہ کر کے ہمیں بتا دو کہ کس شہزادے سے شادی کرنا پسند کرو گی”۔

    “امی حضور۔ شادی کے لیے آپ کا جو فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہوگا”۔ شہزادی نگینہ نے دھیرے سے اپنی بات دوہرائی۔

    “میں کہہ تو رہی ہوں کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا”۔ ملکہ نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
    شہزادی نگینہ کچھ سوچ کر بولی۔“ تو پھر ٹھیک ہے۔ میں اس شہزادے سے شادی کروں گی جو میری تین شرطیں پوری کرے گا”۔

    “وہ شرطیں کیا ہیں؟”۔ ملکہ نے حیرانی سے پوچھا۔

    “میری پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے جس میں آدم خور مگرمچھ رہتا ہے۔ میری دوسری شرط یہ ہے کہ وہ چاولوں سے بھری ایک پوری دیگ کھائے۔ میری تیسری اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سوتا ہوا گھوڑا لائے اور اس پر سواری کر کے دکھائے”۔ شہزادی نگینہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ملکہ اسے حیرت سے گھورنے لگی اور پھر اٹھتے ہوئے بولی۔ “ اس کا مطلب ہے کہ تم شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہو۔ کوئی بھی تمہاری یہ عجیب و غریب شرطیں پوری نہیں کر سکے گا۔ تمہیں پتہ ہے تالاب کا آدم خور مگرمچھ کتنا خوفناک اور بڑا ہے، کس میں ہمت ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے۔ پھر کون سا شہزادہ دیگ بھر کر چاول کھا سکے گا۔ شہزادے تو ویسے بھی نرم و نازک ہوتے ہیں، تھوڑا سا ہی کچھ کھا لیں تو ان کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ اور سوتے ہوئے گھوڑے پر بھلا کون سواری کرکے دکھائے گا۔ گھوڑا سوئے گا یا بھاگتا پھرے گا؟”

    اس کی باتیں سن کر شہزادی مسکرانے لگی۔ اسے مسکراتا دیکھا تو ملکہ کو تھوڑا سا غصہ آگیا۔ اس لیے وہ خفگی سے اٹھ کر بادشاہ کے پاس آئی اور اس سے اس کی لاڈلی بیٹی کی شکایت کی۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا۔ “ملکہ۔ آپ شائد بھول گئی ہیں۔ آپ نے بھی تو اپنی شادی کے لیے تین شرطیں رکھی تھیں۔ بہت سارے شہزادے ان شرطوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ مگر انھیں ہم نے پورا کر کے دکھایا تھا کہ نہیں؟”

    ملکہ کو وہ پرانی باتیں یاد آگئی تھیں۔ انھیں سوچ کر وہ مسکرانے لگی اور بولی۔ “امی حضور میری شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کرنا چاہتی تھیں اور وہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ اسی لیے میں نے وہ شرطیں رکھی تھیں۔ پھر میری شرطیں تو ہمت اور جواں مردی والی تھیں۔ ایک آدم خور شیر کو خنجر سے مارنا تھا جس نے کئی انسانوں کو اپنا نوالہ بنا لیا تھا، معصوم لوگوں کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو گرفتار کرنا تھا، جنہوں نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور پہاڑ کو کاٹ کر ایک نہر نکال کر کسانوں کی بنجر زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ آپ نے وہ تمام شرطیں پوری کی تھیں۔ آپ بہادر اور ہمت والے بھی تو بہت تھے”۔

    “لیکن ملکہ۔ کبھی کبھی ہم یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی شرطوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتے تو پھر آپ سے تو ہماری شادی ہی نہ ہوتی”۔ بادشاہ نے فکرمند ہو کر کہا۔

    “کیوں نہیں ہوتی”۔ ملکہ نے اٹھلا کر کہا۔ “میں اپنی شرطوں میں یہ تبدیلی کر دیتی کہ آپ انہیں شادی کے بعد بھی پورا کر سکتے ہیں”۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی۔ “ پہلے میری یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شہزادی کی شادی کس سے کریں۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ اپنی بے سر و پا شرطوں سے باز آجائے”۔

    “اس بارے میں آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہماری شہزادی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند بھی ہو۔ اگر کوئی ذرا سی بھی عقل لڑائے تو شہزادی کی شرطیں بہ آسانی پوری کرسکتا ہے۔ ہم دونوں شہزادوں کے سامنے شہزادی نگینہ کی شرطیں رکھ دیں گے۔ جس نے بھی انہیں پورا کردیا، اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی”۔

    پھر بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ اس نے ایلچی بھیج کر دونوں شہزادوں کو ان کے ملک سے اپنے محل میں بلوا لیا۔ دونوں شہزادے اپنے اپنے مصاحبوں اور غلاموں کے ساتھ حاضر ہوگئے۔ بادشاہ نے سب کو شاہی مہمان خانے میں ٹہرایا اور ان کی خاطر مدارات کے لیے خاص انتظامات بھی کر وا دیے۔

    جب شام کو بادشاہ ان شہزادوں سے ملا تو اسے شہزادہ شان دار بہت پسند آیا۔ وہ اس کی شکل و صورت اور وجاہت سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کا باپ بہت اچھے طریقے سے اپنے ملک پر حکومت کر رہا تھا جس کی وجہ سے رعایا بہت خوش حال تھی۔ ملکہ کو بھی وہ شہزادہ بہت پسند آیا۔

    دوسرا شہزادہ جس کا نام دلشاد تھا دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ بادشاہ کو محسوس ہوا کہ وہ ایک خوشامدی اور چاپلوس قسم کا نوجوان ہے۔ اس بات سے بادشاہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ نہایت چالاک اور عیار آدمی ہوگا۔

    ملکہ کو تو شہزادہ شان دار اتنا اچھا لگا کہ وہ شہزادی نگینہ کے پاس گئی اور اس سے بولی۔ “بیٹی۔ تم اپنی شرطیں واپس لے لو اور شہزادہ شان دار سے شادی کرلو۔ ایسا شوہر تو قسمت سے ہی ملتا ہے۔ اگر پہلی شرط کے دوران ہی مگرمچھ اسے کھا گیا تو بہت برا ہوگا”۔

    شہزادی نگینہ نے اٹل لہجے میں کہا۔ “اگر میں اپنی شرطیں واپس لیتی ہوں تو اس میں میری بے عزتی ہے۔ شہزادہ اگر میری شرطیں پوری کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے گھر جائے”۔ ملکہ مایوس ہو کر لوٹ گئی۔

    دونوں شہزادوں کی ملاقات شہزادی نگینہ سے کروائی گئی۔ وہ انھیں محل سے کچھ دور جنگل کے نزدیک تالاب تک لائی اور ان سے کہا۔ “یہ ہے وہ تالاب جس میں ایک آدم خور خونخوار مگرمچھ رہتا ہے۔ کیا آپ دونوں اس تالاب میں تیر کر دکھائیں گے؟”۔

    اس کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت ایک بہت بڑا مگرمچھ اپنا منہ کھولے تالاب کے کنارے پر آگیا۔

    اسے دیکھ کر شہزادہ دلشاد خوفزدہ ہوگیا اور بولا۔ “جان ہے تو جہان ہے۔ میں تو اس تالاب میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔ شہزادی کی دوسری شرطیں بھی بہت سخت ہیں۔ دیگ بھر کر چاول تو کوئی دیو ہی کھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میں سوتا ہوا گھوڑا کہاں سے لاؤں گا اور اس پر سواری کیسے کروں گا۔ میں تو چلا۔ مجھے نہیں کرنی یہ شادی”۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد شہزادہ شان دار نے کہا۔ “شہزادی صاحبہ۔ کل میں آپ کو اس تالاب میں تیر کر دکھاؤں گا”۔

    رات ہوئی تو اس کے ساتھ آئے ہوئے غلاموں نے تالاب میں ایک بڑا سا جال ڈال کر مگرمچھ کو پکڑ لیا اور دور ایک دریا میں چھوڑ آئے۔

    اگلی صبح ملکہ، بادشاہ اور شہزادی نے دیکھا کہ شہزادہ مزے سے تالاب میں تیرتا پھر رہا ہے۔ شہزادی نے پوچھا۔“ اس مگرمچھ کا کیا ہوا۔ وہ کہاں ہے؟”۔

    “اسے میں نے پکڑوا کر دریا میں چھڑوا دیا ہے۔ آپ کی پہلی شرط میں نے پوری کردی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات پر اعتراض نہیں کریں گی کہ میں نے مگرمچھ کو دریا میں کیوں چھڑوایا۔ آپ کی شرط صرف تالاب میں نہانے کی تھی، مگرمچھ سے لڑنا نہیں”۔ شہزادے نے تالاب سے باہر آتے ہوئے کہا۔

    ملکہ نے یہ بات حیرانی سے سنی۔ بادشاہ، مسکرا رہا تھا۔ شہزادی نے کہا۔ “بالکل ٹھیک شہزادے۔ آپ پہلی شرط جیت چکے ہیں۔ میری شرط ہی یہ تھی کہ آپ تالاب میں تیر کر دکھائیں۔ میں آپ کی ذہانت کی قائل ہوگئی ہوں”۔

    دوپہر ہوئی تو شہزادی نگینہ نے کہا۔ “شہزادے۔ آپ مجھے دیگ بھر کر چاول کھا کر کب دکھائیں گے؟”

    شہزادے نے کہا۔ “ابھی تھوڑی دیر بعد”۔ یہ کہہ کر شہزادے شان دار نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ اس کا ایک مصاحب دو غلاموں کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا محل کی جانب آرہا تھا۔ شہزادہ شان دار بادشاہ سے اجازت لے کر باہر نکلا اور اپنے مصاحب سے کوئی چیز لے کر جیب میں رکھی اور واپس آگیا۔

    اتنی دیر میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا۔ وہ اپنے ساتھ چاولوں کی ایک بڑی سی دیگ بھی لے کر آئے تھے جسے انہوں نے دسترخوان کے بیچوں بیچ رکھ دیا۔ دیگ کو دیکھ کر بادشاہ کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آئے۔ “کیوں میاں صاحبزادے۔ آپ کھالیں گے دیگ بھر کر چاول؟” اس نے شہزادے سے پوچھا۔

    “ایک دیگ تو کیا میں تو دو دیگیں بھی کھاسکتا ہوں”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار نے اپنی جیب سے ایک نہایت چھوٹی سی دھاتی دیگ نکالی جو اس کے ملازم بازار سے خاص طور سے بنوا کر لائے تھے۔ اس نے اسے چاولوں سے بھرا اور شہزادی نگینہ کے سامنے پوری دیگ چٹ کر گیا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ آپ کی دوسری شرط بھی پوری ہوگئی ہے۔ میں نے دیگ بھر کر چاول کھا لیے ہیں”۔ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے شہزادی سے کہا۔ اس کی بات سن کر شہزادی نگینہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔

    بادشاہ نے ملکہ سے کہا۔ “بیگم۔ اب اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ شہزادے میاں تو سوتے ہوئے گھوڑے پر بھی سواری کر کے دکھا دیں گے”۔

    شام کو بادشاہ، ملکہ اور شہزادی نگینہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ اچانک انہوں نے شہزادہ شان دار کو ایک گھوڑے کے ساتھ آتے دیکھا۔ وہ قریب آیا تو بادشاہ حیرت سے بولا۔“ شان دار بیٹے یہ گھوڑا لیے کہاں پھر رہے ہو؟”

    شہزادہ شان دار نے بڑے فخر سے بتایا۔“ یہ گھوڑا نہایت قیمتی ہے۔ میں اسے منڈی سے خرید کر لا رہا ہوں۔ اس کے مالک نے مجھے بتایا تھا کہ یہ حاتم طائی کے گھوڑوں کی نسل سے ہے۔ اس کا تو میں نے ایک بڑا اچھا سا نام بھی رکھ لیا ہے”۔

    گھوڑا واقعی بہت خوب صورت تھا۔ شہزادی نگینہ کو بھی بے حد پسند آیا۔ اس کا رنگ ہلکا کتھئی تھا اور اس کی گردن پر بڑی بڑی چمکدار ایال تھی۔ “شہزادے۔ کیا نام رکھا ہے آپ نے اس کا ؟” اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ میں نے اس کا نام رکھا ہے “سوتا ہوا گھوڑا”۔ چونکہ یہ میرا گھوڑا ہے، میں جو بھی اس کا نام رکھوں، میری مرضی۔ اب میں آپ کو سوتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر دکھاؤں گا، تاکہ آپ کی تیسری شرط بھی پوری ہو سکے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار رکاب میں پاؤں ڈال کر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور ایڑ مار کر اسے دوڑاتا ہوا باغ کا ایک چکر لگا کر دوبارہ ان لوگوں کے پاس آگیا۔

    یہ سب دیکھ کر ملکہ اور بادشاہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا تھا۔ شہزادی نگینہ بھی مسکرانے لگی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔ “ابّا حضور۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی ایک ایسے شہزادے سے ہو جو بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی ہو۔ ہم نے اپنی شرطیں اسی لیے رکھی تھیں کہ انہیں پورا کرنے والے کی ذہانت کا امتحان ہوسکے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایسا شہزادہ مل گیا ہے”۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ نے سکھ کا سانس لیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی خوب دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کے لیے لکھی گئی اس کہانی کے مصنّف مختار احمد ہیں)

  • ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ بیٹا بہت دور رہتا تھا۔ بڑھیا اکیلی تھی اور بیمار رہتی تھی۔

    ایک روز بڑھیا نے سوچا، چلوں اپنے بیٹے کے گھر۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔ اس کا گھوڑا بھی نہیں تھا اور نہ کوئی سنگی ساتھی۔ وہ کیا کرتی۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔

    بچوں کی مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    بڑھیا نے سوچا، میں کیا کروں۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاؤں۔

    بڑھیا کے گھر میں ایک بڑا سا مٹکا تھا۔ مٹکے نے کہا، ’’کیوں فکر کرتی ہو۔ میں لے جاؤں گا تمہیں، تمہارے بیٹے کے گھر۔‘‘

    بڑھیا خوش ہو گئی۔ اس رات بہت بارش ہوئی۔ ندی نالوں میں پانی آ گیا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔ گلیاں اور بازار پانی سے بھر گئے۔

    مٹکے نے کہا، ’’جلدی کر، چلیں۔‘‘

    ’’بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔ مٹکا پانی میں اتر گیا اور تیرنے لگا۔‘‘

    بڑھیا بولی، چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا۔ راستے میں جنگل تھا۔ جنگل میں جانور تھے۔

    جانوروں کو دیکھ کر بڑھیا ڈر گئی۔ کہنے لگی، ’’ہائے! مجھے جانور کھا جائیں گے۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’ڈر کاہے کا؟‘‘

    بڑھیا نے کہا، ’’جنگل میں شیر بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں لکڑ بگا بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’ہوتا رہے۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں ریچھ بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’شیر، لکڑبگا، ریچھ جنگل میں ہیں تو آتے کیوں نہیں۔‘‘

    یہ سن کر شیر، لکڑبگا اور ریچھ آ گئے۔

    شیر بولا، ’’ہام ہام ہام بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    ریچھ کہنے لگا، ’’مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ بڑھیا کو مجھے کھانے دو۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’کیوں کھاتے ہو مجھے۔ میں تو کمزور سی ہوں۔ مجھے بیٹے کے گھر جانے دو۔ بیٹے کے گھر۔ اچھے اچھے کھانے کھاؤں گی تو موٹی ہوجاؤں گی۔ جب بیٹے کے گھر سے واپس آؤں گی تب کھا لینا۔‘‘

    شیر بولا، ’’ہوں۔‘‘ لکڑبگا اور ریچھ بولے، ’’ہوں‘‘

    بڑھیا کی جان میں جان آئی تو بولی،
    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ بڑھیا، جنگل سے نکل کر اپنے بیٹے کے گھر پہنچی۔ وہ بہت خوش تھی۔ بیٹے نے اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے بڑھیا نے جی بھر کر کھایا۔

    بڑھیا، کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو گئی۔ ایک دن بڑھیا کہنےلگی، ’’بیٹا ، اب میں اپنے گھر جاؤں گی۔‘‘

    بیٹا بولا، ’’خیر سے جائیں۔‘‘ بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ راستے میں جنگل تھا۔

    جنگل میں شیر، لکڑبگا اور ریچھ تھے۔ شیر نے مٹکے میں بیٹھی بڑھیا کو دیکھ لیا۔ کہنے لگا،

    ’’بڑھیا تو خوب موٹی تازی ہوکر آئی ہے۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ مجھے تو بھوک لگ گئی۔‘‘

    ریچھ نے کہا، ’’آؤ اب بڑھیا کو کھالیں۔‘‘

    جنگل کے سارے جانور مل کر بولے، ’’اچھا، تو اب ہم بڑھیا کو کھائیں گے۔‘‘ یہ سن کر بڑھیا بولی، ’’پہلے مجھے دو دو مٹھی ریت لا دو، تب کھانا۔‘‘ وہ مان گئے۔

    دو مٹھی ریت شیر لایا۔ دو مٹھی لکڑبگا اور دو مٹھی ریچھ لایا۔ بڑھیا اپنے ہاتھوں میں ریت لے کر بیٹھ گئی اور بولی،

    ’’آؤ، اب مجھے کھاؤ۔‘‘ جب وہ اسے کھانے کو آگے بڑھے تو بڑھیا نے مٹھی بھر بھر کر ریت ان کی آنکھوں میں ڈال دی۔ اب جانور اسے کیسے کھاتے۔

    بڑھیا بولی،

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ جنگل کے جانور پیچھے رہ گئے اور بڑھیا اپنے گھر پہنچ گئی۔

    (مصنّف: مرزا حامد بیگ)

  • بچوں کا ادب اور گزری ہوئی دہائیاں

    بچوں کا ادب اور گزری ہوئی دہائیاں

    ایک خیال یہ ہے کہ اردو میں بچّوں کے لیے ادب تخلیق نہیں کیا جارہا یا بہت کم لکھا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ سننے کو ملتی ہے کہ یہ تخلیقات کس معیار کی ہیں اور پھر کیا نثر اور نظم کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے ہم جدید دنیا کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں یا نہیں، یہ ایک بحث ہے ہے اور اس پر بات کرتے ہوئے ہمیں کئی دہائیوں کے اوراق الٹنا ہوں گے۔

    ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ بچّہ ہر چیز جاننا، سمجھنا اور سیکھنا چاہتا ہے۔ یہ اس کے سیکھنے کی جبلت کا تقاضا ہے۔ لیکن ابتدائی ادوارِ عمر کے بعد ہمیں اپنے تہذیبی رویے اور اپنی ثقافت کو بھی بچّوں میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے لیے ہم ادب کا سہارا لیتے ہیں۔

    اگر بات کی جائے تقسیم سے قبل کے برصغیر کی تو نظیراکبرآبادی، سورج نرائن مہر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، حفیظ جالندھری، مولانا عبدالمجید سالک، اخترشیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت نے بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور معلومات افزا مضامین دل چسپ انداز میں لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ اہلِ‌ قلم نے صرف شاعری جب کہ بعض نے اخلاقی اور دل چسپ کہانیاں، اصلاحی نظمیں اور معلوماتی مضامین بھی تحریر کیے۔

    ہمارے میرزا ادیب لکھتے ہیں کہ 1857ء کے بعد کا دور ایک اصلاحی دور تھا، ہماری تحریک آزادی ناکام ہوچکی تھی اور برصغیر کی تمام قومیں اپنی ساری توجہات اصلاح احوال پرمرکوز کر چکی تھیں۔ مصنفین معاشرے کے ذمے دار افراد ہونے کی حیثیت سے بچوں کی بہتر طور پر تربیت کرنا چاہتے تھے اس مقصد کو عملی صورت دینے کی خاطر وہ ایسی نظمیں لکھنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں پڑھ کر بچے نیک بنیں اور زندگی کی اچھی قدروں کو عزیز گردانیں، چنانچہ حکیم ایسوپ کی حکایتوں کے انداز میں کافی تعداد میں کہانیاں لکھی گئی تھیں، بعض کہانیوں کے آخر میں نتیجہ لکھا جاتا تھا، اس حصے میں مصنف اپنے پڑھنے والے بچوں سے مخاطب ہو کر اس اخلاقی سبق کو اجاگر کرتا تھا جو اس کی کہانی سے ملتا ہے یا باالفاظِ دیگر ملنا چاہیے۔

    جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو بڑوں کے ادب کے ساتھ ساتھ چھوٹوں کے ادب کی بھی ضرورت پیش آنی چاہیے تھی، اور پیش آئی، اس وقت پہلی ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ بچوں کے لیے ایسی کتابیں لکھی جائیں جنہیں پڑھ کر بچوں کو تحریک پاکستان، مقاصد پاکستان اور جدوجہد آزادی سے آشنا ہونے کا موقع ملے چنانچہ اس باب میں معلوماتی کتابیں بھی تصنیف ہوئیں اور ایسی کتابیں بھی جو تحریک پاکستان کے احوال و کوائف میں واضح کرتی ہیں، مثلاً زاہد حسین انجم کی ’’پاکستان‘‘ سید ہاشمی فرید آبادی کی ’’پاکستان کی پہلی کتاب، کلیم احمد کی پاکستانی تہذیب کی کہانی، زینت غلام عباس کی دیس ہمارا پاکستان، سید قاسم محمود کی قائد اعظم کا پیغام وغیرہ۔

    اب ہم آج کے دور میں دیکھیں تو بچّوں کا ادب بہت کم لکھا گیا اور یہ بہت معیاری بھی نہیں ہے۔ معروف ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر اسد اریب صاحب کا کہنا ہے کہ: ’’جو شاعری بچوں کے لئے اس وقت تخلیق کی جار ہی ہے وہ اخلاقی، مذہبی اور ملّی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچّوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر وہر نہیں ملتی۔ نہ پرندے ہیں نہ طوطے، کوّے، بلبلیں نہ چوہے، بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں، شوخیاں اور تحیر ہے، نہ چہلیں۔‘‘

    ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بچّوں کا ادب کم تخلیق کیا گیا ہے جب کہ انسانیت کا مستقبل اور دنیا کی ترقی اب سائنس سے وابستہ ہے۔ اس پہلو پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    اب اگر ہم دہائیوں پیچھے چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں بچّوں کا اوّلین ماہانہ رسالہ پیسہ اخبار کے مدیر مولوی محبوب عالم نے مئی 1902ء میں شائع کیا تھا۔ جس کا نام تھا ’’بچوں کا اخبار۔‘‘ یہ کثیر الاشاعت ماہنامہ تھا۔ اس کے بعد جو رسالے نکلے ان میں تہذیبِ نسواں کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی (فاضل دیوبند) کا ’’پھول‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اکتوبر 1909ء میں لاہور سے ہوا۔ اس رسالے کو معروف ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ ایک خوبصورت دیدہ زیب رسالہ جس سے حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی وابستگی تھی۔ محترمہ بنت نذرالباقر، محمدی بیگم اور حجاب امتیاز علی بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ اس رسالہ کے قلم کاروں میں پطرس بخاری، محمد دین تاثیر، شوکت تھانوی اور اختر شیرانی جیسی قد آور شخصیتیں تھیں۔

    تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں بچّوں کے کئی رسالے جاری کیے گئے اور یہ تقریبا ہر گھر میں موجود ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہمارے گھروں سے اخبار و رسائل نکلتے چلے گئے اور آج ہم نہ صرف کتب بینی اور مطالعے کے رجحان کو خطرناک حد تک کم ہوجانے یا نوجوانوں کی کتاب سے دوری کا شکوہ کررہے ہیں بلکہ بچّوں کے قلم کار بھی اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ دوسرا بڑا سوال معیاری ادب کا بھی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بچوں نے اسکرین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے اور وہ ان رسائل کے قاری نہیں رہے جو کسی نہ کسی طور بازار میں اب بھی آ رہے ہیں۔

    اس طرف اہلِ‌ قلم اور قوم اور اپنے مستقبل سے مخلص افراد کو ہی نہیں حکومت کو بھی توجہ دینا چاہیے۔ حکومتی سرپرستی میں بچّوں کے لیے معیاری ادب تخلیق کرکے اسے فروغ دیا جا سکتا ہے جو کہ بہت ضروری ہے۔

  • میٹھے جوتے

    میٹھے جوتے

    ننھّے بھائی بالکل ننھّے نہیں بلکہ سب سے زیادہ قد آور اور سوائے آپا کے سب سے بڑے ہیں۔ ننھے بھائی آئے دن نت نئے طریقوں سے ہم لوگوں کو الّو بنایا کرتے تھے۔

    ایک کہنے لگے، ’’چمڑا کھاؤگی؟‘‘

    ہم نے کہا، ’’نہیں تھو! ہم تو چمڑا نہیں کھاتے۔‘‘

    ’’مت کھاؤ!‘‘ یہ کہہ کر چمڑے کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ لیا اور مزے مزے سے کھانے لگے۔ اب تو ہم بڑے چکرائے۔ ڈرتے ڈرتے ذرا سا چمڑا لے کر ہم نے زبان لگائی۔ ارے واہ، کیا مزے دار چمڑا تھا، کھٹا میٹھا۔ ہم نے پوچھا، ’’کہاں سے لائے ننھّے بھائی؟‘‘

    انہوں نے بتایا، ’’ہمارا جوتا پرانا ہو گیا تھا، وہی کاٹ ڈالا۔‘‘

    جھٹ ہم نے اپنا جوتا چکھنے کی کوشش کی۔ آخ تھو، توبہ مارے سڑاند کے ناک اڑ گئی۔

    ’’ارے بے وقوف! یہ کیا کر رہی ہو؟ تمہارے جوتے کا چمڑا اچھا نہیں ہے اور یہ ہے بڑا گندا۔ آپا کی جو نئی گرگابی ہے نا (ایک قسم کی جوتی جو فیتوں کے بغیر پنجوں تک ہوتی ہے)، اسے کاٹو تو اندر سے میٹھا میٹھا چمڑا نکلے گا۔‘‘ ننھے بھائی نے ہمیں رائے دی۔

    اور بس اس دن سے ہم نے گرگابی کو گلاب جامن سمجھ کر تاڑنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا۔

    عید کا دن تھا۔ آپا اپنی حسین اور مہ جبین گرگابی پہنے، پائنچے پھڑکاتی، سویاں بانٹ رہی تھیں۔ آپا ظہر کی نماز پڑھنے جونہی کھڑی ہوئیں، ننھے میاں نے ہمیں اشارہ کیا۔

