Tag: بچوں کا ادب

  • سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

    سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک گاؤں تھا۔ گاؤں کے قریب سے ایک سڑک گزرتی تھی جو گاؤں کو شہر سے جوڑتی تھی۔ سڑک پکی، ڈامر کی تھی۔ باقاعدہ پلان کر کے ماہر انجینئروں نے بنائی تھی۔ چھوٹی موٹریں، بیل گاڑیاں، تانگے، سائیکلیں سب اس پر سے گزرتی تھیں۔ سڑک کو اپنے کارآمد ہونے پر بہت غرور تھا۔

    سڑک کے پاس سے ایک پگڈنڈی بھی گزرتی تھی۔ پگڈنڈی سڑک کی طرح شاندار نہیں تھی۔ بس ایک اوبڑ کھابڑ راستہ تھا جس پر اسے گزر کر گاؤں والے اپنے اپنے گھروں یا کھیتوں میں جاتے، جنگل میں لکڑیاں توڑنے، مہوا چننے جاتے، اسے کسی نے باقاعدہ بنایا نہیں تھا۔ بس لوگ چلنے لگے، پگڈنڈی بنتی گئی۔ کافی آگے جاکر یہ پگڈنڈی چھوٹی چھوٹی اور کئی پگڈنڈیوں میں منقسم ہو جاتی تھی۔

    پگڈنڈی کہیں سڑک کے متوازی چلتی، کہیں اس سے دور چلی جاتی اور پھر گھوم گھام کر سڑک کے بازو سے چلنے لگتی۔ ایک روز مغرور سڑک نے اس سے کہا: ’’تم میرے ساتھ چلتی ہوئی بالکل اچھی نہیں لگتی، میں چوڑی کشادہ، کو لتار سے چمکتی ہوئی، تم پتلی، اوبڑکھابڑ، بے رنگ، بے چمک‘‘

    پگڈنڈی کیا کہتی، بات تو صحیح تھی۔ سڑک نے پھر کہا، ’’نہ جانے لوگ تمہیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ منزل تک جانے کے لئے تمہارا سہارا لیتے ہیں۔‘‘

    پگڈنڈی نے خاموشی ہی مناسب سمجھی، کہتی بھی تو آخر کیا کہتی؟ اس کی خاموشی، سڑک کو اکھر گئی، تیز ہوکر بولی۔

    ’’میری بات کیا تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ آخر میرے آزو بازو تم جیسی مریل اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں کے جال کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    پگڈنڈی کو اپنی خاموشی توڑنی پڑی، بولی، ’’میری بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ گاؤں والے مجھے اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ پہلے ایک دو لوگ گزرتے تھے۔ اب تو میں دن رات مصروف رہتی ہوں۔ بغیر کسی منصوبہ کے میں وجود میں آ گئی۔‘‘

    ’’اور کیا؟ بغیر کسی منصوبے کے بنی ہو اسی لئے نہ خوبصورت ہو نہ چست درست۔ مجھے دیکھو سرکار نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر بڑی رقم خرچ کر کے مجھے بنایا ہے۔ پھر کیڑے مکوڑوں اور تمہاری طرح میں اپنے آپ نہیں بن گئی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئروں کے ہنر کی مثال ہوں میں۔ سیکڑوں کاریگروں کی محنت کا ثمر ہوں میں، ضرورت کے تحت بنی ہوں، سرکار کے خوابوں کی تعبیر ہوں میں۔‘‘

    ’’ضرورت کے تحت تو میں بھی بنی ہوں سڑک بہن۔‘‘ پگڈنڈی نے پہلی مرتبہ سڑک کی مخالفت کی۔ اب تک وہ اس کی لن ترانیاں خاموشی سے سنتی آئی تھی۔ ’’جہاں تم کام نہ آؤ وہاں میں کام آتی ہوں، اور مجھ سے کام لیا بھی جاتا ہے۔ جہاں تلوار کام نہ دے وہاں سوئی کام آتی ہے۔ میری ضرورت تھی اور رہے گی۔‘‘

    ’’کیا کہا تم نے؟‘‘ سڑک چراغ پا ہو کر بولی، ’’جہاں میں کام نہ آؤں وہاں تم کام آتی ہو؟ میری برابری کرنے چلی ہو؟ اپنی شکل تو دیکھو۔‘‘

    اسی وقت ایک بڑی لاری سڑک پر آکر رک گئی۔ دراصل سامنے سڑک پر ایک پل تھا جس کی مرمت کا کام چل رہا تھا اور وزنی ٹرکوں اور بسوں کی اس پل پر سے گزرنے کی ممانعت کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر لاری سے نیچے اترے، ان کے پیچھے تمام مسافر۔ دیکھتے دیکھتے تمام مسافروں نے پگڈنڈی کا رخ کیا۔ پگڈنڈی پل کے نیچے سے گزر کر پکی سڑک سے مل جاتی تھی۔ مسافروں کے نیچے اترتے ہی ڈرائیور لاری کو سنبھال کر پل کے پار لے گیا، مسافر پگڈنڈی سے ہو کر لاری تک پہنچے اور لاری آگے روانہ ہو گئی۔

    سڑک جو کچھ دیر پہلے بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہی تھی، ندامت سے بولی ’’بہن پگڈنڈی! مجھے معاف کر دو۔‘‘

    ’’سڑک بہن!‘‘ پگڈنڈی نے خوش دلی سے کہا۔ ’’اس میں معافی کی کیا بات ہے؟ کبھی کبھی معمولی سی بات سمجھ میں دیر سے آتی ہے۔ اس واقعہ نے یہ تو سمجھا دیا کہ پکی سڑک جہاں کام نہ آئے وہاں کچی اوبڑکھابڑ پگڈنڈی کیسے کام آتی ہے۔ اور وہاں میں اتنا ضرور کہوں گی کہ ہر جگہ ہر وقت بڑی بڑی ہی چیزیں کارآمد ثابت ہوں، یہ ضروری نہیں ہے۔ اپنی بساط بھر ہر کوئی دوسروں کے کام آنا چاہتا ہے۔ یہی زندگی ہے۔‘‘

    (مصنّف:‌ بانو سرتاج)

  • چور پتّھر (دل چسپ کہانی)

    چور پتّھر (دل چسپ کہانی)

    بہت دنوں پہلے کسی گاؤں میں ایک مچھیرا رہتا تھا۔ اس کی ایک بیوی تھی اور ایک لڑکا۔ بیچارہ تھا بہت غریب! لیکن محنت بھی خوب کرتا تھا۔

    وہ صبح ہوتے ہی اپنا جال لے کر چھوٹی سی کشتی میں بیٹھ جاتا اور سمندر کی چنچل موجوں سے کھیلتا ہوا دور بہت دور مچھلیاں پکڑنے کے لئے نکل جاتا۔ گھر میں اس کی بیوی بھی محنت کرتی۔ گھر کا کام کاج کرنے کے بعد وہ گرم گرم مزے دار بھجیے بناتی اور بیچنے کے لئے اپنے لڑکے کو دے دیتی۔ وہ ان بھجیوں کو لے کر گاؤں کے گلی کوچوں میں چلا جاتا۔ اس طرح مچھیرے کا یہ چھوٹا سا کنبہ ہنسی خوشی اپنےغریبی کے دن گزار رہا تھا۔

    ایک روزمچھیرے کا لڑکا بھجیے بیچنے کے لئے گاؤں میں دور نکل گیا۔ جب سب بھجیے بک گئے تو وہ پیسوں کو تھال میں رکھ کر، تھال سر پر اٹھائے اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر دور تھا، دھوپ تیز تھی۔ لڑکا چلتے چلتے تھک گیا۔ راستے میں اسے ایک بڑا سا پتھر دکھائی دیا۔ پتھر کو دیکھ کر اسے خیال آیا کہ اس کے سائے میں کچھ دیر آرام کر لوں۔ یہ سوچ کر اس نے تھال پتھر پر رکھ دیا اور خود پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

    تھوڑی ہی دیر بعد اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا۔ کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ تھال خالی ہے اور اس میں ایک بھی پیسہ نہیں۔ اب تو وہ بہت ڈرا کہ اگر خالی ہاتھ گھر گیا تو ماں ناراض ہوگی۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ شاید کوئی اس کی مدد کرے لیکن وہاں سوائے گھاس پھونس اور پتھروں کے کچھ بھی نہیں تھا۔
    آخر بہت سوچ بچار کے بعد ایک بات اس کی سمجھ میں آئی۔ اس نے جلدی سے خالی تھال ہاتھ میں لیا اور قاضی کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس وقت قاضی صاحب اپنے دوستوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ جب انہوں نے ایک چھوٹے سے لڑکے کو خالی تھال لئے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی اور ان کے دوستوں کو بھی تعجب ہوا۔

    بچوں کی کہانیاں

    لڑکا قاضی صاحب کے سامنے آیا، تھال زمین پر رکھا اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ قاضی صاحب نے مسکرا کر پوچھا، ’’کیوں بیٹا! کیا بات ہے؟ یہاں کیسے چلے آئے؟‘‘

    قاضی صاحب کے لہجے میں ہمدردی تھی، محبت تھی اور لڑکا اسی ہمدردی اور محبت کا محتاج تھا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اس نے روتے ہوئے اپنی پوری کہانی انہیں سنانا شروع کی۔ قاضی صاحب اور ان کے دوستوں نے لڑکے کی بپتا کو بڑے غورسے سنا۔ جب اس کی آپ بیتی ختم ہوئی تو چاروں طرف ایک خاموشی چھا گئی۔ قاضی صاحب نے اپنی آنکھیں موند لیں، سر جھکا لیا اور کچھ سوچنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے سر اٹھایا، آنکھیں کھولیں اور بڑی متانت اور سنجیدگی سے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا۔ ’’اس لڑکے کے ساتھ جاؤ اور اس پتھر کو، جس پر اس نے پیسوں کا تھال رکھا تھا، رسیوں سے جکڑ کر ہماری خدمت میں پیش کرو۔ اس نے اس غریب کے پیسے چرائے ہیں، اس کی محنت چرائی ہے۔ لہٰذا اسے اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘

    قاضی صاحب کے اس حکم پر سپاہیوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ وہ سوچنے لگے کہ کہیں پتھر بھی چوری کر سکتا ہے۔ لیکن قاضی صاحب کا حکم تھا، لہٰذا وہ لڑکے کے ساتھ گئے۔ پتھر کو رسیوں سے باندھا اور کھینچتے ہوئے چلے۔ جب گاؤں کے لوگوں نے قاضی کے سپاہیوں کو اس طرح پتھر لے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟ سپاہیوں نے جو سچ بات تھی وہ بتا دی۔ بس پھر کیا تھا آن کی آن میں یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی کہ ایک پتھر نے مچھیرے کے لڑکے کے پیسے چرائے ہیں اور اسے انصاف کے لئے قاضی صاحب کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی گاؤں کے سب لوگ عدالت کی طرف چل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے عدالت کا کمرہ ہجومیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔

    قاضی صاحب عدالت میں کرسی پر بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے ایک طرف مچھیرے کا لڑکا ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور دوسری جانب رسیوں میں جکڑا ہوا پتھر رکھا ہوا تھا۔ قاضی صاحب نے لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ تم نے پیسے تھال میں رکھے تھے اور تھال کو اس پتھر پر رکھا تھا؟‘‘ لڑکے نے بڑے ادب سے جواب دیا، ’’جی حضور، مجھے پورا یقین ہے کہ تھال اس پتھر پر تھا اور پیسے تھال میں تھے۔‘‘
    اب قاضی صاحب نے اپنا رخ پتھر کی جانب کیا اور کہا، ’’مدعی نے اس وقت جو کچھ بھی کہا ہے، کیا تمہیں اس سے انکار ہے؟‘‘

    قاضی صاحب کے اس سوال پر پوری عدالت میں ایک قہقہہ گونج اٹھا۔ سب آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کہیں پتھر بھی چوری کر سکتا ہے؟ کہیں پتھر بھی سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ قاضی نے لوگوں سے عدالت کی عزت اور احترام کی خاطر خاموش رہنے کے لئے کہا۔ عدالت میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ جب پتھر کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا تو قاضی صاحب نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’چونکہ عدالت کے سوال پر پتھر کی خاموشی اپنے جرم کا اقبال کر رہی ہے، اس لئے اپنے جرم کے پاداش میں اسے سو کوڑے لگائے جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔‘‘

    قاضی صاحب کے اس فیصلہ پر عدالت میں پھر ایک بار قہقہہ کی آواز گونج اٹھی۔ چوبدار نے دوبارہ مجمع کو خاموش رہنے کا حکم دیا۔ عدالت کے کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اب پتھر کو عدالت کے بیچوں بیچ لایا گیا۔ اس کی رسیاں کھول دی گئیں۔ سپاہی کا کوڑا اس پر برسنا شروع ہوا۔ کوڑے کی آواز فضا میں کانپنے لگی اور لوگ اس عجیب و غریب سزا پر ہنسنے لگے۔

    سزا مکمل ہو گئی۔ قاضی صاحب نے عدالت برخاست کر دی اور جب لوگ باہر جانے لگے تو قاضی صاحب نے اچانک سبھوں کو رک جانے کا حکم دیا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا!’’چوں کہ آپ لوگوں نے عدالت کے کمرے میں بے اختیار قہقہہ لگا کر اس کی توہین کی ہے، لہٰذا ہر شخص کو سزا کے طور پر ایک پیسہ جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ایک سپاہی پانی سے بھرا ہوا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے دروازہ پر کھڑا رہے گا اور ہر شخص اس پانی سے بھرے ہوئے پیالہ میں ایک پیسہ ڈال کر باہر کی طرف نکل جائے گا۔ حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔‘‘

    قاضی اپنا حکم سنا کر خاموش ہو گیا۔ عدالت کا کمرہ مختلف شکوک اور شبہات کا مرکز بن گیا۔ سپاہیوں نے مجمع کو ایک قطار کی صورت میں کھڑا کر دیا۔ اب ہر شخص باری باری اس پانی سے بھرے ہوئے پیالہ میں ایک پیسہ ڈالتا اور باہر کی طرف نکل جاتا۔ قاضی صاحب کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ایک شخص پیالہ میں پیسہ ڈال کر باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ قاضی صاحب نے چلّا کر کہا، ’’اس شخص کو گرفتار کیا جائے۔ سپاہیوں نے اسے فوراً پکڑ لیا اور قاضی کے سامنے پیش کیا۔ عدالت دوبارہ بیٹھی۔ قاضی صاحب نے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’چور پکڑا گیا اور آپ لوگوں کے سامنے حاضر ہے۔‘‘

    اس کے بعد قاضی نے گرفتار شخص سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’سچ سچ بتاؤ، کیا تم نے اس غریب کے پیسے نہیں چرائے؟ اگر تم نے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا تو تمہیں دگنی سزا دی جائے گی۔ ایک چوری کے الزام میں اور دوسرا جھوٹ بولنے کے جرم میں۔‘‘ اس شخص نے فورا اپنے گناہ کو قبول کیا۔ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا۔ سبھوں نے مل کر قاضی صاحب سے درخواست کی کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے چور کو کیسے پکڑا؟ قاضی صاحب نے کہا، ’’پتھر کو عدالت میں پیش کرنے کا مقصد آپ سبھوں کو یہاں جمع کرنا تھا۔ پتھر سے گفتگو اور اس کی سزا ایک مذاق تھا۔ جس کا مقصد آپ لوگوں کو ہنسا کر توہینِ عدالت کا مجرم قرار دینا تھا اور آپ لوگوں سے جرمانہ وصول کرنے سے مراد چور کو پہچاننا تھا اور وہ مراد حاصل ہو گئی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ کس طرح تو وہ بھی سن لیجئے۔ آپ لوگوں نے پانی میں ایک ایک پیسہ ڈال دیا، لیکن کچھ نہیں ہوا اور جب اس شخص نے پانی میں پیسہ ڈالا تو پانی کی سطح پر تیل کی چکناہٹ تیرنے لگی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے پیسے پر تیل لگا ہوا تھا اور تیل پر لگا ہوا پیسہ اس کی جیب میں کہاں سے آیا؟ اسی بھجیے کے تھال سے جس میں تیل پیسے پر لگ گیا تھا۔‘‘

    قاضی کی یہ بات سن کر سب کو حیرت ہوئی اور وہ قاضی کے فیصلے کی داد دینے لگے۔ اس کے بعد جرمانے کے وہ تمام پیسے مچھیرے کے لڑکے کو دیے گئے۔ اس طرح لڑکا خوش خوش اپنے گھر لوٹا اور چور کو اس کے کئے کی سزا ملی۔

    (بچوں کے لیے لکھی گئی اس کہانی کے مصنّف ریاض آفندی ہیں)

  • بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    پرانے زمانے کی بات ہے، ایک تاجر تجارت کی غرض سے بغداد پہنچا۔ پچھلے وقتوں میں تجارت کا یہ قانون تھا کہ تجارتی سامان کے ساتھ جس ملک میں کوئی تاجر داخل ہوتا تو اسے سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ تاجر اپنا تعارف کرواتا اور سامانِ تجارت کی خوبیوں اور انفرادیت سے آگاہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس تاجر کو بھی بغداد میں بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔

    تاجر نے بیش قیمت تحائف بادشاہ کی نذر کیے۔ پھر مالِ تجارت کی تفصیل بتاتے ہوئے ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرنے لگا۔ اس دوران تاجر نے بادشاہ کو پانی سے چلنے والی ایک گھڑی دکھائی اور بتایا یہ میں نے یونان سے خریدی ہے۔ اس کے بعد قالین دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ میں نے ایران سے خریدا ہے اور خالص ریشم کے تار سے بنا ہے۔ اس نے ایک قلم دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا ہے۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بہت خوب، تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں جو تم نے ایران، یونان اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاﺅ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایانِ شان کوئی چیز نظر آئی۔ تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کے لیے کہا، یوں تو بادشاہ سلامت آپ کے شایانِ شان بہت چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے مجھے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنا پڑتا جب کہ میرے پاس صرف دو دن کا وقت تھا۔

    بادشاہ نے پوچھا۔ اچھا وہ کیا چیز تھی۔ تاجر بولا، جناب وہ ایک موتی ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ اس کو کوئی چرا بھی نہیں سکتا اور اس موتی سے بہت سارے زیور بھی بنا کر پہنے جاسکتے ہیں۔ بادشاہ کو یہ سن کر تعجب ہوا اور کہنے لگا۔ میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہوں گا۔ اس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کو اس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے۔ وزیر اپنے مقصد کے لیے نکل پڑا۔ ادھر تاجر دربار سے رخصت ہوگیا۔

    جنگلوں، سمندروں، پہاڑوں اور صحراﺅں غرض یہ کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری۔ وادی وادی گھوما، ہر شخص سے اس نادر و نایاب موتی کا پوچھا مگر سب نے یہ ہی کہا کہ ایسا کوئی موتی نہیں ہے جو چوری نہ ہوسکے اور اس سے بہت سارے زیور بن جائیں۔ لوگ اس کی بات سن کر ہنستے اور کہتے۔ مسافر پاگل ہوگیا ہے۔

    یوں ہی مہینوں بیت گئے، ناامیدی کے سائے گہرے ہونے لگے لیکن بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اس کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ وزیر نے ہر ممکن کوشش کر لی، سو اس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ وزیر اپنی ناکامی پر خوف زدہ اور روتا ہوا جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات کافی ہوچکی تھی اور وزیر بہت تھک بھی گیا تھا۔ ایک درخت کے پاس آرام کے ارادے سے لیٹا ہی تھا کہ اسی لمحے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ پہلے تو وزیر ڈر گیا مگر پھر ایک آواز نے اس کو حوصلہ دیا۔

    اے نوجوان ڈرو مت، میں اچھی پری ہوں۔ بتا تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، تو مدتوں کا تھکا ہوا مسافر معلوم ہوتا ہے، بتا میں تیری کیا مدد کروں۔

    وزیر نے اپنی داستان کہہ سنائی کہ اسے جس موتی کی تلاش تھی، وہ کہیں نہیں ملا۔ اب اچھی پری وزیر کے سامنے آچکی تھی اور وہ وزیر کی بات سن کر بے ساختہ ہنس پڑی، پھر بولی۔ افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک موتی کی تلاش میں مہینوں مارا مارا پھرتا رہا۔

    وزیر بولا۔ اچھی پری، میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔ وہ بولی، بھلے آدمی، وہ موتی دراصل علم کا موتی ہے لیکن تو اس کی ظاہری شکل کو تلاش کرتا رہا۔ علم تو ایک ایسی شے ہے جسے ہزاروں نام دیے جاسکتے ہیں۔ کہیں اسے پھل دار درخت کہتے ہیں تو کبھی سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسے سمندر بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    لیکن اس سے زیور بنانے والی صفت۔ وزیر نے حیرت سے پوچھا۔

    پری نے مسکراتے ہوئے کہا۔ علم کی بہت ساری صفات ہیں۔ تم اس موتی کی صورت کو کیوں تلاش کرتے ہو۔ یاد رکھو، ہر شے کی تاثیر کا تعلق اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کی اندرونی خوبیوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح علم بھی ایک نایاب موتی ہے کہ جس سے یہ حاصل ہوجائے، وہ اس سے ایسے ہی سج جاتا ہے جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے اور اسے کوئی چرا نہیں سکتا بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔

    وزیر بڑے غور سے پری کی بات سن رہا تھا اور بالآخر اس بات کا قائل ہوگیا کہ واقعی علم ایک ایسا موتی ہے کہ جس کے پاس ہو، وہ دراصل دنیا کے سب سے قیمتی زیور کا مالک بن جاتا ہے۔ وزیر نے پری کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد اچھی پری وہاں سے غائب ہوگئی۔ اب وزیر بہت خوش تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ بادشاہ کو بھی قائل کر لے گا، وہ اپنے ملک خوشی خوشی روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہوگیا کہ صرف علم ہی وہ موتی ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    وہ تاجر بغداد میں اپنا سامان فروخت کر کے اپنے ملک جاچکا تھا۔ بادشاہ نے وزیر کو کہا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں‌ تھا بلکہ ایک دانا اور قابل شخص تھا اور یقیناً اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت سے ہمارے ملک کے اس عظیم شہر میں اپنا مال بیچ کر خوب منافع پایا ہو گا۔

    (بچوں کے ادب سے انتخاب)

  • بڑا آدمی!

