Tag: بچوں کی کہانیاں

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں

بچوں کی کہانیاں

  • امن کانفرنس

    امن کانفرنس

    ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ‌ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں‌ پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں‌ ہے:

    جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”

    سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔

    "ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
    "ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
    "توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”

    تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

    "او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

    "بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔

    "ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”

    پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

    "اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

    راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

    "اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
    "اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”

    ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔

    "یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

    "جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”

    راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”

    پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”

    "مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”

    پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔

    راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”

    راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

    "دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔

    ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

    "کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
    ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

    راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”

    رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”

    "اور کیا ایک کھایا؟”

    "تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”

    "یہ بات۔۔۔۔؟”

    "یہ بات۔۔۔۔!”

    پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

    چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟

    رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”

  • سوسن بیل کی کہانی

    سوسن بیل کی کہانی

    سچ ہے یا جھوٹ، یہ تو معلوم نہیں، لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں کسی ملک میں ایک گدھا اور ایک بیل رہتے تھے۔

    بیل دن بھر میں اتنی زمین پر ہَل چلا لیتا تھا جتنی زمین پر کوئی دوسرا بیل ہفتے بھر میں بھی نہیں چلا سکتا تھا، لیکن شام کو وہ تھکا ہارا لوٹ کر گھر آتا تو اسے سوکھی پھیکی گھاس کا ایک گٹھا کھانے کو ملتا تھا۔

    جہاں تک گدھے کا تعلق تھا وہ کوئی کام کاج نہ کرتا، دن بھر پڑے پڑے دھوپ کھاتا، لیکن اس کو پانی کی جگہ دودھ پلایا جاتا اور سوکھی پھیکی نہیں بلکہ ہری ہری رَس بھری گھاس سے تواضع کی جاتی تھی۔

    ایک روز بیل شام کو حسبِ معمول تھکا ہوا اپنے تھان پر لوٹا اور خشک بے ذائقہ گھاس کو بے دلی سے چبانے لگا، لیکن سوکھی گھاس اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ اس نے گدھے سے مخاطب ہو کر کہا:

    "بھائی گدھے! اپنے رسیلے چارے میں سے تھوڑا سا مجھے بھی دے دو نا۔ یہ خشک بے ذائقہ گھاس تو اب مجھ سے بالکل نہیں کھائی جاتی۔”

    گدھے کو بیل پر رحم آ گیا اور اس نے اپنے چارے میں سے تھوڑا سا اس کو دے دیا۔ مالک تھان پر آیا تو یہ دیکھ کر کہ گدھا اپنا چارا سارا کھا چکا ہے، بہت خوش ہوا اور کہا: "ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔! خوب کھاتے ہو تم! شاباش میرے گدھے!”

    مالک نے گدھے کے آگے کولی بھر اور گھاس دال دی۔ پھر اس نے بیل کے ناند میں دیکھا تو پتا چلا کہ تمام خشک گھاس جوں کی توں پڑی ہے۔ وہ طیش میں آ کر بیل پر چیخنے چلانے لگا:

    "مردود! نکما کہیں کا! تو چارا کیوں نہیں کھاتا؟ کل کھیت پر جا کے لیٹ جائے گا تو کون ہَل چلائے گا؟” یہ کہتے ہوئے وہ بیل کو ڈنڈے سے مارنے لگا۔ اتنا مارا، اتنا مارا کہ بیچارے بیل کی کھال کی ساری گرد جھڑ گئی۔ اس دن سے گدھا روز اپنے شام کے کھانے کا کچھ حصّہ بیل کو دینے لگا۔

    ایک دن مالک تھان پر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ بیل گدھے کا چارا ڈٹ کر کھا رہا ہے اور گدھا پاس کھڑا اس سے کہہ رہا ہے:

    "کھاؤ بھائی، کھاؤ۔” بس پھر کیا تھا، مالک کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی، ڈنڈا لے کر گدھے پر ٹوٹ پڑا اور یہ کہتے ہوئے اس کی مرمت کرنے لگا:

    "اچھا! یہ بات ہے! تیرا پیٹ بھر گیا ہے؟ تجھ پر حد سے زیادہ چربی چڑھ گئی ہے، تو اب اپنا سارا چارا اس نکمے بیل کو دے دیتا ہے؟ ٹھہر تو جا، میں تجھے اس کا مزہ چکھائے دیتا ہوں۔”

    مالک جب گدھے کا گرد و غبار خوب جھاڑ چکا تو اسی ڈنڈے سے بیل کی خبر لینے لگا۔ اگلے دن مالک نے تھان پر آ کر کہا:

    "اچھا گدھے میاں! اب ہَل چلانے کی آپ کی باری ہے۔ چلیے تو سہی۔” وہ گدھے کو کھیت میں لے آیا اور اس کی گردن میں طوق ڈال لگا کر ہانکنا شروع کر دیا۔ گدھا سارا دن پسینے سے شرابور ہل چلاتا رہا اور بیل مزے سے پڑا دھوپ کھاتا رہا۔ شام کو مالک گدھے کو واپس تھان پر لے آیا اور اس کو بیل کی جگہ پر باندھ کر سوکھے پھیکے پھوس کا ایک گٹھا اس کے آگے ڈال دیا۔ بیل کو ہری ہری نرم و ملائم گھاس کھانے کو ملی۔ چار ڈال کر مالک چلا گیا تو گدھے نے بیل سے گڑگڑاتے ہوئے کہا:

    "یار! جب تم بھوکے تھے تو میں نے تم پر رحم کیا تھا۔ اب تم بھی میرے حال پر رحم کرو۔ اپنے رسیلے چارے میں سے کچھ مجھے دے دو۔”

    بیل پر لالچ غالب آ گیا اور اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا: "دیکھتے نہیں ہو، میرا چارہ تھوڑا سا تو ہے۔ خود میرے لیے بھی کافی نہیں ہے۔”

    بیچارے گدھے کو اپنی قسمت کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ وہ دن بھر کھیت میں ہل چلاتا اور شام کو تھکا ہارا تھان پر لوٹ آتا تو روز وہی روکھی سوکھی گھاس اس کو کھانے کو ملتی اور بیل تھا کہ مزے اڑائے جا رہا تھا۔ پہلے وہ بالکل دبلا پتلا سا تھا۔ اس کی پسلیاں نکلی رہتی تھیں۔ لیکن اب کچھ ہی دنوں میں کھا پی کر خوب موٹا تازہ ہو گیا اور بیچارہ گدھا اتنا دبلا پتلا ہو گیا کہ کسی سوکھے ہوئے درخت کا ٹھنٹھ معلوم ہونے لگا۔ آخرکار اس کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور اس نے ایک دن بیل سے کہا:

    "یار! تم ہی بتاؤ۔ اب میں کیا کروں؟ روز روز کی مار پیٹ اور ان اذیتوں سے کیسے چھٹکارا پاؤں؟ مالک کی مسلسل مار پیٹ سے میرا بدن چھلنی ہو گیا ہے۔”

    بیل نے مشورہ دیا: "کل جب مالک تمھاری گردن میں طوق لگا کر ہانکنے لگے تو تم ٹانگیں اڑائے کھڑے رہنا۔ اپنی جگہ سے ہلنا تک نہیں۔ مالک کو تم پر رحم آ جائے گا۔ وہ سوچے گا کہ بیچارہ گدھا بالکل تھک گیا ہے اور تمھیں آرام کرنے دے گا۔”

    اگلے دن صبح مالک نے روز کی طرح گدھے کو کھیت پر لا کر گردن میں طوق لگا دیا اور ہانکنے لگا تو گدھا اس طرح اڑ گیا کہ چلنے کا نام ہی نہ لیا۔ مالک کو غصہ آ گیا اور وہ گدھے کو ڈنڈے سے بے دردی سے مارنے لگا۔ گدھا مار پیٹ کی تاب نہ لا سکا اور چل پڑا۔ شام کو مالک نے اس کو تھان پر لا کر باندھ دیا تو وہ تھکا ماندہ پڑے پڑے سوچنے لگا:

    "نہیں۔ اب ایسے کام نہیں چلے گا۔ میں اب یہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا۔ کہیں بھاگ جاؤں گا۔” یہ طے کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا، ایک جھٹکے سے رسی تڑا لی اور باہر آ کر ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔

    گدھا بھاگتا گیا اور اب آپ آئیے، ذرا مرغ کی بات سنیے۔

    ایک چکی والے نے ایک مرغا اور کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، لیکن وہ ان کو کھانے کو کچھ نہیں دیتا تھا۔ مرغا اور مرغیاں بیچارے دن دن بھر خوراک کی تلاش میں آنگن میں مارے مارے پھرتے، ادھر ادھر اکا دکا دانے مل جاتے جنہیں کھا کر وہ اپنی بھوک کی آگ ٹھنڈی کر لیا کرتے۔

    ایک بار مرغا چکی کے اندر چلا گیا اور گیہوں کے دانے چگنے لگا۔ "در! در! مردود!” کہہ کر مالک اس کو بھگانے لگا اور ایک لکڑی اٹھا کر اس پر پھینکی۔ وہ لکڑی مرغ کے اس زور سے لگی کہ بیچارہ قلابازیاں کھا گیا اور درد سے "ککڑوں کوں” کر کے کراہ اٹھا۔ وہ بھاگ کر آنگن میں نکل گیا اور آنگن کی دیوار پھاند کر ایک طرف کو چل دیا۔ وہ چلا جا رہا تھا کہ راستے میں گدھا مل گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا پھر گدھے نے مرغ سے پوچھا:

    "بھائی مرغ! تم کہاں جا رہے ہو؟”

    مرغا بولا: "میں سوسن بیل جا رہا ہوں۔”

    گدھے نے پوچھا: "وہ کیسی جگہ ہے؟”

    مرغا بولا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا۔”

    گدھا کہنے لگا: "تب تو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو گے؟”

    مرغا بولا: "ہاں، ضرور لے چلوں گا چلو چلتے ہیں۔”

    دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ چلتے چلتے وہ ایک میدان میں آگئے۔ آگے بڑھتے جارہے تھے کہ اچانک شہد کی ایک مکھی نے نہ جانے کہاں سے آ کر گدھے کی گردن میں ڈنک مار دیا۔

    "اری کمبخت!” گدھے نے طیش میں آ کر کہا۔ "تجھے آ کر مجھ ہی کو ڈنک مارنا تھا؟ مجھ میں کیا رکھا ہے تمھارے لیے، میری تو ساری چربی پگھل کے بہہ چکی ہے۔ رس نام کو نہیں ہے۔ میری گردن کوئی گردن نہیں، کوئی سوکھی لکڑی سمجھو۔ چاہے جتنے ڈنک مارو تم کو کچھ نہیں ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے ہماری ہی طرح تم بھی قسمت کی ماری ہو۔ اچھا تو آؤ، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

    شہد کی مکھی نے پوچھا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    گدھا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    شہد کی مکھی نے پوچھا:”یہ وہی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا؟”

    مرغا بولا: "ہاں۔”

    شہد کی مکھی بولی: "تب تو میں ضرور تم لوگوں کے ساتھ چلوں گی، لیکن میں اکیلی نہیں جاؤں گی ۔ میری بہت سی ساتھی مکھیاں ہیں، کیا میں ان کو بھی بلا لاؤں؟”

    گدھا بولا: "ہاں، شوق سے بلا لو سب کو۔” کچھ ہی دیر کے بعد مرغے اور گدھے کو کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شہد کی مکھیوں کا ایک برا سا غول اڑتا چلا آ رہا ہے۔

    ان سب کو سوسن بیل کی طرف جانے دیجیے اور آئیے اب ذرا کچھ دوسروں کا حال سنیے۔

    ایک جگہ میدان میں صحرائی خرگوش کا جوڑا رہتا تھا۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ روز میاں بیوی دونوں غذا کی تلاش میں دور دور تک چلے جاتے، زمین کو جگہ جگہ کھودتے، لیکن کچھ نہ ملتا تھا۔ دونوں بہت تھک گئے اور فاقوں سے تنگ آ گئے۔ بالآخر ایک دن خرگوش نے خرگوشنی سے کہا:

    "آؤ آج دوسرے راستے پر چلیں۔ شاید ہماری قسمت جاگ اٹھے اور کوئی راہ گیر نظر آ جائے تو ہم اس سے کچھ کھانے کو مانگ لیں۔”

    وہ دوسرے راستے پر نکل گئے۔ اچانک انھوں نے گدھے اور مرغے کو آتے دیکھا جن کے اوپر شہد کی مکھیوں کا ایک غول بادل کی طرح اڑتا چلا آ رہا تھا۔ وہ نزدیک آئے تو میاں بیوی نے ان سے کہا:

    "بھائیو! ہم نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ از راہِ کرم ہم کو کچھ کھانے کو دے دو۔”

    "ارے دوستو!” مرغے نے رک کر ان سے کہا۔ "تم بھی ہماری ہی طرح بھوکے ہو؟ تم بھی ہماری طرح پیٹ پالنے کی فکر میں مارے مارے پھرتے ہو؟ کھانا چاہتے ہو تو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

    خرگوش بولا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    مرغا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    خرگوش نے پوچھا: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

    مرغا کہنے لگا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کسی کا کسی سے کوئی سروکار نہیں۔”

    خرگوش بولا: تب تو ہم بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتے ہیں۔” وہ سب ایک ساتھ چلنے لگے۔

    تھوڑی دور گئے تھے کہ اچانک کسی کے پکارنے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر کوئی اسی طرف دوڑتا ہوا نظر آیا۔ تھوڑی دیر میں وہ قریب آ گیا تو گدھا اس کو پہچان گیا۔ یہ اس کا ساتھی بیل تھا۔ بیل نے نزدیک آکر سب کو جھک کر سلام کیا اور پوچھا:

    "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    جانور: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    بیل: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

    جانور: ” وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا۔”

    بیل: یہ بات ہے تو تم لوگ مجھ کو ساتھ لے چلو۔”

    بیل کو لے کر سب آگے چلے۔ چلتے چلتے گدھے نے بیل سے پوچھا: "جناب! آپ کو کیا ہوا؟ جس وقت ہم دونوں جدا ہوئے اس وقت تو آپ بڑے مزے میں تھے؟”

    "ارے بھائی! کچھ نہ پوچھو۔” بیل نے کہنا شروع کیا۔ "تم چلے گئے تو مالک نے مجھے لے جا کر ایک سانڈ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ ہم لڑنے لگے۔ میں نے اس کے چھکے چھڑا دیے اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد مالک نے مجھ کو ایک اور سانڈ سے لڑایا۔ میں نے اس کو بھی ہرا دیا، لیکن بڑی مشکل سے۔ اس کے بعد میں سوچنے لگا کہ اب میری خیر نہیں۔ یہ مجھ کو سانڈوں سے لڑاتا رہے گا اور کسی نہ کسی دن ان میں سے کوئی میری جان لے کر چھوڑے گا۔

    ایک رات میں پڑا سو رہا تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑے سانڈ نے میرے پاس آ کر بڑے رعب سے کہا: "آہ! ہاتھ آ گئے! اب میں تمھیں سبق سکھاتا ہوں! یہ کہہ کر وہ مجھ پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ میں نے ذرا سا پیچھے ہٹ کر اس کے وار سے پہلے ہی اس کو زور سے سینگ مارا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ میرا مالک میرے سامنے زمین ہر اوندھے منھ بےہوش پڑا ہے۔

    معلوم ہوا کہ مالک مجھ کو چارا دینے آیا تھا اور میں سوتے میں اس کو سینگ مار بیٹھا۔ وہ ہوش میں آیا تو اٹھا اور ڈنڈا لے کر مجھے دنادن مارنے لگا۔ مار مار کر مجھ کو لہولہان کر دیا۔ مجھے اتنا دکھ ہوا کہ جب مالک مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا تو میں کسی طرح اپنی رسی تڑا کر باہر آیا اور جہاں سینگ سمائے چل دیا۔”

    سب جانور ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ان کے اوپر شہد کی مکھیاں بھی اڑتی رہیں۔ انہوں نے بہت لمبا راستہ طے کیا اور بالآخر سوسن بیل کے کنارے پہنچ گئے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ایک سر سبز و شاداب وادی ہے۔ صاف و شفاف ہوا ہے۔ ہری بھری گھاس کے میدان ہیں۔ باغیچوں میں خربوزے تربوز پک رہے ہیں۔ بیلوں میں انگور کے گچھے لٹک رہے ہیں۔ درختوں پر خوبانیاں، سیب ، ناشپاتیاں اور انواع و اقسام کے دیگر پھل پک گئے ہیں اور ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ کھیتوں میں گیہوں، جو وغیرہ کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ ہر چیز کی فراوانی ہے۔

    یہ سب سوسن بیل میں رہنے لگے۔ یہاں ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے والا، مارنے پیٹنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ سب اپنی خوشی سے محنت کرتے، جو چاہتے کھاتے اور جتنا چاہتے کھیلتے کودتے، آرام اور تفریح کرتے۔ بیل اور مرغا گیہوں جمع کرتے جاتے اور مکھیاں پھولوں کا رس جمع کر کے شہد بناتیں۔ سب بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اور یہ بھول چکے تھے کہ فکر و پریشانی کس چڑیا کا نام ہے۔

