Tag: بچوں کا ادب

  • رانی کی الجھن

    رانی کی الجھن

    رانی نواب صاحب کی لاڈلی بیٹی تھی۔ ویسے تو سبھی لوگ رانی کو چاہتے تھے لیکن رانی کو انسانوں سے زیادہ جانوروں سے لگاؤ تھا۔ جانوروں میں بھی اسے جنگلی جانوروں سے بڑی دل چسپی تھی۔

    اس کی حویلی سے لگ کر ایک ندی بہتی تھی۔ ندی کے اس پار جنگل تھا جس میں بہت سے جانور رہتے تھے۔ رانی گھر والوں سے نظر بچا کر اکثر اس جنگل میں چلی جاتی۔ وہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی اور ان کی آواز کی نقل کرتی۔

    ایک دن اس نے ندی کے پُل پر سے کیا دیکھا کہ کچھ جنگلی کتّے ہیں جنہوں نے ایک چیل کو پکڑ رکھا ہے اور آپس میں چھینا جھپٹی مچا رکھی ہے۔ اس کھینچا تانی میں چیل ان کے چنگل سے چھوٹ گئی۔ وہ اوپر اڑی اور چاہتی تھی کہ ندی پار کر کے بستی کی طرف نکل جائے۔ لیکن وہ اڑتے اڑتے پل پر آکر گری۔ رانی چیل کی طرف دوڑ پڑی اور اسے گود میں اٹھا لیا۔ رانی نے چیل کے پروں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ رانی نے دیکھا کہ اس کے پَر کچھ نئی قسم کے رنگ برنگے اور پٹے دار ہیں۔ اس نے سوچا، جنگل کی چیل شاید ایسی ہوتی ہوگی، بڑی خوب صورت ہے، میں اسے پال لوں گی۔

    پھر رانی نے اپنے خاندانی حکیم کے ذریعے چیل کے زخموں کا علاج کروایا۔ علاج میں کافی دن نکل گئے۔ رانی اور چیل اتنے دنوں میں ایک دوسرے سے خوب ہل مل گئے۔ رانی نے چیل کا نام چبری رکھ دیا تھا۔ چبری اڑ تو پاتی نہیں تھی، ہاں رانی جب اسے چبری کہہ کر پکارتی تو چیل پیروں سے چل کر رانی کے پاس چلی آتی اور آکر اس کی گود میں بیٹھ جاتی۔ رانی چبری کو اپنی سہیلیوں سے بڑھ کر سمجھنے لگی تھی۔

    کچھ دنوں میں چبری پوری طرح ٹھیک ہوگئی۔ اب رانی چاہتی تھی کہ چبری اڑنے بھی لگ جائے۔ وہ اسے ہش ہش کر کے دوڑاتی، جواب میں چبری اپنے پروں کو پھڑ پھڑا کر اڑتی لیکن تھوڑی دور جاکر پھر زمین پر اتر آتی۔

    ایک دن کی بات ہے۔ رانی کے بڑے بھائی کی شادی کا موقع تھا نواب صاحب کے باغیچے میں مہمانوں کا ہجوم تھا۔ بہت سے لوگ چیل اور رانی کا کھیل دیکھ رہے تھے۔ رانی چیل کو دوڑا رہی تھی۔ چیل کبھی اڑ کر دور چلی جاتی اور کبھی واپس آکر رانی کے کندھے پر بیٹھ جاتی، پھر ایک مرتبہ جب رانی نے دوڑ کر چبری کو ہشکارا تو وہ اڑ کر باغیچے کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ رانی کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ وہ اچھل اچھل کر تالیاں بجانے لگی۔ رانی کے ساتھ مہمان بچوں نے بھی خوشی سے تالیاں پیٹیں۔

    چبری نے درخت پر سے آسمان کی طرف نظر دوڑائی۔ دیکھا کہ کوّے اور بگلے اس کے سر پر سے اڑ کر چلے جا رہے ہیں۔ چبری نے اپنے پر پھیلائے وہ بھی اڑی اور کوؤں کے پیچھے پیچھے اڑ کر چلی۔ اڑتے اڑتے وہ دور نکل گئی اور نظر سے اوجھل ہوگئی۔

    رانی کو امید تھی کہ چبری واپس پلٹ کر آئے گی لیکن وہ پھر واپس نہیں آئی۔ اس بات کا رانی کے دل کو بڑا دھچکا لگا۔ وہ اس رات سوئی نہیں اور روتی رہی۔ اس دن اسے اپنی نئی بھابھی کے آنے کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنا چبری کے چلے جانے کا غم تھا۔

    جنگلی جانوروں پر سے رانی کا بھروسہ اٹھ گیا۔ اب یا تو وہ اپنے باڑے کے جانوروں کے ساتھ کھیلتی یا اپنی سہیلیوں کے ساتھ۔ مگر جب بھی وہ آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتی، اسے چبری کی یاد آجاتی اور وہ کچھ دیر کے لیے اداس ہو جاتی۔

    ایک مرتبہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ جنگل میں پہنچی۔ صندلیں رنگ کا ایک خرگوش اس کے اگے سے پھدکتا ہوا بھاگا۔ دونوں سہیلیاں اس خرگوش کے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایسا خوش رنگ اور خوب صورت خرگوش رانی کے باڑے میں نہ تھا۔ دونوں سہیلیاں خرگوش پکڑنے کی دھن میں دوڑتی رہیں لیکن انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ایک کالی ناگن ان دونوں کے پیچھے دوڑتی ہوئی چلی آرہی ہے۔

    دوڑتے دوڑتے رانی نے دیکھا کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا بجلی کی سی رفتار سے ان دونوں کی طرف اتر رہا ہے۔ رانی نے غور کیا کہ یہ تو اپنی چبری ہے جو شاید اسی کے پاس آرہی ہے۔ رانی الجھن میں پڑ گئی کہ وہ ہنسے یا روئے، چبری رانی کے پیچھے کی طرف آکر اتری۔ قریب تھا کہ ناگن ان دونوں میں سے کسی کو ڈس لیتی۔ چبری نے ایک جھپٹا مارا اور اس ناگن کو اپنے پنجوں میں اٹھا لیا۔ اپنے پیچھے ناگن کو دیکھ کر دونوں سہیلیاں سکتے میں آگئی تھیں۔ چبری ناگن کو اٹھا کر اڑتی ہوئی آگے چلی۔ وہ ناگن کو لے کر دور ہوتی گئی اس کے ساتھ ہی چبری پر رانی کا غصہ کافور ہوتا گیا۔ جانوروں کے بارے میں اس کی الجھن دور ہوگئی اب وہ ہر حال میں خوش رہنے لگی تھی۔

    (مصنّف: م ن انصاری)

  • صوفی غلام مصطفٰی تبسّم کی باتیں

    صوفی غلام مصطفٰی تبسّم کی باتیں

    صوفی صاحب اصل میں یہ بتا رہے تھے کہ امرتسر کیا خوب شہر تھا۔ ایک طرف قالینوں اور پشمینوں کے سوداگر، دوسری طرف شعرا و ادباء اور تیسری طرف علماء مشائخ۔ اور یہ سوداگر خود سوداگری کے ساتھ علم و فضل میں بھی شہرہ رکھتے تھے۔

    صوفی صاحب کے سامنے امرتسر کا نام لے دو، بس پھر وہ شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا غلام علی، ان کے خلیفہ عبدالرحمٰن، مولانا عبداللہ غزنوی اور پھر انہیں اپنے دادا یاد آ گئے۔ ”میرے دادا، درویش صفت آدمی تھے۔ ان کے گھر میں صرف دو تھالیاں تھیں۔ ایک تھالی میں خود کھاتے تھے وہ اور میری دادی، دوسری تھالی میں وہ درویش کھاتا تھا جو اس گھر میں مہمان تھا۔ تیسری تھالی اس گھر میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میرے دادا کہتے تھے کہ سامان کس دن کے لیے جمع کیا جائے اور تیسری تھالی کس کے لیے رکھی جائے۔“

