Tag: بچوں کی کہانیاں

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں

بچوں کی کہانیاں

  • بلبل ہزار داستان (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    بلبل ہزار داستان (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تو گڈی بی بی خوبصورت…….. دوسرے ان کی ادائیں۔ ہائے غضب بس پارہ تھیں پارہ…….

    بچوں کی مزید کہانیاں اور دل چسپ و سبق آموز حکایات پڑھیے

    سارے گھر کا ان کے مارے ناک میں دم تھا۔ شرارتیں کرنے کا تو گویا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ میز پر سیاہی پھیلی ہوئی ہے تو سمجھ لیجئے، بلاشبہ گڈی نے گرائی ہے۔گلدان کے پھول نچے ہوئے ہیں تو ذہن میں سوائے گڈی کے اور کس کا نام آسکتا ہے؟ بھائی جان کی ٹائیاں تو مزے سے دو دو آنے میں ملنے والی ٹین کی گاڑیوں میں جوتی جاتیں۔ ان کے بڑے بڑے جوتے گڑیوں کا گھر بنتے۔ پہلے پہل تو سارے بچوں نے حد درجہ اعتراض کرنا شروع کیا۔

    "کوئی حد ہے۔۔۔ ہم تو کبھی اپنی گڑیا کو جوتے میں نہ بٹھائیں۔”

    "ارے واہ کسی نے دلہن کو جوتے میں سلایا ہوگا۔”

    گڈی بیگم تو جدید ترین فیشنوں کی موجد ہیں ہی۔ انہیں ایسے اعتراض بھلا کیا کھلتے؟

    "ارے بھئی قسم ہے، خود ہم نے اپنی آنکھ سے آج کل اس ٹائپ کی کاریں دیکھی ہیں۔”

    کسی اور کچھ اعتراض کیا تو بول پڑیں "بھئی اللہ ہم خود ڈیدی کے ساتھ رشید انکل کی کار میں پکنک پر گئے تھے۔ بس ہوبہو جوتا ہی دیکھ لو۔”

    پھر تو یہ ہونے لگا کہ ریک کے سارے جوتے آنگن کے پچھواڑے ملتے اور جو بھائی جان بھناتے ہوئے آنگن سے جوتے سمیٹ کر لاتے تو کسی میں دلہن بیٹھی ہے تو کسی میں دولہا۔ اور تو اور "گھر” سجانے کی خاطر جو رنگ چڑھائے جاتے تھے وہ جوتوں کا روپ ہی دونا کر دیتے! نتیجے میں گڈی بیگم، اور ان کے ساتھ سب ہی کی پٹائی ہوتی۔۔۔ مگر توبہ کیجئے جو وہ ذرا بھی ٹس سے مس ہوتی ہوں! غضب خدا کا۔۔۔ زبان تو وہ تیز پائی تھی کہ بڑے بڑوں کے مونہہ بند کر دیے۔ اس پر بھی امی کا وہ لاڈ کہ پوچھئے نہیں۔ ابا لاکھ جوتے ماریں مگر پھر خود ہی لاڈ کرنے بیٹھ جائیں۔

    "ارے یہ تو میری بلبل ہزار داستاں ہے۔ یہ نہ چہکے تو گھر میں چہل پہل کیسے مچے۔”

    گھر میں کسی ایک بچے کو چاہا جائے تو دوسرے بچے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، گڈی بی بی کے بھی ان گنت دشمن تھے، مگر وہ کسے خاطر میں لاتی تھیں۔ کبھی چنّو کی موٹر کی چابی چھپا دی تو کبھی منّی کے جوتے لے جاکر پھولوں کے گملے میں چھپا دیے۔ اور جناب وہ تو ابا تک کو نہ چھوڑتیں۔ اس دن ابا نے عید کی خوشی میں معاف کردیا شاید ورنہ وہ پٹائی ہوتی کہ سارا چہکنا بھول جاتیں۔ ہوا یوں کہ ابا اپنی کتابیں رکھنے کے لئے ایک نیا شیلف لائے۔ اس سے پہلے والا بک شیلف وہیں ابا کے کمرے میں ہوتا تھا مگر شاید بلبل ہزار داستان کی نظر نہ پڑی ہوگی۔ تب ہی اس نئے شیلف کو دیکھ دیکھ کر اچھل پھاند مچانے لگیں۔

    "آہا جی۔۔۔۔۔اور ہو جی۔۔۔۔ڈیڈی گڑیا گھر لائے ہیں، آہا، ہو ہو۔” اب دوسرے بڑے بچے تھک ہار کر سمجھارہے ہیں ، مر مر کر کہہ رہے ہیں کہ بی بنو یہ تمہاری گڑیا کا محل نہیں۔ کتابیں رکھنے کا شیلف ہے، مگر کسی کی مانتیں؟

    کہنے لگیں۔ "یہ جو خانے بنے ہوئے ہیں تو اسی لئے کہ سب الگ الگ رہیں اور لڑیں جھگڑیں نہیں۔ اور جو یہ گول گول گھومتا بھی ہے تو اس لئے کہ گڑیوں کے بچے اگر رونے لگیں تو اس چھت پر بٹھا کر انہیں چک پھیریاں دی جائیں۔

    ان کی زبان کی تیزی کے آگے کون مونہہ کھول سکتا تھا۔ بس جناب ہتھوڑی اور کیلیں لے کر پہنچ ہی تو گئیں۔ ہر طرف کیلیں ٹھونک کر اس میں رنگین جھنڈیاں، غبارے اور پیپر فلاورز لگا دیے، ایسا شان دار گڑیا گھر تیار ہوا کہ سب بچے دیکھتے ہی رہ گئے۔۔۔ اب ان کے پاس تو کوئی نہ کوئی دوڑ ہی جاتا، اتنا ڈر بھی کیوں رہے؟ سب کو اپنے ساتھ ملا لیا۔۔۔ سبھوں کی گڑیوں کو ایک ایک کمرہ دے دیا، ہر چند کہ ڈیڈی اپنے ہی لئے گڑیا گھر لائے تھے، پھر بھی اگر وہ محض اسی بات پر چڑ جاتے تو اگلے دن تو عید ہے اور یہ بچے بجائے عید کی تیاریوں کے الٹ پلٹ دھندوں میں ہی جتے ہوئے ہیں تو۔۔۔؟!

    شام کو ننھے منے دوست اپنی اپنی عید کی پوشاکیں اور تیاریوں کی داستانیں بتانے، سنانے آئے تو گڈی نے سب کو اپنا گڑیا گھر دکھایا۔۔۔ جہاں اب کترنوں کے بچے کھچے کپڑوں کے پرے لٹک رہے تھے۔۔ دل میں تو سب جل گئے مگر مونہہ سے تو کہنا ہی پڑا۔

    "واہ بھئی۔۔۔ بڑا اچھا گھر ہے۔ اچھا کل آئیں گے۔۔ ٹاٹا۔”عید کا کیا ہے ایک دن کے لئے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔۔ گڑیا گھر کی خوشی تو لافانی بن کر آئی تھی۔ گڈی کی اتراہٹ کا کیا پوچھنا تھا؟!

    ابا عید گاہ سے لوٹے تو مزے سے آکر گردن میں جھول گئیں۔ "ہماری بٹیا کتنی عیدی لے گی؟”

    جواب میں بٹیا اور بھی اترا گئیں۔”آپ نے تو پیشگی عیدی دے ڈالی ڈیڈی۔۔۔ غضب خدا کا کتنا اچھا گھر ہے ڈیڈی۔”

    "ہائیں۔۔۔ کیا بک رہی ہے۔”ابا جھنجھلائے۔

    "ہاں ہاں اور جو کل آپ لائے ہیں تو پھر کیا ہے ؟”

    ابا نے تو شیلف گیسٹ روم میں رکھوادیا تھا کہ عید کے بعد فرصت سے اسے اپنے کمرے میں جائز مقام پر رکھوائیں گے آنکھیں گھما کر دیکھا اور پوچھا۔

    "گھر، کیسا گھر بھئی۔” جواب میں بٹیا رانی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم تک ڈیڈی کو لائیں۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ نیا شیلف! پورے تین سو روپے میں بنوایا تھا۔ کیلے چبھے ہوئے، ہتھوڑی کی مار سے پالش جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی۔۔ گوند سے چپکائی گئی جھنڈیا۔۔۔۔۔۔۔جھولتے غبارے، رنگین پھول۔۔۔ اف۔۔۔۔اف۔

    "یہ سب کیا ہے بے بی؟” ڈیڈی بپھر کر بولے۔

    "جی گڑیا گھر۔”

    اب تو ڈیڈی کا پارہ آخری سرے تک چڑھ گیا ، ابھی کچھ پٹائی کرتے ہی تھے کہ امی ہائیں ہائیں کرتی لپکی آئیں۔

    "اے لو۔۔۔۔ بھلا عید کے دن بچی پر ہاتھ اٹھاؤ گے؟”

    ابا نے گڑبڑا کر امی کو دیکھا پھر اپنی لاڈو کو۔ مونہہ سے تو کچھ بولے نہیں مگر پیر پٹختے کمرے کو چلے گئے۔

    دوسرے دن ابا نے اپنے کمرے میں شیلف منگوایا۔۔۔ سب کیلیں، جھنڈیاں، جھاڑ جھنکار، غبارے اور پھول نکال باہر کئے۔ اب جو شیلف اپنی اصلی صورت میں سب کے سامنے آیا تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ لگتا تھا، ہراج گھر سے دو چار روپے میں اٹھا لائے ہوں گے۔

    بی گڈی کا یہ عالم کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ساری چہک چہکار ہوا ہو گئی، اب کے تو ابا کو بھی اپنی "بلبل ہزار داستان” پر پیار نہ آیا۔ بار بار غصے سے گھورا کئے اور پھر نتیجے میں رانی بٹیا سے بول چال بند کر دی۔

    اور جناب آپ کو معلو م ہے کہ لاڈلے بچوں سے ماں باپ بات بند کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ انہیں بہت دکھ ہوتا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کر پاتے ہیں اور پھر بیمار پڑنا تو لازمی ہے۔۔ گڈی بی بی نے بھی پٹخنی کھائی۔۔ کچھ تو موسم ہی بدل رہا تھا اور کچھ ان کا دل ہی اداس تھا۔۔۔! پلنگ پر پڑے پڑے انہیں بس یہی خیال آتا کہ ہائے سب کے سامنے کیسی رسوائی ہوئی۔۔۔بلا سے ڈیڈی دو چار طمانچے ہی جڑ دیتے۔ مگر اف انہوں نے تو بات ہی بند کر دی۔۔۔۔ اچھی بری کوئی بات سنتے، نہ جواب دیتے ، اسکول کی رپورٹ آتی تو کچھ توجہ بھی نہ دیتے۔ گڈی نے اپنے کمرے میں ایک دن یہ بھی سنا۔۔۔ ابا، امی کی بات کے جواب میں کہہ رہے تھے۔
    "ہمیں ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو ہمیں اس قدر پریشان کرے۔” اس نے صاف دیکھا کہ ڈیڈی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ باتیں سن رہی ہے تب بھی اس کے دل کا کوئی خیال نہ کیا۔ ہائے اللہ، ڈیڈی کو میری ضرورت نہیں۔ امی کو بھی نہیں، منو کو۔۔ چنو کو رابی منی۔۔۔ نیکی، یہ سب مجھ سے کٹے کٹے رہتے ہیں، کیا سچ میں بہت بری ہوں؟

    ہاں چنّو کہتا بھی کہتا تھا کہ دیکھ لینا ایک دن تم اتنا دکھ اٹھاؤ گی۔۔۔ اف تمہاری زبان ہے کہ قینچی۔۔۔۔۔ اور توبہ۔۔۔۔ کہیں لڑکیاں بھی اتنی شرارت کرتی ہیں؟ اور اب امی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی مجھے نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔اف۔۔۔۔

    پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابا کے کمرے میں پہنچ گئے ، ابا نے بے تابی سے پوچھا۔

