Tag: بچوں کا ادب

  • نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک تھا درزی، اس کے تھے تین لڑکے۔ درزی بہت ہی غریب تھا۔ درزی کے پاس صرف ایک ہی بکری تھی۔ تینوں لڑکے اسی بکری کا دودھ پیتے اور کسی طرح گزر کرتے، ایک ایک دن ہر لڑکا بکری کو جنگل میں چرانے لے جاتا۔

    جب لڑکے کچھ بڑے ہو گئے تو بکری کادودھ ان کے لئے کم پڑنے لگا۔ مجبورا بڑا لڑکا گھر چھوڑ کر باہر کمانے نکلا، چلتے چلتے راستے میں ایک سوداگر ملا۔ سوداگر نے لڑکے سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ لڑکے نے سارا حال سنا دیا۔ سوداگر کو اس پر ترس آیا اور اپنے پاس نوکر رکھ لیا۔ سوداگر نے خریدنے اور بیچنے کا کام اس کو سکھایا۔ لڑکا اپنا کام بڑی ایمانداری اور محنت سے کرتا۔ سوداگر کے کام کو بہت آگے بڑھا دیا۔ سوداگر بہت امیر ہو گیا۔ سوداگر لڑکے کے کام سے بہت ہی خوش ہوا۔ جب کام کرتے کرتے کئی برس گزر گئے تو لڑکے نے گھر جانے کی چھٹی مانگی۔ سوداگر نے خوشی سے چھٹی دی اور کہا ’’میں تمہارے کام سے بہت خوش ہوں۔ تمہاری ایمانداری کے بدلے میں تم کو یہ عجیب وغریب گدھا دیتا ہوں۔ یہ گدھا اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جب تم اس کے منہ میں تھیلی باندھ کر کہو گے کہ ’’اگل‘‘ تو یہ فورا سونا اگلے گا اور پوری تھیلی بھر دےگا۔ خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔‘‘ لڑکا خوش خوش گھر روانہ ہوگیا۔

    چلتے چلتے رات ہو گئی۔ لڑکا ایک سرائے میں ٹھہر گیا۔ بھٹیارے سے لڑکے نے کہا ’’خوب عمدہ عمدہ کھانا لاؤ۔‘‘ بھٹیارا اچھے اچھے کھانے پکوا کر لایا۔ لڑکے نے سونے کے ٹکڑے بھٹیارے کو دیے۔ بھٹیارا بڑا خوش ہوا اور سوچنے لگا یہ سونے کے ٹکڑ ے لڑکے کے پاس کہاں سے آئے۔ ہو نہ ہو کوئی خوبی اس گدھے میں ضرور ہے۔ یہ سوچ کر بھٹیارا جاگتا رہا۔ جب لڑکا سو گیا تو بھٹیارا گدھا چرا کر لے گیا اور دوسرا گدھا اس کی جگہ باندھ دیا۔ لڑکا اندھیرے منہ اٹھا اور گدھے لے کر روانہ ہو گیا۔ اس کو اپنے اصلی گدھے کی چوری کا کچھ حاصل نہ معلوم ہوا۔ گھر پہنچا تو اس کو دیکھ کر باپ بھائی سب جمع ہو گئے اور خوشی خوشی باتیں کرنے لگے۔

    باپ کہو بٹیا پردیس میں کیا کیا سیکھا۔

    لڑکا:۔ سوداگری۔

    باپ :۔ہمارے لئے کیا لائے ہو۔

    لڑکا یہ گدھا۔

    باپ توبہ کرو۔ گدھا لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں سیکڑوں گدھے مارے مارے پھرتے ہیں۔

    بیٹا:۔نہیں ابا۔ یہ معمولی گدھا نہیں ہے۔ اس میں ایک خاص بات ہے۔

    باپ:۔ وہ کیا خاص بات ہے۔

    بیٹا:۔ اس میں خاص خوبی یہ ہے کہ اس کے منہ میں تھیلی باندھ دیں اور کہیں کہ ’’اگل‘‘ تویہ فورا سونا اگلنے لگتاہے اور تھیلی کو بھر دیتا ہے، خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

    بوڑھا درزی بیٹے کی بات کوتعجب سے سنتا رہا اور شک کی نظروں سے دیکھتا رہا۔ آخر لڑکے نے باپ کے شک کو دور کرنے کے لئے کہا آپ اپنے دوستوں کو بلائیے۔ میں ابھی سب کو دولت سے مالامال کیے دیتا ہوں، درزی نے اپنے خاص خاص دوستوں کو لاکر جمع کیا اور دولت حاصل کرنے کی خوشخبری سنائی۔ سب لوگ آ گئے تو لڑکا گدھے لے کر آیا اس کے منہ میں تھیلی باندھی اور کہا کہ ’’اگل‘‘ لیکن گدھا جوں کا توں کھڑا رہا۔ لڑکے نے کئی مرتبہ چلا چلا کر کہا ’’اگل، اگل‘‘ لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ تھیلی جیسی خالی تھی ویسی ہی رہی اور گدھاچپ چاپ کھڑا رہا۔ اب لڑکا سمجھا کہ بھٹیارے نے گدھا چرا لیا۔ درزی اپنے دوستوں کے سامنے بڑا شرمندہ ہوا۔ لڑکے پر خفا ہونے لگا تو مجھے سب کے سامنے ذلیل کیا۔

    لڑکے نے سارا قصہ اپنے منجھلے بھائی کو سنایا۔ اب دوسرا بھائی سفر پر روانہ ہوا۔ کئی دن تک برابر چلتا رہا۔ رات کوپیڑ کے نیچے سو رہتا۔ آخر ایک دن اس کو ایک بڑھیا ملی، بڑھیا جنگل کے کنارے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتی تھی۔ لڑکا بڑھیا کے ساتھ رہنے لگا، بڑھیا جو کام بتلاتی اس کو بڑ ی محنت سے کرتا۔ بڑھیا اس کے کام سے بڑی خوش تھی۔ ایک دن لڑکے نے گھر جانے کو کہا، بڑھیا نے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور کہا کہ’’دیکھو بیٹا میرے پاس ایک ’’سینی‘‘ ہے۔ جب کہو گے ’’بھر جا‘‘ تو یہ بہترین کھانوں سے بھر جائے گی اور جتنے آدمی بیٹھے ہوں گے پیٹ بھر کر کھا لیں گے۔ تم یہ سینی لیتے جاؤ۔ ’’لڑکا سینی پاکر بہت خوش ہوا اور گھر کی طرف چلا۔ راستے میں اس کو وہی سرائے ملی جہاں بڑے بھائی کا گدھا چوری ہو گیا تھا۔ رات بسر کرنے کے لئے رک گیا۔ بھٹیارے نے کھانے کے لئے پوچھا۔ لڑکے نے کہا‘‘میں تم کو کھلاؤں گا’’ بھٹیارے نے کہا ‘‘تمہارے پاس تو کچھ ہے نہیں تم کہاں سے کھلاؤ گے؟ ’’لڑکے نے کہا ’’ٹھہرو’’سینی سامنے نکال کر رکھ دی اور کہا ’’بھر جا‘‘ یہ کہتے ہی سینی اچھے اچھے کھانوں سے بھر گئی۔ بھٹیارا اس نرالی سینی کو لالچ بھری نظروں سے تکنے لگا اور اس کے چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ لڑکا کافی تھک چکا تھا۔ کھانا کھاتے ہی سو گیا۔ بھٹیارا تاک میں تو لگا ہی ہوا تھا جب لڑکا سو گیا تو چپکے سے آیا اور سینی اٹھا کر لے گیا اور اس کی جگہ پر دوسری ویسی ہی سینی رکھ دی۔ لڑکا صبح سویرے اٹھا اور سینی لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو باپ اور بھائی سب اس کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور باتیں کرنے لگے۔ لڑکے نے اپنے سفر کا سارا حال بیان اور مزے لے لے کر سینی کی خوبی بیان کی، درزی کو سینی کی اس خوبی کا یقین نہ آیا۔ لڑکے نے کہا ۔’’امتحان لے لیجیے۔ آپ لوگوں کو بلوائیے۔ دیکھئے میں ابھی سب کے لئے اچھے اچھے کھانے چنوائے دیتا ہوں۔‘‘ لڑکے نے جب بہت ہی اصرار سے سینی کی خوبی بیان کی تو باپ نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی۔ سب لوگ گول دائرہ بناکر بیٹھے اور بیچ میں سینی رکھی گئی۔ لڑکے نے کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن سینی خالی کی خالی ہی رہی۔ اس نے پھر کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ تین چار مرتبہ چلا چلاکر کہا ’’بھرط جا، بھر جا، بھر جا‘‘ لیکن سینی ویسی ہی خالی کی خالی پڑی رہی۔ سب لوگ لڑکے کا منہ تکنے لگے اور اسے جھوٹا بتانے لگے۔ لڑکا بہت شرمندہ ہوا اور باپ تو مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ لڑکے کو ایک تو سب کے سامنے شرمندگی کا افسوس تھا اور دوسرے اصلی سینی کے گم ہو جانے کا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بلایا اور سارا قصہ بتلایا۔ یہ چھوٹا بھائی سمجھ گیا کہ یقیناً بھٹیارے ہی کی شرارت ہے اور اسی نے گدھا اور سینی دونوں چیزیں چرائی ہیں۔

    چھوٹا بھائی بہادر بھی تھا اور عقلمند بھی۔ ہمت باندھ کر روانہ ہوا کہ یہ دونوں چیزیں ضرور واپس لاؤں گا۔ کئی دن چلنے کے بعد اس کا گزر ایک میدان سے ہوا۔ یہ میدان پریوں کا تھا۔ رنگ برنگ کے پھول چاروں طرف کھلے ہوئے تھے۔ ہری ہری گھاس سبز مخمل کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ بیچ بیچ میں پانی کی سفید لہریں بہہ رہی تھیں۔ ہوا خوشبو میں بسی ہوئی تھی۔ لڑکا دم لینے کے لئے (سستانے کے لئے) ٹھہر گیا۔ ہوا کی مست خوشبو نے آنکھوں میں نیند بھر دی اور وہ جلدہی ایک گلاب کے پودے کے پاس پڑھ کر سو رہا۔ لڑکا ابھی سویا ہی تھا کہ نیلم پری جو اس گلاب پر رہتی تھی اتری اور لڑکے کو ہوا میں لے کر اڑ گئی۔ دوسرے دن لڑکے نے اپنے باپ کو ایک بہت ہی گھنے جنگل کے بیچ پایا۔ وہ کہاں ہے، یہاں کیسے آیا؟ ابھی ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ سارا جنگل طرح طرح کی آوازوں سے گونجنے لگا۔ اس کے بعد یک بیک لال رنگ کی روشنی سارے جنگل میں پھیل گئی۔ لڑکا بڑا پریشان ہوا۔ بار بار سوچتا ،کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ اتنے میں بڑے زور کی آواز اس کے کانوں میں آئی اور سارا جنگل نیلے رنگ میں رنگ گیا۔ اس آواز کو سن کر لڑکا کانپ گیا اور گھبرا کر ایک طرف بھاگا۔ اس کے بھاگنے پر جنگل کی سب پریاں ہنس پڑیں۔ بات یہ تھی کہ پریاں لڑکے سے کھیل رہی تھیں۔ جب پریوں نے اپنا کھیل ختم کر لیا تو نیلم پری چھم چھم کرتی ہوئی لڑکے کے پاس آئی اور بولی ’’تم ہمارے میدان میں کیوں آئے؟‘‘