    صوفی صاحب نے دادا کے گھر پرورش پائی۔ والد صاحب دوسرے قماش کے آدمی تھے۔ دادا نے انتقال کیا تو انہوں نے کتب خانہ کہ نادر علمی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، لوگوں میں بانٹ دیا۔ بس کچھ فارسی شاعروں کے دیوان رہ گئے۔ صوفی صاحب نے وہ دیوان پڑھے اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔

    صوفی صاحب نے طالبِ علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا۔ کچھ دنوں خالصہ کالج میں پڑھے۔ پھر 1921ء میں لاہور چلے آئے اور ایف سی کالج میں داخلہ لیا۔ لاہور کیا آئے کہ بس یہی ان کا گھر بن گیا۔

    لاہور میں صوفی صاحب کو تاثیر، بخاری، تاج اور سالک جیسے یار مل گئے۔ ایک دن تاثیر صاحب نے کہا کہ او صوفی تیار ہو جا، رسالہ نکال رہا ہوں۔ اس اعلان کے چند دنوں بعد ”نیرنگِ خیال“ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب میں نیاز مندانِ لاہور کا زمانہ شروع ہو گیا۔ رسالوں میں بحثیں اپنی جگہ اور مشاعروں میں مقابلہ اپنی جگہ۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ اس طرف سے تاجور نجیب آبادی، سیماب اکبر آبادی اور بڑا بڑا شاعر آتا۔ ادھر سے ہم نے حفیظ جالندھری کو میدان میں چھوڑا۔ اس مقابلہ آرائی نے لاہور شہر میں ایک زندگی پیدا کر دی۔ لیکن یہ مقابلہ بہت صحت مندانہ رنگ لیے ہوئے تھا۔ بُرے شعر پر خواہ اپنی ہی پارٹی کے شاعر کا ہو کبھی داد نہیں دی گئی۔ اچھا شعر ہو تو بے شک مخالف پارٹی کے شاعر کا ہو جی بھر کر داد دیتے تھے۔ ایس پی ایس کے ہال میں مشاعرہ تھا۔ سر عبدالقادر صدارت کر رہے تھے۔ میں نے فارسی میں غزل پڑھی۔ پیچھے کسی نے اچانک پیٹھ پر زور سے ہاتھ مارا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ یہ یاس یگانہ تھے جو داد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ واللہ کیا شعر کہا ہے۔ تو آج کی سی منافقت ان دنوں نہیں تھی۔ شعر و ادب کے معاملہ میں ہم پُر خلوص تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ ادھر سے جو شاعر آتے ان میں سچا شاعر یگانہ تھا۔ پھر کہنے لگے کہ برسرِ مشاعرہ ہم نیاز مندانِ پنجاب ادھر سے آنے والوں کے خلاف صف آراء ہوتے تھے، مگر مشاعرہ ختم ہوتے ہی آپس میں گھل مل جاتے تھے۔

    صوفی صاحب نے باتوں باتوں میں نجی صحبتوں کو یاد کیا جو کبھی ان کے گھر پر اور کبھی بخاری صاحب کے گھر پر منعقد ہوتیں۔ کہنے لگے کہ ”کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان صحبتوں میں، مَیں نے اپنی نجی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یار اکٹھے تھے اور گھر میں میرے بیٹے کی جان کے لالے پڑے تھے، مگر مجال ہے کہ میں نے دوستوں کو پتہ ہونے دیا ہو۔ ہاں جب پریشانیاں گھیر لیتی تھیں تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچتا، ان کی باتیں خاموشی سے سنتا اور ساری پریشانیاں اور کلفتوں سے نجات حاصل کر کے وہاں سے نکلتا۔

    پھر صوفی صاحب علّامہ اقبال کے حقّے کی تفصیلات بیان کرنے لگے۔ کہتے تھے کہ علامہ حقّہ پیتے نہ پیتے بہرحال اس کی نَے مٹھی میں دبائے رکھتے تھے اور باتیں کیے جاتے تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ حقہ کے بغیر میں بھی بات نہیں کر سکتا۔ رات کو بیچ بیچ میں آنکھ کھلتی ہے اور میں ایک گھونٹ لیتا ہوں اور سو جاتا ہوں لیکن اگر حقہ ٹھنڈا ہو تو پریشان ہو کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔“ پھر صوفی صاحب اپنی پریشانی بیان کرنے لگے کہ میرے پاس کوئی ملازم ہونا چاہیے کہ مستقبل میرے لیے حقہ گرم رکھے۔

    (اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں کے شاعر اور ادیب صوفی تبسم سے متعلق انتظار حسین کی کتاب ملاقاتیں سے ایک پارہ)

  • ایک اُسترے کی کہانی

    ایک اُسترے کی کہانی

    اگر میں چاہوں تو اس کہانی کو ایک ہزار سال پہلے سے شروع کر دوں۔ چاہوں تو آج سے۔ اس لیے کہ یہ کہانی ہر زمانے میں سچّی ہے۔ میں نے یہ کہانی اپنی نانی سے سنی تھی جنہوں نے اپنی نانی جان سے سنی ہو گی اور انہوں نے اپنی نانی جان سے۔

    یہ اتنی پرانی کہانی اتنی نئی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک سچائی بیان کی گئی ہے اور سچائی پرانی ہوتی ہے نہ نئی۔ سچائی صرف سچائی ہوتی ہے۔

    وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، اس اُسترے کی طرح ہیں جس کی یہ کہانی ہے۔

    یہ استرا ایک گاؤں کے نائی کا تھا۔ وہ اس چمکتے ہوئے تیز استرے سے کسانوں کی حجامت بناتا تھا۔ کسانوں کے چہرے پر نہ کریمیں لگتی ہیں اور نہ لوشن۔ اس لیے ان کے بال موٹے موٹے اور سخت ہوتے ہیں۔ گاؤں کے نائی حجامت بنانے سے پہلے بالوں پر نہ صابن ملتے ہیں نہ برش چلاتے ہیں۔ وہ تو چٹکیوں کو پانی سے بھگو کر لوگوں کے چہروں کی چٹکیاں لیتے ہیں جن کی انہیں حجامت بنانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس استرے کو دِن بھر بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ اس کی دھار کو لوہے کے تار ایسے بالوں میں سے گزرنا پڑتا تھا اور وہ تھک جاتی تھی۔ مگر نائی بڑا سیانا اور بہت نرم دل تھا۔ وہ ایک پتھر یا لکڑی کے ایک ٹکڑے کو پانی سے بھگو کر اُسترے کو دائیں بائیں تھپکیاں دیتا تھا۔ یوں استرے کی چمک بھی اٹھتی تھی اور تازہ دم بھی ہو جاتی تھی۔ پھر جب نائی دن بھر کا کام ختم کر لیتا تھا تو اُسترے کو بند کر دیتا تھا۔ استرا اپنے دستے کے بستر پر سو جاتا تھا اور رات بھر کے آرام کے بعد صبح کو پھر محنت مزدوری شروع کر دیتا تھا۔

    ایک دن گاؤں کا یہ نائی اپنی کسوت لیے کہیں جا رہا تھا۔ کسوت پھٹی ہوئی تھی۔ اُسترے نے جو باہر کھسکنے کا راستہ دیکھا تو اپنے دستے سے الگ ہونے کے لیے خوب زور لگایا۔ آخر وہ اپنی کوشش میں کام یاب ہو گیا۔ دستہ کسوت میں رہ گیا اور استرے کا پھل نرم نرم گھاس پر آ گرا۔