    "کیوں ڈاکٹر صاحب اب کیا حال ہے بے بی کا؟”

    ڈاکٹر صاحب مسکرائے۔ "شریر بچے بہت ذہین اور بہت حساس بھی ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب۔ میرے خیال سے اب آپ کو اور بیگم صاحبہ کو کبھی شکایت نہ ہوگی کہ رانی بٹیا شرارتی ہے۔ ضدی ہے، کسی کا کہا نہیں مانتی۔ میں نفسیاتی طور پر اس کے دل میں اتر چکا ہوں۔ اب اس وقت تو اسے صرف آپ کے ایک ذرا سے بلاوے کی ضرورت ہے، اتنے دنوں سے جو آنسو بہہ چکے ہیں، ان کا بہہ نکلنا ہی ٹھیک ہے۔”

    ڈیڈی لپک کر اٹھے اور پردے کے پاس جاکر پوچھا۔ "کیوں بے بی اب کے ہفتے تمہارے مارکس بہت کم ہیں کیا بات ہے؟”

    اتنا سننا تھا کہ بی گڈی بے تابی سے اٹھیں اور ڈیڈی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔” آپ ہی نے محبت اور توجہ چھوڑ دی تو پڑھائی میں خاک جی لگتا۔۔۔ امی بھی۔۔۔ دور دور رہتی تھیں۔۔ اور سب۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔۔۔”ہچکیاں مونہہ سے آواز نہ نکلنے دیتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب ڈیڈی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔۔ اور گڈی کہے جارہی تھی۔
    "اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ شرارت اتنی بری چیز ہے کہ امی ڈیڈی سے ٹوٹ جانا پڑتا ہے تو۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔ہم کبھی یوں ضد اورشرارت نہ کرتے۔”

    ہائے بے چاری موٹی موٹی گوری گوری گڈی اس وقت کیسی دبلی اور زرد نظر آرہی تھی۔۔۔۔! اور یہ سب کچھ تین چار ہفتوں ہی میں تو ہوا۔۔۔۔۔۔!

    ڈیڈی نے ذرا سا مسکرا کر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ اور بے بی کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔ "سچ مچ اب اچھی بچی بن جاؤ گی۔”

    "جی ہاں۔۔۔۔”وہ آنسو پونچھ کر بولی۔” اور وہ تین سو روپے ہم پر ادھار سمجھئے۔۔۔۔ ڈاکٹر بن جاؤں گی تو پہلی تنخواہ آپ کے ہاتھ میں لا کر رکھ دوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔”
    پیچھے سے چنّو نے جلا بھنا طعنہ چھوڑا۔

    "بھلا بلبل ہزار داستان چہکنا چھوڑ سکتی ہے؟!”

    (معروف ادیب اور افسانہ نگار واجدہ تبسم کی بچوں‌ کے لیے لکھی گئی ایک کہانی)

  • تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔

    جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے لیے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا کہ اس کی شادی کس سے کرے۔ اس نے اس بارے میں ملکہ سے بھی مشورہ کیا مگر وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

    مزید دل چسپ کہانیاں اور حکایتیں پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    وہ دونوں پڑوسی ملکوں کے شہزادے تھے۔ ایک شہزادے کا نام شان دار تھا اور وہ نہایت نیک، عقلمند، بہادر اور بہت خوب صورت تھا۔ دوسرے شہزادے کا نام دلشاد تھا۔ وہ نہ تو نیک اور عقلمند تھا اور نہ ہی بہادر۔ اس نے چپکے چپکے دل میں سوچ لیا تھا کہ شہزادی نگینہ سے شادی کرنے کے بعد کوئی سازش کر کے بادشاہ کے تخت پر قبضہ کر لے گا۔

    چونکہ شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتی ہے اس لیے ملکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں شہزادی نگینہ سے اس کی رائے معلوم کرے گی – وہ جس شہزادے کو بھی پسند کرلے گی، اس سے اس کی شادی کروا دی جائے گی۔

    جب اس نے دونوں شہزادوں کے بارے میں ساری معلومات بتا کر شہزادی نگینہ سے اس کی پسند پوچھی تو وہ بولی۔ “امی حضور۔ آپ نے میری تربیت کچھ اس طرح کی ہے کہ میں اپنے ماں باپ کے فیصلوں پر سر جھکانے والی لڑکی بن گئی ہوں۔ آپ جہاں بھی کہیں گی اور جس سے بھی کہیں گی میں شادی کر لوں گی”۔

    ملکہ یہ بات سن کر خوش ہوگئی۔ اس نے شہزادی نگینہ کو گلے سے لگا کر پیار کیا اور بولی۔“جیتی رہو۔ تمہارے لیے دو شہزادوں کے رشتے آئے ہیں جن کے بارے میں ہم تفصیل تمہیں بتا ہی چکے ہیں۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کسے ہاں کریں اور کسے انکار۔ تم فیصلہ کر کے ہمیں بتا دو کہ کس شہزادے سے شادی کرنا پسند کرو گی”۔

    “امی حضور۔ شادی کے لیے آپ کا جو فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہوگا”۔ شہزادی نگینہ نے دھیرے سے اپنی بات دوہرائی۔

    “میں کہہ تو رہی ہوں کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا”۔ ملکہ نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
    شہزادی نگینہ کچھ سوچ کر بولی۔“ تو پھر ٹھیک ہے۔ میں اس شہزادے سے شادی کروں گی جو میری تین شرطیں پوری کرے گا”۔

    “وہ شرطیں کیا ہیں؟”۔ ملکہ نے حیرانی سے پوچھا۔

    “میری پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے جس میں آدم خور مگرمچھ رہتا ہے۔ میری دوسری شرط یہ ہے کہ وہ چاولوں سے بھری ایک پوری دیگ کھائے۔ میری تیسری اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سوتا ہوا گھوڑا لائے اور اس پر سواری کر کے دکھائے”۔ شہزادی نگینہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ملکہ اسے حیرت سے گھورنے لگی اور پھر اٹھتے ہوئے بولی۔ “ اس کا مطلب ہے کہ تم شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہو۔ کوئی بھی تمہاری یہ عجیب و غریب شرطیں پوری نہیں کر سکے گا۔ تمہیں پتہ ہے تالاب کا آدم خور مگرمچھ کتنا خوفناک اور بڑا ہے، کس میں ہمت ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے۔ پھر کون سا شہزادہ دیگ بھر کر چاول کھا سکے گا۔ شہزادے تو ویسے بھی نرم و نازک ہوتے ہیں، تھوڑا سا ہی کچھ کھا لیں تو ان کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ اور سوتے ہوئے گھوڑے پر بھلا کون سواری کرکے دکھائے گا۔ گھوڑا سوئے گا یا بھاگتا پھرے گا؟”

    اس کی باتیں سن کر شہزادی مسکرانے لگی۔ اسے مسکراتا دیکھا تو ملکہ کو تھوڑا سا غصہ آگیا۔ اس لیے وہ خفگی سے اٹھ کر بادشاہ کے پاس آئی اور اس سے اس کی لاڈلی بیٹی کی شکایت کی۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا۔ “ملکہ۔ آپ شائد بھول گئی ہیں۔ آپ نے بھی تو اپنی شادی کے لیے تین شرطیں رکھی تھیں۔ بہت سارے شہزادے ان شرطوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ مگر انھیں ہم نے پورا کر کے دکھایا تھا کہ نہیں؟”

    ملکہ کو وہ پرانی باتیں یاد آگئی تھیں۔ انھیں سوچ کر وہ مسکرانے لگی اور بولی۔ “امی حضور میری شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کرنا چاہتی تھیں اور وہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ اسی لیے میں نے وہ شرطیں رکھی تھیں۔ پھر میری شرطیں تو ہمت اور جواں مردی والی تھیں۔ ایک آدم خور شیر کو خنجر سے مارنا تھا جس نے کئی انسانوں کو اپنا نوالہ بنا لیا تھا، معصوم لوگوں کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو گرفتار کرنا تھا، جنہوں نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور پہاڑ کو کاٹ کر ایک نہر نکال کر کسانوں کی بنجر زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ آپ نے وہ تمام شرطیں پوری کی تھیں۔ آپ بہادر اور ہمت والے بھی تو بہت تھے”۔

    “لیکن ملکہ۔ کبھی کبھی ہم یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی شرطوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتے تو پھر آپ سے تو ہماری شادی ہی نہ ہوتی”۔ بادشاہ نے فکرمند ہو کر کہا۔

    “کیوں نہیں ہوتی”۔ ملکہ نے اٹھلا کر کہا۔ “میں اپنی شرطوں میں یہ تبدیلی کر دیتی کہ آپ انہیں شادی کے بعد بھی پورا کر سکتے ہیں”۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی۔ “ پہلے میری یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شہزادی کی شادی کس سے کریں۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ اپنی بے سر و پا شرطوں سے باز آجائے”۔

    “اس بارے میں آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہماری شہزادی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند بھی ہو۔ اگر کوئی ذرا سی بھی عقل لڑائے تو شہزادی کی شرطیں بہ آسانی پوری کرسکتا ہے۔ ہم دونوں شہزادوں کے سامنے شہزادی نگینہ کی شرطیں رکھ دیں گے۔ جس نے بھی انہیں پورا کردیا، اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی”۔

    پھر بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ اس نے ایلچی بھیج کر دونوں شہزادوں کو ان کے ملک سے اپنے محل میں بلوا لیا۔ دونوں شہزادے اپنے اپنے مصاحبوں اور غلاموں کے ساتھ حاضر ہوگئے۔ بادشاہ نے سب کو شاہی مہمان خانے میں ٹہرایا اور ان کی خاطر مدارات کے لیے خاص انتظامات بھی کر وا دیے۔

    جب شام کو بادشاہ ان شہزادوں سے ملا تو اسے شہزادہ شان دار بہت پسند آیا۔ وہ اس کی شکل و صورت اور وجاہت سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کا باپ بہت اچھے طریقے سے اپنے ملک پر حکومت کر رہا تھا جس کی وجہ سے رعایا بہت خوش حال تھی۔ ملکہ کو بھی وہ شہزادہ بہت پسند آیا۔

    دوسرا شہزادہ جس کا نام دلشاد تھا دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ بادشاہ کو محسوس ہوا کہ وہ ایک خوشامدی اور چاپلوس قسم کا نوجوان ہے۔ اس بات سے بادشاہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ نہایت چالاک اور عیار آدمی ہوگا۔

    ملکہ کو تو شہزادہ شان دار اتنا اچھا لگا کہ وہ شہزادی نگینہ کے پاس گئی اور اس سے بولی۔ “بیٹی۔ تم اپنی شرطیں واپس لے لو اور شہزادہ شان دار سے شادی کرلو۔ ایسا شوہر تو قسمت سے ہی ملتا ہے۔ اگر پہلی شرط کے دوران ہی مگرمچھ اسے کھا گیا تو بہت برا ہوگا”۔

    شہزادی نگینہ نے اٹل لہجے میں کہا۔ “اگر میں اپنی شرطیں واپس لیتی ہوں تو اس میں میری بے عزتی ہے۔ شہزادہ اگر میری شرطیں پوری کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے گھر جائے”۔ ملکہ مایوس ہو کر لوٹ گئی۔

    دونوں شہزادوں کی ملاقات شہزادی نگینہ سے کروائی گئی۔ وہ انھیں محل سے کچھ دور جنگل کے نزدیک تالاب تک لائی اور ان سے کہا۔ “یہ ہے وہ تالاب جس میں ایک آدم خور خونخوار مگرمچھ رہتا ہے۔ کیا آپ دونوں اس تالاب میں تیر کر دکھائیں گے؟”۔

    اس کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت ایک بہت بڑا مگرمچھ اپنا منہ کھولے تالاب کے کنارے پر آگیا۔

