Tag: بچوں کا ادب

  • قلعی کھل گئی….

    قلعی کھل گئی….

    اٹلی میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی رعایا اسے ناپسند کرتی تھی مگر کچھ لوگ ایسے بھی جو اس کی بہت تعریف کرتے تھے۔

    اس بادشاہ کا ایک خوشامدی وزیر تھا۔ وہ دن رات بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ اسے سچ سچ بتایا جائے کہ کون کس حالت میں ہے اور میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس طرح میں ان کی رائے اور سب کے حالات صحیح طور پر معلوم کرسکوں گا۔ اس کے جواب میں دوسرے وزیر تو خاموش رہتے، مگر تعریف کرنے والا وزیر فوراً کہتا، حضور کی نیکی اور انصاف کے چرچے سارے ملک بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ بھلا وہ کون بے وقوف آدمی ہوگا جو حضور کے انتظام سے خوش نہ ہو، ہمارے ملک کی رعایا تو بے حد آرام اور چین سے ہے۔

    بادشاہ کو اس کی باتیں سنتے سنتے شک ہونے لگا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ خوشامدی مجھ سے سچی اور صاف باتیں نہیں کرتا اور اس کے دھوکے میں اپنی رعایا کے اصل حال سے بے خبر رہوں۔ یہ سوچ کر اس نے ارادہ کیا کہ اس وزیر کو کسی طرح آزمانا چاہیے۔ پہلے تو وہ اسے باتوں باتوں میں سمجھاتا رہا کہ دیکھو دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوتا جس کے سارے لوگ اپنے بادشاہ سے خوش ہوں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ جو کسی معاملے میں بے جا فیصلہ نہ کر بیٹھے، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ وزیر کو چاہئے کہ اس کے سامنے سچ بولے اور حق بات کہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم نڈر ہو کر میرے سامنے رعایا کا حال، ان کے خیالات اور میرے انتظام کی صحیح حالت مجھے بتا دیا کرو تاکہ میں سب لوگوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر سکوں، لیکن وزیر اپنی خوشامد کی عادت سے باز نہ آیا اور اسی طرح جھوٹی سچی باتیں بنا کر تعریفیں کرتا رہا۔

    آخر بادشاہ نے تنگ آکر اس کی آزمائش کے لئے اس سے کہا، ہم تمہارے کام اور تمہاری باتوں سے بہت خوش ہیں اور اس صلے میں تمہیں بہت بڑا انعام دینا چاہتے ہیں۔ یہ انعام ایک دن کی بادشاہت ہے۔ کل تم بادشاہ بنو گے اور دربار میں سب امیروں، وزیروں اور رعایا کے اعلیٰ و ادنیٰ لوگوں کو جمع کر کے تمہاری دن بھر کی بادشاہت کا ہم اعلان کریں گے۔

    وزیر یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ دوسرے دن شاہی دربار میں مہمان آنا شروع ہوئے۔ ہر طبقے کے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی اور ان کے سامنے وزیر کو بادشاہ نے اپنا تاج پہنا کر اپنے تخت پر بٹھا دیا اور اعلان کیا کہ آج کے دن ہم بادشاہ نہیں۔ آپ لوگوں کا یہ بادشاہ ہے۔ اس کے بعد سب لوگ کھانے پینے میں مصروف ہوگئے۔ خوشامدی وزیر بادشاہ بنا، بڑی شان سے تخت پر بیٹھا، نئے نئے حکم چلا رہا تھا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔

    اصلی بادشاہ ایک دن کے نقلی بادشاہ کے پاس چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک دن کے بادشاہ کی نظر جو اچانک اٹھی تو وہ ایک دم خوف سے کانپنے لگا۔ اصلی بادشاہ اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکراتا رہا۔ قصہ یہ تھا کہ نقلی بادشاہ نے دیکھا کہ شاہی تخت کے اوپر اس جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا سَر پر ایک چمک دار خنجر لٹک رہا تھا جو بال جیسی باریک ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر نقلی بادشاہ کا ڈر کے مارے برا حال ہوگیا کہ کہیں یہ بال ٹوٹ نہ جائے اور خنجر اس کے اوپر نہ آپڑے۔ اس نے ضبط کر کے بہت سنبھلنے کی کوشش کی، مگر اس سے خوف کی وجہ سے سیدھا نہ بیٹھا گیا۔

    آخر مجبور ہو کر اصلی بادشاہ سے کہنے لگا:’’حضور! یہ خنجر میرے سر پر سے ہٹوا دیا جائے۔ اصلی بادشاہ نے مسکرا کر کہا:’’یہ کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہر بادشاہ کے سَر پر ہر وقت لٹکا رہتا ہے۔ اسے فرض کا خنجر کہتے ہیں۔ اگر کوئی بادشاہ اپنے فرض سے ذرا غافل ہوتا ہے تو یہی خنجر اس کے سَر کی خبر لیتا ہے، لیکن جو بادشاہ انصاف اور سچائی سے حکومت کرتا ہے یہ خنجر اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

    اب تو وزیر کی بہت بری حالت ہوگئی اور وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب کیا کرے، کیا نہ کرے۔ اس کے دل میں خیال آرہا تھا کہ ایک دن کی بادشاہت میں وہ ایسے ایسے حکم چلائے جس سے اس کے خاندان والوں، عزیزوں اور دوستوں کو خوب فائدے پہنچیں، مگر اب تو اس کے سارے منصوبے خاک میں ملتے نظر آرہے تھے۔ اس نے سوچا اگر کوئی حکم اس نے انصاف کے خلاف دیا تو یہ خنجر اس کی گردن اڑا دے گا۔ اصلی بادشاہ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر کہنے لگا، اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ بادشاہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی جان کو کیا کیا عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تخت آرام اور من مانی کے لیے نہیں ہے۔ رعایا کا حال اور ملکی انتظام کے بارے میں صحیح صحیح حالات بتاؤ۔

    وزیر اپنے بادشاہ کی یہ باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا اور جھوٹی خوشامد سے باز رہنے کی توبہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہوگیا۔

    (مصنّف: عشرت رحمانی)

  • ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    بہت عرصے پہلے کی بات ہے چین کے کسی شہر میں ایک شخص چینگ کرانو رہتا تھا۔ چینگ کرانو بہت اچھا ادیب تھا۔ برسوں سے وہ اکیلے ہی رہتا چلا آ رہا تھا۔

    اپنے کم بولنے کی عادت کی وجہ سے وہ کسی سے دوستی نہ کرسکا تھا۔ اس کے پڑوس میں ایک غریب، مگر پیاری سی لڑکی ژیانگ رہتی تھی۔ ژیانگ کو کہانیاں سننے اور پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ کرانو چوں کہ اچھا ادیب تھا، اس لیے ژیانگ اس کی بہت عزّت کرتی تھی۔

    ایک دن اس نے اپنی ماں سے اجازت لی اور کرانو سے ملنے اس کے گھر آئی۔ کرانو اس وقت کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ ژیانگ اس کے لیے شربت لائی اور ادب سے اسے پیش کیا۔ کرانو نے پہلی بار کسی کو اپنے گھر میں دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے ژیانگ کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح ژیانگ کا کرانو کے گھر آنا جانا ہو گیا۔

    کرانو کا گھر چھوٹا سا تھا۔ اس کی تمام چیزیں بکھری رہتی تھیں۔ ژیانگ نے اس کا گھر سلیقے سے سجا دیا۔ کرانو بہت سادگی سے رہتا تھا۔ اس کے گھر میں کوئی قیمتی چیز نہ تھی۔ ژیانگ نے اس کا ذکر اپنے باپ چانگ سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ کرانو کنجوس ہے اور دولت جمع کر رہا ہے۔

    ایک دن ژیانگ اپنے گھر میں تھی تو اس نے اپنی کھڑکی سے کرانو کو ایک تھیلا ہاتھ میں لٹکائے جاتے دیکھا۔ ژیانگ سوچنے لگی کہ پتا نہیں اس میں کیا ہے۔ ژیانگ نے فوراً یہ بات اپنے باپ کو بتائی۔ وہ سمجھ گیا کرانو اپنی دولت کہیں دفن کرنے جا رہا ہے۔ اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر کرانو کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کرانو اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا اور چانگ اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