    نائی بے چارے کو کیا پتا تھا کہ اس کا پیارا استرا اس سے بے وفائی کر گیا ہے۔ وہ اپنی راہ چلتا رہا۔ ایک جگہ اسے ایک کسان کی حجامت بنانا تھی۔ اس نے کسوت کو کھول کر استرا نکالنا چاہا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دستہ پڑا ہے اور اُسترا غائب ہے۔ اس کا کُل سرمایہ یہی ایک استرا تھا۔ وہ دن بھر اس راستے پر بھٹکتا رہا جہاں سے گزرا تھا۔ ایک بار اس کا پاؤں بھاگتے ہوئے استرے کے بالکل پاس پڑا۔ ڈر کے مارے استرے کی جان ہی تو نکل گئی۔ مگر پھر نائی آگے بڑھ گیا اور استرا دھوپ میں ہنسنے لگا۔
    خوب ہنس لینے کے بعد اُسترے نے اپنے جسم کو دیکھا تو یہ معلوم کر کے اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس کے انگ انگ سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ سورج آسمان پر چمک رہا تھا اور اُسترے کی چمکتی دمکتی سطح پر اس کا عکس پڑ رہا تھا۔ اپنی دھار دیکھ کر تو استرے کو ایسا لگا جیسے تارا ٹوٹ رہا ہے۔ اپنے جسم پر جہاں بھی اس کی نظر پڑتی تھی کئی سورج جگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔

    اس نے سوچا۔ ’’ارے! میں تو بڑا ہی خوب صورت ہوں کہ مجھے دیکھ کر خود سورج کی آنکھیں چندھیا رہی ہوں گی۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ نائی کی قید سے بھاگ آیا ہوں۔ وہاں مجھے اتنی محنت کرنی پڑتی تھی کہ دانتوں پسینا آ جاتا تھا۔ مجھے اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ میں اپنے آپ کو دیکھ سکوں۔ یہاں میں کتنے آرام میں ہوں۔ نہ کام ہے نہ کاج۔ مزے سے لمبا لمبا لیٹا ہوا ہوں۔ سورج میرے جسم میں اپنی صورت دیکھ رہا ہے۔ ہوا میری سطح پر کھیل رہی ہے۔ آس پاس کی گھاس جھک جھک کر مجھ میں جھانکتی ہے۔ ابھی ابھی کتنی پیاری سی تتلی مجھے آئینہ سمجھ کر پَر سنوارتی رہی۔ کوئی اُٹھانے والا نہ بند کرنے والا۔ میری تو دُعا ہے کہ قیامت تک یہیں پڑا رہوں۔ آرام ملا تو خوب موٹا تازہ ہو جاؤں گا اور بڑے مزے آئیں گے۔

    یہ کہنے کے بعد اُسترے نے سوچا کہ اگر میں یہاں پڑا رہا تو ہو سکتا ہے کبھی کوئی آدمی میری چمک دمک کو دیکھ لے، مجھے اٹھا کر گھر لے جائے اور وہاں مجھے قید کر دے۔ اس لیے وہ وہاں سے کھسکا۔ ایک بِل میں گھس گیا اور برسوں کی تھکن دور کرنے کے لیے سو گیا۔

    استرا چھے سات مہینے تک سوتا رہا۔ بارشیں ہوئیں۔ پانی اس کے بل میں گھس آیا مگر جب بھی اس کی آنکھ نہ کھلی۔ کئی کیڑے مکوڑے اس پر سے گزرے مگر اسے کھجلی تک محسوس نہ ہوئی۔ اس نے کروٹ تک نہ بدلی۔ جس رُخ سویا تھا اسی رُخ اٹھا۔ سوچا، چلو ذرا سی ہوا خوری کر لیں۔ آ کر پھر سو رہیں گے۔ آخر ہمیں اور کون سا کام کرنا ہے!

    وہ بل میں سے کودا اور باہر آ گیا۔ سورج اسی طرح چمک رہا تھا۔ ہوا اسی طرح چل رہی تھی۔ گھاس کی پتّیاں اسی طرح ہل رہی تھیں۔ اُسترے نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے ہونٹ جڑ گئے تھے۔ اس نے گھبرا کر اپنے جسم پر نظر دوڑائی تو وہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ سَر سے لے کر پاؤں تک اس پر زنگ چڑھ چکا تھا۔ سورج کی کرنیں اس سے دور رہتیں۔ اُس کی تمام چمک ماند پڑ چُکی تھی۔

    اس نے سوچا کہ گھاس مجھ سے ڈر ڈر کر دوسری طرف دیکھنے لگتی ہے۔ سورج کی کرن مجھے چھوتے ہی بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ کاش! میرا نائی ایک بار ادھر سے گزرے اور میں اچھل کر اس کی کسوت میں جا بیٹھوں اور خوب محنت کروں اور میری چمک دمک مجھے واپس مل جائے، لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ استرا وہیں پڑا گلتا سڑتا رہا۔

    وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں؛ محنت میں عظمت ہے۔

    (اس نصیحت آموز کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، صحافی، شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی ہیں)

  • طرح دار خان

    طرح دار خان

    نام تو اُن کا کچھ اور تھا، لیکن ہم انہیں میاں طرح دار کہتے تھے۔ بے تکلّفی زیادہ بڑھی تو صرف طرح دار کہنے لگے۔

    شروع میں تو وہ بہت بھنّائے لیکن بعد میں خود بھی اس نام سے مانوس ہو گئے۔ اسکول میں، ہوسٹل میں، بازار میں، دوستوں کی محفل میں، غرض کہ ہر جگہ وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔

    سردیوں کے دن تھے۔ ہم چار پانچ ہم جولی ہاسٹل کے لان میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے کہ اچانک گیٹ کھلا۔ ایک حضرت دو قلیوں کے ہمراہ داخل ہوئے۔ بکس، بستر، کتابیں اور بہت سارا الّم غلّم دو قلیوں کے سر پر دھرا تھا۔ قلیوں نے سامان برآمدے میں ڈالا، اور صاحبزادے کو سلام کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ میاں طرح دار تھے۔

    میاں صاحب ذرا نکلتے ہوئے قد کے دھان پان سے آدمی تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لمبی ناک اور بڑے بڑے کان، ان کے لمبوترے چہرے پر کچھ عجیب سے لگتے۔ خیر شکل صورت سے کیا ہوتا ہے، لیکن میاں طرح دار کی جو ادا ہمیں پسند آئی، وہ اُن کی طرح داری تھی۔ خاندانی رئیس ہونے کے سبب سے، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی پائی تھی اور آٹھویں جماعت میں داخل ہو کر پہلی بار شہر تشریف لائے تھے۔

    میاں طرح دار کو اپنے قد کاٹھ پر بڑا ناز تھا۔ اپنی خاندانی بڑائی اور ریاست پر بڑا ناز تھا۔ بہادری کا ذکر ہوتا تو میاں طرح دار فوراً اپنا تذکرہ لے کر بیٹھ جاتے۔ دولت کی بات ہوتی تو اپنی جاگیر کا طول و عرض ناپنے لگتے۔ ذہانت اور چالاکی میں تو اُن کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ لڑکے میاں صاحب کی باتوں سے انکار کو گناہ سمجھتے اور ان کے ہر دعوے پر اس طرح سر ہلاتے جیسے سَر ہلانے میں دیر کی تو آسمان پھٹ پڑے گا۔ اور میاں طرح دار ایسے بھولے کہ ہم جولیوں کی ان باتوں کو بالکل سچ جانتے تھے۔

    چار لڑکے برآمدے میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں اور آگ سینک رہے ہیں۔ کسی نے کہا۔ ’’یارو! سخت سردی ہے۔‘‘ اور میاں طرح دار نے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فقرہ سن کر اچکن اتار دی۔ لڑکوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکیم تیّار کر لی اور میاں صاحب کو گھیر کر بٹھا دیا۔ اب میاں طرح دار ہیں کہ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں، لیکن بہادری کے مارے نہ اچکن پہنتے ہیں نہ انگیٹھی کے قریب آتے ہیں۔ بدن میں کپکپی ہے اور زبان میں لکنت، ہونٹوں پر نیلاہٹ اور آنکھوں میں آنسو لیکن میاں صاحب اس حالت میں بھی اپنے کارنامے سنائے جا رہے ہیں۔ ’’یہ کیا سردی ہے۔ سردی تو ہمارے گاؤں میں پڑتی ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوتا ہے۔ برف پڑ رہی ہے۔ آنگن میں برف، دیواروں پر برف، میدانوں اور کھیتوں میں برف، پانی میں برف کھانے میں برف، بستر میں اور بستر کے تکیے میں برف۔ لیٹے لیٹے، تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا، ایک مُٹھّی برف لی اور مزے سے چر چر چبا رہے ہیں۔‘‘