    سوسن بیل کے گرد و نواح میں برف سے ڈھکے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ تھے اور ان پہاڑوں پر بہت سارے بھیڑیے رہتے تھے۔ ایک دن بھیڑیوں کے سردار ایک اونچے پہاڑ پر اپنے بادشاہ کے گرد جمع ہوئے اور وہاں بیٹھے آپس میں رونا رونے لگے کہ کیسے برا زمانہ آ گیا ہے، پہاڑوں پر جنگلی بکریوں کا نام و نشان تک نہیں رہا ۔آئے دن فاقے کرنے پڑتے ہیں، پریشان رہتے ہیں۔ اتنے میں اچانک ان کے بادشاہ نے نیچے سوسن بیل کی وادی میں بیل، گدھے اور مرغ وغیرہ کو گیہوں کی فصل کاٹتے ہوئے دیکھ لیا۔ خوشی سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے اپنے سرداروں سے مخاطب ہو کر کہا:

    "وہ دیکھو نیچے وادی میں کباب پھر رہا ہے۔”

    سب بھیڑیے ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے دانت کِٹکٹاتے ہوئے نیچے وادی کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے منھ سے رال ٹپکنے لگی۔ ان کے بادشاہ نے حکم دیا:

    "دس بہادر ابھی چلے جائیں اور اس چلتے پھرتے کباب کو اٹھا لائیں۔” ایک بھیڑیا جو بڑا شیخی خور تھا آگے بڑھا اور اپنی دم ہلاتے ہوئے بولا:

    "شاہِ اعظم! بیل، گدھے اور مرغ کو پکڑ لانے کے لیے دس بھیڑیوں کے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اجازت ہو تو میں اکیلا جا کر ان کو آپ کے حضور میں ہانک لاؤں؟”

    "ارے تم کیا کر لو گے؟” ایک دوسرا بھیڑیا کہنے لگا۔ "تمھاری جگہ میں جاؤں تو زیادہ اچھا رہے گا۔” بس پھر کیا تھا یہ دونوں آپس میں لڑ پڑے۔

    "بند کرو لڑائی!” بادشاہ غصے میں آ کر غرایا۔ "جاؤ! تم دونوں ہی چلے جاؤ۔ باقی بھیڑیے کباب پکانے کے لیے سیخیں تیار کر لیں اور آگ جلا دیں۔”

    دونوں بھیڑیے خوشی کے نعرے بلند کرتے ہوئے وادی کی طرف دوڑ پڑے۔ گدھے نے ان کو آتے دیکھ لیا اور ہانک مار کر اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا۔”

    "ایں آں، ایں آں! بھیڑیے آ رہے ہیں۔ بھاگو!” یہ کہہ کر گدھا بھاگنے ہی کو تھا کہ مرغا کہہ اٹھا۔”

    "ککڑوں کوں! رک جاؤ بزدل کہیں کے، کیا تمہیں اپنی مضبوط ٹانگوں پر بھروسا نہیں؟” یہ کہتے ہوئے وہ اچھل کر گدھے کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور اس کو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔

    "ارے اب کیا کیا جائے؟ بھیڑیے بہت سے ہیں اور ان کے دانت لوہے کے ہیں۔” گدھے نے گھبرا کر کہا۔

    "میری بات سنو!” مرغے نے کہا۔ "بیل کے سینگ بڑے مضبوط ہیں۔ وہ بھیڑیوں کو ان سے مارے گا۔ تمھارے سم مضبوط ہیں۔ تم ان کو دو لتیاں مارنا۔ شہد کی مکھیاں تیز تیز ڈنک ماریں گی۔ خرگوش جگہ جگہ گڑھے کھودیں گے تاکہ بھیڑیے ٹھوکریں کھائیں۔”

    "اور تم خود کیا کرو گے؟ بس چیختے چلاّتے رہو گے؟” گدھے نے ڈر کے مارے تھر تھر کانپتے ہوئے طنز سے کہا:

    "اور میں تم لوگوں کی راہ نمائی کروں گا۔ تمھیں ہدایت دیا کروں گا۔” مرغ نے جواب دیا۔

    اتنے میں بھیڑیے نزدیک آ گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: "تم اس گدھے کو پکڑو اور میں اس بیل کو پکڑوں گا۔”

    اور وہ دونوں بھیڑیے اپنے اپنے شکار کی طرف لپکے۔ بیل تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور دوڑتے ہوئے آ کر بھیڑیے کے جو سینگ مارا تو بھیڑیا قلابازیاں کھا کر پرے جا گرا۔ ادھر شہد کی مکھیاں آندھی کی طرح امڈ آئیں اور بھیڑیوں کو ڈنک مارنے لگیں۔ بھیڑیوں کی ناکیں، آنکھیں، زبانیں، مختصر یہ کہ ان کے بدن کا کوئی بھی حصہ مکھیوں کے ڈنکوں سے نہ بچا۔ آخر بھیڑیوں نے دیکھا کہ ان کی خیر نہیں تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ بھاگتے ہوئے کتنی بار خرگوشوں کے کھودے ہوئے گڑھوں میں گر گئے اور ان کی ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔

    ادھر پہاڑ کے اوپر بھیڑیے اس امید میں کہ ان کے ساتھی ابھی جانوروں کو ہانک لائیں گے، کباب کھانے کی تیاریاں کر کے بیٹھے تھے۔ انھوں نے بہت سی سیخیں بنا لی تھیں۔ الاؤ جلا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ پیاز کو باریک باریک کاٹ کے اس پر نمک مرچ چھڑک دیا تھا۔ اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے بہادر ساتھی ہانپتے کانپتے بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے سارے بدن خون میں لت پت ہیں اور سانس پھول رہی ہے۔

    "کیا بات ہے؟” بادشاہ نے اپنے بہادروں سے پوچھا۔

    "شاہِ اعظم!” وہ دونوں ہانپتے کانپتے کہنے لگے۔ ” وہاں کباب نہیں پھر رہا تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا۔ وہاں تو بھیڑیوں کی موت ناچتی پھر رہی تھی۔”

    اور انھوں نے نیچے وادی میں جو کچھ دیکھا اور جھیلا وہ سب اپنے بادشاہ کو بتا دیا۔ دونوں بہادروں میں سے ایک نے کہا:

    "وہاں نیچے خود موت کا فرشتہ گھومتا پھرتا ہے۔ اس نے ہاتھوں میں لوہے کا ایک بڑا بھاری ڈنڈا پکڑ رکھا ہے اور جس کو بھی اس ڈنڈے سے مارتا ہے وہ سات قلابازیاں کھا کر زمین پر گرتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے۔”

    "ارے معلوم ہوتا ہے تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔” دوسرے بہادر نے کہا۔ "ان کے ساتھ ایک پہلوان ہے جس کی آواز بالکل بگل کی طرح ہے اور ہاتھ لوہے کے ہیں۔ وہ جس کے مکا مار دیتا ہے وہ سات قلابازیاں کھائے بغیر سنبھل نہیں پاتا۔”

    "ارے معلوم ہوتا ہے تم نے ان جیالے سپاہیوں کو نہیں دیکھا جو اپنی تیز نوک دار برچھیاں بدن میں یوں گاڑتے ہیں کہ خارش اور درد سے تڑپتے رہ جاؤ۔”

    "وہ تو اپنے گورکن بھی ساتھ لائے ہیں۔ ان گورکنوں نے ہمارے لیے دس دس قبریں کھود ڈالی تھیں۔ ہم ان میں گر گر جاتے تھے۔ ہماری ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔”

    "ان کے ساتھ ایک بگل بجانے والا بھی تھا۔ وہ ایک درخت پر چڑھا بیٹھا تھا اور اس زور سے بگل بجا رہا تھا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹتے پھٹتے رہ گئے۔” یہ ساری باتیں سن کر بھیڑیے خوف سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ان کا بادشاہ بھی گھبرا گیا۔

    "اب ہم کیا کریں؟” بادشاہ نے اپنے سرداروں سے پوچھا۔ "کیوں نہ ہم سب ان پر ہلہ بول دیں!”

    "شاہ اعظم! ایسا کرنا مناسب نہیں۔” بھیڑیے تھر تھر کانپتے ہوئے کہنے لگے۔ "معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی بلائے ناگہانی ہیں کہ دنیا بھر کے بھیڑیے بھی جمع ہو جائیں تو وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”

    "اب تو خیر اسی میں ہے کہ ہم جلد ہی یہاں سے کھسک جائیں۔” بھیڑیوں کے بادشاہ نے کہا۔ باقی سب بھیڑیے بھی کباب پکانے اور کھانے کے تمام سازو سامان کو چھوڑ چھاڑ کے اپنے بادشاہ کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    سوسن بیل میں بھیڑیوں کا نام و نشان نہ رہا۔ ہمارے سب جانور پھر بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    (اس خوب صورت کہانی کے مصنّف کا نام اور اس کا ماخذ نامعلوم ہے)

  • طرح دار خان

    طرح دار خان

    نام تو اُن کا کچھ اور تھا، لیکن ہم انہیں میاں طرح دار کہتے تھے۔ بے تکلّفی زیادہ بڑھی تو صرف طرح دار کہنے لگے۔

    شروع میں تو وہ بہت بھنّائے لیکن بعد میں خود بھی اس نام سے مانوس ہو گئے۔ اسکول میں، ہوسٹل میں، بازار میں، دوستوں کی محفل میں، غرض کہ ہر جگہ وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔

    سردیوں کے دن تھے۔ ہم چار پانچ ہم جولی ہاسٹل کے لان میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے کہ اچانک گیٹ کھلا۔ ایک حضرت دو قلیوں کے ہمراہ داخل ہوئے۔ بکس، بستر، کتابیں اور بہت سارا الّم غلّم دو قلیوں کے سر پر دھرا تھا۔ قلیوں نے سامان برآمدے میں ڈالا، اور صاحبزادے کو سلام کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ میاں طرح دار تھے۔

    میاں صاحب ذرا نکلتے ہوئے قد کے دھان پان سے آدمی تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لمبی ناک اور بڑے بڑے کان، ان کے لمبوترے چہرے پر کچھ عجیب سے لگتے۔ خیر شکل صورت سے کیا ہوتا ہے، لیکن میاں طرح دار کی جو ادا ہمیں پسند آئی، وہ اُن کی طرح داری تھی۔ خاندانی رئیس ہونے کے سبب سے، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی پائی تھی اور آٹھویں جماعت میں داخل ہو کر پہلی بار شہر تشریف لائے تھے۔

    میاں طرح دار کو اپنے قد کاٹھ پر بڑا ناز تھا۔ اپنی خاندانی بڑائی اور ریاست پر بڑا ناز تھا۔ بہادری کا ذکر ہوتا تو میاں طرح دار فوراً اپنا تذکرہ لے کر بیٹھ جاتے۔ دولت کی بات ہوتی تو اپنی جاگیر کا طول و عرض ناپنے لگتے۔ ذہانت اور چالاکی میں تو اُن کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ لڑکے میاں صاحب کی باتوں سے انکار کو گناہ سمجھتے اور ان کے ہر دعوے پر اس طرح سر ہلاتے جیسے سَر ہلانے میں دیر کی تو آسمان پھٹ پڑے گا۔ اور میاں طرح دار ایسے بھولے کہ ہم جولیوں کی ان باتوں کو بالکل سچ جانتے تھے۔

    چار لڑکے برآمدے میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں اور آگ سینک رہے ہیں۔ کسی نے کہا۔ ’’یارو! سخت سردی ہے۔‘‘ اور میاں طرح دار نے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فقرہ سن کر اچکن اتار دی۔ لڑکوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکیم تیّار کر لی اور میاں صاحب کو گھیر کر بٹھا دیا۔ اب میاں طرح دار ہیں کہ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں، لیکن بہادری کے مارے نہ اچکن پہنتے ہیں نہ انگیٹھی کے قریب آتے ہیں۔ بدن میں کپکپی ہے اور زبان میں لکنت، ہونٹوں پر نیلاہٹ اور آنکھوں میں آنسو لیکن میاں صاحب اس حالت میں بھی اپنے کارنامے سنائے جا رہے ہیں۔ ’’یہ کیا سردی ہے۔ سردی تو ہمارے گاؤں میں پڑتی ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوتا ہے۔ برف پڑ رہی ہے۔ آنگن میں برف، دیواروں پر برف، میدانوں اور کھیتوں میں برف، پانی میں برف کھانے میں برف، بستر میں اور بستر کے تکیے میں برف۔ لیٹے لیٹے، تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا، ایک مُٹھّی برف لی اور مزے سے چر چر چبا رہے ہیں۔‘‘

    ہوسٹل کے شریر لڑکے یہ حکایتیں سنتے اور ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں بے حال ہو جاتے۔ اور جوں ہی میاں طرح دار رخصت ہوتے لڑکے ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جاتے بلکہ زخمی پرندے کی طرح برآمدے کے ننگے فرش پر دیر تک تڑپتے رہتے۔

    میاں طرح دار عام لڑکوں سے بالکل الگ تھے۔ کپڑے بڑے ٹھاٹ کے پہنتے۔ کھانے کی اچھی اچھی چیزیں گھر سے منگواتے اور پیسے تو بگڑے ہوئے رئیسوں کی طرح مٹھی بھر بھر کے خرچ کرتے۔ یہی نہیں بلکہ میاں صاحب جب کپڑے پہن کر اصیل مرغ کی طرح اپنے کمرے سے اکڑتے ہوئے نکلتے تو ہم جولیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے اور جتا دیتے کہ خوش پوشی مجھ پر ختم ہے۔ تم لوگ بھلا کیا ہو۔

    لڑکے میاں طرح دار کے چھچھورے پن پر جی ہی جی میں کڑھتے، لیکن میاں صاحب کو بیوقوف بنا کر اور ان کی حرکتوں پر دل کھول کر ہنس لینے کے بعد انہیں معاف بھی کر دیتے تھے۔ ایک کہتا: ’’یار طرح دار! یہ اچکن کا کپڑا کہاں سے خریدا؟‘‘ بس اس سوال پر وہ پھول کر کُپّا ہو جاتے اور کہتے: ’’ولایت کے ایک کارخانے دار نے والد کو تحفے میں بھیجا تھا۔ یہی تین گز کپڑا تھا جو اس کارخانے میں تیّار ہوا پھر مشین ٹوٹ گئی اور کپڑا بُننا بند ہو گیا۔ لاہور کے عجائب گھر والے مہینوں پیچھے پڑے رہے کہ ہمیں دے دیجیے۔ عجائب گھر میں رکھیں گے، لیکن ہم نے انکار کر دیا۔‘‘

    ’’بہت اچھّا کیا۔‘‘ کوئی شریر لڑکا بیچ میں ٹپک پڑتا۔ ’’اور اب تو اسے عجائب گھر میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بھی وہیں رہنا پڑے گا۔‘‘

    لڑکے کھلکھلا کر ہنس دیتے اور میاں طرح دار کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھولپن سے کہتے: ’’اور نہیں تو کیا۔‘‘

    گرمیوں کا موسم آ گیا تھا۔ امتحانات قریب تھے۔ محفلیں سونی ہو گئیں۔ ہوسٹل کے کھلنڈرے لڑکوں نے بھی کتابیں جھاڑ پونچھ کر سامنے رکھ لیں اور پڑھائی میں جُٹ گئے۔ البتّہ شام کو تھوڑی دیر کے لیے کھیل کے میدان میں رونق نظر آتی اور چاندنی راتوں میں تو اکثر رات گئے گھومنے پھرنے کا پروگرام بن جاتا۔

    میاں طرح دار لکھنے پڑھنے کے کچھ ایسے شوقین نہ تھے۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا پھر کتابوں میں کیوں سر کھپاتے۔ اس لیے ان دنوں بیچارے بہت اُداس رہنے لگے تھے۔ لڑکے تو پڑھائی میں مصروف تھے، آخر وہ کہاں جاتے۔ کِس کے پاس بیٹھتے اور بڑائی کے قصّے کسے سُناتے؟ ایک شام کا قصّہ ہے شریر لڑکوں کی ٹولی ہوسٹل کے لان میں بیٹھی تھی۔ میاں طرح دار ٹہلتے ٹہلتے اُن کے درمیان جا پہنچے۔ کوئی لڑکا اپنے گاؤں کے ڈاکوؤں کا قصّہ سُنا رہا تھا۔ طرح دار کو خود پر قابو کہاں۔ جھٹ اپنی بہادری کے قصّے لے بیٹھے۔۔۔ ’’یوں گھوڑی پر سوار ہو کر نکلا۔ یوں دریا پار کیا۔ درخت پر چڑھ کر چھلانگ لگائی۔ ڈاکوؤں کو مار بھگایا۔‘‘ اور اسی طرح کی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔

    لڑکے سخت بے مزہ ہوئے۔ آخر ان میں سے ایک بولا: ’’یارو! چودھری کے باغ میں آم پکے ہیں اور ہم یہاں آموں کو ترس رہے ہیں۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ کیا کوئی ایسا جواں مرد نہیں جو چودھری کے باغ سے آم توڑ کر لائے؟‘‘

    میاں طرح دار نے سینے پر ہاتھ مارا اور اکڑ کر بولے: ’’میں حاضر ہوں۔ چلو میرے ساتھ۔‘‘

    لو صاحب! ایک پَل میں ساری اسکیم تیّار ہو گئی۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ ہر طرف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ چاند کبھی بادلوں میں چھپ جاتا تو گھپ اندھیرے کا عالم ہو جاتا۔ ہوسٹل کا گیٹ کب کا بند ہو چکا تھا۔ چوکی دار دیوار کے قریب چار پائی پر لیٹا میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔ البتّہ چوکی دار کا کتّا کبھی کبھی سوتے سے چونک کر اُٹھتا اور چاند کی طرف منہ کر کے سائرن کی آواز میں ’’بھو اُو و و و‘‘ کرنے کے بعد بھر اونگھنے لگتا۔

    لڑکوں کی ٹولی دیوار پھلانگ کر ہوسٹل سے باہر نکلی اور آموں کے باغ کی طرف، جو مشکل سے ایک فرلانگ تھا، روانہ ہوئی۔ میاں طرح دار سب سے آگے تھے۔ البتّہ جب چاند بدلیوں میں چھُپ جاتا اور کہیں قریب سے کتّوں کے بھونکنے کی آواز آتی تو میاں صاحب دبک کر پیچھے ہو جاتے اور خوف سے کانپ اُٹھتے۔ اسی طرح یہ لوگ باغ کے اندر جا پہنچے۔

    چاندنی آم کے گھنے باغ میں یوں پھیلی ہوئی تھی جیسے کسی نے شیشے کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھیر دیے ہوں۔ باغ کا چوکی دار اپنی جھونپڑی میں پڑا سو رہا ہو گا۔ لڑکوں نے سرگوشی میں مشورے کیے اور میاں طرح دار نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پاجامے کے پائنچے اوپر کر کے درخت پر چڑھنے لگے۔ لیکن دھان پان سے آدمی درخت پر چڑھنے کی سکت کہاں سے لاتے۔ ذرا سی دیر میں ہانپنے لگے۔ لڑکوں نے جو یہ حال دیکھا تو میاں صاحب کی مدد کو پہنچے اور انہیں کاندھے پر سوار کر کے درخت پر چڑھا ہی دیا۔

    میاں طرح دار دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتی ہوئی ٹانگوں سے ابھی ذرا ہی اُوپر گئے ہوں گے کہ چوکی دار کے کتّے نے آہٹ پا کر بھونکنا شروع کر دیا۔ لڑکوں کے اوسان خطا ہو گئے اور میاں طرح دار کی تو یہ حالت ہوئی جیسے بدن میں جان ہی نہیں رہی تھی۔ ایک لڑکے نے آہستہ سے کہا ’’طرح دار! جلدی نیچے اُتر آؤ۔۔۔ فوراً کود پڑو۔ ہم تمہیں سنبھال لیں گے لیکن میاں صاحب میں تو ہلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔ لڑکوں نے جو دیکھا کہ میاں طرح دار کے ہاتھوں سبھی پکڑے جائیں گے تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ چوکی دار کے کتّے نے کچھ دور اُن کا پیچھا کیا اور پھر دُم ہلاتا ہوا واپس آ گیا۔

    اُدھر میاں طرح دار درخت کی ٹہنی پر بیٹھے، خوف کے مارے اپنی موت کی دعا مانگ رہے تھے۔ ان کا سارا بدن پسینے میں شرابور تھا اور ہاتھ پاؤں یوں کانپ رہے تھے جیسے آندھی میں درختوں کی ٹہنیاں ہلتی ہیں۔ کتّے کو چور کے بدن کی خوشبو مل گئی تھی، وہ اُسی درخت کے نیچے جس پر میاں طرح دار کا آشیانہ تھا، کھڑا دُم ہلا ہلا کر بھونک رہا تھا۔ چوکی دار ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں لاٹھی لے کر آنکھیں جھپکتا ہُوا آیا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلا گیا۔

    وہ رات میاں طرح دار نے درخت پر گزاری۔ کتّا کتنی ہی بار بھونکتا ہوا آیا اور واپس چلا گیا اور چوکیدار کتنی ہی دفعہ چور کی تلاش میں لاٹھی گھماتا ہوا پاس سے نکل گیا۔ میاں طرح دار نے ایک دو بار کوشش کی کہ چوکی دار کو مدد کے لیے پکاریں، لیکن منہ سے آواز ہی نہ نکلی۔

    پچھلی رات کو چوکی دار پھر اِدھر سے گزرا تو اچانک چاندنی میں اُس کی نظر میاں طرح دار پر پڑ گئی۔ قریب تھا کہ میاں صاحب بے ہوش ہو کر گِر پڑتے لیکن چوکی دار نے جب ڈپٹ کر کہا، ’’نیچے اُترو‘‘ تو وہ درخت کی ٹہنی سے کچھ اور چمٹ گئے اور رو کر بولے: ’’مجھے نیچے اترنا نہیں آتا۔‘‘

    چوکی دار سمجھ گیا کہ چور قابو میں آ گیا ہے اور کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتا۔ وہ چپ چاپ واپس ہوا اور لمبی تان کر سو رہا، صبح جب اُس نے میاں طرح دار کو کاندھا دے کر درخت سے نیچے اتارا تو وہ خوف اور رتجگے کے سبب بخار میں بھن رہے تھے۔ وہ کوئی بھلا آدمی تھا۔ میاں صاحب کو کاندھے پر لاد کر ہوسٹل میں ڈال گیا۔ آخر علاج معالجے کے بعد میاں صاحب کی طبیعت بحال ہوئی اور دوستوں نے ان کی صحت کی خوشی میں دعوت بھی اُڑائی لیکن میاں طرح دار نے اس واقعے کے بعد سے اپنی فرضی بہادری کے سارے کارنامے بھلا دیے تھے۔

    (ادبِ اطفال سے مصنّف حسن عابدی کی منتخب کہانی)

  • کچھوا اور مینڈک

    کچھوا اور مینڈک

    ایک تھا کچھوا۔ اکثر سمندر سے نکل کر ریت پر بیٹھ جاتا اور سوچنے لگتا دنیا بھر کی باتیں۔

    سمندر کے تمام کچھوے اسے اپنا گرو مانتے تھے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ اچھے اور مناسب مشورے دیا کرتا تھا۔ مثلاً ریت پر انڈے دینے کے لیے کون سی جگہ مناسب ہو گی، عموماً دشمن انڈوں کو توڑ دیا کرتے تھے اس لیے اس بزرگ کچھوے کی رائے لینا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ گرو نے انڈے دینے کے لیے جو جگہ بتائی وہاں کوئی دشمن کبھی نہیں پہنچ سکا۔ پھر گرو جی سمندر کی لہروں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ سمندری طوفان کب آئے گا، سمندر کی لہریں کتنی تیز ہو سکتی ہیں۔ تمام کچھوے اپنے بال بچّوں کو لے کر ساحل کے قریب کس مقام پر رہیں۔ طوفان کتنی دیر رہے گا، یہ سمجھو بچّو ذہین، دُور اندیش فلسفی قسم کا کچھوا تھا وہ۔

    ایک صبح سمندر سے نکل کر وہ کچھوا ریت پر بیٹھا سوچ رہا تھا، ہم تو سمندر اور ریت پر رہتے ہیں، پاس ہی جو بستی ہے وہاں لوگ کس طرح رہتے ہوں گے۔سوچتے سوچتے اس کی خواہش ہوئی کہ وہ بستی کی طرف جائے اور اپنی آنکھوں سے وہاں کا حال دیکھے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ کچھوے کی چال کیسی ہوتی ہے، بہت ہی آہستہ آہستہ چلتا ہے نا وہ۔ اپنی خاص چال سے آہستہ آہستہ چلا اور پہنچ گیا بستی میں۔

    بستی میں پہنچتے ہی اُسے ایک آواز سنائی دی، ’’چھپ چھپ’’ پھر یہ آواز بند ہو گئی، تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز سنائی دی ’’چھپ چھپ’’ پھر یہ آواز رُک گئی، کچھوے کو یقین آگیا کہ یہ پانی کی آواز ہے، کہیں قریب ہی پانی میں کوئی چیز اُچھل رہی ہے۔ پھر آواز آئی ’’چھپ چھپ’’ کچھوے کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ پانی کی آواز بہت پاس سے آ رہی ہے اور اس میں کوئی جانور اُچھل رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی خاص چال سے اُس جانب چلا کہ جہاں سے آواز آ رہی تھی اور پہنچ گیا ایک کنویں کے پاس۔ اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں پانی نظر آیا۔ پانی میں آواز ایک مینڈک کی اُچھل کود سے ہو رہی تھی۔ مینڈک پھر اُچھلا اور آواز آئی ’’چھپ چھپ‘‘ کچھوے نے پوچھا، ’’بھائی مینڈک بڑے خوش نظر آ رہے ہو بات کیا ہے، خوب اچھل رہے ہو کنویں کے پانی میں؟‘‘

    مینڈک نے جواب دیا ’’میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں اور کنویں کے پانی میں اسی طرح اُچھلتا رہتا ہوں۔‘‘کچھوے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’کنواں گہرا تو ہے لیکن تم اندر نہیں جا سکتے۔‘‘

    بھلا میں اندر کیوں جاؤں، گہرائی میں تو میرا دَم گھٹ جائے گا۔‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔’’

    تم صرف اس کی سطح ہی پر اُچھل کود کر سکتے ہو۔ ‘‘کچھوے نے کہا۔’’

    ’’ہاں اس پانی میں مجھے اسی طرح چھپاک چھپاک کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔’’

    ’’اور پانی تو اینٹوں کی دیواروں سے گھِرا ہوا ہے، تم اینٹوں کے درمیان بند ہو۔‘‘

    ’’کمال کرتے ہو بھائی اگر کنویں کے گرد دیوار نہ ہو تو پانی بہہ جائے گا اور میں بھی بہہ جاؤں گا پھر کنواں کہاں رہے گا۔‘‘ مینڈک نے کہا۔

    وہی تو میں سوچ رہا ہوں۔ ’’فلسفی کچھوے نے کچھ کہنا چاہا لیکن خاموش رہا۔’’

    ’’کیا سوچ رہے ہو بھائی، اس کنویں میں تم سما نہیں سکتے یہی سوچ رہے ہو نا۔ میری قسمت پر رشک آ رہا ہے تمھیں۔‘‘ مینڈک نے طنزیہ انداز میں کہا۔

    ’’نہیں مینڈک جی، میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تم کنویں کے مینڈک ہو اور ہمیشہ کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے، تم نے سمندر نہیں دیکھا، سمندر دیکھو گے نا تو علم ہو گا کہ پانی کیا ہوتا ہے۔‘‘ کچھوے نے اپنی بات سمجھائی۔

    ’’سمندر کیا ہوتا ہے؟’’ مینڈک نے پوچھا۔

    ’’سمندر پانی کا ایک بہت بڑا، بہت ہی بڑا اور بہت ہی بڑا کنواں ہوتا ہے جو دیواروں کے درمیان نہیں ہوتا، اس کے گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی اینٹوں پتھروں کی کوئی دیوار نہیں ہوتی، جہاں تک دیکھو گے نا پانی ہی پانی نظر آئے گا۔ سمندر نے ساری دنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ہم سمندر ہی میں رہتے ہیں۔ تم وہاں نہیں رہ سکتے۔‘‘

    ’’کیوں نہیں رہ سکتے بھلا؟‘‘ مینڈک نے دریافت کیا۔

    ’’اس لیے کہ تم اس کے بہاؤ میں بہہ جاؤ گے اور تمھاری خبر تاقیامت کسی کو نہیں ملے گی۔ ہاں ایک بات ہو سکتی ہے۔‘‘

    فلسفی کچھوے نے سوچتے ہوئے کہا۔

    ’’کیا؟ کون سی بات؟‘‘ مینڈک نے پوچھا۔

    ’’یہ ہو سکتا ہے کہ تم کنویں سے نکل کر میرے ساتھ سمندر کی طرف چلو، دیکھو سمندر کیا ہے، اس کی لہریں کیسی ہیں، ہم کچھوے وہاں کس طرح رہتے ہیں۔‘‘

    نہیں بھائی، میں تو اسی کنویں میں خوش ہوں۔ میں نہیں جاتا سمندر ومندر دیکھنے، تم ہی کو مبارک ہو سمندر۔‘‘’’

    ’’تو تم زندگی پھر کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے؟‘‘ کچھوے نے غیرت دِلائی۔

    یہی میری تقدیر ہے تو میں کیا کروں؟‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔ اس کے لہجے میں اُداسی تھی۔ ’’

    ’’دیکھو تقدیر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہم اپنی تقدیر خود بناتے ہیں، تم چاہو تو خود اپنی تقدیر بنا سکتے ہو۔‘‘ کچھوے نے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’بھلا کس طرح؟ تم تو کہتے ہو کہ میں سمندر میں جاؤں گا تو پانی میں بہہ جاؤں گا، میرا اَتا پتا بھی نہ ہو گا۔‘‘

    ’’یہ تو سچی بات ہے لیکن تم سمندر کے اندر نہیں، اس کے پاس رہ سکتے ہو جس طرح دوسرے سیکڑوں ہزاروں مینڈک رہتے ہیں۔ وہاں بڑے بڑے مینڈک بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بھی تمھاری طرح، سمندر کے کنارے کئی مقامات پر پانی جمع رہتا ہے کہ جس میں مینڈک رہتے ہیں، وہاں رہ کر سمندر کا نظّارہ بھی کرتے ہیں۔ نکلتے ہوئے خوب صورت سورج کو بھی دیکھتے ہیں، ڈوبتے ہوئے پیارے سورج کا منظر بھی دیکھتے ہیں۔ سورج کی خوب صورت روشنی کو لہروں پر دیکھ کر اُچھلتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں، تم سے زیادہ چھپاک چھپاک چھپ چھپ کرتے ہیں، اُن کے بال بچّے ہیں جو کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ رات میں چاندنی کا مزہ لوٹتے ہیں، اُنھیں ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں ملتی ہیں، وہاں ان کی غذا کا بھی انتظام ہے، تمھیں اس کنویں میں کیا ملتا ہے، باہر نکل کر تو دیکھو دنیا کتنی خوب صورت اور کتنی پیاری ہے، ہواؤں میں درخت کس طرح جھومتے ہیں، سمندر کی لہریں کس طرح اُٹھتی ہیں، کیسی کیسی خوب صورت مچھلیاں ساحل تک آتی ہیں۔ تم تو کنویں کے اندر بند ہو دنیا سے الگ، میرے ساتھ چل کر دیکھ لو اگر سمندری علاقہ تمھیں پسند آئے تو وہیں رہ جانا اور پسند نہ آئے تو واپس آ جانا اور بن جانا کنویں کا مینڈک۔ میں تو تمھیں دنیا اور اس کی خوب صورتی دِکھانا چاہتا ہوں تم نے کنویں کے اندر رہ کر بھلا دیکھا کیا ہے کچھ بھی تو نہیں۔ بولو چلو گے میرے ساتھ سمندر کی طرف یا یہاں رہو گے کنویں کا مینڈک بن کر؟‘‘ کچھوے نے صاف جواب طلب کیا۔

    مینڈک سوچنے لگا یہ تو سچ ہے کہ میں نے دنیا کو نہیں دیکھا ہے، اسی کنویں میں جنم لیا اور اسی میں اُچھل کود کر رہا ہوں، دُنیا اور اس کی خوب صورتی کو دیکھ لینے میں مضائقہ کیا ہے۔

    ’’چلو تمھارے ساتھ چلتا ہوں جگہ پسند نہ آئی تو واپس آ جاؤں گا۔’’ مینڈک نے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے ایسا ہی کرنا لیکن مجھے یقین ہے کہ تمھیں سمندر کی آزاد فضا اور دنیا کی خوب صورتی بہت بھلی لگے گی اور تم وہاں سے واپس آنا پسند نہ کرو گے۔ کنویں کا مینڈک بن کر رہنے والے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ انھیں دنیا کب نظر آتی ہے۔‘‘

    مینڈک باہر آگیا اور دونوں سمندر کی جانب روانہ ہو گئے۔ سمندر کے ساحل پر پہنچتے ہی مینڈک کی باچھیں کھل گئیں۔ بھلا اس نے کب دیکھا تھا یہ ماحول، کب دیکھا تھا سمندر کی لہروں کو، اُبھرتے ہوئے سورج کو، مچھلیوں کے رنگوں کو اور کچھوؤں کی فوج کو اور مینڈکوں کے ہجوم کو۔ کنویں کا مینڈک خوش ہو گیا، پہلی بار اُسے ٹھنڈی ہوا نصیب ہوئی، پہلی بار اُس نے دیکھا دُنیا کتنی بڑی ہے، پہلی بار دیکھا کہ تمام کچھوے، تمام مچھلیاں اور تمام آبی جانور اور تمام چھوٹے بڑے مینڈک کتنے آزاد ہیں۔ سب خوشی سے ناچ رہے ہوں جیسے۔