    جب چانگ نے کرانو کو بینک میں داخل ہوتے دیکھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ گھر آکر اس نے ژیانگ سے کہا کہ وہ ٹوہ لگائے کہ آخر کرانو نے بینک میں کیا جمع کرایا ہے۔ دوسرے دن ژیانگ نے کرانو کو قہوہ پیش کرتے ہوئے کہا، "کل آپ کسی دوست سے ملنے گئے تھے شاید؟”

    کرانو نے پہلے تو قہوے کا شکریہ ادا کیا پھر کہا، "نہیں میں بینک گیا تھا، لاکر میں ایک قیمتی چیز رکھنے۔” لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ چیز کیا تھی۔ ژیانگ نے بھی زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے تمام بات اپنے باپ چانگ کو بتا دی۔

    چانگ ایک لالچی اور خود غرض انسان تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح کرانو کی دولت حاصل کرے گا۔ تھوڑے دن بعد ہی ژیانگ کا ایک امیر گھرانے سے رشتہ آیا تو اس کی بات پکّی کر دی گئی۔ چانگ سوچ رہا تھا کہ اب ژیانگ کی شادی کے لیے بہت رقم کی ضرورت ہو گی، سو کوئی ترکیب کرنی چاہیے کہ کرانو کی دولت جلد از جلد ہاتھ آ جائے۔ وہ دن رات اسی فکر میں غرق رہتا کہ کیا کیا جائے۔ آخر ایک خطرناک خیال اس کے ذہن میں آیا۔

    ایک دن اس نے ژیانگ سے کہا، "ہوسکتا ہے کرانو اپنی دولت کسی دوست کے حوالے کر دے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کی دولت حاصل کر لیں۔”

    ژیانگ نے تعجب سے پوچھا، "مگر ہم اس کی دولت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟”

    چانگ مکّاری کے ساتھ بولا، "وہ آج کل بیمار ہے، اس لیے زیادہ تر اپنے بستر میں رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے کمرے میں بند کر کے آگ لگا دی جائے۔ اس کے کمرے میں بے شمار کاغذ ہیں، جلد ہی آگ پکڑ لیں گے، لیکن اس سے پہلے تم اس کے لاکر کی چابی اور بینک کے کاغذات حاصل کر لو۔”

    باپ کی یہ سازش سن کر ژیانگ لرز کر رہ گئی۔ اس نے فوراً انکار کر دیا۔ مگر چانگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے سبز باغ دکھائے اور اس پر سختی بھی کی۔ مجبوراً ژیانگ اس کے ساتھ اس سازش میں شریک ہونے کو تیار ہو گئی، لیکن اس نے آگ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ چانگ نے کہا کہ وہ آگ خود لگے گا۔

    چنانچہ ژیانگ جب اگلے روز کرانو کے گھر گئی تو اس نے کرانو کو اپنی شادی کے بارے میں بالکل نہیں بتایا، لیکن کسی نہ کسی طرح بینک کے کاغذات اور چابی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی۔ پھر کرانو کی غیر موجودگی میں وہ صفائی کے بہانے اس کے گھر میں رک گئی اور کرانو کے سارے گھر میں تیل چھڑک دیا۔ کرانو کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ یہ کام کر کے وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی کرانو واپس گھر آیا، چانگ نے دروازہ بند کر کے آگ کی مشعل کھڑکی سے اندر پھینک دی۔

    کرانو جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بُو محسوس ہوئی اور پھر آگ تیزی سے پھیلتی گئی۔ چانگ اور ژیانگ اپنے گھر جا چکے تھے۔ پھر وہ اس وقت باہر نکلے جب محلّے والوں نے شور مچایا کہ کرانو مر چکا ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ آگ کیسے لگی۔ لوگوں نے یہی خیال کیا کہ شاید کھانا پکانے کے لیے اس نے آگ جلائی ہو گی اور غلطی سے آگ کپڑوں میں لگ گئی ہو گی۔

    اس درد ناک واقعے کو کئی دن گزر گئے۔ آخر ایک دن ژیانگ اور چانگ بینک جا پہنچے۔ انہوں نے خود کو کرانو کا رشتے دار ظاہر کیا اور لاکر کھولنے میں کام یاب ہو گئے۔ لاکر میں اس تھیلے کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں لکھا تھا:

    "لاکر کھولنے والے پر سلامتی ہو۔ اس لاکر میں میری زندگی کی سب سے عمدہ کہانی ہے۔ میری یہ کہانی دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک شخص مجھے اس کے پندرہ ہزار پاؤنڈ دینے کو تیار ہے، مگر میں ابھی اسے بیچنا نہیں چاہتا۔ میں اسے اس وقت بیچوں گا جب ژیانگ کی شادی ہو گی۔ میں اس کہانی کو بیچ کر ساری رقم ژیانگ کو دے دوں گا۔ وہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے، اپنی بیٹی جیسی۔ اگر میں اس کی شادی سے پہلے مَر جاؤں تو ژیانگ اس کہانی کو بیچ سکتی ہے۔”

    اتنا خط پڑھ کر ژیانگ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو خط سن رہا تھا۔ اس وقت تک وہ تھیلے میں سے سارے قیمتی کاغذات نکال چکا تھا۔

    "کاش! میں اسے اپنی شادی کی خبر سنا دیتی!”

    ژیانگ کی یہ بات سن کر چانگ نے کہا، "کوئی فرق نہیں پڑتا، پندرہ ہزار پاؤنڈ تو اب بھی مل ہی جائیں گے۔ تم باقی خط پڑھو۔” ژیانگ پھر پڑھنے لگی:

    "لیکن کہانی کا یہ صرف ایک حصّہ ہے۔ دوسرا حصّہ بہت اہم اور ضروری ہے اور وہ حصّہ میرے تکیے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے، جسے میری موت کے بعد ژیانگ نکال سکتی ہے۔ خدا اسے ہمیشہ خوش رکھے!”

    خط کا آخری حصّہ پڑھتے پڑھتے ژیانگ کی آنکھیں بھر آئیں۔ چانگ بھی حیرت اور افسوس سے سوچ رہا تھا، "کاش میں نے لالچ نہ کیا ہوتا۔”

    (چینی ادب سے اردو ترجمہ)

  • ”بہادر“ کی آرزو! (ایک سبق آموز کہانی)

    ”بہادر“ کی آرزو! (ایک سبق آموز کہانی)

    ٹنکو میاں سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی تھی۔ ان کی شرارتیں بے ضرر تو تھیں، لیکن خود کو بہادر اور نڈر ثابت کرنے کی جو دُھن ٹنکو پر سوار رہتی تھی، اسے ایک قسم کی خامی شمار کیا جاسکتا تھا۔

    جب بھی موقع ملتا وہ اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے میں‌ دیر نہ لگاتے۔ کبھی سننے میں آتا کہ ٹنکو میاں گلی کے کونے پر موجود برسوں سے بند پڑے مکان کی دیوار پھاند کر وہاں سے اپنی ٹیم کی گیند واپس لانے میں‌ کام یاب ہوگئے، تو کبھی کسی کسی آوارہ کُتّے کو ڈنڈا ہاتھ میں‌ تھام کر گلی بدر کرکے چھوڑا۔ چڑیا گھر گئے تو ہاتھی پر سواری کی، اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور اس بھاری بھرکم اور لمبی سونڈ والے جانور سے ڈرنے والے بچّوں کے لیے مثال بن گئے۔ بہن بھائیوں سے شرط لگائی کہ وہ رات کی تاریکی میں چھت پر تنہا کچھ وقت گزار سکتے ہیں اور ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد اگلے تین چار دن ٹنکو میاں گھر میں‌ فخر سے سینہ پُھلا کر گھومتے رہے۔ یہ چھوٹی عمر میں‌ ان کے بڑے کارنامے تھے۔

