Tag: بچوں کا ادب

  • بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    صدیوں پہلے ایک سلطنت کا بادشاہ بڑا ظالم تھا اور خود کو بہت عقل مند سجھتا تھا۔ وہ اکثر حیلوں بہانوں سے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگا دیتا تھا، مگر ان کی فلاح و بہبود پر کچھ توجہ نہ تھی۔ رعایا اس بادشاہ سے تنگ آچکے تھے اور خدا دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح اس سے نجات مل جائے۔

    بادشاہ ہر وقت خوشامدی لوگوں میں گھرا رہتا جو اس کی ہر جائز ناجائز بات اور فیصلوں پر اس کی تعریف کرتے اور اس کو قابل اور نہایت ذہین کہتے۔ بادشاہ کو وہ لوگ ناپسند تھے جو اس کی کسی غلط بات کی نشان دہی کرتے اور اس کے فیصلے پر تنقید کرتے۔ ایسے ہی لوگوں میں مشیر بھی شامل تھا جو بادشاہ کے والد کے زمانے سے دربار میں موجود تھا اور جس کی تنقید کی وجہ سے وہ اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔

    وہ مشیر ایک انتہائی قابل اور ذہین شخص تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بادشاہ کو اپنی عوام کی فلاح کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام کو جائز ٹیکس ادا کرنا اور بادشاہ کا وفادار ہونا چاہیے۔ وہ بادشاہ کو گھیرے ہوئے خوشامدیوں سے سخت بیزار تھا اور ان کو غلط مشورے دینے سے روکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سب ایسے موقع کی تلاش میں رہتے کہ اس مشیر کو بادشاہ کے سامنے ذلیل کر سکیں۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ان لوگوں کو موقع مل گیا۔

    ایک دن مشیر نے بھرے دربار میں کہہ دیا کہ اگر کوئی انسان اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرے تو وہ ہر جگہ اپنی روٹی روزی کا بندوبست کر سکتا ہے۔ بادشاہ جو مشیر سے اس کے سچ بولنے پر پہلے ہی ناراض تھا، اسے یہ وقت مناسب لگا کہ وہ مشیر کو اس کی حق گوئی کی سزا دے سکے۔ اس نے کہا کہ مشیر کو اپنی بات کی سچائی ثابت کرنی ہوگی اور حکم دیا کہ اسے گھوڑوں کے اصطبل میں بند کر دیا جائے۔ اسے کوئی تنخواہ نہیں ملے گی اور اصطبل سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ ایک ماہ میں ایک ہزار سونے کے رائج الوقت سکے اپنی عقل اور ذہانت کو بروئے کار لا کر کمائے اور خزانہ میں جمع کرائے۔ بصورتِ دیگر اس سے شاہی عہدہ واپس لے لیا جائے گا۔

    بادشاہ کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر مشیر بڑا دل برداشتہ ہوا مگر ہمت نہ ہارا۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی اور کہا کہ اسے اپنا وزنی کنڈا ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ جو بادشاہ نے منظور کر لی۔ مشیر کو اصطبل میں بند کر دیا گیا۔

    مشیر نے گھوڑوں کی خوراک کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو اصطبل کے ملازمین نے خیال کیا کہ مشیر کا دماغ چل گیا ہے، پھر بھی انہوں نے مشیر سے خوراک کے وزن کرنے کا سبب پوچھا تو مشیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ گھوڑوں کو پوری خوراک دی جا رہی ہے۔ یہ سن کر اصطبل کے ملازمین پریشان ہو گئے کیوں کہ وہ گھوڑوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ چوری کرکے بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔ انہوں نے مشیر کی منت سماجت شروع کر دی اور کہا کہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے۔ اس کے عوض مشیر جو کہے وہ رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس طرح مشیر نے ایک ماہ میں سونے کے ایک ہزار سکے ان سے حاصل کیے اور خزانہ میں جمع کروا دیے۔

    ادھر بادشاہ نے مشیر کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ رقم اصطبل سے کما کر خزانہ میں جمع کروائی ہے بلکہ الٹا مشیر پر الزام لگا دیا کہ اس نے یہ رقم باہر سے اکٹھی کر کے خزانہ میں جمع کروائی ہے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ لہٰذا مشیر کو دریا پر ایک جھو نپڑی میں بند کرنے کا حکم دے کر اسے کہا کہ اس دفعہ وہ دو ہزار سکے ایک ماہ میں سرکاری خزانہ میں جمع کروائے، بصورتِ دیگر اُس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ مشیر کے پاس بادشاہ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے دوبارہ ایک بڑا ترازو ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی جو منظور کر لی گئی۔

    مشیر نےدریا پر اپنے ترازو سے پانی کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ کشتی بانوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو مشیر نے ان کو بتایا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ جو کشتی بان زیادہ سواریاں کشتی میں سوار کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرےم یں ڈالتے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ کرے تا کہ انہیں سخت سزا دی جائے۔ چونکہ تم سب زیادہ سواریاں اٹھاتے ہوں اس لیے سزا کے لیے تیار رہنا۔

    تمام کشتی بان یہ جان کر فوراً مشیر سے معافی مانگنے لگے۔ معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ وہ ماہ کے آخر تک دو ہزار سکے دیں گے اور آیندہ زیادہ سواریاں نہیں اٹھائیں گے۔ ماہ کے آخر تک کشتی باتوں نے دو ہزار سکے سوداگر کو ادا کر دیے جو اس نے خزانہ سرکار میں جمع کروا دیے۔

    دو ماہ کے بعد مشیر کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا، مشیر اس دفعہ بہت خوش تھا کہ اُس نے اپنی عقل اور دانش سے بادشاہ کے 2 ہزار سونے کے سکے ادا کر دیے ہیں اور ضرور اُس کو خوش ہوکر مشیر سے ترقی دے کر وزیر بنا دیا جائے گا۔

    بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ مشیر اس دفعہ بھی کام یاب ہوگیا ہے تو وہ دل ہی دل میں غُصہ کرنے لگا کہ یہ مشیر اب اُسے دربار میں شرمندہ کرنے پھر آگیا ہے۔ اس لیے اُس نے اپنے ایک خوشامدی وزیر جو مشیر سے نفرت بھی کرتا تھا کو اشارہ کیا کہ وہ اُس کے قریب آئے اور جب خوشامدی بادشاہ کے قریب آیا تو بادشاہ نے اُس کے کان میں کہا ” اس مشیر کو فصیل سے دھکا دے دو تاکہ اس کی صورت ہم دوبارہ نہ دیکھیں۔

    وزیر انتہائی خوش ہوا اور مشیر کو انعام دینے کا کہہ کر فصیل پر لے گیا، جب مشیر فصیل پر پہنچا تو اُس نے وزیر سے کہا میری عقل اور دانش مجھے دکھا رہی ہے کہ تُم مجھے اس فصیل سے دھکا دینے والے ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا جب کوئی بادشاہ اہلِ علم کو اپنے دربار سے یوں رسوا کر کے نکالتا ہے تب اُس کے تاج کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں۔

    وزیر نے مشیر کو بات ختم کرنے سے پہلے ہی فصیل دے دھکا دیا اور واپس چلا گیا۔ ٹھیک سات دن بعد بادشاہ کی سلطنت پر اُس کے طاقتور پڑوسی ملک نے حملہ کیا، بادشاہ دربار میں موجود تمام دانشوروں کو چُن چُن کر ختم کر چکا تھا جو ہمیشہ اُسے اپنی ذہانت سے طاقتور پڑوسی سے جنگ سے بچا لیا کرتے تھے۔ اس نے خوشامدی اکٹھے کر رکھے تھے۔ وہ اُسے اس جنگ سے کیسے بچاتے۔ بادشاہ بُری طرح جنگ ہارا اور جب پکڑا گیا تو پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اُسے اُسی فصیل پر کھڑا کر کے جہاں سے مشیر کو دھکا دیا گیا تھا نیچے دھکا دے دیا۔

  • اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    بندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اٹھا تے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔

    بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزّت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔ بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزّتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔

    ہُوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں، اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔ بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آنکلے تھے، بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔ کیا چا ٹ بنائی ہے میں نے، واہ بی لومڑی واہ۔“

    بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے، لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔ دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں، لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزّتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔ بی لومڑی نے اپنی بے عزّتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔ اور بالآخر وہ دن آہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔

    اُس روز موسم سخت گرم تھا، دھوپ بھی بہت تیزتھی، بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔ اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یادآ گیا۔ وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پَل بھر میں‌ یہ جا، وہ جا۔

    بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں، اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، لیکن یہ اُن کی بھول تھی، کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہوگئے تھے، اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے، بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔ پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بندرمیاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ تمام جانور بادشاہ کے دربارمیں حاضر ہو گئے۔

    بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ ان کا زخمی چہرہ اور کلا ئی سے رِستا ہُوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔ بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔ تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔ کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔

    جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سُنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔

    یہ فیصلہ سُنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اُن کی آنکھیں بھر آئیں، جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔ بی لومڑی منہ بسورے، کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔ یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔ عادت سے مجبور جو تھے۔ پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔ کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟ تمام جانورہنس رہے تھے۔ بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشا ہ بھی مسکرا دیے۔ اپنی بھد اڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہُوئیں اور اُداس بھی۔

    بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آگیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چُکی تھی۔ خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزّت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔ فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔ اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لیے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔

    بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہُوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔ بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔

    (شائستہ زرّیں کے قلم سے بچّوں کے لیے ایک سبق آموز کہانی)

  • اُلٹا نگر (ایک دل چسپ کہانی)

    اُلٹا نگر (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک تھا الٹا نگر۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے رہنے والوں کی ہر بات اُلٹی تھی۔

    وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے، بائیں طرف چلتے اور ہمیشہ بائیں کروٹ سوتے تھے۔ وہ لیٹ کر کھانا کھاتے اور بیٹھ کر سوتے تھے۔ لحاف بچھاتے اور گدّے اوڑھے تھے۔ منہ پہلے دھوتے اور ہاتھ بعد میں، روٹی پہلے کھاتے اور سالن بعد میں۔

    درزی الٹے کپڑے سیتے تھے۔ ہر شخص جوتے خریدنا ضروری سمجھتا تھا مگر جب چلتا تو جوتوں کو سَر پر رکھ لیتا۔ حکیم زکام کے مریض کو قبض کی دوا دیتے اور قبض کے مریض کو ایسی دوا دیتے کہ اُسے زکام ہو جاتا۔ اگر انہیں کہیں جلدی جانا ہوتا تو بہت آہستہ چلتے اور جہاں جلدی نہ پہنچنا ہوتا وہاں اتنی تیزی سے جاتے جیسے کہیں آگ لگی ہو۔ کسی کا بیاہ ہوتا تو سب مل کر اِس طرح روتے کہ دل سہم جاتا اور جب کوئی مر جاتا تو اتنا ہنستے اتنا ہنستے کہ پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ بچّے سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے اور بوڑھے پڑھنے کے لیے بلا ناغہ اسکول جاتے تھے۔

    غرض کہ اس شہر کا باوا آدم ہی نرالا تھا۔ لیکن اپنی الٹی پلٹی باتوں کے باوجود بھی اُلٹے نگر کے لوگ بڑے سکھ چین سے رہتے تھے۔ ان کے ہاں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا تھا۔ کوتوالی کے سپاہی سارا دن لمبی تان کر سوئے رہتے۔

    الٹے نگر میں کوئی اجنبی آتا تو ہر شخص اسے اپنے ہاں ٹھہرانے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ شخص کسی کے ہاں مہمان ٹھہرنا پسند نہ کرتا تو وہ اُسے غلط راستہ بتا دیتے اور وہ اجنبی سارے شہر میں پاگلوں کی طرح گھومتا پھرتا۔

    اس شہر کی اُلٹی پُلٹی باتوں کی خبر بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اُسے بڑا غصّہ آیا۔ اس نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ فوراً الٹا نگر جاؤ اور وہاں کے لوگوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔ وزیر دوسرے ہی دن اُلٹا نگر جا پہنچا۔

    ’’خُدا ہی بہتر جانے یہ کس قسم کا شہر ہے۔ مجھے تو ان لوگوں سے خوف آتا ہے۔‘‘ وزیر نے اسٹیشن سے باہر نکل کر چاروں طرف نگاہ دوڑا کر کہا۔

    ایک سڑک پر بورڈ لگا تھا۔ ’’یہ سڑک جنوب کی طرف جاتی ہے۔‘‘

    وزیر بولا۔ ’’لا حول ولا قوة! ارے یہ حماقت تو دیکھو ذرا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس طرف مغرب ہے۔ مگر ان احمقوں نے الٹا بورڈ لگا رکھا ہے۔‘‘

    ’’جناب! یہ الٹا نگر یوں ہی تو مشہور نہیں ہو گیا۔‘‘ ایک افسر نے کہا۔ وہ آگے بڑھے تو ایک آدمی ملا۔ وزیر نے اُس سے کہا۔ ’’بھئی! ہمیں کوتوالی جانا ہے۔ کون سا راستہ جاتا ہے اُدھر؟‘‘

    ’’کوتوالی جانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ میرے گھر مہمان کیوں نہیں رہ جاتے؟‘‘ اُس نے جواب دیا۔

    اِتنے میں اور بھی بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور ہر شخص اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہریں مگر جب وہ نہیں مانے تو انہوں نے کہا۔ ’’اچھا! آپ کی مرضی! ایسا کیجیے کہ ناک کی سیدھ میں چلے جائیے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر کوتوالی ہے۔‘‘

    وہ ان کا شکریہ ادا کر کے اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگے۔ جب وہ سڑک کے آخر میں پہنچے تو اُنہیں بھنگیوں کے گھر نظر آئے۔

    ’’لا حول و لا قوّۃ! بھئی یہ لوگ تو اوّل درجے کے شیطان ہیں۔ لو ہمیں بھنگیوں کے گھر بھیج دیا ہے۔ حد ہو گئی۔‘‘ وزیر نے غصّے سے کہا۔

    وہ لوگ سارا دن شہر میں مارے مارے پھرے اور کہیں شام کے وقت بڑی مشکلوں سے کوتوالی پہنچے۔ یہ لوگ کئی دن تک وہاں بیٹھے سر پٹختے رہے مگر الٹے نگر کے لوگوں نے اُن کی ایک نہ سنی۔ ان کی ہر بات کا مذاق اُڑایا۔ ان کے بنائے ہوئے کسی قانون کو نہیں مانا۔ ان کی تدبیریں سب اکارت گئیں۔

    ’’ہم کس پاگل خانے میں آ گئے ہیں۔ اِن لوگوں کو تو گولی مار دینی چاہیے۔ ان کی کوئی بھی تو کل سیدھی نہیں ہے۔‘‘ ایک افسر نے تنگ آ کر کہا۔

    ’’چند دن اور کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ سیدھی راہ پر آ جائیں۔‘‘ وزیر بولا۔
    ایک دن دو ڈاکو سرکاری خزانہ لوٹ کر اُلٹا نگر چلے آئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس شہر کے لوگ بے وقوف ہیں اِس لیے وہ یہاں آرام سے بیٹھ کر موج اڑائیں گے۔ جونہی یہ شامت کے مارے الٹے نگر میں داخل ہوئے، لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر شخص انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے کے لیے اصرار کرنے لگا۔