    بڑا آدمی!

    ایاز بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔ بڑا، بہت بڑا جیسے قائد اعظم جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ لیاقت علی خان، جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ اسی طرح اور بھی بڑے لوگ تھے اور جن کے بڑے بڑے کارنامے تھے، ایاز ان ہی لوگوں کی طرح بننا چاہتا تھا۔

    اپنا نام تاریخ میں درج کرانے کے لئے وہ خوب دل لگا کر پڑھتا۔ بڑی محنت سے اپنا سبق یاد کرتا۔ ہوم ورک بڑی پابندی سے کرتا۔ سوتے جاگتے کوئی نہ کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں دبی ہوتی۔ اس کی امی کہتیں بیٹا کھانا کھا لو۔ وہ جواب دیتا بھوک نہیں ہے، پڑھنے کے بعد کھا لوں گا۔ آپا کہتیں گڈے بھائی بازار سے سودا تو لا دو۔

    ایاز برا سا منہ بنا کر کہتا آپا! آپ دیکھ نہیں رہیں میں پڑھ رہا ہوں۔ کل میرا ٹیسٹ ہے۔ آپ کسی اور سے سودا منگوائیں۔ مجھے تو پڑھنے دیں۔ مجھے بڑا آدمی بننا ہے۔ محلے میں بھی کوئی اس سے کام کا کہتا تو وہ صاف منع کر دیتا۔

    اس کے امی ابو دیکھتے کہ ایاز راتوں کو اٹھ کر پڑھتا رہتا ہے اس کے ابو کبھی اس کو رات رات بھر جاگ کر پڑھنے سے منع کرتے تو وہ اپنے ابو سے کہتا’’ ابو جی بڑا آدمی بننے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم بھی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتے تھے۔ ان کے گھر والے بھی انہیں زیادہ پڑھنے سے ٹوکتے تھے لیکن وہ گھر والوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔ ‘‘

    ایاز کا یہ جواب سن کر اس کے ابو جان خاموش ہو جاتے سوچتے کہ یہ لڑکا تو ہاتھ سے گیا۔

    بڑے بھیا جب شام چار بجے کرکٹ کھیلنے جاتے تو اسے پکارتے، ’’ اے کتابی کیڑے، کچھ وقت کھیل کود کے لئے بھی نکال لیا کرو۔ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود بھی ضروری ہے۔ ‘‘ آپ کا شوق آپ ہی کو مبارک ہو۔ مجھے تو پڑھنے ہی دیں۔ ‘‘

    بڑے بھیا اپنے کاندھے پر بلا رکھ کر ایاز سے کہتے’’ منے میاں کام کے وقت کام پڑھائی کے وقت پڑھائی تازہ ہوا میں سانس لو۔ پڑھ پڑھ کے کیا حالت بنا لی تم نے اپنی؟

    بڑے بھیا کی یہ بات سن کر ایاز کہتا’’ بڑا آدمی بننے کے لئے وقت کی قدر کرنا پڑتی ہے اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، اپنا وقت کھیل کود میں برباد کر دیتے ہیں وہ کبھی بڑے آدمی نہیں بن سکتے۔ ‘‘

    بڑے بھیا بھی بڑے بھیا تھے، چین سے بیٹھنا ان کو آتا ہی نہ تھا، بھلا کس طرح ایاز کی بات مان لیتے، اپنا بلا ایک طرف پھینکتے اور پاؤں پسار کر اس کے پاس جا بیٹھتے اور کہتے دیکھو منے میاں، ہم وقت کی ناقدری نہیں کرتے نہ ہی کھیل کود میں اسے برباد کرتے ہیں۔ ہمارے ہر کام میں اعتدال ہوتا ہے بڑے بھیا ایک لمحے کو خاموش ہوتے پھر دوسرے ہی لمحے کہتے ’’ منے میاں ایک صحت مند جسم ہی میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ جسم تندرست ہو گا تو دماغ توانا ہو گا اور اگر جسم ہی کمزور ہو گا تو دماغ بھلا کس طرح توانا رہ سکے گا؟‘‘

    ’’ بھیا، آپ کو معلوم ہے میں روزانہ پیدل اسکول جاتا ہوں میری اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے، پھر مجھے کھیلنے کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

    ایاز بڑے بھیا کو لاجواب کر دیتا ہے۔ ’’لگتا ہے منے میاں تم نہیں سدھرو گے۔ ‘‘ بڑے بھیا بلا اٹھاتے اور ایاز کے سر کے بال بگاڑ کر کرکٹ کھیلنے چلے جاتے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ایاز کا پڑھائی اور بڑا آدمی بننے کا شوق انتہا کو پہنچتا جا رہا تھا۔ گھر والے اس کی ہر وقت کی پڑھائی سے جھنجھلا گئے تھے۔ پڑھائی کے چکر میں ایاز گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ بازار سے سودا سلف اور سبزی وغیرہ کے لئے بھی گھر والوں کو جانا پڑتا سوئی گیس اور بجلی کا بل بھی گھر والے ہی جمع کراتے، مہمان آ جاتے تو ان کی خاطر تواضع کیلئے سامان وغیرہ بھی گھر والے ہی لاتے۔ غرضیکہ وہ گھر والوں کے کسی کام کا نہیں تھا۔

    امی جان ایاز کے آگے پیچھے کھانا لے کر پھرا کرتیں ’’ چاند، سہ پہر کے تین بج گئے ہیں اب تو کھانا کھا لو۔ ‘‘ ’’ کھا لوں گا امی جان ابھی بھوک نہیں ہے ابھی تو مجھے پڑھنے دیں۔ ‘‘

    وقت پر نہ کھانے اور راتوں کو جاگ کر پڑھنے کی وجہ سے ایاز کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی وہ کمزور ہو گیا۔

    امتحانات قریب آ گئے تھے اور ایاز پڑھائی میں پوری طرح مصروف تھا۔ اپنا کمرہ بند کیے وہ پڑھائی میں مصروف رہتا، اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ چھوٹے ماموں لندن سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں اور انہیں لینے ائیر پورٹ جانا ہے۔ ایاز پڑھائی میں مصروف رہا اور ماموں گھر والوں کے ساتھ ائیر پورٹ سے گھر آ گئے۔ گھر میں سب خوش تھے۔ کئی سالوں بعد چھوٹے ماموں لندن سے واپس آئے تھے۔ ایاز کی امی جان تو بے حد خوش تھیں کئی سالوں کی دوری کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملی تھیں۔

    چھوٹے ماموں گھر والوں کی شفقت و محبت سے بے حد متاثر ہوئے کہنے لگے۔ ’’ لندن میں تو محبت و شفقت کو ترس گیا تھا۔ پھر وطن کی یاد دل کو بے چین رکھتی تھی اور پھر مجھے اپنے بھانجے اور بھانجیوں سے ملاقات کا ہر وقت خیال رہتا تھا سو میں نے اپنا بستر بوریا گول کیا اور سیدھا یہاں چلا آیا۔ آپ لوگوں کے درمیان۔ ‘‘

    ’’ ایاز نظر نہیں آ رہا ہے، کیا کہیں گیا ہوا ہے؟‘‘ چھوٹے ماموں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ گھر میں ہی ہے۔ اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھائی کر رہا ہے۔ ‘‘ امی جان نے اطلاع دی۔ ’’پڑھائی کر رہا ہے کیا اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ؟‘‘ ماموں نے پوچھا۔

    ’’ جب وہ پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ آپ کو بھلا وہ کس طرح یاد رکھے گا۔ ‘‘ بڑی آپا نے کہا’’ اوہ تو مسٹر پڑھا کو ہو گئے ہیں !‘‘

    ’’ موا ہر وقت پڑھتا رہتا ہے، کہتا ہے بڑا آدمی بنوں گا۔‘‘ دادی جان نے جل کر کہا۔

    ’’ میاں تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ۔ ہماری تو کوئی بات مانتا ہی نہیں !!‘‘ ابا جان نے ماموں جان سے کہا۔

    ’’ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ بڑا آدمی بننے کے چکر میں وہ اپنے ماموں جان کو بھی بھول گئے ہیں !‘‘ ماموں جان مسکرا کر بولے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی۔ عین اسی وقت ایاز کمرے میں داخل ہوا اور دوڑ کر ماموں کے گلے لگ گیا’’ میں اپنے ماموں جان کو کیسے بھول سکتا ہوں‘‘ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے لہجے میں ہلکا سا جوش تھا۔

    چھوٹے ماموں اپنے بھانجے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ ’’ منے میاں، ماشاء اللہ تم نے اچھا خاصا قد نکال لیا ہے۔ مجھ سے بھی بڑے لگ رہے ہو۔ ‘‘

    ’’ بڑا آدمی جو بننے چلے ہیں !!‘‘ باجی نے جل کر کہا’’ ہاں بھئی، یہ بڑا آدمی بننے کا کیا چکر ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ تم ہر وقت پڑھتے رہتے ہو۔ گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتے اور کسی کھیل کود میں بھی حصہ نہیں لیتے؟‘‘

    ایاز نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا’’ سب لوگ میری پڑھائی سے جلتے ہیں۔ ‘‘

    ’’ یہ سب لوگ تمہاری پڑھائی سے نہیں جلتے بلکہ اس بات سے نالاں ہیں کہ تمہارے اندر اعتدال ختم ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے تمہاری گھر والے تم سے بیزار ہو گئے ہیں اور آج تو مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سب ائیر پورٹ پر مجھے لینے آئے لیکن تم نہیں آئے۔ ‘‘