    اپنے ہم جماعتوں اور محلّے کے دوستوں‌ میں وہ ٹنکو بہادر مشہور ہوگئے تھے۔ یہ ایسی باتیں نہ تھیں کہ کوئی اعتراض کرتا یا ٹنکو میاں کو شرارتی کہا جاتا۔ لیکن ان کی ایک عادت بہت بُری تھی۔ سڑک عبور کرنے کے دوران بھی وہ اپنی دلیری اور پھرتی کا مظاہرہ کرنا ضروری سمجھتے تھے اور یہ خطرناک بات تھی، کیوں‌ کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے۔ ان کی ناسمجھی اور ذرا سی کوتاہی انھیں کسی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی تھی۔

    صبح اسکول جاتے ہوئے اور وہاں سے واپسی پر دوسرے بچّے راستے میں پڑنے والی سڑک عبور کرنے کے لیے ٹریفک کے رکنے کا انتطار کرتے، اور کسی مقام پر اگر بالائی گزر گاہ یا ٹریفک سگنل کی سہولت نہ ہونے کے سبب انھیں سڑک عبور کرنا دشوار لگتا تو وہاں سے گزرنے والے کسی بڑے کی مدد لے لیتے تھے، لیکن ٹنکو میاں عجیب حرکت کرتے۔ وہ بالائی گزر گاہ کو استعمال کرنے کے بجائے سڑک پر ایک نظر ڈالتے، گاڑیوں کی تعداد اور رفتار کا اندازہ کرتے اور موقع پاتے ہی دوڑ پڑتے۔ کبھی سڑک خالی ہوتی یا کم از کم انھیں نکلنے کی جگہ ضرور مل جاتی تھی، لیکن اکثر یہ بھی ہوا کہ ان کی وجہ سے کسی ڈرائیور کو فوری بریک لگانا پڑا اور ٹائروں چرچرانے کی آوازوں نے سب کو متوجہ کر لیا۔ ڈرائیور غصّے میں ٹنکو میاں کو بُرا بھلا کہتے، آگے بڑھ گیا۔ راہ گیر ان کی یہ حرکت دیکھتے تو کوئی انھیں سمجھاتا، اور کچھ ڈانٹ بھی دیتے، مگر ٹنکو میاں نے اپنی عادت ترک نہیں‌ کی تھی۔

    کچھ عرصے سے وہ اپنے چند دوستوں کی طرح سائیکل چلانے کا شوق بھی پورا کر رہے تھے، لیکن جیب خرچ سے بچت کر کے۔ اب وہ چاہتے تھے کہ ایک عدد سائیکل کے مالک بن جائیں۔ یہ بات اپنے ابّا جان سے کہنا ان کے لیے اتنا آسان نہ تھا، مگر امّاں‌ سے سائیکل کے لیے ضد کرنا ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ ٹالتیں‌ تو ان کے سامنے رونے بیٹھ جاتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، سائیکل کیسے دلاؤں؟

    ”امّاں میں پڑھائی پر پوری توجہ دوں گا۔ صرف شام کے وقت سائیکل لے کر باہر نکلوں گا اور سچّی میں کسی کے ساتھ ریس نہیں لگاﺅں گا۔“ آج پھر ٹنکو میاں‌ ضد کررہے تھے۔ ماں تو ماں‌ ہوتی ہے۔ وہ کئی دنوں سے سوچ رہی تھیں کہ کسی طرح اپنے بیٹے کی فرمائش پوری کردیں۔ اس روز انہوں نے ٹنکو سے وعدہ کیاکہ وہ ماہانہ بچت کرکے انہیں جلد ہی سائیکل دلا دیں گی۔ لیکن انھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ ٹنکو میاں یہ جان بہت خوش ہوئے، اور بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار شروع کردیا جب وہ ایک چمکتی ہوئی سائیکل کے مالک بن جاتے۔ ‌

    وہ ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب ٹنکو میاں اپنے پڑوسی اور ہم مکتب بچّوں کے ساتھ اسکول سے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے۔ ‌راستے میں سڑک پڑتی تھی جسے عبور کرنے کے لیے وہاں ایک پُل بنایا گیا تھا۔ ‌حسبِ معمول بچّے اس پُل کی طرف بڑھ گئے تاکہ باحفاظت سڑک عبور کرسکیں، لیکن ٹنکو میاں نے آج ان کا ساتھ نہ دیا۔ ‌وہ ہر دوسرے تیسرے روز ایسا ہی کرتے تھے۔ ‌آج بھی انھوں نے ایک نظر میں سڑک کا جائزہ لیا اور دوڑ لگا دی۔ یکایک فضا میں عجیب سی آوازیں ابھریں جیسے کوئی گھسٹتا ہوا جارہا ہے اور پھر ایسا لگا جیسے کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی ہیں۔ لمحوں میں‌ منظر تبدیل ہو گیا اور سڑک سے گزرنے والے اور قریبی دکان دار اس طرف دوڑے جہاں ایک موٹر سائیکل سوار بڑی سی گاڑی سے ٹکرانے کے بعد زمین پر گرا ہوا تھا۔ یہ حادثہ ٹنکو میاں کے غلط طریقے سے سڑک عبور کرنے کی وجہ سے پیش آیا تھا جو پلٹ کر یہ سب دیکھ چکے تھے اور گھر کی طرف دوڑ لگانے میں ذرا دیر نہ کی تھی۔

    ٹنکو میاں گھر پہنچے اور ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ وہ خوف زدہ تو بہت تھے کہ آج ان کی اس حرکت کی وجہ سے ایک بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں‌ کریں‌ گے۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر انھیں‌ امّاں کی آواز سنائی دی۔

    ” کیا ہوا عادل میرے بچّے، یہ چوٹیں کیسے آئیں، کسی سے جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟ “
    امّاں، میں ٹھیک ہوں، معمولی ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا، یہ چوٹیں گرنے کی وجہ سے لگی ہیں۔ ٹنکو کو اپنے بھائی عادل کی آواز سنائی دی جو درد کے احساس کے ساتھ اپنی ایک پریشانی کا ذکر کچھ یوں کررہا تھا۔ ”امّاں آپ اسے چھوڑیں، میری ہڈی جوڑ سلامت ہیں، لیکن مجھے پانچ ہزار روپے لا کر دیں۔ دراصل ایک بچّہ غلط طریقے سے سڑک عبور کر رہا تھا، اسے بچاتے ہوئے میری موٹر سائیکل وہاں کھڑی ایک قیمتی کار سے ٹکرا گئی، اُس کا مالک بااثر آدمی ہے، مجھے اس کا نقصان پورا کرنا ہو گا۔“ بھائی کی بات سن کر ٹنکو میاں اپنی جگہ دبک گئے۔ وہی تو تھے جسے بچاتے ہوئے عادل حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اسے خوش قسمتی کہیے یا اتفاق کہ عادل اُس بچّے کو نہیں دیکھ سکا، جس کی غلط حرکت نے اس کی جان خطرے میں‌ ڈال دی تھی۔

    ”بیٹا، میں کہاں سے لاؤں اتنے سارے پیسے، تمہیں تو معلوم ہے۔۔۔۔ ارے یاد آیا، تم رُکو میں ابھی آتی ہوں۔“ امّاں کمرے میں گھس گئیں۔

    ”یہ لو عادل، پہلے ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور پھر اُس آدمی کو یہ رقم دے کر اپنی جان چھڑاؤ، یہ پیسے میں نے تمہارے بھائی کو نئی سائیکل دلانے کے لیے جوڑے تھے۔ چند دنوں میں اُسے تمہارے ساتھ بازار بھیجنا ہی تھا تاکہ اس کی پسند سے سائیکل خرید کر لے آؤ۔ خیر، خدا کی یہی مرضی تھی۔“

    اُف خدایا! امّاں کی بات سن کر ٹنکو کا سَر چکرانے لگا تھا۔ اس نے اپنی ایک بُری حرکت کی وجہ سے زبردست نقصان اٹھایا تھا۔

    (مصنّف: عارف عزیز)

  • ”گاؤں والے…“

    ”گاؤں والے…“

    گاﺅں کا نام تو امیر پور تھا، لیکن وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ ان میں‌ بعض لوگ ہنر مند اور کسی نہ کسی پیشے سے جڑے ہوئے تھے اور اسی سے اپنی روزی روٹی کا انتظام کر پاتے تھے۔ امیر پور کے یہ باسی بڑے صابر و شاکر تھے۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر خدا کا شکر ادا کرتے اور مل جل کر رہتے تھے۔