    لڑکا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میدان آپ کا ہے۔ یہاں آنا منع ہے۔ اب کبھی نہیں آؤں گا۔

    نیلم پری:۔ (ہنستے ہوئے) کیا میدان پسند نہیں۔

    لڑکا:۔ جی۔ میدان تو پسند ہے لیکن جنگل ۔۔۔

    نیلم پڑیکیا ڈر لگتا ہے۔

    لڑکا:۔ جی ہاں۔

    نیلم پری:۔ اچھا۔ اپنی آنکھیں بند کرو۔ ادھر لڑکے نے آنکھیں بند کیں۔ ادھر پری نے ہوا میں اپنا آنچل ہلایا اور سارا جنگل پھر اسی ہرے بھرے میدان میں بدل گیا۔ لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ میدان دیکھ کر جان میں جان آئی۔ لڑکے کو جب ذرا اطمینان ہوا تو نیلم پری نے پوچھا ’’تم کیسے آئے؟‘‘ لڑکے نے دونوں بھائیوں کا سارا قصہ سنا دیا۔ وہ سینی اور گدھا واپس لینے جا رہا ہے۔ پری نے تالی بجائی اور فورا ایک دیو حاضر ہوئے۔ پری نے حکم دیا کہ ’’جاؤ سرائے والے بھٹیارے سے سینی اور گدھا چھین لاؤ۔‘‘ دیو آناً فاناً سرائے میں پہنچے اور چند منٹ میں سینی اور گدھا لاکر حاضر کر دیا۔ پڑی نے لڑکے کو ایک ڈنڈا دیا اور کہا ’’جو شخص تمہارا دشمن ہو اس کی طرف اس ڈنڈے کو پھینک کر کہنا ’’ناچ‘‘ پھر یہ ڈنڈا اس آدمی کی پیٹھ پر خوب ناچ دکھائے گا۔ اتنا مارے گا کہ وہ آدمی بے ہوش ہو جائے گا۔ ’’لڑکا سینی، گدھا اور ڈنڈا لے کر گھر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ پری نے دیو کو حکم دیا کہ جاؤ لڑکے کو گھر تک پہنچا آؤ ۔ دیو نے حکم پاتے ہی لڑکے کو تمام سامان کے ساتھ ہاتھ پر اٹھا لیا اور ہوا میں اڑتا ہوا آن کی آن میں گھر پہنچا۔

    گھرکے سب لوگ جمع ہو گئے۔ چھوٹے بھائی نے سب کی خوب دعوتیں کیں اور سونے کے ٹکڑے بھی بانٹے۔ اب درزی کی شرمندگی دور ہو گئی اور سب لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کی اس کہانی کے مصنف ممتاز صاحب اسلوب ادیب، افسانہ نگار، صحافی اور مترجم اشرف صبوحی ہیں)

  • بھونرے کی کہانی!

    بھونرے کی کہانی!

    آج ننھی کنول کو زکام ہو گیا تھا۔

    بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ گھر میں امی اور نرسری میں آنٹی بہت منع کرتیں، بہت روکتیں، آنٹی نرسری میں سمجھاتیں، مگر ربر کے غباروں میں پانی بھر کر اس کا فوارہ بنانا، اسے دوسروں پر پھینکنا اور پانی کے سارے کھیل اسے بہت اچھے لگتے تھے اور ننگے پاؤں گھومنے میں تو اسے بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بس پھر اسے زکام ہو گیا۔ ناک سے پانی۔ آنکھوں سے پانی۔ آنکھیں لال۔ ’’آچھیں‘‘ کھوں، کھوں اور پھر بخار بھی ہو گیا۔ اب وہ نرسری کیسے جاتی۔ تو اسے چھٹی کرنی پڑی۔

    گھر پر اکیلے لیٹے لیٹے اس کا جی بہت گھبرا رہا تھا۔ امی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں۔ بہن بھائی سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اور ابا اپنے دفتر۔ پڑوس کے بچے بھی سب اپنے اپنے اسکول جا چکے تھے اور باہر گلی میں کھیلنے پر امی بہت خفا ہوتی تھیں۔

    جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تو وہ چپکے سے اٹھی اور گھر کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور آہستہ آہستہ اپنی گیند سے کھیلنے لگی۔ مگر اکیلے کب تک کھیلتی۔ بس اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔ رنگ برنگی تتلیاں، لال پیلی نیلی تتلیاں، پھولوں پر ناچتی پھر رہی تھیں۔ وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھونرے پر پڑ گئی۔

    بھن بھن کرتا کالا کلوٹا بھونرا جلدی جلدی ایک پھول سے دوسرے پھول پر اور دوسرے سے تیسرے پر اڑتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کسی پھول پر بیٹھتا تو پھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔ ننھی کنول تھوڑی دیر بھونرے کو غور سے گھورتی رہی اور پھر جیسے کوئی اپنے آپ سے بولنے لگے، اس نے بولنا شروع کر دیا۔
    ’’میاں بھونرے۔ میاں بھونرے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ سب تتلیاں تو کتنی رنگ برنگی اور سندر ہیں؟‘‘

    ننھی کنول ایک آواز سن کر ایک دم چونک پڑی۔ ’’کیا تم میری کہانی سنو گی؟‘‘ اس نے پھر وہی آواز سنی اور پھر اسے یقین ہو گیا کہ یہ بھونرے کی ہی آواز ہے۔ بھونرا بھن بھن کر رہا تھا اور اسی میں سے یہ آواز آ رہی تھی۔

    ’’کیوں!‘‘ کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں سنو! بھونرے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے چاندی ہیرے موت سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے، ہیرے موتی کے پردے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔ یہ پھول، پتے، ہری ہری گھاس سب سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں اور ہاں مجھے چڑیو ں کی چوں چوں، کبوتروں کی غٹرغوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس میں نے ایک دم حکم دیا۔ یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔ چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں، ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا باندھی جائیں۔‘‘

    ’’بس میرا حکم ہونے کی دیر تھی۔ تمام باغ اجڑ گئے۔ چڑیاں مر گئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘

    ’’کیا ہوا‘‘؟ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میرے دیس کے بچے جو باغوں میں کھیلتے پھرتے تھے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے وہ سب اداس ہو گئے اور پھر بیمار ہو گئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ اس لئے بچوں کے ماں باپ پریشان ہو گئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہو گئے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور ایک دن دیس کے سارے بچوں نے اور ان کے ماں باپ نے میرے محل کو گھیر لیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔ میرے سارے بدن پر کالک مل دی۔ انہوں نے کہا تم نے ہمارے دیس کو اجاڑ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو دکھی کر دیا ہے۔ انہیں بیمار ڈال دیا ہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کا ہے۔ جاؤ۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں، ہری ہری گھاس اور جھومتے پودوں کو لے آؤ ان سب ناچتی گاتی چڑیوں اور رنگ رنگیلی تھرکتی تتلیوں کو لاؤ جنہیں تم نے دیس سے بھگا دیا ہے۔ ان سب کو منا لاؤ تو اس دیس میں آنا۔

    ’’بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھر رہا ہوں، میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھر رہا ہوں۔ ننھی کنول! کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کے لئے کہہ دو گی۔ اب مجھے پھولوں، پتوں، کلیوں، تتلیوں، چڑیوں سب سے بہت پیار ہو گیا ہے۔‘‘

    ننھی کنول کی امی کو جب اپنے کام سے ذرا چھٹی ہوئی تو وہ اسے دیکھنے اس کے بستر کے پاس آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی اک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سو رہی ہے اور ایک بھونرا اس کے پھول جسے لال لال کلے کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اڑ رہا ہے۔

    (بچّوں کے لیے یہ کہانی بھارتی شاعرہ اور ادیب سیدہ فرحت نے تحریر کی ہے)

  • قصہ لکھن لال جی کا…

    قصہ لکھن لال جی کا…

    مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا۔

    وہ اچانک ہماری حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہرہ، کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اچھلتی لچکتی بڑی سی دُم، میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اچھل اچھل کر کہنے لگے،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میرے ماموں کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر ان کے اور بھی قریب کر دیا اور انھوں نے مجھے گود میں لے لیا۔ پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال ہو گیا، تم نہیں جانتے بچو میرا کیا حال ہو گیا۔ جب انھوں نے مجھے چھوڑا تو میں نڈھال ہو چکا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا— پھر مجھے فوراً ہی تیز بخار آ گیا۔ شب میں بھی میرے کانوں میں ان کی آواز گونجی،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھر رہے کھاں’’

    ابھی تک مجھے وہ بے معنی آواز یاد ہے۔ بچپن کی یادوں کے ساتھ یہ آواز بھی آ جاتی ہے۔ کل اس آواز کا خوف طاری ہو جاتا تھا تو تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔

    وہ ہر جمعہ کو آ جاتے، اسی طرح چیختے ہوئے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں۔’’ اور میں سہم جاتا۔ دالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن میرے ابو میرے ہاتھ سے محتاجوں کو پیسے کپڑے تقسیم کراتے۔ اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اس دن آ جاتے ہیں، جو مل جاتا لے کر چلے جاتے۔ اُنھیں دیکھ کر میری روح فنا ہو جاتی۔

    وہ۔۔۔ اور ان کے بے معنی لفظوں کی بھیانک آواز مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھی۔ حویلی کے کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا نا بچو، تو وہ کہتے ’’دیکھو وہ آ گیا بندر کی دُم والا۔‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    اور میری حالت غیر ہو جاتی، کبھی پلنگ کے نیچے کبھی لحاف کمبل میں دبک جاتا۔

    بہت دن بیت گئے۔ جب کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا ان کا نام لکھن لال ہے اور وہ ایک بہروپیا ہیں، مختلف قسم کے بھیس بدلتے اور گھر گھر جاکر پیسے مانگتے ہیں۔

    یاد ہے ایک روز وہ ڈاکیہ بن کر آئے اور حویلی کے چبوترے پر بیٹھے کچھ لوگ دھوکہ کھا گئے۔ پھر وہ بیٹھے رہے چبوترے پر اور اپنی کہانی سناتے رہے۔ میں بھی پاس ہی بیٹھا ان کی کہانی سننے لگا۔ مجھے یاد نہیں ان کی کہانی کیا تھی البتہ یہ تاثر اب تک ہے کہ وہ جو کہانی سنا رہے تھے اس میں کچھ دُکھ بھری باتیں تھیں، اپنی کہانی سناتے سناتے رو پڑے تھے۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا اس لیے کہ میں کسی کو روتا دیکھ نہیں سکتا۔

    اتنا یاد ہے ان کا نام لکھن لال تھا، موتی ہاری شہر سے کچھ دور ’’بلوا ٹال’’ میں رہتے تھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہونے لگی۔ مجھے بتاتے کس کس طرح بہروپ بھر کر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالتے رہے ہیں۔ اُن کی ہر بات بڑی دلچسپی سے سنتا، وہ کبھی عورت بن جاتے، کبھی پوسٹ مین، کبھی ہنومان، کبھی کرشن کنہیا۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتے تو میں فرمائش کرتا ایک بار بولیے نا ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر…’’ اور وہ میری خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے خاص انداز سے کہتے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘ ان سے اس طرح سنتے ہوئے اچھا لگتا۔