    یہ سب دیکھ کر مینڈک نے کچھوے سے کہا ’’بھائی تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، کنویں کی زندگی سے باہر نکالا ہے۔ اب تو میں ہرگز ہرگز کنویں کے اندر نہیں جاؤں گا یہیں رہوں گا اپنے نئے دوستوں کے ساتھ۔ دنیا دیکھوں گا، دنیا کی خوب صورتی کا نظّارہ کروں گا، خوب کھاؤں گا، ناچوں گا، گیت گاؤں گا۔‘‘

    کنویں کے مینڈک کے اس فیصلے سے کچھوا بہت خوش ہوا۔ اس نے یہ خوش خبری سب کو سنائی، کچھوؤں کو، مینڈکوں کو، مچھلیوں کو، تمام آبی جانوروں اور آبی پرندوں کو، سب خوشی سے ناچنے لگے گانے لگے۔ کنویں کے مینڈک نے سوچا ’’اگر میں کنویں میں رہتا تو یہ جشن کب دیکھتا‘‘ اس نے ذرا فخر سے سوچا ’’بھلا ایسا استقبال کب کسی مینڈک کا ہوا ہو گا۔‘‘

    گرو کچھوے اور اس مینڈک میں گہری دوستی ہو گئی۔ نئی آزاد خوب صورت سی پیاری دنیا کو پا کر مینڈک بھول گیا کنویں کو۔

    (مصنّف: شکیل الرّحمٰن)

  • سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    صدیوں پہلے کی بات ہے ملک اطالیہ میں ایک دریا کے کنارے بسے گاﺅں میں ڈیوڈ اور سیموئیل نامی دو بھائی رہتے تھے جو طاقت ور اور خوبرو تھے، لیکن غریب تھے۔

    اکثر ان کے پاس سوائے اس مچھلی کے، کھانے کو کچھ بھی نہ ہوتا جسے وہ دریا سے پکڑ کر لاتے۔ ایک روز وہ بغیر کچھ کھائے طلوعِ آفتاب کے وقت سے ہی دریا میں‌ ڈور ڈالے بیٹھے تھے۔ دن گزرتا رہا اور یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا اور پھر دریا میں غروب ہونے کو آیا مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اپنی مچھلی پکڑنے کی ڈور سمیٹیں، گھر جائیں اور سو جائیں کہ بڑے بھائی نے محسوس کیا، اس کی ڈور ہل رہی ہے۔ اور جب انہوں نے اسے باہر کھینچا تو اس کے کانٹے پر ایک ننھی سی سنہری مچھلی اٹکی ہوئی تھی۔

    ”کیا بدبختی ہے۔ اتنی ننھی مُنی سی مچھلی!“ ڈیوڈ چلّایا، ”خیر کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے، میں اسے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ابالوں گا اور ہم رات کے کھانے میں اسے کھائیں گے۔“

    ”اوہ، نہیں مجھے مت مارو!“ مچھلی نے دہائی دی۔ ”میں تمہارے لیے خوش قسمت ثابت ہو سکتی ہوں، واقعی میں ایسا کر سکتی ہوں۔“

    ”تم احمق ہو!“ وہ چلّایا، ”میں نے تمہیں پکڑ لیا ہے، اور میں تمہیں کھاﺅں گا۔“
    لیکن اس کے بھائی سیموئیل کو مچھلی پر ترس آ گیا اور اس کی حمایت میں بولا؛
    ”اِس ننھی سی جان کو زندہ رہنے دو۔ یہ تو ایک لقمے کے برابر بھی نہیں۔ اور ہمیں کیا پتہ کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی ہو اور ہم اس کی لائی خوش قسمتی کو ٹھکرا رہے ہوں! اسے دریا میں چھوڑ دو۔ یہی مناسب ہے۔“

    مچھلی بولی، ”اگر تم مجھے زندہ رہنے دو گے تو کل صبح تمہیں دریا کے کنارے دو شان دار گھوڑے، جن پر عمدہ اور عروسی کاٹھیاں پڑی ہوں گی ملیں گے اور تم دو سورماﺅں کی طرح مہم جوئی کے لیے دنیا بھر میں جا سکو گے۔“

    ”پیارے بھائی، یہ سب بکواس ہے۔“ ڈیوڈ چھوٹے سے مخاطب ہوا۔ ” ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ مچھلی سچ بول رہی ہے اور اس کی بات پوری ہوگی۔“

    سیموئیل مچھلی کی حمایت میں پھر بولا؛ ”بھائی! اسے زندہ رہنے دو۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا تو ہم اسے کبھی نہ کبھی دوبارہ بھی پکڑ سکتے ہیں۔ اس کی کہی بات پر ایک بار اعتبار کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔“

    ان کے درمیان دیر تک بحث ہوتی رہی اور آخر کار ڈیوڈ مان گیا اور اس نے مچھلی کو دریا میں واپس ڈال دیا۔ اس رات وہ دونوں کچھ کھائے بغیر ہی سوئے اور رات بھر خوابوں میں انہیں یہی خیال آتا رہا کہ اگلا دن ان کے لیے کیا انہونی لے کر آرہا ہے۔

    وہ سورج کی پہلی کرن پھوٹتے ہی جاگ گئے۔ اور پھر اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ دریا کے کنارے پر موجود تھے۔ وہاں، جیسا کہ ننھی سنہری مچھلی نے کہا تھا، دو زبردست، توانا سفید گھوڑے کھڑے تھے جن پر سجیلی کاٹھیاں پڑی تھیں اور ان پر دو زرہ بکتر اور ان کے نیچے پہننے والے لباس بھی پڑے تھے۔ پاس ہی دو تلواریں، زادِ راہ کے طور پر کچھ چیزیں اور سونے کے سکّوں سے بھرے دو بٹوے بھی تھے۔ یہ سب واقعی ان کے لیے انہونی سے کم نہیں‌ تھا۔

    ”دیکھا بھائی۔“ سیموئیل نے کہا، ”کیا آپ اب شکر گزار نہیں ہیں کہ آپ نے مچھلی کو نہیں کھایا؟ وہ واقعی ہمارے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیا بننے والے ہیں۔ اب ہمیں اپنی اپنی مہم پر نکلنا چاہیے۔ اگر آپ ایک راستہ اختیار کریں گے تو میں دوسرے پر جاﺅں گا۔“

    ”ٹھیک ہے۔“ ڈیوڈ نے جواب دیا۔ ”لیکن ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ہم دونوں زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔“

    ”بھائی، کیا آپ سامنے انجیر کا درخت دیکھ رہے ہیں؟“ اس نے کہا، ”ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ ہم اس درخت کے پاس آئیں اور اس کے تنے پر تلوار سے ایک گھاﺅ لگائیں۔ اگر اس سے دودھ رِسا تو ہم جان لیں گے کہ ہم ٹھیک ٹھاک ہیں اور خوش حال ہیں لیکن اگر اس میں سے خون نکلا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم میں سے ایک مر چکا یا اس کی جان سخت خطرے میں ہے۔“

    اس کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی زرہ بکتر پہنی، سونے کے سکّوں سے بھری چرمی تھیلیاں اور تلواریں کمر پر باندھیں، زادِ راہ لادا، ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور پھر گھوڑوں پر بیٹھ کر گاﺅں کے چوراہے تک تو ساتھ ساتھ گئے لیکن پھر ڈیوڈ دائیں طرف مڑ گیا اور سیموئیل نے بائیں کو منہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔

    ڈیوڈ گھوڑا دوڑاتا ایک اجنبی مملکت کی سرحد پر جا پہنچا۔ اس نے سرحد پار کی اور خود کو ایک بڑے دریا کے کنارے پایا۔ اس نے دیکھا کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک ننھے سے جزیرے پر ایک خوبصورت لڑکی ایک چٹان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔ ڈیوڈ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے ساری زمین ایسے جلی ہوئی دکھائی دی جیسے کسی نے اس پر آگ برسائی ہو؛ جلی ہوئی گھاس، ٹنڈ منڈ سوختہ درخت، یہاں تک کہ آگ کی حدّت اور تپش سے دریا کے کنارے پر موجود ریت بھی پگھلی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔

    اس نے لڑکی سے اونچی آواز میں پوچھا؛ ”تم کون ہو اور تمہیں یہاں کس نے باندھ کر رکھا ہوا ہے اور تم رو کیوں رہی ہو۔“

    لڑکی نے روتے ہوئے اسے بتایا؛ ”میں اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ اس دریا میں ایک سات سَروں والا اژدہا رہتا ہے جو اپنے ہر نتھنے سے آگ برساتا ہے۔ اسے اس سے باز رکھنے کے لیے میرے والد کو ہر روز کھانے کے لیے ایک جوان دوشیزہ کی بلی دینی پڑتی ہے۔ اس نے میرے باپ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اس ساری مملکت کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے اور اب اس ملک میں کوئی جوان لڑکی نہیں بچی، اس لیے میرے والد نے بے بس ہو کر مجھے ہی اس کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ میں اس لیے رو رہی ہوں کہ جیسے ہی اس اژدہے کو بھوک لگی، وہ آئے گا اور مجھے کھا جائے گا۔“

    ”میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ تمہیں نہ کھا پائے۔“ ڈیوڈ نے اسے دلاسا دیا۔

    ”نہیں، نہیں، یہاں مت رکو، ورنہ وہ تمہیں بھی ہڑپ کر جائے گا۔“ ، شہزادی تڑپ کر بولی۔

    ”نہیں لڑکی، میں یہیں رہوں گا۔“ ڈیوڈ بولا، ”اور تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا۔“

    ”یہ ممکن نہیں ہے۔ اسے آج تک کوئی نہیں مار سکا حالانکہ میرے والد نے یہ اعلان بھی کروایا تھا کہ جو کوئی بھی اسے مارے گا، اس سے میری شادی کر دی جائے گی۔ تم اس خوف ناک بلا کو نہیں جانتے۔ یہ پہلے بھی بہت سے خوبرو جوانوں کو جو میرے ساتھ شادی کے لالچ میں اسے مارنے آئے تھے ہلاک کر چکی ہے۔“

    ”لیکن میں تو تم سے شادی کے لالچ میں یہاں نہیں آیا۔“

    ”ٹھیک ہے لیکن پھر بھی تم یہاں سے چلے جاﺅ تاکہ تم پر کوئی مصیبت نہ آئے۔“

    ”لیکن میں تمہیں یوں مصیبت میں گھرا چھوڑ کر بھی تو نہیں جا سکتا۔ تم مجھے بس اتنا بتاﺅ کہ سات سَروں والا یہ اژدہا کس طرف سے آئے گا؟“

    ”وہ دریا کی پاتال سے اوپر ابھرے گا۔ ویسے اگر تم نے مجھے بچانے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو میرا مشورہ مانو، ایک طرف ہٹ کر اس بڑے پتھر کی اوٹ میں چلے جاﺅ جو تمہارے دائیں ہاتھ ہے۔ جب اژدہا اوپر ابھرے گا تو میں اس سے کہوں گی، ’اے اژدہے تم آج دو انسانوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیروں میں بندھی ہوں۔‘ یہ سن کر وہ یقیناً تمہاری طرف لپکے گا۔“

    ڈیوڈ پتھر کی اوٹ میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دریا میں تلاطم کی آواز سنی۔ اس نے دیکھا کہ ایک بڑی سات سَروں والی بلا اس طرف بڑھی جہاں شہزادی چٹان کے ساتھ بندھی تھی۔ وہ بھوکی تھی اور جلد ہی کچھ کھانا چاہتی تھی۔ شہزادی چلّا کر بولی ”اے اژدہے تم آج دو لوگوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو، کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیر میں جکڑی ہوئی ہوں۔“

    یہ سن کر اژدہا منہ کھولے ڈیوڈ کی طرف بڑھا تاکہ ایک ہی بار اسے ہڑپ کر لے۔ ڈیوڈ نے اچھلتے ہوئے میان سے تلوار نکالی اور تب تک اژدہے سے لڑتا رہا جب تک اس نے اس کے ساتوں سر قلم نہ کر لیے۔ اژدہا جب مر گیا تو اس نے شہزادی کو آزاد کیا۔ شہزادی نے اسے کہا؛

    ”اب جب کہ تم نے بلا کو مار دیا اور مجھے بچا بھی لیا ہے تو تم میرے والد کے اعلان کے مطابق میرے خاوند بنو گے۔ چلو محل چلتے ہیں۔“

    ”لیکن میں تو ابھی تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے ابھی دنیا میں اور بھی گھومنا پھرنا ہے۔ لیکن اگر تم میرا سات سال اور سات مہینے تک انتظار کر سکو تو ہماری شادی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر تب تک میں واپس نہ آﺅں تو تم کسی کے ساتھ بھی شادی کر سکتی ہو۔ میں بلا کی ساتوں زبانیں کاٹ کر ساتھ رکھ لیتا ہوں کہ بھول جانے کی صورت میں، تم انہیں دیکھ کر پہچان لو کہ یہ میں ہی تھا جس نے اژدہے کو ہلاک کیا تھا۔“

    یہ کہہ کر ڈیوڈ نے عفریت کی ساتوں زبانیں کاٹیں، انہیں شہزادی کے دیے دو شالے میں لپیٹا، کاٹھی کے ساتھ لٹکایا، گھوڑے پر سوار ہوا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔

    اسے گئے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ وہاں بادشاہ کے دیوانِ خاص کا بیٹا پہنچا، شہزادی ابھی اپنے حواس بحال کر رہی تھی۔ اُسے بادشاہ نے یہ دیکھنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس کی بیٹی پر کیا بیتی تھی۔ اس نے جب شہزادی کو اپنے سامنے محفوظ اور آزاد پایا جس کے قدموں میں اژدہا مرا پڑا تھا تو اس کے دل کو بدنیتی نے گھیرا اور اس نے شہزادی سے کہا؛ ”تم اپنے والد سے جا کر کہوگی کہ یہ میں ہی ہوں جس نے اژدہے کو مارا اور تمہیں بچایا ہے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا اور یہیں اژدہے کے ساتھ زمین میں گاڑ دوں گا۔ اور کوئی نہیں جان پائے گا کہ تمہیں اژدہے نے کھایا یا میں نے تمہاری جان لی۔“

    بیچاری شہزادی کیا کرتی؟ اب تو ڈیوڈ سا سورما بھی جا چکا تھا جو اس کی مدد کرتا۔ اسے دیوانِ خاص کے بیٹے کی بات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے اس کی بات مان لی۔ دیوان خاص کے بیٹے نے بلا کے ساتوں سر کاٹے اور انہیں لیے شہزادی کے ہمراہ بادشاہ کے پاس چلا گیا۔

    بادشاہ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ملک بھر میں جشن کا سماں بندھا۔ ایک شاہی تقریب میں دیوان خاص کے بیٹے نے سب کو بتایا کہ اس نے کس طرح دریائی بلا کو مارا اور شہزادی کو بچا لیا۔ اس پر بادشاہ نے اعلان کیا کہ وہ اسے اپنا داماد بنا رہا ہے۔

    شہزادی جو ڈیوڈ کی بہادری کی قائل ہو چکی تھی اور اپنا دل بھی اس کو دے بیٹھی تھی اس نے اپنے والد کی منت سماجت کی کہ وہ اس شادی کو سات سال اور سات ماہ کے لیے ملتوی کر دے۔ پہلے تو بادشاہ نہ مانا۔ دیوانِ خاص اور اس کے بیٹے نے بھی بادشاہ سے احتجاج کیا۔ شہزادی بہرحال اپنے موقف پر ڈٹی رہی جس پر بادشاہ نے بیٹی کی بات مان لی۔

    اُدھر ڈیوڈ دنیا بھر کی سیر کرتا کئی اور معرکے سر کرتا رہا اور پھر ایک روز شہزادی کے دیس لوٹا۔ سات سال اور سات مہینے کا عرصہ ختم ہونے میں ایک دن ہی بچا تھا۔ محل میں شادی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں۔ وہ بادشاہ کے سامنے گیا اور بولا: ”بادشاہ سلامت! مجھے آپ کی بیٹی کا ہاتھ چاہیے کیونکہ یہ میں ہی ہوں جس نے سات سروں والی دریائی بلا کو مارا تھا۔“

    بادشاہ اس کی بات سن کر غصے میں آیا اور بولا؛ ”تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو؟“

    ڈیوڈ نے شہزادی کا دو شالہ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا جس میں سات سکڑی ہوئی زبانیں پڑی تھیں۔ بادشاہ نے بیٹی کی طرف دیکھا۔

    ”میرے پیارے بابا، یہ جوان سچ کہہ رہا ہے۔ اسی نے سات سروں والے اژدہے کو مارا تھا اور اس کی زبانیں کاٹی تھیں۔ کڑھائی والا دو شالہ میرا ہی ہے جو میں نے اسے زبانیں لپیٹنے کے لیے دیا تھا۔ یہی میرا خاوند بننے کے لائق ہے۔ میری یہ بھی التجا ہے کہ آپ دیوانِ خاص کے بیٹے کو بھی معاف کر دیں کہ اس پر شیطان غالب آ گیا تھا اور اس نے جھوٹ بولا تھا۔ میں نے اسی لیے آپ سے شادی ملتوی کروائی تھی کہ اصل سورما نے اسی مدت میں‌ لوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔“

