Tag: بچوں کی کہانیاں

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں

بچوں کی کہانیاں

  • فقیہ کی دستار اور چور

    فقیہ کی دستار اور چور

    ایک دفعہ کسی فقیہ نے کپڑے کی بہت سے چندیاں دھوئیں اور پاک صاف کرکے انہیں اپنے سَر پر عمامے کے نیچے اس طرح‌ باندھ لیا کہ اس کا عمامہ بلند اور وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے جس کے سَر پر ایسی بھاری دستار سجی ہوئی ہے۔

    بلاشبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہوگیا، لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے پست، کم حیثیت اور بے قیمت ہی تھی۔ دراصل فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی اور پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔

    وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سَر پر باندھ کر اگلے روز صبح سویرے ایک مدرسے کی طرف چلا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ وہاں اس کی یہ اونچی اور سجیلی دستار اس کی عزت و عظمت کا ایک سبب بنے گی۔ وہ سمجھ رہا تھاکہ عزّت اور تکریم ہی نہیں کچھ ہدیہ بھی اپنی جانب متوجہ ہونے والوں سے حاصل کر سکے گا۔

    راستے میں‌ ایک چور نے تاڑ لیا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آرہا ہے۔ جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا چور نے دستار جھپٹ لی اور بھاگا تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔

    فقیہ نے اُسے آواز دی کہ ارے بھائی! یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو بڑے شوق سے لے جا۔ میں نے تجھے عطا کی۔

    فقیہ کی یہ آواز سن کر اُچکے نے دوڑتے دوڑتے اس وزنی دستار کو کھولا اور ایک جگہ سے اس کی سلائی ادھیڑ دی۔ اس میں سے رنگ برنگی کپڑوں کی دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں بوسیدہ کپڑا رہ گیا جسے جھّلا کر زمین پر پھینکا اور رک کر کہنے لگا۔

    اے غریب اور فریبی انسان! تُو نے اس دغا بازی سے خواہ مخواہ میری محنت برباد کی۔ یہ کیسا فریب دیا تُو نے کہ ظاہر میں ایسی عمدہ دستار بنائی جس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں‌ تیرے سر سے کھینچ لوں اور بازار میں بیچ کر مال بناؤں؟ تجھے ذرا حیا نہ آئی ایسا مکر کرتے ہوئے۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے ایک گناہ کیا اور وہ بھی بے لذّت۔

    فقیہ نے اس کی بات سن لی تھی۔ اس نے چور کو جواب دیا، تُو سچ کہتا ہے کہ بے شک یہ دھوکا تھا، لیکن یہ سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کردیا کہ لے جانے سے پہلے اسے کھول کر دیکھ لے۔ اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا۔ اس لٹیرے نے فقیہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    سبق: اے عزیز! فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے اس کا بھی اس نے سب پر اظہار کر دیا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  • جب شیر اڑ سکتا تھا!

    جب شیر اڑ سکتا تھا!

    کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں شیر اڑ سکتا تھا۔ اور اس وقت کوئی بھی شے اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی تھی۔

    وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے شکار کیے ہوئے جانوروں کے ڈھانچوں کی ہڈیوں کو توڑے۔ وہ ان کے ڈھانچے جوں کے توں رکھنا چاہتا تھا ( وہ اسی طرح اپنی اڑنے کی صلاحیت برقرار رکھ سکتا تھا)۔ لہٰذا اس نے ان کی رکھوالی کے لیے دو سفید کوؤں کا ایک جوڑا بنایا۔ انہیں، اس نے ہڈیوں کے گرد بنائے گئے حصار کی دیوار پر بٹھایا اور خود شکار کرنے کے لیے نکل گیا۔

    اب یہ اس کا معمول بن چکا تھا، لیکن ایک دن بڑا مینڈک ادھر آن پہنچا۔ اس نے تمام ہڈیوں کو ٹکڑے کر دیا، ’’آدمی اور جانور زیادہ زندہ کیوں نہیں رہتے؟‘‘ اس نے کوؤں سے کہا، ’’جب وہ آئے تو اسے یہ بھی کہنا کہ میں ادھر جوہڑ کے کنارے رہتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو پھر اسے خود وہاں آنا ہو گا۔‘‘