    اسے دیکھ کر شہزادہ دلشاد خوفزدہ ہوگیا اور بولا۔ “جان ہے تو جہان ہے۔ میں تو اس تالاب میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔ شہزادی کی دوسری شرطیں بھی بہت سخت ہیں۔ دیگ بھر کر چاول تو کوئی دیو ہی کھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میں سوتا ہوا گھوڑا کہاں سے لاؤں گا اور اس پر سواری کیسے کروں گا۔ میں تو چلا۔ مجھے نہیں کرنی یہ شادی”۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد شہزادہ شان دار نے کہا۔ “شہزادی صاحبہ۔ کل میں آپ کو اس تالاب میں تیر کر دکھاؤں گا”۔

    رات ہوئی تو اس کے ساتھ آئے ہوئے غلاموں نے تالاب میں ایک بڑا سا جال ڈال کر مگرمچھ کو پکڑ لیا اور دور ایک دریا میں چھوڑ آئے۔

    اگلی صبح ملکہ، بادشاہ اور شہزادی نے دیکھا کہ شہزادہ مزے سے تالاب میں تیرتا پھر رہا ہے۔ شہزادی نے پوچھا۔“ اس مگرمچھ کا کیا ہوا۔ وہ کہاں ہے؟”۔

    “اسے میں نے پکڑوا کر دریا میں چھڑوا دیا ہے۔ آپ کی پہلی شرط میں نے پوری کردی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات پر اعتراض نہیں کریں گی کہ میں نے مگرمچھ کو دریا میں کیوں چھڑوایا۔ آپ کی شرط صرف تالاب میں نہانے کی تھی، مگرمچھ سے لڑنا نہیں”۔ شہزادے نے تالاب سے باہر آتے ہوئے کہا۔

    ملکہ نے یہ بات حیرانی سے سنی۔ بادشاہ، مسکرا رہا تھا۔ شہزادی نے کہا۔ “بالکل ٹھیک شہزادے۔ آپ پہلی شرط جیت چکے ہیں۔ میری شرط ہی یہ تھی کہ آپ تالاب میں تیر کر دکھائیں۔ میں آپ کی ذہانت کی قائل ہوگئی ہوں”۔

    دوپہر ہوئی تو شہزادی نگینہ نے کہا۔ “شہزادے۔ آپ مجھے دیگ بھر کر چاول کھا کر کب دکھائیں گے؟”

    شہزادے نے کہا۔ “ابھی تھوڑی دیر بعد”۔ یہ کہہ کر شہزادے شان دار نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ اس کا ایک مصاحب دو غلاموں کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا محل کی جانب آرہا تھا۔ شہزادہ شان دار بادشاہ سے اجازت لے کر باہر نکلا اور اپنے مصاحب سے کوئی چیز لے کر جیب میں رکھی اور واپس آگیا۔

    اتنی دیر میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا۔ وہ اپنے ساتھ چاولوں کی ایک بڑی سی دیگ بھی لے کر آئے تھے جسے انہوں نے دسترخوان کے بیچوں بیچ رکھ دیا۔ دیگ کو دیکھ کر بادشاہ کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آئے۔ “کیوں میاں صاحبزادے۔ آپ کھالیں گے دیگ بھر کر چاول؟” اس نے شہزادے سے پوچھا۔

    “ایک دیگ تو کیا میں تو دو دیگیں بھی کھاسکتا ہوں”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار نے اپنی جیب سے ایک نہایت چھوٹی سی دھاتی دیگ نکالی جو اس کے ملازم بازار سے خاص طور سے بنوا کر لائے تھے۔ اس نے اسے چاولوں سے بھرا اور شہزادی نگینہ کے سامنے پوری دیگ چٹ کر گیا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ آپ کی دوسری شرط بھی پوری ہوگئی ہے۔ میں نے دیگ بھر کر چاول کھا لیے ہیں”۔ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے شہزادی سے کہا۔ اس کی بات سن کر شہزادی نگینہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔

    بادشاہ نے ملکہ سے کہا۔ “بیگم۔ اب اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ شہزادے میاں تو سوتے ہوئے گھوڑے پر بھی سواری کر کے دکھا دیں گے”۔

    شام کو بادشاہ، ملکہ اور شہزادی نگینہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ اچانک انہوں نے شہزادہ شان دار کو ایک گھوڑے کے ساتھ آتے دیکھا۔ وہ قریب آیا تو بادشاہ حیرت سے بولا۔“ شان دار بیٹے یہ گھوڑا لیے کہاں پھر رہے ہو؟”

    شہزادہ شان دار نے بڑے فخر سے بتایا۔“ یہ گھوڑا نہایت قیمتی ہے۔ میں اسے منڈی سے خرید کر لا رہا ہوں۔ اس کے مالک نے مجھے بتایا تھا کہ یہ حاتم طائی کے گھوڑوں کی نسل سے ہے۔ اس کا تو میں نے ایک بڑا اچھا سا نام بھی رکھ لیا ہے”۔

    گھوڑا واقعی بہت خوب صورت تھا۔ شہزادی نگینہ کو بھی بے حد پسند آیا۔ اس کا رنگ ہلکا کتھئی تھا اور اس کی گردن پر بڑی بڑی چمکدار ایال تھی۔ “شہزادے۔ کیا نام رکھا ہے آپ نے اس کا ؟” اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ میں نے اس کا نام رکھا ہے “سوتا ہوا گھوڑا”۔ چونکہ یہ میرا گھوڑا ہے، میں جو بھی اس کا نام رکھوں، میری مرضی۔ اب میں آپ کو سوتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر دکھاؤں گا، تاکہ آپ کی تیسری شرط بھی پوری ہو سکے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار رکاب میں پاؤں ڈال کر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور ایڑ مار کر اسے دوڑاتا ہوا باغ کا ایک چکر لگا کر دوبارہ ان لوگوں کے پاس آگیا۔

    یہ سب دیکھ کر ملکہ اور بادشاہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا تھا۔ شہزادی نگینہ بھی مسکرانے لگی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔ “ابّا حضور۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی ایک ایسے شہزادے سے ہو جو بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی ہو۔ ہم نے اپنی شرطیں اسی لیے رکھی تھیں کہ انہیں پورا کرنے والے کی ذہانت کا امتحان ہوسکے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایسا شہزادہ مل گیا ہے”۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ نے سکھ کا سانس لیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی خوب دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کے لیے لکھی گئی اس کہانی کے مصنّف مختار احمد ہیں)

  • موروں کا دکھ کوئی نہیں‌ سمجھ سکا (ایک دل چسپ کہانی)

    موروں کا دکھ کوئی نہیں‌ سمجھ سکا (ایک دل چسپ کہانی)

    یہ ہزاروں سال پرانی بات ہے جب دھرتی پر انسان، جانور اور پرندے اکٹھے رہتے تھے۔ اس دور میں جنگل آج کی طرح سمٹے ہوئے نہیں تھے اور انسانی آبادی بھی یوں پھیلی ہوئی نہ تھی۔ ہر طرف سبزہ اور ہریالی تھی اور چرند پرند کے ساتھ انسان بھی جگہ جگہ چھپر بنا کر رہا کرتے تھے۔

    مزید دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اگر اس بات کو مزید سمجھنا ہو تو یوں سمجھو کہ زمین کا وسیع رقبہ درختوں اور سبزے کے ساتھ شفاف ندی اور دریاؤں پر مشتمل تھا۔ انسانو‌ں نے گاؤں، قصبے اور شہر آباد نہ کیے تھے اور اس کے لیے درختوں کو نہیں کاٹا تھا۔ کئی اقسام کے پرندے اور چوپائے ہر طرف نظر آتے تھے۔ انسان جنگلوں سے پھل، شہد اور جڑی بوٹیاں حاصل کرتے تھے۔ ٹھوس غذا کھانے کے لیے شکار بھی کرنا پڑتا اور اس کے لیے جنگل کے جانوروں اور پرندوں پر ان کی نظر ہوتی۔ جانور اور پرندے بھی جنگلوں میں زندگی بسر کرتے اور انھیں بھی کھانے پینے اور زندہ رہنے کا سامان جنگلوں سے ہی کرنا پڑتا۔ ایک نظام تھا فطرت کا جو جاری و ساری تھا۔

    ایک مرتبہ جانوروں اور پرندوں کا انسانوں سے جھگڑا ہو گیا۔ انھیں شکایت ہوئی کہ انسانوں نے جانوروں کا شکار کرتے ہوئے ان کے کھانے کے وسائل گھٹانا شروع کر دیے ہیں۔ پرندوں کو بھی انسانوں سے شکایت ہوئی کہ انھیں مار کر کھا جاتے ہیں۔ چڑیوں کو پالنے کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ دھیرے دھیرے انسانوں اور جانوروں کے بیچ جھگڑے بڑھنے لگے۔ اسی غصہ میں اکثر کئی جانوروں، خاص طور پر شیر، بھالو اور بھیڑیوں نے آدمیوں پر حملے کیے۔ کبھی کبھی بدمعاش لکڑبگھے لوگوں کے بچے اٹھا لاتے اور انھیں کھا جاتے تھے۔

    “تم لوگ اگر جانوروں کو مارو گے تو ہم کیا کھائیں گے؟” شیروں نے غصّہ سے دہاڑتے ہوئے کہا۔ دراصل انسانوں کے ایک گروہ نے جنگل میں بڑی تعداد میں ہرن، سانبھر اور چیتل مارے تھے۔ شیروں نے بھوکے ہونے پر کئی لوگوں پر حملہ کر دیا۔

    روزانہ بڑھتے ہوئے جھگڑوں کو نپٹانے کے لیے جنگل میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں انسانوں کے علاوہ سبھی جانور اور پرندے شریک ہوئے۔

    آج جھگڑوں کو نپٹانے کا فیصلہ ہونا ہے۔ ایک طرف درندے جیسے شیر، بھیڑیے، لکڑ بگھّے اور جنگلی کُتّے بیٹھے۔ ان سے تھوڑی دور پر ہرن، چیل، سانبھر اور بھینسے چوکنے کھڑے تھے۔ کہیں گھاس میں خرگوش، گلہری اور دوسرے چھوٹے جانور د بکے ہوئے تھے۔ پیڑوں پر بہت کم پرندے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر نہیں آئے کیونکہ ہوا میں اُڑنے کی وجہ سے وہ انسانوں اور جانوروں کے ہاتھ کم ہی لگتے ہیں اس لیے پرندے اس جھگڑے میں پڑنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ یوں سمجھو کہ ان کو انسانوں سے خطرہ کم تھا تو اس میٹنگ کی اہمیت بھی ان کے لیے کم ہی تھی۔

    ” تم لوگ ہمارا شکار کرتے رہتے ہو جب کہ ہم تمھارا شکار نہیں کرتے ہیں ۔” جانوروں نے انسانوں سے شکایت کی۔ یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ جانور شاید ہی کبھی انسانوں کا شکار کرتے ہیں۔

    ” لیکن ابھی لکڑ بگھّے اور بھیڑیے کئی بچوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ لوگوں نے شکایت کی۔ شیر نے کھڑے ہو کر کہا۔

    “پھر فیصلہ کر لو کہ انسان اور جانور الگ الگ رہیں گے تا کہ کوئی جھگڑا ہی نہ ہو۔“

    یہ بات سنتے ہی تمام بھیڑیوں نے ہاؤں ہاؤں کرتے ہوئے شیر کا ساتھ دیا۔ اُدھر چیتل اور ہرن وغیرہ نے انسانوں کو جنگل سے چلے جانے کے لیے کہا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح کم سے کم انسانوں کے شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ باقی جنگل کے درندوں کا نوالہ بننا تو ان کا مقدر ہی ہے۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد انسانوں نے جنگل چھوڑ دیے۔ وہ کچھ جگہوں پر پیڑوں اور زمین کو صاف کرنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے لگے۔ لیکن یہ بات بھی طے ہوئی کہ انسان جنگلوں سے شہد اور جڑی بوٹیاں لینے آتے رہیں گے۔

    وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم لوگ جانوروں کا شکار نہیں کرو گے۔“ شیر نے راجا ہونے کا فرض نبھایا۔