    پھر وہ کہاں اور میں کہاں، میں اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست سے بہت دور اور وہ میرے اور اپنے پرانے شہر میں جانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ ان کی یاد آئی تو اپنے پہلے خوف سے ان سے دوستی تک ہر بات یاد آ گئی۔ کشمیر میں اپنے بچّوں کو ان کے بارے میں بتایا اور میرے بچّوں کو بھی ان بے معنی لفظوں سے پیار سا ہو گیا۔ ’’ناک دھودھڑکی ناک نجر کھررے کھاں۔‘‘

    بہت دن بیت گئے۔ موتی ہاری گیا تو لکھن لال کی یاد آئی، پرانے لوگوں میں ان سے بھی ملنے کی بڑی خواہش ہوئی، اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا ’’میرے ساتھ بلوا ٹال چلو، لکھن جی کا مکان ڈھونڈیں شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔‘‘

    بڑی مشکل سے ان کی جھونپڑی ملی، ہم اندر گئے، دیکھا ایک کھٹولہ ہے، اسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے، لکھن لال بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، بال ابرو غائب، دانت ندارد، حد درجہ سوکھا جسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھریاں کہ بس انھیں ہٹاکر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ منہ کھولے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا، اچھا ہوا جو مل لیے، اچھا ہوتا جو نہ ملتے۔ وہ اس رُوپ میں ملیں گے، سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو، ہنومان، لنگور کا مکسچر یاد آ گیا کہ جس نے اُچھل اُچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں۔

    کیا یہ وہی شخص ہے؟ کیا یہ وہی لکھن لال ہیں؟ انھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ ممتاز نے انھیں میری یاد دلائی۔ انھیں یاد آ گیا، پرانا وقت، میرا نام سنتے ہی کھٹولے پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ان کے پیار کی خوشبو مجھ تک پہنچ گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھوں سے کئی قطرے ٹپک پڑے، میری آنکھوں میں بھی اپنے پرانے بزرگ دوست کو دیکھ کر آنسو آ گئے۔ اُنھوں نے آہستہ آہستہ ایک ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا۔ اسی وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے۔ نیم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رشتوں کو پڑھ رہے تھے۔ کوئی آواز نہ تھی۔ بچّو! میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے ، سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ اے- ون ہے۔ سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اسی کی ہنسی پر دنیا قائم ہے۔ ذرا اب تو ہنس کر دیکھے یہ بہروپ دیکھ کر رو پڑے گا۔

    جب رخصت ہونے لگا تو انھوں نے روکا، آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک۔۔۔ دھو۔۔۔ دھڑ۔۔۔ کی ناک۔۔۔ نجر۔۔۔ کھررے۔۔۔ کھاں۔’’ پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی۔

    پھر میری طرف دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں بند کر لی۔ پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سو جاتے ہیں۔ اور ایک دن لکھن اچانک ابدی نیند سو گئے۔

    بہروپیا اپنے نئے روپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا۔

    (اردو میں جمالیاتی تنقید کے ممتاز نقاد شکیل الرّحمٰن کی بچّوں کے لیے ایک کہانی)

  • گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    پچھلے پچاس منٹ سے تینوں بچے سَر جوڑے غور و فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لیکن ابھی تک کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تینوں کی خواہش تھی کہ کل اتوار کو انٹرنیشنل سرکس دیکھا جائے۔ اس سرکس کی بے حد تعریف ہو رہی تھی اور آج یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ اسی ہفتے میں اس شہر سے سرکس والوں کا ڈیرا اٹھنے والا ہے۔

    تینوں میں سب سے بڑا شہیر تھا۔ وہی ممی کے پاس اجازت لینے کے لیے پہنچا، لیکن ابھی اس کے منہ سے سرکس کی بات نکلی ہی تھی کہ ممی کا سنسناتا ہوا طمانچہ اس کے گال پر پڑا۔ شہیر کی آنکھوں کے سامنے رنگ برنگے تارے ناچ گئے۔ ہما اور ڈولی دروازے کے قریب ہی کھڑے اندر جھانک رہے تھے۔ چٹاخ کی آواز سنتے ہی ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی اور دونوں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آ گئیں۔

    ممی چلا رہی تھیں: "جمعرات سے امتحان شروع ہو رہا ہے اور تمھیں سرکس کی سوجھ رہی ہے۔”

    ممی کے اس سخت برتاؤ پر غور کرنے کے لیے ہی وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ "ہمارے سرکس دیکھنے جانے پر ممی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” ہما نے کہا۔

    "امتحان تو صرف بہانہ ہے۔ امتحان جمعرات سے شروع ہو گا اور ہم کل سرکس دیکھنے جانا چاہتے ہیں۔” ڈولی بولی۔

    شہیر اپنا گال سہلاتے ہوئے بولا: "سرکس دیکھنے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔”

    ڈولی بولی: "بھیا! آپ ایک غلطی کر رہے ہیں۔”

    شہیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا: "کیا؟”

    "ممی کا طمانچہ آپ کے بائیں گال پر پڑا ہے، مگر غلطی سے دایاں گال سہلا رہے ہیں۔”

    "ڈولی! اس مسئلے کو یوں مذاق میں نہ ٹالو۔” ہما نے چھوٹی بہن کو ڈانٹا۔

    "آئی ایم سوری۔” ڈولی غلطی مان گئی۔

    ہما اصل موضوع پر آتے ہوئے بولی: "ممی کے سلسلے میں ہمیں کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔ آج بھیا کے طمانچہ لگا ہے، کل ہمارے بھی لگ سکتا ہے۔”

    شہیر نے مشورہ دیا: "کیوں نہ ہم ممی کا گھیراؤ کریں۔”

    "گھیراؤ!” ڈولی نے پوچھا: "یہ کیا چیز ہوتی ہے؟”

    "ٹھیک طرح تو مجھے بھی نہیں معلوم ہے، ویسے ریڈیو پر اکثر سنتا ہوں کہ فلاں جگہ مزدوروں نے مینجر کا گھیراؤ کیا اور اپنی باتیں منوا لیں۔”

    ہما نے کہا: "ہاں ٹھیک ہے۔ جس کا گھیراؤ کرنا ہو اس چاروں طرف سے گھیر لو۔”

    ڈولی بیچ میں بول پڑی: "پھر اسے نہ کام کرنے دو اور نہ کھانا پکانے دو، مزہ آ جاتا ہو گا۔”

    "بالکل۔” شہیر نے کہا۔

    ڈولی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: "لیکن ہم تو صرف تین ہیں۔ ممی کو تین طرف سے ہی گھیر سکتے ہیں۔ چوتھی طرف سے وہ نکل جائیں گی۔”

    "اس بات کی تو اتنی فکر نہیں ہے، لیکن مجھے ڈولی پر بھروسا نہیں ہے۔ ابھی پرسوں یہ ایک چھوٹی سی چوہیا سے ڈر کر ممی سے لپٹ گئی تھی۔” ہما نے ڈولی کا مذاق اڑایا۔

    ڈولی تلملا کر بولی: "چوہیا، چوہیا ہوتی ہے۔ میں گھیراؤ کرنے سے بالکل نہیں ڈرتی۔”

    ہما نے اسے چڑایا: ” رہنے بھی دو، میں نہیں مان سکتی۔ گھیراؤ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔”

    "اچھی طرح سوچ لو، ممی کا گھیراؤ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہم طمانچوں اور جھڑکیوں کی بارش ہو جائے۔ اس وقت ہمیں گھبرا کر میدان نہیں چھوڑنا ہو گا۔”

    اتنے میں باورچی خانے سے ممی کی آواز سنائی دی: "شہیر! جلدی سے یہاں آؤ۔”

    "مت جاؤ بھیا۔” ڈولی نے کہا۔

    "نہیں مجھے ضرور جانا چاہیے۔” شہیر کانپتے ہوئے بولا۔

    ڈولی ہنس کر بولی: "لو، مجھے کہتے ہیں اور اب خود ہی ڈرنے لگے۔”

    "تم سمجھتی کیوں نہیں ڈولی! ہو سکتا ہے طمانچہ مار کر ممی پچھتا رہی ہوں اور آئس کریم کھانے کے لیے پیسے دینا چاہتی ہوں۔” یہ کہہ کر شہیر چلا گیا۔

    ایک منٹ بعد شہیر پچاس روپے کا نوٹ ہاتھ میں لیے لوٹا۔

    "ممی نے یہ نوٹ نکڑ والی دکان سے مسور کی دال لانے کے لیے دیا ہے۔” اس نے بتایا۔

    ہما نے پاؤں پٹک کر کہا: "آپ کو دال کبھی نہیں لانی چاہیے۔”

    ڈولی بولی: "یہ دال لانے کا نہیں، آپ کی ناک کا سوال ہے۔”

    شہیر کا ہاتھ اپنی ناک پر چلا گیا اور اسے اچھی طرح ٹٹول کر بولا: "کیوں؟ کیا ہوا میری ناک کو؟”

    "بھیا! میرا مطلب آپ کی عزت اور بے عزتی سے ہے۔ دال آگئی تو گھراؤ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” ڈولی بولی۔

    شہیر چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا: "ٹھیک ہے، میں دال نہیں لاؤں گا، اور ۔۔۔ ۔۔”

    اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ شہیر گھبرا کر بولا: "ممی ادھر ہی آ رہی ہیں، میں دال نہیں لایا تو۔۔۔ ۔” گھبرا کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔

    ممی کے قدموں کی آہٹ ہر لمحہ نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔ سوچنے کا قطعی وقت نہیں تھا۔ سامنے ہی چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ شہیر اسی کے نیچے گھس گیا۔

    ممی ریل گاڑی کے انجن کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ آتے ہی بولیں: "ذرا نکڑ تک دیکھ کر آؤ، شہیر دال لینے گیا ہے۔ ابھی تک نہیں لوٹا۔ چولہا بےکار جل رہا ہے۔”

    ہما نے کہا: "آ جائیں گے۔”

    ممی نے دھم سے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا: "کیا بات ہے، تم دونوں اداس نظر آ رہی ہو؟”

    ممی کے بیٹھتے ہی شہیر کا برا حال ہو گیا۔ چارپائی اونچائی میں بہت کم تھی۔ یوں بھی اس کی بنائی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ ممی کا وزن جب شہیر کی پیٹھ پر پڑا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔”

    اسی وقت باہر سے ڈیڈی کی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔ وہ بھی کمرے میں آ گئے اور اسی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شہیر کے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کسی نے پانچ من کا وزن لاد دیا ہو۔ دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑے بھی آدھی سانس لے پا رہے تھے۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے گھیراؤ کرنے کی اسکیم بنائی اور خود چارپائی کے نیچے آ پھنسا۔

    ڈولی ہما کے کان میں بولی: "گھیراؤ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ دیکھو پیچھے دیوار ہے، ایک طرف سے ہم ممی اور ڈیڈی دونوں کو ہی گھیر سکتے ہیں۔”

    "لیکن بھیا کا تو اپنا ہی گھیراؤ ہو گیا ہے۔” ہما بولی۔ "کسی طرح بھیا تک اسکیم پہنچائی جائے۔” ڈولی منمنائی ڈیڈی بوٹوں کے تسمے کھولتے ہوئے بولے: "بھئی آج تو کمال ہو گیا۔ ہماری کنجوس کمپنی نے اس بار تین مہینے کا بونس دے ڈالا۔ تیس ہزار ہاتھ آ گئے۔”

    "تیس ہزار!” ممی کھل اٹھیں۔

    "ہاں، اسی خوشی میں کل ہم سرکس دیکھنے چلیں گے۔ اس کی بڑی تعریف سن رہا ہوں۔”

    ہما اور ڈولی اچھل پڑے۔ دونوں چلائے: "ہپ ہپ۔”

    چارپائی کے نیچے سے دبی دبی آواز آئی: "ہرا!”