    ادھر شیر کچھ آرام کرنے کے لیے گھاس پر لیٹا ہوا تھا، اس نے اڑنا چاہا لیکن اس نے محسوس کیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اب وہ سخت غصّے میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حصار پر یقیناً کچھ نہ کچھ ہوا ہے لہٰذا وہ گھر کی طرف چل دیا۔

    ’’تم نے کیا کیا ہے کہ میں اب اڑ نہیں سکتا؟‘‘ وہ جب گھر پہنچا تو اس نے کوؤں سے پوچھا۔

    ’’کوئی یہاں آیا تھا اور اس نے ہڈیوں کے ٹکڑے کر دیے۔‘‘ کوؤں نے جواب دیا اور بولے، ’’اگر تم اس سے ملنا چاہتے ہو تو وہ تمہیں جوہڑ کے کنارے مل سکتا ہے!‘‘

    شیر جب وہاں پہنچا تو مینڈک جوہڑ میں پانی کے کنارے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ہو!‘‘ وہ شیر کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں بولا اور فوراً پانی میں غوطہ لگا کر جوہڑ کے دوسرے کنارے پر جا نکلا۔

    بچوں کی مزید کہانیاں

    شیر بھی چکر لگا کر وہاں پہنچ گیا، لیکن مینڈک دوبارہ غوطہ لگا گیا۔ بڑی کوشش کے باوجود شیر جب اسے نہ پکڑ سکا تو مایوس ہو کر گھر واپس آگیا۔

    کہا جاتا ہے کہ تب سے آج تک شیر اپنے پیروں پر چلتا ہے۔ اور سفید کوّے بھی تب سے بالکل بہرے ہوچکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہوں نے جواب میں بس اتنا کہا تھا کہ ’’اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘

    کیا تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ ہوا کیا تھا؟

    (افریقی لوک ادب سے انتخاب)

  • ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لیے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔

    بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا۔

    ہوا یوں کہ منگو خریداری کر کے گھر واپس جارہا تھا تو ایک کالے بونے نے اسے پکڑ کر بوری میں بند کردیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ جب اسے بوری سے باہر نکالا گیا تو وہ ایک قلعے نما گھر میں تھا۔

    کالے بونے نے اسے بتایا کہ وہ آج سے بونے کا باورچی ہے۔ مجھے جام سے بھرے ہوئے کیک اور بادام پستے والی چاکلیٹس پسند ہیں۔ میرے لیے یہ چیزیں ابھی بناؤ۔ بے چارہ منگو سارا دن کیک اور چاکلیٹس بناتا رہتا، کیوں کہ کالے بونے کو اس کے علاوہ کچھ بھی پسند نہ تھا۔ وہ سارا دن مصروف رہتا۔ وہ اکثر سوچتا کہ یہ کالا بونا کون ہے؟

    ’’آپ کون ہیں ماسٹر؟‘‘ ایک دن منگو نے اس سے پوچھا۔ کالے بونے نے کہا’’اگر تم میرا نام بوجھ لو تو میں تمہیں جانے دوں گا، لیکن تم کبھی یہ جان نہیں پاؤگے!‘‘

    منگو نے ایک آہ بھری، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ کالے بونے کا اصل نام کبھی نہیں جان پائے گا، کیوں کہ اسے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی کہ وہ دوسرے بونوں ہی سے کچھ معلوم کرسکتا۔ اس نے کچھ تکے لگائے۔

    ایک دن کالا بونا باہر گیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور وہ تالا لگا کر چلا گیا۔ منگو جانتا تھا کہ وہ باہر نہیں جاسکتا، کیوں کہ وہ پہلے بھی کوشش کر چکا ہے، مگر ناکام رہا تھا۔ وہ ایک قیدی بن چکا تھا۔ اس نے ایک آہ بھری اور پھر جلدی جلدی کام کرنے لگا۔

    اسے کام کرتے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس نے اپنی چڑیا کے گانے کی آواز سنی۔ وہ وہی گانا گا رہی تھی، جو منگو کو پسند تھا۔ منگو نے کھڑکی سے باہر دیکھا، چڑیا ایک درخت پر بیٹھی تھی۔