    ”اس مکاری کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ دیوانِ خاص کے بیٹے کا سر فوراً قلم کر دیا جائے۔ میں دیوانِ خاص کو اس کے عہدے سے بھی ہٹاتا ہوں اسے اور اس کے پورے خاندان کو بھی تا حیات پابند ِسلاسل رہنا ہو گا۔“ بادشاہ غضب ناک ہو گیا اور اس کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ڈیوڈ کی شادی شہزادی سے ہو گئی۔ یوں ڈیوڈ اس کے ساتھ بادشاہ کے محل کے پاس ہی ایک دوسرے محل میں ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    ایک شام ڈیوڈ کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا کہ اسے شہر سے دور پہاڑ پر ایک تیز روشنی چمکتی دکھائی دی۔

    ”یہ کیسی روشنی ہے؟“ اس نے بیوی سے پوچھا۔ اس کی بیوی نے ایک آہ بھری اور بولی،”اسے مت دیکھیں۔“ ”یہ اس مکان سے نکل رہی ہے جہاں ایک بہت ہی چالاک جادوگرنی رہتی ہے جسے آج تک کوئی بھی مار نہیں سکا۔“

    بہتر ہوتا کہ شہزادی اسے یہ نہ بتاتی کیونکہ اس کے الفاظ نے ڈیوڈ میں پھر سے یہ خواہش جگا دی تھی کہ وہ اپنی بہادری کو اس چالاک جادوگرنی کے خلاف آزمائے۔ اس رات ڈیوڈ کی خواہش اس کے دل و دماغ میں پلتی رہی اور جب صبح ہوئی تو وہ اپنی بیوی کے آنسوﺅں کی پروا نہ کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر اس پہاڑ کی جانب روانہ ہو گیا۔

    فاصلہ اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وہ اندھیرا ہونے تک پہاڑ کے دامن تک ہی پہنچ پایا۔ قلعہ نما مکان سے نکلنے والی روشنی نے آگے کا راستہ ایسے روشن کر رکھا تھا جیسے آسمان پر چمکتا چاند، رات میں راستے روشن کر دیتا ہے۔ وہ جب قلعے کے دروازے پر پہنچا تو اسے اس کی ہر کھڑکی سے روشنی پھوٹتی نظر آئی جس نے قلعے کے گرد ا گرد ایک شیطانی حصار بنا رکھا تھا۔ وہ اپنی تلوار کی مدد سے اس حصار کو چیرتا اندر داخل ہوا تو سامنے ایک وسیع کمرے میں ایک سیاہ آبنوسی کرسی پر ایک مکروہ بُڑھیا بیٹھی تھی۔ اس کی کرسی سیاہ تو تھی لیکن یہ نیلے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔

    ”آگے مت بڑھنا ورنہ میں اپنے سَر کے بالوں میں سے ایک بال توڑوں گی اور تم نیلی آگ کے ہاتھوں پتھر ہو جاﺅ گے۔“ وہ بولی۔

    ”کیا بکواس ہے!“ ڈیوڈ غصّے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ” خاموش رہ بڑھیا، ایک بال میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“اس نے کہا۔

    یہ سن کر بڑھیا نے اپنا ایک بال توڑا اور اسے ہوا میں ڈیوڈ کی طرف اچھالا۔ یہ نیلی آگ کے ایک تیر میں بدلا اور ڈیوڈ کی طرف لپکا۔ ڈیوڈ نے اسے اپنی تلوار سے کاٹنا چاہا لیکن اس کی تلوار چُوک گئی اور تیر اس کے کندھے سے ٹکرایا۔ ساتھ ہی اس کا کندھا ٹھنڈی آگ سے سرد ہوا اور پھر اس کے باقی کے اعضا اور جسم بھی وہیں منجمد ہو گیا۔

    یہی لمحہ تھا جب اس کا بھائی سیموئیل، جسے ڈیوڈ برسوں پہلے ایک موڑ پر چھوڑ آیا تھا، اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ اس سوچ میں غلطاں تھا کہ جب سے وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے، ڈیوڈ کیا کرتا رہا ہو گا اور کیا وہ خیریت سے ہے؟

    ”مجھے انجیر کے درخت کے پاس جانا چاہیے۔“ اس نے خود سے کہا، ”اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ کہیں وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں۔“
    وہ اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور صحراﺅں، میدانوں اور جنگلوں سے گزرتا انجیر کے درخت کے پاس پہنچا۔ اس نے اس کے تنے میں تلوار سے ایک گھاﺅ لگایا۔ گھاﺅ کا لگنا تھا کہ درخت سے درد بھرا ایک شور اٹھا اور چیرے سے خون ابل پڑا۔

    ”اوہ، میرا بھائی یا تو مر چکا ہے یا پھر اس کی جان خطرے میں ہے۔“ سیموئل غمگین ہوا اور چلّایا۔” اور کیا میں اس کی جان بر وقت بچا لوں گا؟“ اس نے چھلانگ لگائی، گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ خطِ استوا پار کرکے دنیا کے اس حصے میں داخل ہوا جہاں ایک ملک میں ڈیوڈ رہتا تھا۔ مزید کئی دن کے سفر کے بعد بالآخر وہ اس ملک کے دارلخلافہ میں پہنچ ہی گیا۔ وہ اس عالی شان گھر کے پاس سے گزرا جس میں ڈیوڈ اور اس کی بیوی رہتی تھی۔ وہ بالکونی میں بیٹھی رو رہی تھی کہ اس کی نظر سیموئیل پر پڑی۔ اسے لگا جیسے وہ ڈیوڈ ہو۔ اسے ایسا لگنا ہی تھا کیونکہ ڈیوڈ اور سیموئیل میں اتنی مشابہت تھی کہ اگر وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے تو یہ جاننا آسان نہ ہوتا کہ ان میں سے ڈیوڈ کون ہے اور سیموئیل کون۔ شہزادی کا دل خوشی سے دھڑکنے لگا۔ وہ نیچے اتری اور بولی: ” میری جان، تم بالآخر لوٹ ہی آئے۔ میں مدتوں سے تمہاری یاد میں آنسو بہا رہی ہوں!“

    جب سیموئیل نے یہ سنا تو اس نے خود سے کہا، ” تو یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا بھائی رہتا تھا اور یہ عورت میری بھابی ہے۔“ لیکن وہ خاموش رہا اور شہزادی کو یہ ہی سمجھنے دیا کہ وہ اس کا خاوند تھا۔ شہزادی اسے بوڑھے بادشاہ کے پاس لے گئی جس نے اس کی واپسی کے جشن اہتمام کیا۔

    شہزادی جب بھی سیموئیل کے پاس جاتی اور اسے بانہوں میں لے کر اس سے پیار کرنا چاہتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے اسے خود سے الگ کر دیتا۔ وہ اس کے اس رویے پر پریشان ہوتی اور اسے سمجھ نہ آتی کہ سیموئیل جسے وہ اپنا خاوند سمجھتی تھی، اسے قریب کیوں نہیں آنے دیتا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے۔ اور پھر ایک روز جب وہ بالکونی میں کھڑا تھا تو اس نے پہاڑ پر وہی چمکتی ہوئی روشنی دیکھی جس کے پیچھے ڈیوڈ گیا تھا۔

    ”یہ روشنی کیسی ہے ؟“، اس نے شہزادی سے پوچھا۔
    ”اوہ، اسے مت دیکھو۔“ وہ چلائی ” کیا تم اس کے ہاتھوں پہلے ہی ایذا نہیں بھگت چکے؟ کیا تم اس بوڑھی چڑیل سے ایک بار اور لڑنا چاہتے ہو؟“ سیموئیل نے اپنی بھابی کے الفاظ پر غور کیا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ اس کا بھائی کہاں تھا اور وہ کسی مصیبت میں گرفتار تھا۔ اگلی صبح وہ پَو پھٹنے سے پہلے ہی، جب شہزادی ابھی سو رہی تھی، اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اورپہاڑ کی طرف چل دیا۔ پہاڑ اس کے اندازے کے برعکس خاصا دور تھا۔ راستے میں اسے ایک بوڑھا بونا ملا جس نے سیموئیل سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔

    اس نے بونے کو اپنی کہانی بتائی اور یہ بھی کہا؛ ”مجھے کسی نہ کسی طرح اپنے بھائی کو بچانا ہے۔ وہ یقیناً اس چالاک بوڑھی جادوگرنی کی کسی چال میں پھنسا ہوا ہے۔“

    ”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔“ ، بوڑھے بونے نے کہا۔ ” اس جادوگرنی کی ساری طاقت اس کے بالوں میں ہے جیسے سیمسن کے بالوں میں تھی۔ سیمسن تو خیر نیک تھا اور لوگوں کی بھلائی کے لیے اور ظلم کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرتا تھا لیکن یہ چڑیل نہایت خبیث اور ظالم ہے اور یہ لوگوں کو ایذا پہنچانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اسے اس کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ جب تم اس تک پہنچو تو فوراً جھپٹ کر اس کے بال قابو کر لینا اور پھر انہیں کسی طور بھی مت چھوڑنا بلکہ اسے مجبور کرنا کہ وہ تمہیں، تمہارے بھائی کے پاس لے جائے اور اسے اس کی زندگی لوٹائے۔“

    ”لیکن۔۔۔!“ سیموئیل نے کچھ پوچھنا چاہا۔ ”میری بات مت کاٹو اور دھیان سے سنو۔ اس نے یقیناً تمہارے بھائی کو پتھر کر دیا ہو گا۔ وہ ایسا ہی کرتی ہے۔ لیکن اس کے پاس اس کا توڑ بھی ہے۔ اس کے پاس آبِ حیات کی ایک صراحی ہے۔ یہ ہر طرح کے زخم، گھاﺅ ختم کر دیتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ حق سچ کی خاطر مردوں کو بھی زندہ کر دیتا ہے۔ اور ہاں جب تمہارا بھائی بھلا چنگا ہو جائے تو جادوگرنی کا سَر قلم کرنا نہ بھولنا تاکہ دنیا اس کی بدی سے نجات پا سکے۔“ بونے نے اپنی بات مکمل کی۔

    سیموئیل نے بونے کو اس کے کہے پر عمل کرنے کا یقین دلایا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وہ پھر سے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھا اور قلعہ نما مکان کے دروازے پر پہنچا اور نیلی روشنی کے حصار کو اپنی تلوار سے چیرتا، سیڑھیاں پھلانگتا وسیع کمرے میں داخل ہوا۔ خوف ناک بوڑھی جادوگرنی اپنی سیاہ آبنوسی کرسی پر براجمان تھی۔ اس کے چہرے پر ایک چالاک مسکراہٹ آئی اور اپنی طرف بڑھتے سموئیل سے مخاطب ہوئی۔

    ”میں تمہیں اپنے ایک بال کے ذریعے ہی قابو کر کے پتھر کر سکتی ہوں۔“ اور پھر اس نے اپنا ایک بال توڑا اور اس کی طرف اچھالا، وہ نیلی آگ کے تیر میں بدلا اور سیموئیل کی طرف بڑھا۔ وہ جھکا اور اس تیزی سے جادو گرنی کی طرف لپکا کہ تیر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر گیا۔ اتنے میں سیموئیل نے جادوگرنی کو جا لیا اور اس کے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے بولا؛ ”مجھے بتاﺅ تم نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔“

    اب جب وہ جادوگرنی اپنی طاقت کھو بیٹھی تھی تو چالاکی سے مسکرائی اور بولی؛
    ”میں تمہیں تمہارے بھائی کے پاس لے چلتی ہوں لیکن پہلے تم مجھے چھوڑو تو سہی۔ تم نے مجھے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔“

    ”تمہیں یوں ہی آگے بڑھنا ہو گا۔“ سیموئیل نے اسے آگے دھکیلتے ہوئے کہا۔
    وہ سیموئیل کو لیے اس بڑے کمرے میں گئی جہاں بہت سارے پتھر کے مجسمے موجود تھے جو پہلے کبھی انسان رہے ہوں گے۔ جادوگرنی نے ایک کی طرف اشارہ کیا۔

    ” وہ رہا تمہارا بھائی۔“ سیموئیل نے مجسموں پر نگاہ دوڑائی اور بولا ”ان میں کوئی بھی میرا بھائی نہیں ہے۔“ جادوگرنی اسے اور مجسموں تک لے گئی اور اسے پھر ورغلانے کی کوشش کی۔ جادوگرنی کی یہ چالاکی اس کے کام نہ آئی اور بالآخر وہ اسے لیے وہاں پہنچی جہاں ڈیوڈ پتھر بنا فرش پر لیٹا تھا۔

    ”ہاں یہ میرا بھائی ہے۔ اب تم مجھے آبِ حیات کی صراحی دو، جس سے یہ پھر سے زندہ ہو سکے۔“ سیموئیل نے اس کے گلے پر تلوار کی نوک چبوتے ہوئے کہا۔
    جادوگرنی نے پاس پڑی ایک الماری کھولی جو بوتلوں اور صراحیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے ان میں سے ایک نکالی اور سیموئیل کو تھما دی۔ وہ اب بھی اس سے مکر کر رہی تھی اور اس نے ایسا کئی بار کیا لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ سیموئیل کسی طور بھی اس کے فریب میں نہیں آ رہا تو اس نے تنگ آ کر اسے آبِ حیات والی صراحی تھما دی۔ اس نے احتیاط سے ایک ہاتھ استعمال کرتے ہوئے صراحی سے چند قطرے اپنے بھائی کے منہ پر چھڑکے اور دوسرے سے جادوگرنی کے بال مضبوطی سے تھامے رکھے۔ جیسے ہی ڈیوڈ کے چہرے پر آبِ حیات کے قطرے گرے وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ سیموئیل نے تلوار کے ایک ہی جھٹکے سے جادوگرنی کا سَر اڑا دیا۔

    ڈیوڈ اٹھا اور اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ”اوہ، میں کتنا عرصہ سویا رہا۔ میں کہاں ہوں؟“

    ”اس بوڑھی جادوگرنی نے تم پر سحر کر دیا تھا لیکن اب وہ مر چکی ہے، اب تم آزاد ہو۔ ہم اب اُن سب کو جگائیں گے جو اس جادوگرنی کے سحر میں گرفتار ہیں اور یہاں پڑے ہیں۔ پھر ہم یہاں سے چل دیں گے۔“ سیموئیل نے کہا۔

    دونوں بھائیوں نے مل کر باقی مجسموں پر آب ِ حیات چھڑکا۔ یوں وہ سارے سورما جو جادوگرنی کو مارنے آئے تھے پھر سے زندہ ہو گئے۔ وہ ڈیوڈ اور سیموئیل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی راہ پر چل دیے۔ ڈیوڈ نے صراحی جس میں ابھی آبِ حیات موجود تھا، اپنی صدری میں سنبھال لی۔ انہوں نے قلعے میں موجود ہیرے جواہرات سمیٹے اور واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔

    راستے میں وہ ایک دوسرے کو اپنا حال سناتے رہے اور جب گھر کے نزدیک پہنچے تو اچانک سیموئیل نے کہا؛ ”بھائی تم بھی عجیب ہو۔ اپنی پیاری سی بیوی اور شان و شوکت والی زندگی کو چھوڑ کر جادوگرنی سے لڑنے گھر سے نکل پڑے۔ اس بیچاری نے تو مجھے اپنا خاوند سمجھ لیا تھا لیکن میں نے اسے کچھ بھی نہ بتایا۔“

    اتنا سن کر ہی ڈیوڈ کو طیش آیا اور اس نے مزید کچھ سنے بِنا تلوار نکالی اور سیموئیل کے سینے میں گھونپ دی۔ سیموئیل گھوڑے سے گِرا اور اس کا جسم گرد میں لپٹ کر دور لڑھک گیا۔

    ڈیوڈ جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی بیٹھی رو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ کھل اٹھی اور اس کی بانہوں میں سما گئی۔ بادشاہ کو جب اس کی آمد کا پتہ چلا تو اس نے واپسی کی خوشی میں دوپہر کو دعوت کا اہتمام کیا۔ شام میں جب وہ اور اس کی بیوی اپنے کمرے میں تنہا تھے تو شہزادی نے اس سے پوچھا؛