    گاﺅں سے تھوڑے فاصلے پر ایک پکّی سڑک موجود تھی۔ اس سڑک سے بیل گاڑی یا تانگے پر سوار ہو کر گاؤں والے کام کی تلاش میں‌ شہر جایا کرتے تھے۔ سڑک کے قریب ایک بڑا پرانا مکان تھا، جس میں میاں بیوی اور ان کا ایک بیٹا رہتا تھا۔ پورا گاﺅں انہیں حاجی صاحب اور امّاں بی کے نام سے جانتا تھا۔

    یہ میاں‌ بیوی بہت مہمان نواز اور خدا ترس تھے، لیکن ان کا بیٹا نہایت بدتمیز اور خود سَر تھا۔ اسے گاؤں والے ننّھے کے نام سے پکارتے تھے۔ ماں باپ اپنے بیٹے کو بہت سمجھاتے اور دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے، لیکن اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حاجی صاحب اور امّاں بی فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھ جاتے۔ وہ شہر جانے کے لیے گزرنے والے دیہاتیوں سے سلام دعا کرتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے، اسی طرح شام کو جب لوگ اپنے کاموں سے لوٹتے تو ایک بار پھر حاجی صاحب اور ان کی بیوی سے سامنا ہوتا اور وہ مسکرا کر گویا ان استقبال کرتے۔

    خوش اخلاق اور ملن سار میاں بیوی کی آمدن اور گزر بسر کا ذریعہ ان کے دو مکانات اور تین دکانیں تھیں جو انہوں‌ نے کرایے پر اٹھا رکھی تھیں۔ حاجی صاحب سے گاؤں کے غریب لوگ ضرورت پڑنے پر کچھ رقم ادھار بھی مانگ لیتے تھے اور اکثر ان کے گھر ضرورت مند آتے جاتے رہتے تھے۔ یہ بات ننھّے کو بالکل پسند نہ تھی۔ حاجی صاحب کی غیر موجودگی میں اگر کوئی گاؤں والا ان کے گھر آجاتا تو ننھّا بدتمیزی سے پیش آتا اور انہیں جھڑک دیتا۔ غریب اور مجبور دیہاتی حاجی صاحب کی وجہ سے اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیتے تھے اور اُن سے اس کی شکایت بھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک دن یہ میاں بیوی اپنے بیٹے کو گھر پر چھوڑ کر کسی کام سے شہر گئے، جہاں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔ اس حادثے میں حاجی صاحب اور امّاں بی کی موت واقع ہو گئی۔ اس سانحے پر گاؤں کے ہر فرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ ہر کوئی ان کے اکلوتے بیٹے کو صبر کی تلقین کررہا تھا۔ حاجی صاحب اور امّاں‌ بی کی تدفین کے بعد گاؤں‌ کے بزرگ اور نوجوان سبھی دیر تک ننھّے کے ساتھ بیٹھے رہے۔ اُس دن وہ بہت رویا اور پھر اسے صبر آہی گیا۔

    چند دن بعد ننھّے کے تمام رشتے دار بھی اپنے گھروں کو چلے گئے اور وہ اکیلا رہ گیا تو گاﺅں کے چند بڑوں نے اس کی مزاج پرسی اور دل بہلانے کی غرض سے مرحوم کے گھر کا رخ کیا۔ ننّھا انہیں دیکھ کر بگڑ گیا اور بولا، ”تم لوگ اب یہاں کا رُخ مت کرنا۔ مجھے تم جیسے جاہل اور گنوار لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ گاﺅں والوں نے بڑے تحمّل کا مظاہرہ کیا اور خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

    حاجی صاحب اور امّاں بی کے انتقال کو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ خود سَر اور بدتمیز ننّھے کی غلطی کی وجہ سے گھر کے ایک حصّے میں آگ لگ گئی۔ شاید قدرت اُسے اس کے رویّے کی سزا دے رہی تھی۔ گاﺅں والوں کو اس کی خبر ہوئی تو دوڑے دوڑے آئے اور کسی طرح آگ پر قابو تو پا لیا، مگر اس وقت تک خاصا مالی نقصان ہو چکا تھا۔ دیواریں کالی ہوچکی تھیں، لکڑی کے دروازے اور کمروں میں‌ موجود سامان خاکستر ہوچکا تھا۔ ننھّا شدتِ غم سے نڈھال تھا اور گھر کے سامنے زمین پر بیٹھا اپنا سَر پیٹ رہا تھا۔

    آگ بجھانے کے بعد گاؤں کے چند بڑے گامو، رستم اور شیر خان آگے بڑھے اور اس سے مخاطب ہو کہا، ”بیٹا، ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا نقصان ہے، مگر تم فکر نہ کرو، ہم ہیں تمہارے ساتھ۔“ شیر خان نے بات کرنے میں پہل کی۔ وہ ایک معمولی ٹھیکے دار تھا۔

    ”ہاں، ہم سب مل کر تمہارا مکان دوبارہ تعمیر کریں گے۔“ گامو نے کہا، جو شہر جاکر مزدوری کرتا تھا۔ ننّھے نے خالی خالی نظروں سے اِس کی طرف دیکھا۔ اس دوران دُور کھڑے دیہاتی بھی قریب آگئے اور ننھّے کی ہمّت بندھائی۔ ادھر ننّھا سوچ رہا تھا کہ یہ غریب لوگ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    چند دن گزرے تھے جب اپنے سوختہ گھر کے باقی ماندہ حصّے میں موجود ننھّے نے باہر کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا۔ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ گاؤں والے بیلچے اور پھاؤڑے لے کر جلے ہوئے مکان کا ملبا ہٹانے کی تیّاری کررہے ہیں۔ ابھی وہ کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ گامو اور شیر خان اس کے قریب آئے اور مسکراتے ہوئے کہا۔ ”ننھے میاں! گاﺅں کا ہر ہنرمند اور مزدور یہاں صفائی کرنے کے بعد تمھارا مکان دوبارہ تعمیر کرنے میں حصّہ لے گا، اور تم سے کوئی اُجرت نہیں لی جائے گی۔“

    ”اور ہاں، رنگ و روغن کا کام دو، چار دن میں نمٹا دوں گا، تم فکر نہ کرنا۔“ یہ رستم نامی رنگ ریز کی آواز تھی۔ شیر خان الیکٹریشن تھا۔ اس نے پورے گھر کا بجلی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اسی طرح گاؤں میں رہنے والے بڑھئی نے بھی دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تیّار کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ گاؤں کا ہر فرد ننّھے کے ساتھ تھا، لیکن ضروری ساز و سامان کی خریداری بھی ایک مسئلہ تھا۔ قدرت نے اس کا انتظام بھی کردیا۔ گاؤں کے ایک شخص نے حاجی صاحب سے کچھ رقم قرض لے رکھی تھی، جو اس کام کے لیے کافی تھی اور یہ وہی مہینہ تھا جس میں اس نے حاجی صاحب سے قرض لوٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے گاؤں والوں کی موجودگی رقم ننھّے کو دے دی۔

    ننھّا جان گیا تھا کہ انسان کا امیر یا غریب ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، اصل چیز انسانیت ہے۔ وہ اپنے رویّے پر گاؤں والوں سے بہت شرمندہ تھا۔ اُس دن شہر کو جانے والی پکّی سڑک سے گزرنے والوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، ایک سوختہ عمارت سے ملبا ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔

    (مصنّف: عارف عزیز)

  • بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    کسی گاؤں میں‌ ایک بڑا زمیندار رہتا تھا۔ خدا نے اسے بہت سی زمین، بڑے بڑے مکان اور باغ ‌دیے تھے، جہاں ہر قسم کے پھل اپنے اپنے موسم میں پیدا ہوتے تھے۔

    گائے اور بھینسوں کے علاوہ اس کے پاس ایک اچھّی قسم کا بیل اور عربی گدھا بھی تھا۔ بیل سے کھیتوں میں‌ ہل چلانے کا کام لیا جاتا اور گدھے پر سوار ہو کر زمیندار اِدھر اُدھر سیر کو نکل جاتا۔ ایک بار اس کے پاس کہیں سے گھومتا پھرتا ایک فقیر نکل آیا۔