    جانور بھی ہماری بستی میں نہیں آئیں گے۔ وہ ہمارے کھیتوں میں چرنے کے لیے ہرگز نہ آئیں۔ آدمیوں نے کہا۔ وہاں موجود پرندوں نے دیکھا کہ ان کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ چڑیوں کو کوئی فکر بھی نہیں کہ وہ ہوا میں اڑتی اور پیڑوں پر گھونسلہ بنا کر رہتی تھیں۔ انھیں کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ جنگل کے پپیڑوں پر رہیں یا بستی میں پیڑوں پر بسیرا کریں۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسانوں اور جانوروں میں کیا سمجھوتہ ہوتا ہے۔ درخت پر بیٹھے توتے نے کہا۔

    ” اور کیا ؟ ہمیں تو انسان اور جانور دونوں سے خطرہ رہتا ہے۔” کبوتر نے توتے کی ہاں میں ہاں ملائی۔

    ” لیکن ہم کہاں جائیں؟” ایک مور نے اداس ہو کر کہا۔ ہم تو چھوٹی چڑیوں کی طرح اڑتے نہیں۔ مور کی بات صحیح تھی کیونکہ وہ بھاری بھر کم پرندہ ہے جو بہت کم اور بس تھوڑا اڑتا ہے۔

    آدمیوں نے مور کی بات سنی تو کہنے لگے۔ ہمارے لیے پرندے بھی جانور ہیں۔ وہ بھی جنگلوں میں رہیں۔ ہماری بستیوں میں صرف انسان رہیں گے۔“

    جانوروں کی طرف سے ہاتھی نے کہا ” ہمیں پرندوں کے جنگل میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہاتھی کی بات سن کر سبھی جانوروں نے رضا مندی دی۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے یہ طے ہو گیا کہ سبھی پرندے بھی جنگلوں میں ہی رہیں گے۔

    مور نے اپنی بات دہرائی ہمیں تو کھیتوں کھلیانوں اور باغوں میں رہنے میں زیادہ مزا آئے گا۔“

    یہاں لڑائی ختم کرنے کے لیے فیصلہ ہورہا ہے۔ اس میں تمھاری پسند اور ناپسند کا کوئی سوال نہیں ۔” جنگلی کتے نے رال ٹپکاتے ہوئے کہا۔

    ہاں تم کیوں چاہو گے کہ ہم بستیوں میں رہیں۔ مور نے پلٹ کر جواب دیا۔ وہ جانتا ہے کہ کتے، بھیڑیے اور شیر بھی موروں کا اکثر شکار کر لیتے ہیں۔ کئی چڑیوں کو بہت افسوس ہوا کہ انسان انھیں اپنی زندگی سے نکال رہے ہیں۔ مگر بستی بن جانے کے بعد کئی چڑیاں گھریلو کہلائی جانے لگیں۔ گوریّا تو لوگوں کے آنگن میں دیکھی جاتی۔ اُسے جنگل سے زیادہ بستی میں رہنا راس آرہا تھا۔ اسی طرح کبوتر اور فاختہ بھی گھروں کی منڈیروں پر بیٹھتے۔ انھیں بھی جنگل میں رہنے میں اتنا مزا نہیں آتا تھا جتنا کہ انسانوں کے ساتھ آنے لگا۔

    ہم تمھاری منڈیروں پر بیٹھ کر کائیں کائیں نہیں کریں گے تو تمھیں مہمانوں کے آنے کی خبر کیسے ہوگی ؟ کوے نے انسانوں سے کہا۔

    پھر ہماری چہچہاہٹ کیسے سنو گے؟ بلبل نے اُداسی سے کہا جو ہمیشہ چہکتی دیکھی گئی۔ اُسے بھی اس فیصلے کے بعد بستیوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں رہنا جو پڑتا۔

    ہم تو تمھارے کام آتے ہیں۔ مور نے آدمیوں سے کہا “ہم سانپوں کو مار ڈالتے ہیں جن سے تمھیں ڈر لگتا ہے ۔“

    لوگوں کو یہ بات پتا تھا کہ مور سانپوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ پھر بھی کہنے لگے۔

    تم ہمارے کھیتوں سے اناج بھی کھاتے ہو۔ یہ سنتے ہی مور چُپ ہو گئے۔ تو پھر فیصلہ ہو گیا انسانوں نے بیٹھک سے جاتے ہوئے کہا۔ ” چڑیوں کے بارے میں بعد میں دیکھیں گے۔

    ابھی تو انھیں جنگل میں ہی رہنا ہوگا۔“

    جانوروں نے بھی چڑیوں سے کہا تم لوگوں کو کیا پریشانی ہے؟ آسمانوں میں اڑو اور پیڑوں پر گھونسلوں میں رہو۔“ یہ سن کر ایک چڑیا نے چِڑتے ہوئے کہا ” اور ہوا کھاؤ!”

    مجبوری میں سبھی پرندے جنگلوں میں واپس چلے آئے۔ ان میں زیادہ تر جنگی پھلوں پر گزارہ کرنے لگے۔ اس کے علاوہ زمین میں کیڑے مکوڑے کھاتے۔ یہی موروں کے ساتھ ہوا۔ انھیں بھی دانے دُنکے کی جنگلوں میں کوئی کمی نہیں۔ لیکن درندوں کے شکار ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہی بات موروں نے جنگل کی بیٹھک میں رکھی۔

    “تمھیں یہ خطرہ تو انسانوں سے بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی شکار کرتے اور چڑیوں کو کھاتے ہیں۔“

    شیر را جانے سمجھایا۔ حالانکہ اس کی نیت میں کھوٹ تھا۔ وہ بھی بھوکے ہونے پر شتر مرغ اور مور جیسے بھاری پرندوں کو کھا جاتا تھا۔ لیکن چھوٹی چڑیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی بلکہ وہ اپنے دکھ درد بتانے لگیں۔ ایک کبوتر نے کہا۔ عجیب بات ہے کہ کسی انسان پر فالج گر جائے تو وہ ہمارا خون مالش کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فاختہ بی نے بھی اسی طرح کی بات کی ۔ کبوتر اور فاختہ کا گوشت گرمی پیدا کرنے والا مانتے ہیں۔ اس لیے ہمارا شکار کرتے ہیں۔

    ” تو پھر خوش رہو جنگل میں ۔ بھیڑیے نے غراتے ہوئے کہا۔ یہاں تمھارا شکار نہیں ہوتا۔

    ” ہاں ۔ اگر کبھی لومڑی دبے پاؤں آتی ہے تو ہم پُھر سے اڑ جاتے ہیں ۔ چڑیوں نے جنگل میں رہنے میں ہی اپنی بھلائی مان لی۔

    اب بھلا مور کیا کہتے؟ وہ بے چارے اُداس ہو کر بیٹھک سے چلے گئے۔ پھر برسات کی پھواریں آئیں جنگل کے پیڑ پودوں اور گھاس میں جیسے نئی زندگی آگئی۔ پانی برسنے سے پھول، پتیوں میں بھی جان پڑ گئی۔ اس وقت ہلکی رم جھم ہو رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی مست ہوا چلنے لگی۔ ایسے سہانے موسم میں بھلا مور خود پر قابو کیسے رکھ پاتے؟ وہ مستی میں ناچنے لگے اپنے خوبصورت پنکھ پھیلائے لیکن انھیں افسوس ہورہا تھا کہ جنگل میں ان کا ناچ دیکھنے اور خوش ہونے والا کوئی نہیں۔ جنگل کے جانوروں نے کیا چڑیوں نے بھی کوئی دھیان نہیں دیا۔

    اسی وقت سے موروں کے خاندان میں‌ یہ مشہور ہوگیا کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا!

  • کچھوے کی عادت (ادبِ اطفال)

    کچھوے کی عادت (ادبِ اطفال)

    ایک جنگل میں بہت سارے جانور آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ جنگل کا ماحول بہت خوش گوار تھا اور جانوروں میں باہمی اتفاق اور قربت ایسی تھی کہ کسی ایک پر کوئی مصیبت پڑتی تو سب اس کا ساتھ دینے جمع ہو جاتے۔ جنگل میں حشرات الارض کی بھی کمی نہ تھی اور وہاں کچھوے بھی پائے جاتے تھے۔ اسی جنگل میں ایک بچھو اور کچھوا گہرے دوست بن گئے تھے۔ کچھوے کو قدرت نے خوبی دی ہے کہ وہ پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے ہیں، لہٰذا کچھوے کا جب تک دل چاہتا جنگل کی سیر کرتا رہتا اور پھر دریا میں اتر جاتا۔ بچھو اپنے دوست کچھوے کی اس زندگی پر رشک کرتا تھا۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اچھا، کچھوے اور بچھو‌ میں دوستی تو ہوگئی تھی، لیکن فطرت ان کی بہت الگ تھی۔ اکثر بڑے بزرگ کچھوے کو سمجھاتے تھے کہ دوستی اور میل جول برا نہیں اور جنگل کے سب جانور آخر کو آپس میں مل جل کر ہی رہتے ہیں، لیکن سب کی اپنی اپنی قوم اور نسل میں دوست بناتے ہیں۔ دوسرے جانوروں سے تعلق رکھنا الگ بات ہے مگر ان کے ساتھ دن رات گزارے نہیں جاسکتے۔ بزرگ کچھوے اس نوجوان کچھوے کو کہتے تھے کہ ہر جانور اپنی فطرت کے مطابق ہی عمل کرتا ہے۔ وہ اس سے باز نہیں‌ رہ سکتا۔ بچھو کی فطرت میں‌ ڈنک مارنا شامل ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ وہ برا نہیں مگر اپنی فطرت میں‌ ڈھلا ہوا ہے اور مجبور ہے۔ کچھوا اس بات کو سنی ان سنی کردیتا تھا۔

    ادھر بچھو کو دریا بہت پسند تھا اور وہ اس کی سیر کرنے کی خواہش رکھتا تھا لیکن تیرنا نہیں جانتا تھا اور ڈوبنے کے خوف سے پانی میں نہیں اترتا تھا۔ ایک دن اس نے کچھوے سے کہا: یار! ہمیں بھی کسی دن دریا کی سیر کراؤ۔

    کچھوے نے حیرانی سے کہا: “کیا تم تیرنا جانتے ہو؟“

    بچھو نے جواب دیا: ”اگر تیرنا جانتا ہوتا تو تمھیں کیوں کہتا۔“

    کچھوا بولا: ”پھر تم دریا کی سیر کیسے کر سکتے ہو۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم دریا کا نظارہ کنارے ہی سے کر لو۔“

    بچھو نے کہا: ” میرے پاس ایک ترکیب ہے۔ کیوں نہ تم مجھے اپنی پیٹھ پر سوار کر لو اور اگر تم پانی کی سطح پر تیرتے رہو گے تو مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس طرح سے ہم دونوں ایک ساتھ دریا کی سیر کا لطف اٹھائیں گے۔

    کچھوے نے بچھو کی بات سے اتفاق کیا۔ وہ دونوں دریا کے کنارے پر پہنچے۔ کچھوے نے بچھو کو اپنی پیٹھ پر سوار کیا اور پانی میں اتر گیا۔ بچھو دریا کی سیر سے بہت خوش تھا اور کچھوا اپنے دوست کی خوشی میں خوش تھا۔

    دریا میں کچھ دور جانے کے بعد کچھوے نے اچانک اپنی پیٹھ پر کھٹ کھٹ کی آواز سنی۔ دراصل بچھو اپنے دوست کچھوے کی پیٹھ پر زور زور سے ڈنک مار رہا تھا۔ کچھوے نے جب دوبارہ وہی آواز سنی تو اس نے بچھو سے پوچھا: یہ آواز کیسی ہے؟ بچھو نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کسی شے کو ڈنک مارنا میری عادت ہے۔ اس لیے تمھاری پیٹھ پر ڈنک مار رہا ہوں ۔ کچھوے نے اسے سمجھایا اور باز رہنے کے لیے کہا لیکن وہ اپنی حرکت سے باز نہ آیا۔