    ممی اور ڈیڈی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دیکھا تو نیچے سے شہیر اپنی کمر پکڑے نکل رہا تھا۔

    "ارے تم دال لینے نہیں گئے؟” ممی نے پوچھا۔

    "ذرا جھپکی آ گئی تھی۔ بس اب میں یوں گیا اور یوں آیا۔” شہیر نے کہا اور دال لانے کے لیے دوڑ گیا۔

    (مصنّف: پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)

  • ماچس والی لڑکی

    ماچس والی لڑکی

    بَلا کی سردی تھی۔ شام اندھیری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بالآخر رات آگئی۔ سال کی آخری رات۔

    ایک چھوٹی سی غریب بچّی، ننگے سَر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کے پاؤں میں اس کے اپنے نہیں بلکہ ماں کے چپل تھی لیکن وہ کس کام کے؟ وہ تو اس کے ننھے ننھّے پاؤں سے بہت بڑے تھے۔ صبح جب وہ سڑک پار کرنے لگی تھی تو ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی سے بچنے کی کوشش میں چپل اس کے پاؤں سے اتر گئے۔ ایک تو گٹر میں گر گیا ، دوسرا ایک لڑکا اس کا منہ چڑاتا ہوا، لے کر بھاگ گیا۔

    جب سے بچّی ننگے پاؤں پھر رہی تھی، پاؤں سردی کی شدت سے نیلے ہو رہے تھے۔ اس نے ایک پھٹا پرانا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ ماچسوں کے کچھ پیکٹ اس نے ایپرن کی جھولی میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک پیکٹ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ لیکن صبح سے اب تک اسے کوئی گاہک نہیں ملا تھا۔ اب تک اس نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں کمائی تھی۔ سردی سے کانپتی، بھوک سے لاغر دکھ کی تصویر بنی یہ غریب معصوم بچّی گلی گلی گاہکوں کی تلاش میں پھرتی رہی۔

    گھروں سے لذیذ کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔ اس کی بھوک اور بھڑک اٹھی تھی۔ اب وہ جس گلی میں آئی تھی اس کے دو مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تھڑا تھا۔ تھکن سے چور بچّی سستانے وہاں بیٹھ گئی۔ اپنے یخ پاؤں کو اس نے ہاتھوں سے گرمانے کی کوشش کی، پھر اکڑوں بیٹھ کر اپنی فراک سے انہیں کسی حد تک ڈھانپا لیکن وہ ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔

    سردی شدید ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کی ہمّت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ گھر واپس جائے، کیسے واپس جاتی؟ اس کی تو صبح سے ایک ماچس بھی نہیں بکی تھی۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جاسکتی تھی اور ویسے بھی گھر میں سردی کون سی کم تھی۔ ایک کمرے والے گھر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا اور چھت میں ایک بڑا سا سوراخ جس کو بھوسے اور پرانے چیتھڑوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن وہاں سے ہر وقت ٹھنڈی ہوا آتی رہتی۔ اب اس کے ہاتھ سردی سے بالکل سُن ہو چکے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کاش اس وقت کہیں سے تھوڑی سی آگ مل جائے تو اس کے ہاتھ کچھ گرم ہو جائیں۔ لیکن آگ کیسے ملے؟ کہاں سے آئے؟

    اس نے لالچ بھری نظروں سے ماچس کی ڈبیہ کی طرف دیکھا۔ امید کی ہلکی سی کرن نظر آئی۔ سَر کے ایک جھٹکے سے اس نے اس خیال کو بھگانے کی کوشش کی، مگر خیال بار بار واپس لوٹتا رہا۔ اس نے جھجکتے جھجکتے ایک تیلی نکالی، ڈرتے ڈرتے اسے تھڑے کے فرش سے رگڑا۔ ایک شعلہ نمودار ہواتو اس نے جلتی تیلی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپا، شعلے کی تپش کو محسوس کیا، شعلے کی چمک عجیب سی تھی۔

    اس لمحے بچّی کو ایسا لگا کہ وہ ماچس کا شعلہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا آتش دان ہے، جس پر چمکیلے پیتل کے دستے لگے ہوئے ہیں اور سنہری جالی کے پیچھے جلتی آگ اس سجے سجائے کمرے کو تاپ رہی ہے، جہاں وہ ایک دیوان پر موٹا سا گرم اونی گاؤن پہنے بیٹھی ہے۔ اچانک شعلہ لپک کر ایک دم بجھ گیا۔ آتش دان، گرم اونی گاؤن، دیوان، سب اچانک غائب ہو گئے، تاریکی پھر سے چھا گئی۔ صرف بجھی ہوئی ماچس کی تیلی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے ایک اور تیلی جلائی۔

    تھڑے سے جڑی ہوئی دیوار کو شعلے کی روشنی نے چمکیلے موتیوں سے جڑی جھالر میں بدل دیا۔ اس کے پیچھے اسے صاف نظر آیا جیسے ایک خوش و خرم خاندان کے لوگ دستر خوان کے گرد بیٹھے ہیں اور دستر خوان پر کھانے کی پلیٹیں لگی ہیں۔ کٹوروں میں انواع و اقسام کے کھانے ہیں، ایک بڑا برتن گرم گرم سوپ سے بھرا ہوا ہے جس میں سے بھاپ نکل رہی ہے۔ ایک لڑکا سوپ کا پیالہ لے کر اس بچّی کے پاس آیا۔ لیکن جیسے ہی اس نے سوپ کا پیالہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ماچس کی تیلی بجھ گئی اور پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ اب اس کے سامنے صرف ٹھنڈی، پتھریلی دیوار تھی۔

    بچّی نے آنکھیں اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ایک ستارہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آ رہا تھا۔ بچّی کی دادی، واحد شخص تھیں جن سے اس کو پیار ملا تھا۔ وہ اسے کہانیاں سناتی تھیں۔ دادی نے ایک کہانی سناتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ جب آسمان سے چمکتا ہوا تارہ ٹوٹ کر نیچے آتا ہے تو زمین سے کوئی روح آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تارہ کس کی موت کا پیغام لے کر میری طرف بڑھ رہا ہے؟ کوئی نہ کوئی ضرور مرنے والا ہے۔ خدا جانے کون؟

    بچّی نے ماچس کی ایک اور تیلی جلائی، پھر سے روشنی ہوئی۔ اب اسے روشنی میں صاف نظر آیا کہ سَر پر روشنی کا تاج پہنے اس کی دادی اس کے سامنے کھڑی اسے پیار سے دیکھ رہی ہیں۔ ’’دادی، پیاری دادی مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ میں بہت بھوکی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں دادی۔ مجھے معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ ماچس بجھے گی آپ بھی چلی جائیں گی، جیسے وہ گرم آتش دان غائب ہو گیا، جیسے سوپ کا پیالہ ۔ آپ بھی ایسے ہی چلی جائیں گی لیکن آپ نہ جانا۔ میں اب اندھیرا نہیں ہونے دوں گی۔

    میں آپ کو نہیں جانے دوں گی‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ تیلی بجھ جاتی اس نے ایک تیلی اور جلائی، پھر دوسری، پھر اس نے پورے ماچسوں کے بنڈل کو تیلی دکھا دی۔ ماچس کی تمام تیلیاں دم جلیں۔ ایک بہت بڑا شعلہ اٹھا، رات دن کی طرح روشن ہو گئی۔ دادی نے ہاتھ بڑھائے، بچّی کو گود میں لیا تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔ اسے لگا وہ ستاروں کی طرف جا رہی ہے لیکن دو پرانے مکانوں کے درمیان بنے تھڑے پر دیوار سے لگی ایک چھوٹی سی بچّی، جس کے رخسار لال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، سردی کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اس کا بے جان جسم سردی سے جم کر اکڑ چکا تھا۔ وہ ایسے ہی بیٹھی تھی جیسے رات کو بیٹھی تھی۔ ایک طرف جلی ماچسوں کا ڈھیر تھا، دوسری طرف، جھولی میں کچھ ماچسوں کی ڈبیاں۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ کوئی تو مجھ سے ماچس خرید لے۔

    صبح کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے تھڑے کے پاس جمع ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بے چاری اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش میں مر گئی۔ لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ وہ اپنے تصور میں کتنی خوب صورت دنیا دیکھ رہی تھی اور اب کتنی مسرت سے اپنی بوڑھی دادی کی گود میں ایسی دنیا میں ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ سردی ہے، جہاں صرف خوشی ہی خوشی ہے، محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے۔

    (عالمی شہرت یافتہ ادیب ہینز کرسچن اینڈرسن کی مشہور کہانی کا اردو ترجمہ)

  • بلبلِ ہزار داستان…

    بلبلِ ہزار داستان…

    ایک تو گڈی بی بی خوب صورت، دوسرے ان کی ادائیں۔ ہائے غضب… بس پارہ تھیں پارہ۔ سارے گھر کا ان کے مارے ناک میں دَم تھا۔

    شرارتیں کرنے کا تو گویا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ میز پر سیاہی پھیلی ہوئی ہے تو سمجھ لیجئے، بلا شبہ گڈی نے گرائی ہے۔ گل دان کے پھول نُچے ہوئے ہیں تو ذہن میں سوائے گڈی کے اور کس کا نام آسکتا ہے؟ بھائی جان کی ٹائیاں تو مزے سے دو دو آنے میں ملنے والی ٹین کی گاڑیوں میں جوتی جاتیں۔ ان کے بڑے بڑے جوتے گڑیوں کا گھر بنتے۔ پہلے پہل تو سارے بچّوں نے حد درجہ اعتراض کرنا شروع کیا۔

    "کوئی حد ہے۔ ہم تو کبھی اپنی گڑیا کو جوتے میں نہ بٹھائیں۔”

    "ارے واہ کسی نے دلہن کو جوتے میں سلایا ہوگا۔” گڈی بیگم تو جدید ترین فیشنوں کی موجد ہیں ہی۔ انہیں ایسے اعتراض بھلا کیا کھلتے؟

    "ارے بھئی قسم ہے، خود ہم نے اپنی آنکھ سے آج کل اس ٹائپ کی کاریں دیکھی ہیں۔” کسی اور کچھ اعتراض کیا تو بول پڑیں”بھئی اللہ ہم خود ڈیڈی کے ساتھ رشید انکل کی کار میں پکنک پر گئے تھے۔ بس ہوبہو جوتا ہی دیکھ لو۔”

    پھر تو یہ ہونے لگا کہ ریک کے سارے جوتے آنگن کے پچھواڑے ملتے اور جو بھائی جان بھناتے ہوئے آنگن سے جوتے سمیٹ کر لاتے تو کسی میں دلہن بیٹھی ہے تو کسی میں دولہا۔ اور تو اور "گھر” سجانے کی خاطر جو رنگ چڑھائے جاتے تھے وہ جوتوں کا روپ ہی دونا کر دیتے! نتیجے میں گڈی بیگم، اور ان کے ساتھ سب ہی کی پٹائی ہوتی۔ مگر توبہ کیجئے جو وہ ذرا بھی ٹس سے مس ہوتی ہوں! غضب خدا کا۔ زبان تو وہ تیز پائی تھی کہ بڑے بڑوں کے منہ بند کردیے۔ اس پر بھی امی کا وہ لاڈ کہ پوچھئے نہیں۔ ابا لاکھ جوتے ماریں مگر پھر خود ہی لاڈ کرنے بیٹھ جائیں۔