    ’’اب موقع ہے، آپا نیت توڑ نہیں سکیں گی۔‘‘

    ’’مگر کاٹیں کاہے سے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

    ’’آپا کی صندوقچی سے سلمہ ستارہ کاٹنے کی قینچی نکال لاؤ۔‘‘

    ہم نے جونہی گرگابی کا بھورا ملائم چمڑا کاٹ کر اپنے منہ میں رکھا، ہمارے سر پر جھٹ چپلیں پڑیں۔ پہلے تو آپا نے ہماری اچھی طرح کندی(مار پیٹ) کی، پھر پوچھا ’’یہ کیا کر رہی ہے؟‘‘

    ’’کھا رہے ہیں۔‘‘ ہم نے نہایت مسکین صورت بنا کر بتایا۔

    یہ کہنا تھا سارا گھر ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ہماری تکا بوٹی ہو رہی تھی کہ ابا میاں آ گئے۔ مجسٹریٹ تھے، فوراً مقدمہ مع مجرمہ اور مقتول گرگابی کے روتی پیٹتی آپا نے پیش کیا۔ ابا میاں حیران رہ گئے۔ ادھر ننھے بھائی مارے ہنسی کے قلابازیاں کھا رہے تھے۔ ابا میاں نہایت غمگین آواز میں بولے، ’’سچ بتاؤ، جوتا کھا رہی تھی؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ہم نے روتے ہوئے اقبالِ جرم کیا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میٹھا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’جوتا میٹھا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ہم پھر رینکے۔

    ’’یہ کیا بک رہی ہے بیگم؟‘‘ انہوں نے فکر مند ہو کر اماں کی طرف دیکھا۔

    اماں منہ بسور کر کہنے لگیں۔ ’’یا خدا! ایک تو لڑکی ذات، دوسرے جوتے کھانے کا چسکا پڑگیا تو کون قبولے گا۔‘‘

    ہم نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی چمڑا سچ میں بہت میٹھا ہوتا ہے۔ ننھے بھائی نے ہمیں ایک دن کھلایا تھا، مگر کون سنتا تھا۔

    ’’جھوٹی ہے۔‘‘ ننھے بھائی صاف مکر گئے۔ بہت دنوں تک یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ خود ہماری عقل گم تھی کہ ننھے بھائی کے جوتے کا چمڑا کیسا تھا جو اتنا لذیذ تھا۔

    اور پھر ایک دن خالہ بی دوسرے شہر سے آئیں۔ بقچیہ کھول کر انہوں نے پتوں میں لپٹا چمڑا نکالا اور سب کو بانٹا۔ سب نے مزے مزے سے کھایا۔ ہم کبھی انہیں دیکھتے، کبھی چمڑے کے ٹکڑے کو۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ جسے ہم چمڑا سمجھتے تھے، وہ آم کا گودا تھا۔ کسی ظالم نے آم کے گودے کو سکھا کر اور لال چمڑے کی شکل کی یہ ناہنجار مٹھائی بنا کر ہمیں جوتے کھلوائے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر اور افسانہ نگار عصمت چغتائی کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی)

  • سلاس کی تنہائی دور ہو گئی (لوک کہانی)

    سلاس کی تنہائی دور ہو گئی (لوک کہانی)

    سلاس ایک پھرتیلا، چمکیلا اور لچکیلا سانپ تھا۔ گہرے سبز رنگ کا سلاس موزمبیق اور انگولا کے درمیان واقع بہت بڑے جنگل میں رہتا تھا، جہاں کیلے کے درختوں کی بہتا ت تھی۔

    کیلے کے درختوں پر بہت بڑے بڑے پتے تھے۔ یہ کیلے کے درخت ہمارے ایشیائی درختوں سے کہیں بڑے ہوتے ہیں۔ سلاس کے مشاغل میں سے ایک یہ تھا کہ وہ خود کو کسی درخت کے گرد لپیٹ کر دم سادھ لیتا اور یوں لگتا جیسے وہ بھی کسی درخت پر اگی ہوئی بھوری شاخ ہے۔ کبھی وہ اپنے جسم کے بل کھول کر ایک لمبی بھوری رسی کی طرح کسی درخت سے لٹک جاتا اور بندروں کے بچوں کو ناریل کا فٹ بال بنا کر کھیلتے دیکھتا۔ اس کی چمکتی موتیوں جیسی آنکھوں میں انہیں دیکھ کر جوش بھر جاتا۔ اس کی دو شاخہ زبان کبھی اندر اور کبھی باہر لہراتی رہتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی بچوں کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لے۔ لیکن بچوں کی ماں جب بھی دیکھتی کہ وہ بچوں کے قریب آ رہا ہے تو شور مچا دیتی "بچو فوراً بھاگو، سلاس آ رہا ہے، وہ ڈس لیتا ہے۔ اسی طرح سلاس جب رینگتا ہوا لمبے لمبے بانس کے درختوں کے پاس جاتا جہاں شیر کے بچے چھپا چھپی کا کھیل کھیل رہے ہوتے، تو ان کی ماں سلاس کو دیکھ کر فوراً غراتی اور شور مچا دیتی کہ "خبردار! سلاس آ رہا ہے۔” شیرنی ماں کی یہ آوازیں سن کر بچے فوراً ادھر ادھر چھپ جاتے یا ماں کے ساتھ چمٹ جاتے۔ کئی مرتبہ یہ ہوا کہ سلاس کسی درخت کے تنے پر رینگتا ہوا چڑھا تو طوطوں نے ٹیں ٹیں کر کے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اسی ٹیں ٹیں میں بڑے طوطے اور ان کی بچے اڑ کر دوسرے درختوں کی شاخوں پر جا بیٹھتے۔ بے چارے سلاس کو قطعی سمجھ نہ آتی کہ وہ ان جانوروں کا اعتماد جیتنے کے لئے کیا کرے۔ یقینا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو ڈسے۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ ہمہ وقت تنہا رہتا ہے، کوئی تو ہو جو اس کے ساتھ کھیلے، جس سے اس کا دل بھی لگ جائے۔ وہ خود کو ہمیشہ تنہا محسوس کرتا تھا۔

    وہ ایک ایسا دن تھا جب گرمی اپنے عروج پر تھی۔ جنگل کے سارے جانور گرمی سے پریشان اور بے حال ہو کر اپنے اپنے گھونسلوں اور بلوں میں دبکے پڑے تھے۔ تمام بندر ایک ناریل کے درخت کے چھاؤں میں سوئے ہوئے تھے۔ سلاس کیلے کے درخت کی ایک شاخ پر لپٹا ہوا نیند کی وادیوں میں کھویا ہوا تھا۔ بڑے مزے کی نیند تھی کیونکہ جنگل اتنا خاموش تھا کہ کسی پتے کے کھڑکھڑانے کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ لیکن پھر اچانک سلاس کی آنکھ ایک بہت ہی باریک چیخ سے کھل گئی۔ اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ ابھی وہ دوبارہ آنکھیں موندنے ہی لگا تھا کہ اس نے وہی آواز سنی۔ اور یہ آواز اسے کیلے کے درخت کے اوپر سے آ رہی تھی۔ اس نے اپنا چپٹا اور ملائم سر اٹھایا اور اپنی چمکیلی موتیوں جیسی آنکھوں سے اوپر کی جانب گھور کر دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کیلے کے درخت پر سب سے اوپر جگنو بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کھیلنے والے بندروں میں سے سب سے چھوٹا بندر تھا۔ وہ کیلے کے درخت کی پھننگ پر سب سے کمزور شاخ پر سہما ہوا بیٹھا تھا۔ جو اس پر لگے ہوئے کیلوں کے بوجھ سے جھکی جا رہی تھی اور لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے وہ کیلوں اور جگنو کے بوجھ سے ٹوٹ سکتی ہے۔ جگنو بالکل اکیلا تھا اور خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ بار بار زمین کی طرف دیکھتا اور ہر دفعہ گہرائی کو دیکھ کر گھبرا کر آنکھیں بند کر لیتا۔ سلاس نے نہایت حیرانی سے جگنو سے پوچھا "تم اوپر بیٹھے کیا کر رہے ہو۔ تم تو اتنے چھوٹے سے ہو اور تمہیں اتنے بڑے درختوں کی چھتوں تک اتنی اونچائی پر اکیلے نہیں چڑھنا چاہیے۔” جگنو بہت شرمندہ تھا اور سلاس کے ساتھ آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ” دراصل مجھے بہت بھوک لگی ہوئی تھی اور اس درخت پر لگنے والے کیلے پورے افریقہ میں پائے جانے والے کیلوں سے مزے دار ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ سبھی میٹھی نیند سو رہے ہیں تو کیوں نہ میں کچھ کیلے ہی کھا لوں۔ کسی کو پتا بھی نہیں لگے گا۔ مگر….”جگنو نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بات جاری رکھی، کہنے لگا۔ ” میں نے لالچ میں آ کر بہت زیادہ کیلے کھا لئے اور اب میرے پیٹ میں بہت زیادہ درد ہو رہا ہے، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں اس شاخ سے نیچے کیسے اتر سکتا ہوں۔” یہ سن کر سلاس نے سکون سے جگنو کو کہا، ” فکر نہ کرو جگنو! مجھے کچھ سوچنے دو۔” سلاس نے اپنی دُم کے کونے سے اپنا سَر کھجایا اور کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے کہا، "میں اس شاخ کے گرد اپنی دم لپیٹا ہوں جس پر تم بیٹھے ہوئے ہو۔ اور پھر تقریباً زمین تک لٹک جاتا ہوں۔ جیسے ایک رسی لٹکتی ہے۔ تم مجھے ایک رسی کی طرح پکڑ کر جھولتے ہوئے زمین پر پہنچ جانا۔” جگنو یہ ترکیب سن کر خوش ہو گیا۔

    سلاس نے حرکت کی اور اپنی دُم کا سرا اس شاخ پر لپیٹ دیا جس پر جگنو بڑی مشکل سے چمٹا ہوا تھا۔ اس نے باقی جسم ایک رسی کی طرح زمین کی طرف لٹکا دیا اور اس کا سَر تقریباً زمین کو چھونے لگا۔ اس نے جگنو سے کہا، "لو اب مجھے پکڑ کر نیچے پھسلتے جاؤ۔” جگنو نے سلاس کی لچکیلی چمکیلی اور پھرتیلی کمر اپنے ننھے گلابی ہاتھوں سے کس کر پکڑ لی اور پھر زوں کی آواز سے پھسلتا ہوا نیچے آگیا۔ اس کے قدم زمین پر ٹکے تو دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا۔ وہ نیند میں‌ تھی۔ ماں نے اسے دیکھا تو سخت ناراضی سے پوچھا، ” تم کہاں غائب تھے؟ اور میں نے تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ اکیلے درختوں پر نہ چڑھا کرو ورنہ سلاس تمہیں پکڑ گا۔” جگنو نے ماں کی یہ بات سن کر اسے پورا واقعہ سنایا۔ جگنو بولا، "امی آپ صحیح کہہ رہی ہیں، سلاس نے ہی مجھے ڈھونڈا ہے اور اس نے میری مدد کی ہے، اور مجھے ایک اونچے درخت سے نیچے اتارا ہے۔” ادھر سلاس ابھی اپنے جسم کے بل اس درخت سے کھولنے میں مصروف تھا جس پر جگنو پھنسا ہوا تھا کہ اس کی نظر جگنو کی ماں پر پڑی جو وہاں اس کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ وہ سلاس کے پاس آئی اور کہنے لگی، "مجھے بہت افسوس ہے کہ میں تم پر شک کرتی رہی اور تمہیں برا بھلا کہتی رہی۔ لیکن اب مہربانی فرما کر میرے گھر آؤ، میں تمہیں ناریل کا دودھ پینے کو دوں گی۔ اور آج کے بعد تم ہمارے دوست ہو۔”

    سلاس یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اب اس کی تنہائی دور ہوچکی تھی۔ اس واقعے کے بعد سلاس نے بندر کے بچوں کو جھولا جھلانا اپنا معمول بنا لیا۔ وہ درخت کی شاخوں سے اپنی دُم لپیٹ کر لٹک جاتا اور بندر کے بچے اس کی چکنی اور ملائم جلد پر پھسلتے ہوئے زمین پر آتے اور خوب ہنستے۔ سلاس کچھ ہی عرصہ میں یہ بات بھول چکا تھا کہ کبھی وہ ہر وقت تنہائی کا شکوہ کرتا تھا اور افسردہ رہتا تھا۔

    (افریقی ادب سے ترجمہ شدہ کہانی)

  • اشرفیوں والا صندوق

    اشرفیوں والا صندوق

    ایک زمین دار تھا، بہت امیر۔ گاؤں کی ساری اچھّی اور زرخیز زمینیں اس کی ملکیت تھیں۔ ان زمینوں کے سرے پر ایک ٹکڑا ایسی بنجر زمین کا تھا جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا تھا۔ زمیں دار نے سوچا، اس زمین سے کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں، کیوں نہ اسے کسی غریب کسان کو دے کر اس پر احسان جتایا جائے۔ اگر اس کی محنت سے زمین اچھّی ہو گئی اور فصل دینے لگی تو پھر واپس لے لوں گا۔