    ’’اجی صاحب! آپ میرے غریب خانے پر چلیے۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔ چُپ رہو تم اتنے بڑے آدمیوں کی میزبانی کے اہل نہیں ہو۔ حضور! آپ بندے کے گھر چلیے۔ وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔‘‘ دوسرے نے کہا۔

    ’’تم کیا کرایہ لو گے؟‘‘ ایک ڈاکو نے پوچھا۔

    ’’آپ ہماری توہین کر رہے ہیں صاحب۔ ہم مہمانوں سے کرایہ نہیں لیا کرتے۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔

    ’’پھر تو بہت اچھّی بات ہے۔ ہم تمہارے ہی گھر چلیں گے۔‘‘ ڈاکوؤں نے کہا۔

    ’’نہیں نہیں۔ میں اتنی دور سے آپ کے پیچھے آیا ہوں۔ آپ کو میرے گھر چلنا ہو گا۔‘‘ ایک اور آدمی نے کہا۔

    ’’بکواس بند کرو۔ یہ میرے مہمان ہیں۔ میں ان کے لیے درجنوں مرغے ذبح کروا سکتا ہوں۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے کہا اور دونوں ڈاکوؤں کو پکڑ کر اپنے گھر کی طرف گھسیٹنے لگا۔

    جب دوسروں نے دیکھا کہ یہ تو اُنہیں ہانک لے چلا ہے تو اُنہوں نے دوسروں کو بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اپنے اپنے گھر کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اس کھینچا تانی میں ڈاکوؤں کے کپڑے تار تار ہو گئے۔

    اتّفاق سے کوتوال کا اس طرف سے گزر ہوا۔ اس نے مجمع لگا دیکھا تو آگے آیا اور بڑی مُشکل سے ڈاکوؤں کو لوگوں کے پنجے سے چھڑایا۔

    ’’کیا بات ہے۔ تم انہیں کیوں مار رہے ہو؟‘‘ کوتوال نے پُوچھا۔

    ’’مار کون رہا ہے جناب! ہم تو انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانا چاہتے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

    ’’اوہو! تو یہ جھگڑا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اِن دونوں کو میں اپنے ہاں مہمان رکھوں گا۔ تم سب اپنی اپنی راہ لگو۔‘‘ کوتوال نے بڑے رُعب سے انہیں حُکم دیا اور خود اُن دونوں کو اپنے گھر لے آیا۔

    لوگوں سے جب کچھ اور نہ بن پڑا تو اُنہوں نے ڈاکوؤں کی موٹر کو خوب صاف کیا اور اُس کا پٹرول نکال کر اس میں دودھ بھر دیا۔

    دوسرے دن صبح کو ریڈیو پر سرکاری خزانہ لوٹے جانے کی خبر سُنائی گئی اور ڈاکوؤں کا حلیہ بھی بتایا گیا۔ الٹے نگر کے لوگوں نے چوروں کے حلیے پر غور کیا تو انہیں یقین ہو گیا کہ کوتوال کے مہمان ہی وہ ڈاکو ہیں۔ وہ غصّے سے لال پیلے ہو کر کوتوال کے گھر کی طرف چلے۔

    ’’میرے دروازے کے سامنے کیوں بھیڑ لگا رکھی ہے تم نے؟‘‘ کوتوال نے دروازہ کھول کر پوچھا۔

    ’’جناب! آپ کے دونوں مہمان ڈاکو ہیں۔ سرکاری خزانہ لوٹ کر یہاں لائے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

    ’’ایں! واقعی؟‘‘ کوتوال نے حیران ہو کر کہا اور چوروں کو پکڑنے کے لیے اندر بھاگا مگر چور پہلے ہی پچھلے دروازے سے رفو چکر ہو چکے تھے۔

    ’’پکڑو پکڑو۔ جانے نہ پائیں۔ ابھی یہیں کہیں ہوں گے۔‘‘ کوتوال نے کہا۔

    لوگ بھاگتے ہوئے چوک میں پہنچے۔ یہاں ڈاکوؤں کی کار کھڑی تھی اور وُہ کار میں بیٹھے انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر کار میں پٹرول کی جگہ دودھ بھرا ہوا تھا۔ وہ چلتی کیسے۔ ڈاکو لوگوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر موٹر چھوڑ چھاڑ سرپٹ بھاگے مگر چند ہی منٹوں میں گرفتار کر لیے گئے۔

    جب لوگ ڈاکوؤں کو لے کر کوتوالی پہنچے تو وزیر اپنے بنائے ہوئے قانون کوتوال کو سمجھا رہا تھا۔

    ’’جناب! ہمیں آپ کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے چوروں کو خود پکڑ سکتے ہیں۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔

    ’’بھئی! تُم اپنی الٹی پُلٹی حرکتوں سے اپنا کام نکال ہی لیتے ہو۔‘‘ وزیر نے ہنس کر کہا۔

    ’’میرا خیال ہے کہ اِنہیں اِن کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ ایک افسر بولا۔ ’’یہ جانیں اور ان کا کام۔ اگر ہم کچھ دن اور یہاں رہے تو ہم بھی ان کی طرح الٹے پلٹے ہو جائیں گے۔‘‘ اور وہ سب اسی دن الٹے نگر سے چلے گئے۔

    (مصنّف:‌ جبّار توقیر)

  • جسے اللہ رکھے، اسے  کون چکھے (کہانی)

    جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے (کہانی)

    بہت پرانی بات ہے کہ ایک گاؤں میں مراد نامی نوجوان اپنے بال بچّوں سمیت رہتا تھا۔ اس کا گھر کچّا بھی تھا اور چھوٹا بھی، لیکن مراد مطمئن تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔

    اس نوجوان کے زیادہ تر رشتہ دار اور عزیز و اقارب قریبی دیہات اور شہر کے مضافاتی علاقوں‌ میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے گاؤں سے باہر جاتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ماموں کی مزاج پرسی کے کے ارادے گھر سے نکلا جو خاصی دور ایک مقام پر رہتے تھے۔ مراد صبح سویرے گھر سے چل پڑا تاکہ شام ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا اور گزر گاہ خطرناک تھی۔ اس راستے پر جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ رہتا تھا۔ مراد گھر سے دوپہر کا کھانا اور ضروری سامان ساتھ لیے منزل کی طرف چل پڑا۔

    جب وہ جنگل کے قریب تھا تو اچانک مشرق کی طرف سے اس نے گرد کا طوفان اور آندھی آتی دیکھی۔ مراد نے پناہ گاہ کی تلاش میں‌ نظر دوڑائی۔ خوش قسمتی سے قریب ہی اسے ایک جھونپڑی نظر آگئی۔ اس نے جھونپڑی کی طرف قدم بڑھائے اور تقریباً دوڑتا ہوا جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا۔ اس اثناء میں آندھی جو بڑی زور آور تھی، کئی درختوں کو ہلاتی اور مختلف ہلکی اشیاء کو اڑاتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ اسی کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش بھی شروع ہو گئی۔

    مراد کو جھونپڑی میں داخل ہونے سے کسی نے نہ روکا۔ وہ اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے چھے نوجوان پناہ لیے ہوئے تھے۔ دعا سلام کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی کی گرج چمک میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ جب بجلی چمکتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اسی جھونپڑی کی چھت پر پڑی ہے۔ اندر جتنے لوگ تھے وہ بجلی کی کڑک سن کر خوف ذدہ ہو جاتے۔ وہ آفت ٹلنے کے لیے دعائیں‌ کرنے لگے اور اپنی اپنی جان کی امان اللہ سے طلب کرنے لگے۔