    "ارے یہ تو میری بلبل ہزار داستاں ہے۔ یہ نہ چہکے تو گھر میں چہل پہل کیسے مچے۔”

    گھر میں کسی ایک بچے کو چاہا جائے تو دوسرے بچے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، گڈی بی بی کے بھی ان گنت دشمن تھے، مگر وہ کسے خاطر میں لاتی تھیں۔ کبھی چنّو کی موٹر کی چابی چھپا دی تو کبھی منّی کے جوتے لے جا کر پھولوں کے گملے میں چھپا دیے۔ اور جناب وہ تو ابا تک کو نہ چھوڑتیں۔ اس دن ابا نے عید کی خوشی میں معاف کر دیا شاید۔ ورنہ وہ پٹائی ہوتی کہ سارا چہکنا بھول جاتیں۔ ہوا یوں کہ ابا اپنی کتابیں رکھنے کے لئے ایک نیا شیلف لائے۔ اس سے پہلے والا بک شیلف وہیں ابا کے کمرے میں ہوتا تھا مگر شاید بلبل ہزار داستان کی نظر نہ پڑی ہوگی۔ تب ہی اس نئے شیلف کو دیکھ دیکھ کر اچھل پھاند مچانے لگیں۔

    "آہا جی۔۔۔۔۔اور ہو جی۔۔۔۔ ڈیڈی گڑیا گھر لائے ہیں، آہا، ہو ہو۔” اب دوسرے بڑے بچّے تھک ہار کر سمجھا رہے ہیں، مرمر کر کہہ رہے ہیں کہ بی بنّو یہ تمہاری گڑیا کا محل نہیں۔ کتابیں رکھنے کا شیلف ہے، مگر کسی کی مانتیں؟؟ کہنے لگیں۔” یہ جو خانے بنے ہوئے ہیں تو اسی لئے کہ سب الگ الگ رہیں اور لڑیں جھگڑیں نہیں۔۔ اور جو یہ گول گول گھومتا بھی ہے تو اس لئے کہ گڑیوں کے بچّے اگر رونے لگیں تو اس چھت پر بٹھا کر انہیں چک پھیریاں دی جائیں۔

    ان کی زبان کی تیزی کے آگے کون منہ کھول سکتا تھا۔ بس جناب ہتھوڑی اور کیلیں لے کر پہنچ ہی تو گئیں۔ ہر طرف کیلیں ٹھونک کر اس میں رنگین جھنڈیاں، غبارے اور پیپر فلاورز لگا دیے، ایسا شان دار گڑیا گھر تیار ہوا کہ سب بچے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اب اس کے پاس تو کوئی نہ کوئی دوڑ ہی جاتا، اتنا ڈر بھی کیوں رہے؟ سب کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سبھوں کی گڑیوں کو ایک ایک کمرہ دے دیا، ہر چند کہ ڈیڈی اپنے ہی لئے گڑیا گھر لائے تھے، پھر بھی اگر وہ محض اسی بات پر چڑ جاتے تو اگلے دن تو عید ہے اور یہ بچّے بجائے عید کی تیاریوں کے الٹ پلٹ دھندوں میں ہی جتے ہوئے ہیں تو۔۔۔؟!

    شام کو ننھّے منّے دوست اپنی اپنی عید کی پوشاکیں اور تیاریوں کی داستانیں بتانے، سنانے آئے تو گڈی نے سب کو اپنا گڑیا گھر دکھایا۔ جہاں اب کترنوں کے بچے کھچے کپڑوں کے پرے لٹک رہے تھے۔ دل میں تو سب جل گئے مگر منہ سے تو کہنا ہی پڑا۔ "واہ بھئی۔۔۔ بڑا اچھا گھر ہے۔ اچھا کل آئیں گے۔۔ ٹاٹا۔” عید کا کیا ہے ایک دن کے لئے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ گڑیا گھر کی خوشی تو لافانی بن کر آئی تھی۔ گڈی کی اتراہٹ کا کیا پوچھنا تھا؟!

    ابا عید گاہ سے لوٹے تو مزے سے آکر گردن میں جھول گئیں۔ "ہماری بٹیا کتنی عیدی لے گی؟” جواب میں بٹیا اور بھی اترا گئیں۔ "آپ نے تو پیشگی عیدی دے ڈالی ڈیڈی۔ غضب خدا کا کتنا اچھا گھر ہے ڈیڈی۔”

    "ہائیں۔۔۔ کیا بک رہی ہے۔” ابا جھنجھلائے۔ "ہاں ہاں اور جو کل آپ لائے ہیں تو پھر کیا ہے؟” ابا نے تو شیلف گیسٹ روم میں رکھوادیا تھا کہ عید کے بعد فرصت سے اسے اپنے کمرے میں جائز مقام پر رکھوائیں گے آنکھیں گھماکر دیکھا اور پوچھا۔

    "گھر، کیسا گھر بھئی۔” جواب میں بٹیا رانی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم تک ڈیڈی کو لائیں۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ نیا شیلف! پورے تین سو روپے میں بنوایا تھا۔ کیلے چبھے ہوئے، ہتھوڑی کی مار سے پالش جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی۔ گوند سے چپکائی گئی جھنڈیا۔ جھولتے غبارے، رنگین پھول۔۔۔ اف۔۔۔۔اف۔

    ” یہ سب کیا ہے بے بی؟” ڈیڈی بپھر کر بولے۔

    "جی گڑیا گھر۔” اب تو ڈیڈی کا پارہ آخری سرے تک چڑھ گیا، ابھی کچھ پٹائی کرتے ہی تھے کہ امی ہائیں ہائیں کرتی لپکی آئیں۔

    "اے لو۔۔۔۔ بھلا عید کے دن بچّی پر ہاتھ اٹھاؤ گے؟” ابا نے گڑبڑا کر امی کو دیکھا پھر اپنی لاڈو کو۔ منہ سے تو کچھ بولے نہیں مگر پیر پٹختے کمرے کو چلے گئے۔
    دوسرے دن ابا نے اپنے کمرے میں شیلف منگوایا۔ سب کیلیں، جھنڈیاں، جھاڑ جھنکار، غبارے اور پھول نکال باہر کئے۔ اب جو شیلف اپنی اصلی صورت میں سب کے سامنے آیا تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ لگتا تھا، ہراج گھر سے دو چار روپے میں اٹھالائے ہوں گے۔

    بی گڈی کا یہ عالم کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ساری چہک چہکار ہوا ہو گئی، اب کے تو ابا کو بھی اپنی "بلبلِ ہزار داستان” پر پیار نہ آیا۔ بار بار غصے سے گھورا کئے اور پھر نتیجے میں رانی بٹیا سے بول چال بند کردی۔

    اور جناب آپ کو معلو م ہے کہ لاڈلے بچّوں سے ماں باپ بات بند کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ انہیں بہت دکھ ہوتا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کر پاتے ہیں اور پھر بیمار پڑنا تو لازمی ہے۔ گڈی بی بی نے بھی پٹخنی کھائی۔ کچھ تو موسم ہی بدل رہا تھا اور کچھ ان کا دل ہی اداس تھا! پلنگ پر پڑے پڑے انہیں بس یہی خیال آتا کہ ہائے سب کے سامنے کیسی رسوائی ہوئی۔ بلا سے ڈیڈی دو چار طمانچے ہی جڑ دیتے۔ مگر اف انہوں نے تو بات ہی بند کر دی۔ اچھی بری کوئی بات سنتے، نہ جواب دیتے، اسکول کی رپورٹ آتی تو کچھ تو جہ بھی نہ دیتے۔ گڈی نے اپنے کمرے میں ایک دن یہ بھی سنا۔ ابا، امی کی بات کے جواب میں کہہ رہے تھے۔
    "ہمیں ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو ہمیں اس قدر پریشان کرے۔” اس نے صاف دیکھا کہ ڈیڈی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ باتیں سن رہی ہے تب بھی اس کے دل کا کوئی خیال نہ کیا۔ ہائے اللہ، ڈیڈی کو میری ضرورت نہیں۔ امی کو بھی نہیں، منو کو چنو کو رابی منی۔ نیکی، یہ سب مجھ سے کٹے کٹے رہتے ہیں، کیا سچ میں بہت بری ہوں؟ ہاں چنّو کہتا بھی تھا کہ دیکھ لینا ایک دن تم اتنا دکھ اٹھاؤ گی۔ اف تمہاری زبان ہے کہ قینچی۔ اور توبہ کہیں لڑکیاں بھی اتنی شرارت کرتی ہیں؟ اور اب امی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔کوئی مجھے نہیں چاہتا۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔اف۔۔۔

    پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابا کے کمرے میں پہنچ گئے، ابا نے بے تابی سے پوچھا۔

    "کیوں ڈاکٹر صاحب اب کیا حال ہے بے بی کا؟” ڈاکٹر صاحب مسکرائے۔”شریر بچے بہت ذہین اور بہت حساس بھی ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب۔ میرے خیال سے اب آپ کو اور بیگم صاحبہ کو کبھی شکایت نہ ہوگی کہ رانی بٹیا شرارتی ہے۔ ضدی ہے، کسی کا کہا نہیں مانتی۔ میں نفسیاتی طور پر اس کے دل میں اتر چکا ہوں۔ اب اس وقت تو اسے صرف آپ کے ایک ذرا سے بلاوے کی ضرورت ہے، اتنے دنوں سے جو آنسو بہہ چکے ہیں، ان کا بہہ نکلنا ہی ٹھیک ہے۔”

    ڈیڈی لپک کر اٹھے اور پردے کے پاس جاکر پوچھا۔”کیوں بے بی اب کے ہفتے تمہارے مارکس بہت کم ہیں کیا بات ہے؟”

    اتنا سننا تھا کہ بی گڈی بے تابی سے اٹھیں اور ڈیڈی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ "آپ ہی نے محبت اور توجہ چھوڑ دی تو پڑھائی میں خاک جی لگتا۔ امی بھی دور دور رہتی تھیں۔ اور سب۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔”ہچکیاں منہ سے آواز نہ نکلنے دیتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب ڈیڈی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور گڈی کہے جارہی تھی۔
    "اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ شرارت اتنی بری چیز ہے کہ امی ڈیڈی سے ٹوٹ جانا پڑتا ہے تو….تو ہم کبھی یوں ضد اورشرارت نہ کرتے۔” ہائے بے چاری موٹی موٹی گوری گوری گڈی اس وقت کیسی دبلی اور زرد نظر آرہی تھی۔۔۔۔! اور یہ سب کچھ تین چار ہفتوں ہی میں تو ہوا۔ ڈیڈی نے ذرا سا مسکراکر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ اور بے بی کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔ "سچ مچ اب اچھی بچی بن جاؤ گی۔”

    "جی ہاں۔۔۔۔” وہ آنسو پونچھ کر بولی۔” اور وہ تین سو روپے ہم پر ادھار سمجھئے۔۔۔۔ ڈاکٹر بن جاؤں گی تو پہلی تنخواہ آپ کے ہاتھ میں لاکر رکھ دوں گی۔” پیچھے سے چنّو نے جلا بھنا طعنہ چھوڑا۔

    "بھلا بلبل ہزار داستان چہکنا چھوڑ سکتی ہے؟!”