    زمین دار کے پاس بہت سے کسان کام کرتے تھے۔ ان میں سے اس نے ایک ایسا کسان چنا جس کے متعلق اسے یقین تھا کہ اگر کبھی زمین واپس لینی پڑے تو چپ چاپ واپس کر دے گا۔ زمیں دار نے کسان کو بلایا اور کہا ”میں اپنی زمین کا وہ ٹکڑا جو ٹیلے کے پاس ہے، تمہیں دیتا ہوں۔ میرا اس سے اب کوئی تعلّق نہیں۔ تم محنت کر کے اسے ٹھیک کرو۔ اس میں تم جو بھی فصل اگاؤ گے، وہ تمہاری ہو گی۔“ کسان نے زمیں دار کا شکریہ ادا کیا اور اگلے ہی دن زمین پر کام شروع کر دیا۔

    اس نے ایک ہفتے لگاتار محنت کر کے زمین میں سے کنکر، پتھر اور گھاس پھونس صاف کیا اور پھر اس میں ہل چلانا شروع کیا۔ لیکن ایک جگہ ہل کسی چیز میں اٹک گیا۔ اس نے ہل روک لیا اور اس چیز کو نکالنے کے لیے اس جگہ زور سے پھاؤڑا مارا۔ جوں ہی پھاؤڑا زمین پر لگا، ایسی آواز آئی جیسے لوہا لوہے سے ٹکراتا ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ زمین کے اندر لوہے کا کیا کام! اس نے پھاؤڑا پھینک دیا اور بیلچے سے آہستہ آہستہ زمین پر سے مٹّی ہٹانے لگا۔

    کوئی فٹ بھر مٹّی ہٹانے کے بعد اس نے ہاتھ سے چھو کر دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے لوہے کا صندوق ہے۔ اس نے جلدی جلدی مٹّی ہٹائی۔ واقعی وہ صندوق تھا۔ اب تو اس کی دلچسپی بڑھ گئی۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دور دور تک کوئی نہ تھا۔ اس نے صندوق کے چاروں طرف کی مٹّی کھودی اور پورے زور سے صندوق کو ہلایا۔ لیکن وہ اتنا بھاری تھا کہ ذرا بھی نہ ہلا۔ اس میں ایک موٹا سا تالا پڑا ہوا تھا۔ کسان نے پھاؤڑا تالے پر مارا تو وہ ٹوٹ گیا۔ اس نے جلدی جلدی ڈھکن اٹھایا۔ مارے حیرت کے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ صندوق میں سونے کی اشرفیاں بھری ہوئی تھیں۔ کسان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ واقعی سونے کی اشرفیاں تھیں۔ اس نے پھر ایک بار ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔ اس نے ایک اشرفی اٹھا کر جیب میں ڈالی، صندوق کو بند کیا اس کے اوپر مٹّی ڈال کر زمین برابر کر دی۔ آدمی سمجھدار تھا۔ اس نے سوچا اگر جلد بازی سے کام کیا تو ساری دولت ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ وہ چپ چاپ ہل چلاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ سوچتا رہا کے اس صندوق کو یہاں سے لے جانے میں کس سے مدد لے۔

    آخر وہ اس فیصلے پر پہنچا کہ سوائے بیوی کے اور کسی کو یہ راز نہ بتانا چاہیے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کی بیوی پیٹ کی بہت ہلکی تھی۔ وہ جب بھی اپنی بیوی کو کوئی راز کی بات بتاتا، وہ سارے گاؤں میں اسے پھیلا دیتی۔

    سوچ سوچ کر کسان نے اس کا بھی حل ڈھونڈ لیا. وہ شہر گیا اور ایک سنار کے ہاتھ اشرفی فروخت کی۔ سنار نے اسے اتنے روپے دیے کہ اس کی جیبیں بھر گئیں۔ اب وہ پکوڑوں کی دکان پر گیا اور ایک من پکوڑے خریدے۔ پکوڑے لے کر وہ اپنے کھیت میں گیا اور سارے کھیت میں پکوڑے بکھیر دیے۔ اس کے بعد وہ پھر شہر گیا اور بازار سے دو سو سموسے، ایک جھاڑو اور چار کبوتر خریدے۔ پھر ایک مزدور سے یہ سب چیزیں اٹھوا کر گھر آ گیا۔ لیکن گھر میں داخل نہ ہوا، بلکہ پچھلی دیوار سے چھت پر چڑھ کر سارا سامان رسّی میں باندھ کر اوپر کھینچ لیا۔ اس کی بیوی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

    اَب کسان نے ساری چھت اور منڈیروں پر پکوڑے بکھیر دیے۔ پھر سیڑھیوں پر پکوڑے بکھیرتا ہوا نیچے آیا اور جھاڑو اور کبوتر ایک کمرے میں چھپا دیے۔
    اسے دیکھتے ہی اس کی بیوی کہنے لگی ”تم کو تو بس گھر کی کچھ پروا ہی نہیں ہے۔ اس بے کار زمین پر سارا دن وقت ضائع کرتے رہتے ہو۔ میں پوچھتی ہوں، کیا ہم ہمیشہ یوں ہی بھوکے رہیں گے؟ اس زمین کو چھوڑو۔ کوئی اور کام کرو، جس سے چار پیسے ہاتھ آئیں؟“

    کسان بولا، ” اری نیک بخت، ذرا صبر تو کر۔ مجھے سانس تو لینے دے۔ تھکا ہارا آ رہا ہوں، اور تو نے اوپر سے باتیں بنانا شروع کر دیں۔ لا، کچھ کھانے کو دے۔“
    بیوی بولی ”کھانے کو کیا دوں ؟ گھر میں کچھ تھا ہی نہیں جو پکاتی۔ ہمسایوں کے ہاں پوچھتی ہوں۔ شاید ان کے پاس کچھ فالتو بچ رہا ہو۔“

    یہ کہہ کر وہ چھت پر جانے کے لیے سیڑھی پر چڑهی تو پکوڑے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ چھت پر پہنچی تو وہاں بھی ہر طرف پکوڑے پڑے تھے۔ وہ وہیں سے چلائی ” ارے۔۔۔! ارے۔۔۔! ادھر آؤ۔“ کسان نے کہا ”کیا ہے؟“

    بیوی بولی ”دیکھو، آج ہمارے گھر پکوڑوں کی بارش ہوئی ہے۔ ذرا اوپر تو آؤ۔۔۔۔“
    کسان اوپر جا کر بولا ”واقعی۔ یہ تو کمال ہو گیا۔ انہیں اکٹھا کر لو۔ ایک ہفتہ آرام سے کھائیں گے۔“

    جب وہ پکوڑے کھا رہے تھے تو کسان نے کہا ”میں تمہیں ایک خوش خبری سناتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ بات تمہارے سوا کسی اور کو معلوم نہ ہو۔“ بیوی بولی ” تم پوری تسلّی رکھو۔ میں کسی سے ذکر نہ کروں گی۔“ اس پر کسان نے بیوی کو صندوق والی بات بتا دی۔ لیکن پکوڑوں، سموسوں، جھاڑو اور کبوتروں کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ اتنی دولت کا خیال کر کے کسان کی بیوی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ بولی ”چلو، ابھی اٹھا لاتے ہیں وہ صندوق۔“

    کسان بولا ”کیسی باتیں کر رہی ہو۔ رات تو ہو لینے دو۔“ اندھیرا ہوا تو دونوں گھر سے باہر نکلے۔ کسان نے کہا ” پہلے تم جاؤ۔ میں تھوڑی دیر بعد آؤں گا۔“ بیوی چلی گئی تو کسان نے جلدی جلدی کبوتروں کو ذبح کیا اور ان کے خون میں جھاڑو کو خوب تر کر لیا۔ پھر بھاگ کر بیوی سے آملا۔

    دونوں زمین کی طرف جا رہے تھے کہ کسان نے چپکے سے جھاڑی ہلائی، جس سے خون کے چھینٹے اڑ کر اس کی بیوی کے کپڑوں پر پڑے۔ بیوی نے کپڑے دیکھے تو بولی: ”ارے آسمان تو بالکل صاف ہے۔ تارے نکلے ہوئے ہیں۔ یہ بارش کہاں سے ہوئی ہے؟“

    کسان بولا ”صاف موسم میں بارش ہو تو پانی کے بجائے خون برستا ہے۔“ یوں ہی باتیں کرتے ہوئے وہ اپنی زمین پر پہنچ گئے۔ کھیت میں قدم رکھتے ہی کسان کی بیوی چلّائی:
    ” ارے ارے یہ دیکھو! یہ تو سموسوں کی بارش ہوئی ہے!“ یہ کہہ کر اس نے سموسے اٹھا اٹھا کر کھانے شروع کر دیے۔ اس کے بعد دونوں نے اشرفیوں کا صندوق نکالا اور خاموشی سے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں زمین دار کی حویلی پڑتی تھی۔ کسان اور اس کی بیوی حویلی کے پاس سے گزرے تو حویلی کے چوکی دار کے کراہنے کی آواز آئی۔ کسان جانتا تھا کہ چوکی دار کافی عرصے سے بیمار ہے۔ بیوی نے پوچھا:

    ”یہ کون رو رہا ہے؟“ کسان بولا ”سنا ہے ایک جن زمیندار کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ اسی لیے اس کے بیوی بچّے رو رہے ہیں۔“ گھر پہنچ کر کسان نے زمین کھودی اور بیوی کی مدد سے اشرفیوں والا صندوق اس میں دبا دیا۔ صبح اٹھتے ہی کسان کی بیوی نے کسان سے مطالبہ شروع کر دیا کہ اسے اچھے اچھے کپڑے اور زیورات بنانے کے لیے کچھ اشرفیاں دے۔ لیکن کسان ڈرتا تھا کہ اگر اس طرح انہوں نے روپیہ خرچ کیا تو لوگ سوچیں گے کہ ان کے پاس اچانک اتنی دولت کہاں سے آ گئی۔ دوسرے وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی فضول دولت اڑانی شروع کر دے۔ اس نے اشرفیاں دینے سے انکار کر دیا۔

    بیوی اپنی عادت کے مطابق شوہر سے خوب لڑی اور پھر ناراض ہو کر پڑوس میں جا بیٹھی۔ کسان نے زمین میں سے صندوق نکالا اور صحن کے کونے میں نیا گڑھا کھود کر اس میں دفن کر دیا۔ شام کو کسان کی بیوی واپس آئی اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہمسائے کی بیوی آئی اور کسان کی بیوی نے اس سے کہا ”بہن میں تمہیں ایک بات بتاتی ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا۔“

    ہمسائی نے اسے یقین دلایا کہ وہ کسی سے نہ کہے گی تو کسان کی بیوی نے اسے اشرفیوں والے صندوق کی بات بتا دی۔ عورتوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹھہرتی۔ ہمسائی نے وہ بات کسی اور کو بتا دی، اور یوں ہوتے ہوتے یہ بات تمام گاؤں میں پھیل گئی۔ زمیندار کے کان میں بھی اس کی بھنک پڑ گئی۔

    زمیندار غصّے سے بپھرا ہوا کسان کے گھر آیا اور بولا”تو بہت دھوکے باز اور بے ایمان ہے۔ میں نے تیری غربت کا خیال کر کے تجھے زمین دی۔ اس زمین میں سے اشرفیوں کا صندوق نکلا تو تجھے چاہیے تھا کہ فوراً میرے حوالے کر دیتا۔ کہاں ہے وہ صندوق؟“

    کسان پہلے تو گھبرایا لیکن پھر گھبراہٹ پر قابو پاکر کہا ”حضور، میری کیا مجال کہ اتنی بڑی دولت ہاتھ آتی اور میں آپ سے چھپاتا۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔“

    زمین دار گرج کر بولا ”سارا گاؤں اس بات کو جانتا ہے۔ تیری بیوی نے سب کو بتا دیا ہے۔ وہ خود تیرے ساتھ وه صندوق اٹھا کر لائی ہے۔ زیاده چالاکی مت کر۔ جلدی بتا، کہاں ہے وہ صندوق؟“

    کسان نے زمیندار کے آگے ہاتھ جوڑ تے ہوئے کہا ”حضور یہ بڑی جھوٹی عورت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ مجھ سے لڑتی رہتی ہے۔ یہ بات بھی اس نے مجھے بدنام کرنے کے لیے گھڑی ہے۔“

    کسان کی بیوی، جو اب تک چپ بیٹھی تھی ایک دم برس پڑی ”کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ اس دن مجھے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے؟“

    کسان نے کہا ”کس دن کی بات کر رہی ہو؟“

    بیوی بولی ” جس دن شام کو پکوڑوں کی اور رات کو سموسوں کی بارش ہوئی تھی۔“

    کسان کی بیوی کی یہ بات سن کر زمیندار نے سوچا کہ کہیں ا،س عورت کا دماغ تو نہیں چل گیا۔ کبھی پکوڑوں اور سموسموں کی بارش بھی ہوئی ہے!