    ’’پیاری چڑیا! وہ چلّایا، میں یہاں ہوں۔ اوہ کیا تم مجھے تلاش کر رہی تھیں؟ کیا تم نے اپنی روٹی کے ٹکڑے یاد کیے؟ میں یہاں قید ہوں۔ میں یہاں سے اس وقت ہی نکل سکتا ہوں، جب میں کالے بونے کا نام معلوم کرلوں، جس نے مجھے یہاں قید کیا ہوا ہے۔‘‘ اسی وقت کالا بونا واپس آگیا۔ منگو بھاگ کر تندور کے پاس چلا گیا۔ چڑیا کچھ منٹ تک وہاں بیٹھی گانا گاتی رہی اور پھر اڑ گئی۔

    چڑیا نا خوش تھی۔ وہ پیارے منگو سے بہت مانوس تھی، کیوں کہ وہ اس سے پیار کرتا تھا اور گانا بھی شوق سے سنتا تھا۔ اب صرف چڑیا ہی تھی جو منگو کو باہر نکالنے کی کوشش کرسکتی تھی مگر کیسے؟

    چڑیا نے سوچا کہ وہ کالے بونے کا پیچھا کرے گی اور دیکھے گی کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ اگلے دن جب کالا بونا باہر نکلا تو وہ اس کے پپیچھے ہو لی۔ آخر کار بونا ایک گھر پر رکا، چڑیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گھر کا دروازہ ایک بلّی نے کھولا، جس کا رنگ کالا اور آنکھیں سبز تھیں۔ چڑیا سوچنے لگی کہ دیکھوں کہ یہ کالی بلّی کب بونے کو پکارے گی۔ کالا بونا کچھ دیر وہاں رکا اور پھر چلا گیا۔ چڑیا بھی جانے والی تھی کہ اس نے بلّی کو گاتے سنا۔ وہ اون بُن رہی تھی اور گاتی بھی جارہی تھی۔ وہ گانا بہت عجیب تھا۔

    پہلا انگور کا دوسرا سیب کا
    دوسرا انار کا تیسرا ٹماٹر کا
    تیسرا جامن کا چوتھا لیچی کا
    چوتھا نارنگی کا چوتھا خوبانی کا
    پہلا میرا، دوسرا ان کا، تیسرا ہمارا
    دوسرا آم کا اور تیسرا آڑو کا
    کھیلو گے تو بن جائے گا کام
    ہوسکتا ہے مل جائے اس کا نام

    کالی بلّی یہ گانا گاتی جارہی تھی اور چڑیا سنتی رہی۔ یہاں تک کہ اسے بھی یہ گانا یاد ہوگیا۔ چڑیا اڑ کر قلعے کے پاس جا پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ منگو کالے بونے کے لیے کھانا سجا رہا ہے اور اس سے باتیں بھی کر رہا ہے۔

    اگلے دن چڑیا کالے بونے کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور جب وہ چلا گیا تو اس نے گانا شروع کیا، منگو اس کی آواز سن کر کھڑکی کے پاس آیا اور جب اس نے یہ عجیب گانا سنا تو حیران رہ گیا کہ آج چڑیا دوسرا گانا کیوں گا رہی ہے۔ منگو سمجھ گیا کہ چڑیا گانا گا کر اس کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

    منگو جلدی سے ایک پینسل اور کاغذ لے آیا اور گانا سن کر لکھنے لگا اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اس گانے میں کیا نام چھپا ہے۔ الفاظ کچھ یوں تھے۔

    پہلا انگور کا۔ الف، دوسرا سیب کا، ی، دوسرا انار کا۔ ن، تیسرا ٹماٹر کا۔ الف، تیسرا جامن کا۔ م، چوتھا لیچی کا۔ ی، چوتھا نارنگی کا۔ ن، چوتھا ہی خوبانی کا۔ الف، پہلا میرا یعنی۔ م، دوسرا ان کا۔ ن، تیسرا ہمارا۔ الف، دوسرا آم کا۔ م اور تیسرا آڑو کا و!‘‘

    اس نے حروف کو لفظ کی شکل میں لکھا اور پھر اسے پڑھنے کی کوشش کی۔

    اینا، مینا، منا مو!