    جب بجلی بار بار جھونپڑی کی طرف آنے لگی تو سب کو یقین ہو گیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور اس ایک کی وجہ سے سب کے سب موت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ جھونپڑی میں پہلے سے موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب مرنے کے بجائے یہ کریں‌ کہ ہر ایک باری باری سامنے کچھ فاصلے پر موجود درخت کو ہاتھ لگا کر آئے۔ ان کو نجانے کیوں یہ یقین ہوچلا تھا کہ جس کی موت آنی ہو گی، باہر نکلنے پر بجلی اس پر ضرور گرے گی۔

    جھونپڑی میں موجود ایک شخص پہلے نکلا اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گیا۔ بجلی کڑکی مگر وہ شخص زندہ سلامت جھونپڑی میں واپس آ گیا۔ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا شخص حتّیٰ کہ وہ چھے کے چھے اشخاص درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گئے اور بجلی کڑکتی رہی، مگر ان میں‌ کوئی نشانہ نہیں‌ بنا تھا۔

    اب آخری شخص مراد تھا جسے ان سب نے جاکر درخت کو ہاتھ لگانے کے لیے کہا۔ مراد نجانے کیوں گھبرا گیا۔ اس نے پناہ لیے ہوئے تمام لوگوں کی منت سماجت کرنی شروع کر دی اور کہا کہ شاید وہ ان سب کی وجہ سے بچا ہوا ہے، لہٰذا اسے باہر نہ جانے کو کہا جائے۔ مگر سب بضد تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بجلی جس زور سے کڑک رہی ہے، وہ یقیناً‌ کسی ایک کو نوالہ بنانا چاہتی ہے، ہم سب نے اپنی باری پوری کی ہے، ہم مرنا نہیں چاہتے۔ اب تمہاری باری ہے جاؤ اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ جاؤ۔ اگر تمھاری زندگی ہوگی تو تم لوٹ آؤ گے۔ انہوں نے اسے پکڑا اور باہر دھکیل دیا۔

    مراد طوفانی بارش اور گرج چمک میں‌ درخت کی طرف بھاگا تاکہ جلدی سے اسے ہاتھ لگا کر واپس آ جائے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ جونہی وہ جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر پہنچا، اچانک بجلی چمکی ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ مراد کے اوسان اس آواز کو سنتے ہی خطا ہوگئے، لیکن لمحوں میں‌ جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو جھونپڑی جل گئی تھی۔ بجلی اس جھونپڑی پر گری تھی جہاں وہ چھے افراد موجود تھے جنھوں‌ نے اسے باہر نکال دیا تھا۔ وہ سب کے سب لقمۂ اجل بن چکے تھے۔

  • "روٹی کیوں پھولتی ہے؟”

    "روٹی کیوں پھولتی ہے؟”

    دانیال جب ناراض ہوتے ہیں تو منہ پھلا کر کونے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج کل وہ چھٹیوں میں اپنی دادی کے پاس آئے ہوئے تھے۔

    برسات کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ بادل خوب امنڈ کر آئے۔ پھر بارش ہونے لگی۔ دانیال باہر جا کر بارش میں بھیگنا چاہتے تھے۔ دادی نے منع کر دیا۔ موسم کچھ ایسا ہورہا تھا کہ کبھی سخت گرمی تو کبھی مرطوب ہوا۔ کچھ لوگوں کو کھانسی نزلہ ہورہا تھا۔ دادی نے کہا بھیگنے سے بیمار پڑگئے تو چھٹیاں غارت ہوجائیں گی۔ بس دانیال منہ پھلا کر ایک طرف کو کھڑے ہوگئے۔

    دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔ کھانا میز پر آچکا تھا۔ دادی نے آواز لگائی۔ ”آؤ بچّے کھانا کھا لو۔ دیکھو نسیمہ آپا نے گرم گرم پھولی ہوئی روٹیاں پکائی ہیں۔“

    ”ایسی گول اور پھولی ہوئی ہیں جیسے دانیال بھیا کا منہ۔“ نسیمہ نے انھیں چھیڑا۔

    دانیال کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ گرم گرم پھولی پھولی روٹیوں کی بات سن کر وہ غصہ بھول گئے اور ٹیبل پر آگئے۔

    ”پہلے جا کر ہاتھ دھوئیے۔ دادی نے تنبیہ کی۔ کھانے سے پہلے ہاتھ خوب اچھی طرح دھو لینے چاہییں۔ دانیال بھاگ کر واش بیسن پر چلے گئے۔ صابن لگا کر ہاتھ اچھی طرح دھوئے، پھر چھوٹی تولیہ سے پونچھ کر آگئے۔ تب نسیمہ نے ان کی پلیٹ میں توے سے اتاری پھولی ہوئی روٹی لاکر ڈالی۔ دانیال کی پسند کا انڈے آلو کا سالن بھی تھا۔

    ”بہت گرم ہے۔“ دانیال نے پھولی ہوئی روٹی میں انگلی ماری۔ بھاپ سے انگلی میں جلن محسوس ہوئی۔ جلدی سے اسے منہ میں ڈال لیا۔ اب روٹی پچک چکی تھی۔

    دادی۔ دادی۔ روٹی کیوں پھولتی ہے۔

    یہ اچھا سوال پوچھا تم نے۔ دادی نے کہا۔ پہلے کھانا کھالو، پھر بتاتے ہیں۔ کھانا کھالینے کے بعد دادی نے بتایا۔

    ”تمہیں معلوم ہے روٹی عام طور پر گیہوں کے آٹے سے بنتی ہے۔“

    ”معلوم ہے دادی۔ کچن میں کنستر بھر کر گیہوں کا آٹا رکھا ہے۔“

    ”ہاں۔ اسٹور روم میں گیہوں بھی ہے جو گاؤں سے آیا ہے۔ آٹا ختم ہوگا تو اسے لِپوا کر آٹا بنوا لیا جائے گا۔ روٹی پکانے سے پہلے اس آٹے کو گوندھا جاتا ہے۔

    دانیال نے سر ہلایا۔ ”جانتے ہیں“ دانیال اکثر کچن میں گھسے رہتے تھے۔

    ”گیہوں میں ایک چیز ہوتی ہے جسے گلوٹن (Gluten) کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا پروٹین ہوتا ہے۔ تم ابھی چوتھے اسٹینڈرڈ میں ہو۔ اگلے سال شاید تمھیں پروٹین کے بارے میں کلاس میں بتایا جائے۔ بہرحال اس پروٹین کی وجہ سے آٹے میں لچک پیدا ہوتی ہے اور وہ کھینچا جاسکتا ہے۔ تم نے نسیمہ آپا کو یا ہمیں روٹی بیلتے دیکھا ہوگا۔ لچک کی وجہ سے ہی روٹی بڑھتی ہے۔ بہت سے لوگ تو بہت بڑی بڑی روٹیاں بنا لیتے ہیں۔“

    ”جیسے رومالی روٹی جو ہم نے ہوٹل میں کھائی تھی۔“

    ”شاباش۔ ٹھیک بتایا۔“ دادی نے کہا۔

    ”آٹے کو لوچ دار بنانے کے علاوہ یہ پروٹین اس میں ایک جال سا بنا دیتا ہے۔ اس کے ننھے ننھے خانوں میں گیس کے بلبلے پھنس جاتے ہیں۔ روٹی جب توے پر ڈالی جاتی ہے تو گرمی سے بھاپ بنتی ہے۔ یہ بھاپ گلوٹین کے ننھے ننھے خانوں کو پھلا کر اوپر کی طرف دھکیلتی ہے اور روٹی پھول جاتی ہے۔“