    کسان اپنی اسکیم کی کامیابی بہت خوش تھا۔ اس نے بیوی سے کہا ”اور کیا ہوا تھا اس دن؟“

    بیوی بولی ”خون کی بارش ہوئی تھی۔ اور کیا ہونا تھا۔“

    زمیندار نے کسان سے کہا ”کیسی باتیں کر رہی ہے تیری بیوی۔ خون کی بارش تو ہم نے نہ کبھی سنی نہ دیکھی۔“

    کسان نے کہا ” یہ ہمیشہ ایسے ہی بَک بَک کرتی رہتی ہے۔“ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا ”کچھ اور یاد ہو تو وہ بھی بتاؤ۔۔۔۔“

    ” ہاں ہاں“ بیوی بولی ”اس دن ایک جن زمیندار صاحب کو اٹھا کر لے گیا تھا اور حویلی میں لوگ رو رہے تھے۔۔۔“

    یہ سنتے ہی زمیندار کو غصّہ آ گیا۔ اس نے اپنے ملازموں سے کہا ” اس چڑیل کی خوب مرمت کرو۔ کسی جن کی جرأت ہے کہ مجھے اٹھا کر لے جائے۔ اس کم بخت نے جھوٹ بول کر غریب کسان کو ناحق بدنام کیا۔۔۔“

    کسان کی بیوی بولی ”حضور، آپ اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ میں آپ کو وہ جگہ دکھاتی ہوں جہاں ہم نے صندوق دبایا تھا۔۔۔“

    زمیندار کے حکم سے ملازموں نے وہ جگہ کھودی جہاں کسان کی بیوی کے مطابق اشرفیوں کا صندوق دبایا گیا تھا۔ لیکن وہاں سے کچھ بھی نہ نکلا۔

    اب تو زمیندار کو یقین ہو گیا کہ اس عورت کے دماغ میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ وہ غصّے سے پیر پٹختا ہوا چلا گیا۔

    کسان نے بیوی سے کہا ”اب کیا خیال ہے ؟ اور بتاؤ لوگوں کو یہ بات اور خوب جوتے کھاؤ۔“

    بیوی اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھی۔ اس نے شوہر سے معافی مانگی اور آئندہ کبھی گھر کی بات کسی کو نہ بتائی۔ کچھ عرصے بعد وہ دونوں گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے اور وہاں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (یورپی ادب سے ماخوذ اس کہانی کے مترجم سیف الدّین حُسام ہیں)

  • رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے بہت منحوس ثابت ہوا اور اسے دن بھر بھوکا رہنا پڑا۔

    وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘ اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔

    وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگ ریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہیے۔

    وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس طرح کا جانور نہیں دیکھا تھا۔

    گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘

    سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘

    ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔

    چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘

    سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘

    نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘

    ’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘

    گیدڑ کی اس بات سے سبھی جانوروں کو تسلّی ہوئی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔

    ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سَیّار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر نکل گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔

    ( ترجمہ: ساحر ہوشیار پوری)

  • نیکی کا بدلہ (پولینڈ کی ایک دل چسپ کہانی)

    نیکی کا بدلہ (پولینڈ کی ایک دل چسپ کہانی)

    ایک رات اتنی تیز آندھی آئی کہ درخت جڑوں سے اُڑ گئے، مکانوں کے چھجے اُڑ گئے اور پرندوں کے لاتعداد گھونسلے تباہ ہوگئے اور وہ ان میں سے گِر کر مر گئے۔

    ایک لکڑہارے نے سوچا کہ آندھی سے جنگل میں درخت کافی گِر گئے ہوں گے اور لکڑی آسانی سے مل جائے گی۔ وہ صبح دھوپ نکلتے ہی جنگل کو چل دیا۔

    جنگل میں ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی اور اِس پہاڑی کی ڈھلان پر ایک بہت بڑا درخت گِرا پڑا تھا۔ اس کا تنا ایک چٹان کے پتھّر پر پڑا تھا اور شاخیں پگڈنڈی پر پھیلی ہوئی تھیں۔

    لکڑہارے نے درخت کی چھوٹی چھوٹی شاخیں کاٹنی شروع کیں تا کہ راستہ صاف ہو جائے۔ اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی دردناک آواز آ رہی ہو۔ اُس نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ آواز پتّھر کے نیچے سے آ رہی ہے۔ بہت ہی باریک آواز تھی۔ کوئی جان دار تکلیف سے کراہ رہا تھا۔

    لکڑہارے سے رہا نہ گیا۔ اُس نے پتھر کے پاس جا کر آواز دی:

    ”کون ہے ؟ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟“

    پتھر کے نیچے سے باریک سی آواز آئی ”خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔ میری جان نکلی جا رہی ہے۔ میں تمہیں اِس احسان کا بدلہ دوں گا۔“

    لکڑہارا بولا ”خدا جانے تم کون ہو اور میرے احسان کا کیا بدلہ دو۔“

    آواز آئی ”تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو دوسرے لوگوں کو ان کے نیک کاموں کا ملتا ہے۔ اس کی فکر مت کرو۔“

    لکڑہارے نے کچھ دیر غور کیا۔ پھر بولا ”لیکن یہ پتھر اتنا وزنی ہے کہ میں کوشش بھی کروں تو اسے ہلا نہیں سکتا۔ یہ میری ہمّت سے باہر ہے۔“

    آواز پھر آئی ”تمہیں سارا پتھر اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک کنارہ تھوڑا سا اٹھا دو۔ پھر میں خود ہی باہر نکل آؤں گا۔ اپنی کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنساؤ اور دستے پر زور لگاؤ۔“

    لکڑہارے نے ایسا ہی کیا۔ اُس نے کلہاڑی کے پَھل کو پتھر کے نیچے پھنسا کر پورے زور سے پتھر کو ہلایا تو کوئی چیز رینگتی ہوئی اس کے نیچے سے نکلی۔ لکڑہارا حیران رہ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک سانپ کھڑا تھا جس کے سات پھن تھے۔ بجائے اس کے کہ وعدہ کے مطابق لکڑہارے کو اِس کے احسان کا بدلہ دیتا، وہ پھنکار کر بولا ”اب میں تمہیں ڈسوں گا۔“

    لکڑہارا گھبرا کر بولا ”کیا کہا؟ مجھے ڈسو گے؟ اس لیے کہ میں نے تمہاری جان بچائی ہے؟“

    سانپ نے اپنی ساتوں زبانوں سے شعلے برساتے ہوئے کہا۔ ”ہاں۔ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ برائی سے دیا جاتا ہے۔“

    لکڑہارے کی سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا، وہ چپکے سے بھاگنے لگا۔ لیکن سانپ بھلا اُسے کہاں بھاگنے دیتا۔ اس نے لکڑہارے کی ٹانگ پکڑ لی اور بولا: ”میں نے یہی وعدہ کیا تھا نا کہ تمہیں وہی بدلہ دوں گا جو دوسرے لوگوں کو ملتا ہے۔“

    لکڑہارا بولا” لیکن صرف تمہارے کہنے سے تو یہ بات نہیں ہو سکتی۔ مجھے لوگوں سے پوچھنے دو کہ جو نیکی میں نے تمہارے ساتھ کی ہے، اُس کا یہی بدلہ ملنا چاہیے جو تم مجھے دینا چاہتے ہو!“

    سانپ نے کہا ”خوشی سے۔ بڑی خوشی سے ۔ تم جس سے چاہو پوچھ لو۔“ دونوں چل کھڑے ہوئے۔ کچھ دور جا کر اُنہیں ایک بوڑھا گھوڑا دکھائی دیا جو گھاس کھا رہا تھا۔ سانپ نے گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”چلو، گھوڑے سے فیصلہ کرائیں۔“

    لکڑہارا بولا ”صرف اکیلا گھوڑا ہی نہیں، کم سے کم تین جانوروں سے پوچھیں گے؟“

    سانپ بولا ”تم جتنے جانوروں سے چاہو، پوچھ لو۔ فيصلہ میرے ہی حق میں ہو گا۔“

    وہ گھوڑے کے پاس جا کر بولے، ”گھوڑے بھائی، ہمارا فیصلہ کرو۔“ گھوڑے کی ہڈّیاں نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے چلا نہیں جاتا تھا۔ بڑی مشکل سے اُس نے سر اوپر اٹھایا اور کہا:
    ”کیا بات ہے؟“

    لکڑہارا بولا، ”میں درخت سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ ایک پتھر کے نیچے سے اس سانپ کے کراہنے کی آواز آئی۔“ یہ کہہ کر لکڑہارے نے تمام بات تفصیل سے گھوڑے کو بتائی اور آخر میں کہا ”اور اب یہ کہتا ہے کہ میں تجھے ڈسوں گا۔ کیا یہ انصاف ہے؟“

    گھوڑا بولا ”سانپ درست کہتا ہے۔ اِس دنیا میں یہی بدلہ ہوتا ہے نیکی کا۔ مجھے دیکھ لو جب میں جوان تھا تو ایک امیر آدمی کی بگھّی کھینچتا تھا۔ میرے پاؤں میں گھنگرو بندھے ہوتے تھے، اور ہر روز شام کو میری مالش ہوتی تھی۔ عمده سے عمدہ کھانے کو ملتا تھا۔ لیکن جب میں بوڑھا ہو گیا تو اس شخص نے میری تمام عمر کی خدمت کا صلہ دیا کہ مجھے جنگل میں چھوڑ دیا، جہاں ہر وقت بھیڑیوں اور دوسرے خوں خوار جانوروں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔“
    لکڑہارا اس فیصلے سے مطمئن نہ ہوا۔ بولا ”آؤ دو جانوروں سے اور پوچھ لیں۔ اگر اُنہوں نے بھی تمہارے حق میں فیصلہ دیا تو پھر مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔“

    یہ کہہ کر وہ آگے چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک بوڑھا کتّا دکھائی دیا، جو بہت کمزور تھا۔ وہ ایک ہڈّی کو چچوڑ رہا تھا۔ لکڑہارے نے کتّے سے کہا ” بھئی ہمارا ایک فیصلہ تو کر دو۔“

    یہ کہہ کر اس نے ساری کہانی کتّے کو کہہ سنائی۔ کتّے نے غور سے ساری بات سنی اور پھر بولا ”سانپ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ دنیا کا یہی دستور ہے ۔ یہاں نیکی کا وہی صلہ مِلتا ہے جو سانپ تمہیں دینا چاہتا ہے۔ مجھے دیکھو۔ جب میں جوان تھا تو جس گھر میں مَیں رہتا تھا وہ لوگ مجھے کرسی پر بٹھاتے تھے۔ اچھّے سے اچھّا کھانے کو دیتے تھے۔ جب میں بوڑھا ہو گیا اور کِسی کام کا نہ رہا تو گھر سے نکال دیا گیا۔ اُسی گھر سے جس کی میں نے تمام عمر رکھوالی کی۔ غیروں کو اُس کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور چوروں کو بھونک بھونک کر بھگایا۔ اب میں بھوکوں مر رہا ہوں۔ میاں لکڑہارے؟ نیکی کا یہی بدلہ ملتا ہے۔ سانپ کچھ غلط تو نہیں کہہ رہا۔“

    اب وہ تیسرے جج کی تلاش میں نکلے۔ جلد ہی انہیں ایک دبلی پتلی، مریل سی گائے مل گئی جو زمین پر بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔ سانپ اور لکڑہارے کو دیکھ کر اس نے بھاگنا چاہا لیکن اُس سے اُٹھا ہی نہ گیا۔ لکڑہارے نے اُس سے کہا: ”بی گائے، ذرا ہمارا فیصلہ تو کر دو۔“

    گائے بولی، ”خیریت تو ہے؟ کیا مشکل آ پڑی؟“ لکڑہارے نے سارا قصّہ دہرایا تو گائے بولی، ”سانپ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ نیکی کا یہی بدلہ ہوتا ہے جو سانپ تم کو دینا چاہتا ہے۔ میری طرف دیکھو۔ میں نے تمام عمر انسان کی خدمت کی۔ اپنے بچّوں کا حق مار کر اُس کے بچّوں کو دودھ دیا۔ لیکن جب میں بوڈھی ہو گئی اور میرا دودھ خشک ہوگیا تو میرے مالک نے میری تمام عمر کی خدمت کا یہ بدلہ دیا کہ مجھے ایک قصائی کے ہاتھ بیچ دیا کہ وہ مجھے پورے کا پورا کاٹ ڈالے۔ وہ تو ایسا اتفاق ہوا کہ قصائی کا بچّہ مجھے لے کر اِدھر سے گزر رہا تھا کہ میں رسّی تڑا کر بھاگی ورنہ اب تک مجھے نیکی کا وہ بدلہ مل چکا ہوتا جو یہ سانپ تمہیں دینا چاہتا ہے۔“

    گائے کا فیصلہ سن کر لکڑہارا بہت گھبرایا۔ اُسے اپنی موت نظر آنے لگی۔ سانپ نے کہا ”بس تین جج میرے حق میں فیصلہ دے چکے۔ چاہو تو ایک سے اور پوچھ لو۔ لیکن یہ آخری جج ہو گا۔“ وہ پھر آگے چل دیے۔ راستے میں ایک بھیڑ ملی ۔ لیکن لکڑہارا جانتا تھا کہ بھیڑ بہت بزدل ہوتی ہے۔ وہ سانپ سے ڈر جائے گی اور اُسی کے حق میں فیصلہ دے گی۔

    لکڑہارا دراصل لومڑی کی تلاش میں تھا۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ لومڑی بہت عقل مند اور سمجھ دار ہوتی ہے۔ اتفاق کی بات ہے اُسی وقت ایک لومڑی اُدھر سے گزری۔ لکڑہارے نے اُس سے کہا: ”بی لومڑی، ذرا سنو تو۔۔۔ “

    لکڑہارے کے ہاتھ میں کلہاڑی دیکھ کر لومڑی بھاگنے لگی تو وہ جلدی سے بولا ”ڈرو نہیں۔ ہم تو تم سے ایک فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔“