    ’’تو یہ ہے کالے بونے کا نام! وہ خوشی سے چلایا’’میں نے کبھی یہ نام سوچا بھی نہیں تھا۔ چڑیا جلدی سے اڑ گئی، کیوں کہ اس نے کالے بونے کی آواز سن لی تھی۔ وہ اندر داخل ہوا اور یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگیا کہ منگو کیک بنانے کی بجائے میز پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے۔

    ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ دھاڑا۔

    ’’کیا تمہارا نام بھوری بلّی ہے؟‘‘ منگو نے جان بوجھ کر پوچھا۔ ’’نہیں نہیں‘‘ کالا بونا بولا، ’’جا کر کام کرو۔‘‘ کالا بونا پوری قوّت سے چیخا اور کہا، ’’میرے کیک کہاں ہیں؟‘‘

    ’’کیا تمہارا نام ’’اینا، مینا، منا، مو‘‘ ہوسکتا ہے؟‘‘ منگو خوشی سے چیخا۔

    کالے بونے نے منگو کو گھورا اور ڈر سے پیلا ہوگیا، تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔ تمہیں میرا راز معلوم ہوگیا ہے تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ منگو خوشی سے باہر بھاگا۔

    وہ سارے راستے کودتا پھلانگتا، اپنے گھر پہنچا۔ اس نے اپنے باغ کے دروازے پر چڑیا کو اپنا منتظر پایا۔ منگو نے چڑیا کا بہت شکریہ ادا کیا کہ یہ رہائی صرف اس کی وجہ سے ملی ہے۔ اب منگو کی دوستی چڑیا سے مزید گہری ہوگئی اور وہ روز اس کا گانا سنتا اور اسے روٹیاں بھی کھلاتا۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    اگر ہم بچّوں کے ادب کے مدارج دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بچّوں کے ادب کی ترقّی کا سلسلہ انیسویں صدی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی میں تو اس میں ایک زبردست انقلاب آیا۔ اس صدی میں بچّوں کا ادب عروج کی منزلوں پر پہنچ گیا۔

    مشرقی ملکوں میں بچّوں کے ادب میں زندگی کے مادّی پہلوؤں مذہب و اخلاق پر خاص طور سے توجہ دی گئی جیسے سچّے تنتر میں دل چسپ کہانیوں کے ذریعہ اخلاق و حکمت کی تعلیم دی گئی۔ بچّے کا کائنات سے اوّلین رابطہ کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے یعنی طوطے، مینا، پریوں، پرندوں، راجاؤں، پھولوں کی کہانیوں کے ذریعہ ارد گرد کی چیزوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ کہانیوں کے کردار اس کے ارد گرد گھومنے لگتے ہیں۔ اور وہ خود کو ان چیزوں کا ایک حصّہ سمجھنے لگتا ہے۔

    ان کہانیوں کے ذریعہ وہ ان چیزوں کو اپنانے اور رد کرنے کا عمل سیکھتا ہے۔ ڈرامے کی دنیا بچّوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں پر وہ خود کو وہ کردار ادا کرتے دیکھتا ہے جس کو وہ کتابوں میں پڑھتا ہے۔ اسی لیے بچّے ڈرامے بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچّوں کے ڈرامے بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس کو بڑے شوق سے اپناتے ہیں۔ تصویر بھی بچّے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ تصویر کا تعلق براہِ راست دل اور نظر سے ہوتا ہے۔ یہ بچّوں کی قوّتِ متخیلہ بڑھاتی ہے۔ تصویر کی مدد سے وہ تمام چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

    بچّوں کے ادب کی اہم خصوصیت اس کا حیرت اور استعجاب ہے۔ اس کی وجہ سے بچّوں میں کیوں، کیا اور کیسے، کب جیسے سوالا ت اٹھتے ہیں۔چوں کہ بچّہ کی فطرت متجسس ہوتی ہے، اس لیے بچّوں کے ادب میں بھی حیرت اور تجسس کا عنصر ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ جانور کی شکل تو کبھی دیو اور بھوت تو کبھی پری کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اسی لیے پنچ تنتر میں جانوروں کی بولی کی وجہ سے وہ اتنی دل چسپ اور انوکھی چیز بن گئی کہ صدیوں کے بعد بھی اس ادب کا مزہ تر و تازہ ہے۔