    (معروف فکشن رائٹر واجدہ تبسّم کی یہ بچّوں کے لیے لکھی گئی یہ کہانی 1959ء میں‌ ماہ نامہ کھلونا، نئی دہلی میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانی)

    انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانی)

    ایک ندی تھی اور اس کے کنارے انار کا ایک درخت۔ درخت پر کچھ انار لگے ہوئے تھے اور ندی میں کچھ مچھلیاں بھی دُمیں ہلاتی رہتی تھیں۔

    زمین کے نیچے سے درخت کی جڑیں ندی میں پاؤں پھیلانے لگی تھیں۔ مچھلیوں نے کئی بار اناروں سے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں نہ پھیلائیے لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی تھی۔ مچھلیوں نے طے کر لیا کہ درخت کی جڑیں چبا ڈالی جائیں۔ مچھلیوں نے جڑیں چبانا شروع کر دیا۔

    اناروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ اب کی بار مچھلیوں نے سنی ان سنی کر دی۔ اناروں نے سخت دھمکیاں دیں۔ مچھلیوں نے کہا: جو کرنا ہے، کر لیجیے۔ اناروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور ان میں سے ایک انار نے خود کو ایک مچھلی پر گرا لیا۔ مچھلی کا سر پھٹ گیا۔ خون بہنے لگا۔ ساری ندی سرخ ہو گئی۔

    مچھلیوں نے انار کو پکڑ کے باندھ لیا۔ اناروں نے احتجاج کیا کہ تمہیں ہمارے ساتھی کو گرفتار کر لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آخر ہم ایک ملک میں رہتے ہیں، جس کا کوئی قانون ہے، قاضی ہے۔ ایک مچھلی نے کہا: تمہیں کس نے حق دیا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں پھیلاؤ؟ ایک انار کہنے لگا: پانی صرف تمہارا تھوڑی ہے؟ ہمارا بھی تو ہے۔ یہ ندی تمہاری پیدائش سے پہلے کی موجود ہے اور ہم بھی اسی وقت سے موجود ہیں۔ مچھلیاں کہتی رہیں کہ تم اناروں نے زیادتی کی ہے۔ تم نے ہماری ساتھی بے چاری کا سر پھوڑ دیا ہے۔

    بات کسی طرف نہ لگی اور ان میں تُو تکار بڑھ گئی۔ آخر کار قاضی کے پاس پیش ہونا طے پایا۔ سر پھٹی مچھلی اور ہاتھ بندھا انار قاضی کے ہاں جا پہنچے۔ قاضی کے پاس کئی اور مدعی اور ملزم بھی جمع تھے۔ انہیں دیکھتے ہی قاضی کی رال ٹپکنے لگی اور اس نے کہا: آئیے آئیے، کہیے کیا مسئلہ ہے؟ دونوں نے اسے ماجرا کہہ سنایا۔ قاضی نے کہا : آپ ذرا انتظار کر لیجیے، میں پہلے دوسروں کے معاملے نمٹا لوں۔

    انار اور ننھی مچھلی ایک کونے میں کھڑے ہو کر لگے انتظار کرنے۔ قاضی کام ختم کر کے ان کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کے منہ ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ بہت دلاسا دیا اور پھر اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا: بیگم! توے پر خوب گھی ڈال کر چولھے پر چڑھا دو، دوپہر کو ہم مچھلی کھائیں گے۔ اور ہاں سنو! یہ انار بھی لے جاؤ، اس کا رس مچھلی پر چھڑکیں گے تو اور ہی مزہ آئے گا۔ انار اور مچھلی کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کھسر پھسر کی کہ دیکھو تو ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے قاضی کی بیگم کی بہتیری منت سماجت کی کہ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں، ہمیں جانے دیجیے مگر بیگم نے کہا: فیصلہ تو قاضی ہی کا چلتا ہے۔ مجھے تو اس پر عمل کرنا ہے اور بس۔ یہ کہہ کر اس نے مچھلی کی کھال اتاری اور اسے توے پر چڑھا دیا۔ مچھلی بے چاری تڑپتی پھڑکتی رہی۔ پھر اس نے انار کو پکڑ کر اس کا رس نکالا اور تلی ہوئی مچھلی پر چھڑک دیا۔ قاضی اور اس کے بیوی بچوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔

    خبر اناروں اور مچھلیوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ دکھ اور درد میں ڈوب گئے اور انہوں نے دونوں کا سوگ منایا۔ سوگ کے دنوں ہی میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ قاضی اگر باہر کا ہوا تو ان کے لیے کبھی کچھ نہیں کرے گا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے معاہدہ کر لیا کہ ایک دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کیا کریں گے۔

    (کتاب سفید پرندہ سے منتخب کردہ کہانی)

  • بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    حالات بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی علی کی خواہش پوری نہیں‌ ہوسکے گی اور اسے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس سال بھی نہ وہ روزہ رکھ سکے گا اور نہ ہی عید پر نئے کپڑے بنیں گے۔

    گزشتہ چند برسوں سے یہی ہورہا تھا کہ علی کی روزہ کشائی کی تقریب کسی نہ کسی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس مرتبہ کچھ آس بندھی تھی مگر اس کے ابو کی ملازمت اچانک ختم ہوجانے سے علی کی آس دم توڑ گئی تھی۔ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کبھی بھی اُس کی روزہ کشائی نہیں ہوگی، نہ وہ عید پر نئے کپڑے پہنے گا اور نہ ہی دوستوں کو عید پر تحفے دے سکے گا۔ روزے کا کیا ہے، وہ تو علی پچھلے رمضان میں بھی رکھ سکتا تھا، لیکن محرومیوں کی گود میں پروان چڑھنے کے سبب وہ ضدی ہو گیا تھا۔ اُس نے ضد پکڑ لی تھی کہ روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ نہیں رکھے گا۔ تیرہ سال کا ہوگیا تھا مگر اس کے اندر کا ضدی بچّہ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے ہمکتا رہتا۔

    خواب دیکھنے پر تو رقم خرچ نہیں ہوتی نا، چھوٹی چھوٹی آرزوئیں علی کو ستاتیں تو وہ نت نئے خواب بننے لگتا مگر جلد ہی اس کے خواب بکھر جاتے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر علی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ واضح نظر آنے والا چاند دھندلا سا گیا۔ یکایک علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے فرمانِ الٰہی یاد آگیا تھا ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا“ اور اسی پل علی نے اللہ کی رضا کے لیے دل میں پورے روزے رکھنے کا عہد کیا۔

    چاند دیکھ کر علی نے امی ابّو کو سلام کر کے اُنھیں خوش خبری سنائی کہ کل وہ پہلا روزہ رکھے گا اور انشاء اللہ پورے روزے رکھے گا۔ علی نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ علی جو روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ رکھنے پر آمادہ نہ تھا نہ صرف پابندی سے روزے رکھ رہا تھا بلکہ بلاناغہ تراویح بھی پڑھ رہا تھا۔ اور پہلی مرتبہ رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے رمضان کا سارا مہینہ اس نے اللہ سے گلے شکوے کرتے گزارا لیکن اس بار روزے رکھ کر علی کواحساس ہو رہا تھا کہ رمضان شکوے کا نہیں شکر کا مہینہ ہے۔ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ علی بہت خوش تھا کہ روزے کی برکت سے اُس نے اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ شکوے کی جگہ شکر اور بے صبری کی جگہ صبر نے لے لی۔ اب ضد بھی برائے نام رہ گئی تھی۔ اور پھر یوں ہُوا کہ افطار کے وقت پابندی سے مانگی جانے والی علی کی دعا قبول ہو گئی۔

    اس کے ابّو کو بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ معقول تھی۔ عید سے دو روز پہلے کمپنی نے عید کی خوشی میں ایڈانس تنخواہ دے دی۔ علی کی یوں کایا پلٹ ہوتے دیکھ کر اُس کے ابو نے عید کی خریداری کے لیے دو ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس عید پر وہ بھی نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا، دوستوں کے لیے تحائف لے گا۔ ابھی وہ منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اُس کے عزیز دوست حمزہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی۔ حمزہ نہایت غریب ذہین اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ اُس کے والد سرکاری دفتر میں کلرک تھے۔ اُن کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی، اُس پر یہ ناگہانی پریشانی، عید بالکل سر پر آگئی تھی۔ ایسے وقت میں اپنوں نے بھی اُن کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ علی کو جب ان حالات کا علم ہُوا تو اُس نے اپنی عید کی خریداری کی ساری رقم حمزہ کے ابو کو دے دی۔ علی کے والدین خوش تھے کہ اپنے دوست کی خاطر علی نے اپنی خوشیوں کی قربانی دی۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی احساس تھا کہ اب علی کو عید کے لیے نیا سوٹ نہیں دلوا سکتے۔ جب علی کی امی نے یہ بات اس سے کہی تو اُس نے کہا، ”کوئی بات نہیں مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں کہ میں معمولی کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھوں گا۔ میرے دوست کی صحت اور زندگی میرے کپڑوں، جوتوں، تحائف سے زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم اس کے بہت کام آگئی، اگر بروقت میں یہ رقم حمزہ کو نہ دیتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا اور میں عمر بھر عید کی خوشی نہیں منا پاتا۔“ یہ سُن کر علی کی امی نے بے اختیار اُسے گلے سے لگالیا۔

    عید کی صبح علی نے پرانے کپڑے پہنے لیکن اُس کے اندر آج کوئی محرومی نہیں تھی۔ وہ دل میں عجب قسم کا اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا تھا۔ عید گاہ سے واپسی پر جب حمزہ سے ملنے علی اُس کے گھر گیا تو اُسے اپنا منتظر پایا۔ حمزہ جانتا تھا کہ عید پر قیمتی کپڑے پہننا علی کا خواب تھا جو اس کی وجہ سے اس سال بھی پورا نہ ہو سکا۔ علی کو پرانے کپڑوں میں دیکھ کر حمزہ کی آنکھیں بھر آئیں۔؎

    علی! تم نے اپنے دل کو مار کر مجھے نئی زندگی دی، اگر تم بَروقت میرے علاج کے لیے پیسے نہ دیتے تو آج۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر حمزہ بری طرح رو دیا۔

    حمزہ! آگے کچھ نہ کہو، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور مجھے بھی۔

    کیا مطلب؟ تمہیں نئی زندگی دی؟ مگر کیسے؟ حمزہ نے حیرت سے سوال کیا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا۔ یقین کرو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں، میں خود کو بہت نیا نیا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو روزوں کا انعام بھی پا لیا۔ عید کی ایسی سچی خوشی مجھے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔“

    تم نے میرے لیے بہت کیا ہے علی! پَر میں تمہیں یہ سستا سا عید کارڈ ہی دے سکتا ہوں جو تمہارے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

    نہایت مسرت اور حیرت سے علی وہ کارڈ دیکھ رہا تھا، جس میں حمزہ کی محنت اور محبت دونوں ہی شامل تھی۔ کارڈ پر اشعار درج تھے۔

    چلو ختم روزے ہوئے عید آئی
    خوشی کا مسرت کا پیغام لائی
    مبارک ہو سب کو قمر عید کا دن
    کہ سب نے خوشی ہی خوشی آج پائی

    میرے دوست! جسے تم سستا عید کارڈ کہہ رہے ہو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھ کرمیں نے جان لیا کہ تشکر کتنی انمول نعمت ہے، صبر اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے اور یہ کہ سچی خوشی اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اوروں کے کام آنے میں ہے۔بیشک میں نے روزوں کا انعام پا لیا ہے، بیش قیمت انعام۔

    (مصنّف:‌ شائستہ زریں‌)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی: ’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پَروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑ سکتے ہو، میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کر سکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کر سکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کر سکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔‘‘

    میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لوگے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دوگے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرّم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیارے محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچّو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلّا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔

    یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔

    اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہو گئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہو سکتا ہے؟

    (بچّوں کی اس کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    سَنی نے کئی بار پیسے گنے لیکن ہر بار نتیجہ ایک جیسا رہا۔ اُن پیسوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک پاؤنڈ چونتیس پنس اور بس……!