    ”کیسا فیصلہ؟“ لومڑی نے پوچھا۔ لکڑہارے نے ساری بات اُسے بتائی تو وہ بولی ”سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تُم دونوں کے بیان علیحدہ علیحدہ سنوں گی۔“

    سانپ فوراً راضی ہو گیا۔ لومڑی لکڑہارے کو ایک طرف لے جا کر بولی، ”میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ تمہارے حق میں فیصلہ کروں گی لیکن یہ بتاؤ کہ تم اس کے بدلے میں مجھے کیا دو گے؟“

    لکڑہارا بولا ”تم جو چاہو گی دوں گا۔ فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہیے۔“

    لومڑی نے کہا ”تم ہر اتوار کو مجھے ایک موٹی تازی مرغی کھانے کو دے سکو گے؟“
    لکڑہارا بولا ”دوں گا۔ اور ہاتھ باندھ کر دوں گا۔“

    لومڑی بولی، ”ٹھیک ہے۔ میں فیصلہ تمہارے حق میں کروں گی۔ لیکن اپنا وعدہ بھول نہ جانا۔“

    اب وہ سانپ کو ایک طرف لے گئی اور اس سے کہا ” بات یہ ہے کہ تمہارا گواه تو کوئی موجود نہیں اور گواہی کے بغیر صحیح فیصلہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہاں ایک صورت ہے کہ میں اُس پتھر کو دیکھوں جس کے نیچے تم دبے ہوئے تھے۔ اس سے فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی۔ ورنہ یا تو تمہارے ساتھ بے انصافی ہو جائے گی یا لکڑہارے کے ساتھ۔“ وہ تینوں پتھر کے پاس پہنچے تو لکڑہارا بولا ” سانپ اِس پتھر کے نیچے تھا۔“
    لومڑی نے پوچھا ”تم نے اسے باہر کیسے نکالا؟“

    ”میں نے اپنی کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنسایا اور اُس کو ذرا سا اوپر اٹھا دیا ۔ سانپ باہر نکل آیا۔“

    لومڑی بولی ” کس طرح؟ اُٹھا کر دکھاؤ۔“ لکڑہارے نے کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنسایا اور دستے پر زور لگا کر پتھر کو ذرا سا اوپر اٹھا دیا۔

    لومڑی سانپ سے بولی ”تُم پتھر کے نیچے لیٹ جاؤ تاکہ میں دیکھ سکوں کہ لکڑہارے نے تمہیں باہر نکالنے میں کچھ محنت بھی کی ہے یا یوں ہی احسان جتا رہا ہے۔“

    سانپ اپنے سات سَروں کے باوجود اتنا ذہین نہ تھا۔ وہ رینگ کر پتھر کے نیچے داخل ہوا اور اُس طرح لیٹ گیا جیسے پہلے لیٹا ہوا تھا۔ لومڑی نے لکڑہارے کو اشارہ کیا۔ اُس نے جلدی سے کلہاڑی پتھّر کے نیچے سے کھینچ لی۔ سانپ پتھّر کے نیچے دب گیا۔

    لومڑی بولی، ”لو، سانپ میاں تمہارا فیصلہ ہو گیا۔ اب یہاں لیٹے رہو، جب تک تمہارا جی چاہے۔“

    لکڑہارا بہت خوش ہوا ۔ اُس نے لومڑی سے کہا ”بہت خوب، کمال کر دیا تم نے ! اب آؤ، میرا گھر دیکھ لو۔“ لومڑی نے لکڑہارے کا مکان دیکھ لیا۔ اب وہ ہر اتوار آتی اور لکڑہارے سے ایک موٹی تازی مرغی لے جاتی۔ آہستہ آہستہ لکڑہارے کی تمام مرغیاں ختم ہو گئیں تو اُس نے گاؤں کے لوگوں کی مرغیاں چرانا شروع کر دیں۔ لیکن کب تک۔ گاؤں والوں کو لکڑہارے پر شک ہو گیا اور اُس نے بدنامی سے بچنے کے لیے ایک دن فیصلہ کیا کہ لومڑی کا کام تمام کر دیا جائے۔

    اتوار کی شام کو لومڑی کے آنے کا وقت ہوا تو لکڑہارے نے بندوق بھری اور درختوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ لومڑی خوش تھی کہ موٹی مرغی کھانے کو ملے گی لیکن یہاں معاملہ ہی اور تھا۔ لکڑہارے نے ایسا تاک کے نشانہ مارا کہ گولی لومڑی کے دل کو چیرتی ہوئی نِکل گئی۔

  • باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    کسی بادشاہ کے محل میں ایک بہت خوب صورت باغ تھا جس کی دیکھ بال کے لیے بہت سے مالی بادشاہ نے مقرّر کر رکھے تھے۔

    لیکن کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا تھا کہ روزانہ رات کو کوئی مخلوق باغ میں آتی اور درختوں کی شاخیں توڑ دیتی۔ بادشاه مالیوں سے بڑا ناراض تھا۔ مالی ہر طرح کوشش کر رہے تھے کہ اُن لوگوں کو پکڑا جائے جو باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔ آخر بہت کوشش کے بعد مالیوں کو پتا چلا کہ آدھی رات کے قریب تین ہنس، باغ میں آتے ہیں لیکن صبح جب پڑتال کی جاتی تو گھاس پر انسانی پاؤں کے نشان نظر آتے۔

    بادشاہ نے باغ کی رکھوالی کے لیے چوکی دار رکھے۔ لیکن عجیب بات تھی کہ جوں ہی ہنسوں کے آنے کا وقت ہوتا چوکی داروں کو نیند آ جاتی اور اگلی صبح درختوں کی کئی شاخیں ٹوٹی ہوئی ہوتیں۔

    اس بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ بڑے دو بیٹے تو کافی چاق و چوبند تھے لیکن چھوٹا بہت سست اور ڈھیلا سا تھا۔ لوگ اُسے بے وقوف سمجھتے تھے۔

    بادشاہ کے بڑے بیٹے باپ کی پریشانی پر خود بھی پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح باغ اُجاڑنے والوں کا پتا چل جائے۔ چناں چہ سب سے بڑے شہزادے نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اُن لوگوں کا پتا چلاؤں جو ہمارے باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔“

    بادشاہ بولا ”ضرور ضرور۔ تم یہ کام نہیں کرو گے تو اور کون کرے گا۔“

    بڑا شہزادہ شام ہوتے ہیں باغ میں داخل ہوگیا اور بادام کے درخت کے نیچے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے پکّا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی آنکھ بند نہیں کرے گا۔ لیکن عین اُس وقت جب اُسے ہوشیار ہو کر بیٹھنا چاہیے تھا اُس کی آنکھ لگ گئی۔ باغ میں آندھی آئی اور اُس آندھی میں تینوں ہنس اُڑتے ہوئے باغ میں اترے۔

    صبح جب بادشاہ شہزادے کا کارنامہ دیکھنے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہُوا کہ شہزادہ گہری نیند سویا ہوا ہے، اور اُس درخت کی تین شاخیں ٹوٹی ہوئی ہیں جس کے نیچے وہ لیٹا تھا۔ بادشاہ کو بہت غصّہ آیا۔ وہ ناراض ہو کر بولا: ”اگر تم میرے بیٹے نہ ہوتے تو میں تمہارے کان اور ناک کٹوا کر گدھے پر سوار کر کے، تمام شہر میں گھماتا! دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“

    اگلے دن دوسرے شہزادے نے چوروں کو پکڑنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اُس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہُوا جو پچھلی رات بڑے شہزادے کے ساتھ ہوا تھا۔

    تیسرے دن سب سے چھوٹے شہزادے نے باغ میں جانے کی اجازت چاہی تو بادشاہ نے کہا ”تم تو بالکل ہی گئے گزرے ہو۔ تمہارے بڑے بھائی جو بہت چالاک اور ہوشیار ہیں، یہ کام نہ کر سکے۔ تم کون سا تیر مار لو گے۔“

    لیکن جب چھوٹے شہزادے نے بہت ضد کی تو بادشاہ نے اجازت دے دی اور وہ شام کو باغ میں داخل ہو گیا۔ وہ یہ سن چکا تھا کہ عین اُس وقت جب ہنس باغ میں داخل ہوتے ہیں، چوکی داروں کو نیند آ جاتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی سو جائے۔ اس نے چاقو سے اپنی انگلی پر زخم لگایا اور اُس کے اُوپر تھوڑا سا نمک چھڑک لیا تا کہ درد کی وجہ سے اُسے نیند نہ آئے۔

    اندھیرا چھا گیا۔ پھر چاند اپنی پوری آب و تاب سے نکلا اور تمام باغ چاندنی سے جگمگا اٹھا۔ پھر بہکی بہکی ہوا چلنے لگی جو آہستہ آہستہ بہت تیز ہو گئی۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ اب ہنسوں کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔

    اُس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دور فضا میں تین چوٹے چھوٹے دھبّے دکھائی دیے جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑے ہوتے گئے اور پھر تین سفید ہنس تیزی لیکن خاموشی سے باغ میں اُترے۔ اُن کے پروں کی آواز بھی سُنائی نہ دی۔

    شہزادہ چوکس ہو گیا اور جلدی سے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تینوں ہنسوں نے اپنے پر اُتار کر اُسی جھاڑی کے پاس رکھ دیے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اُن پروں کے اندر سے تین خوب صورت لڑکیاں نکل کر گھاس پر ناچنے لگیں۔ اُن کے سنہری بال چاندنی میں بڑے ہی خوب صورت لگ رہے تھے ۔

    شہزادے نے سوچا کہ اگر میں نے پھرتی سے کام نہ لیا تو یہ لڑکیاں جتنی تیزی سے آئی تھیں، اُتنی ہی تیزی سے واپس چلی جائیں گی اور میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاتے وقت یہ کِسی درخت کی ٹہنیاں توڑ جائیں۔ پھر میں ابّا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لوگ تو پہلے ہی مجھے بے وقوف اور سُست کہتے ہیں۔

    یہ سوچ کر وہ بجلی کی سی تیزی سے جھاڑی میں سے نِکلا اور جھپٹ کر ایک لڑکی کے پَر اُٹھا لیے۔ جتنی تیزی سے اُس نے پَر اُٹھائے اُس سے زیادہ تیزی کے ساتھ باقی دو لڑکیوں نے اپنے پَر اُٹھا کر بازوؤں پر لگائے اور ہنس بن کر اُڑ گئیں۔

    اب ایک ہی لڑکی باقی رہ گئی تھی۔ وہ کانپتی ہوئی شہزادے کے پاس آئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی:

    ” خدا کے لیے میرے پَر واپس دے دو۔“

    ”ہرگز نہیں۔“ شہزاده بولا ” پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟“

    لڑکی نے شہزادے کو بتایا ”میں ایک بادشاہ کی لڑکی ہوں جس کی سلطنت یہاں سے بہت دور ہے۔ یہ دونوں لڑکیاں جو ابھی ابھی گئی ہیں، میری بڑی بہنیں ہیں۔ ہمارے اُوپر کسی دشمن نے جادو کر دیا تھا۔ وہ ہمیں مجبور کرتا تھا کہ ہم ہنس کا بھیس بدل کر یہاں آئیں اور اس خوب صورت باغ کے کسی درخت کی ایک ایک شاخ توڑ کر لے جائیں۔“

    شہزادہ بولا ”لیکن اب تو تم ایسا نہیں کر سکو گی۔ اب میں تمہیں اپنے باپ کا خوب صورت باغ ہرگز اجاڑنے نہیں دوں گا۔“

    لڑکی نے کہا ”اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ جادوگر نے کہا تھا کہ جب تمہارے پَروں کو کِسی اِنسان کا ہاتھ لگے گا تو تمہارے اُوپر سے جادو کا اثر ختم ہو جائے گا۔“

    لڑکی شہزادے سے باتیں کر رہی تھی اور شہزادہ اُسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی اتنی خوب صورت تھی کہ شہزادے نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی کرے گا تو اِسی لڑکی سے کرے گا۔

    شہزادے نے لڑکی کو اپنے باپ کے محل اور اس کی سلطنت کے قصّے سُنائے، اپنے بھائیوں کے متعلق بتایا اور پھر آخر میں کہا: ”اگر تُم مجھ سے شادی کر لو تو ہماری زندگی بڑی ہی خوش و خرّم گزرے گی۔“

    شہزادی بولی ”افسوس ! ابھی ایسا نہیں ہو سکتا۔“

    ”کیوں؟“ شہزادے نے کہا۔

    ”اس لیے کہ پہلے مُجھے ہنس کی صورت میں واپس اپنے دیس میں پہنچنا ہے۔“

    شہزادہ بولا ” وہ تو تُم اس وقت تک نہیں پہنچ سکتیں جب تک میں تمہارے پَر واپس نہیں کرتا۔“

    ”نہ۔۔۔نہ۔۔۔نہ“ شہزادی بولی ”ایسا ظلم نہ کرنا۔ اس طرح تو ہم ہنسی خوشی زندگی نہ گزار سکیں گے۔ اگر تُم نے مجھ سے زبردستی شادی کی تو جب بھی میرا دل چاہے گا تمہیں اور تمہارے بچّوں کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔“

    شہزاده بولا ” تو پھر کوئی ایسا طریقہ بتاؤ کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکو۔“