    چھوٹے ماموں جان کی یہ بات سن کر شرمندگی کے احساس سے ایاز کا سر جھک گیا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ ماموں جان نے اس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔

    ماموں جان نے دیکھا کہ ایاز شرمندہ ہے تو انہوں نے اس سے کہا’’ یہ بتاؤ جب ہم کہیں چلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟‘‘

    ’’ چلتے ہیں !‘‘

    ’’ ٹھیک ہے، چلتے ہیں، لیکن کس طرح!‘‘

    ’’ پہلے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور پھر دوسرا۔ ‘‘

    ’’ بالکل ٹھیک، منزل تک پہنچنے کے لئے دونوں قدموں کا اٹھانا ضروری ہے اور یہ بھی کہ ہم صرف ایک قدم اٹھا لیں اور دوسرا قدم نہ اٹھائیں تو پھر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے، تو منے میاں، بڑا آدمی بننے کے لئے آپ نے صرف اپنا ایک قدم اٹھایا ہے۔ یعنی صرف پڑھائی، دوسرا قدم آپ نے آگے نہیں بڑھایا اور آپ کو معلوم ہے دوسرا قدم کیا ہے!‘‘

    ’’ نہیں معلوم؟‘‘ ایاز ماموں جان کی باتوں سے الجھ سا گیا۔

    ’’ وہ دوسرا قدم ہے لوگوں کی دعائیں لینا، ان کے کام آنا، بندوں کی خدمت کرنا‘‘ چھوٹے ماموں ایک لمحے کو خاموش ہوئے پھر دوسرے ہی لمحے انہوں نے ایاز سے کہا’’ کیا آپ نے لوگوں کی دعائیں لیں ہیں ؟ گھر محلے سے باہر کبھی کسی کی کوئی خدمت کی ہے؟ کیا کبھی کسی نابینا شخص کو سڑک پار کروائی ہے؟ کیا کبھی کسی غریب شخص کی اخلاقی یا مالی مدد کی ہے؟ چلیں ان باتوں کو بھی چھوڑ دیں۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کبھی کسی کے لئے مسکرائے ہیں ؟‘‘

    ماموں کی اتنی ساری باتیں سن کر ایاز سوچوں میں پڑ گیا، ’’ میں نے تو واقعی کبھی کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی۔ نہ گھر والوں کے کسی کام آیا اور نہ ہی محلے والوں کے اور نہ ہی کبھی کسی سے مسکرا کر بات کی۔ ‘‘

    گھر کے تمام افراد کی نگاہیں ایاز پر لگی ہوئی تھیں ماموں جان نے اسے خاموش پایا تو بولے ’’ہاں منے میاں، کچھ یاد آیا، کوئی ایسا چھوٹا موٹا کام جسے کر کے آپ نے لوگوں سے دعائیں لی ہوں۔ ‘‘

    ایاز اب بھی خاموش رہا تو ماموں جان بولے’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کبھی کسی کے کام نہیں آئے۔ آپ نے کبھی کسی کی کوئی خدمت نہیں کی اور ظاہر ہے جب آپ نے کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی تو پھر دعائیں آپ کو کس طرح مل سکی ہوں گی۔ ‘‘

    کچھ لمحوں تک ماموں جان خاموش رہے پھر انہوں نے ایاز سے پوچھا’’ آپ نے مشہور بادشاہ محمود غزنوی کا نام سنا ہے؟‘‘

    ’’ جی جی‘‘ وہی محمود غزنوی جس نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے تھے۔ سومنات کا مندر توڑا تھا اور تاریخ میں اپنا نام ’’ بت شکن‘‘ کی حیثیت سے درج کرایا تھا۔ ایاز نے بڑے جوش سے بتایا

    ’’ کیا آپ ان کے والد کا نام جانتے ہیں ؟‘‘

    ’’ سبکتگین‘‘ بڑے جوش سے ایاز نے بتایا

    ’’ آپ کی معلومات تو بہت اچھی ہے اچھا یہ بتائیے کہ جب سبکتگین ایک معمولی سپہ سالار تھے تو ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہرنی والا واقعہ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ یاد آیا؟‘‘

    ’’ جی جی ماموں جان، وہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے سناؤں میں آپ کو؟‘‘

    ’’ ہاں ہاں بالکل‘‘ محمود غزنوی کے والد سبکتگین کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کرنے نکلے۔ جنگل میں پہنچے تو انہیں ہرنی اور اس کا بچہ نظر آیا۔ انہوں نے اپنا گھوڑا ہرنی کے پیچھے ڈال دیا۔ شکاری کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہرنی ایک طرف بھاگ گئی۔ بچے سے بھاگا نہ گیا اور بچے کو سبکتگین نے گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا لیا۔ وہ بچے کو لے کر کچھ ہی دور چلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہرنی اپنے بچے کی محبت میں بے تاب ہو کر گھوڑے کے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ اس کو اپنی جان کا بھی کوئی خوف نہیں تھا۔

    سبکتگین ماں کی محبت دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے فوراً ہرنی کے بچے کو چھوڑ دیا۔ ہرنی کا بچہ رہائی پاتے ہی قلانچیں بھرتا ہوا ماں کے قریب جا پہنچا۔

    سبکتگین نے دیکھا کہ ہرنی نے محبت میں آ کر اپنے بچے کو چومنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بچے کو زبان سے چاٹتی جاتی اور سبکتگین کی طرف تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھتی جاتی جیسے شکریہ ادا کر رہی ہو اور دعا دے رہی ہو۔

    ہرنی کی دعا کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد سبکتگین معمولی سپہ سالار کے عہدے سے ترقی پا کر غزنی کے حکمران بن گئے۔

    ’’ بہت اچھے بھئی، آپ کو تو یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے!‘‘ ماموں جان نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’ جی ماموں جان، مجھے تو ابراہم لنکن والا واقعہ بھی اچھی طرح یاد ہے! جب انہوں نے اسکول کے زمانے میں پتھروں کے ڈھیر میں پھنسی ہوئی ایک ننھی گلہری کو آزاد کرایا اور اس کی دعا لی تھی اور ننھی گلہری کی دعا کا اثر ہی تھا کہ وہ ایک دن امریکا کے صدر بنے‘‘ واہ بھئی واہ، آپ کی معلومات تو بے حد شاندار ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ ان واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟’’ یہی کہ بڑا آدمی بننے کے لئے دعاؤں کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے‘‘ سر جھکا کر بڑے شرمندہ لہجے میں ایاز نے کہا۔

    ’’ اور آپ کو معلوم ہے دعائیں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں ؟‘‘ ماموں جان نے پوچھا۔ ایاز سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ شرمندگی کے احساس نے اس کی زبان پر چپ کی مہر لگا دی تھی۔ چھوٹے ماموں نے اسے خاموش اور شرمندہ دیکھا تو اس کے دونوں شانے تھام کر کہا’’ بیٹا اعتدال کی راہ پر چل کر ہی دعائیں حاصل کی جاتی ہیں۔ در حقیقت بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو مسکرا کر لوگوں سے ملتا ہو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتاہو اور ان کی خدمت کر کے ان کی دعائیں لیتا ہو۔ ‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوئی تھی کہ ایاز بول اٹھا’’ ماموں جان، آپ کی باتوں نے آج میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ بڑا آدمی بننے کے لئے میں اپنی زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناؤں گا۔ لوگوں کی خدمت کروں گا۔ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں گا اور ان کی دعائیں لوں گا۔ ‘‘

    ’’ شاباش!‘‘ ماموں جان خوشی سے نہا ل ہو گئے۔ ا سی وقت ایاز کو کچھ یاد آیا۔ وہ سائیکل لے کر باہر جانے لگا۔ ماموں جان نے پوچھا تو کہنے لگا۔ ’’ فاطمہ خالہ کا سوئی گیس اور بجلی کا بل جمع کرانا ہے۔ وہ کل سے کہہ رہی ہیں کل تو میں نے انہیں منع کر دیا تھا لیکن اب میں انہیں کبھی منع نہیں کروں گا۔ ‘‘

    ایاز باہر جانے لگا تو آپا نے پچاس کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا، ’’ منے میاں، بازار سے واپسی پر دو درجن گرم گرم سموسے لے آنا۔ ‘‘

    ’’ بہت بہتر آپا جانی، میں یوں گیا اور یوں آیا‘‘ بڑی خوش دلی سے ایاز نے کہا۔ جب وہ سائیکل پر باہر جانے لگا تو ماموں جان نے آواز لگائی’’ میاں، جلدی آ جانا، ہم سب تمہارے ساتھ مل کر چائے پئیں گے۔ ‘‘

    ماموں جان کے ہاتھوں ایاز کی کایا پلٹ جانے پر گھر کے تمام افراد بے حد خوش نظر آ رہے تھے۔ ماموں جان نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ ایاز نے بڑا آدمی بننے کے لئے پہلا قدم اٹھا لیا تھا، دوسرا نہیں اٹھایا تھا۔ آج اس کا دوسرا قدم بھی اس سمت میں اٹھ چکا ہے۔ دعا کریں کہ ایک دن واقعی وہ بڑا آدمی بن جائے‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوتے ہی سب نے بڑے زور سے کہا’’ آمین‘‘

    (مصنّف: محمد طہٰ خان)

  • قلعی کھل گئی!

    قلعی کھل گئی!