    دانیال نے سَر ہلایا۔ جیسے وہ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں۔ ”گرمی سے روٹی کے اندر بھاپ بنتی ہے۔ وہ آٹے میں موجود گلوٹین کے جال کو اوپر کی طرف دھکا دیتی ہے۔ اسی سے روٹی پھول جاتی ہے۔“ انھوں نے دہرایا۔ اور بولے ”ارے دادی پوریاں بھی تو پھولتی ہیں ا ور گول گپّے بھی۔“

    ”وہ بھی اسی اصول کے تحت پھولتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انھیں گرم تیل سے گرمی ملتی ہے۔“ وہ تیل میں تلے جاتے ہیں۔

    ”رات کے کھانے میں پوری کھلائیں گی دادی؟“ دانیال نے کہا۔

    ”ضرور۔ بشرطے کہ تم ساتھ میں ہری سبزی بھی کھاؤ۔ ہری سبزی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اسے کھانے کو کہا جائے تو روٹی کی طرح منہ مت پھلانا۔“ دادی نے پیار سے سَر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔

    (معروف بھارتی ادیب اور افسانہ نگار ذکیہ مشہدی کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)

  • وہ کوئی عام چور نہیں تھا!

    چین کے ہانگی چو شہر میں ایک مشہور ڈاکو رہتا تھا۔ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا مگر سب اسے ’لو میں آیا‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ جہاں بھی ڈاکہ ڈالتا، چوری کرتا وہاں کسی دیوار پر’’لو میں آیا‘‘ ضرور لکھ دیا کرتا تھا۔

    رفتہ رفتہ اس کی سرگرمیاں اتنی بڑھی گئیں کہ عوام نے حکومت سے درخواست کی کہ انہیں اس سے چھٹکارا دلایا جائے۔ کوتوال کو حکم دیا گیا کہ کسی بھی طرح ’’لو میں آیا‘‘ کو گرفتار کر لیا جائے۔ گرفتاری کے لئے آٹھ روز کی مدت مقرر کر دی گئی۔

    کوتوال سوچ میں پڑ گیا۔ وہ کوئی عام چور نہیں تھا، وہ اتنا چالاک تھا کہ کسی کے پاس اس کی پوری معلومات نہیں تھی، کوئی اس کے رنگ روپ، قد و قامت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ایسے چور کو ایک مقررہ وقت کے اندر گرفتار کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔

    کوتوال اور اس کے عملے نے چور کی تلاش میں رات دن ایک کر دیے۔ آخر ایک شخص کو گرفتار کر کے منصف کے سامنے پیش کر دیا۔ کوتوال نے کہا ’’حضور! یہی ’’لو میں آیا‘‘ ڈاکو ہے۔ اسے سخت سے سخت سزا دے کر شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کیجئے۔ ‘‘

    منصف نے پوچھا ۔’’تمہار پاس کیا ثبوت ہے کہ یہی وہ ڈاکو ہے۔‘‘

    ’’حضور!‘‘ کوتوال نے عرض کیا ’’ہم نے بڑی ہوشیاری سے اس پر نگاہ رکھی اور اس کی نقل و حرکت کی خبر رکھتے رہے۔ یقین ہو جانے کے بعد ہی ہم نے اسے گرفتار کیا ہے۔‘‘ منصف نے ملزم سے پوچھا ۔’’تمہارا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟‘‘

    ’’حضور! انہیں اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کسی نہ کسی کو گرفتار کرنا ہی تھا۔ بدقسمتی سے میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ مجھے پکڑ لائے میں بے گناہ ہوں۔‘‘ ملزم نے کہا۔

    مصنف کو شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر کوتوال نے کہا،’’حضور! آپ اس کی باتوں کا اعتبار نہ کریں۔ یہ بہت چالاک ہے۔‘‘

    منصف نے کوتوال کی بات کا اعتبار کر لیا اور قیدی کو فی الحال قید خانے میں رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔

    قیدی درحقیقت ’’لو میں آیا‘‘ ہی تھا۔ اس نے قید خانے پہنچتے ہی اپنی چالاکی دکھانی شروع کر دی۔ اس نے جیل کے محافظوں سے تو دوستی کی ہی جیل کے افسر سے تنہائی میں کہا: ’’خالی ہاتھ بڑوں کی خدمت میں حاضر ہونا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ میرے پاس جو کچھ تھا وہ مجھے قید کرنے والے سپاہیوں نے چھین لیا۔ پھر بھی آپ کو میں ایک چھوٹا سا نذرانہ دینا چاہتا ہوں۔ پہاڑی پر دیوتا کے مندر کے اس ایک اینٹ کے نیچے میں نے تھوڑی سی چاندی چھپا رکھی ہے۔ آپ اسے لے لیں۔‘‘

    افسر نے پہلے تو قیدی کی بات کا اعتبار نہیں کیا، مگر پھر بھی قیدی کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا اور نشان زدہ اینٹ ہٹا کر دیکھا تو وہاں سے ایک سیر چاندی برآمد ہوئی۔ افسر نے وہ چاندی رکھ لی۔

    اس واقعے کے بعد قید خانے کا وہ افسر ڈاکو کے ساتھ دوستانہ سلوک کرنے لگا۔ چند روز گزر گئے۔ ایک روز ڈاکو نے افسر سے موقع دیکھ کر کہا کہ صاحب، میں نے فلاں پل کے نیچے بہت سے دولت گاڑ رکھی ہے۔ آپ وہ بھی لے لیجئے۔ اب میرے تو کسی کام کی نہیں۔ افسر نے کہا ’’پل پر ہمیشہ لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ میں وہاں سے گڑی ہوئی دولت کیسے نکل سکتا ہوں؟‘‘

    ’’آپ اپنے ساتھ دو چار جوڑے کپڑے لے جائیں۔ ساتھ میں ایک خالی تھیلا بھی لے جائیں۔ سب سمجھیں گے آپ ندی پر کپڑے دھونے گئے ہیں۔ آپ دولت نکال کر تھیلے میں ڈال لیں۔ کپڑے بھی پانی میں گیلے کر کے تھیلے میں ڈال لیں اور تھیلا لے آئیں۔ کوئی آپ پرشک نہیں کر سکتا۔‘‘ قیدی نے ترکیب بتائی۔ افسر نے قیدی کی ترکیب پر عمل کیا اور پل کے نیچے سے دولت نکال لایا۔ اب ان دونوں کی دوستی اور گہری ہو گئی۔

    ایک رات افسر اپنے قیدی دوست کے لئے جیل خانے میں شراب لایا۔ دونوں نے بیٹھ کر شراب پی۔ جب افسر کونشہ چڑھ گیا تو قیدی نے اس سے کہا، آج رات مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئے، سویرے تک میں لوٹ آؤں گا۔ آپ اپنے دل میں یہ خیال بالکل نہ لائیں کہ میں فرار ہونا چاہتا ہوں، اگر میں فرار ہوتا ہوں تواس کا مطلب ہوگا کہ میں نے اپنے جرم کو قبول کر لیا۔ اور میں بھاگوں کیوں؟ آج نہیں تو کل منصف مجھے رہا کر ہی دے گا، کیوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘‘

    قیدی نے اتنے اعتماد سے یہ بات کہی کہ کوتوال پس و پیش میں پڑ گیا۔ قیدی کے فرار ہونے یا جیل خانے سے باہر جانے کی بات پھیل جاتی تو اس کی ملازمت کو خطرہ ہو سکتا ہے مگر قیدی پر اسے بھروسہ ہو چکا تھا، اس لئے اس نے اسے اجازت دے دی۔