    شہزادی نے کہا ”اس وقت تو مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں مجھے تلاش کرنا پڑے گا۔ میرے باپ کا ملک دنیا کے اُس پار ہے اور اُس کا نام ہے ‘کہکشاں’۔ میں تمہیں اپنے باپ کے محل میں ہی ملوں گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا کہ ملک کہکشاں کو جو سڑک جاتی ہے، وہ بہت لمبی اور رُکاوٹوں سے پُر ہے۔ اِس ملک کا راستہ تلاش کرنا اِتنا آسان نہیں ہے۔“

    شہزادے نے کہا ”کوئی اتا پتا تو بتاؤ۔“

    شہزادی بولی ”چاند سے پَرے، سُورج سے بھی پرے اور اس جگہ سے بھی پَرے جہاں سے ہوائیں اور آندھیاں آتی ہیں، میرا ملک ہے۔“

    یہ کہتے ہوئے شہزادی ذرا پیچھے کو ہٹی۔ شہزادہ بے دھیان ہو گیا تھا۔ لڑکی نے جلدی سے اپنے پَر بازوؤں پر لگائےاور پلک جھپکتے میں ہنس بن کر اُڑ گئی۔

    صبح کو بادشاه چھوٹے شہزادے کی خیر خبر لینے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہُوا کہ درختوں کی کوئی شاخ ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔ وہ کام جو سمجھ دار اور تیز طرار بڑے شہزادے نہ کر سکے تھے، چھوٹے اور سست شہزادے نے کر دکھایا تھا۔

    بادشاہ نے شہزادے کی بہت تعریف کی اور اُسے بہت سا انعام دیا ۔ لیکن شہزادہ تو شہزادی کے غم میں اُداس تھا۔ اُس نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان میں ایک شہزادی کی تلاش میں جا رہا ہوں جس سے میں شادی کروں گا۔“

    بادشاہ نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی، بہت سمجھایا لیکن شہزاده نہ مانا اور سفر پر چل دیا۔ جِس گھوڑے پر وہ سوار تھا، وہ بہت تیز رفتار تھا۔ لیکن شہزادہ اِس قدر بے چین تھا کہ اُسے گھوڑے کی رفتار سُست معلوم ہو رہی تھی۔

    سات روز کے بعد آخر وہ ایسے علاتے سے گزرا جہاں دُور دُور تک آبادی نہ تھی ۔ ہر طرف پتھّر اور چٹانیں تھیں۔ اب اُسے کچھ اُمید ہوئی کہ شاید شہزادی ایسے ہی کسی علاقے میں رہتی ہو گی۔ دن گزرتے گئے اور اُسے پتھّروں چٹانوں اور کھلے آسمان کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آیا۔

    وہ اپنے خیالوں میں گُم چلا جا رہا تھا کہ دور، کچھ فاصلے پہ تین جنّ نظر آئے جو خنجر نکالے ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تیّار تھے۔ شہزاده اُن کے پاس گیا اور دریافت کیا: ”کیا بات ہے؟ کیوں لڑ رہے ہو؟“ اُن میں سے بڑا جِن بولا ”ہم تینوں بھائی ہیں۔ ہمارا باپ ہمارے لیے کچھ جائداد چھوڑ گیا ہے۔ اسی کی تقسیم کے سلسلے میں ہم جھگڑ رہے ہیں۔“

    شہزادے نے پوچھا ”کیا جائداد چھوڑی ہے تمہارے باپ نے؟“

    اس پر جنوں نے اُسے بتایا کہ اُن کا والد جوتوں کا ایک جوڑا چھوڑ گیا ہے اور ان کو پہن کر انسان ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ ایک چادر ہے جسے اوڑھنے والا دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایک ٹوپی ہے جس کے پیچھے ایک پَر لگا ہے۔ اگر ٹوپی کے پَر والا رُخ بدل کر آگے کر دیا جائے تو اِتنے زور کی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے سات توپیں ایک دم داغ دی گئی ہوں۔

    شہزادہ کچھ دیر غور کر کے بولا ”اِن چیزوں کو تقسیم نہ کرو بلکہ تُم میں سے جو سب سے زیادہ اِن کا حق دار ہو وہ تینوں چیزیں لے لے۔ لاؤ یہ مجھے دے دو اور جب میں ایک دو تین کہوں تو تینوں بھاگو۔ وہ جو سامنے پہاڑ نظر آ رہا ہے، اُس کی چوٹی کا پتھّر جو سب سے پہلے اُکھاڑ کر لائے گا وہی خوش قسمت تینوں چیزیں لے لے گا۔“

    جِنوں نے اُس کی یہ تجویز مان لی اور جب اُس نے ایک دو تین کہا تو تینوں دوڑ پڑے۔ جوں ہی اُنہوں نے دوڑنا شروع کیا، شہزادے نے فوراً جوتے پہنے، چادر اوڑھی اور ٹوپی سر پر رکھ کر غائب ہو گیا۔

    اب اُس کا کام آسان ہو گیا تھا۔ اُسے اب گھوڑے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اُس کا ایک قدم سات میل کا تھا۔ وہ چلتا گیا۔ عجیب عجیب علاقے آتے گئے۔ شام تک وہ ایک دلدلی علاقے میں پہنچ گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے اب آگے جانا ممکن نہ تھا۔ وہ رات کاٹنے کے لیے وہیں رُک گیا۔

    سونے سے پہلے اُس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو دُور جنگل میں روشنی سی نظر آئی۔ وہ اُسی طرف چل دیا۔ یہ روشنی ایک جھونپڑی میں سے آ رہی تھی۔ شہزاده اُسی جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ اندر ایک بڑھیا بیٹھی تھی ۔ شہزادے نے اُس سے جھونپڑی میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو وہ بولی: ”میں چاند کی ماں ہوں۔ آج وہ آسمان کا سفر جلدی ختم کر کے واپس آ جائے گا۔ اگر اُس کی روشنی تم پر پڑ گئی تو اچھی بات نہ ہوگی۔“

    لیکن شہزادے نے اتنی ضد کی کہ بڑھیا نے مجبور ہو کر اِجازت دے دی۔ شہزادے کی ابھی آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ چاند واپس گھر آ گیا اور آتے ہی پوچھنے لگا: ”کون ہو تم؟“

    شہزادہ بولا ” اے چاند، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم ساری دنیا پر اپنی روشنی کی کِرنیں بکھیرتے ہو۔ مُجھے کہکشاں کا راستہ بتا دو۔“

    چاند بولا ”کہکشاں کو جانے والا راستہ یہاں سے بہت دُور ہے۔ تمہیں ابھی ایک دِن اور ایک رات اور چلنا ہو گا ۔ پھر کسی جگہ کوئی ملے تو اس سے پوچھنا۔“

    شہزاده چلتا گیا۔ شام کے قریب وہ پھر ایک جنگل میں پہنچا۔ یہاں بھی اُسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ وہ جھوپڑی میں داخل ہوا۔ جھونپڑی میں ایک بڑھیا بیٹھی تھی۔ اُس نے بڑھیا سے رات گزارنے کی اجازت چاہی تو وہ بولی: ”میں سُورج کی ماں ہوں ۔ میرا بیٹا اب واپس گھر آنے والا ہے۔ اگر اُس نے تمہیں دیکھ لیا تو اچھّا نہ ہو گا۔“

    لیکن شہزادے نے ضد کی تو اُس بڑھیا نے بھی اُسے رات بسر کرنے کی اجازت دے دی۔ تھوڑی دیر بعد سُورج آ گیا اور اُس نے شہزادے سے وہی سوال کیا: ”کون ہو تُم اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟“

    شہزادہ بولا ” اے سورج ، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم نے ضرور یہ ملک دیکھا ہو گا۔ مجھے اُس کا راستہ بتا دو۔“

    سُورج نے کہا ”میں نے یہ ملک کبھی نہیں دیکھا۔ یہ اِتنی دور ہے کہ چاند اور سورج کی روشنی وہاں نہیں پہنچتی۔ تم ابھی اور آگے جاؤ۔ پھر کِسی سے راستہ پوچھنا۔“

    شہزادہ بے حد اُداس ہو گیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا لیکن شہزادی کی یاد اُس کے دِل سے نہ جاتی تھی۔ وہ پھر آگے چل دیا۔ رات کو اُسے ایک بڑھیا ملی۔ یہ بڑھیا پہلی دو بڑھیوں سے زیادہ رحم دل تھی ۔ اُس نے شہزادے کو بتایا ”میری سات بیٹیاں ہیں، اور یہ ساتوں وہ ہوائیں ہیں جو دنیا میں گھومتی پھرتی ہیں ۔ تُم ذرا انتظار کرو۔ شاید اُن میں سے کسی کو کہکشاں کا پتا معلوم ہو۔“

    تھوڑی دیر کے بعد بڑھیا کی بیٹیاں گھر میں داخل ہوئیں تو شہزادے نے اُن سے کہا: ”اے ہواؤ، تم ساری دنیا میں گھومتی پھرتی ہو۔ مجھے کہکشاں نامی ملک کا پتا تو بتاؤ۔“

    لیکن اُن میں سے کوئی بھی شہزادے کی مدد نہ کر سکی۔ اب تو شہزادے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ رونے لگا۔ بڑھیا نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو بولی: ”حوصلہ نہ ہارو۔ ابھی تو میری چھ بیٹیاں ہی آئی ہیں۔ ساتویں جو سب سے زیادہ تیز ہے اور جسے طوفان کہتے ہیں، ابھی آنے والی ہے۔ ذرا انتظار کرو، شاید وہ کچھ بتا سکے۔“

    اِتنے میں بڑھیا کی ساتویں بیٹی بھی آ گئی۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوئی، شہزادے نے اُس سے کہا: ”خدا کے لیے مجھے ملک کہکشاں کا پتا بتا دو؟“

    ہوا بولی ”میں تو وہیں سے آ رہی ہوں۔ وہ اِتنی دور ہے کہ تمہارا وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے۔

    لیکن پہلے مجھے یہ تو بتاؤ تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“

    شہزادے نے ساری کہانی سنائی تو ہوا افسوس کرتے ہوئے بولی :”اگر تم وہاں پہنچ بھی گئے تو کوئی فائده نہ ہو گا۔ اُس شہزادی کی تو کل دوپہر کو شادی ہو رہی ہے۔ میں آج سارا دن محل کی چھت پر شہزادی کی شادی کے کپڑے سکھاتی رہی ہوں۔“

    شہزادہ بولا: ”تم چاہو تو میری مدد کر سکتی ہو۔ شہزادی کی شادی کے تمام کپڑے اڑا کر کیچڑ میں پھینک دو۔ اِس طرح شادی رک جائے گی۔“

    ہوا نے کہا ”یہ تو میں کر سکتی ہوں۔ لیکن تم بھی میرے ساتھ چلو۔ اگر میں شادی رکوانے ہیں کامیاب ہو گئی تو پھر تمہیں وہاں موجود ہونا چاہیے۔ شہزادی اِس شادی سے خُوش نہیں، میں نے دیکھا تھا، وہ بہت اُداس تھی۔“

    ہوا نے شہزادے کو اپنے ساتھ اڑانا چاہا تو وہ ہنس پڑا اور بولا ” میرے بوٹ دیکھے ہیں تُم نے۔ میرا ایک قدم سات ميل کا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔“

    اور واقعی ایسا ہی ہُوا۔ شہزادہ ہوا سے میلوں آگے تھا، اور ہوا کو اُس کا ساتھ دینے کے لیے بہت تیز چلنا پڑ رہا تھا۔

    آخر تنگ آ کر ہُوا نے کہا۔ ”دیکھو شہزادے، تم شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر میں زیادہ تیز چلوں تو دنیا میں تباہی آ جاتی ہے، درخت جڑوں سے اُکھڑ جاتے ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، مکانات گِر جاتے ہیں۔ اِس لیے بہتر یہ ہے کہ ذرا آہستہ چلو۔“

    اب اُن کی رفتار پہلے سے کچھ کم ہوگئی تھی، وہ ایک بہت بڑے صحرا سے گزر رہے تھے۔ ہر طرف ریت کے تودے اُڑتے پھرتے تھے۔ اس سے آگے ایسا علاقہ آیا جہاں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ایسے پہاڑ آ گئے جن پر صدیوں سے برف جمی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کا یہی سلسلہ مُلک کہکشاں کی سرحد تھی۔

    اِن پہاڑوں کو عبور کرتے ہی وہ محل نظر آنے لگا جہاں شہزادی کی شادی کی تیّاریاں ہو رہی تھیں۔ ہوا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اِتنے زور سے چلی کے تمام جھنڈیاں، جھاڑ، فانوس اور قناتیں ٹوٹ پھوٹ گئیں ۔ شادی کے کپڑے اُڑ اُڑ کر دور پانی اور کیچڑ میں جا گِرے۔ ہر طرف آفت سی مچ گئی اور شادی ملتوی کر دی گئی۔

    شہزادے نے جادو کی چادر اوڑھ لی۔ اب اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اُس کمرے میں گیا جہاں شہزادی اداس اور غمگین بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ شہزاده اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اُس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ وہ کمرے میں پڑی ہوئی میز پر بیٹھ گیا۔ اُسے سخت بھوک لگی تھی۔

    خوش قسمتی سے میز پر ایک کیک اور چھری پڑی تھی اور ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل بھی رکھی تھی۔ اس نے کیک کاٹ کر کھانا شروع کیا اور بوتل کو منہ لگا کر پانی پیا۔ وہ یہ دیکھ کر بڑا حیران ہُوا کہ کاٹنے کے باوجود کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ پانی پینے کے بعد بھی بوتل اُسی طرح بھری رہی۔