    ”جب تم اپنی پہلی مہم سے واپس آئے تھے تو تم نے کبھی بھی مجھے اپنے نزدیک نہیں آنے دیا تھا۔ میں جب بھی تم سے پیار کرنے کے لیے آگے بڑھتی تو تم کسی نہ کسی بہانے مجھ سے الگ ہو جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیا تم اب بھی مجھ سے بے اعتنائی برتو گے؟“ یہ سن کر ڈیوڈ کو دل میں شرمندگی کا احساس ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پوری بات نہ سنی تھی اور اسے تلوار مار دی تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگا۔ پھر اچانک اسے آبِ حیات والی صراحی کا خیال آیا۔ وہ جلدی سے اٹھا، اپنی صدری کی طرف بڑھا، اسے پہنا اور بیوی کو کچھ بتائے بغیر گھوڑے پر سوار اس جگہ جا پہنچا جہاں اس کے بھائی کا لاشا پڑا تھا۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سیدھا کیا اور تلوار کے گھاﺅ کو دیکھا، صراحی نکالی اور زخم پر آبِ حیات چھڑکا۔ ساتھ ہی اسے ایک آواز سنائی دی۔

    ” میں سیموئیل کا گھاﺅ اس لیے بھر رہا ہوں اور اس لیے اسے زندہ کر رہا ہوں کہ وہ معصوم ہے۔ اور اس سے کوئی خطا نہیں ہوئی تھی۔ تم سے خطا ہوئی۔ تم اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور اس کی پوری بات سنے بغیر تم نے اسے مار ڈالا۔ اب تم اس کی سزا تب تک بھگتو گے جب تک زندہ رہو گے۔ تم اسے دوبارہ نہ دیکھ پاﺅ گے۔ تم خط استوا کے اِس پار سرد علاقے میں رہو گے جب کہ وہ اس خط کے اُس پار گرم علاقے میں اپنی باقی کی زندگی جیے گا کیونکہ اس کا دل سچائی، بھلائی اور معصومیت کی حرارت سے لبریز ہے۔“ یہ آواز صراحی میں آبِ حیات سے ابھر رہی تھی۔

    سیموئیل کا گھاﺅ بھر گیا، اس نے آنکھیں کھولیں، ڈیوڈ کو اجنبی نظروں سے دیکھا اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جو پاس ہی گھاس چر رہا تھا۔ ڈیوڈ نے اسے آواز دی لیکن اس نے مڑ کر نہ دیکھا، ڈیوڈ کی آواز کو کسی غیبی طاقت نے اس کے گلے میں ہی گھونٹ دیا تھا، یہ سیموئیل تک پہنچ ہی نہ پائی۔

    سیموئیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کا رخ اُس راستے کی طرف موڑ دیا جو خطِ استوا کے دوسری طرف دُنیا کے گرم خطوں تک جاتا تھا۔

    (اطالوی لوک ادب سے ماخوذ کہانی)

  • ’’وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی؟‘‘

    ’’وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی؟‘‘

    جب کوثرؔ پہلے پہلے ہمارے گھر آئی تو دروازے میں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ میں بیٹھا لکھ رہا تھا۔ رضیہ امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن، شمو کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

    کوثر نے ایک بار اندر جھانک کر دیکھا، پردے کی سرسراہٹ پر میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ میں پھر لکھنے لگا۔

    اس نے پھر جھانکا۔ رضیہ اب بھی امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن آپس میں لڑ رہے تھے اور شمی کھڑی منہ بسور رہی تھی۔ پردہ پھر ہلا۔ میں نے لکھتے لکھتے پھر نگاہ اٹھائی، کوثر پھر ہٹ گئی۔ اس بار میں تیزی سے اٹھ کر پردے کی آڑ میں جاکر کھڑا ہوگیا اور اس بار جونہی اس نے اندر جھانکا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا۔

    ’’رضیہ‘‘ کوثر کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ ’’ارے کوثرؔ تم ‘‘ رضیہ اٹھ کر آئی۔ کوثر اجنبیوں کی طرح چھپی چھپی سی کھڑی تھی۔

    ’’ہوں تو تم رضیہ کے پاس آئی ہو، چوروں کی طرح کیوں جھانک رہی تھیں؟‘‘

    ’’میں نے اس سے کہا اور اس نے جھینپ کر رضیہ کی پیٹھ کے پیچھے منہ چھپا لیا۔ اس طرح وہ پہلے روز ہمارے یہاں آئی۔ وہ رضیہ کے ساتھ پڑھتی تھی۔ پھر وہ ہر روز گھر آنے لگی اور پھر گھر کے دوسرے بچوں کی طرح حرکتیں بھی کرنے لگی۔

    ’’بھائی صاحب! یہ قلم مجھے دے دیجیے نا؟ اور یہ پھول جو گلدان میں لگا ہے مجھے بہت پسند ہے۔ ’’ایک روز سیدھی میرے پاس چلی آئی۔ ’’بھائی صاحب! آپ نے برتن بنانے کا کارخانہ دیکھا ہے؟

    اس نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’ہاں ہاں اپنے زاہد خالو کا جو کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’تو پھر آپ نے ان کارخانوں کے منشی بھی ضرور دیکھے ہوں گے؟‘‘ ارے ہاں بھئی یہ اپنے برابر میں منشی مجیب صاحب رہتے ہیں۔‘‘

    ’’بس تو پھر میری بات مانیے اور یہ کہانیاں وہانیاں لکھنی چھوڑ کر کسی کارخانہ کی منشی گیری شروع کر دیجیے۔

    میں نے اسے گھورا۔

    ’’آپ کی کتنی ہی کہانیاں پڑھی ہیں سب ایک ہی جیسی ہیں۔ کسی میں شرارتیں، کسی میں حلوہ کی چوری، کسی میں بھائی بہن کی لڑائی آخر آپ لکھتے کیا ہیں؟

    ’’کوثر‘‘ میں نے اسے آہستہ سے ڈانٹا۔

    ’’نہیں نہیں بھائی صاحب، ایک بات… ’’کوثر نے کچھ اس انداز سے کہا کہ باوجود غصے کہ ہنسی آگئی۔‘‘

    ’’دیکھیے نا کہانیوں سے تو ہمیں تعلیم ملتی ہے۔ ہمارے کورس کی کتابوں میں بھی کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ کسی سے سبق ملتا ہے چوری مت کرو۔ کسی سے ہم سیکھتے ہیں دوسروں کو مت ستاؤ مگر آپ ہیں کہ چوری کی ترغیب دیتے ہیں۔ شرارتوں کی ترکیب بتاتے ہیں، میرے اچھے بھائی صاحب۔ ایسی کہانیاں مت لکھیے۔ آپ تو بہت اچھا لکھتے ہیں، کتنے ڈھیر سارے خط آتے ہیں، آپ کی کہانیوں کی تعریف میں، بڑے بڑے رسالوں میں آپ کی کہانیاں چھپتی ہیں، مگر آپ کی بچوں کی کوئی بھی کہانی ایسی ہے جس پر کسی نے آپ کو خط لکھا ہو۔ آخر ہم بچوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ الٹی سیدھی کہانیاں ہمارے لیے لکھتے ہیں۔‘‘

    میں کوثر کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ بولے چلی جارہی تھی۔ گیارہ بارہ برس کی آٹھویں جماعت میں پڑھنے والی لڑکی کس قدر تیز اور کسی لیڈر کی طرح تقریر کیے جارہی تھی۔

    ’’کوثر…‘‘ میں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’پگلی! آج کل کے بچے بھی تو ایسی ہی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ ورنہ پھر ان رسالوں کے مدیران کو کیا پڑی ہے کہ وہ کہانیاں شائع کریں۔‘‘

    ’’بھائی صاحب! ان ایڈیٹروں کی بھی ایک ہی کہی….. دینا دلانا تو کچھ ہوتا نہیں۔ ایک دو کہانیاں یوں ہی بھرتی کی چھاپ دیں۔ اس سے ان حضرات کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ’’وہ بولی۔

    ’’اچھا بڑی بی! آپ کی نصیحت سر آنکھوں پر، ایسی ہی کہانیاں لکھوں گا جن کو پڑھ کر بچے اچھی باتیں سیکھ سکیں۔ اب تو خوش۔‘‘

    ’’ویسے آپ کہانیاں بہت اچھی لکھتے ہیں۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’خوشامدی کہیں کی، لو چلو بھاگو، میں نے ایک رسالہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا اور وہ رضیہ کے پاس چلی گئی۔

    اس کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ انتہائی ذہین بچی ہے۔ کتنی سمجھداری کی باتیں کرتی ہے، ضروراپنے درجہ میں اوّل آتی ہوگی اور پھر میں نے طے کر لیا کہ اب بچوں کے لیے جو بھی کہانی لکھوں گا وہ سبق آموز ہوگی۔ صرف تفریح ہی تو مقصد نہیں ہے۔

    اچانک کوثر کئی دن ہمارے یہاں نہیں آتی۔ مصروفیت کے سبب میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ آج خیال آیا تو میں نے رضیہ سے معلوم کیا۔ ’’ارے بھئی رضوؔ ! یہ تمہاری کوثر بی آج کل کہاں غائب ہیں؟‘‘

    ’’بھائی صاحب! ایک روز رات میں اسٹول سے گر پڑی، کافی چوٹ آئی ہے، اسکول بھی نہیں آرہی ہے، آج اسے دیکھنے جاؤں گی۔‘‘

    ’’ارے ہمیں تو خبر ہی نہیں بڑی اچھی لڑکی ہے۔‘‘

    شام کو رضیہ کے ساتھ میں بھی اسے دیکھنے چلا گیا۔ کوثر کی والدہ کو ہم خالہ جان کہتے ہیں۔ وہ کوثر کو دوا دے رہی تھیں۔ اس کے ایک ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔

    ’’کیوں بھئی بڑی بی! تمہیں کافی چوٹ آئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’حرکتیں ہی ایسی کرتی ہے۔‘‘ خالہ جان کوثر کو گھور کر بولیں۔

    ’’جی۔‘‘ میں نے ایک بار کوثر کو اور پھر خالہ جان کو دیکھا۔ ’’کیا بتاؤں شوکی بیٹے! یہ لڑکی اتنی شریر ہے کہ ناک میں دم کردیا ہے۔

    ’’امی!‘‘ کوثر کمزور آواز میں مچل کر بولی۔

    ’’کیا بتاؤں نہیں؟ ارے بیٹے ہوا یہ کہ راشد کے تایا میاں نے دہلی سے سوہن حلوہ بھجوایا تھا دونوں کو برابر برابر دے دیا۔

    راشد میاں مچل گئے اور لگے رونے، ضد کرنے کہ ان کا حصہ کم ہے۔‘‘

    ’’کم تھا تو آپ نے بجیا کو زیادہ دیا تھا۔ ’’ قریب کھڑا ہوا راشد بولا۔

    ’’تھا زیادہ تمہارا سر، کہیں اچھے بچے ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ خالہ جان نے راشد میاں کو جھڑک دیا۔

    ’’ہاں تو پھر یہ ہوا کہ جب خوب روئے تو ہم نے کوثر سے کہا تم بڑی ہو اپنے حصے میں سے تھوڑا انہیں اور دے دو۔‘‘

    ’’تھوڑا سا، سب تو لے لیا تھا اوں۔‘‘ لیٹے لیٹے کوثر بی۔

    ’’بڑا احسان کیا تھا شرم نہیں آتی۔‘‘ خالہ نے اسے بھی جھڑک دیا۔ ’’جی پھر‘‘ میں نے مسکرا کر کوثر کی طرف دیکھا۔ خالہ جان آگے سنانے لگیں، ’’کوثر نے اپنا حلوہ کھا کر برابر کردیا۔ راشد میاں ذرا کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ایک ایک دانہ سنبھال کر رکھا۔ رات کو میز پر ڈبّہ لے کر سو گئے۔ ہم نے اٹھا کر کارنس پر رکھ دیا۔ خدا جانے یہ جاگ رہی تھی، ہم تو سمجھے کہ سوگئی ہے، جب بتی وغیرہ بند کر دی تو یہ بی اٹھ کر اسٹول پر چڑھیں۔ دیکھو نا یہ کارنس بہت اونچا ہے اسٹول پر کرسی رکھی، بس گر پڑیں۔‘‘

    ’’چوری کر رہی تھیں، ماشاء اللہ۔‘‘ میں مسکرایا۔

    ’’اب تم ہی دیکھو۔‘‘ ’’خالہ جان کمرے سے ہم لوگوں کے لیے چائے بنانے چلی گئیں۔ اب تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کوثر کا کیا حال تھا۔ لاکھ کہنے پر بھی اس نے اپنا منہ چادر سے باہر نہیں نکالا۔

    اور اب یہ کہانی لکھ چکنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی حالانکہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے اور بالکل سچی ہے۔

    (مصنّف: شکیل انور صدیقی)

  • ہیرے والا شتر مرغ

    ہیرے والا شتر مرغ

    "اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ تین ہزار پاؤنڈ، سمجھے….؟” اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔

    اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھُس بھر کر اسے بیچنا تھا، اسی لیے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصّے سنایا کرتا تھا۔

    "تین ہزار پاؤنڈ؟” میں نے حیرت ظاہر کی۔ "کیا وہ شتر مرغ کسی نایاب نسل کا تھا؟”
    "نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اور باقی چار شتر مرغ جن کا قصّہ سنانے والا ہوں پانچوں عام سے شترمرغ تھے، بلکہ ایک کی کھال کا رنگ بھی مناسب دانہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اڑ گیا تھا، لیکن ان میں سے ایک شتر مرغ نے ایک نہایت قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔”

    "شتر مرغ نے ہیرا نگل لیا تھا؟”

    "ہاں۔” اس نے ہماری دل چسپی کو دیکھ کر پورا قصّہ سنانا شروع کیا جو یوں تھا: وہ ہیرا ایک ہندو بیوپاری کا تھا۔ اس کا نام موہن تھا۔ موہن ایک موٹا سا آدمی تھا۔ اس کی پگڑی میں وہ ہیرا لگا ہوا تھا۔ شتر مرغ نے اس کی پگڑی پر چونچ ماری اور ہیرا نگل لیا۔ جب موہن کو پتا چلا کہ کیا ہوگیا ہے تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ یہ سب کچھ ذرا سی دیر میں ہو گیا۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ دراصل ہم لوگ لندن جانے کے لیے ایک بحری جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو موہن، دو ملاحوں اور شتر مرغ کے رکھوالے کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی ہو رہی تھی، بلکہ شتر مرغ کا رکھوالا تو ہنستے ہنستے دہرا ہوا جا رہا تھا۔

    یہ پانچوں شتر مرغ لندن جانے کے لیے بحری جہاز پر پہنچائے جا رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ہوئے ایک ہندو بیوپاری موہن کی پگڑی میں لگا ہوا ہیرا نگل لیا۔ اس وقت شتر مرغوں کا رکھوالا وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد پہنچا۔ اس لیے اسے بھی پتا نہ تھا کہ کون سے شتر مرغ نے ہیرا نگلا ہے۔ بہرحال ہم سب بحری جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز لندن کے لیے روانہ ہو گیا۔ شتر مرغ بھی جہاز پر سوار تھے۔

    بحری جہاز پر اس قسم کی خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد تمام مسافروں کو اس بات کا پتا لگ گیا کہ جہاز پر سوار شتر مرغوں میں سے ایک کے پیٹ میں ایک ہیرا موجود ہے جو اس نے ایک مسافر کی پگڑی سے اچک لیا تھا۔

    ہر شخص اسی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ موہن اپنے جذبات چھپانے کے لیے اپنے کیبن میں چلا گیا، لیکن رات کے کھانے پر جب سب مسافر جہاز کے کھانے کے کمرے میں جمع ہوئے تو موہن ایک میز پر جہاز کے کپتان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

    موہن نے کپتان پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا ہیرا واپس دلوائے۔ اس کا کہنا تھا میں وہ شتر مرغ نہیں خریدوں گا بلکہ مجھے میرا قیمتی ہیرا دلوانا کپتان کا فرض ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے میرا ہیرا واپس نہ ملا تو میں لندن پہنچ کر پولیس میں شکایت درج کروں گا۔ لہذا بہتر ہے کہ شترمرغوں کو کوئی دوا کھلا کر ہیرا حاصل کیا جائے۔
    اُدھر شتر مرغوں کا رکھوالا بھی ایک ضدی آدمی نکلا۔ اس نے کہا کہ میں شتر مرغوں کو دوا دے کر ہیرا حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں شتر مرغوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ صرف رکھوالا ہوں اور مجھے سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ شتر مرغوں کو صرف فلاں فلاں چیز کھلائی جائے اور انھیں فلاں فلاں طریقے سے رکھا جائے۔ جب کہ موہن کا کہنا تھا کہ چوں کہ شتر مرغوں میں سے ایک نے اس کا ہیرا نگل لیا ہے، اس لیے اب وہ جس طرح چاہے ہیرا نکال سکتا ہے، چاہے ان کا پیٹ کاٹ کر ہی کیوں نہیں نکالا جائے۔

    اس طرح یہ مسئلہ ایک قانونی شکل اختیار کر گیا تھا، لیکن جہاز پر کوئی وکیل موجود نہ تھا، اس لیے ہر مسافر اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ مسافروں میں سے اکثر کا کہنا یہ تھا کہ موہن کو شتر مرغ خرید لینے چاہییں، پھر اس کا جو جی چاہے ان کے ساتھ کرے۔