    قیدی نے باہر جانے کے لئے دروازے کا استعمال نہیں کیا۔ وہ چھت پر سے کود کر قید خانے سے باہر چلا گیا۔ صبح ہونے سے پہلے وہ واپس بھی آ گیا۔ اس نے خراٹے لے کر سوتے افسر کو جگایا۔

    ’’لو میں آیا!‘‘افسر نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’آتا کیسے نہیں؟ میرے نہ لوٹنے سے آپ کی عزّت خاک میں مل جاتی۔ مجھے یہ گوارا نہ تھا۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کیا ہے اسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ شکریے کے اظہار کے لئے میں آپ کے گھر میں، ایک چھوٹا سا تحفہ دے آیا ہوں۔ آپ گھر جاکر تحفہ دیکھ آئیں۔ مجھے تو اب قید خانے سے جلد ہی رہائی مل جائے گی۔‘‘ قیدی نے کہا۔

    قید خانے کا افسر فوراً گھر پہنچا۔ اس کی بیوی نے خوشی خوشی اسے خبر دی۔’’جانتے ہو آج کیا ہوا؟ سویرا ہونے میں تھوڑی دیر باقی تھی کہ روشن دان میں سے ایک گٹھری اندر آ گری۔ میں نے کھول کر دیکھا، اس میں سونے چاندی کی تھالیاں تھیں۔‘‘

    افسر سمجھ گیا کہ قیدی اسی تحفے کا ذکر کر رہا تھا۔ اس نے بیوی کو ہدایت دی ۔’’کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ ان تھالیوں کو چھپا کر رکھ دو۔ جب کچھ وقت گزر جائے گا تب ہم انہیں بیچ کر نقد روپے حاصل کر لیں گے۔‘‘

    دوسرے دن عدالت میں کئی فریادی حاضر ہوئے۔ سب کا کہنا یہی تھا کہ رات ان کے گھر سے سونے چاندی کا قیمتی سامان چوری ہو گیا۔ سب کے گھر کی دیواروں پر’’لو میں آیا‘‘ لکھا ہوا تھا۔

    منصف نے کوتوال سے کہا ۔’’وہ قیدی صحیح کہتا تھا، وہ ’’لو میں آیا‘‘ نہیں ہے۔ وہ تو قید خانے میں ہے اور’’لو میں آیا‘‘ اب بھی دھڑلے سے چوریاں کر رہا ہے۔ اصلی چور کی تلاش کی جائے اور اس بے گناہ کو آزاد کر دیا جائے۔

    قید خانے کا افسر اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ یہی اصلی چور ہے مگر وہ کسی سے اس حقیقت کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اس نے چور سے نہ صرف پہلے بلکہ حالیہ چوری میں سے بھی حصہ حاصل کیا تھا۔ قیدی کو آزاد کر دیا گیا۔

    (بھارتی ادیب بانو سرتاج کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)

  • مالی کا ارادہ

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی، موگرا موتیا وغیرہ۔ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دلربا بنائے ہوئے تھے۔

    شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔ بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔

    پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالانکہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہوں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا ہے، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے۔ لیکن ہم تو راجا ہیں راجا بغیر گھی مسالہ کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹھل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم…”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی: سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی: میں اپنی تعریف کیا سناؤں، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کرتی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل:۔ میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی:۔ میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں، اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقتور اور روغنی ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا۔ کیا معلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)

  • امن کانفرنس

    امن کانفرنس

    ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ‌ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں‌ پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں‌ ہے:

    جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”

    سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔

    "ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
    "ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
    "توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”

    تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

    "او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

    "بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔

    "ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”

    پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

    "اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

    راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

    "اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
    "اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”

    ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔

    "یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

    "جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”

    راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”

    پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”

    "مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”

    پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔

    راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”

    راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

    "دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔

    ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

    "کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
    ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

    راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”

    رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”

    "اور کیا ایک کھایا؟”

    "تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”

    "یہ بات۔۔۔۔؟”

    "یہ بات۔۔۔۔!”

    پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

    چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟

    رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”

  • رڈولف عجیب و غریب ریاست میں

    رڈولف عجیب و غریب ریاست میں

    میرا نام رڈولف ہے۔ میں "اسکندریہ” نامی ایک جہاز راں کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ بحری سفر کے دوران میرے ساتھ کئی حیرت انگیز، دل چسپ اور خوف ناک واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں۔

    ہمارا جہاز اسکندریہ- 680، 24 دسمبر کو "فیڈریہ” نامی بندر گاہ سے مال لے کر "کوسٹریہ” کے لیے روانہ ہوا۔ یہ 28 دن کا سفر تھا۔ چوتھے دن کا ذکر ہے۔ شام کا وقت تھا۔ میں جہاز کی اوپری منزل پر کھڑا غروب ِآفتاب کے منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک ایمرجنسی گھنٹی کی زور دار آواز گونج اٹھی۔

    میں بھی دوسرے ساتھیوں کی طرح کپتان کے کیبن کی طرف لپکا۔ وہاں معلوم ہوا کہ آدھے گھنٹے بعد ایک بہت خوف ناک طوفان آنے والا ہے۔ ہم سب طوفان سے بچاؤ کی تدبیریں کرنے میں مصروف ہو گئے، لیکن طوفان نے ہمیں اس کی مہلت نہیں دی۔ ہمارا جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ سب کچھ بہہ گیا۔ سب اپنی اپنی جانیں بچانے میں مصروف تھے۔ میں بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ پھر کیا ہوا مجھے یاد نہیں۔

    جب میری آنکھ کھلی تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میں لکڑی کے ایک کمرے میں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک بطخوں کے ڈربے میں ہوں۔ اچانک کمرے کا دروازہ خلا۔ ایک بڑی سی بطخ اندر داخل ہوئی۔ میں نے کبھی اتنی بڑی بطخ نہیں دیکھی تھی۔ وہ تقریباً چار ساڑھے چار فٹ لمبی تھی۔ میں اسے دیکھ کر سہم سا گیا۔ بطخ نے میری طرف دیکھ کر کہا، "ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ تم اس وقت ریاستِ بطخیہ میں ہو۔ میرا نام سڈرا ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟”

    "رڈ۔۔۔۔۔ رڈولف” میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔ "اچھا! کچھ دیر میں بادشاہ کے سپاہی آنے والے ہیں۔ وہ تمہیں بادشاہ کے پاس لے جائیں گے۔” سڈرا نے کہا۔

    سس۔۔۔۔۔ سس۔۔۔۔۔ سپاہی! کک۔۔ کیوں؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔” میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

    سڈرا نے کہا، "اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں تو تم مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دو۔ تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ تم سے پہلے بھی یہاں تمھارے جیسے انسان آئے تھے۔ وہ ہمیں قید کر کے لے جانا چاہتے تھے، لیکن ہماری فوج نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا تم بھی اسی مقصد کے لیے آئے ہو؟”

    "جی نہیں! میں تو یہاں لایا گیا ہوں۔” میں نے جواب دیا۔ "وہ تو ٹھیک ہے۔ میں تمہیں خود کنارے سے اٹھا کر لائی ہوں، لیکن تم ہماری ریاست میں کیوں داخل ہوئے؟” سڈرا نے پوچھا۔

    پھر میں نے اس کو اپنی پوری کہانی سچ سچ بتا دی۔ "ہوں میں تو تمہاری بات کا یقین کر لیتی ہوں، لیکن بادشاہ سلامت کو یقین دلانا بہت مشکل ہے۔ میں تمہیں اپنی مدد کا یقین۔۔۔۔۔”