    ”تمہیں پیسے احتیاط سے خرچ کرنے چاہییں۔“ اُس کے بھائی وکی نے کہا۔ ”پیسے جمع کیا کرو، وہ چیزیں مت خریدا کرو جن کی تمہیں ضرورت نہ ہو۔“ وکی ہمیشہ اچھی نصیحتیں کرتا تھا لیکن سَنی بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتا تھا۔

    ”مجھے دیکھو! میں بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں، روز اسکول جانے سے پہلے لوگوں کے گھروں میں اخبار دینے جاتا ہوں اور جو پیسے ملتے ہیں، اُنہیں جمع کرتا رہتا ہوں تاکہ کوئی ضرورت کی چیز لے سکوں۔“

    سَنی کو رقم جمع کرنا تو اچھا لگتا تھا، لیکن پیسے کمانے کا خیال اُسے پسند نہیں تھا۔ وہ سوچتا کہ کیا ممکن ہے؟ کوڑھ مغز بچّوں کو ٹیوشن پڑھانا یا صبح سویرے گرم بستر سے نکل کر باہر سردی میں اخبار دینے جانا۔ نہیں ہرگز نہیں!

    ”امّی کی سال گرہ آرہی ہے اور انھیں تحفہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ سَنی وکی کی باتیں اَن سنی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔ ”ظاہر ہے! پیسہ کمانے اور محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ محنت تم کرنا نہیں چاہتے۔“ وکی بولا۔

    سَنی نے ٹھنڈی سانس بھری، لیکن پھر اچانک ہی اُس کے دماغ میں ایک زبردست خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر پرانے سامان کی دکان سے وہ اپنی امّی کے لیے کوئی تحفہ لے آئے۔ ”اصل تو انسان کی نیت ہوتی ہے! سستا، مہنگا کیا ہوتا ہے۔“ اُس نے خود سے کہا۔

    پندرہ منٹ بعد وہ پرانے سامان کی دکان پر کھڑا تھا۔ یہاں اُسے پرانی میزیں، کرسیاں، تصاویر اور سامانِ آرائش نظر آیا۔ زیادہ تر چیزیں بہت ردّی حالت میں تھیں، پھر سَنی کو اچانک ایک زنگ آلود چراغ نظر آگیا: ”امّی کو نوادرات سے خاصی دل چسپی ہے اور یہ زنگ آلود چراغ بہت نادر معلوم ہوتا ہے۔“ اُس نے سوچا۔ ”یہ کتنے کا ہے؟“ سَنی نے دکان دار سے پوچھا۔

    ”ایک پاؤنڈ اور چونتیس پنس۔“ دکان دار کا جواب سن کر سَنی خوش ہوگیا۔ ”آپ ایسا کریں، یہ چراغ مجھے دے دیں۔“ اس نے فوراً اپنی کُل جمع پونجی دکان دار کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ دکان سے نکل کر اُس نے چراغ اپنی بائیک کی باسکٹ میں احتیاط سے رکھا اور روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ایک بہت بڑی کار دکان کے باہر آکر رُکی۔ ایک لمبا چوڑا شخص قیمتی سوٹ پہنے کار سے باہر آیا۔ اُس نے سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔

    ”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے امیر لوگ بھی کباڑیے کی دکانوں سے خریداری کرتے ہوں گے۔“ سَنی نے حیران ہو کر سوچا، پھر اُس نے بائیک اسٹارٹ کی، لیکن فوراً ہی اُسے اپنے پیچھے کار کا ہارن سنائی دیا۔ یہ وہی بڑی کار تھی جو اُس نے دکان کے باہر دیکھی تھی۔ کار اُس سے آگے نکل گئی اور پھر اُس کا راستہ روک لیا۔ سَنی نے بڑی مشکل سے بریک لگائے۔ کار کی کھڑکی کھلی اور لمبے چوڑے شخص نے باہر جھانکا۔

    ”اس حرکت کا مطلب؟ ابھی ایکسیڈنٹ ہوتے بچا ہے۔“ سَنی نے غُصّے سے کہا۔

    ”بہت معذرت! میرا ڈرائیور بعض اوقات بہت بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتا ہے۔“ آدمی نے مسکرا کر کہا اور دوبارہ گویا ہوا: ”مجھے اپنا تعارف کرانے دیجیے۔ میرا نام بلڈ ہاؤنڈ ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اُس کی مُسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔

    سَنی جانتا تھا کہ اُسے اجنبیوں سے بات نہیں کرنی چاہیے اسی لیے اُس نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کر دی، لیکن بلڈ ہاؤنڈ نے جلدی سے کہا: ”تم یقیناً حیران ہو رہے ہوگے کہ ہم نے تمہارا راستہ کیوں روکا؟ تو سنو! میں کئی برس سے ایک خاص چیز کی تلاش میں تھا۔ آج مجھے پتا چلا کہ وہ چیز اُس دکان پر مل سکتی ہے، لیکن جب میں دکان پر آیا تو مجھے پتا چلا کہ تم وہ چیز پہلے ہی خرید چکے ہو۔“

    ”اوہ! تو یہ چراغ کا چکّر ہے مگر میں یہ چراغ نہیں دوں گا۔“ سَنی نے کندھے اچکائے۔

    ”میرے خیال میں تم میری بات سمجھے نہیں۔“ بلڈ ہاؤنڈ کی آواز سرد ہو گئی: ”پیسوں کے لحاظ سے اس چراغ کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن مجھے اس چراغ سے ایک ذاتی لگاؤ ہے اسی لیے میں تم سے یہ چراغ خریدنا چاہتا ہوں۔“

    ”بہت معذرت! میں یہ چراغ بیچنا نہیں چاہتا۔“ سَنی نے کہا۔

    ”سو پاؤنڈ میں بھی نہیں؟“ سَنی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

    ”سو پاؤنڈ!“ وہ چراغ باسکٹ سے نکال کر اُس کے حوالے کرنے ہی والا تھا کہ اُس نے بلڈ ہاؤنڈ کی آنکھوں میں لالچ کی چمک دیکھی۔ وہ یک دم ٹھٹک گیا۔

    ”نہیں! ہوسکتا ہے، یہ چراغ سو پاؤنڈ سے زیادہ قیمتی ہو۔“ اُس نے سوچا اور پھر تیزی سے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔

    ”ایک ہزار پاؤنڈ؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے بولی لگانے والے انداز میں کہا۔ سَنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ شاید یہ کوئی انمول چراغ ہے اور پھر اس شخص کا چہرہ کس قدر سفّاک اور مکروہ لگ رہا ہے، چناں چہ اُس نے پھر نفی میں سَر ہلا دیا۔

    بلڈ ہاؤنڈ کی بھنویں تن گئیں، اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھ کر پر چلّایا: ”بہت ہوگیا! اس لڑکے سے چراغ چھین لو!“

    ڈرائیور گاڑی سے اُترا اور اُس کی طرف لپکا۔ وہ سَنی سے بہت طاقت ور تھا لیکن جب سَنی بائیک پر سوار ہو تو اُس کی تیز رفتاری کو شکست نہیں دی جاسکتی، پھر یہی ہوا۔ جلد ہی وہ اُن کی پہنچ سے دور تھا۔ ساتھ ہی سَنی نے گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ یقیناً وہ لوگ کار میں اُس کا تعاقب کررہے تھے۔ اُس نے جلدی سے اپنی بائیک، پتلی تنگ گلیوں میں گھسا دی تاکہ کار والے اُس تک نہ پہنچ سکیں۔ آخر کار وہ کئی گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا۔

    وہ وکی کو یہ سارا واقعہ سُنانے کے لیے بے چین تھا، لیکن گھر آکر پتا چلا کہ اُس کا بھائی ٹیوشن پڑھانے جا چکا ہے۔ اُس نے چراغ میز پر رکھ دیا۔ یہ ایک عام سا چراغ لگ رہا تھا، لیکن سَنی جانتا تھا کہ یہ یقیناً بے حد قیمتی چراغ ہے جب ہی تو بلڈ ہاؤنڈ اسے ہر حالت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سَنی نے دل ہی دل میں منصوبہ بندی کر لی۔ وہ پہلے اپنی امّی کو یہ چراغ بطور تحفہ دے گا، پھر وہ اسے نوادرات کے کسی ماہر کے پاس لے کر جائیں گے تاکہ چراغ کی اصل قیمت کا علم ہوسکے اور پھر…… اُف! وہ کتنے امیر ہو جائیں گے۔“ وہ خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔

    اُس نے جھاڑن اُٹھا کر چراغ کو صاف کرنا شروع کیا، لیکن اچانک کمرے میں جیسے بجلی چمکنے لگی ہو۔ پرانی جرابوں کی تیز بدبو آئی اور پھر کمرے میں دھواں بھر گیا۔ جوں ہی دھواں چَھٹا، اُس نے دیکھا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک عجیب و غریب سا آدمی تھری پیس سُوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لیے میز کے سامنے کھڑا ہے۔ اور اُس کا قد اتنا لمبا ہے کہ سَر چھت سے ٹکرا رہا ہے۔

    ”کیا حکم ہے میرے آقا! میں اس چراغ کا جنّ ہوں اور آج کے دن آپ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں۔“ اُس نے گونج دار آواز میں کہا۔ سَنی کچھ دیر کے لیے حیران و پریشان ہوا، لیکن وہ ڈرنے والا نہیں تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔ اس سے قبل کے وہ کچھ بول پاتا، جن کہنے لگا: ”اب میں ذرا آپ کو خواہشات ظاہر کرنے کے اصول سمجھا دوں۔“

    جی نہیں شکریہ! میں اس بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا ہوں۔ میں کوئی سی بھی تین خواہشات کرسکتا ہوں۔“ سَنی نے اُس کی بات کاٹ دی۔

    ”اوہو! نہیں بھئی! یہ سسٹم آج سے دو سو سال پہلے ہماری ”جن یونین“ نے ختم کردیا تھا۔ اب جونیا سسٹم آیا ہے، اُس کے مطابق چراغ کا مالک دو گھنٹے کے اندر کوئی بھی خواہش کرسکتا ہے۔ دو گھنٹے کے بعد جن دوبارہ چراغ میں واپس چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر اُصول و قوانین کچھ یوں ہیں ……“

    ”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ سَنی نے ایک بار پھر اُس کی بات کاٹ دی۔ ”زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس دو گھنٹے ہیں۔ کیا تم مجھے دس لاکھ پاؤنڈ دے سکتے ہو؟“

    ”ہاں!“ جن نے اکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے سرد آہ بھری اور چٹکی بجائی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