    ہوسٹل کے شریر لڑکے یہ حکایتیں سنتے اور ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں بے حال ہو جاتے۔ اور جوں ہی میاں طرح دار رخصت ہوتے لڑکے ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جاتے بلکہ زخمی پرندے کی طرح برآمدے کے ننگے فرش پر دیر تک تڑپتے رہتے۔

    میاں طرح دار عام لڑکوں سے بالکل الگ تھے۔ کپڑے بڑے ٹھاٹ کے پہنتے۔ کھانے کی اچھی اچھی چیزیں گھر سے منگواتے اور پیسے تو بگڑے ہوئے رئیسوں کی طرح مٹھی بھر بھر کے خرچ کرتے۔ یہی نہیں بلکہ میاں صاحب جب کپڑے پہن کر اصیل مرغ کی طرح اپنے کمرے سے اکڑتے ہوئے نکلتے تو ہم جولیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے اور جتا دیتے کہ خوش پوشی مجھ پر ختم ہے۔ تم لوگ بھلا کیا ہو۔

    لڑکے میاں طرح دار کے چھچھورے پن پر جی ہی جی میں کڑھتے، لیکن میاں صاحب کو بیوقوف بنا کر اور ان کی حرکتوں پر دل کھول کر ہنس لینے کے بعد انہیں معاف بھی کر دیتے تھے۔ ایک کہتا: ’’یار طرح دار! یہ اچکن کا کپڑا کہاں سے خریدا؟‘‘ بس اس سوال پر وہ پھول کر کُپّا ہو جاتے اور کہتے: ’’ولایت کے ایک کارخانے دار نے والد کو تحفے میں بھیجا تھا۔ یہی تین گز کپڑا تھا جو اس کارخانے میں تیّار ہوا پھر مشین ٹوٹ گئی اور کپڑا بُننا بند ہو گیا۔ لاہور کے عجائب گھر والے مہینوں پیچھے پڑے رہے کہ ہمیں دے دیجیے۔ عجائب گھر میں رکھیں گے، لیکن ہم نے انکار کر دیا۔‘‘

    ’’بہت اچھّا کیا۔‘‘ کوئی شریر لڑکا بیچ میں ٹپک پڑتا۔ ’’اور اب تو اسے عجائب گھر میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بھی وہیں رہنا پڑے گا۔‘‘

    لڑکے کھلکھلا کر ہنس دیتے اور میاں طرح دار کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھولپن سے کہتے: ’’اور نہیں تو کیا۔‘‘

    گرمیوں کا موسم آ گیا تھا۔ امتحانات قریب تھے۔ محفلیں سونی ہو گئیں۔ ہوسٹل کے کھلنڈرے لڑکوں نے بھی کتابیں جھاڑ پونچھ کر سامنے رکھ لیں اور پڑھائی میں جُٹ گئے۔ البتّہ شام کو تھوڑی دیر کے لیے کھیل کے میدان میں رونق نظر آتی اور چاندنی راتوں میں تو اکثر رات گئے گھومنے پھرنے کا پروگرام بن جاتا۔

    میاں طرح دار لکھنے پڑھنے کے کچھ ایسے شوقین نہ تھے۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا پھر کتابوں میں کیوں سر کھپاتے۔ اس لیے ان دنوں بیچارے بہت اُداس رہنے لگے تھے۔ لڑکے تو پڑھائی میں مصروف تھے، آخر وہ کہاں جاتے۔ کِس کے پاس بیٹھتے اور بڑائی کے قصّے کسے سُناتے؟ ایک شام کا قصّہ ہے شریر لڑکوں کی ٹولی ہوسٹل کے لان میں بیٹھی تھی۔ میاں طرح دار ٹہلتے ٹہلتے اُن کے درمیان جا پہنچے۔ کوئی لڑکا اپنے گاؤں کے ڈاکوؤں کا قصّہ سُنا رہا تھا۔ طرح دار کو خود پر قابو کہاں۔ جھٹ اپنی بہادری کے قصّے لے بیٹھے۔۔۔ ’’یوں گھوڑی پر سوار ہو کر نکلا۔ یوں دریا پار کیا۔ درخت پر چڑھ کر چھلانگ لگائی۔ ڈاکوؤں کو مار بھگایا۔‘‘ اور اسی طرح کی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔

    لڑکے سخت بے مزہ ہوئے۔ آخر ان میں سے ایک بولا: ’’یارو! چودھری کے باغ میں آم پکے ہیں اور ہم یہاں آموں کو ترس رہے ہیں۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ کیا کوئی ایسا جواں مرد نہیں جو چودھری کے باغ سے آم توڑ کر لائے؟‘‘

    میاں طرح دار نے سینے پر ہاتھ مارا اور اکڑ کر بولے: ’’میں حاضر ہوں۔ چلو میرے ساتھ۔‘‘

    لو صاحب! ایک پَل میں ساری اسکیم تیّار ہو گئی۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ ہر طرف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ چاند کبھی بادلوں میں چھپ جاتا تو گھپ اندھیرے کا عالم ہو جاتا۔ ہوسٹل کا گیٹ کب کا بند ہو چکا تھا۔ چوکی دار دیوار کے قریب چار پائی پر لیٹا میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔ البتّہ چوکی دار کا کتّا کبھی کبھی سوتے سے چونک کر اُٹھتا اور چاند کی طرف منہ کر کے سائرن کی آواز میں ’’بھو اُو و و و‘‘ کرنے کے بعد بھر اونگھنے لگتا۔

    لڑکوں کی ٹولی دیوار پھلانگ کر ہوسٹل سے باہر نکلی اور آموں کے باغ کی طرف، جو مشکل سے ایک فرلانگ تھا، روانہ ہوئی۔ میاں طرح دار سب سے آگے تھے۔ البتّہ جب چاند بدلیوں میں چھُپ جاتا اور کہیں قریب سے کتّوں کے بھونکنے کی آواز آتی تو میاں صاحب دبک کر پیچھے ہو جاتے اور خوف سے کانپ اُٹھتے۔ اسی طرح یہ لوگ باغ کے اندر جا پہنچے۔

    چاندنی آم کے گھنے باغ میں یوں پھیلی ہوئی تھی جیسے کسی نے شیشے کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھیر دیے ہوں۔ باغ کا چوکی دار اپنی جھونپڑی میں پڑا سو رہا ہو گا۔ لڑکوں نے سرگوشی میں مشورے کیے اور میاں طرح دار نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پاجامے کے پائنچے اوپر کر کے درخت پر چڑھنے لگے۔ لیکن دھان پان سے آدمی درخت پر چڑھنے کی سکت کہاں سے لاتے۔ ذرا سی دیر میں ہانپنے لگے۔ لڑکوں نے جو یہ حال دیکھا تو میاں صاحب کی مدد کو پہنچے اور انہیں کاندھے پر سوار کر کے درخت پر چڑھا ہی دیا۔

    میاں طرح دار دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتی ہوئی ٹانگوں سے ابھی ذرا ہی اُوپر گئے ہوں گے کہ چوکی دار کے کتّے نے آہٹ پا کر بھونکنا شروع کر دیا۔ لڑکوں کے اوسان خطا ہو گئے اور میاں طرح دار کی تو یہ حالت ہوئی جیسے بدن میں جان ہی نہیں رہی تھی۔ ایک لڑکے نے آہستہ سے کہا ’’طرح دار! جلدی نیچے اُتر آؤ۔۔۔ فوراً کود پڑو۔ ہم تمہیں سنبھال لیں گے لیکن میاں صاحب میں تو ہلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔ لڑکوں نے جو دیکھا کہ میاں طرح دار کے ہاتھوں سبھی پکڑے جائیں گے تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ چوکی دار کے کتّے نے کچھ دور اُن کا پیچھا کیا اور پھر دُم ہلاتا ہوا واپس آ گیا۔