    اٹلی میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی رعایا اسے ناپسند کرتی تھی مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کی بہت تعریف کرتے تھے۔ اس بادشاہ کا ایک خوشامدی وزیر تھا۔ وہ دن رات بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا۔

    بادشاہ کا حکم تھا کہ اسے رعایا کا حال سچ مچ بتایا جائے کہ کون کس حالت میں ہے اور میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس طرح میں ان کی رائے اور سب کے حالات صحیح طور پر معلوم کر سکوں گا۔ اس کے جواب میں دوسرے وزیر تو خاموش رہتے، مگر تعریف کرنے والا وزیر فوراً کہتا، حضور کی نیکی اور انصاف کے چرچے سارے ملک بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ بھلا وہ کون بے وقوف آدمی ہوگا جو حضور کے انتظام سے خوش نہ ہو ہمارے ملک کی رعایا تو بے حد آرام اور چین سے ہے۔

    بادشاہ کو اس کی باتیں سنتے سنتے شک ہونے لگا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ خوشامدی مجھ سے سچی اور صاف باتیں نہیں کرتا اور اس کے دھوکے میں اپنی رعایا کے اصل حال سے بے خبر رہوں۔ یہ سوچ کر اس نے ارادہ کیا کہ اس وزیر کو کسی طرح آزمانا چاہیے۔ پہلے تو وہ اسے باتوں باتوں میں سمجھاتا رہا کہ دیکھو دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوتا جس کے سارے لوگ اپنے بادشاہ سے خوش ہوں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ جو کسی معاملے میں بے جا فیصلہ نہ کر بیٹھے، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ وزیر کو چاہئے کہ اس کے سامنے سچ بولے اور حق بات کہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم نڈر ہو کر میرے سامنے رعایا کا حال، ان کے خیالات اور میرے انتظام کی صحیح حالت مجھے بتا دیا کرو تاکہ میں سب لوگوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر سکوں، لیکن وزیر اپنی خوشامد کی عادت سے باز نہ آیا اور اسی طرح جھوٹی سچی باتیں بنا کر تعریفیں کرتا رہا۔

    آخر بادشاہ نے تنگ آکر اس کی آزمائش کے لئے اس سے کہا ہم تمہارے کام اور تمہاری باتوں سے بہت خوش ہیں اور اس صلے میں تمہیں بہت بڑا انعام دینا چاہتے ہیں۔ یہ انعام ایک دن کی بادشاہت ہے۔ کل تم بادشاہ بنو گے اور دربار میں سب امیروں، وزیروں اور رعایا کے اعلیٰ و ادنیٰ لوگوں کو جمع کر کے تمہاری دن بھر کی بادشاہت کا ہم اعلان کریں گے۔

    وزیر یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ دوسرے دن شاہی دربار میں مہمان آنا شروع ہوئے۔ ہر طبقے کے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی اور ان کے سامنے وزیر کو بادشاہ نے اپنا تاج پہنا کر اپنے تخت پر بٹھا دیا اور اعلان کیا کہ آج کے دن ہم بادشاہ نہیں۔ آپ لوگوں کا یہ بادشاہ ہے۔ اس کے بعد سب لوگ کھانے پینے میں مصروف ہو گئے۔ خوشامدی وزیر بادشاہ بنا، بڑی شان سے تخت پر بیٹھا، نئے نئے حکم چلا رہا تھا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔

    اصلی بادشاہ ایک دن کے نقلی بادشاہ کے پاس چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک دن کے بادشاہ کی نظر جو اچانک اٹھی تو وہ ایک دم خوف سے کانپنے لگا۔ اصلی بادشاہ اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکراتا رہا۔ قصہ یہ تھا کہ نقلی بادشاہ نے دیکھا کہ شاہی تخت کے اوپر اس جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا سر پر ایک چمک دار خنجر لٹک رہا تھا جو بال جیسی باریک ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر نقلی بادشاہ کا ڈر کے مارے برا حال ہو گیا کہ کہیں یہ بال ٹوٹ نہ جائے اور خنجر اس کے اوپر نہ آ پڑے۔ اس نے ضبط کر کے بہت سنبھلنے کی کوشش کی، مگر اس سے خوف کی وجہ سے سیدھا نہ بیٹھا گیا۔

    آخر مجبور ہو کر اصلی بادشاہ سے کہنے لگا: ’’حضور! یہ خنجر میرے سر پر سے ہٹوا دیا جائے۔ اصلی بادشاہ نے مسکرا کر کہا:’’یہ کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ تو ہر بادشاہ کے سر پر ہر وقت لٹکا رہتا ہے۔ اسے فرض کا خنجر کہتے ہیں۔ اگر کوئی بادشاہ اپنے فرض سے ذرا غافل ہوتا ہے تو یہی خنجر اس کے سر کی خبر لیتا ہے، لیکن جو بادشاہ انصاف اور سچائی سے حکومت کرتا ہے یہ خنجر اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

    اب تو وزیر کی بہت بری حالت ہو گئی اور وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب کیا کرے، کیا نہ کرے۔ اس کے دل میں خیال آ رہا تھا کہ ایک دن کی بادشاہت میں وہ ایسے ایسے حکم چلائے جس سے اس کے خاندان والوں، عزیزوں اور دوستوں کو خوب فائدے پہنچیں، مگر اب تو اس کے سارے منصوبے خاک میں ملتے نظر آ رہے تھے۔ اس نے سوچا اگر کوئی حکم اس نے انصاف کے خلاف دیا تو یہ خنجر اس کی گردن اڑا دے گا۔ اصلی بادشاہ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر کہنے لگا، اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ بادشاہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی جان کو کیا کیا عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تخت آرام اور من مانی کے لیے نہیں ہے۔ رعایا کا حال اور ملکی انتظام کے بارے میں صحیح صحیح حالات بتاؤ۔ خوشامدی وزیر اپنے بادشاہ کی جھوٹی تعریف کر کے ملک، بادشاہ اور رعایا کی بھلائی نہیں کرتے اور خود اپنے بھی خیرخواہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ اپنے بادشاہ کو اس چمک دار خنجر کی زد میں لاتے ہیں جو اس کے سَر پر لٹک رہا ہے۔

    وزیر جو اس وقت ایک دن کا بادشاہ تھا، اپنے حقیقی بادشاہ کی یہ باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا اور جھوٹی خوشامد سے باز رہنے کا وعدہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہو گیا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، مؤرخ، نقاد اور براڈ کاسٹر عشرت رحمانی کے قلم سے)

  • سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    کہتے ہیں‌ کسی ملک کا بادشاہ اپنے ایک ملازم سے ناراض ہوگیا بادشاہ نے ملازم کو دربار سے نکال دیا اور حکم دیا کہ تم دن رات اپنے گھر میں رہو، کہیں باہر نہ نکلنا اور کوئی کام بھی مت کرنا۔

    یہ بظاہر کوئی کڑی سزا تھی اور نہ ہی ایسی قید جس میں اس ملازم کو تکلیف ہوتی۔ اسے تو اپنے ہی گھر میں‌ رہنا تھا۔ لیکن اس حالت میں‌ چند ماہ گزارنے کے بعد وہ گھبرا گیا۔ ایک آدمی ایک ہی جگہ اور مخصوص لوگوں کے درمیان کب تک رہے؟ اسے وحشت ہونے لگی۔ وقت کاٹنا دوبھر ہوگیا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کا وہ ملازم بہت پریشان تھا کیونکہ اس کے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔

    جب وہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالے گا تو بیوی بچوں کو کھلائے گا کہاں سے؟“ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ بادشاہ کے دربار میں کوئی بڑا اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیر، امراء اور نوابوں‌ کو دربار میں دعوت دی گئی‌ ہے۔ ملازم جس کا نام سردار تھا، اس کو ایک ترکیب سوجھی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اُس نے اپنی بیوی کو پڑوس میں ایک قیمتی جوڑا لانے کیلئے بھیجا۔ وہ پڑوس سے قیمتی جوڑا لے آئی۔ سردار نے مانگے کا قیمتی جوڑا جلدی سے زیب تن کیا اور گھر سے نکل پڑا اور شان سے چلتا ہوا شاہی دربار میں جا پہنچا۔ درباری سمجھے کہ کوئی معزز مہمان ہے، وہ پہچان نہ پائے اور سردار بڑے ادب سے دربار میں دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ دربار شروع ہوا۔ تمام رسمیں ادا کی گئیں اور اس کے بعد دسترخوان پر اعلیٰ قسم کے کھانے چنے گئے۔ سردار نے بھی ہاتھ بڑھا کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا اور پھر نظر بچا کر بڑی چالاکی سے سونے کی ایک رکابی اپنے لباس میں چھپا لی اور دربار ختم ہوتے ہی وہاں سے سب سے نظر بچا کر گھر پہنچ گیا۔ گھر آکر بڑے مزے سے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا۔

    اس نے اپنی بیوی کو وہ سونے کی رکابی دی اور وہ اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بازار جاتی اور جوہری کو فروخت کر کے کچھ رقم لے آتی۔ یوں سردار کی زندگی آرام سے گزرنے لگی اور پریشانی دور ہوگئی۔ ادھر دربار کے ملازموں نے دیکھا کہ سونے کی ایک رکابی کم نکلی ہے تو بیچارے بہت گھبرائے اور رکابی ڈھونڈنے لگے۔ بادشاہ کے کان میں‌ یہ بات پہنچی۔ اس نے ان کی حالت دیکھ کر کہا کہ تم سب کیوں پریشان ہو؟ مجھے معلوم ہے کہ سونے کی رکابی غائب ہوگئی اور اب وہ تمہیں نہیں ملے گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رکابی کس نے چرائی ہے۔ خیر، ایک سال بیت گیا۔ اگلے سال پھر جشن ہوا اور دربار مہمانوں سے بھر گیا۔ جشن کے اختتام پر مہمانوں کو کھانا دیا گیا۔ سردار اس موقع پر بھی موجود تھا۔ کھانا کھانے کے بعد پھر اُس نے نظر بچا کر بڑے اطمینان سے ایک سونے کی رکابی اپنے لباس میں چھپا لی۔

    دربار ختم ہوا تو مہمان جانے لگے تو سردار بھی محل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک بادشاہ سامنے آگیا۔ بادشاہ کو دیکھ کر وہ بہت سٹپٹایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ پچھلے سال کی رکابی ختم ہوگئی جو پھر ایک اور رکابی لے جانا چاہتے ہو؟ یہ سنتے ہی سزا یافتہ ملازم کے ہوش اُڑ گئے اور خوف کے مارے کانپنے لگا۔ آخر کار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا ”حضور کے حکم کی تعمیل میں مجھے میرے گھر میں بند کر دیا گیا تھا۔ کئی مہینوں تک پریشان اور تنگ دست رہا۔ آخر مجبور ہو کر یہ حرکت کی۔ حضور مجھے معاف کردیں۔

    بادشاہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ اچھا ہم نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری ملازمت بھی بحال کر دی۔ غلطی ہماری ہی تھی ہم نے حکم ہی ایسا دیا تھا کہ آدمی بھوک اور تنگ دستی سے مجبور ہو کر چوری کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر ہم تمہیں گھر میں قید نہ کرواتے تو شاید تم ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔

    غلطی تو بادشاہ اور اس ملازم دونوں کی تھی۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ بادشاہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور ملازم کو ایسی سزا دینے پر شرمندہ ہوا جس نے اسے تنگ دستی اور آزمائش میں‌ ڈالا۔

  • خوشی کا راز (اطفالِ ادب سے انتخاب)

    خوشی کا راز (اطفالِ ادب سے انتخاب)

    باجی آج کل محسوس کر رہی تھیں کہ بشریٰ اب کچھ الجھی الجھی اور پریشان رہنے لگی ہے۔ حالاں کہ ابّا جی نے سینٹ اینس کانونیٹ میں اسے داخل کرا کے اس کی یہ ضد پوری کر دی تھی کہ وہ انگریزی اسکول میں انگریز بچوں کے ساتھ پڑھے گی۔ اب اسے کیا پریشانی تھی، باجی یہی جاننا چاہتی تھیں۔