    زمیندار ایک رحم دل آدمی تھا۔ اس نے فقیر کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔ اس کے کھانے پینے اور آرام سے رہنے کا بہت اچھا انتظام کیا۔ دو چار دن بعد جب وہ فقیر وہاں سے جانے لگا تو اس نے زمیندار سے کہا "چودھری! تم نے میری جو خاطر داری کی ہے، میں ‌اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک فقیر ہوں۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں، جو تمھاری خدمت میں پیش کروں۔ ہاں، میں جانوروں اور حیوانوں کی بولیاں‌ سمجھ سکتا ہوں۔ تم چاہو تو یہ علم میں تمھیں سکھا سکتا ہوں، لیکن تم کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ تم یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤ گے، اور یہ بھی سن لو کہ اگر تم نے یہ بھید کسی سے کہہ دیا تو پھر زندہ نہ رہ سکو گے۔”

    چودھری نے کہا: "بابا! میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤں گا اور تمھارا یہ احسان عمر بھر یاد رکھوں گا۔”

    خیر، فقیر نے اسے جانوروں اور حیوانوں کی باتیں سمجھنے کا عمل سکھا دیا اور چلا گیا۔

    زمیندار کے پاس جو بیل تھا، وہ بیچارہ صبح سے پچھلے پہر تک ہل میں ‌جتا رہتا۔ شام کو جب وہ گھر آتا تو اس کے کھانے کے لیے بھوسا ڈال دیا جاتا، لیکن گدھے کو سبز گھاس اور چنے کا دانہ کھانے کو ملتا۔ غریب بیل یہ سب کچھ دیکھتا اور چپ رہتا۔

    وقت اسی طرح‌ گزر رہا تھا۔ ایک دن جب بیل کھیتوں سے واپس آتے ہوئے گدھے کے پاس سے گزرا تو گدھے نے اسے لنگڑاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا: "بھائی آج تم لنگڑا لنگڑا کر کیوں چل رہے ہو؟”

    بیل نے جواب دیا: "گدھے بھائی! آج مجھے بہت کام کرنا پڑا۔ میں جب تھک جاتا تھا تو نوکر میری پیٹھ اور ٹانگوں پر زور زور سے لاٹھیاں مارتا۔ میری ٹانگ میں چوٹ لگ گئی ہے۔ خیر! اپنی اپنی قسمت ہے۔”

    گدھا چپ رہا اور بیل اپنے تھان کی طرف چلا گیا۔ جہاں بیل بندھا کرتا تھا، وہاں زمیندار کو اپنے نوکر کے لیے گھر بنوانا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد زمیندار نے بیل کے لیے بھی گدھے کے پاس ہی کھرلی بنوا دی۔ جب دونوں کو وقت ملتا، ایک دوسرے سے باتیں بھی کر لیتے۔

    ایک روز بیل کو اداس اور خاموش دیکھ کر گدھے نے اس سے پوچھا: "بیل بھائی! کیا بات ہے؟ آج تم چپ چپ کیوں ہو۔ کوئی بات ہی کرو۔”

    بیل نے کہا: "گدھے بھائی! کیا بات کروں؟ آج پھر بڑی لاٹھیاں پڑی ہیں۔”

    گدھا کہنے لگا: "بیل بھائی! سچ جانو تم۔ تمھاری جو درگت بنتی ہے، وہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں تمھارا دکھ بانٹ نہیں سکتا۔”

    بیل بولا: "گدھے بھائی! تم نے سچ کہا۔ دکھ تو کوئی کسی کا نہیں بانٹ سکتا، لیکن تم کچھ مشورہ تو دو کہ اس مصیبت سے میری جان کیسے چھوٹے گی، اور نہیں تو دو چار دن ہی آرام کر لوں۔”

    گدھے نے کہا: "ایک ترکیب میری سمجھ میں آئی ہے۔ اس پر عمل کرو گے تو پانچ، سات روز کے لیے تو بچ جاؤ گے۔ کہو تو بتاؤں؟”

    بیل بولا:” نیکی اور پوچھ پوچھ، بتاؤ، کیا ترکیب ہے؟”

    گدھے نے بتایا: "تم یہ کرو کہ جب ہل والا تمھیں ہل میں جوتنے کے لیے لینے آئے تو تم آنکھیں بند کر کے کھڑے ہو جانا۔ وہ تمھیں کھینچے تو تم دو قدم چلنا اور ٹھہر کر گردن ڈال دینا۔ پھر بھی اگر اسے رحم نہ آئے اور کھیت پر لے ہی جائے تو کام نہ کرنا اور زمین پر بیٹھ جانا۔ کیسا ہی مارے پیٹے، ہرگز نہ اُٹھنا۔ گر گر پڑنا، پھر وہ تمھیں گھر لے آئے گا۔ گھر لا کر تمھارے آگے چارا ڈالے تو کھانا تو ایک طرف رہا تم اسے سونگھنا تک نہیں۔ گھاس، دانہ نہ کھانے سے کم زوری تو ضرور آجائے گی، مگر کچھ دن آرام بھی مل جائے گا، کیونکہ بیمار جانور سے کوئی محنت نہیں لیا کرتا۔ لو یہ مجھے ایک ترکیب سوجھی تھی، تمھیں بتا دی۔ اب تم کو اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔”

    اتفاق سے زمیندار جو اس وقت ان کے پاس سے گزرا تو اس نے ان دونوں کی باتیں سن لیں اور مسکراتا ہوا اِدھر سے گزر گیا۔ چارے بھوسے کا وقت آ گیا تھا۔ نوکر نے گدھے کے منہ پر دانے کا تو بڑا چڑھایا اور بیل کے آگے بھی چارا رکھ دیا۔ بیل دو ایک منھ مار کر رہ گیا۔ اگلے دن ہل والا بیل کو لینے آیا تو دیکھا کہ بیل بیمار ہے۔ رات کو کچھ کھایا بھی نہیں۔ نوکر دوڑا ہوا مالک کے پاس گیا اور کہنے لگا: "نہ جانے رات بیل کو کیا ہوا۔ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور آج مجھے پورے کھیت میں ہل چلانا ہے، کہو تو باغ میں سے دوسرا بیل لے آؤں؟”

    زمیندار نے بیل اور گدھے کی باتیں تو سن ہی لی تھیں۔ دل میں بہت ہنسا کہ گدھے نے خوب سبق پڑھایا ہے۔

    زمیندار ہل والے سے بولا: "اچھا جاتا کہاں ہے؟ دوسرا بیل لانے کی کیا ضرورت ہے۔ گدھے کو لے جاؤ۔ ہل میں لگا کر کام نکال لو۔”

    گدھے پر مصیبت آ گئی۔ پہلے تو دن بھر تھان پر کھڑے کھڑے گھاس کھایا کرتا، اب جو صبح سے ہل میں جتا تو شام تک سانس لینے کی مہلت نہ ملی۔ دُم بھی مروڑی گئی، ڈنڈے بھی پڑے۔ سورج ڈوبنے کے بعد جب گدھا لوٹ کر اپنے تھان پر آیا تو بیل نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا: "بھیا تمھاری مہربانی سے آج مجھ کو ایسا سکھ ملا کہ ساری عمر کبھی نہیں ملا تھا۔ خدا تم کو خوش رکھے۔” گدھا کچھ نہ بولا۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ اگر دو چار دن یہی حال رہا تو میری جان ہی چلی جائے گی۔ اچھی نیکی کی کہ اپنے کو مصیبت میں پھنسا دیا۔

    دوسرے دن پھر ہل والا گدھے کو لے گیا اور شام تک اسے ہل میں لگائے رکھا۔ جب گدھا تھکا ہارا واپس آیا تو بیل نے پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور خوشامد کی باتیں کرنی چاہیں۔

    گدھا کہنے لگا: "میاں ان باتوں کو رہنے دو۔ آج میں نے مالک کی زبان سے ایک ایسی بُری خبر سنی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ خدا تم کو اپنی حفاظت میں رکھے۔”

    بیل نے کان کھڑے کر کے پوچھا: "گدھے بھائی! سناؤ تو، میرا تو دل دھڑکنے لگا۔”