    ابھی سڈرا نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ سڈرا نے دروازہ کھولا۔ دروازے پر نیزوں اور ڈھالوں سے لیس چار سپاہی کھڑے تھے۔ ان کے ہتھیار دیکھ کر مجھے اپنا پستول یاد آ گیا، جو ہر وقت میرے پاس رہتا تھا۔ میں نے فوراً اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ قمیض کے اندر پیٹی موجود تھی۔ اس کی موجودگی سے میں کچھ مطمئن ہو گیا۔ میں سپاہیوں اور سڈرا کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے سیکڑوں سوالات کیے۔ میں نے سب کے جوابات سچ سچ دیے۔ سڈرا نے میری بہت حمایت کی۔

    آخر بادشاہ نے کہا، "ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم ان انسانوں میں سے نہیں ہو اور آزاد ہونے کے بعد تم اپنی فوج کے ساتھ ہم پر حملہ نہیں کرو گے؟”

    اس پر سڈرا نے کہا، "بادشاہ سلامت! میں ایک تجویز پیش کرتی ہوں، اگر آپ کو پسند آ جائے۔ تجویز یہ ہے کہ اس شخص کو ہم ایک دو مہینے اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس سے کوئی کام لیتے ہیں۔ اگر آپ اس سے مطمئن ہو جائیں تو اسے آزاد کر دیا جائے۔”

    دربار میں موجود تمام بطخوں نے اس کی تائید کی۔ بادشاہ کو بھی یہ تجویز پسند آئی۔ بادشاہ نے کہا، "اے شخص! تمہیں ہمارے محل میں مالی کا کام کرنا ہوگا۔ اگر تم ہمارا اعتماد حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے تو تمہیں باعزت بری کر دیا جائے گا اور اگر تم نے کوئی غلط قسم کی حرکت کی اور فرار ہونے کی کوشش کی تو تمہیں سزائے موت دے دی جائے گی۔”

    میں نے سر جھکا کر اقرار کیا کہ میں کوئی گڑبڑ نہیں کروں گا۔ میرےذمّے ایک بہت بڑا شاہی باغ تھا۔ اس باغ کے ایک کونے میں میرے رہنے کے لیے لکڑی کی بنی ہوئی ایک کوٹھری تھی۔ میں نے اپنے پلنگ کے نیچے اپنا پستول چھپا کر رکھ دیا۔ مجھے باغ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن سڈرا روز مجھ سے ملنے آتی تھی۔

    مجھے اپنا کام کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، کیوں کہ مجھے بچپن ہی سے باغبانی کا شوق تھا۔ میں نے تھوڑے ہی عرصے میں باغ کو ہرا بھرا اور بہت خوب صورت بنا دیا۔ بادشاہ اور اس کے رشتے دار سب مجھ سے خوش تھے۔ میں روز خوبصورت گل دستہ بنا کر ملکہ کو بھیجتا تھا۔ اس طرح میں بادشاہ کو کسی حد تک اعتماد میں لینے میں کام یاب ہو گیا۔

    ایک دن کا ذکر ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ ہر طرف سے شور و غل، چیخنے چلّانے اور دوڑنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے دوڑتی ہوئی ایک بطخ سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو اس نے مجھے بتایا، "مینڈکوں نے ریاست پر حملہ کر دیا ہے۔ ان کی فوج ہماری فوج سے کہیں زیادہ ہے۔”

    میرے ذہن میں فوراً پستول کا خیال آیا۔ میں جلدی سے اپنے کمرے میں گیا اور پستول اٹھا کر باہر کی طرف دوڑا۔ باہر میری ملاقات بادشاہ سے ہو گئی۔ وہ بھی بہت پریشان تھا۔ میں نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے فوراً میدانِ جنگ کی طرف بھیج دے۔ بادشاہ نے دو سپاہیوں کے ساتھ مجھے میدانِ جنگ کی طرف روانہ کر دیا۔
    پہلے تو اتنے بڑے مینڈکوں کو دیکھ کر میں بھی خوف زدہ ہو گیا، لیکن پھر میں نے ایک سپاہی سے ڈھال لی، پستول ہاتھ میں پکڑا اور مینڈکوں کے سامنے جا پہنچا۔ مینڈک بھی مجھے دیکھ کر ڈر گئے۔ پھر وہ پیچھے ہٹ کر میرے اوپر نیزے پھینکنے لگے۔ میں نے ڈھال کی مدد سے اپنے آپ کو نیزوں سے بچایا اور پھر ہوائی فائر کر دیا۔ فائر کی آواز ان لوگوں کے لیے بالکل نئی تھی۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میں نے دو فائر کر کے دو مینڈکوں کو مار ڈالا۔ یہ سب دیکھ کر مینڈک بہت خوف زدہ ہوئے اور واپس بھاگ نکلے۔ اسی بھاگ دوڑ میں کئی مینڈک کچلے گئے۔ کئی سمندر میں ڈوب گئے اور کئی گرفتار ہو گئے۔ اس طرح بطخوں کو کام یابی ہوئی۔ اب اس پستول کی وجہ سے بادشاہ بھی مجھ سے ڈر رہا تھا، لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ میں ان کا دوست ہوں۔ بادشاہ نے میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور اپنے رویّے کی معافی مانگی اور میری آزادی کا بھی اعلان کر دیا۔

    بادشاہ نے مجھے چند دن شاہی مہمان بن کر رہنے کی دعوت دی۔ میں چند روز شاہی محل میں رہا۔ پھر میں نے بادشاہ سے ایک کشتی مانگی جس کے ذریعے سے میں اپنے وطن واپس پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے کبھی کشتی نہیں بنائی تھی۔ لہٰذا وہ کشتی مجھے خود ہی بنانی پڑی۔ جب کشتی بن کر تیار ہو گئی تو میں نے جانے کی اجازت چاہی۔ اس رات بادشاہ نے میرے اعزاز میں ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا۔ صبح مجھے رخصت کرنے کے لیے بہت ساری بطخیں کنارے پر موجود تھیں۔ ان میں بادشاہ، اس کے ساتھی اور سڈرا شامل تھی۔ ان سب نے مجھے پھول پیش کیے۔ میں نے جانے سے پہلے بادشاہ کو اپنا پستول تحفے میں دے دیا۔ اسے پا کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔

    مجھے وہاں سے چلے ہوئے چار روز گزر چکے تھے اور میں کسی منزل تک پہنچنے میں کام یاب نہیں ہو سکا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بطخوں نے میری کشتی میں کھانے پینے کا کافی سامان بھر دیا تھا۔ سورج ڈھلنے والا تھا۔ مجھے اندھیرے میں دور ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ میں جلدی جلدی کشتی کھیتا ہوا روشنی کی طرف بڑھا۔ قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک چھوٹا مکان تھا۔ میں نے کشتی کو کنارے سے لگایا اور اتر کر مکان کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی والا تھا کہ ایک خوفناک بڑھیا نے خود ہی دروازہ کھولا اور بولی، "آؤ بیٹا آؤ۔۔۔۔۔ راستہ بھول گئے ہو نا؟”
    میں بڑھیا کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔

    "یہ مکان میں نے تم جیسے لوگوں کے لیے بنایا ہے جو اپنا راستہ بھول جاتے ہیں۔ آؤ اندر آؤ۔” بڑھیا نے کہا۔

    "جی ہاں! مجھے رات بسر کرنے کی اجازت دے دیں، صبح ہوتے ہی چلا جاؤں گا۔”

    پھر میں اندر داخل ہو گیا۔ بڑھیا نے مجھ سے کھانے کو پوچھا اور پھر مجھے ایک کمرے میں لے گئی۔ وہاں اس نے مجھ سے کہا، "تم اس کمرے میں سو جاؤ، صبح میں تمہیں راستہ بتا دوں گی۔ تم چلے جانا۔”