    ایک دن جب وہ سنگار میز کے سامنے کھڑی اپنا منہ آپ چڑا رہی تھی تو باجی نے اسے دیکھ لیا۔ وہ بہت حیران ہوئیں۔ مسکرا کر پوچھا ’’آج ثاقب نہیں ملا منہ چڑانے کو؟

    ’’اپنا منہ تو ہے۔ ثاقب نہ ہوا تو کیا؟‘‘ بشریٰ نے چوٹی گوندھتے ہوئے چڑ کر کہا۔

    ’’آخر کیوں بھئی؟‘‘

    ’’پھر کیا کریں۔ اللہ میاں نے صورت ہی ایسی بنائی ہے آنکھیں دیکھو تو کالی کالی اور سوا سوا انچ لمبی۔ بال کوئی دیکھے تو سمجھے جیسے کسی نے کالک تھوپ دی ہو!‘‘

    باجی کو بشریٰ کی اس انوکھی شکایت پر تعجب ہوا۔ انہوں نے ہنس کر پوچھا ’’کس قسم کی آنکھیں تمہیں پسند ہیں؟‘‘

    سنہری بال اور نیلی نیلی گول گول آنکھیں‘ جیسی میری کلاس فیلو کونی کی ہیں۔‘‘ اس نے بال سنوارتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

    باجی نے ہنسی ضبط کر کے سمجھایا ’’انگریزی اسکول میں پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صورت بھی انگریزوں جیسی ہوجائے کیا پتہ کونی کو تمہاری کالی آنکھیں بھلی لگتی ہوں۔‘‘ بشریٰ نے کوئی جواب نہ دیا اور بیگ اٹھا کر اسکول چلی گئی۔

    اس شام کو وہ کونی کے ساتھ اس کے گھر گئی اور وہاں اس کی شان دار نرسری دیکھی۔ کونی نے ایک بڑی کانچ کی الماری کھولی، جس میں ڈیڑھ دو فٹ لمبی ایک خوبصورت گڑیا تھی۔ اس نے بہت احتیاط کے ساتھ اسے نیچے اتار کر دکھایا۔ بشریٰ نے بے اختیار ہو کر گڑیا کا گلابی گال چوم لیا۔

    کونی نے فخر سے کہا۔ ’’ابھی تم نے اس کی باتیں کہاں سنی ہیں۔ لو اب سنو۔‘‘ اور گڑیا سچ مچ بولنے لگی۔ ’’میرے تین سو بچّے ہیں۔ میں ایک ہزار سال کی ہوں۔ میرے غسل خانے میں ایک اژدھا ہے۔‘‘

    بشریٰ نے سنا تو کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’بھئی یہ تو بہت جھوٹ بولتی ہے۔‘‘ کونی نے مسکرا کر کہا ’’یہ چھ زبانوں میں بات کر سکتی ہے جن میں سے دو تو جاپانی اور روسی ہیں۔‘‘ اس کا نام چارمن چیٹی ہے۔‘‘

    اس نے ایک دوسری گڑیا نکالی ’’یہ ٹائٹی ٹیبرس ہے۔‘‘ میز پر رکھتے ہی گڑیا باقاعدہ دھاروں دھار آنسو بہانے لگی۔ کونی دوڑ کر اس کے لئے دودھ لے آئی، جسے اس نے مزے لے لے کر پی لیا اور بلبلے بھی اڑائے۔

    ’’میرے خدا‘‘ بشریٰ نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا’’اتنی پیاری گڑیاں میں نے آج تک نہیں دیکھی تھیں۔‘‘

    ’’ابھی تو تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔‘‘ کونی نے شان سے کہا اور ایک تیسری گڑیا دکھائی، جس کا ایک پیچ گھماتے ہی اس کے سر پر سچ مچ بال اگ آئے۔

    ’’اس کا نام کیا ہے بشریٰ نے گڑیا کے نرم بالوں پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’ٹریسی۔‘‘ اس کے علاوہ بشریٰ نے اور بہت سے عجیب اور انوکھے کھلونے دیکھے۔ ایک ڈوری کو کھینچتے ہی دو کٹھ پتلیاں باتیں کرنے لگیں۔ ایک رائفل سے جب فائر کئے گئے تو چھوٹا سا ریچھ چیختا چلاتا گرتا پڑتا ساری نرسری میں دوڑ لگانے لگا۔ بانسری کی آواز سن کر ایک کتا اترا اترا کر چلنے لگا۔ بشریٰ کو محسوس ہوا جیسے وہ پریوں کی دنیا میں پہنچ گئی ہو۔ اس کا جی چاہا کہ ہمیشہ کے لئے وہیں رہ جائے۔

    جب کونی نرسری کی سیر کرا چکی تو بشریٰ نے حسرت سے پوچھا۔
    ’’یہ سب کھلونے تمہارے پاس کہاں سے آئے؟‘‘ کونی نے کسی ہنس کی طرح گردن اٹھا کر کہا۔ ’’میرے ڈیڈی امریکہ سے آتے ہوئے لائے تھے۔ بشریٰ نے ٹھنڈا سانس لی اور گھر لوٹ آئی۔

    گھر آتے ہی بشریٰ نے اپنے کھلونے کا جائزہ لیا ایک گڈے کو ہاتھ میں لے کر الٹ پلٹ کر دیکھا اور فرش پر دے مارا۔ وہ گویا احتجاجاً بولا ’’پیں‘‘ دوسرے لمحے ربر کا ایک خرگوش پھدک پھدک کر الٹا ہو گیا۔ تیسرا نمبر ایک چست و چالاک جاپانی گڑیا کا تھا، جو نیچے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ ’’کس کام کے ہیں یہ لوگ‘‘ وہ بڑبڑائی، ’’کوئی گونگا، کوئی بدصورت، کوئی نکی تو کوئی چڑیل۔‘‘ وہ تمام گڈے گڑیاں، جن سے بشریٰ کو اتنا پیار تھا۔ جنہیں سردیوں کی راتوں میں وہ ننھے ننھے لحافوں میں سلایا کرتی، آج زمین پر ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے اور بشریٰ کو کوئی افسوس نہ ہوا۔

    اس کی اس حرکت پر بشریٰ کو خوب ڈانٹ پڑی۔ امی ابّا نے کبھی فرمائش نہ پوری کرنے کی دھمکیاں دیں۔ بھائی جان نے ’’ناشکری چڑیل‘‘ کا خطاب دیا۔ چھوٹے بھائی ثاقب نے ’’توڑ پھوڑ‘‘ نام رکھ دیا۔ باجی کی نصیحتیں الگ سننی پڑیں۔ غریب بشریٰ کا وقت اس کوئل کی طرح اداس گزرنے لگا جسے چہکنے کو ہری بھری ڈالیاں نہ ملی ہوں!

    ایک دن بادل گھر آئے۔ اتنے کالے بادل کہ بشریٰ کے بالوں سے ان کا رنگ مل گیا۔ ان کی گرج برس دیکھنے کے لئے وہ برآمدے میں چلی آئی۔ کچھ ہی دیر میں موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گر کر سوندھی خوشبو اڑانے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بھیگ گئی۔ بارش کا نظارہ کرتے کرتے اس کی نظر ایک چھوٹی سی لڑکی پر پڑی، جو ایک بڑھیا کا ہاتھ تھامے تیز تیز قدموں سے اسی کی طرف آ رہی تھی۔بشریٰ نے انہیں برآمدے میں پناہ دے دی۔ بڑھیا کے ہاتھ میں کشکول دیکھ کر اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ لوگ کون تھے۔ اس عورت کے چہرے پر دو آنکھوں کی بجائے بدنما سرخ بے نور گڑھے تھے۔ خدا جانے کیوں بشریٰ کو جھرجھری سی آ گئی۔ وہ دوڑ کر اندر آ گئی اور شیشہ اٹھا کر اپنا چہرہ دیکھا۔ اپنی آنکھوں کا بڑھیا کی بے نور آنکھوں سے مقابلہ کیا اور یہ سوچ کر اسے تعجب ہوا کہ اس سے پہلے اسے اپنی آنکھیں اتنی خوبصورت، اتنی چمکیلی کیوں نہیں دکھائی دی تھیں؟ وہ برآمدے میں واپس لوٹ آئی۔ اس وقت وہ لڑکی جھک کر نیچے سے کچھ اٹھا رہی تھی۔ بشریٰ کو دیکھتے ہی اس نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ بشریٰ نے جھانک کر دیکھا تو اسے اپنی ٹوٹی ہوئی گڑیا کا اوپر کا دھڑ نظر آیا۔

    ’’اٹھا لو۔ اٹھا لو۔‘‘ بشریٰ نے لڑکی سے کہا اور اس نے خوش ہو کر گڑیا کو اٹھا لیا۔ کرتے کے دامن سے بارش کے قطرے اور مٹی کے ذرے صاف کئے اور چوم کر اسے جھولی میں ڈال لیا وہ اتنی جلدی بھول گئی تھی کہ بشریٰ سامنے کھڑی ہے۔ پھر جب اس نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو دانتوں سے زبان کاٹ لی، بشریٰ اندر چلی گئی۔ باجی کے پاس سے گزرتے گزرتے بولی ’’باجی اب نیل آنکھیں نہیں چاہئیں۔‘‘

    باجی نے مسکرا کر کہا ’’مجھے اس کی وجہ معلوم ہے۔‘‘ شاید انہوں نے بشریٰ کو برآمدے میں کھڑا دیکھ لیا تھا۔ کہ وہ اسے ڈھونڈتی ہوئی جب اسی کے کمرے میں آئیں، تو بشریٰ کو اپنے تمام کھلونے دوبارہ سنوار کر رکھتے ہوئے پایا۔

    ’’ہم نے کہا تھا نا‘‘ وہ بولیں۔ ’’اچھے اور بلند ارادوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ اپنے سے اونچوں کو دیکھنا چاہئے اور جہاں تک صورت، ٹھاٹ باٹ، امیری اور شان و شوکت کا تعلق ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ رک گئیں اور بشریٰ نے اپنی کالی آنکھیں اٹھا کر جملہ پورا کیا، ’’اپنے سے کم تر کو دیکھو۔۔۔ اور اسی میں خوشی کا راز ہے۔ ہے نا میری باجی؟‘‘

    آج پہلی بار باجی کی نصحیت کا مطلب اس کی سمجھ میں آیا تھا!