    گدھا بولا: ” کیا سناؤں۔ مالک ہل والے سے کہہ رہا تھا کہ اگر بیل زیادہ بیمار ہو گیا ہے اور اُٹھنے کے قابل نہیں رہا تو قصائی کو بلا کر اس پر چھری پھروا دو۔” بیل قصائی کے نام سے کانپ اٹھا اور کہنے لگا:‌ "پھر تم کیا مشورہ دیتے ہو؟”

    گدھا بولا: "میں تو ہر حال میں‌ تمھاری بھلائی چاہتا ہوں۔ اب میرا یہ مشورہ ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ۔ چارا، بھوسا کھانے لگو اور صبح کو جب ہل والا آئے تو خوشی خوشی اس کے ساتھ جا کر ہل میں جت جاؤ۔”

    یہ باتیں بھی زمیندار چھپا ہوا سن رہا تھا اور دونوں کی باتوں پر اسے دل ہی دل میں ہنسی آ رہی تھی۔ جان جانے کے ڈر سے بیل نے پھر گدھے کے مشورے پر عمل کیا۔ چارے کی ساری ناند صاف کر دیں اور کلیلیں کرنے لگا۔ صبح ہوئی تو زمیندار اپنی بیوی کو ساتھ لیے بیل کے تھان پر پہنچا۔ بیل نے جو اپنے مالک کو دیکھا تو اچھلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں‌ ہل والا بھی آ گیا۔ اس نے بیل کو بالکل تندرست پایا۔ کھول کر لے چلا، تو وہ اس طرح ‌دُم ہلاتا اور اکڑتا ہوا چلا کہ مالک کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔

    بیوی نے پوچھا: "تم کیوں ہنسے؟ ہنسی کی تو کوئی بات نہیں۔”

    زمیندار نے جواب دیا: "ایسی ہی ایک بھید کی بات ہے، جو میں نے سنی اور دیکھی جس پر میں ہنس پڑا۔”

    بیوی بولی:‌ ” مجھے بھی وہ بات بتاؤ۔”

    زمیندار نے کہا: "وہ بتانے کی بات نہیں ہے، اگر بتا دوں گا تو مر جاؤں گا۔”

    بیوی بولی: "تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم مجھ پر ہنسے تھے۔” زمیندار نے بہت سمجھایا کہ نیک بخت! تجھ پر میں کیوں ‌ہنسوں گا، تجھ کو تو وہم ہو گیا ہے۔ اگر مرنے کا ڈر نہ ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔

    مگر وہ کب ماننے والی تھی، بولی: "چاہو مرو یا جیو، میں پوچھ کر ہی رہوں گی۔”

    جب بیوی کسی طرح نہیں مانی تو زمیندار نے سارے پڑوسیوں‌ کو جمع کیا اور سارا قصہ سنایا کہ میری بیوی ایک ایسی بات کے لیے ضد کررہی ہے، جسے ظاہر کرنے کے بعد میں مَر جاؤں گا۔ لوگوں نے اس کی بیوی کو بہت سمجھایا اور جب وہ نہ مانی تو اپنے گھر چلے گئے۔ زمیندار لاچار ہو کر وضو کرنے چلا گیا کہ بھید کھلنے سے پہلے دو نفل پڑھے۔

    زمیندار کے ہاں‌ ایک مرغا اور پچاس مرغیاں پلی ہوئی تھیں اور ایک کتّا بھی تھا۔ زمیندار نے جاتے جاتے سنا کہ کتّا مرغے پر بہت غصہ ہو رہا ہے کہ کم بخت!‌ تُو کہاں ‌مرغیوں‌ کے ساتھ ساتھ بھاگا چلا جاتا ہے۔ ہمارے تو آقا کی جان جانے والی ہے۔

    مرغ نے پوچھا: "کیوں‌ بھائی! اس پر ایسی کیا آفت آ پڑی! جو اچانک مرنے کو تیار ہو گیا۔”

    کتّے نے ساری کہانی مرغے کو سنا دی۔ مرغے نے جو یہ قصّہ سنا تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: "ہمارا مالک بھی عجیب بے وقوف آدمی ہے۔ بیوی سے ایسا دبنا بھی کیا کہ مر جائے اور اس کی بات نہ ٹلے، مجھے دیکھو! مجال ہے جو کوئی مرغی میرے سامنے سر اٹھائے۔ مالک ایسا کیوں‌ نہیں کرتا کہ گھر میں‌ جو شہتوت کا درخت ہے، اس کی دو چار سیدھی سیدھی ٹہنیاں ‌توڑے اور اس ضدی کو تہ خانے میں لے جا کر اسے ایسا پیٹے کہ وہ توبہ کر لے اور پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرے۔”

    زمیندار نے مرغ کی یہ بات سن کر شہتوت کی ٹہنیاں توڑیں اور انھیں تہ خانے میں چھپا آیا۔

    بیوی بولی: "لو اب وضو بھی کر آئے اب بتاؤ؟”

    زمیندار نے کہا: "ذرا تہ خانے چلی چلو، تاکہ میں بھید بھی کھولوں تو کوئی دوسرا جانے بھی نہیں اور وہیں مر بھی جاؤں۔”

    بیوی نے کہا: "اچھا۔” اور آگے آگے تہ خانے میں گھس گئی۔ زمیندار نے دروازہ بند کر کے بیوی کو اتنا مارا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی:‌ "میری توبہ ہے، پھر کبھی میں‌ ایسی ضد نہیں کروں گی۔”

    اس کے بعد دونوں باہر نکل آئے۔ کنبے والے اور رشتے دار جو پریشان تھے، خوش ہو گئے اور میاں‌ بیوی بڑے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔

  • قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔

    دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، ’’اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔‘‘

    کتّا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، ‘’اے دوست! اگر تُو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تُو بھی میری طرح خوش رہے گا۔‘‘

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟‘‘

    کتّے نے جواب دیا، ’’تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”

    بھیڑیے نے کہا ’’بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔‘‘

    کتّے نے کہا، ’’یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔‘‘ یہ سن کر بھیڑیا کتّے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔

    ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتّے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹّے سے پڑ گیا تھا۔

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟

    کتّے نے کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بھیڑیے نے پھر کہا، ’’اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟‘‘

    کتّے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا ’’اگر تُو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹّا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹّا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہو گا۔‘‘

    یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتّے نے کہا، ’’چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔‘‘

    بھیڑیے نے کہا، ’’اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تُو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔

  • سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی ملک پر ایک مغرور بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ ہیرے جواہرات، شان و شوکت اور اپنے جاہ و جلال کے نشے میں بدمست ہوکر رعایا کی طرف سے بالکل غافل ہوچکا تھا اور اسے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ کچھ لوگ اس کے لیے بد دعائیں کرتے تو کچھ اس کے لیے ہدایت اور نیک توفیق کے طلب گار بھی ہوتے۔

    ایک وقت آیا جب خدا نے رعایا کی سن لی۔ ہوا یہ کہ بادشاہ ایک دن نہایت شان و شوکت سے سپاہیوں کے لاؤ لشکر کو ساتھ لے کر شکار پر نکلا۔ جنگل میں اسے ایک ہرن نظر آیا، اس نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن کا تعاقب کرتے ہوئے وہ بہت دور نکل آیا اور راستہ بھٹک گیا۔ وہ اپنے محافظ دستے اور تمام درباریوں سے بچھڑ گیا تھا۔ ادھر انھوں نے بادشاہ کو بہت ڈھونڈا لیکن گھنے جنگل میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اور یوں بھی رعایا کی طرح بادشاہ کے سپاہی اور درباری سبھی اس کی اکڑ اور غرور سے تنگ آچکے تھے۔ انھوں نے اپنے فرماں روا کی تلاش بند کر دی اور واپس لوٹ گئے۔