    جب اُس کا پیٹ بھر گیا تو وہ اطمینان سے شہزادی کے پاس آیا اور بولا ”حضور، میں آ گیا ہوں۔“

    شہزادی اتنے قریب ایک مردانہ آواز سُن کر ڈر کے چیخی تو محل کا چوکی دار بھاگا آیا۔ شہزادے نے اپنی ٹوپی کا رخ بدل لیا اور پَر والا حصّہ سامنے کر لیا۔ ایک دم محل توپوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔ تمام چوکی دار اور محافظ بھاگے چلے آئے۔ بادشاہ اور ملکہ بھی آ گئے۔ بادشاه نے کہا:

    ”تم جو کوئی بھی ہو، ہمیں بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟“

    شہزاده بولا ” میں شہزادی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“

    شہزادی نے بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص، جو دِکھائی نہیں دیتا، جِنوں کے ملک کا شہزادہ ہے۔ اگر آپ نے اِس کے ساتھ شادی نہ کی تو یہ آپ کے ملک کو تباہ کر دے گا۔

    بادشاه ڈر گیا اور اُس نے اپنے وزیروں سے مشورہ کر کے شہزادے کی بات مان لی۔ شہزادی اور شہزادے کی شادی بڑی دھُوم دھام سے کر دی گئی۔ تین دن خُوب جشن رہا۔ شادی کی تمام رسمیں پوری ہوئیں لیکن اِس دوران میں شہزادے نے چادر اوڑھے رکھی اور سب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ چوتھے دِن شہزادے نے دیوار پر لٹکی ہوئی ایک تلوار اتاری، اُس کے دستے پر پہلے اپنا نام لکھا، پھر لکھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔

    یہ سب کچھ لکھ کر اُس نے تلوار دیوار پر لگا دی۔ پھر جادو کے بوٹ پہنے، کیک اور پانی کی بوتل ساتھ لی اور واپس چل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک ایسا ملک آیا جہاں قحط پڑا ہُوا تھا۔ لوگ اِتنے کمزور ہو گئے تھے کہ اُن کی ہڈّیاں نِکل آئی تھیں اور وہ ہڈیوں کے پنجر نظر آتے تھے۔ شہزادے نے جادو کا کیک اُنہیں دے دیا۔ لوگ کھاتے گئے لیکن کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اس کے بدلے میں اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے بچّے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو وہ اُس کی خوب آؤ بھگت کریں اور پھر اُسے اگلے ملک کی سرحد پر چھوڑ آئیں۔

    اِس کے بعد شہزادہ ایک ایسے ملک میں داخل ہُوا جہاں برسوں سے بارش نہ ہوئی تھی، کنویں اور دریا سب سوکھ گئے تھے۔ لوگ پانی کی بوند کو ترس رہے تھے اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے۔ شہزادے نے پانی کی بوتل اُن لوگوں کو دے دی۔ اُنہوں نے خوب جی بھر کے پانی پیا، لیکن بوتل ویسی کی ویسی ہی رہی ۔ یہاں بھی اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے لڑکے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو اُن کی پوری مدد کریں اور اگلے مُلک کی سرحد تک چھوڑ آئیں۔

    اُدھر شہزادے کے جانے کے بعد شہزادی بُہت اداس ہو گئی تھی۔ اُس کا کِسی کام میں دِل نہ لگتا تھا۔ اگلے موسمِ بہار میں اُس کے ہاں ایک خوب صورت شہزاده پيدا ہوا۔ وہ بہت ہی حسین تھا۔ سنہرے بال، نیلی آنکھیں اور گلابی رنگت۔ لڑکا بڑا ہوکر نہایت تَن درست نکلا۔ جب وہ چھ سال کا ہُوا تو ایک دِن اُس نے ماں سے ضد کی کہ دیوار پر لٹکی ہوئی تلوار اُسے دِکھائی جائے۔ شہزادی نے تلوار اُتاری تو اُس کی نظر تلوار کے دستے پر لکھی ہوئی تحریر پر پڑ گئی۔

    یہ دیکھ کر اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا کہ شہزادہ اپنا پورا پتا تلوار کے دستے پر لکھ گیا ہے۔ یہ تو وہی شہزاده تھا جِس کے باپ کے باغ میں شہزادی ہنس بن کر جایا کرتی تھی۔

    شہزادی نے اپنے لڑکے سے کہا ”چلو بیٹا اب ہم تمہارے بابا کی تلاش میں نِکلتے ہیں۔“ اگلے ہی دِن وہ روانہ ہو گئی۔ اُس کے ساتھ ایک فوجی دستہ، بے شمار نوکر چاکر اور سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں تھیں۔

    جب وہ اُس ملک میں پہنچے جہاں کے لوگوں کو شہزادے نے کیک دیا تھا تو اُنہیں شہزادے سے کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا اور اُنہوں نے شہزادی اور اُس کے بیٹے کا شان دار استقبال کیا۔ پھر وہ شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کو دوسرے ملک کی سرحد تک چھوڑ آئے۔

    یہ ملک وہ تھا جس کے باشندوں کو شہزادے نے پانی کی بوتل دی تھی ۔ یہاں بھی شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ یہ لوگ بھی شہزادی کو اگلے ملک کی سرحد تک حفاظت سے پہنچا آئے۔ ایک دِن کا سفر کرنے کے بعد شہزادی شہزادے کے شہر کے نزدیک پہنچ گئی لیکن وہ شہر میں داخل نہیں ہوئی بلکہ اُس سے کچھ فاصلے پر ایک کھلے میدان میں رُک گئی۔

    میدان میں خیمے لگا دیے گئے، قالین بچھا دیے گئے اور تمام قیمتی اور خوب صورت سامان اور جو شہزادی ساتھ لائی تھی، سجا دیا گیا ۔ پھر شہزادی نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ میں مُلک کہکشاں کی شہزادی ہوں اور آپ کی بہو بننا چاہتی ہوں۔ مہربانی فرما کر اپنے بیٹوں کو باری باری میرے پاس بھیجیے تا کہ میں اُن میں سے ایک کو چُن لوں۔

    سب سے پہلے بڑا شہزاده بن سنور کر نِکلا اور گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادی سے ملنے گیا۔ شہزادی کے بیٹے نے پُوچھا:

    ”امّی، کیا یہ میرے ابّو ہیں؟“

    شہزادی بولی ”نہیں بیٹے۔ یہ تمہارے ابّو نہیں ہیں۔“

    بڑا شہزادہ واپس چلا گیا تو دوسرا شہزادہ قسمت آزمانے آیا۔ اُسے دیکھ کر بھی لڑکے نے وہی سوال کیا۔ شہزادی نے جواب دیا کہ بیٹے، یہ بھی تمہارے ابّو نہیں ہیں۔

    سب سے آخر میں چھوٹا شہزادہ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔ شہزادی نے خیمے کے اندر ہی سے پہچان لیا اور لڑکے کو بتایا کہ بیٹا یہی تمہارے ابّو ہیں۔

    لڑکا بھاگ کر خیمے سے باہر نِکلا اور اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ خوشی کے مارے شہزادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تینوں دیر تک باتیں کرتے رہے، اور جب ایک دوسرے کو سارا قصّہ سُنا چُکے تو شہزاده اُن کو لے کر اپنے محل میں آ گیا۔ اُس کے بھائی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ یہ سُست اور نالائق لڑکا شہزادی کو کیسے پسند آ گیا۔ لیکن اُنہیں کیا پتا تھا کہ شہزادی کو حاصل کرنے کے لیے اُس نے کیسی کیسی مصیبتیں برداشت کی تھیں۔

    شہزادی اور شہزادہ وہاں زیادہ دِنوں نہیں رکے، فوراً ہی کہکشاں کی طرف چل پڑے جہاں شہزادے نے بہت عرصے تک حکومت کی اور شاید آج بھی وہاں اُسی کی نسل حکومت کر رہی ہو۔ لیکن ہمیں اِس بات کا ٹھیک پتا نہیں چل سکتا کیوں کہ کہکشاں تک جانا آسان نہیں۔ وہاں تو وہی پہنچ سکتا ہے جو پہلے چاند اور سورج کے پاس سے گزرے ۔ پھر کچھ ہواؤں سے راستہ پوچھنے کے بعد ساتویں ہوا کے ساتھ ایسے جوتے پہن کر سفر کرے جو ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کرتے ہوں۔ پھر ویران صحراؤں اور برفانی پہاڑوں میں سے گزرے۔ تب کہیں جا کر اُسے پتا چلے گا کہ کیا ملک کہکشاں پر آج بھی اُسی شہزادے کی نسل حکومت کرتی ہے۔

    (پولینڈ کی دل چسپ لوک کہانی، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • سترنگا ہیرا

    سترنگا ہیرا

    کسی ملک پر ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ کے سپاہی آئے روز شہریوں اور محل میں آنے والے فریادیوں کو تنگ کرتے اور ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی گردن تک مار دیتے۔ اگر کوئی بھی شخص ان کی شکایت کرنے بادشاہ کے پاس جاتا تو بادشاہ کہتا کہ تم ہمارے سپاہیوں پر الزام لگاتے ہو اور جلّاد کو حکم دیتا کہ اس کا سَر قلم کر دیا جائے تاکہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بادشاہ کے خلاف بات کرتا تو سپاہی فوراً اسے گرفتار کرلیتے اور سخت ترین سزا دی جاتی۔ رعایا بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سے متنفر ہو چکے تھی۔

    بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شہزادی نشاط تھا۔ بادشاہ کو اس سے بہت پیار تھا۔ شہزادی نشاط جب اٹھارہ برس کی ہوئی تو ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئی۔ اس کا جسم موم کی طرح گھلتا ہی جا رہا تھا۔ اس بیماری کا علاج کسی کے پاس نہ تھا۔ شاہی حکیم اور ہر شہر کے بڑے طبیب جواب دے چکے تھے۔ ایک دن بادشاہ کے خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے تو بادشاہ بزرگ کے پاؤں پر گر پڑا اور اپنی بیٹی کی بیماری کا علاج پوچھنے لگا۔ بزرگ نے کہا، ’’یہ تیرے ظلم کی سزا ہے۔ اگر تو اللہ کی مخلوق پر ظلم نہ کرتا تو یہ پریشانی نہ آتی۔ اگر تم اپنی بیٹی کو صحت یاب دیکھنا چاہتے ہو تو اللہ کی مخلوق پر ظلم کرنا چھوڑ دو، عدل کے ساتھ حکومت کرو، کیا تم یہ کر سکتے ہو؟ پھر میں بتاؤں گا کہ تمہاری بیٹی کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے کہا ’’میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ بزرگ نے کہا’’ اب میری بات غور سے سن، یہاں سے جنوب کی طرف 12 کوس دور ایک سردار کے لشکر نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے، اس کا ایک بے حد خاص درباری ہامان ہے، اس کے پاس طلسمی انگوٹھی ہے، اگر اس کو راضی کرلیا تو سمجھو تمہاری بیٹی کا علاج ہو گیا۔ اب تم انصاف کے ساتھ حکومت چلانا اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کرنا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر بزرگ غائب ہو گئے۔

    بادشاہ نے اگلے روز وزیر اور سپاہیوں کو لیا اور سردار کے لشکر کی طرف چل پڑا۔ چند گھنٹوں بعد سردار کے سامنے حاضر ہوا، دعا سلام کے بعد بادشاہ نے اپنی پریشانی بتائی تو سردارنے فوراً ہامان کو بلایا اور اسے یہ سب بتایا۔ ہامان بولا ’’عالی جاہ! آپ کہتے ہیں تو میں یہ کام کرتا ہوں اور بیماری کا علاج ڈھونڈ لوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر ہامان وہاں سے نکل گیا، پھر اپنی طلسمی انگوٹھی سے پوچھا ’’اے طلسمی انگوٹھی مجھے بتاؤ کہ شہزادی نشاط کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ تو طلسمی انگوٹھی نے بتایا کہ یہاں سے شمال کی طرف تین کوس دور ایک جنگل ہے، اس میں ایک سیاہ غار ہے، اس کے اندر ایک شیش ناگ رہتا ہے، اسے مار کر اس کے منہ سے ایک سترنگا ہیرا نکال لینا۔ اگر وہ ہیرا شہزادی کے بالوں میں دو دن تک باندھ دیا جائے تو شہزادی صحت یاب ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر ہامان اس جنگل کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر ہی دم لیا۔ اس نے غار ڈھونڈ کر اس میں موجود شیش ناگ کو اپنی تلوار سے مار کر ہیرا نکالا اور بادشاہ کے ساتھ اس کے ملک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر شہزادی نشاط کے بالوں میں وہ سترنگا ہیرا باندھا گیا تو وہ ٹھیک ہونے لگی۔ ہفتہ بھر میں شہزادی خود بخود چلنے پھرنے لگی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور ہامان کے لیے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا۔ ہامان نے بادشاہ سے انعام لیا اور کئی خچروں پر لاد کر اپنے سردار کے پاس لوٹ گیا۔ بادشاہ نے کئی محافظ بھی اس کے ساتھ روانہ کیے تاکہ اسے منزل پر پہنچا سکیں۔ اس کے بعد بادشاہ بھی عدل کے ساتھ حکومت کرنے لگا اور ظلم و ستم سے باز آگیا۔

    (بادشاہ اور طلسماتی دنیا کی کہانیاں)