    اُدھر میاں طرح دار درخت کی ٹہنی پر بیٹھے، خوف کے مارے اپنی موت کی دعا مانگ رہے تھے۔ ان کا سارا بدن پسینے میں شرابور تھا اور ہاتھ پاؤں یوں کانپ رہے تھے جیسے آندھی میں درختوں کی ٹہنیاں ہلتی ہیں۔ کتّے کو چور کے بدن کی خوشبو مل گئی تھی، وہ اُسی درخت کے نیچے جس پر میاں طرح دار کا آشیانہ تھا، کھڑا دُم ہلا ہلا کر بھونک رہا تھا۔ چوکی دار ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں لاٹھی لے کر آنکھیں جھپکتا ہُوا آیا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلا گیا۔

    وہ رات میاں طرح دار نے درخت پر گزاری۔ کتّا کتنی ہی بار بھونکتا ہوا آیا اور واپس چلا گیا اور چوکیدار کتنی ہی دفعہ چور کی تلاش میں لاٹھی گھماتا ہوا پاس سے نکل گیا۔ میاں طرح دار نے ایک دو بار کوشش کی کہ چوکی دار کو مدد کے لیے پکاریں، لیکن منہ سے آواز ہی نہ نکلی۔

    پچھلی رات کو چوکی دار پھر اِدھر سے گزرا تو اچانک چاندنی میں اُس کی نظر میاں طرح دار پر پڑ گئی۔ قریب تھا کہ میاں صاحب بے ہوش ہو کر گِر پڑتے لیکن چوکی دار نے جب ڈپٹ کر کہا، ’’نیچے اُترو‘‘ تو وہ درخت کی ٹہنی سے کچھ اور چمٹ گئے اور رو کر بولے: ’’مجھے نیچے اترنا نہیں آتا۔‘‘

    چوکی دار سمجھ گیا کہ چور قابو میں آ گیا ہے اور کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتا۔ وہ چپ چاپ واپس ہوا اور لمبی تان کر سو رہا، صبح جب اُس نے میاں طرح دار کو کاندھا دے کر درخت سے نیچے اتارا تو وہ خوف اور رتجگے کے سبب بخار میں بھن رہے تھے۔ وہ کوئی بھلا آدمی تھا۔ میاں صاحب کو کاندھے پر لاد کر ہوسٹل میں ڈال گیا۔ آخر علاج معالجے کے بعد میاں صاحب کی طبیعت بحال ہوئی اور دوستوں نے ان کی صحت کی خوشی میں دعوت بھی اُڑائی لیکن میاں طرح دار نے اس واقعے کے بعد سے اپنی فرضی بہادری کے سارے کارنامے بھلا دیے تھے۔

    (ادبِ اطفال سے مصنّف حسن عابدی کی منتخب کہانی)

  • مانو کی نو زندگیاں!

    مانو کی نو زندگیاں!

    ایک دفعہ کا ذکر ہے…. اووہو! اب یہ مت کہنا کہ یہ جملہ بہت پرانا ہے۔ پرانی چیزیں تو ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری مانو بلّی کی زندگی۔

    مانو بلّی کی نو زندگیوں کی کہانی بھی بڑی دل چسپ ہے۔ وہ گرمیوں کا ایک دن تھا۔ مانو بلّی کی امی نے اسے نصیحت کی۔ ’’مانو! ہر بلّی کے پاس نو زندگیاں ہوتی ہیں۔ اس لیے تم اپنی ہر زندگی کی قدر کرنا۔‘‘

    ’’نو زندگیاں!‘‘ مانو بلّی نے حیرت سے پوچھا۔ اس نے نو زندگیوں کا تذکرہ پہلی بار سنا تھا۔

    ’’مطلب تم اسے موقع (چانس) کہہ سکتی ہو۔ یعنی تم آٹھ خطرات سے بچ جاؤ گی لیکن نواں خطرہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘

    مانو بلّی کی امی یہ بات کہہ کر چلی گئیں لیکن مانو کو شاید یہ باتیں سمجھ نہیں آئی تھیں۔ امی کے جانے کے بعد مانو نے کمرے میں شور شرابا کر کے برتن الٹ پلٹ دیے۔ برتنوں کی آواز سن کر گھر کا مالک مانو کی خبر لینے اٹھا۔ مانو نے مالک کے تیور دیکھے تو کھلی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ خوش قسمتی سے وہ درخت کی ایک شاخ میں الجھ گئی اور پھر اس نے آرام سے زمین پر قدم رکھ لیے۔ اس کی زندگی بال بال بچ گئی تھی۔ اس کے پاس آٹھ موقع رہ گئے تھے۔

    مانو کی نظر اچانک ایک مینڈک پر پڑی۔ اس نےمینڈک پر چھلاگ لگائی لیکن مینڈک اس سے کہیں زیادہ پھرتیلا نکلا۔ مانو بلّی مینڈک کو کھانے کے چکر میں پانی کے اندر گر کر ڈوبنے لگی۔ اس نے ایک پتھر کا سہارا لے کر اپنی جان بچالی۔ اب اس کے پاس سات موقع رہ گئے تھے۔

    اسے دودھ کا ایک جگ دکھائی دیا۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلّی کو دودھ کتنا پسند ہے۔ دودھ پینے کے چکر میں اس کا سر جگ میں پھنس گیا۔ وہ زور زور سے چلانے لگی۔ اب اس کی زندگی اس کی ایک سہیلی بلّی نے جگ کو توڑ کر بچائی۔ چھ زندگیاں ابھی باقی تھیں لیکن مانو بلّی کو اب بھی احتیاط کا خیال نہ آیا اور اس نے ایک بڑی مچھلی کے سر کو کھانے کی ناکام کوشش کی۔ مچھلی کا کانٹا اس کے حلق میں اس بری طرح پھنسا کہ وہ تڑپنے لگی۔ بڑی مشکل سے قےکر کے اس نے کانٹا تھوک دیا۔ اس کے پاس پانچ مواقع رہ گئے تھے۔

    مانو بلّی احتیاط کے تمام اصولوں کو نظرانداز کر کے درخت کے نیچے اور سڑک کے کنارے بے فکری سے لیٹ گئی۔ اف یہ کیا۔ ڈبل روٹی لے جانے والی ایک گاڑی نے بڑی مشکل سے بریک لگا کر مانو کی جان بچائی۔ اب صرف چار زندگیاں باقی تھیں۔ مانو اب ایک باغ میں گئی جہاں اس نے غصے میں آکر توڑپھوڑ شروع کردی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ باغ کا رکھوالا کتا اسے دیکھ رہا ہے۔ کتّے نے مانو کی طرف چھلانگ لائی۔ مانو بھاگ کر درخت پر چڑھ گئی۔ اب اس کے پاس تین مواقع رہ گئے تھے۔

    درخت پر اس نے پرندوں کے گھونسلوں میں موجود انڈوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ پرندوں نے جب اپنے انڈوں کا یہ حشر دیکھا تو طیش میں آکر مانو پر حملہ کر دیا۔ مانو نے جان بچانے کے لیے نیچے چھلانگ لگا دی۔ اس کی زندگی کے دو مواقع رہ گئے لیکن مانو اس دفعہ ایک کچرا دان میں گر گئی تھی۔ اس نے کچرا دان سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کام یابی نہیں ملی۔ ساری رات اسے آلو کے چھلکے اور خراب انڈوں کی بدبو میں گزارنی پڑی۔

    اب مانو کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    ’’کاش! میں اپنی امی کی بات مان لیتی اور اپنی زندگی اچھے انداز سے گزارتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مانو کے آنسوؤں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو رحم آیا اور اس نے مانو کی جان بچانے کے لیے خاکروب (کچرا اٹھانے والا) کو بھیج دیا۔ خاکروب نے کچرا دان دریا کے کنارے خالی کر دیا۔ سورج کی روشنی جب مانو بلّی کی آنکھوں سے ٹکرائی تو اسے ہوش آیا۔ اب اس کے پاس ایک موقع رہ گیا تھا۔ لیکن اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے نہیں گنوائے گی۔