    کچھوے کو اپنے بڑوں کی بات یاد آنے لگی۔ کئی بار سمجھانے کے بعد آخرکار تنگ آکر کچھوے نے پانی میں غوطے لگانا شروع کر دیے۔ بچھو جب ایک دو مرتبہ پانی میں‌ ڈوبا تو پریشان ہوگیا اور کچھوے سے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس طرح سے تو میں مر جاؤں گا ۔ کچھوے نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ پانی میں غو طے لگانا میری عادت ہے اور میں اپنی عادت سے باز نہیں رہ سکتا۔“ اگلے ہی لمحے بچھو پانی میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے دریا کی تہ میں جا پہنچا۔ اس طرح بچھو اور ان کی دونوں کی دوستی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    یہ بہت پرانی کہانی ہے جس میں‌ ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے سمندر پار، بہت دور کسی سلطنت کا بادشاہ طبیعتاً زود رنج اور مزاجاً جارح تھا۔ اپنی رائے سے اختلاف اسے ناپسند تھا۔ اگر کسی وزیر، درباری اور خادم سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی تو سخت سزا دینے سے نہ چوکتا۔

    بادشاہ اگرچہ ظالم نہیں تھا، مگر اپنے ریاستی امور اور اپنی ذات سے متعلق کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رعایت اور نرمی برتنے سے درباری اس پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بات پر بگڑتا تو ایسا بگڑتا کہ لوگوں کے سَر ان کے شانوں سے اتروانے میں‌ ذرا دیر نہ کرتا۔ بادشاہ نے دس جنگلی کتّے بھی پال رکھے تھے۔ ان خونخوار کتّوں کو خاص تربیت دی گئی تھی اور وہ بادشاہ کے حکم پر اپنے سامنے پھینکے گئے آدمی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ ظاہر ہے ایک مجبور اور بے بس انسان ان کتّوں کے آگے کیا کرسکتا ہوگا۔ کتّوں کے نوکیلے دانت اور پنجوں سے گھائل ہونے کے بعد موت ایسے آدمی کا مقدر بن جاتی۔ بادشاہ کے خادمین اور نوکروں سب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھیں اور بادشاہ کے روبرو حاضر باش رہیں تاکہ کسی موقع پر غلطی سے بچ سکیں۔ وہ خوب سوچ سمجھ کر کسی بات کا جواب دیتے اور ہمیشہ بادشاہ کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔

    مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے
    ایک روز کسی نوکر کی شامت آئی اور اس نے بادشاہ کا کوئی کام انجام دیتے ہوئے کسی بات پر اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی مگر بادشاہ کو نوکر کے خیالات نے برافروختہ کردیا۔ اس نے کچھ کہے سنے بغیر بیک لحظہ نوکر کو کتّوں کے باڑے میں پھینک دینے کا حکم جاری کردیا۔ بادشاہ کے کمرے کے باہر موجود سپاہی آواز سن کر دوڑے آئے اور نوکر کو پکڑ لیا۔ نوکر کی رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ موت اس کے سَر پر تھی۔ مگر اس نے ہمّت کرکے بادشاہ کو مخاطب کیا اور اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا، ”حضور! میں نے دس سال آپ کی خدمت کی، آپ مجھ پر اتنا رحم ضرور کریں ان خونخوار کتوں کے سامنے پھینکنے سے پہلے دس دن کی مہلت دے دیں! بادشاہ کچھ سوچ کر اس پر رضامند ہوگیا۔ اب نوکر دس دن کے لیے آزاد تھا۔

    نوکر اسی روز کتّوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے پاس پہنچا اور اس سے سارا ماجرا بیان کر کے درخواست کی کہ وہ اگلے دس دنوں تک کتّوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے۔ کتّوں کا رکھوالا اس پر راضی ہو گیا۔ وہ معتوب نوکر روز باڑے میں جاتا اور کتّوں کو کھانا کھلاتا، ان کو نہلاتا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اپنے گھر لوٹ جاتا۔

    جب دس دن پورے ہوئے تو بادشاہ نے اس نوکر کو طلب کیا اور کہا کہ وہ سزا بھگتنے کو تیار ہوجائے۔ نوکر نے گردن جھکا کر تعظیم کی اور سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے۔ اسے کتّوں کے باڑے میں دھکیلا گیا تو وہاں موجود عملہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنگلی کتّے اس کے آگے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے گھوم رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ نوکر ان کے کتّوں کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا۔

    بادشاہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ بھی حیران ہوا اور بولا۔ ’’میرے ان خونخوار کتوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس آدمی کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں؟‘‘

    پہرے دار بادشاہ کو اس بارے میں کیا بتاتے۔ وہ لاعلم تھے کہ نوکر نے دس روزہ مہلت میں ان کتّوں کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ یہ بات صرف کتّوں کا رکھوالا اور چند دوسرے محافظ جانتے تھے۔ بہرحال، بادشاہ نے نوکر کو دربار میں طلب کیا اور اس بابت سوال کرنے پر نوکر نے بتایا، "حضور! جان کی امان پاؤں تو ایک خطا اور کی ہے، جو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے جو دس روز کی مہلت طلب کی تھی، اس میں ان کتوں کی خدمت کرتا رہا، اور آج جب ان کے سامنے مجھے پھینکا گیا تو یہ نتیجہ نکلا، وہ میری دس روزہ خدمت نہیں بھولے۔ میں نے پورے دس سال آپ کی خدمت کی اور ایک معمولی غلطی پر آپ نے مجھے موت کے منہ میں‌ ڈال دیا۔” نوکر کی اس جسارت پر درباری دم بخود رہ گئے اور خیال کیا کہ اب بادشاہ اس کے ساتھ نہایت برا سلوک کرے گا۔ ادھر بادشاہ اپنے اس پرانے خادم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ یک دم اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بادشاہ نوکر کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔

    سبق:‌ جب کسی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارا ہو تو اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر بھی کرنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ ظرفی بھی ہے اور تعلق کا تقاضا بھی۔ اگرغلطی سنگین ہو یا کسی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہو تب بھی ممکن ہو تو ایسا راستہ اختیار کریں جس کی اپنے تو ایک طرف دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔

  • بد مزاج بڑھیا اور سنہری پرندہ (ایرانی لوک کہانی)

    بد مزاج بڑھیا اور سنہری پرندہ (ایرانی لوک کہانی)

    صدیوں پہلے کسی شہر میں ایک بے اولاد جوڑا رہتا تھا۔ دونوں بوڑھے ہوچکے تھے اور گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، لیکن بڑے میاں کی بیوی اب بھی جوانی کی طرح بد مزاج اور ناشکری ہی تھی۔ اپنے شوہر پر طنز کے تیر برسانا اور کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرنا جیسے اس کا وظیفہ تھا۔

    یہ دونوں غربت کے مارے ہوئے تھے اور انہیں ایک پرانی پن چکی میں رہنا پڑ رہا تھا جس کا ڈھانچا خستہ حال تھا اور بارش ہوتی تو چھٹ ٹپکنے لگتی۔ ایک روز بوڑھے کے ہاتھ بہت ہی خوب صورت سنہری پرندہ لگا اور وہ اسے اپنے ٹھکانے پر لے آیا۔ بڑی بی نے اس پر بھی خوب جھگڑا کیا مگر پھر چپ ہو رہیں۔ اگلے دن بوڑھا جب اس پرندے کے پاس گیا تو حیران رہ گیا۔ وہ انسانوں کی طرح بوڑھے سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا، ’’بڑے میاں! میرے چھوٹے بچّے بھوکے ہوں گے، میں انہیں چوگا کھلاتا ہوں، مہربانی کر کے مجھے چھوڑ دیجیے، میں آپ کو ایک ایسا تحفہ دوں گا کہ اس کی مدد سے جو چاہیں گے وہ ہوجائے گا۔‘‘ بوڑھا یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس سنہری پرندے کو آزاد کرتے ہوئے کہا، میں اپنی زندگی کی تکالیف سے نجات چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی اچھے گھر میں پرسکون طریقے سے رہوں۔

    سنہری پرندے نے کہا، یہ کون سا مسئلہ ہے۔ آپ دونوں‌ میرے پیچھے آئیے۔ وہ سنہری پرندہ انہیں جنگل میں لے گیا، وہاں درختوں میں گھرا ایک دروازہ دکھائی دیا۔ پرندے نے پروں کے اشارے سے دروازہ کھولا۔ تینوں اندر گئے تو دیکھا کہ اندر ایک بڑا بڑا سجا سجایا حسین کمرہ تھا۔ لمبا چوڑا صحن، جس میں بہت سے پھولدار اور پھل دار درخت پودے لگے ہوئے تھے۔ بڑے کمرے میں شکاریوں کا ایک لباس بھی لٹکا ہوا تھا۔ غرض ضرورت کی ہر چیز گھر میں موجود تھی۔ پرندے نے کہا کہ یہ آپ کا نیا گھر ہے، یہاں آرام سے رہیں۔ اس کے بعد اس نے اپنا ایک پَر انہیں دیا اور کہا کہ جب بھی مجھ سے کوئی کام ہو، اس پر کو ذرا سا جلا دیجیے، میں فوراً حاضر ہوجاؤں گا۔ دونوں نے اس سنہری پرندے کو رخصت کیا اور ہنسی خوشی اس خوب صورت گھر میں رہنے لگے۔ ان کی زندگی اب بدل گئی تھی۔ بڑے میاں روزانہ شکاریوں والا لباس پہن کر جنگل میں جاتے اور کوئی نہ کوئی اچھا شکار مل جاتا، وہ گوشت بھون کر کھاتے اور موج کرتے۔ یہاں کوئی دور تک دکھائی نہ دیتا تھا اور جب چند برس گزرے تو بڑھیا آہستہ آہستہ اکتانے لگی۔ ایک دن اس میں وہی پرانی عورت جیسے گھس آئی ہو۔ خاوند پر برس پڑی، ’’آخر ہم لوگ کب تک اس بیاباں میں رہتے رہیں؟ جنگل کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے بھلا؟ ہم جنگلی ہوتے جا رہے ہیں، جیسے یہ پرندے اور جانور ہمارے دوست، رشتہ دار ہوں۔‘‘ بڑے میاں نے اسے سمجھایا کہ اب تو سکون سے زندگی گزر رہی ہے، تم یہی چاہتی تھیں، اس ٹوٹی چھت والی چکی میں کیا گزرتی تھی؟

    بڑھیا نے کہا، یہ کوئی بات نہیں، انسان کو بہتر سے بہترین کی طرف جانا چاہیے۔ تم کو یاد ہے نا سنہری پرندے کا وہ پَر؟ ابھی اسے جلاؤ اور پرندے کو حاضر کرو تاکہ وہ ہمارا کچھ اور بندوبست کرے۔ بڑے میاں نے تنگ آ کر وہ پَر نکالا، اسے ذرا سا جلایا، چند ہی لمحوں میں سنہری پرندہ آن پہنچا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔

    بوڑھے نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کیا کہ اب اپنی خواہش بتائے۔ وہ عورت پھٹ پڑی، کہنے لگی کہ ہم جنگل میں پڑے ہیں، زندگی کا خاک مزہ ہے، کوئی انسان ہی نہیں جس سے دو گھڑی بات کی جاسکے۔ ہمیں کسی شہر میں لے جاؤ تاکہ ہم شہری زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ سنہری پرندے نے کہا، کوئی مسئلہ نہیں، وہ انہیں ایک شہر میں لے گیا، وہاں پہلے سے زیادہ خوب صورت گھر موجود تھا۔ اس گھر میں نوکر چاکر سب موجود تھے۔ ان کی شہری زندگی شروع ہوگئی۔ کچھ عرصہ یوں گزر گیا، دونوں میاں بیوی مزے کرتے رہے۔ پھر بڑی بی کو لگا کہ یہ زندگی کچھ بھی نہیں، انہیں اختیارات اور طاقت کا مزہ بھی چکھنا چاہیے۔ اس نے اپنے خاوند کو کہا کہ پرندے کو بلا کر اس سے کہو کہ ہمیں شہر کا حاکم بنوا دو، ہمارے پاس تمام اختیارات ہوں، سب پر ہمارا حکم چلے۔ بوڑھے نے پھر سنہری پرندے کو اسی طریقے سے پَر جلا کر بلایا۔ پرندے نے اس بار بھی انکار نہ کیا اور انہیں ایک قلعے میں لے گیا۔ وہاں کے حاکم پر جانے کیا جادو ہوا تھا کہ ان کو دیکھا تو محل میں لے گیا اور اعلان کیا کہ آج سے یہ دونوں یہاں کے حاکم ہیں، سب وزیر، مشیر، درباری اس بوڑھے جوڑے کے سامنے آداب بجا لائے۔ حکومت تو خیر انہوں نے کیا کرنی تھی۔ وزیر ذمہ داریاں سنبھالتا اور سارے مشیر وغیرہ ہی انتظام چلاتے۔ بڑھیا کا کام یہ تھا کہ وہ ملازموں، درباریوں پر حکم چلاتی اور اپنی طاقت اور اختیار سے تسکین پاتی۔ ایک روز کنیزوں نے بڑھیا کو غسل دیا اور بڑی بی دھوپ میں بال سکھانے بیٹھ گئیں کہ اچانک ایک بادل سورج کے سامنے آگیا اور دھوپ کی راہ میں حائل ہوگیا۔ تنک مزاج بڑھیا جھنجھلا گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو خوب باتیں سنائیں اور بولی کہ فوری طور پر سنہری پرندے کو بلایا جائے، وہ مزید طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان بادلوں کو سبق سکھا سکے۔ بوڑھے نے یہ سنا تو پریشان ہو کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ طاقت کی ہوس ٹھیک نہیں، غیر مشروط، لامحدود اختیارات اور قوت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو میسر ہے، اس پر گزارہ کرو۔ بلکہ یہ سب تو ہمارے لیے اس عمر میں عظیم الشان نعمت سے کم نہیں ہے۔

    یہ سن کر بڑی بی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ تیکھی نظروں سے اس نے خاوند کو دیکھا اور کہا کہ جو بول رہی ہوں وہی کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ تب بوڑھے نے بڑبڑاتے ہوئے سنہری پرندے کو بلایا اور بڑھیا نے اس کے سامنے کہا کہ بادل نے میری دھوپ کا راستہ روکا، میں چاہتی ہوں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز پر میرا حکم چلے۔

    یہ جان کر سنہری پرندے نے انہیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ دونوں چل پڑے۔ اچانک آندھیاں چلنے لگیں، اندھیرا چھا گیا، ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ کچھ دیر میں جب وہ دونوں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئے تو پرندے کا کچھ پتا نہ تھا، اور وہ اپنی پرانی، خستہ حال پن چکی میں پہنچ چکے تھے۔ اب تو بڑھیا بہت پچھتائی اور اسے معلوم ہوگیا کہ اس مرتبہ پرندے نے اس کی ناجائز اور فضول فرمائشوں سے تنگ آکر سزا کے طور پر وہیں پہنچا دیا ہے جہاں تکلیفیں اور مشکلات اس کا مقدر تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا، بڑھیا رو دھو کر چپ ہورہی۔ اس نے نہ صرف خود کو تکلیف میں ڈالا بلکہ اپنے ساتھ بوڑھے شوہر کو بھی مشکل میں پھنسا دیا۔ بدمزاجی اور ناشکری کا انجام یہی ہوتا ہے۔

  • ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ بیٹا بہت دور رہتا تھا۔ بڑھیا اکیلی تھی اور بیمار رہتی تھی۔

    ایک روز بڑھیا نے سوچا، چلوں اپنے بیٹے کے گھر۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔ اس کا گھوڑا بھی نہیں تھا اور نہ کوئی سنگی ساتھی۔ وہ کیا کرتی۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔

    بچوں کی مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    بڑھیا نے سوچا، میں کیا کروں۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاؤں۔

    بڑھیا کے گھر میں ایک بڑا سا مٹکا تھا۔ مٹکے نے کہا، ’’کیوں فکر کرتی ہو۔ میں لے جاؤں گا تمہیں، تمہارے بیٹے کے گھر۔‘‘

    بڑھیا خوش ہو گئی۔ اس رات بہت بارش ہوئی۔ ندی نالوں میں پانی آ گیا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔ گلیاں اور بازار پانی سے بھر گئے۔

    مٹکے نے کہا، ’’جلدی کر، چلیں۔‘‘

    ’’بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔ مٹکا پانی میں اتر گیا اور تیرنے لگا۔‘‘

    بڑھیا بولی، چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا۔ راستے میں جنگل تھا۔ جنگل میں جانور تھے۔

    جانوروں کو دیکھ کر بڑھیا ڈر گئی۔ کہنے لگی، ’’ہائے! مجھے جانور کھا جائیں گے۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’ڈر کاہے کا؟‘‘

    بڑھیا نے کہا، ’’جنگل میں شیر بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں لکڑ بگا بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’ہوتا رہے۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں ریچھ بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’شیر، لکڑبگا، ریچھ جنگل میں ہیں تو آتے کیوں نہیں۔‘‘

    یہ سن کر شیر، لکڑبگا اور ریچھ آ گئے۔

    شیر بولا، ’’ہام ہام ہام بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    ریچھ کہنے لگا، ’’مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ بڑھیا کو مجھے کھانے دو۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’کیوں کھاتے ہو مجھے۔ میں تو کمزور سی ہوں۔ مجھے بیٹے کے گھر جانے دو۔ بیٹے کے گھر۔ اچھے اچھے کھانے کھاؤں گی تو موٹی ہوجاؤں گی۔ جب بیٹے کے گھر سے واپس آؤں گی تب کھا لینا۔‘‘

    شیر بولا، ’’ہوں۔‘‘ لکڑبگا اور ریچھ بولے، ’’ہوں‘‘

    بڑھیا کی جان میں جان آئی تو بولی،
    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ بڑھیا، جنگل سے نکل کر اپنے بیٹے کے گھر پہنچی۔ وہ بہت خوش تھی۔ بیٹے نے اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے بڑھیا نے جی بھر کر کھایا۔

    بڑھیا، کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو گئی۔ ایک دن بڑھیا کہنےلگی، ’’بیٹا ، اب میں اپنے گھر جاؤں گی۔‘‘

    بیٹا بولا، ’’خیر سے جائیں۔‘‘ بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ راستے میں جنگل تھا۔

    جنگل میں شیر، لکڑبگا اور ریچھ تھے۔ شیر نے مٹکے میں بیٹھی بڑھیا کو دیکھ لیا۔ کہنے لگا،

    ’’بڑھیا تو خوب موٹی تازی ہوکر آئی ہے۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ مجھے تو بھوک لگ گئی۔‘‘

    ریچھ نے کہا، ’’آؤ اب بڑھیا کو کھالیں۔‘‘

    جنگل کے سارے جانور مل کر بولے، ’’اچھا، تو اب ہم بڑھیا کو کھائیں گے۔‘‘ یہ سن کر بڑھیا بولی، ’’پہلے مجھے دو دو مٹھی ریت لا دو، تب کھانا۔‘‘ وہ مان گئے۔

    دو مٹھی ریت شیر لایا۔ دو مٹھی لکڑبگا اور دو مٹھی ریچھ لایا۔ بڑھیا اپنے ہاتھوں میں ریت لے کر بیٹھ گئی اور بولی،

    ’’آؤ، اب مجھے کھاؤ۔‘‘ جب وہ اسے کھانے کو آگے بڑھے تو بڑھیا نے مٹھی بھر بھر کر ریت ان کی آنکھوں میں ڈال دی۔ اب جانور اسے کیسے کھاتے۔

    بڑھیا بولی،

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ جنگل کے جانور پیچھے رہ گئے اور بڑھیا اپنے گھر پہنچ گئی۔

    (مصنّف: مرزا حامد بیگ)

  • بچوں کا ادب اور گزری ہوئی دہائیاں

    بچوں کا ادب اور گزری ہوئی دہائیاں

    ایک خیال یہ ہے کہ اردو میں بچّوں کے لیے ادب تخلیق نہیں کیا جارہا یا بہت کم لکھا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ سننے کو ملتی ہے کہ یہ تخلیقات کس معیار کی ہیں اور پھر کیا نثر اور نظم کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے ہم جدید دنیا کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں یا نہیں، یہ ایک بحث ہے ہے اور اس پر بات کرتے ہوئے ہمیں کئی دہائیوں کے اوراق الٹنا ہوں گے۔

    ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ بچّہ ہر چیز جاننا، سمجھنا اور سیکھنا چاہتا ہے۔ یہ اس کے سیکھنے کی جبلت کا تقاضا ہے۔ لیکن ابتدائی ادوارِ عمر کے بعد ہمیں اپنے تہذیبی رویے اور اپنی ثقافت کو بھی بچّوں میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے لیے ہم ادب کا سہارا لیتے ہیں۔

    اگر بات کی جائے تقسیم سے قبل کے برصغیر کی تو نظیراکبرآبادی، سورج نرائن مہر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، حفیظ جالندھری، مولانا عبدالمجید سالک، اخترشیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت نے بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور معلومات افزا مضامین دل چسپ انداز میں لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ اہلِ‌ قلم نے صرف شاعری جب کہ بعض نے اخلاقی اور دل چسپ کہانیاں، اصلاحی نظمیں اور معلوماتی مضامین بھی تحریر کیے۔

    ہمارے میرزا ادیب لکھتے ہیں کہ 1857ء کے بعد کا دور ایک اصلاحی دور تھا، ہماری تحریک آزادی ناکام ہوچکی تھی اور برصغیر کی تمام قومیں اپنی ساری توجہات اصلاح احوال پرمرکوز کر چکی تھیں۔ مصنفین معاشرے کے ذمے دار افراد ہونے کی حیثیت سے بچوں کی بہتر طور پر تربیت کرنا چاہتے تھے اس مقصد کو عملی صورت دینے کی خاطر وہ ایسی نظمیں لکھنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں پڑھ کر بچے نیک بنیں اور زندگی کی اچھی قدروں کو عزیز گردانیں، چنانچہ حکیم ایسوپ کی حکایتوں کے انداز میں کافی تعداد میں کہانیاں لکھی گئی تھیں، بعض کہانیوں کے آخر میں نتیجہ لکھا جاتا تھا، اس حصے میں مصنف اپنے پڑھنے والے بچوں سے مخاطب ہو کر اس اخلاقی سبق کو اجاگر کرتا تھا جو اس کی کہانی سے ملتا ہے یا باالفاظِ دیگر ملنا چاہیے۔

    جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو بڑوں کے ادب کے ساتھ ساتھ چھوٹوں کے ادب کی بھی ضرورت پیش آنی چاہیے تھی، اور پیش آئی، اس وقت پہلی ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ بچوں کے لیے ایسی کتابیں لکھی جائیں جنہیں پڑھ کر بچوں کو تحریک پاکستان، مقاصد پاکستان اور جدوجہد آزادی سے آشنا ہونے کا موقع ملے چنانچہ اس باب میں معلوماتی کتابیں بھی تصنیف ہوئیں اور ایسی کتابیں بھی جو تحریک پاکستان کے احوال و کوائف میں واضح کرتی ہیں، مثلاً زاہد حسین انجم کی ’’پاکستان‘‘ سید ہاشمی فرید آبادی کی ’’پاکستان کی پہلی کتاب، کلیم احمد کی پاکستانی تہذیب کی کہانی، زینت غلام عباس کی دیس ہمارا پاکستان، سید قاسم محمود کی قائد اعظم کا پیغام وغیرہ۔