    بادشاہ سارا وقت راستہ تلاش کرتا رہا، لیکن نہ تو اسے اپنے محل کی طرف جانے کا راستہ ملا اور نہ اس کے درباری۔ اس دوڑ دھوپ میں اسے پیاس لگنے لگی۔ مگر کہیں بھی پانی نہیں ملا۔ میلوں چلنے کے بعد اسے بہت دور ایک جھونپڑی نظر آئی تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے سرپٹ گھوڑا دوڑایا اور جھونپڑی تک جا پہنچا۔ وہاں ایک بزرگ بیٹھے عبادت میں مشغول تھے اور ایک طرف کونے میں پانی کا گھڑا رکھا تھا۔ بادشاہ نے بڑی بیتابی اور خشک زبان کو بمشکل حرکت دے کر بزرگ سے پوچھا، ’’پپ…پانی مل جائے گا ایک گلاس؟‘‘ ’ہاں مل جائے گا مگر ایک شرط پر‘‘ بزرگ کی پُر جلال آواز جھونپڑی میں‌ سنائی دی۔

    ’’مجھے ہر شرط منظور ہے، میں اس سلطنت کا حکم راں ہوں، پپ… پانی… پلا دو! بادشاہ نے بے تابی سے کہا، مگر اس موقع پر بھی اس نے اپنی امارت کا احساس دلانا ضروری سمجھا تھا۔

    ’’پہلے شرط سن لو۔ پانی کے گلاس کے بدلے میں تمہاری پوری سلطنت لوں گا۔‘‘ بزرگ نے درشتی سے کہا۔

    ’’پوری سلطنت؟ ایک گلاس پانی کے بدلے‘‘؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔

    بزرگ نے کرخت لہجے میں کہا۔ ’’ ہاں‘‘، ’’منظور ہے تو ٹھیک ورنہ یہاں سے چلے جاؤ اور مجھے عبادت کرنے دو۔‘‘پیاس کی شدت سے بادشاہ کو اپنا دم نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے نڈھال ہو کر کہا۔ ’’ مجھے منظور ہے، اب مجھے پانی دے دیں۔‘‘

    پانی پی کر بادشاہ کی جان میں جان آئی تو وہ بزرگ سے کہنے لگا۔ ’’وعدے کے مطابق اب میں بادشاہ نہیں رہا، آپ میری جگہ بادشاہ ہوگئے ہیں۔‘‘آپ میرے ساتھ محل چلیں اور تخت سنبھال کر مجھے وہاں سے رخصت کریں۔‘‘

    بادشاہ کی بات سن کر بزرگ نے مسکراتے ہوئے اور ایک بے نیازی کے ساتھ کہا۔ ’’ جس سلطنت کی قیمت ایک گلاس پانی ہو، اس کی حقیر بادشاہت لے کر میں کیا کروں گا؟‘‘ یہ سن کر بادشاہ بہت شرمندہ ہوا۔ اسے اپنی اصلیت کا علم ہو گیا تھا اور وہ جان چکا تھا کہ واقعی انسان کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں یا کوئی بڑی سلطنت لیکن جب وہ مجبور ہو تو اس کی قیمت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔

    باشاہ کے دل سے شان و شوکت اور اپنی امارت کا سارا ذوق و شوق اور ہر آرزو گویا جاتی رہی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آج اسے ہدایت ملی۔ بادشاہ نے ایک اچھے حکم راں کے طور پر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب اس بزرگ نے بادشاہ کو گھنے جنگل سے نکالا اور محل تک پنہچایا۔ اس موقع پر بادشاہ نے بزرگ سے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اور اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا رہے گا۔

    (ماخوذ از بادشاہ کی کہانیاں)

  • کہانی ایک جھیل کی…

    کہانی ایک جھیل کی…

    دور بہت دور، شہروں سے بہت دور، ایک ہرا بھرا، خوب صورت اور پرسکون جنگل تھا۔

    اس جنگل کے بیچوں بیچ ایک بہت حسین چھوٹی سی جھیل تھی۔ اس جھیل کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کی تہ میں اگے ہوئے پودے اور گھاس تک صاف نظر آتے تھے۔ جھیل کی تہ میں پڑے ہوئے پتھر بہت خوب صورت اور چمکیلے تھے۔ اس کی مچھلیاں اتنے پیارے رنگوں کی تھیں کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔

    جھیل کا پانی اتنا میٹھا تھا کہ جو ایک دفعہ پی لے بس وہیں کا ہو جائے۔ جھیل کے چاروں طرف گھنے اور اونچے اونچے درخت تھے جو ہوا میں اس طرح جھومتے تھے جیسے وہ جھیل کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ ان درختوں کے قدموں میں پودے اگے ہوئے تھے جن پر طرح طرح کے رنگ برنگے پھول کھلتے۔ ان پھولوں پر تتلیاں ناچتیں۔ بھونرے آتے، کیڑے مکوڑے اور مینڈک بھی وہاں خوشی خوشی رہتے تھے۔ درختوں پر پیارے پیارے پرندوں کا بسیرا تھا۔

    جھیل اور جنگل کی ہوا بہت صاف اور صحّت بخش تھی۔ جنگل کے درندے اور چرندے بھی وہاں پانی پینے آتے تھے تو اس کی خوب صورتی، سکون اور صاف اور میٹھے پانی سے اتنے متاثر ہوتے تھے کہ کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔

    یہ جنگل، یہ جھیل، اس کا پانی، اس کی ہوا، پودے، پرندے، پھول، کیڑے مکوڑے، مچھلیاں درخت اس کے پتھر اور اس کے جانور، یہ سب اس جھیل اور جنگل کے ماحول کا حصہ تھے۔ یہ ماحول ہماری دنیا کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک نعمت تھا۔

    لیکن پھر پتا ہے کیا ہوا؟ کس طرح انسانوں کو اس جھیل کے بارے میں پتا چل گیا اور انسانوں نے وہاں جانا شروع کردیا۔ جو لوگ شروع شروع میں وہاں گئے وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے نہ تو جھیل کو گندا کیا، نہ پھول توڑے اور نہ پرندوں کا شکار کیا۔ وہ لوگ جھیل پر جاتے، اس کی خوب صورتی، سکون اور اس کی صاف و شفاف اور صحت بخش ہوا سے لطف اٹھاتے اور واپس آجاتے۔

    یہ جھیل اتنی خوب صورت تھی کہ جلد ہی دور دور تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ یہ جھیل اتنی مشہور ہوگئی کہ ہزاروں انسانوں وہاں پہنچنے لگے۔ اوّل تو ان کی گاڑیوں اور بسوں کا دھواں وہاں کی ہوا کو گندا کرنے لگا۔ پھر لوگوں نے وہاں گندگی بھی پھیلانی شروع کردی۔ لوگ وہاں پکنک پر جاتے اور کھانے پینے کی بچی ہوئی چیزیں اور کچرا ادھر ادھر پھینک دیتے۔ جھیل کے پانی میں طرح طرح کی چیزیں پھینکتے، مچھلیاں پکڑتے، پرندوں کا شکار کرتے، پھول تو توڑتے ہی، پودے تک اکھاڑ لیتے۔ کھانا پکانے کے لیے گھاس، پتے اور درختوں کی ٹہنیاں جلاتے، جس کا دھواں بھی ہوا میں مل جاتا تھا۔

    یہ سب حرکتیں بہت بری تھیں اور انہیں پتا نہیں تھا کہ وہ کتنی بری بے وقوفی کر رہے ہیں۔

    اس ساری گندگی اور اوندھی سیدھی حرکتوں نے ماحول کو تباہ کردیا۔ صاف ہوا صاف نہ رہی۔ جھیل کا صاف اور میٹھا پانی کالا اور بدمزہ ہوگیا۔ تہ میں پڑے ہوئے رنگین پتھر کالے اور بدصورت ہوگئے۔ مچھلیاں مرنے لگیں۔ پرندے دوسرے علاقوں کو پرواز کر گئے۔ جانور دوسرے جنگل میں چلے گئے۔ تتلیاں غائب ہوگئیں۔ پودے اور سبزہ ختم ہوگیا۔ درختوں کے کٹنے سے مٹی ہوا میں اڑنے لگی۔ اس طرح ایک حسین جھیل اور پیارا ماحول برباد ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے پودوں، درختوں اور ہوا کا خیال نہیں رکھا۔ آلودگی یعنی گندگی پھیلائی۔