    جہاز عدن کی بندرگاہ پر رکا اور جب وہاں سے چلا تو رات کے کھانے پر موہن نے مسافروں کی بات مان لی اور پانچ کے پانچ شتر مرغ خریدنے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن اگلی صبح ناشتے پر صورتحال پھر بدل گئی، کیوں کہ شتر مرغوں کے رکھوالے نے اعلان کیا کہ وہ ان کا مالک نہیں ہے اس لیے وہ انہیں کیسے بیچ سکتا ہے؟ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مالک سے پوچھے بغیر شتر مرغ بیچنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

    اس پر ایک مسافر کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام پوٹر تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ شتر مرغوں کے رکھوالے کو میں نے بھی اچھی خاصی رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن وہ شتر مرغ بیچنے پر تیار نہیں تھا، اس لیے جب جہاز عدن پر ٹھہرا تھا تو میں نے وہاں سے شتر مرغ کے مالک کو لندن میں تار دے کر تمام شتر مرغ خریدنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا جوابی تار مجھے جہاز کی اگلی منزل یعنی سویز پر مل جائے گا۔ یہ سن کر موہن نے پوٹر کو سب کے سامنے برا بھلا کہا۔ اس کی صورت دیکھنے والی تھی، لیکن باقی سب مسافر پوٹر کو ایک ہوشیار آدمی مان گئے۔

    جب جہاز سویز پہنچا تو پوٹر کے تار کا جواب لندن سے آ چکا تھا۔ شتر مرغ کے مالک نے انہیں پوٹر کے ہاتھ فروخت کرنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اب پوٹر شتر مرغوں کا مالک بن چکا تھا۔ یہ خبر سن کر موہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آخر اس نے پوٹر سے کہا میں شتر مرغ تم سے خریدنے کے لیے تیار ہوں۔ تم فی شتر مرغ پانچ سو پاؤنڈ کے حساب سے پانچ شتر مرغوں کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ لے لو۔ اس پر پوٹر نے کہا کہ میں نے یہ شتر مرغ بیچنے کے لیے نہیں خریدے۔ میرا ارادہ ان کے پیٹ چاک کر کے ہیرا تلاش کرنے کا ہے۔
    لیکن بعد میں پوٹر کا ارادہ بدل گیا اور اس نے شتر مرغ نیلام کرنے کا اعلان کیا، لیکن اس نے ایک شرط بھی رکھی۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے ہاتھ ایک سے زیادہ شتر مرغ فروخت نہیں کیے جائیں گے اور ایک شتر مرغ وہ اپنے لیے رکھے گا تاکہ قسمت آزما سکے۔ کیا پتا ہیرا اسی میں سے نکلے۔

    وہ ہیرا بہت قیمتی تھا۔ ہمارے ساتھ بحری جہاز پر ہیروں کا ایک یہودی تاجر بھی سفر کر رہا تھا۔ جب موہن نے اسے اس ہیرے کے بارے میں بتایا کہ کیسا تھا اور کتنا بڑا تھا تو اس نے اس کی قیمت اندازاً چار سے پانچ ہزار پاؤنڈ بتائی۔ جب جہاز کے مسافروں کو ہیرے کی قیمت کا پتا چلا تو وہ بے چینی سے نیلامی کا انتظار کرنے لگے جو اگلے دن ہونے والی تھی۔

    اب اتفاق کی بات کہ شتر مرغ کے رکھوالے سے مجھے باتوں باتوں میں پتا چلا کہ ایک شتر مرغ بیمار ہے اور اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔ اس شتر مرغ کی دُم کے پروں میں سے ایک پر بالکل سفید تھا جو شاید بیماری کی وجہ سے ہوگیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی شتر مرغ ہے جس کے پیٹ میں ہیرا ہے اور اسی لیے اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔

    اگلے روز جب نیلامی شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہی شتر مرغ لایا گیا۔ بولی آٹھ سو پاؤنڈ سے شروع ہوئی۔ موہن نے فورا ساڑھے آٹھ سو کی بولی دی جس کے جواب میں، مَیں نے نو سو پاؤنڈ کی آواز لگائی۔ مجھے یقین تھا کہ ہیرا اسی شتر مرغ کے پیٹ میں ہے اور اتنے زیادہ بھاؤ یعنی نو سو پاؤنڈ سے کوئی آگے نہیں بڑھے گا، لیکن موہن بالکل باؤلا ہو گیا تھا۔ اس نے اندھا دھند بولی بڑھانی شروع کی۔ ہیروں کا یہودی تاجر بھی بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہا تھا۔ اس نے بولی ایک ہزار سات سو پاؤنڈ تک پہنچا دی۔ اس موقعے پر پوٹر نے اس کے حق میں بولی ایک دو تین کہہ کر ختم کر دی۔ موہن نے ایک ہزار آٹھ سو کی آواز لگائی، لیکن تب تک پوٹر تین کہہ چکا تھا۔ موہن ہاتھ ملتا رہ گیا۔

    یہودی تاجر نے پوٹر کو شتر مرغ کی قیمت ادا کی اور اسی وقت پستول نکال کر شتر مرغ کو گولی مار دی۔ اس پر پوٹر نے خوب شور مچایا اور کہا کہ اگر شتر مرغ کو اسی وقت کاٹا گیا تو اس سے نیلامی پر برا اثر پڑے گا، کیوں کہ اگر اس میں سے ہیرا نکل آیا تو میرے باقی شترمرغ کوئی نہیں خریدے گا، لیکن ہم سب ہیرا دیکھنے کے لیے اس قدر بے چین تھے کہ سب نے سنی ان سنی کر دی۔ شتر مرغ کو چیرا پھاڑا گیا، لیکن اس میں سے کچھ نہ نکلا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ میرا نقصان ہوتے ہوتے رہ گیا، کیوں کہ میں خود اس شتر مرغ کی ایک ہزار چار سو پاؤنڈ قیمت لگا چکا تھا۔

    یہودی تاجر نے کسی خاص افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ پوٹر نے یہ کہہ کر نیلامی بند کر دی کہ جب تک سارے شترمرغ نہیں بک جاتے وہ کسی کو شتر مرغوں کی چیر پھاڑ نہیں کرنے دے گا، لیکن یہودی تاجر کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص ایک چیز خریدتا ہے تو اس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ جب اور جیسا چاہے سلوک کرے۔ بات بڑھ گئی اور گرما گرمی ہونے لگی تو نیلامی اگلی صبح تک روک دی گئی۔ رات کو کھانے کی میز پر شتر مرغوں کی نیلامی کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کچھ نے تو جہاز کے کپتان سے یہ بھی کہا کہ اس نیلامی کو روک دیا جائے، کیوں کہ اس طرح سے ہیرا بیچنا ایک طرح کا جوا ہے، لیکن پوٹر کا کہنا تھا کہ ہیرا نہیں بیچ رہا۔ میں تو صرف شتر مرغ بیچ رہا ہوں۔

    آخر کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز پر شترمرغ کی خرید و فروخت کی اجازت ہے، لیکن شتر مرغوں کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب کوئی شخص شتر مرغوں کو نہ تو جہاز پر ہلاک کرے گا اور نہ ان کی چیر پھاڑ کرے گا۔ لندن پہنچنے کے بعد جہاز سے اتر کر مسافروں کا جو جی چاہے شتر مرغوں کے ساتھ کریں۔

    اگلی صبح جب نیلامی شروع ہوئی تو ہر شخص کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شتر مرغ پانچ کے بجائے اب چار رہ گئے ہیں، اس لیے کسی ایک شتر مرغ سے ہیرا نکلنے کا امکان اب پہلے سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بولی کل سے بھی زیادہ پر شروع ہوئی۔ میرے پاس پیسے کم تھے اس لیے میں تو پیچھے ہٹ گیا۔ ایک شتر مرغ دو ہزار پاؤنڈ کا بکا۔ ایک کی قیمت دو ہزار تین سو پاؤنڈ لگائی گئی۔ جب کہ تیسرا ڈھائی ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا، لیکن عجیب بات تھی کہ موہن نے ان میں سے ایک بھی نہیں خریدا، بلکہ جب بولی لگائی جا رہی تھی تو وہ ایک کونے میں بیٹھا لندن پہنچ کر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی باتیں کر رہاتھا اور قانونی نکتے اٹھا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ساری نیلامی غیرقانونی ہے۔

    فروخت ہونے والے تین شتر مرغوں میں سے ایک اُسی یہودی تاجر نے خریدا۔ ایک شتر مرغ ایک افسر نے خریدا جو جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ تیسرا اس جہاز کے انجینئروں نے آپس میں پیسے جمع کر کے خرید لیا۔

    جب نیلامی ختم ہوئی تو پوٹر اُداس ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے شتر مرغ بیچ کر بے وقوفی کی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے لیے جو شترمرغ رکھا تھا وہ بھی اس نے ایک مسافر کو تین ہزار پاؤنڈ میں رات ہی بیچ دیا تھا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس میں بے وقوفی کی کیا بات ہے۔ جو شتر مرغ اس نے زیادہ سے زیادہ آٹھ سو پاؤنڈ میں خریدے ہوں گے وہ اس نے ایک ایک کر کے ساڑھے گیارہ ہزار پاؤنڈ میں بیچ دیے۔

    آخر جہاز لندن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ سارے مسافر اترنے شروع ہوئے۔ شتر مرغ بھی اتارے گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں وہیں چیرنے پھاڑنے کا ارادہ کیا لیکن بندرگاہ کے افسروں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ موہن پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا۔ جن لوگوں نے شتر مرغ خریدے تھے وہ ان سے ان کے نام اور پتے پوچھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ان کے خریدے ہوئے شتر مرغ سے ہیرا نکل آئے تو مجھے خط لکھ کر بتائیں، لیکن کسی نے بھی اسے اپنا نام پتا نہیں دیا۔ موہن نے پوٹر کو بھی برا بھلا کہا لیکن پوٹر نے اپنا سامان اٹھایا اور چل پڑا۔ باقی مسافر بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں لدوایا اور وہ بھی چل پڑے۔

    یہ کہہ کر وہ چپ ہو گیا اور ایک پرندے کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔ میں نے بے صبری سے کہا، "پھر کیا ہوا؟ ہیرا کون سے شتر مرغ میں تھا؟”

    وہ مسکرایا اور بولا، "میرے خیال سے کسی میں بھی نہیں۔”

    "وہ کیوں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

    اس نے بتانا شروع کیا، "یہ بات مجھے کبھی معلوم نہ ہوتی اور میں یہی سمجھتا رہتا کہ موہن کا ہیرا کسی شتر مرغ نے نگل لیا تھا، لیکن اتفاق کی بات ہے کہ لندن پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ میں خریداری کر رہا تھا کہ مجھے موہن اور پوٹر نظر آئے۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بہت خوش خوش، مسکراتے ہوئے جا رہے تھے۔ دونوں نے بہت عمدہ اور مہنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں چُپ چاپ انہیں دیکھنے لگا۔ انہوں نے کوئی چیز خریدی۔ موہن نے پیسے دینے کے لیے بٹوا نکالا تو وہ نوٹوں سے ٹھنسا ٹھس بھرا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ دونوں کو کہیں سے بہت سا رُپیہ ہاتھ لگا ہے۔”

    میں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا، "بہت خوب! تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شتر مرغ نے کوئی ہیرا نہیں نگلا تھا۔ موہن اور پوٹر دونوں ساتھی تھے اور انہوں نے اس طرح نیلامی کے ذریعے سے ہزاروں پاؤنڈ بٹور لیے۔”

    اس نے مسکرا کر "ہاں” کہا اور سَر جھکا کر پرندوں کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔


    (مصنّف: ایچ جی ویلز​، ترجمہ: رؤف پاریکھ​)

  • ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    بہت عرصے پہلے کی بات ہے چین کے کسی شہر میں ایک شخص چینگ کرانو رہتا تھا۔ چینگ کرانو بہت اچھا ادیب تھا۔ برسوں سے وہ اکیلے ہی رہتا چلا آ رہا تھا۔

    اپنے کم بولنے کی عادت کی وجہ سے وہ کسی سے دوستی نہ کرسکا تھا۔ اس کے پڑوس میں ایک غریب، مگر پیاری سی لڑکی ژیانگ رہتی تھی۔ ژیانگ کو کہانیاں سننے اور پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ کرانو چوں کہ اچھا ادیب تھا، اس لیے ژیانگ اس کی بہت عزّت کرتی تھی۔

    ایک دن اس نے اپنی ماں سے اجازت لی اور کرانو سے ملنے اس کے گھر آئی۔ کرانو اس وقت کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ ژیانگ اس کے لیے شربت لائی اور ادب سے اسے پیش کیا۔ کرانو نے پہلی بار کسی کو اپنے گھر میں دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے ژیانگ کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح ژیانگ کا کرانو کے گھر آنا جانا ہو گیا۔

    کرانو کا گھر چھوٹا سا تھا۔ اس کی تمام چیزیں بکھری رہتی تھیں۔ ژیانگ نے اس کا گھر سلیقے سے سجا دیا۔ کرانو بہت سادگی سے رہتا تھا۔ اس کے گھر میں کوئی قیمتی چیز نہ تھی۔ ژیانگ نے اس کا ذکر اپنے باپ چانگ سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ کرانو کنجوس ہے اور دولت جمع کر رہا ہے۔

    ایک دن ژیانگ اپنے گھر میں تھی تو اس نے اپنی کھڑکی سے کرانو کو ایک تھیلا ہاتھ میں لٹکائے جاتے دیکھا۔ ژیانگ سوچنے لگی کہ پتا نہیں اس میں کیا ہے۔ ژیانگ نے فوراً یہ بات اپنے باپ کو بتائی۔ وہ سمجھ گیا کرانو اپنی دولت کہیں دفن کرنے جا رہا ہے۔ اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر کرانو کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کرانو اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا اور چانگ اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

    جب چانگ نے کرانو کو بینک میں داخل ہوتے دیکھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ گھر آکر اس نے ژیانگ سے کہا کہ وہ ٹوہ لگائے کہ آخر کرانو نے بینک میں کیا جمع کرایا ہے۔ دوسرے دن ژیانگ نے کرانو کو قہوہ پیش کرتے ہوئے کہا، "کل آپ کسی دوست سے ملنے گئے تھے شاید؟”

    کرانو نے پہلے تو قہوے کا شکریہ ادا کیا پھر کہا، "نہیں میں بینک گیا تھا، لاکر میں ایک قیمتی چیز رکھنے۔” لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ چیز کیا تھی۔ ژیانگ نے بھی زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے تمام بات اپنے باپ چانگ کو بتا دی۔

    چانگ ایک لالچی اور خود غرض انسان تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح کرانو کی دولت حاصل کرے گا۔ تھوڑے دن بعد ہی ژیانگ کا ایک امیر گھرانے سے رشتہ آیا تو اس کی بات پکّی کر دی گئی۔ چانگ سوچ رہا تھا کہ اب ژیانگ کی شادی کے لیے بہت رقم کی ضرورت ہو گی، سو کوئی ترکیب کرنی چاہیے کہ کرانو کی دولت جلد از جلد ہاتھ آ جائے۔ وہ دن رات اسی فکر میں غرق رہتا کہ کیا کیا جائے۔ آخر ایک خطرناک خیال اس کے ذہن میں آیا۔

    ایک دن اس نے ژیانگ سے کہا، "ہوسکتا ہے کرانو اپنی دولت کسی دوست کے حوالے کر دے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کی دولت حاصل کر لیں۔”

    ژیانگ نے تعجب سے پوچھا، "مگر ہم اس کی دولت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟”

    چانگ مکّاری کے ساتھ بولا، "وہ آج کل بیمار ہے، اس لیے زیادہ تر اپنے بستر میں رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے کمرے میں بند کر کے آگ لگا دی جائے۔ اس کے کمرے میں بے شمار کاغذ ہیں، جلد ہی آگ پکڑ لیں گے، لیکن اس سے پہلے تم اس کے لاکر کی چابی اور بینک کے کاغذات حاصل کر لو۔”

    باپ کی یہ سازش سن کر ژیانگ لرز کر رہ گئی۔ اس نے فوراً انکار کر دیا۔ مگر چانگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے سبز باغ دکھائے اور اس پر سختی بھی کی۔ مجبوراً ژیانگ اس کے ساتھ اس سازش میں شریک ہونے کو تیار ہو گئی، لیکن اس نے آگ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ چانگ نے کہا کہ وہ آگ خود لگے گا۔

    چنانچہ ژیانگ جب اگلے روز کرانو کے گھر گئی تو اس نے کرانو کو اپنی شادی کے بارے میں بالکل نہیں بتایا، لیکن کسی نہ کسی طرح بینک کے کاغذات اور چابی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی۔ پھر کرانو کی غیر موجودگی میں وہ صفائی کے بہانے اس کے گھر میں رک گئی اور کرانو کے سارے گھر میں تیل چھڑک دیا۔ کرانو کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ یہ کام کر کے وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی کرانو واپس گھر آیا، چانگ نے دروازہ بند کر کے آگ کی مشعل کھڑکی سے اندر پھینک دی۔

    کرانو جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بُو محسوس ہوئی اور پھر آگ تیزی سے پھیلتی گئی۔ چانگ اور ژیانگ اپنے گھر جا چکے تھے۔ پھر وہ اس وقت باہر نکلے جب محلّے والوں نے شور مچایا کہ کرانو مر چکا ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ آگ کیسے لگی۔ لوگوں نے یہی خیال کیا کہ شاید کھانا پکانے کے لیے اس نے آگ جلائی ہو گی اور غلطی سے آگ کپڑوں میں لگ گئی ہو گی۔

    اس درد ناک واقعے کو کئی دن گزر گئے۔ آخر ایک دن ژیانگ اور چانگ بینک جا پہنچے۔ انہوں نے خود کو کرانو کا رشتے دار ظاہر کیا اور لاکر کھولنے میں کام یاب ہو گئے۔ لاکر میں اس تھیلے کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں لکھا تھا:

    "لاکر کھولنے والے پر سلامتی ہو۔ اس لاکر میں میری زندگی کی سب سے عمدہ کہانی ہے۔ میری یہ کہانی دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک شخص مجھے اس کے پندرہ ہزار پاؤنڈ دینے کو تیار ہے، مگر میں ابھی اسے بیچنا نہیں چاہتا۔ میں اسے اس وقت بیچوں گا جب ژیانگ کی شادی ہو گی۔ میں اس کہانی کو بیچ کر ساری رقم ژیانگ کو دے دوں گا۔ وہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے، اپنی بیٹی جیسی۔ اگر میں اس کی شادی سے پہلے مَر جاؤں تو ژیانگ اس کہانی کو بیچ سکتی ہے۔”

    اتنا خط پڑھ کر ژیانگ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو خط سن رہا تھا۔ اس وقت تک وہ تھیلے میں سے سارے قیمتی کاغذات نکال چکا تھا۔

    "کاش! میں اسے اپنی شادی کی خبر سنا دیتی!”