    اب ہم آج کے دور میں دیکھیں تو بچّوں کا ادب بہت کم لکھا گیا اور یہ بہت معیاری بھی نہیں ہے۔ معروف ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر اسد اریب صاحب کا کہنا ہے کہ: ’’جو شاعری بچوں کے لئے اس وقت تخلیق کی جار ہی ہے وہ اخلاقی، مذہبی اور ملّی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچّوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر وہر نہیں ملتی۔ نہ پرندے ہیں نہ طوطے، کوّے، بلبلیں نہ چوہے، بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں، شوخیاں اور تحیر ہے، نہ چہلیں۔‘‘

    ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بچّوں کا ادب کم تخلیق کیا گیا ہے جب کہ انسانیت کا مستقبل اور دنیا کی ترقی اب سائنس سے وابستہ ہے۔ اس پہلو پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    اب اگر ہم دہائیوں پیچھے چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں بچّوں کا اوّلین ماہانہ رسالہ پیسہ اخبار کے مدیر مولوی محبوب عالم نے مئی 1902ء میں شائع کیا تھا۔ جس کا نام تھا ’’بچوں کا اخبار۔‘‘ یہ کثیر الاشاعت ماہنامہ تھا۔ اس کے بعد جو رسالے نکلے ان میں تہذیبِ نسواں کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی (فاضل دیوبند) کا ’’پھول‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اکتوبر 1909ء میں لاہور سے ہوا۔ اس رسالے کو معروف ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ ایک خوبصورت دیدہ زیب رسالہ جس سے حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی وابستگی تھی۔ محترمہ بنت نذرالباقر، محمدی بیگم اور حجاب امتیاز علی بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ اس رسالہ کے قلم کاروں میں پطرس بخاری، محمد دین تاثیر، شوکت تھانوی اور اختر شیرانی جیسی قد آور شخصیتیں تھیں۔

    تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں بچّوں کے کئی رسالے جاری کیے گئے اور یہ تقریبا ہر گھر میں موجود ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہمارے گھروں سے اخبار و رسائل نکلتے چلے گئے اور آج ہم نہ صرف کتب بینی اور مطالعے کے رجحان کو خطرناک حد تک کم ہوجانے یا نوجوانوں کی کتاب سے دوری کا شکوہ کررہے ہیں بلکہ بچّوں کے قلم کار بھی اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ دوسرا بڑا سوال معیاری ادب کا بھی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بچوں نے اسکرین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے اور وہ ان رسائل کے قاری نہیں رہے جو کسی نہ کسی طور بازار میں اب بھی آ رہے ہیں۔

    اس طرف اہلِ‌ قلم اور قوم اور اپنے مستقبل سے مخلص افراد کو ہی نہیں حکومت کو بھی توجہ دینا چاہیے۔ حکومتی سرپرستی میں بچّوں کے لیے معیاری ادب تخلیق کرکے اسے فروغ دیا جا سکتا ہے جو کہ بہت ضروری ہے۔

  • خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ہر سہ پہر اسکول سے واپسی پر وہ سب بچے دیو کے باغ میں کھیلنے کو جایا کرتے تھے۔ یہ باغ بہت ہی خوب صورت تھا، نرم ملائم گھاس کے فرش سے آراستہ، جا بجا خوشنما پھول کھلے ہوئے، یوں محسوس ہوتے جیسے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ یہی نہیں وہاں بارہ آڑو کے درخت بھی تھے جو بہار کے آتے ہی نازک نازک گلابی اور آبی رنگوں کے پھولوں سے بھر جاتے اور خزاں کے آنے تک مزے دار پھلوں میں تبدیل ہو جاتے۔

    پرندے ان درختوں پر آ کر بیٹھتے اور اتنے مسحور کن گیت گاتے کہ بچے اپنا کھیل روک دیتے اور انہیں سننے میں محو ہو جاتے، وہ ایک دوسرے سے کہتے ہم کتنے خوش ہیں یہاں۔

    ایک دن کیا ہوا، دیو واپس آ گیا، وہ دراصل اپنے دوست کورنش اوگر سے ملنے گیا ہوا تھا۔ وہ چونکہ بہت ہی مختصر گفتگو کیا کرتا تھا اس لئے اسے اپنی بات مکمل کرنے میں سات سال لگے، جب سات سال مکمل ہو گئے اور اس نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا تو اپنے قلعہ میں واپس آنے کا ارادہ کیا۔ جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ بچے باغ میں کھیل رہے ہیں۔

    ’’تم سب یہاں کیا کر رہے ہو‘‘ اس نے غراتے ہوئے اتنے زور سے کہا کہ بچے ڈر گئے اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    ’’یہ میرا باغ ہے اور میں اپنے سوا کسی کو بھی یہاں کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘ دیو نے غرور سے کہا۔ پھر اس نے باغ کے گرد ایک بہت اونچی دیوار تعمیر کی اور اس پر ایک نوٹس بورڈ آویزاں کر دیا جس پر لکھا تھا ’’بلا اجازت باغ میں آنے والوں کو سزا دی جائے گی۔‘‘

    دیو کی خود غرضی نے بچوں کو بہت آزردہ کر دیا۔ اب ان کے پاس کھیلنے کے لئے کوئی جگہ نہ رہی، انہوں نے سڑک پر کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ دھول مٹی اور پتھروں سے اٹی ہوئی تھی، انہیں یہاں کھیلنے میں بالکل مزہ نہ آیا۔

    وہ اسکول سے واپسی پر اس اونچی دیوار سے گھرے ہوئے باغ کے آس پاس منڈلایا کرتے اور باغ کے متعلق باتیں کیا کرتے۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے: ’’ہم باغ میں کتنی خوشی سے کھیلتے تھے۔‘‘
    ٭٭٭
    پھر بہار آن پہنچی، درختوں میں پھول کھلنے لگے اور تمام علاقہ ننھے پرندوں سے بھر گیا لیکن خود غرض دیو کے باغ میں ابھی تک موسم سرما باقی تھا۔ وہاں پرندے گیت گانے نہیں آتے تھے کیونکہ بچے جو وہاں نہیں تھے اور درختوں میں بور آنا تو جیسے بھول ہی گیا تھا۔

    ایک خوب صورت پھول نے گھاس سے سر اٹھایا لیکن جب نوٹس بورڈ کی طرف دیکھا تو بچوں کے لئے بہت اداس ہو گیا اور دوبارہ زمین میں دبک کر گہری نیند سو گیا۔

    وہاں صرف دو ہی لوگ خوش تھے اور وہ تھے برف اور کہر۔ بہار تو اس باغ کا راستہ ہی بھول چکی تھی۔ وہ دونوں خوشی سے چلّاتے ’’اب تو ہم سارا سال یہیں رہیں گے۔‘‘

    برف نے اپنے سفید دبیز کوٹ سے گھاس کو ڈھانپ دیا اور کہرے نے تمام درختوں کو چاندی سے رنگ دیا، پھر انہوں نے کرّۂ شمالی سے آنے والی سرد ہواؤں کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آ کر رہیں۔ چنانچہ ہوا کا طوفان بھی ان کے ساتھ آ کر رہنے لگا، اس نے بھاری فر کا کوٹ پہن رکھا تھا اور سارا دن زور زور سے باغ میں دھاڑتا رہتا یہاں تک کہ اس نے آتش دان تک الٹ پلٹ کر ڈالے۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھیں
    ’’آہا یہ تو بہت اچھی جگہ ہے‘‘ وہ خوش ہو کر بولا اور اولوں کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی اور وہ بھی وہاں آ کر رہنے لگے۔ وہ ہر روز تین گھنٹے تک قلعہ کی چھت پر دھما چوکڑی مچاتے یہاں تک کہ چھت کے کئی کنگرے ٹوٹ کر گر گئے پھر وہ باغ میں نہایت تیزی سے دائروں کی صورت گھوما کرتے، انہوں نے سرمئی لبادہ پہنا ہوتا اور ان کی سانس برف کی طرح سرد اور کاٹ دار ہوتی۔

    خود غرض دیو پریشان تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس بار بہار کو آنے میں اتنی دیر کیسے ہو گئی۔ وہ اپنے کمرے کی باغ کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا جو سفید دودھیا برف سے ڈھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’مجھے امید ہے موسم جلد ہی تبدیل ہو جائے گا‘‘ اس نے خود کو یقین دلایا۔ لیکن وہاں بہار کبھی نہ آئی اور نہ ہی موسم گرما۔ خزاں نے سارے باغوں کو لذیذ پھل تقسیم کئے لیکن دیو کے باغ کو ایک بھی نہ دیا، وہ بولی ’’ہنھ دیو بہت خود غرض ہے۔‘‘

    سو وہاں موسم سرما ہی رہا اور شمال سے آنے والی سرد ہوا اور اولے، برف، ژالہ باری اور کہرا درختوں پر ادھر سے ادھر کودتے پھاندتے پھرا کرتے۔

    ایک صبح دیو اپنے بستر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک اس نے نہایت ہی دلفریب اور مسحور کن موسیقی کی آواز سنی، وہ اس کے کانوں کو بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی اس نے سوچا شاید بادشاہ کے موسیقار وہاں سے گزر رہے ہیں، لیکن در حقیقت وہ بہت ہی نازک اور خوش الحان بلبل نما پرندہ تھا جو اس کی کھڑکی کے باہر گیت گا رہا تھا۔ دیو نے عرصے سے اپنے باغ میں کسی پرندے کا گیت نہیں سنا تھا اس وقت یہ مدھر آواز اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔

    تب ہی اولوں نے برسنا چھوڑ دیا اور شمالی سرد ہوا کے جھکڑ بھی ٹھہر گئے۔ یک بیک بہت خوشبو کی لہر نے فضا کو معطر کر دیا جب یہ لہر کھلی کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی ناک سے ٹکرائی، تو اس نے بے اختیار اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور باہر باغ کی طرف دیکھنے لگا، اس نے خود کلامی کی۔ … اب مجھے یقین ہو گیا ہے بالآخر بہار آ ہی گئی‘‘
    ٭٭٭

    آخر اس نے ایسا کیا دیکھ لیا تھا؟ اس نے بہت ہی شاندار نظارہ دیکھا تھا۔ دیوار میں کئے گئے چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے بچّے باغ میں داخل ہو گئے تھے، اور درختوں کی شاخوں پر براجمان تھے۔ اسے ہر درخت پر ایک بچہ بیٹھا ہوا دکھائی دے رہا تھا ان کے واپس آ جانے سے درخت اتنے خوش تھے کہ انہوں نے خود کو پھولوں سے لبریز کر لیا تھا اور ان کی پھولوں بھری ڈالیاں اپنے بازو بچوں کے سروں کے گرد حمائل کئے محسوس ہو رہی تھیں۔ پرندے خوشی سے چہچہاتے پھر رہے تھے اور پھول ہری گھاس سے ایک بار پھر جھانکنے اور مسکرانے لگے تھے۔

    یہ ایک بہت ہی دلکش نظارہ تھا، لیکن باغ کے ایک کونے میں ابھی بھی موسم سرما موجود تھا، یہ باغ کا سب سے آخری سرا تھا جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا کھڑا تھا۔ وہ اتنا ننھا منا سا تھا کہ درخت کی شاخوں تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی، وہ درخت کے تنے سے لپٹا بری طرح رو رہا تھا۔ بے چارہ درخت ابھی بھی کہرے اور برف سے اٹا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف شمالی سرد ہوا منڈلا رہی تھی۔ درخت نے بچے سے کہا ’’ننھے لڑکے اوپر آ جاؤ۔‘‘ اس نے اپنی شاخیں اتنی نیچے تک جھکا دیں جتنا کہ وہ جھک سکتا تھا مگر بچہ بہت ہی چھوٹا تھا وہ پھر بھی کسی شاخ کو نہیں تھام سکا۔