    (مصنّف: ابنِ بہروز)

  • گیت کا اثر

    گیت کا اثر

    کسی خوش حال ملک میں ایک شاعر اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا جو کوئی کام نہیں کرتا تھا اور سارا دن شاعر دوستوں کی محفل جمائے رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت غریب تھا۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اس سے کہا۔ تم بادشاہ کے پاس جا کر کوئی گیت ہی سنا دو۔ شاید بادشاہ سے انعام مل جائے۔ شاعر کو یہ بات پسند آئی اور وہ کسی طرح دربان کی خوشامد کرکے بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اس سے آمد کا سبب دریافت کیا۔ شاعر نے کہا کہ وہ اپنا ایک گیت سنانے کی اجازت چاہتا ہے۔ بادشاہ نے اسے گیت سنانے کی اجازت دے دی۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کو گیت اچھا لگا۔ اس نے اُسے اپنے استعمال کے تمام برتنوں پر لکھوانے کا حکم جاری کر دیا۔

    چند دنوں بعد بادشاہ اور وزیر میں کسی بات پر تکرار اور ناراضی ہو گئی۔ وزیر مزاج کا اچھا آدمی نہیں تھا۔ وہ بادشاہ کو جان سے مار ڈالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس طرح حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ آ جاتی یعنی وہ خود بادشاہ بن جاتا۔

    وزیر نے بادشاہ کو ختم کرنے کے لیے کئی منصوبے ذہن میں ترتیب دیے اور آخر میں ایک پر عمل کرانے کے لیے تیار ہو گیا۔

    ایک حجام روزانہ بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے آتا تھا۔ وزیر نے حجام کو ڈھیر ساری دولت دینے کا لالچ دے کر اسے اس قتل کے لیے راضی کر لیا۔ اس نے کہا کہ جب حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے جائے تو اُسترا خوب تیز کر لے اور داڑھی بناتے وقت بادشاہ کی گردن کاٹ دے۔

    دوسرے دن حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے گیا۔ کٹورے میں پانی آیا۔ حجام پتھر پر پانی ڈال کر استرا تیز کرنے لگا۔ بیٹھے بیٹھے بادشاہ کی نظر کٹورے پر گئی۔ کٹورے پر شاعر کا وہ گیت کُھدا ہوا تھا۔ بادشاہ گیت گنگنانے لگا۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کی گنگناہٹ سن کر حجام کانپنے لگا۔ وہ سمجھا کی بادشاہ کو وزیر کی سازش کا پتہ چل گیا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھا اور سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

    بادشاہ کو حجام کے اس طرح بھاگ جانے پر بڑی حیرت ہوئی، ساتھ ہی غصہ بھی آیا۔ اس نے حکم دیا کہ حجام کو پکڑ کر لایا جائے۔

    حجام جب بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا۔ "کیا بات ہے؟ تم نے ایسی حرکت کی جرأت کیسے کی”؟

    حجام جان کی امان چاہتے ہوئے گڑ گڑانے لگا۔ اور سب کچھ اگل دیا۔

    بادشاہ نے وزیر کو گرفتار کرانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اُس شاعر کو دربار میں طلب کر کے خوب سراہا اور کہا۔ "جس قدر بھی دولت اٹھا سکو، اٹھا کر اپنے گھر لے جاؤ۔” شاعر کے تو دن ہی پھر گئے۔ وہ بیٹھے بیٹھے امیر ہو گیا۔ ادھر بادشاہ نے وزیر کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    (قدیم لوک کہانی)

  • شہزادے کی روح

    شہزادے کی روح

    یونان کا ملک حسن، خوب صورتی اور دیو مالائی داستانوں کے لیے بہت مشہور ہے۔ آج ہم آپ کو یونان کی ایک ایسی ہی خوبصورت اور قدیم داستان سنا رہے ہیں۔

    بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا۔ وہ بادشاہ ملک یونان پر حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے گھر کوئی اولاد نہ تھی۔ بادشاہ بہت پریشان رہتا تھا۔ بہت دعائیں کرتا تھا۔ پھر ایک دن اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کی دعا سن لی اور اسے ایک خوبصورت شہزادہ عطا کیا۔ بادشاہ بے حد خوش ہوا۔

    اس نے پورے ملک میں تین دن تک خوب جشن منایا۔ لوگوں میں تحائف تقسیم کیے اور کھانا کھلایا۔ بچّو! ننھا شہزادہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ گلابی، گلابی چہرہ، سنہری ریشم کی طرح بال، کھڑی ناک اور گہری سیاہ روشن چمک دار آنکھیں، خوب صورت دل موہ لینے والی مسکراہٹ جو بھی دیکھتا وہ شہزادہ کو پیار کیے بغیر نہیں رہتا۔ شہزادہ بہت عیش اور ناز و نعم سے پالا گیا۔ جب وہ تھوڑا سا بڑا ہوا تو بادشاہ نے اس کے لیے استاد مقرر کر دیے۔ یہ شہزادے کو ابتدائی عمر ہی سے تعلیم و تربیت سکھانے لگے۔

    شہزادہ بہت ذہین تھا۔ جلد ہی سب کچھ سیکھنے لگا۔ اسی طرح شہزادہ بڑا ہوتا گیا۔ شہزادہ جہاں جاتا تھا سب لوگ اس کے حسن اور خوبصورتی کی تعریف کرتے اور اسے دیکھنے کے لیے رش لگ جاتا۔ شہزادہ بہت خوبصورت تھا۔ سب کی باتیں سن کر شہزادہ کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنی صورت دیکھے کہ وہ کتنا خوبصورت اور حسین ہے کہ اسے سب پسند کرتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔

    پیارے بچّو! یہ اس زمانے کی بات ہے جب آئینہ ایجاد نہیں ہوا تھا بلکہ اور بھی بہت ساری سائنس کی چیزیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ لوگ بہت سادہ اور آسان زندگی گزارتے تھے۔ شہزادے کی یہ خواہش بڑھتی گئی کہ وہ کسی طرح اپنی شکل دیکھے مگر وہ دیکھتا کس طرح؟ اسے کوئی طریقہ ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ جب کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا تو شہزادہ افسردہ ہوگیا۔ اب شہزادہ اداس رہنے لگا۔ سب نے بہت کوشش کی مگر شہزادے کے دوستوں نے شکار کا پروگرام بنایا اور شہزادہ کو زبردستی جنگل میں لے گئے تاکہ اس کا دل بہل سکے۔

    یہ جنگل بھی بہت بڑا اور گھنا تھا۔ بہت سارے گھنے اور سبز درخت تھے۔ بیلیں لگی تھیں، جن پر خوبصورت پھول لگے تھے۔ گھنی گھاس تھی۔ شہزادے کے دوست اسے لے کر بہت دور دور تک جنگل میں گھومے۔ ہرن، تیتر اور خرگوش شکار کیے۔ وہ لوگ اب بہت تھک گئے تھے چنانچہ طے پایا کہ کہیں رک کر خیمہ لگایا جائے اور گوشت بھنا جائے۔ ایک وزیر نے بتایا جنگل کے مشرقی سمت ایک خوبصورت جھیل ہے جس کے گرد خوبصورت پھولوں کی بیلیں اور گھاس اگی ہے۔ وہ جگہ کیمپ کے لیے مناسب رہے گی۔