    ژیانگ کی یہ بات سن کر چانگ نے کہا، "کوئی فرق نہیں پڑتا، پندرہ ہزار پاؤنڈ تو اب بھی مل ہی جائیں گے۔ تم باقی خط پڑھو۔” ژیانگ پھر پڑھنے لگی:

    "لیکن کہانی کا یہ صرف ایک حصّہ ہے۔ دوسرا حصّہ بہت اہم اور ضروری ہے اور وہ حصّہ میرے تکیے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے، جسے میری موت کے بعد ژیانگ نکال سکتی ہے۔ خدا اسے ہمیشہ خوش رکھے!”

    خط کا آخری حصّہ پڑھتے پڑھتے ژیانگ کی آنکھیں بھر آئیں۔ چانگ بھی حیرت اور افسوس سے سوچ رہا تھا، "کاش میں نے لالچ نہ کیا ہوتا۔”

    (چینی ادب سے اردو ترجمہ)

  • بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    کسی گاؤں میں‌ ایک بڑا زمیندار رہتا تھا۔ خدا نے اسے بہت سی زمین، بڑے بڑے مکان اور باغ ‌دیے تھے، جہاں ہر قسم کے پھل اپنے اپنے موسم میں پیدا ہوتے تھے۔

    گائے اور بھینسوں کے علاوہ اس کے پاس ایک اچھّی قسم کا بیل اور عربی گدھا بھی تھا۔ بیل سے کھیتوں میں‌ ہل چلانے کا کام لیا جاتا اور گدھے پر سوار ہو کر زمیندار اِدھر اُدھر سیر کو نکل جاتا۔ ایک بار اس کے پاس کہیں سے گھومتا پھرتا ایک فقیر نکل آیا۔

    زمیندار ایک رحم دل آدمی تھا۔ اس نے فقیر کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔ اس کے کھانے پینے اور آرام سے رہنے کا بہت اچھا انتظام کیا۔ دو چار دن بعد جب وہ فقیر وہاں سے جانے لگا تو اس نے زمیندار سے کہا "چودھری! تم نے میری جو خاطر داری کی ہے، میں ‌اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک فقیر ہوں۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں، جو تمھاری خدمت میں پیش کروں۔ ہاں، میں جانوروں اور حیوانوں کی بولیاں‌ سمجھ سکتا ہوں۔ تم چاہو تو یہ علم میں تمھیں سکھا سکتا ہوں، لیکن تم کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ تم یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤ گے، اور یہ بھی سن لو کہ اگر تم نے یہ بھید کسی سے کہہ دیا تو پھر زندہ نہ رہ سکو گے۔”

    چودھری نے کہا: "بابا! میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤں گا اور تمھارا یہ احسان عمر بھر یاد رکھوں گا۔”

    خیر، فقیر نے اسے جانوروں اور حیوانوں کی باتیں سمجھنے کا عمل سکھا دیا اور چلا گیا۔

    زمیندار کے پاس جو بیل تھا، وہ بیچارہ صبح سے پچھلے پہر تک ہل میں ‌جتا رہتا۔ شام کو جب وہ گھر آتا تو اس کے کھانے کے لیے بھوسا ڈال دیا جاتا، لیکن گدھے کو سبز گھاس اور چنے کا دانہ کھانے کو ملتا۔ غریب بیل یہ سب کچھ دیکھتا اور چپ رہتا۔

    وقت اسی طرح‌ گزر رہا تھا۔ ایک دن جب بیل کھیتوں سے واپس آتے ہوئے گدھے کے پاس سے گزرا تو گدھے نے اسے لنگڑاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا: "بھائی آج تم لنگڑا لنگڑا کر کیوں چل رہے ہو؟”

    بیل نے جواب دیا: "گدھے بھائی! آج مجھے بہت کام کرنا پڑا۔ میں جب تھک جاتا تھا تو نوکر میری پیٹھ اور ٹانگوں پر زور زور سے لاٹھیاں مارتا۔ میری ٹانگ میں چوٹ لگ گئی ہے۔ خیر! اپنی اپنی قسمت ہے۔”

    گدھا چپ رہا اور بیل اپنے تھان کی طرف چلا گیا۔ جہاں بیل بندھا کرتا تھا، وہاں زمیندار کو اپنے نوکر کے لیے گھر بنوانا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد زمیندار نے بیل کے لیے بھی گدھے کے پاس ہی کھرلی بنوا دی۔ جب دونوں کو وقت ملتا، ایک دوسرے سے باتیں بھی کر لیتے۔

    ایک روز بیل کو اداس اور خاموش دیکھ کر گدھے نے اس سے پوچھا: "بیل بھائی! کیا بات ہے؟ آج تم چپ چپ کیوں ہو۔ کوئی بات ہی کرو۔”

    بیل نے کہا: "گدھے بھائی! کیا بات کروں؟ آج پھر بڑی لاٹھیاں پڑی ہیں۔”

    گدھا کہنے لگا: "بیل بھائی! سچ جانو تم۔ تمھاری جو درگت بنتی ہے، وہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں تمھارا دکھ بانٹ نہیں سکتا۔”

    بیل بولا: "گدھے بھائی! تم نے سچ کہا۔ دکھ تو کوئی کسی کا نہیں بانٹ سکتا، لیکن تم کچھ مشورہ تو دو کہ اس مصیبت سے میری جان کیسے چھوٹے گی، اور نہیں تو دو چار دن ہی آرام کر لوں۔”

    گدھے نے کہا: "ایک ترکیب میری سمجھ میں آئی ہے۔ اس پر عمل کرو گے تو پانچ، سات روز کے لیے تو بچ جاؤ گے۔ کہو تو بتاؤں؟”

    بیل بولا:” نیکی اور پوچھ پوچھ، بتاؤ، کیا ترکیب ہے؟”

    گدھے نے بتایا: "تم یہ کرو کہ جب ہل والا تمھیں ہل میں جوتنے کے لیے لینے آئے تو تم آنکھیں بند کر کے کھڑے ہو جانا۔ وہ تمھیں کھینچے تو تم دو قدم چلنا اور ٹھہر کر گردن ڈال دینا۔ پھر بھی اگر اسے رحم نہ آئے اور کھیت پر لے ہی جائے تو کام نہ کرنا اور زمین پر بیٹھ جانا۔ کیسا ہی مارے پیٹے، ہرگز نہ اُٹھنا۔ گر گر پڑنا، پھر وہ تمھیں گھر لے آئے گا۔ گھر لا کر تمھارے آگے چارا ڈالے تو کھانا تو ایک طرف رہا تم اسے سونگھنا تک نہیں۔ گھاس، دانہ نہ کھانے سے کم زوری تو ضرور آجائے گی، مگر کچھ دن آرام بھی مل جائے گا، کیونکہ بیمار جانور سے کوئی محنت نہیں لیا کرتا۔ لو یہ مجھے ایک ترکیب سوجھی تھی، تمھیں بتا دی۔ اب تم کو اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔”

    اتفاق سے زمیندار جو اس وقت ان کے پاس سے گزرا تو اس نے ان دونوں کی باتیں سن لیں اور مسکراتا ہوا اِدھر سے گزر گیا۔ چارے بھوسے کا وقت آ گیا تھا۔ نوکر نے گدھے کے منہ پر دانے کا تو بڑا چڑھایا اور بیل کے آگے بھی چارا رکھ دیا۔ بیل دو ایک منھ مار کر رہ گیا۔ اگلے دن ہل والا بیل کو لینے آیا تو دیکھا کہ بیل بیمار ہے۔ رات کو کچھ کھایا بھی نہیں۔ نوکر دوڑا ہوا مالک کے پاس گیا اور کہنے لگا: "نہ جانے رات بیل کو کیا ہوا۔ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور آج مجھے پورے کھیت میں ہل چلانا ہے، کہو تو باغ میں سے دوسرا بیل لے آؤں؟”

    زمیندار نے بیل اور گدھے کی باتیں تو سن ہی لی تھیں۔ دل میں بہت ہنسا کہ گدھے نے خوب سبق پڑھایا ہے۔

    زمیندار ہل والے سے بولا: "اچھا جاتا کہاں ہے؟ دوسرا بیل لانے کی کیا ضرورت ہے۔ گدھے کو لے جاؤ۔ ہل میں لگا کر کام نکال لو۔”

    گدھے پر مصیبت آ گئی۔ پہلے تو دن بھر تھان پر کھڑے کھڑے گھاس کھایا کرتا، اب جو صبح سے ہل میں جتا تو شام تک سانس لینے کی مہلت نہ ملی۔ دُم بھی مروڑی گئی، ڈنڈے بھی پڑے۔ سورج ڈوبنے کے بعد جب گدھا لوٹ کر اپنے تھان پر آیا تو بیل نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا: "بھیا تمھاری مہربانی سے آج مجھ کو ایسا سکھ ملا کہ ساری عمر کبھی نہیں ملا تھا۔ خدا تم کو خوش رکھے۔” گدھا کچھ نہ بولا۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ اگر دو چار دن یہی حال رہا تو میری جان ہی چلی جائے گی۔ اچھی نیکی کی کہ اپنے کو مصیبت میں پھنسا دیا۔

    دوسرے دن پھر ہل والا گدھے کو لے گیا اور شام تک اسے ہل میں لگائے رکھا۔ جب گدھا تھکا ہارا واپس آیا تو بیل نے پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور خوشامد کی باتیں کرنی چاہیں۔

    گدھا کہنے لگا: "میاں ان باتوں کو رہنے دو۔ آج میں نے مالک کی زبان سے ایک ایسی بُری خبر سنی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ خدا تم کو اپنی حفاظت میں رکھے۔”

    بیل نے کان کھڑے کر کے پوچھا: "گدھے بھائی! سناؤ تو، میرا تو دل دھڑکنے لگا۔”

    گدھا بولا: ” کیا سناؤں۔ مالک ہل والے سے کہہ رہا تھا کہ اگر بیل زیادہ بیمار ہو گیا ہے اور اُٹھنے کے قابل نہیں رہا تو قصائی کو بلا کر اس پر چھری پھروا دو۔” بیل قصائی کے نام سے کانپ اٹھا اور کہنے لگا:‌ "پھر تم کیا مشورہ دیتے ہو؟”

    گدھا بولا: "میں تو ہر حال میں‌ تمھاری بھلائی چاہتا ہوں۔ اب میرا یہ مشورہ ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ۔ چارا، بھوسا کھانے لگو اور صبح کو جب ہل والا آئے تو خوشی خوشی اس کے ساتھ جا کر ہل میں جت جاؤ۔”

    یہ باتیں بھی زمیندار چھپا ہوا سن رہا تھا اور دونوں کی باتوں پر اسے دل ہی دل میں ہنسی آ رہی تھی۔ جان جانے کے ڈر سے بیل نے پھر گدھے کے مشورے پر عمل کیا۔ چارے کی ساری ناند صاف کر دیں اور کلیلیں کرنے لگا۔ صبح ہوئی تو زمیندار اپنی بیوی کو ساتھ لیے بیل کے تھان پر پہنچا۔ بیل نے جو اپنے مالک کو دیکھا تو اچھلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں‌ ہل والا بھی آ گیا۔ اس نے بیل کو بالکل تندرست پایا۔ کھول کر لے چلا، تو وہ اس طرح ‌دُم ہلاتا اور اکڑتا ہوا چلا کہ مالک کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔

    بیوی نے پوچھا: "تم کیوں ہنسے؟ ہنسی کی تو کوئی بات نہیں۔”

    زمیندار نے جواب دیا: "ایسی ہی ایک بھید کی بات ہے، جو میں نے سنی اور دیکھی جس پر میں ہنس پڑا۔”

    بیوی بولی:‌ ” مجھے بھی وہ بات بتاؤ۔”

    زمیندار نے کہا: "وہ بتانے کی بات نہیں ہے، اگر بتا دوں گا تو مر جاؤں گا۔”

    بیوی بولی: "تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم مجھ پر ہنسے تھے۔” زمیندار نے بہت سمجھایا کہ نیک بخت! تجھ پر میں کیوں ‌ہنسوں گا، تجھ کو تو وہم ہو گیا ہے۔ اگر مرنے کا ڈر نہ ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔

    مگر وہ کب ماننے والی تھی، بولی: "چاہو مرو یا جیو، میں پوچھ کر ہی رہوں گی۔”

    جب بیوی کسی طرح نہیں مانی تو زمیندار نے سارے پڑوسیوں‌ کو جمع کیا اور سارا قصہ سنایا کہ میری بیوی ایک ایسی بات کے لیے ضد کررہی ہے، جسے ظاہر کرنے کے بعد میں مَر جاؤں گا۔ لوگوں نے اس کی بیوی کو بہت سمجھایا اور جب وہ نہ مانی تو اپنے گھر چلے گئے۔ زمیندار لاچار ہو کر وضو کرنے چلا گیا کہ بھید کھلنے سے پہلے دو نفل پڑھے۔

    زمیندار کے ہاں‌ ایک مرغا اور پچاس مرغیاں پلی ہوئی تھیں اور ایک کتّا بھی تھا۔ زمیندار نے جاتے جاتے سنا کہ کتّا مرغے پر بہت غصہ ہو رہا ہے کہ کم بخت!‌ تُو کہاں ‌مرغیوں‌ کے ساتھ ساتھ بھاگا چلا جاتا ہے۔ ہمارے تو آقا کی جان جانے والی ہے۔

    مرغ نے پوچھا: "کیوں‌ بھائی! اس پر ایسی کیا آفت آ پڑی! جو اچانک مرنے کو تیار ہو گیا۔”

    کتّے نے ساری کہانی مرغے کو سنا دی۔ مرغے نے جو یہ قصّہ سنا تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: "ہمارا مالک بھی عجیب بے وقوف آدمی ہے۔ بیوی سے ایسا دبنا بھی کیا کہ مر جائے اور اس کی بات نہ ٹلے، مجھے دیکھو! مجال ہے جو کوئی مرغی میرے سامنے سر اٹھائے۔ مالک ایسا کیوں‌ نہیں کرتا کہ گھر میں‌ جو شہتوت کا درخت ہے، اس کی دو چار سیدھی سیدھی ٹہنیاں ‌توڑے اور اس ضدی کو تہ خانے میں لے جا کر اسے ایسا پیٹے کہ وہ توبہ کر لے اور پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرے۔”

    زمیندار نے مرغ کی یہ بات سن کر شہتوت کی ٹہنیاں توڑیں اور انھیں تہ خانے میں چھپا آیا۔

    بیوی بولی: "لو اب وضو بھی کر آئے اب بتاؤ؟”

    زمیندار نے کہا: "ذرا تہ خانے چلی چلو، تاکہ میں بھید بھی کھولوں تو کوئی دوسرا جانے بھی نہیں اور وہیں مر بھی جاؤں۔”

    بیوی نے کہا: "اچھا۔” اور آگے آگے تہ خانے میں گھس گئی۔ زمیندار نے دروازہ بند کر کے بیوی کو اتنا مارا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی:‌ "میری توبہ ہے، پھر کبھی میں‌ ایسی ضد نہیں کروں گی۔”

    اس کے بعد دونوں باہر نکل آئے۔ کنبے والے اور رشتے دار جو پریشان تھے، خوش ہو گئے اور میاں‌ بیوی بڑے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)