    دیو نے یہ منظر دیکھا تو اس کا دل موم ہو گیا۔ اس نے سوچا میں بھی کتنا خود غرض تھا، اب میری سمجھ میں آیا کہ بہار میرے باغ میں کیوں نہیں آ رہی تھی۔ میں اس ننھے بچے کو درخت پر بٹھا دوں گا اور باغ کے اطراف کی اونچی دیواریں ڈھا دوں گا، میرا باغ بچوں کے کھیلنے کے لئے ہمیشہ وقف رہے گا۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ تھا۔ پھر وہ سیڑھیاں اترتا نیچے پہنچا اور صدر دروازہ آہستگی سے کھول کر باغ میں چلا گیا، لیکن جب بچوں نے اسے دیکھا تو بہت خوف زد ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔ باغ پھر سے برف اور کہرے سے بھر گیا موسم سرما نے اسے پھر سے گھیر لیا تھا۔ صرف وہ ننھا لڑکا بالکل نہ ڈرا اور نہ وہاں سے بھاگا۔

    اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، دیو نے اسے پشت سے تھاما اور آہستگی سے اپنے ہاتھ میں لے کر درخت کی شاخ پر بٹھا دیا، اور یوں درخت ایک بار پھر بور سے لد گیا، ہر طرف پھول ہی پھول کھل گئے۔ پرندے وہاں آ کر چہچہانے اور گیت گانے لگے، ننھے لڑکے نے اپنے بازو دیو کی گردن میں حمائل کر دیے اور اسے پیار کیا۔ جب دوسرے بچوں نے یہ دیکھا کہ اب دیو پہلے جیسا برا نہیں رہا تو وہ بھاگتے ہوئے واپس آ گئے اور بہار دوبارہ سے باغ میں ہر طرف پھیل گئی۔

    ’’یہ اب تمہارا باغ ہے ننھے بچّو!‘‘ دیو نے کہا۔ اس نے بڑی کلھاڑی اٹھائی اور دیوار کو مسمار کر ڈالا۔ جب دوپہر کے بارہ بجے لوگ مارکیٹ جانے کے لئے وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا دیو بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اتنا خوب صورت باغ انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
    ٭٭٭

    بچّے سارا دن وہاں کھیلتے رہے۔ شام کو دیو کو خدا حافظ کہنے آئے تو اس نے پوچھا ’’تمہارا وہ ننھا دوست کہاں ہے؟، وہی جسے میں نے درخت پر بٹھایا تھا، مجھے وہ بہت اچھا لگا تھا اس نے مجھے پیار بھی کیا تھا‘‘

    بچوں نے جواب دیا، ’’وہ تو چلا گیا، ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم‘‘

    دیو نے ان سے کہا، ’’اس سے کہنا وہ کل ضرور یہاں کھیلنے آئے‘‘ لیکن بچے تو اسے جانتے ہی نہیں تھے نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے، انہوں نے تو اسے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔

    دیو اس بات پر اداس ہو گیا۔ ہر دوپہر اسکول کی چھٹی کے بعد بچے دیو کے ساتھ کھیلنے اس کے باغ میں آتے مگر وہ لڑکا دوبارہ کبھی دکھائی نہ دیا۔

    دیو اب بچوں کے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آتا۔ وہ اکثر ان سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کرتا اور اس کی باتیں کرتا وہ کہتا کہ وہ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔

    وقت گزرتا گیا۔ ….. یہاں تک کہ دیو بوڑھا اور کمزور ہو گیا، وہ اب بچوں کے ساتھ کھیل نہ پاتا بس اپنی بڑی سی وہیل چیئر پر بیٹھا انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا۔ بچے اس کے باغ کو بہت سراہتے، اس پر وہ کہتا ’’میرے باغ میں بہت سے خوب صورت پھول ہیں لیکن بچوں سے بڑھ کر خوب صورت پھول کوئی نہیں۔‘‘

    سردیوں کی ایک صبح وہ اپنے کمرے میں کپڑے بدلتے ہوئے کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ اسے اب موسم سرما برا نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا یہ بہار اور پھولوں کے آرام کا وقت ہے، انہیں کچھ وقت کے لئے سونا بھی ہوتا ہے، باہر دیکھتے ہوئے اس نے حیرت سے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور خوب غور سے بار بار دیکھا جیسے اسے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا ہو، یہ بلا شبہ بہت ہی خوب صورت نظارہ تھا، باغ کے انتہائی کونے میں ایک درخت سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا اس کی شاخیں سنہری اور نقرئی پھلوں کے بوجھ سے زمین پر جھک آئی تھیں۔ ….. اور۔ …. ان کے نیچے وہی ننھا لڑکا کھڑا تھا۔

    دیو خوشی سے اچھلتا کودتا سیڑھیوں سے اتر کر باغ میں پہنچ گیا اور گھاس پر لوٹتا جب لڑکے کے قریب پہنچا تو اس کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اس نے بے چینی سے لڑکے سے پوچھا ’’تمہارے جسم پر زخموں کے نشان کیسے ہیں، کس نے تمہیں زخمی کیا‘‘ لڑکے کی ہتھیلیوں اور پیروں پر کسی کے تیز ناخنوں کے نشان تھے۔
    ٭٭٭

    ’’وہ کون ہے، جس نے تمہیں زخم دیے؟ مجھے بتاؤ۔‘‘ دیو بے تابی‘‘ چلّایا۔ ’’میں اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں گا۔‘‘

    ’’نہ۔۔۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’یہ تو پیار کے زخم ہیں‘‘دیو نے اچنبھے سے لڑکے کی طرف دیکھ کر سوال کیا ’’آخر تم کون ہو؟‘‘ ایک تکلیف دہ کراہ اس کے منہ سے نکلی اور وہ بچّے کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

    لڑکا دیو کو دیکھ کر مسکرایا اور اس سے کہنے لگا۔ ’’ایک بار تم نے مجھے اپنے باغ میں کھیلنے دیا تھا، آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے باغ میں لے جانے کو آیا ہوں۔ جانتے ہو میرا باغ کہاں ہے؟

    جنّت میں ہے میرا باغ!‘‘
    ٭٭٭
    اسکول سے واپسی پر بچے جب کھیلنے کے لئے باغ میں آئے تو انہوں نے دیکھا باغ کے آخری سرے پر درخت کے نیچے دیو لیٹا ہوا تھا۔ انہوں نے قریب جا کر دیکھا وہ تو مر چکا تھا اور سفید پھولوں نے اس کے جسم کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔

    (آسکر وائلڈ کی کہانی جسے سلمیٰ‌ جیلانی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)

  • حلوائی کا بیٹا

    حلوائی کا بیٹا

    قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے ایسا شفا خانہ قائم کیا جس میں مفت علاج کے ساتھ مریضوں کو صحت یاب ہونے تک قیام و طعام پر ایک دمڑی تک خرچ نہیں‌ کرنا پڑتی تھی بلکہ انواع و اقسام کی نعمتیں اور دیگر مراعات بھی میسر تھیں۔ سو، چند ہی روز میں شفا خانہ مریضوں سے بھر گیا۔

    شفا خانہ ایسا بھرا کہ مزید مریضوں کو داخل کرنا ممکن نہ رہا۔ شروع میں حکمیوں کا خیال تھا کہ معمولی تکلیف اور عام درد اور دوسری شکایات میں‌ مبتلا مریض جلد ہی صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں‌ گے۔ ایسا ہوا بھی، لیکن ان مریضوں کی تعداد بہت کم تھی جو صحت یاب ہوکر شفا خانہ چھوڑ گئے۔ اکثریت ایسی تھی جو مسلسل علاج اور بھرپور توجہ کے باوجود کوئی نہ کوئی شکایت لے کر بیٹھ جاتی اور حکیم ان کے نئے یا مستقل مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام ہورہے تھے۔ ان میں سے کسی کو مستقل جسم میں درد رہتا، تو کسی کو کوئی ایسا روگ لاحق تھا کہ وہ اس سے نجات ہی نہیں حاصل کر پا رہا تھا۔ الغرض صورتِ حال بہت پریشان کن ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے مریضوں نے شفا خانہ میں‌ ایک طویل عرصہ گزار دیا۔

    جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا کہ بڑے بڑے حاذق حکیموں کے علاج سے بھی مریض صحت یاب نہیں ہورہے اور شفا خانے میں گنجائش باقی نہیں تو بادشاہ بھی پریشان ہوا۔ اس نے اعلان کروایا کہ جو حکیم ان عمر بھر کے روگیوں کا روگ دور کرے گا اُسے انعام و اکرام اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا جائے گا۔ بڑے بڑے حکیم اور ماہر اطبا آئے مگر ’منہ پِٹا کر‘ چلے گئے۔ آخر کو ایک حلوائی کا بیٹا دربار میں آیا اور دعویٰ کیا کہ وہ چند ساعتوں میں ایسے تمام روگیوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرسکتا ہے۔ بادشاہ نے کہا ’’چلو، تم بھی قسمت آزما لو۔‘‘

    اس لڑکے کو شفا خانہ لے جایا گیا جہاں پہنچ کر اس نے ایک بڑا سا کڑھاؤ، منوں تیل اور ٹنوں کے حساب سے لکڑیاں منگوا لیں۔ سب کچھ آگیا تو لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی۔ آگ پر کڑھاؤ چڑھایا گیا۔ کڑھاؤ میں تیل کھولایا گیا۔ تیل جوش مارنے لگا تو حلوائی کے فرزند نے شفا خانے کے عملے سے کہا کہ کسی بھی ایسے مریض کو لے آؤ جو برسوں سے یہاں پڑا ہے۔ ایک مریض جو چلنے پھرنے سے قاصر تھا، اسے پلنگ پر لاد کر لایا گیا۔ حلوائی کے پُوت نے پوچھا: ’’بڑے صاحب! آپ کب سے شفاخانے میں داخل ہیں؟‘‘

    معلوم ہوا: ’’پندرہ برس سے۔‘‘

    پوچھا: ’’ ٹھیک نہیں ہوئے؟‘‘

    جواب ملا: ’’نہیں، یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں درد ہے، وہاں درد ہے۔‘‘

    اس لڑکے نے جو معالج بن کر آیا تھا، اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور تسلّی دی کہ وہ ابھی اسے ٹھیک کردے گا۔ پھر اس نے کارندوں سے کہا: ’’اس کا مرض میں جان گیا ہوں۔ اب اس کا علاج شروع کرتے ہیں، اسے ڈنڈا ڈولی کر کے لے جاؤ اور کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں اس کی ٹانگیں تین مرتبہ ڈبو دو۔ اس کے بعد دونوں بازوؤں کو تین مرتبہ کھولتے تیل میں‌ ڈالنا ہوگا۔ اور دیکھو بہت احتیاط سے یہ کام کرنا ہے۔ بزرگ کو کڑھاؤ میں‌ مت گرا دینا۔‘‘ یہ سنتے ہی لاعلاج بابا یکلخت چھلانگ مار کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’نہیں، نہیں۔ حکیم جی! میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے میں اچھل کود کرنے لگا اور سب کو چل کر دکھایا۔ حکیم نے کہا: ’’اب تم شفا خانے کے ہر کمرے میں جاؤ، ہر مریض کو بتاؤ کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘ پھر شفا خانے سے باہر نکل جاؤ۔‘‘ اس کے بعد اُس کے سامنے ایسے چند اور مریض لائے گئے اور ان کے لیے بھی اس نوجوان حکیم نے وہی علاج تجویز کیا جو پہلے مریض کے لیے کیا گیا۔ وہ بھی طریقۂ علاج سن کر فوراً‌ ٹھیک ہوگئے اور ہر قسم کا درد کافور ہوگیا یوں اس حکیم نے کچھ ہی دیر میں سارے مریض ٹھیک کر دیے اور شفا خانہ ان ہڈ حرام اور مفت خوروں سے خالی ہوگیا۔

    بادشاہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور حلوائی کے فرزند کو انعام و اکرام کے ساتھ خلعت سے نوازا گیا۔

    (لوک ادب سے انتخاب)