    اس کے علاوہ بچّوں کے ادب کی زبان سادہ عام فہم اور مزے دار ہو جو روز مرّہ کے الفاظ پر مشتمل ہو جن کو پڑھ کر بچّے نہ صرف لطف اندوز ہوں بلکہ وہ کہانی کی چاشنی کو محسوس کریں۔

    اس کے بعد بچّوں کی سیرت کی تعمیر ہو، مذہبی عقائد کے قصّے بزرگوں کی کہانیاں، ان کی سیرت، بہادروں کے کارنامے، خدا کا خوف، سیرت سے واقفیت بھی ادبِ اطفال کے ادیبوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ ادبِ اطفال کی سب سے اہم ذمہ داری یکجہتی، بھائی چارگی، حب الوطنی، آپسی میل ملاپ کا بڑھاوا ہو۔ ان کی تربیت میں نفرت، عداوت، جلن جیسی رزیل چیزوں کو ان کی سیرتوں سے پرے رکھنا بھی ادیب کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے موضوعات ایسے ہوں جن میں ہمیشہ نیا پن ہو کیوں کہ وہ ایک جیسی چیزوں سے اکتا جاتے ہیں۔

    ادب کے ذریعہ بچوں کو تنگ نظری تعصب جیسی برائیوں سے دور رہنے کا درس فراہم کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی باتیں بتائی جائیں جن سے ان کے ذہن میں وسیع النّظری کو فروغ ملے اور محبت کی فضا قائم رہ سکے۔

    (ماخوذ از: مضمون برائے سمینار بہ عنوان "اردو ادب: تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل” شمیم سلطانہ، تلنگانہ)

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

  • پھول والے دادا جی…

    پھول والے دادا جی…

    کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتّا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔

    ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا بھی اسے ہٹانے کی کوشش کرتا پوچی اتنے ہی زور سے بھوں بھوں کرتے ہوئے پھر زمین کریدنے لگتا۔ آخر بوڑھے نے پھاوڑا اٹھا کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ کھودنے پر وہاں سے ہیرے اور موتیوں سے بھرا ہوا گھڑا نکلا جسے پاکر بوڑھا بہت خوش ہوا اور سارا خزانہ لے کر اپنے گھر آگیا۔

    بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بے حد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادہ۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔

    اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لیے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتّے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچرا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔

    جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی۔ نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکّوں میں بدلنے لگا۔

    پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصّے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہوگئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔

    اسی وقت وہاں سے بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ بادشاہ نے پھولوں سے لدے پیڑوں کو دیکھا۔ اس کا دل خوش ہوگیا اور اس نے بوڑھے کو اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔

    حاسد پڑوسی نے یہ دیکھا تو بچی ہوئی راکھ اٹھالی اور بادشاہ کے راستے میں جاکر ایک سوکھے پیڑ پر راکھ ڈالی۔ پیڑ ویسا ہی ٹھنٹ بنا رہا پر راکھ اڑ کر بادشاہ کی آنکھوں میں جا پڑی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب پیٹا۔

    بوڑھا آس پڑوس میں پھول والے دادا جی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    (اس کہانی کے خالق اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد افسر میرٹھی ہیں۔ وہ بامقصد اور تعمیری ادب کے قائل تھے اور اسی خیال کے تحت انھوں نے بچّوں کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں)

  • چاندی کا فرشتہ

    چاندی کا فرشتہ

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔

    اسی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio) تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مال دار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔

    انتونیو بہت ایمان دار اور ہوشیار آدمی تھا، اس لیے اُس کا مالک اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا لیکن اس کے محنتی اور ایمان دار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔

    انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita) سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا (Malaga) کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوب صورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔

    انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی، مگر اب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لیے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برف باری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔

    ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوش نما منظر تھا۔

    ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے، پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ دونوں کے لیے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھا مل جائے گا، اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔

    انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھما جھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے، چاندی کا نیزہ لیے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لیے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

    پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایمان دار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی، لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔

    راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے؟‘‘

    انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔

    راستے میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لیے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔

    لوگوں نے اُسے ان بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اسے جا بجا خوب صورت لڑکیاں اُون اور انڈے لیے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوب صورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔

    بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتش بازی دیکھے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔

    انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاندی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔

    اُس درویش نے انتونیو کے پاس آکر کہا، ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟ میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں، مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیوں کہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘

    درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جس پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔

    جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُتر کر بولا، ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیوں کہ اس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔ بہرحال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا، ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا، مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔

    جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔

    پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگا جیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ’’اِسے مت بھولنا! یہ ساری چاندی تمہارے لیے ہی ہے، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

    جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔

    منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لیے اُس نے گھر آ کر انتونیو سے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایمان دار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔

    منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔

    منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپے دیے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچّوں، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے۔

    (اسپین کے لوک ادب سے انتخاب)

  • دو دوست، دو دشمن

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔

    بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا خاندان بھی یہاں سیکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو مَیں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، ’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوّت کا پتا چلے۔‘‘

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

    دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔ دلدل اب بھی موجود ہے۔

    (اس مختصر اور سبق آموز کہانی کے مترجم اردو کے معروف ادیب اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • انسانی کنبہ

    انسانی کنبہ

    جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں، لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پَر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔

    اچھا، اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سَر رکھے آنے جانے والوں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لیے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔

    یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتّھر سے ٹھوکر لگی، اور ٹھوکر لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔

    اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں۔ وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔

    لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا، مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔

    میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھرّوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!

    (حجاب امتیاز علی کا شمار اردو کی اوّلین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوں اور رومانی انداز کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ بچّوں کے لیے لکھی گئی اپنی اس مختصر کہانی کے ذریعے انھوں نے دنیا بھر کے لیے امن اور سلامتی کا درس اور ایک آفاقی پیغام دیا ہے)

  • کیوی کے پَر کیسے گم ہوئے

    کیوی کے پَر کیسے گم ہوئے

    اس کہانی میں صرف نیوزی لینڈ کے ان مقامی پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ ہے جیسے ‘پوکے کو’ جو نیلے رنگ کا لمبی ٹانگوں والا مرغی کی قامت کا پرندہ ہے۔ ‘ٹوئی’ جو مینا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ‘پیپی وارو۔ روا’ یعنی سنہرے اور سبز پروں والی بلبل جیسا پرندہ اور ‘کیوی’ جس کی لمبی چونچ ہوتی ہے اور یہ وہاں کا قومی پرندہ ہے۔ اس کہانی کا آغاز کرنے سے پہلے انھوں نے بچّوں سے یوں خطاب کیا ہے:

    بچّوں کے لیے یہ کہانی سلمیٰ جیلانی نے تخلیق کی ہے جو کئی سال سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں، وہ افسانہ نگار، شاعرہ اور مترجم ہیں۔

    پیارے بچّو! آج میں آپ کو اپنے موجودہ دیس نیوزی لینڈ کی ایک لوک کہانی سناتی ہوں جو یہاں کے قومی پرندے کیوی سے متعلق ہے۔ آپ نے یا آپ کے امّی ابّو نے وہ اشتہار شاید سنا ہو جس میں سوال کیا جاتا ہے۔

    ’’پیارے بچّو کیوی کیا ہے؟‘‘ اور پھر جواب دیا جاتا ہے کہ ’’کیوی ایک پرندہ ہے جو پالش کی ڈبیا پر رہتا ہے۔‘‘

    نہیں بھئی، کیوی ہے تو پرندہ، مگر پالش کی ڈبیا پر نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے جنگلوں میں رہتا ہے۔ یہ جانوروں کی سب سے قدیم نسل سے تعلق رکھتا ہے اور یہ واحد پرندہ ہے جو اُڑ نہیں سکتا کیوں کہ اس کے پَر ہی نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود پرندہ کہلاتا ہے۔

    اس کے علاوہ اس کی کئی اور باتیں عام پرندوں سے مختلف ہیں یعنی یہ رات کے وقت کھانا پینا تلاش کرنے نکلتا ہے۔ اکثر قومی شاہراہ پر بھی نکل آتا ہے اور تیز رفتار کاروں کا نشانہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل اور بھی تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انڈا اس کے قد کی مناسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے اور اکثر انڈے دیتے ہوئے بھی مادہ کی جان چلی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ تعداد میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں اور اگر ان کی دیکھ بھال نہ کی گئی تو اگلی نسل ان کو دیکھ بھی نہیں سکے گی۔