    یہ کہہ کر بڑھیا کمرے سے باہر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک پرانا پلنگ تھا۔ ایک میز تھی جس پر لالٹین، پھل اور ایک بڑا چھرا پڑے ہوئے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں بڑھیا پراسرار لگ رہی تھی۔ مجھے کمرے میں خون کی بُو بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے میز سے چھرا اٹھایا اور اپنے سرہانے رکھ کر لیٹ گیا۔ مجھے ڈر کے مارے نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔ تقریباً آدھی رات کے وقت کمرے کا دروازہ کھلا۔ میں خاموشی سے لیٹا رہا اور دیکھتا رہا۔ بڑھیا کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ میرے سرہانے تک آئی۔ میں پہلے ہی چھرا اپنے ہاتھ میں تھام چکا تھا۔ میں ادھ کھلی آنکھوں سے بڑھیا کو دیکھا۔ وہ بڑے خوف ناک انداز میں مسکرا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اس کے ناخن بہت بڑے بڑے تھے۔ اس نے اپنے ناخنوں سے میری گردن دبانی چاہی۔ جیسے ہی وہ میرے اوپر جھکی میں نے پھرتی سے چھرے سے اس کی گردن پر وار کر دیا۔ اس کی گردن کٹ کر دور جا گری۔ یکایک بڑھیا کا جسم دھویں میں تبدیل و کر غائب ہو گیا۔

    میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ صبح ہونے میں ابھی کافی دیر تھی۔ میں نے سوچا کہ اس مکان کا جائزہ لوں۔ میز پر لالٹین اٹھا کر میں کمرے سے نکلا اور اندر والے کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہاں انسانی کھوپڑیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں نے کمرے کی ایک ایک چیز کو اچھی طرح دیکھا اور پھر کمرے سے باہر نکلا۔ برآمدے میں ایک اور دروازہ تھا۔ میں نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ راستہ تہ خانے کی طرف جاتا ہے۔ میں نیچے پہنچا۔ ایک کونے میں ایک بہت بڑا صندوق پڑا ہوا تھا۔ میں نے قریب جا کر اسے کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ پورا صندوق سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا تھا۔

    میں نے ایک بہت بڑی تھیلی سکّوں سے بھری اور اوپر آ گیا۔ اب صبح ہونے والی تھی۔ سورج کی ہلکی ہلکی روشنی چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ میں نے سکّوں بھرا تھیلا اٹھایا اور کشتی میں سوار ہو گیا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سارا مکان دھویں میں تبدیل ہو رہا تھا۔ میں نے جلدی سے سکّوں بھری تھیلی کو کھولا۔ تھیلی کھولتے ہی سکّے بھی دھواں بننے لگے۔ میں نے فوراً تھیلی کا منہ بند کر دیا۔ اب اس میں تھوڑے سے سکّے باقی تھے۔ میں نے اسے اچھی طرح باندھ کر ایک کونے میں رکھ دیا اور کشتی کھینے لگا۔

    دوپہر کا وقت تھا کہ اچانک میری نظر دور سے آتے ہوئے ایک جہاز پر پڑی۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا اور زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔ جہاز والوں نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ میری طرف آنے لگے۔ قریب پہنچ کر میں یہ دیکھ کر اور بھی خوش ہوا کہ یہ "اسکندریہ” کمپنی کا جہاز تھا۔ جہاز پر سوار میرے کئی دوست مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے جہاز کے حادثے میں تمام لوگ مارے گئے تھے اور وہ سب میری موت کا بھی یقین کر چکے تھے۔ میں نے انہیں اپنا پورا قصّہ سنایا، لیکن انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر میں نے انہیں ثبوت کے طور پر بچے ہوئے سکّے دکھائے تو انہیں یقین آیا۔

    دو دن بعد ہم فیڈریہ پہنچے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میں پورے ایک مہینے تک غائب رہا۔ اس واقعے کی وجہ سے مجھے کافی شہرت و ترقّی ملی اور ان سکّوں کی مدد سے میری مالی حالت بہتر ہو گئی۔

    (غیر ملکی ادب سے اردو میں ترجمہ کی گئی یہ کہانی 1990ء میں‌ بچّوں کے مقبول ماہ نامہ ہمدرد نونہال میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • زبان و ادب کے معمار اور بچّوں کے محسن مولوی اسماعیل میرٹھی کا تذکرہ

    زبان و ادب کے معمار اور بچّوں کے محسن مولوی اسماعیل میرٹھی کا تذکرہ

    مولوی اسماعیل میرٹھی معمار اور محسن اردو ہیں جنھوں نے ہر ذہن میں اردو کی شمع روشن کی ہے۔

    انھوں نے بچّوں کے لیے عمدہ نظمیں تخلیق کیں اور تعلیم و تربیت کے ساتھ کردار سازی کی کوشش کی ہے۔ ان کی سب سے مشہور نظم ‘گائے’ ہے جس کا یہ شعر آپ کو بھی یاد ہوگا ؎

    ربّ کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    میرٹھی صاحب کے فن اور اس تخلیقی رخ کا تذکرہ کچھ اس قدر ہوا کہ وہ ادبِ اطفال کے لیے ہی مشہور ہوگئے لیکن دیگر اصنافِ‌ ادب میں بھی ان کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ ’’اسماعیل کو صرف بچّوں کا شاعر سمجھنا ایسی ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔‘‘

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ایک شاعر، ادیب اور مضمون نگار تھے۔ اردو کے نصاب اور تدریس کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آج مولوی اسماعیل میرٹھی کا یومِ وفات ہے۔ یکم نومبر 1917ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں آنکھ کھولنے والے اسماعیل میرٹھی نے غدر کا زمانہ دیکھا اور مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پستی اور ان میں رائج غلط رسم و رواج اور توہّمات ان کے سامنے تھے، جن سے نجات دلانے کے لیے مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ کی حیثیت سے سرسیّد اور ان کے رفقا کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اسماعیل میرٹھی نے بھی ان کا اثر قبول کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران انھوں‌ نے تخلیقی سفر کا آغاز کردیا اور بالخصوص اس دور کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور میں آگاہی اور شعور پھیلانے کی غرض سے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی۔ فارسی کی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے اسکول میں‌ داخل ہوگئے اور 20 برس کے بھی نہیں تھے کہ محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ بعد میں مختلف شہروں میں تدریس سے وابستہ رہے اور 1899ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد میرٹھ میں مقیم رہے۔

    کئی درسی کتابیں لکھنے والے اسماعیل میرٹھی کے زیادہ تر مضامین، نظمیں، حکایات اور کہانیاں طبع زاد ہیں اور بعض فارسی اور انگریزی سے اخد کردہ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آب یاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز اپنایا اور ادب کے ذریعے بچوں کی تعلیم اور اس حوالے سے تدریسی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ مولوی صاحب نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا تھا۔

    پروفیسرحامد حسین قادری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو اسماعیل میرٹھی کو جدید نظم اور اس صنف میں ہیئت کے تجربات کے لیے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل غدر کی ناکامی کے بعد سر سیّد کی تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت سے ادیب اور شاعر سامنے آئے لیکن بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ادب تخلیق کرنے والے گنے چنے نام تھے اور اس طرف توجہ نہیں دی جارہی تھی۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اور ابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالکِ متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کیے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔

    ان کی شخصیت اور شاعری کثیر جہتی تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصنافِ سخن اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ ” ریزۂ جواہر” کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی ادب سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لیے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد خوابیدہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے باخبر رکھنا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ بچّے علم سیکھیں اور ساتھ ہی اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات کو بھی سمجھیں۔

    ان کی قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں حکومتِ وقت نے انھیں "خان صاحب” کا خطاب دیا تھا۔