    (مصنّف:‌ فریدہ خان)

  • جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    تبّت کی ہر وادی برف سے ڈھک گئی تھی۔ راتیں سیاہ تھیں اور لمبی لیکن سفید برف اس سیاہی میں عجیب سا منظر بنا دیتی۔ دور ایک وادی میں، جو کہ چار پہاڑوں کے عقب میں تھی، بانس کی ایک کٹیا کھڑی تھی۔ یہ بوڑھے بانگو کا کاشانہ ہے۔

    جھونپڑی کے دروازے پر لکڑی کا ایک تختہ بطور آڑ رکھا ہوا تھا اور اس کی چھت کی اطراف ترچھی تھیں تا کہ برف کے گولے گرتے ہی پھسل جائیں اور وزن سے بانس نہ ٹوٹیں۔ جھونپڑی کوئی بیس۔۔۔۔پچیس فٹ لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھی۔اندر دو چارپائیاں تھیں اور ایک اپلوں کی انگیٹھی جس کی حرارت اس جان لیوا سردی میں بانس کی اس کٹیا کو ایک اگلو سا بنا دیتی اور مکین جاڑے کی شدت سے محفوظ رہتے۔ ایک طرف کھونٹی سے پرانی لالٹین لٹک رہی تھی جس کی لَو سے اندر بمشکل ہی روشن ہوتا تھا۔ جھونپڑی کے دروازے پر قبائلی زبان میں خوش آمدید اور مہمان نوازی کی دعوت کے بارے کچھ الفاظ لکھے تھے اور دائیں جانب ہی گھاس کے ایک ڈھیر کے پاس تین دنبیاں اور ایک یاک کھڑا تھا۔

    جب موسم خوش گوار ہوتا تھا تو بانگو اپنے مویشی باہر لے جاتا اور رات خوبانی کے درختوں کے ساتھ باندھ دیتا لیکن آج کل موسم اتنا سرد تھا کہ وہ بے زبان روحیں کھلی فضا میں اس کی شدت کی تاب نہ لا سکتی تھیں۔ بانگو کی بیوی اون کی پوشاک بنتی رہتی اور ہر ڈورے کے ختم ہوتے ہی دوسرا نکال کر دھاگے جوڑ دیتی۔ اس سنسان اور سرد وادی کے مکین جوڑے کے دو بچّے تھے۔ ان میں لوگیس بڑی تھی نو سال کی اور لوشی پانچ برس کا تھا۔ بانگو شادی سے پہلے دو میل دور اپنے گاؤں میں رہتا تھا لیکن شادی کے بعد اس نے خوبانی کا ایک باغ اگایا اور بانس کی یہ رہائش تیار کر کے اپنے گھر والوں کو یہاں لے آیا۔ بانگو خود تو بوڑھا ہو رہا تھا لیکن اس کی بیوی نوجوان تھی۔ وہ دو بچّوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی جب کبھی سردی سے ٹھٹھرتی اور اپنی ہتھیلیاں انگیٹھی پر گھماتی تو ایک نوجوان لڑکی ہی لگتی۔ لمبی اندھیری راتوں میں لالٹین کا شعلہ بھی سردی سے مدھم پڑجاتا اور اس کے گول شیشے پر جمنے والی نمی اس منظر کو اور دھندلا دیتی۔

    بانگو ہر دو ہفتے بعد گاؤں جا کر تیل لے کر آتا۔ لیکن اس بار لگتا تھا کہ وہ برف باری میں جانے سے کترا رہا ہے۔ لالٹین کا شعلہ ہر گزرتی شب اور مدھم ہوتا جا رہا تھا۔

    لوشی ہر وقت سرمئی دنبی کے پاس ہی بیٹھا رہتا بلکہ اپنا کھانا اور دودھ بھی اس کے پاس ہی لے جاتا۔ بانگو نے جب سے اسے بتایا تھا کہ یہ دنبی کچھ دنوں میں بچہ جننے والی ہے تب سے اس کے دماغ میں صرف ایک ہی منظر سمایا تھا، دنبی کا معصوم بچّہ جس کے بال موم کی طرح ملائم اور نرم ہوں گے اور، وہ اپنی ماں سے چمٹ کر دودھ پیے گا۔ لوشی اس دنبی کا منہ پکڑ کر سہلاتا اور اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتا:”اس بار سب سے پہلے تمہارا بچّہ میں دیکھوں گا، اچھی دنبی! اگر میں سو گیا تو تم بچّہ نہ جننا، جب میں جاگا تم تب ہی اپنا بچّہ پیدا کرنا۔ نہیں تو میں تم سے کبھی نہیں بولوں گا۔” دنبی کی آنکھیں حیرت سے لوشی کو تکتی رہتیں۔ بانگو کی بیوی نے دنبی کے پیٹ پر دولائی باندھ دی تھی۔ بانگو کو امید تھی کہ دو، تین دن میں دنبی بچّہ جنے گی لیکن اسے یہ اندیشہ تھا کہ لالٹین بجھ جائے گی اور اندھیری رات میں روشنی کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔لوشی اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اور برف باری سے پہلے وہ دونوں باہر وادی میں کھیلتے، تتلیاں، جگنو اور چڑیاں پکڑتے اور انہیں گھر لے آتے۔ لوشی نے اپنے ڈبّے میں مینا کا بچّہ ڈال رکھا تھا، جس کو وہ دن میں کئی بار دیکھتا اور پھر ڈبّے میں ڈال دیتا۔

    اس رات لالٹین کا ٹمٹماتا شعلہ مکمل طور پر بجھ گیا اور جھونپڑی میں پوری طرح اندھیرا چھا گیا۔ بستروں کے پاس انگیٹھی کی آگ سے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ لوشی اس رات سونے کی کوشش میں نہ تھا۔ اس کے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اگر وہ سو گیا تو پھر صبح، دن چڑھے ہی اٹھے گا، اور اگر تب تک دنبی نے بچّہ دے دیا تو وہ اسے سب سے پہلے کیسے دیکھے گا، اس کے ماں باپ تو صبح سویرے ہی جاگ جاتے ہیں۔ آدھی رات کو اس نے لوگیس کی رضائی ہلا کر اسے اپنا اندیشہ بتایا۔

    بانگو کل سے گاؤں گیا ہوا تھا کیونکہ وہ مکھن اور اونی چغے بیچ کر کچھ چیزیں خرید کر لانا چاہتا تھا اور لالٹین کے لیے تیل بھی۔ لوشی دنبی کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن اندھیرے میں وہ اپنے بستر سے نہ اٹھا۔ اندھیری جھونپڑی میں حاملہ دنبی دوسرے مویشیوں سے الگ بیٹھی تھی۔ اچانک اس کی آنکھوں میں چمک کی ایک لہر دوڑی، اس نے اپنا پیٹ اٹھایا اور پھر اس کا موٹا وجود چند لمحوں میں ہلکا ہو گیا۔ ننھا اونی ریشم کا گولا ماں کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا تھا۔ دنبی زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے جگر کے ٹکڑے کا لمس لینے لگی۔

    لوگیس نے لوشی کو کچھ کہے بغیر اپنی چارپائی کے نیچے ہاتھ ڈال کر ایک تھیلی نکالی، جس میں اس نے تین ، چار دن پہلے کافی جگنو بند کر دیے تھے۔ لوشی حیرت سے اپنی بہن کی تھیلی کو دیکھ رہا تھا۔ لوگیس چپکے سے اٹھی اور لالٹین اتار کر انگیٹھی کے پاس لے آئی۔ اس نے لوشی کو اشارہ کیا، وہ دونوں بہن بھائی لالٹین کو کھولنے لگے۔ لوگیس نے جگنوؤں سے بھری تھیلی لوشی کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی وہ لالٹین کا شیشہ سرکائے، وہ تھیلی شیشے میں پلٹ دے۔ باہر کہر بھری ہوا چل رہی ہے۔ ان کی ماں لحاف اوڑھے نیند کی وادیوں میں گم ہے۔ لوگیس نے شیشہ اٹھاتے ہی لوشی کو بلایا تو اس نے فوراً تھیلی کا منہ پھیلا کر شیشے میں پلٹ دی۔لوگیس نے فورا ہی شیشے کو گھما کر بند کیا اور دامن سے نمی کی تہہ کو صاف کر دیا۔ ایک لمحے میں لالٹین کا شیشہ ہلکا سا روشن ہوا۔دسیوں جگنوؤں نے اتنی روشنی ضرور کر دی تھی کہ وہ جانوروں کے پاس چلے جاتے۔

    لوشی لالٹین اٹھا کر دنبی کے پاس آیا تو خوشی سے لوگیس کو آوازیں دینے لگا۔ اس نے ننھے میمنے کو چوما، وہ سفید اور ملائم تھا، نازک اور کوسا کوسا۔ لوشی سوچ رہا تھا کہ میمنا بھی برف کی طرح سفید ہے لیکن برف تو بڑی ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ میمنا بڑا گرم ہے۔ لوشی بار بار میمنے کو چومتا اور اس کے گرم وجود پر ہاتھ پھیرتا۔ اس نے دنبی کے سَر کے پاس جا کر کہا: "اچھی دنبی! تمہارا شکریہ”۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں لوشی دنبی کے پاس بیٹھا خوشی منا رہا تھا جب کہ شیشے میں کئی ننھے شعلے دَم توڑ رہے تھے۔

  • سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔ سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چنانچہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی جب پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی ” جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ اپنی درباری پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟ اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا: "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔” اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟ وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ یہ ہرے بھرے جنگل، پھلوں پھولوں سے لدے ہوئے باغات، ان میں بولتی چڑیاں اور کلیلیں کرتے ہوئے جانور چھوڑ کر کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔ بادشاہ نے اسی طرح باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور سب نے سمندر میں جانے سے کھلم کھلا انکار کر دیا۔ اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان کی طرف مخاطب ہوا اور یہ دیکھ کر ہر ایک کو حیرت ہوئی کہ وہ بلاجھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں”ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔ گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔ اب جہاں جہاں ہم رہتے ہیں، ان میں چند مچھلیوں اور چھوٹے چھوٹے جھینگا جیسے جانوروں کے سوا کیا رکھا ہے؟ بڑے سے بڑا دریا بھی ہمارے لیے کافی نہیں، جب کہ ندی نالوں کو ہم قید خانے سے کم نہیں سمجھتے۔ حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ ان باتوں کا ذرا خیال نہ کرو۔ جب تمھارا دل چاہے، روزانہ رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے، البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ۔”

    بادشاہ کی یہ تقریر سن کر سمندر کا ایلچی بھی خوش ہو گیا کہ ان کی عرض بھی قبول ہو گئی اور سمندر کی نئی پریاں بھی خوش تھیں کہ انھیں سمندر کی نئی حکومت ملی۔ چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کےتصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے پاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں کرنے کے لیے بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگاتار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو آخرکار بادشاہ کو فکر ہوئی کہ کہیں کوئی مصیبت تو نہیں آ گئی؟ کیا بات ہے کہ پریاں سمندر سے باہر نہیں آئیں۔ اس نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا۔ ان کا حال پوچھا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: "بادشاہ سلامت کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر دینا کہ ہمیں بھی اپنی سہیلیوں سے اتنے دن تک نہ ملنے کا بہت افسوس ہے۔ ہم کو یہاں آ کر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا ہے، وہ سنائیں گے۔”