    خیر یہ تو تھا کیوی کا مختصر تعارف اب آتے ہیں، اس لوک کہانی کی طرف جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔

    ایک دن ’تنی مہوٹہ‘ یعنی جنگل کا دیوتا درخت (یہ یہاں کے سب سے قدیم درخت کاوری کو بھی کہتے ہیں جو ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں) جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بچّے یعنی درخت جو آسمانوں کو چھوتے تھے کچھ بیمار لگ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کیڑے انہیں کھا رہے ہوں، اس نے اپنے بھائی ’تنی ہوکا ہوکا‘ یعنی آسمانوں کے بادشاہ سے کہا کہ وہ اپنے بچّوں کو بلائے چناں چہ اس نے فضاؤں کے تمام پرندوں کو ایک جگہ پر جمع کیا۔

    ’تنی مہوٹہ‘ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ” کوئی چیز میرے بچّوں یعنی درختوں کو کھا رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ایک آسمانوں کی چھت سے نیچے اتر آئے اور زمین کے فرش پر اپنا گھر بنائے تاکہ درخت اس تکلیف سے نجات پائیں، اور تمہارا گھر بھی محفوظ رہے۔ ہاں تو بتاؤ تم سے کون ایسا کرنے کو تیار ہے؟‘‘

    ان میں سے کوئی پرندہ بھی نہیں بولا سب کے سب ایک دم خاموش رہے۔

    ’تنی ہوکا ہوکا‘ مینا کی طرح کے پرندے ’ٹوئی‘ کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

    ’’ٹوئی! کیا تم زمین کے فرش پر جا کر رہنا پسند کرو گے؟‘‘

    ٹوئی نے درختوں کے اوپر کی طرف نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتوں سے چھن کر نیچے جا رہی تھی، پھر نیچے جنگل کے فرش کی طرف دیکھا، جو بہت ٹھنڈا اور سیلا معلوم ہو رہا تھا اور وہاں بہت اندھیراتھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین کپکپا رہی ہو۔

    ٹوئی نے ڈرتے ہوئے کہا’’محترم تنی ہوکا ہوکا، نیچے تو بہت اندھیرا ہے اور مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں نیچے نہیں جا سکتا۔‘‘

    پھر ’تنی ہوکا ہوکا‘ نیلے رنگ کے لمبی ٹانگوں والے پرندے ’پوکے کو‘ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور اپنا سوال دہرایا۔

    ’’پوکے کو! کیا تم نیچے جا کر رہنا چاہو گے؟‘‘

    ’پوکے کو‘ نے نیچے کی طرف دیکھا۔ اسے بھی زمین نم آلود اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوئی۔ اس نے ادب سے جواب دیا، ’’جناب ’تنی ہوکا ہوکا۔‘ زمین کا فرش تو بہت ہی گیلا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرے خوب صورت پاؤں گیلے ہو جائیں۔

    اس کے بعد تنی ہوکا ہوکا ’پیپی وارو۔ روا‘ یعنی سنہری بلبل کی طرح کے پرندے سے مخاطب ہوا۔

    ’’تو’پیپی وارو۔ روا‘! تمہارا کیا جواب ہے، کیا تم درختوں کی جان بچانے کے لیے جنگل کی چھت سے نیچے اترو گے؟‘‘

    سنہری پرندے نے جنگل کی چھت سے چھنتی ہوئی سورج کی روشنی کی طرف دیکھا، پھر دوسرے پرندوں کی طرف نظر دوڑائی اور لا پروائی سے بولا۔

    ’’جناب محترم فی الحال تو میں اپنا گھونسلا بنانے میں بے حد مصروف ہوں، میں نیچے جا کر نہیں رہ سکتا۔‘‘

    باقی سب پرندے خاموشی سے ان کی باتیں سن رہے تھے، اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔

    ایک گہری اداسی’ تنی ہوکا ہوکا‘ کے دل میں اتر گئی، جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے بچّوں میں سے کوئی بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنے کو تیار نہیں، اس طرح نہ صرف اس کا بھائی اپنے بچّوں یعنی درختوں کو کھو دے گا بلکہ کسی پرندے کا گھر بھی باقی نہیں بچے گا۔ ’تنی ہوکا ہوکا‘ اس مرتبہ کیوی کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