    ”یہ کیا بھئی……؟“ سَنی نے مایوسی سے کہا۔

    ”کیا مطلب؟ تو کیا تمہارے سامنے سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا کوئی صندوق آجاتا ابھی؟ ہم اب ان پرانے طریقوں سے کام نہیں کرتے۔ اپنی جیب میں دیکھو!“ جن نے برا سا منہ بنایا۔

    سَنی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ برآمد ہوا۔ یہ اُس کے بینک اکاؤنٹ کا اسٹیٹمنٹ تھا۔ ”دس لاکھ پاؤنڈ اور تین ین۔“ اُس نے باآواز بلند پڑھا۔

    ”تین ین تمہارے اکاؤنٹ میں پہلے سے موجود تھے۔“ جن نے وضاحت کی۔ سَنی نے خوشی سے ہاتھ مَلے۔ اُس کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا۔

    جب وکی ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹا تو حیران و پریشان رہ گیا۔ اُس کے گھر کی جگہ سنگ مَر مَر کا ایک عالی شان محل کھڑا تھا۔ وہ ڈرتے، ڈرتے اندر داخل ہوا تو اُس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کیا وہ راستہ بھٹک کر کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہے! وہ واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اُسے کچن سے سَنی کی آواز سُنائی دی: ”ہیلو! وکی بھائی!“

    ”یہ…… یہ سب کیا ہے سَنی؟“ اُس نے کچن میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔

    ”میرے نئے دوست سے ملو وکی!“ سَنی نے جنّ کی طرف اشارہ کیا تو وکی جنّ کو دیکھتے ہی خوف سے بے ہوش ہوگیا۔

    جب اُسے ہوش آیا تو جنّ بدستور وہاں موجود تھا۔ ”دوبارہ بے ہوش نہ ہونا! میں بتاتا ہوں، یہ کیا معاملہ ہے۔“ سَنی نے جلدی سے کہا اور ساری تفصیل وکی کو سنا دی۔

    ”لیکن کیا ہمارے پڑوسی یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوئے؟“ وکی نے کہا۔

    سَنی مسکرایا۔ ”بہت آسان بات ہے۔ میں نے خواہش کی ہے کہ یہ سب تبدیلیاں ہم گھر والوں کے سوا اور کسی کو نظر نہ آئیں۔“

    ”اوہ! امّی ابّو شام کو آئیں گے تو یہ دیکھ کر کتنا حیران ہوں گے!“ وکی نے کہا۔

    ”ہاں! اور میرے بھائی! آج تمہارا خیال بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔ بعض دفعہ ہم بغیر محنت اور بغیر پیسے کے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔“ سَنی نے فخر سے کہا۔

    یہ سُن کر جن آہستہ سے کھنکھارا: ”کیا کہا؟ بغیر محنت اور پیسے کے؟“

    ”ہاں تو اور کیا؟“ سنی نے کہا۔

    ”تمہارا خیال بالکل غلط ہے۔ میں تمہیں چراغ استعمال کرنے کے سارے اُصول و ضوابط شروع میں ہی سمجھانے جا رہا تھا، لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ جنّ یونین نے قوانین میں بہت ترمیم کی ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ جو بھی کام کریں گے، اُس کا معاوضہ خواہش کرنے والے سے وصول کریں گے۔ ہم کیوں مفت میں دوسروں کے کام کرتے پھریں؟ دو گھنٹے پورے ہوتے ہی ہم خواہش کرنے والے کو اس کا بِل پیش کر دیتے ہیں۔“

    ”بِل؟ یعنی مجھے ان سب چیزوں کی قیمت ادا کرنا ہو گی؟“ سَنی چلّایا۔

    ”بالکل! اور یہ تو تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ محل اتنے سستے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سب چیزیں جو اس وقت یہاں نظر آرہی ہیں۔“ جنّ مسکرایا۔ وکی نے مایوسی سے سر ہلایا۔ اُس کا بھائی ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔

    ”اور بل کہاں ہے؟“ سنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ جن نے اپنی جیب سے بل نکالنا شروع کردیا جو اتنا لمبا تھا کہ کمرے کے دروازے سے باہر تک چلا گیا۔ سَنی کا رنگ زرد پڑ گیا۔

    ”اگر میں یہ خواہش کروں کہ مجھے یہ پورا بل بھرنے کے پیسے مل جائیں تو؟“ اُس نے جلدی سے پوچھا۔

    ”تو اس خواہش کے نتیجے میں جو پیسے ملیں گے، تمہیں وہ بھی لوٹانے ہوں گے۔“ جّن ایک بار پھر مسکرایا۔

    ”اوہ! اب میں کیا کروں؟ کیا اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟“ سَنی نے سر پکڑ لیا۔ ”ایک راستہ یہ ہے کہ تم ہماری اس فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دو جہاں ہم یہ خواہشاتی محل اور دیگر سامان تیار کرتے ہیں۔ ایک منٹ!“

    یہ کہہ کر جنّ نے جیب سے کیلکولیٹر نکالا: ”تم اگر بارہ ہزار آٹھ سو ساٹھ سال اس فیکٹری میں کام کرو تو یہ بِل ادا ہوسکتا ہے۔“ اُس نے حساب لگا کر بتایا۔

    ”لیکن یہ ناممکن ہے۔“ سَنی نے رو کر کہا۔

    ”قانون تو پھر قانون ہے۔ اگر یہ بل ادا نہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔“ جّن نے کندھے اُچکائے۔ سَنی نے بے بسی سے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دو گھنٹے پورے ہونے میں صرف چالیس منٹ باقی تھے۔

    ”کیا تمہارے پاس یہ نئے قوانین کتابی شکل میں موجود ہیں؟“ وکی نے کچھ سوچ کر کہا تو جنّ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پتلی سی کتاب نکالی اور وکی کے ہاتھ میں تھما دی۔ وکی جلدی، جلدی ورق گردانی کرنے لگا۔ بظاہر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر اچانک وکی کو ایک کام کی شِق نظر آہی گئی۔

    ”اگر چراغ کا مالک دوگھنٹے سے قبل چراغ کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دے، لیکن یہ وہ شخص نہیں ہوسکتا جس سے اس نے چراغ خریدا ہے، تو اُس کی تمام خواہشات صِفر ہوجائیں گی اور معاہدہ ختم ہوجائے گا۔“ اُس نے باآوازِ بلند پڑھا۔

    ”اِس کا کیا مطلب ہے؟“ سَنی نے سر کھجایا۔

    ”مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے یہ چراغ دو گھنٹے سے پہلے فروخت کر دیا، تو یہ محل و دیگر سامان غائب ہو جائے گا اور تمہیں اس کا بِل ادا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن تم اب یہ چراغ دوبارہ اس دکان پر نہیں بیچ سکتے جہاں سے خریدا تھا۔

    سوال یہ ہے کہ تم اسے بیچو گے کہاں؟ تمہارے پاس صرف بیس منٹ رہ گئے ہیں۔“ وکی نے پریشان ہو کر کہا۔ سَنی کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا: ”بلڈ ہاؤنڈ! وہ اس چراغ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ چراغ اس کو بیچ سکتا ہوں لیکن مجھے اُس کا گھر معلوم نہیں ہے۔“ اُس نے اپنے بھائی کو جلدی، جلدی بتایا۔

    ”جنّ بھائی! کیا تم مجھے اس کے گھر لے جاسکتے ہو؟“ نہیں! ہمارے قانون کی ایک شِق کہتی ہے کہ ہم چراغ کا نیا گاہک ڈھونڈنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔“ جنّ نے نفی میں سر ہلایا۔

    ”سَنی! کیا تمہیں اس کی گاڑی کا نمبر یاد ہے؟“ وکی نے پوچھا۔

    ”ہاں! بی بی ایکس دو سو چھے۔“ سَنی کی یاد داشت بہت اچھی تھی۔ وکی کی بھی کم نہ تھی۔ وہ یہ نمبر سنتے ہی اچھل پڑا۔

    ”سَنی! اس گاڑی کا مالک یہاں سے چار گلیوں کے فاصلے پر جو مارکیٹ ہے، اُس کے پیچھے واقع ایک بنگلے میں رہتا ہے۔ میں اس کے برابر والے گھر میں ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں، یہ لو ایڈریس!“ وکی نے جلدی سے ایک کاغذ پر پتا لکھتے ہوئے کہا۔

    ”لیکن یہاں سے اس جگہ کا فاصلہ تقریباً پندرہ منٹ ہے اور اب ہمارے پاس صرف پندرہ ہی منٹ بچے ہیں۔“ وہ پریشان ہوکر بولا۔

    ”جنّ بھائی! فوراً چراغ کے اندر جاؤ۔“ سَنی چلّایا۔ جنّ یہ سنتے ہی دھواں بن کر چراغ کے اندر گھس گیا۔ سَنی باہر کی طرف دوڑا۔ اُس نے پوری زندگی میں کبھی اتنی تیز بائیک نہیں چلائی ہوگی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، لیکن اُس نے ہمّت نہیں ہاری۔ آخر کار وہ بلڈ ہاؤنڈ کے گھر کے دروازے پر پہنچ ہی گیا۔ آخری پانچ منٹ!! اُس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور بیل پر اُنگلی رکھ دی۔ جب تک دروازہ کھل نہ گیا، اُس نے اپنی انگلی بٹن سے نہیں ہٹائی۔

    ”کون بدتمیز ہے؟“ دروازہ کھولنے والا دہاڑا، یہ بلڈ ہاؤنڈ تھا۔ اُس نے جب سَنی کو چراغ کے ساتھ دروازے پر کھڑا پاپا تو اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اب صرف دومنٹ باقی تھے۔ ”میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ آپ یہ چراغ لے سکتے ہیں۔“ سَنی نے جلدی، جلدی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ لالچی تھا مگر بے وقوف نہیں۔

    ”تم نے اپنا ارادہ کیوں بدل لیا؟“ اُس نے شک بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ”کیوں کہ…… کیوں کہ……“ سَنی کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا ”کیوں کہ اس میں ایک طرف خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی خراب ہوگیا ہے۔ میرے گھر میں یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا۔“ وہ دل ہی دل میں کہتا جارہا تھا، ”پلیز! میری بات کا یقین کر لو! میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے۔“

    ”اور تمہیں اس چراغ میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے پوچھا۔ ”جی نہیں۔“ سَنی نے فوراً کہا: ”اس چراغ میں خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی اُترا ہوا ہے، تو اس لیے اب میں تمہیں اس کے صرف پانچ پاؤنڈ دے سکتا ہوں۔“

    ”منظور ہے۔“ سنی نے اُس کا جملہ پورا ہوتے ہی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ نے جیب سے پانچ پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر سَنی کے ہاتھ پر رکھا اور چراغ چھین کر دروازہ بند کر لیا۔ سنی نے پانچ پاؤنڈ کے نوٹ کو خوشی سے لہرایا۔

    ”چراغ تمہیں مبارک ہو مسٹر بلڈ ہاؤنڈ! امّی کی سال گرہ کے تحفے کے لیے مجھے کافی پیسے مل گئے ہیں۔ اُمید ہے تم جنّ سے اتنی ہی فرمائشیں کرو گے جتنا کہ تم بِل بھر سکو۔“

    (بچّوں کے ادیب پال شپٹن کی اس کہانی کا اردو ترجمہ گل رعنا صدیقی نے کیا ہے)