    چنانچہ سب مشرق کی سمت چل پڑے۔ وہاں واقعی میں ایک بہت بڑی شفاف جھیل تھی جس کے کنارے بہت سارے خوبصورت پھولوں کے پودے تھے۔ جگہ جگہ گھنے درخت تھے جن کے سایے سے زمین ڈھکی ہوئی تھی۔ سب نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ وہ سب گھوڑوں سے اتر گئے اور خیمہ لگا لیا۔ شہزادہ بہت تھک گیا تھا۔ وہ گھوڑے سے اتر کر جھیل کی طرف بڑھ گیا تاکہ ہاتھ منہ دھو کر تازہ دم ہو کر خیمہ میں آکر آرام کر سکے۔ جھیل کا پانی ساکت اور شفاف تھا۔ جیسے ہی شہزادے نے جھک کر پانی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ ایک دم ٹھٹھک گیا۔

    جھیل کے شفاف اور ساکت پانی میں شہزادہ کا عکس نظر آرہا تھا۔ عکس شبیہ کو کہتے ہیں یعنی نقلی شکل جس کو ہم چھو نہ سکیں مگر وہ اصل کی طرح ہی ہوتی ہے۔ شہزادہ حیران ہو کر پانی میں دیکھنے لگا۔ پانی میں سنہرے ریشمی بالوں، گہری سیاہ چمک دار آنکھیں اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ ایک خوبصورت شکل نظر آرہی تھی۔ شہزادہ مبہوت ہو کر اپنی شکل دیکھتا رہا پھر اس نے آہستہ سے ہاتھ اٹھا کر اپنے چہرے کو چھوا، پانی میں موجود عکس میں بھی حرکت ہوئی۔

    اب شہزادے نے آنکھیں جھپکیں۔ شہزادہ مسکرایا عکس بھی مسکرایا۔ شہزادہ حیران ہوگیا۔’کیا یہ واقعی میں ہوں؟‘ شہزادے نے بہت لوگوں کو دیکھا تھا مگر پانی میں نظر آنے والا عکس اتنا خوبصورت تھا کہ شہزادے کو اس بات پر یقین آگیا کہ لوگ اس کی خوبصورتی اور حسن کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ غلط نہیں۔

    جب وہ خود اپنا عکس دیکھ کر مبہوت ہوگیا تو دوسرے کیوں نہیں ہوں گے۔ آج شہزادے کی برسوں کی چھپی دلی آرزو پوری ہوئی تھی۔ شہزادے نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سب نے اسے بہت سمجھایا مگر شہزادے نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اب شہزادہ وہیں رہنے لگا۔

    اس کے لیے وہیں بادشاہ نے ایک گھر بنا دیا۔ مگر شہزادہ سارا وقت جھیل کے کنارے بیٹھا رہتا اور اپنا عکس دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ بادشاہ نے اور سب لوگوں نے شہزادے کو سمجھایا کہ وہ دنیا کے اور کاموں میں حصہ لے اور محل واپس چلے مگر شہزادہ نے کسی کی بات نہ مانی۔ بادشاہ شہزادے کی یہ محویت دیکھ کر بہت افسوس کرتا مگر شہزادہ اپنے حال میں مگن رہتا۔

    محل میں رہنے والا اتنے عیش میں پلنے والا شہزادہ کہاں جنگل کے موسم کی سختی برداشت کر سکتا تھا۔ جب کہ وہ گھنٹوں جھیل کے کنارے بیٹھا رہتا وہیں کھاتا۔ وہیں سوتا۔ آخر شہزادے کی صحت خراب ہوگئی۔ بہت علاج کروایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا اور ایک دن مر گیا۔

    مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ اسے جھیل کے کنارے ہی دفن کیا جائے۔ بادشاہ نے اس کی وصیت پوری کر دی۔ کچھ عرصے بعد جھیل کے کنارے پانی میں ایک پودا نکلا۔ یہ اسی جگہ سے پیدا ہوا تھا جہاں شہزادے کو دفنایا گیا تھا۔ پودا بڑا ہوگیا تو اس میں ایک انتہائی خوبصورت پھول نکلا۔ پھول اس قدر خوب صورت تھاکہ جو دیکھتا مبہوت ہوجاتا۔

    مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ پھول کی تمام پتیوں کا رخ پانی کی طرف تھا۔ لوگوں نے اس خوبصورت پھول کو توڑ کر دوسری جگہ لگانے کی کوشش کی مگر وہ مرجھا گیا۔ یونان کے لوگ کہتے ہیں کہ اصل شہزادہ جھیل کے پاس رہنا پسند کرتا تھا۔ اس طرح یہ پھول بھی خوبصورت جھیل کے پانی میں ہی رہتا تھا اور شہزادے ہی کی طرح پانی میں اپنا عکس دیکھتا رہتا ہے۔

    بچّو! کبھی تم کلری جھیل کی طرف جاؤ تو بہت آگے جاکر دیکھنا تمہیں بہت سارے خوبصورت پھول نظر آئیں گے جو پانی کی طرف اپنی پتیاں جھکائے رکھتے ہیں۔ یہی وہ پھول ہیں جسے یونان کے لوگ شہزادے کی روح اور ہم لوگ کنول کا پھول کہتے ہیں۔

    (یونان کی لوک کہانی، ترجمہ و تدوین حمیرا خاتون)

  • ’’وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی؟‘‘

    ’’وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی؟‘‘

    جب کوثرؔ پہلے پہلے ہمارے گھر آئی تو دروازے میں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ میں بیٹھا لکھ رہا تھا۔ رضیہ امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن، شمو کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

    کوثر نے ایک بار اندر جھانک کر دیکھا، پردے کی سرسراہٹ پر میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ میں پھر لکھنے لگا۔

    اس نے پھر جھانکا۔ رضیہ اب بھی امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن آپس میں لڑ رہے تھے اور شمی کھڑی منہ بسور رہی تھی۔ پردہ پھر ہلا۔ میں نے لکھتے لکھتے پھر نگاہ اٹھائی، کوثر پھر ہٹ گئی۔ اس بار میں تیزی سے اٹھ کر پردے کی آڑ میں جاکر کھڑا ہوگیا اور اس بار جونہی اس نے اندر جھانکا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا۔

    ’’رضیہ‘‘ کوثر کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ ’’ارے کوثرؔ تم ‘‘ رضیہ اٹھ کر آئی۔ کوثر اجنبیوں کی طرح چھپی چھپی سی کھڑی تھی۔

    ’’ہوں تو تم رضیہ کے پاس آئی ہو، چوروں کی طرح کیوں جھانک رہی تھیں؟‘‘

    ’’میں نے اس سے کہا اور اس نے جھینپ کر رضیہ کی پیٹھ کے پیچھے منہ چھپا لیا۔ اس طرح وہ پہلے روز ہمارے یہاں آئی۔ وہ رضیہ کے ساتھ پڑھتی تھی۔ پھر وہ ہر روز گھر آنے لگی اور پھر گھر کے دوسرے بچوں کی طرح حرکتیں بھی کرنے لگی۔

    ’’بھائی صاحب! یہ قلم مجھے دے دیجیے نا؟ اور یہ پھول جو گلدان میں لگا ہے مجھے بہت پسند ہے۔ ’’ایک روز سیدھی میرے پاس چلی آئی۔ ’’بھائی صاحب! آپ نے برتن بنانے کا کارخانہ دیکھا ہے؟

    اس نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’ہاں ہاں اپنے زاہد خالو کا جو کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’تو پھر آپ نے ان کارخانوں کے منشی بھی ضرور دیکھے ہوں گے؟‘‘ ارے ہاں بھئی یہ اپنے برابر میں منشی مجیب صاحب رہتے ہیں۔‘‘

    ’’بس تو پھر میری بات مانیے اور یہ کہانیاں وہانیاں لکھنی چھوڑ کر کسی کارخانہ کی منشی گیری شروع کر دیجیے۔

    میں نے اسے گھورا۔

    ’’آپ کی کتنی ہی کہانیاں پڑھی ہیں سب ایک ہی جیسی ہیں۔ کسی میں شرارتیں، کسی میں حلوہ کی چوری، کسی میں بھائی بہن کی لڑائی آخر آپ لکھتے کیا ہیں؟