    ’’اے کیوی! کیا تم جنگل کی چھت سے نیچے اترنا پسند کرو گے؟‘‘

    کیوی نے درختوں پر نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتّوں سے چھن چھن کر ایک خوب صورت منظر پیش کر رہی تھی، اس نے اپنے اطراف دیکھا جہاں اسے اپنا خاندان دکھائی دیا، پھر اس نے زمین کے فرش کی جانب نظر کی، ٹھنڈی اور نم آلود زمین، اس کے بعد اپنے اطراف دیکھتے ہوئے’تنی ہوکا ہوکا‘ کی طرف گھوما اور بولا:

    ’’ہاں میں نیچے جاؤں گا۔‘‘ یہ سن کر ’تنی مہوٹا‘ اور تنی ہوکا ہوکا کے دل خوشی سے اچھل پڑے۔ اس ننھے پرندے کی بات انہیں امید کی کرن دکھا رہی تھی، لیکن تنی مہوٹا نے سوچا۔ کیوی کو ان خطرات سے آگاہ کر دیا جائے جن کا سامنا زمین پر جا کر رہنے سے اسے ہونے والا تھا۔

    ’’اے کیوی! جب تم زمین پر جا کر رہو گے تو تم موٹے ہو جاؤ گے، لیکن تمہاری ٹانگیں اتنی مضبوط ہو جائیں گی جو ایک جھٹکے سے لکڑی کو توڑ ڈالیں گی، تم اپنے خوب صورت چمکیلے پر کھو دو گے یہاں تک کہ اڑ کر دوبارہ جنگل کی چھت تک بھی نہیں پہنچ سکو گے اور تم دن کی روشنی بھی دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکو گے، کیا تمہیں یہ سب منظور ہے؟ کیا تم پھر بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنا چاہو گے؟‘‘

    تمام پرندے خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے، کیوی نے اداسی سے درختوں کی شاخوں سے چھن کر آتی ہوئی، سورج کی روشنی کی طرف ایک الوداعی نظر ڈالی، پھر دوسرے پرندوں کی جانب دیکھا، ان کے خوب صورت اور رنگین پَروں اور اڑان بھرنے والے بازوؤں کو خاموش الوداع کہی، ایک بار پھر اپنے اطراف دیکھا اور’ تنی ہوکا ہوکا‘ سے مخاطب ہوا۔

    ’’ہاں، میں پھر بھی جاؤں گا۔‘‘ تنی ہوکا ہوکا نے اس کی بات سنی اور پھر دوسرے پرندوں کی طرف متوجہ ہوا۔

    ’’اے ٹوئی! چوں کہ تم جنگل کی چھت سے اترنے سے بہت خوف زدہ ہو، اس لیے آج سے تمہیں دو سفید پر دیے جاتے ہیں، جو تمہارے بزدل ہونے کی نشانی کے طور پرتمہاری گردن پہ ہمیشہ ثبت رہیں گے۔

    اور ہاں’ پوکے کو‘! تم نیچے جا کر اس لیے رہنا نہیں چاہتے کہ تمہارے پاؤں گیلے نہ ہو جائیں تو آج سے تم ہمیشہ دلدلوں اور گندے پانی کے جوہڑوں میں رہا کرو گے اور تمہارے خوب صورت پاؤں کیچڑ میں لتھڑے رہیں گے۔

    ’پیپی وارو۔ روا‘! چوں کہ تم اپنا گھونسلا بنانے میں اتنے مصروف ہو کہ نیچے اتر کر رہنا تو کیا میری بات تک سننے کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں تو آج سے تمہاری سزا یہ ہے کہ تم کبھی اپنا گھونسلا نہیں بنا سکو گے بلکہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں انڈے دیا کرو گے۔

    لیکن پیارے کیوی! اپنی اس بے مثال قربانی کی وجہ سے تم تمام پرندوں میں سب سے زیادہ مشہور پرندے ہو گے اور تمہیں لوگ سب سے زیادہ پیار کریں گے۔‘‘

    بچّو، اس دن سے آج تک کیوی ایک مختلف پرندہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے نیوزی لینڈ کا قومی پرندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