    رات ہوئی تو پریاں سمندر کے کنارے پانی سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے کے لیے جمع ہو گیا اور جب انھوں نے سمندر کی تہہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور تمام درباری پریاں حیران رہ گئیں اور بڑی دلچسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔ چوں کہ تمھاری مصروفیت بہت زیادہ ہے اور تمھارا رہنا بھی ٹھہرا دور دراز، اس لیے مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ بھی الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں۔ انھوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھیں اپنا علیحدہ بادشاہ ملا اور اپنی الگ سلطنت حاصل ہوئی۔ وہ اپنے نئے بادشاہ کے محل کی تعمیر کرنے کے لیے سمندر میں چلی گئیں۔

    سمندر کی تہ میں پہنچتے ہی پریوں نے محل کا ڈول ڈال دیا۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔ محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔ دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف سمندر کے پھولوں کے درختوں سے آراستہ باغات تھے۔ جگہ جگہ فوارے، جو رات دن چلا کرتے۔ رات کی روشنی کے لیے چمکتی ہوئی مچھلیاں تھیں، جو ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں ان شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں، کیوں کہ سونے کے علاوہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کیے ہی جاتے اور ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہ بیٹھتے۔

    کیکڑوں کی نہایت خوب صورت اور نرالی وردیاں بنائی گئی تھیں، ان کی پشتوں پر خوش نما رنگوں کا سمندری سبزہ اگا دیا گیا تھا۔ انہیں اپنی تمام عمر میں کبھی ایسا اچھا زمانہ نہیں ملا تھا۔ ان کی پرانی زندگی بدل گئی تھی۔ وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ اول اول پریاں بہت گھبرائیں، لیکن ایک بوڑھے دریائی بچھڑے نے، جو کئی برس سے ایک عجائب خانے میں رہتا تھا، پریوں کو بتایا کہ سمندر میں دعوت کا سامان کیا ہوتا ہے اور کس طرح کرنا چاہیے۔ چناں چہ اس کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئیں اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    دعوت کی رونق کے لیے پانی کے کم از کم دس لاکھ بچے بلائے گئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک خوب گانے والا تھا۔ کھانا کھاتے وقت گانا لازمی تھا، اس لیے گانے والوں اور بجانے والوں کی ایک بہت بڑی ٹولی جلوس کے کمرے میں ایک طرف کھڑی کر دی گئی اور دروازے کے پاس دو نقارچی بڑے بڑے سنکھ لیے کھڑے تھے کہ جب بادشاہ سلامت اندر آئیں تو اس کا اعلان کریں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائیں ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھ دار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوبصورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔ بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔ سمندر کے اژدہے اپنے آپے سے تو باہر نہیں ہوتے، گنڈلی ٹنڈلی مار کر دوسروں کا راستہ تو نہیں روک لیتے۔ ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے۔ اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟ شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ رات کو اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت ہر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا کودنا، چٹانوں پر بیٹھنا، اپنے بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔ بدذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔ سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی وحشت ناک طوفان آتے اور پانی کی موجیں شور کے ساتھ سمندری مملکت پر حملہ آور ہوتیں تو پریاں پانی کی بلند سے بلند سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے سن لیا کہ خشکی کی پریوں کی طرح سمندر میں پریاں کس طرح پیدا ہوئیں اور کیوں کر وہاں آ گئیں؟

    (مصنّف نامعلوم)

  • خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    ایک گاؤں میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ سارا دن آگ کی بھٹی کے سامنے بیٹھا رہتا۔ لوہا گرم کرتا، اسے کوٹتا اور کسانوں کے لیے ہل، کلھاڑے کے پھل اور درانتیاں وغیرہ بناتا رہتا۔ سردی ہو یا گرمی ، سارا سال وہ اسی کام میں جٹا رہتا تھا۔

    ایک دن شدید گرمی میں لوہار بھٹی میں لوہا گرم کرنے کے بعد اسے کوٹ رہا تھا تاکہ وہ اوزار تیار کرسکے جو اسے گاہک کو بیچنا ہے۔ ایسا کام خطرناک بھی ہوتا ہے اور بہت زیادہ احتیاط بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کبھی بھول چوک اور کبھی حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔ لوہار کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ حادثاتی طور پر اس روز گرم ایک ٹکڑا اس کے جوتے میں جا پڑا۔ اس نے جلدی سے جوتا اتارا، لیکن اس وقت تک پاؤں جل چکا تھا۔ لوہار کو سخت تکلیف بھی ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا:

    ’’یہ کام بہت سخت ہے۔ بھٹی کی گرمی اور پھر گرم لوہے کے ٹکڑے، میں تو اس کام سے تنگ آگیا ہوں۔ بہتر ہوتا، اگر میں پہاڑ پر پڑا ایک پتھر ہوتا۔ پہاڑ پر پڑا پتھر کتنا خوش ہوتا ہو گا۔ پہاڑ پر ہر وقت چلتی ہوا، اسے ٹھنڈا رکھتی ہو گی۔ پھر، پہاڑی پر درختوں کا سایہ بھی تو ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں بھی ٹھنڈک رہتی ہو گی۔‘‘
    جب لوہار باتیں کر رہا تھا تو اسی وقت وہاں سے ایک جنّ کا گزر ہوا۔ جنّ نے اس کی باتیں سنیں اور لوہار سے کہا: ’’چلو، میں تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ لوہار کا وجود ایک پتّھر میں تبدیل ہوگیا۔ اور پھر اس پتّھر کو ایک بڑے پہاڑ کے اوپر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں‌ پہنچ کر لوہار جو اب ایک پتّھر بن چکا تھا، تھوڑی دیر تو آرام سے پڑا رہا، لیکن پھر ایک شخص اس پہاڑ پر آپہنچا۔ یہ شخص کچھ خاص قسم کے پتّھر ڈھونڈ رہا تھا تاکہ انہیں تراش کر مجسمے وغیرہ بنا سکے۔ اس نے کئی پتّھر اپنے تھیلے میں‌ اکٹھا کر رکھے تھے اور جب اس پتّھر پر نظر پڑی تو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اسے اپنے مطلب کا جان کر اٹھایا اور تھیلے میں‌ کئی پتّھروں کی طرح اسے بھی ڈال لیا۔ یہ پتّھر جو اصل میں لوہار تھا، کچھ دیر ہلتے ہوئے تھیلے میں رہا اور محسوس کیا کہ وہ شخص یہ تھیلا اٹھائے اونچے نیچے راستوں‌ پر بڑھ رہا ہے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچ گیا اور پتّھروں سے بھرے ہوئے تھیلے کو ایک جگہ رکھ دیا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ وہ سنگ تراش آیا اور اس نے تھیلا الٹ دیا۔ اس میں‌ سے چند پتّھر دیکھ بھال کر اٹھائے جن میں‌ لوہار بھی شامل تھا۔ سنگ تراش نے اچانک اسے ہاتھ میں لے لیا اور لگا لوہے کے اوزار سے اسے کاٹنے۔ یہ پتّھر چلّانے لگا:

    ’’مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ ضرب سے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے، میں پتّھر نہیں رہنا چاہتا۔ بہتر ہے میں پتّھر کاٹنے والا بن جاؤں۔‘‘ اس کی خواہش جنّ تک فوراً پہنچ گئی۔ اس نے اسے پتّھر سے دوبارہ انسان بنا دیا اور اسے سنگ تراشی کے پیشہ کا پابند بھی کردیا۔ اب وہ شخص جو کبھی لوہار تھا اور پتّھر بن گیا تھا، ایک سنگ تراش کی حیثیت سے پہاڑوں میں‌ پتّھروں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور تھا۔ اس نے پتّھر ڈھونڈنے کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا، لیکن اسے مناسب پتھر نہیں مل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ ان سے خون رِسنے لگا۔ سورج کی تپش سے پہاڑ پر موجود پتّھر نہایت گرم ہو رہے تھے۔ اسے یہ سب مشکل لگا۔ اس نے چلّانا شروع کر دیا:

    ’’میں پتّھر کاٹنے والا نہیں رہنا چاہتا۔ میں سورج بننا چاہتا ہوں۔‘‘ اس مرتبہ جنّ نے پھر اس کی آرزو پوری کردی اور اسے سورج بنا دیا۔ سورج بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ اس کا اپنا وجود ہی لوہار کی بھٹی سے بھی زیادہ گرم ہے۔ تپتے پتّھر سے بھی زیادہ گرم ہے۔ سورج میں‌ تبدیل ہوتے ہی اس نے لمحوں‌ میں اپنی خواہش داغ دی اور کہا:‌

    ’’میں سورج نہیں رہنا چاہتا۔ چاند، سورج کے مقابلے میں کس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں چاند بننا چاہتا ہوں۔‘‘ جنّ نے سورج کی یہ آواز سنی۔ وہ بہت ہنسا اور اس نے لوہار کو چاند بنا دیا۔ چاند بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ چاند پر تو سورج کی ہی روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی اسی طرح تپتا ہے، جیسے سورج کی تپش سے پتھر تپتا ہے۔ اس نے کہنا شروع کر دیا:

    ’’میں چاند بن کر نہیں رہ سکتا، مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ لوہار کی زندگی ہی سب سے بہترین ہے۔‘‘ جنّ نے اس کی بات سنی اور کہنے لگا:

    ’’تم نے جو کہا، میں نے تمہیں ویسا ہی بنا دیا۔ اب میں تمہاری فرمائشوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم نے چاند بننے کا کہا، میں نے تمھیں چاند بنا دیا۔ اب تم چاند ہی رہو۔ اس نے یہ سنا تو جنّ کے آگے گڑگڑانے لگا اور بولا کہ میں‌ وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ اپنے پیشے کی برائی نہیں کروں اور بے جا خواہشات سے بھی باز آتا ہوں، تم مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ جنّ نے اس کے ساتھ نرمی برتی اور اسے لوہار بنا کر نصیحت کی کہ دیکھو جس حال میں‌ ہو خوش رہنا سیکھو، اور ذرا سی تکلیف یا برا وقت آنے پر اپنے اُس پیشے کو برا نہ کہو جس سے تم ایک عرصہ سے روزی کا بندوبست کرتے آ رہے ہو۔ ایسا کرنے والا ناشکرا اور بے وفا انسان ہوتا ہے۔

    (اطفالِ ادب سے انتخاب)