    ’’کوثر‘‘ میں نے اسے آہستہ سے ڈانٹا۔

    ’’نہیں نہیں بھائی صاحب، ایک بات… ’’کوثر نے کچھ اس انداز سے کہا کہ باوجود غصے کہ ہنسی آگئی۔‘‘

    ’’دیکھیے نا کہانیوں سے تو ہمیں تعلیم ملتی ہے۔ ہمارے کورس کی کتابوں میں بھی کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ کسی سے سبق ملتا ہے چوری مت کرو۔ کسی سے ہم سیکھتے ہیں دوسروں کو مت ستاؤ مگر آپ ہیں کہ چوری کی ترغیب دیتے ہیں۔ شرارتوں کی ترکیب بتاتے ہیں، میرے اچھے بھائی صاحب۔ ایسی کہانیاں مت لکھیے۔ آپ تو بہت اچھا لکھتے ہیں، کتنے ڈھیر سارے خط آتے ہیں، آپ کی کہانیوں کی تعریف میں، بڑے بڑے رسالوں میں آپ کی کہانیاں چھپتی ہیں، مگر آپ کی بچوں کی کوئی بھی کہانی ایسی ہے جس پر کسی نے آپ کو خط لکھا ہو۔ آخر ہم بچوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ الٹی سیدھی کہانیاں ہمارے لیے لکھتے ہیں۔‘‘

    میں کوثر کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ بولے چلی جارہی تھی۔ گیارہ بارہ برس کی آٹھویں جماعت میں پڑھنے والی لڑکی کس قدر تیز اور کسی لیڈر کی طرح تقریر کیے جارہی تھی۔

    ’’کوثر…‘‘ میں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’پگلی! آج کل کے بچے بھی تو ایسی ہی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ ورنہ پھر ان رسالوں کے مدیران کو کیا پڑی ہے کہ وہ کہانیاں شائع کریں۔‘‘

    ’’بھائی صاحب! ان ایڈیٹروں کی بھی ایک ہی کہی….. دینا دلانا تو کچھ ہوتا نہیں۔ ایک دو کہانیاں یوں ہی بھرتی کی چھاپ دیں۔ اس سے ان حضرات کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ’’وہ بولی۔

    ’’اچھا بڑی بی! آپ کی نصیحت سر آنکھوں پر، ایسی ہی کہانیاں لکھوں گا جن کو پڑھ کر بچے اچھی باتیں سیکھ سکیں۔ اب تو خوش۔‘‘

    ’’ویسے آپ کہانیاں بہت اچھی لکھتے ہیں۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’خوشامدی کہیں کی، لو چلو بھاگو، میں نے ایک رسالہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا اور وہ رضیہ کے پاس چلی گئی۔

    اس کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ انتہائی ذہین بچی ہے۔ کتنی سمجھداری کی باتیں کرتی ہے، ضروراپنے درجہ میں اوّل آتی ہوگی اور پھر میں نے طے کر لیا کہ اب بچوں کے لیے جو بھی کہانی لکھوں گا وہ سبق آموز ہوگی۔ صرف تفریح ہی تو مقصد نہیں ہے۔

    اچانک کوثر کئی دن ہمارے یہاں نہیں آتی۔ مصروفیت کے سبب میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ آج خیال آیا تو میں نے رضیہ سے معلوم کیا۔ ’’ارے بھئی رضوؔ ! یہ تمہاری کوثر بی آج کل کہاں غائب ہیں؟‘‘

    ’’بھائی صاحب! ایک روز رات میں اسٹول سے گر پڑی، کافی چوٹ آئی ہے، اسکول بھی نہیں آرہی ہے، آج اسے دیکھنے جاؤں گی۔‘‘

    ’’ارے ہمیں تو خبر ہی نہیں بڑی اچھی لڑکی ہے۔‘‘

    شام کو رضیہ کے ساتھ میں بھی اسے دیکھنے چلا گیا۔ کوثر کی والدہ کو ہم خالہ جان کہتے ہیں۔ وہ کوثر کو دوا دے رہی تھیں۔ اس کے ایک ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔

    ’’کیوں بھئی بڑی بی! تمہیں کافی چوٹ آئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’حرکتیں ہی ایسی کرتی ہے۔‘‘ خالہ جان کوثر کو گھور کر بولیں۔

    ’’جی۔‘‘ میں نے ایک بار کوثر کو اور پھر خالہ جان کو دیکھا۔ ’’کیا بتاؤں شوکی بیٹے! یہ لڑکی اتنی شریر ہے کہ ناک میں دم کردیا ہے۔

    ’’امی!‘‘ کوثر کمزور آواز میں مچل کر بولی۔

    ’’کیا بتاؤں نہیں؟ ارے بیٹے ہوا یہ کہ راشد کے تایا میاں نے دہلی سے سوہن حلوہ بھجوایا تھا دونوں کو برابر برابر دے دیا۔

    راشد میاں مچل گئے اور لگے رونے، ضد کرنے کہ ان کا حصہ کم ہے۔‘‘

    ’’کم تھا تو آپ نے بجیا کو زیادہ دیا تھا۔ ’’ قریب کھڑا ہوا راشد بولا۔

    ’’تھا زیادہ تمہارا سر، کہیں اچھے بچے ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ خالہ جان نے راشد میاں کو جھڑک دیا۔

    ’’ہاں تو پھر یہ ہوا کہ جب خوب روئے تو ہم نے کوثر سے کہا تم بڑی ہو اپنے حصے میں سے تھوڑا انہیں اور دے دو۔‘‘

    ’’تھوڑا سا، سب تو لے لیا تھا اوں۔‘‘ لیٹے لیٹے کوثر بی۔

    ’’بڑا احسان کیا تھا شرم نہیں آتی۔‘‘ خالہ نے اسے بھی جھڑک دیا۔ ’’جی پھر‘‘ میں نے مسکرا کر کوثر کی طرف دیکھا۔ خالہ جان آگے سنانے لگیں، ’’کوثر نے اپنا حلوہ کھا کر برابر کردیا۔ راشد میاں ذرا کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ایک ایک دانہ سنبھال کر رکھا۔ رات کو میز پر ڈبّہ لے کر سو گئے۔ ہم نے اٹھا کر کارنس پر رکھ دیا۔ خدا جانے یہ جاگ رہی تھی، ہم تو سمجھے کہ سوگئی ہے، جب بتی وغیرہ بند کر دی تو یہ بی اٹھ کر اسٹول پر چڑھیں۔ دیکھو نا یہ کارنس بہت اونچا ہے اسٹول پر کرسی رکھی، بس گر پڑیں۔‘‘

    ’’چوری کر رہی تھیں، ماشاء اللہ۔‘‘ میں مسکرایا۔

    ’’اب تم ہی دیکھو۔‘‘ ’’خالہ جان کمرے سے ہم لوگوں کے لیے چائے بنانے چلی گئیں۔ اب تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کوثر کا کیا حال تھا۔ لاکھ کہنے پر بھی اس نے اپنا منہ چادر سے باہر نہیں نکالا۔

    اور اب یہ کہانی لکھ چکنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی حالانکہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے اور بالکل سچی ہے۔

    (مصنّف: شکیل انور صدیقی)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا تھا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا تھا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہوسکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیارسے بولی:’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑسکتے ہو، میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کرسکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کرسکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔

    میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔ میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہرانی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اسی پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کرسکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھاجاتا اور کتنوں کو زخمی کردیتا۔ یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ دوسرے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔ اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔

    ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہوگئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہوسکتا ہے؟

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، مصنّف جمیل جالبی)

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    کسی ملک میں ابراہم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔

    اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہم کے گھ روالوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکر ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اور ایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ اس نے ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابراہم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ کچھ دیر آرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر دہرایا۔ ابراہم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے، تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی؟‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘

    اتنا سن کر ابراہم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا پر یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہم نے اسے کھانا دیے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔

    ابراہم یہ تم نے کیا کیا؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے۔ خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہو گے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہم کو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (پیرس کی ایک لوک کہانی)