    جانتے ہو اس ساری آلودگی کا نتیجہ کیا نکلا؟ بارشیں ہونا بند ہوگئیں، کیوں کہ درختوں کے کٹنے سے بارش کم ہوجاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ پورے علاقے میں فصلیں تباہ ہوگئیں۔ کھیت سوکھ گئے۔ لوگ غریب ہوگئے۔ ان کے پاس کھانے کو اناج بھی کم رہ گیا۔

    اب تو لوگ بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ یہ کیا ہوا؟ اور کیسے ہوگیا؟ ادھر جنگل کے بچے کھچے پرندے اور جھیل کی مچھلیاں بھی چپکے چپکے روتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ ہمارا جنگل دوبارہ اگا دے، ہماری جھیل کا پانی صاف کردے، بارش برسا دے اور ان انسانوں کو اتنی عقل عطا فرمادے کہ وہ اپنے ماحول کی ساری آلودگیاں ختم کردیں۔

    آخر کچھ عقل مند لوگوں نے اس مسئلے پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب ہم انسانوں کی غلطی سے ہوا ہے۔ تب انہوں نے اعلان کروا دیا کہ کوئی بھی درخت کو نہ کاٹے۔ نہ تو گھاس اکھیڑے اور نہ خواہ مخواہ آگ جلائے۔ اس کے بعد سب نے فیصلہ کیا کہ ہر آدمی ایک درخت لگائے گا۔ لوگوں نے درخت لگائے۔ پودوں اور گھاس کی دیکھ بھال کی۔ بغیر ضرورت کے آگ جلانا بند کر دیا۔ آخر اللہ تعالی کو ان پر رحم آیا اور ایک روز بارش ہوئی۔ جھیل میں صاف پانی آگیا۔ پودے اور درخت دوبارہ اگنے لگے، لیکن آلودگی سے ماحول کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اتنی جلدی اور آسانی سے پورا نہیں ہوتا۔

    یہی وجہ ہے کہ جھیل ابھی تک پہلے کی طرح خوب صورت، صاف اور صحت بخش نہیں ہوسکی، لیکن اب وہاں کے لوگ اس کے ماحول کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور شاید ایک دن جھیل پھر اتنی ہی خوب صورت ہوجائے، اس کا پانی پہلے کی طرح صاف اور شفاف اور میٹھا ہوجائے۔

    آپ بھی اس کے لیے دعا کریں اور اگر آپ کے گھر کے پاس کوئی جھیل، کوئی درخت، پودے یا سبزہ ہے تو اس کو بچانے کی کوشش کریں۔ ہماری دنیا کو اس کی بہت ضرورت ہے۔

    (مصنّف: رؤف پاریکھ)

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)

  • چور

    چور

    رات کے دو بج رہے تھے۔ سلو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔

    ہُوا یوں تھا کہ اسکول سے واپس آ کر وہ سو گیا تھا۔ پھر رات کے کھانے کے بعد اس نے بھائی جان کے ساتھ کافی کی ایک پیالی پی لی تھی۔ اب بھائی جان تو رات دیر تک پڑھتے رہتے تھے، مگر وہ تو زیادہ سے زیادہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک سو جاتا تھا۔ وہ اپنے بستر پر نیم دراز، باہر تاروں بھری رات کا نظارہ کر رہا تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا اور چاندنی سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ سامنے باغ کے درخت بالکل خاموش تھے۔

    ایک دم سلو کو آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے نظریں گھما کر دیکھا اور باغ کی دیوار پر اس کی نگاہ ٹھہر گئی۔ ایک شخص دیوار پھاند کر اندر کودا اور بہت احتیاط سے دبے پاؤں گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ سلو صاحب کی تو جان ہی نکل گئی۔ اب وہ کیا کرے؟ اس وقت تو بھائی جان بھی سو گئے ہوں گے۔ وہ بہت احتیاط سے اٹھا اور چور کی طرح ہی دبے پاؤں چلتا ہوا نیچے بھائی جان کے کمرے میں آ گیا۔

    "کیا بات ہے سلو؟” بھائی جان نے پوچھا۔

    "شش بھائی جان!” سلو نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا۔ وہ ان کے بالکل قریب پہنچ گیا اور کان میں سرگوشی کر کے بولا۔

    "گھر میں چور گھس آیا ہے۔ بھائی جان بڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔

    "سلو اگر یہ مذاق ہے تو تمہاری خیر نہیں۔”

    "بھائی جان! میں مذاق نہیں کر رہا۔ میں نے خود ایک آدمی کو اندر کودتے دیکھا ہے۔ وہ باغ سے ہوتا ہوا گھر کی طرف آیا ہے۔”

    بھائی جان بستر سے نکلے اور کمرے سے باہر آ گئے۔ سلو ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ دونوں بغیر آواز بلند کیے گھر کی کھڑکیوں سے باہر جھانک رہے تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ چور اس وقت کہاں ہے۔ آخر سیڑھیوں کی کھڑکی سے وہ نظر آ گیا۔ باہر کچھ خالی ڈبے پڑے ہوئے تھے وہ انہیں ٹٹول رہا تھا۔ بھائی جان اور سلو نے اوپر بچوں کے کمرے میں آ کر چیکو اور نازک کو جگایا۔ پہلے تو انہوں نے بھائی جان کی بات کو مذاق سمجھا مگر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو دونوں خوف زدہ ہو گئے۔

    چیکو بھائی جان کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور نازک نے ذرا اونچی آواز میں کہا: ہائے اللہ! مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں تو ڈر سے مر ہی جاؤں گی۔ چور ہمیں مارے گا تو نہیں؟

    بھائی جان غصے سے بولے: "نازک! آہستہ بولو، ورنہ میں ایک تھپڑ لگاؤں گا۔”

    اس بات پر سلو اور چیکو کی ہنسی چھوٹ گئی۔ "کچھ شرم کرو۔ ہم مصیبت میں پھنسے ہیں اور تم ہنس رہے ہو۔” بھائی جان نے انہیں ڈانٹا مگر پھر خود بھی ہنس پڑے۔ "اب کیا کروں اس چور کا؟” وہ سوچنے لگے۔

    "بندوق ہوتی تو گولی ہی مار دیتے۔” سلو نے کہا۔ پھر چاروں نیچے اتر کر سیڑھیوں کی کھڑکی سے لگ کر چور کو دیکھنے لگے۔ وہ اب دوسری چیزیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی حرکات میں ایک بے چینی تھی۔ جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔ انہیں حیرت ہوئی کہ وہ کوڑے کی بالٹی بھی ٹٹول رہا تھا۔

    "کوئی ایسا طریقہ نہیں ہو سکتا کہ یہ خود ہی ڈر کے بھاگ جائے۔” چیکو نے کہا۔

    "نہیں ہمیں اس طرح کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔” بھائی جان نے کہا” سلو! وہ جال کہاں ہے جو میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے دریا پر لے جاتا ہوں؟”

    "باورچی خانے میں پڑا ہے۔”

    "بغیر آواز پیدا کیے وہ اٹھا لاؤ۔” سلو جلدی سے جال لے آیا۔ بھائی جان نے جال کی ،مضبوطی کو دیکھا اور پھر بچوں سے کہا: "دیکھو! یوں کرتے ہیں کہ میں چھت پر جاتا ہوں۔ سلو! تم جس طرح چچا حمید کی نقل اتارتے ہو، اسی بھاری آواز میں چور سے کہنا خبردار جو اپنی جگہ سے ہلے ورنہ گولی مار دوں گا۔ اس کی توجہ تمہاری طرف ہو گی تو میں اس پر جال پھینکوں گا اور خود بھی نیچے کود کر اس کو قابو کر لوں گا۔”

    "ٹھیک ہے بھائی جان!”

    "ذرا سی غلطی ہوئی تو ہم مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کے پاس بندوق ہے، پھر بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔”

    اب چور پر قابو پانے کی تیاری ہونے لگی۔ سلو، چیکو اور نازک باورچی خانے کی کھڑکی سے لگ کر کھڑے ہو گئے اور بھائی جان جال اور رسیاں کندھے پر ڈال کر چھت پر چڑھ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ چور اب باورچی خانے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف سلو نے دل کی دھڑکنوں کو قابو کیا اور چچا حمید کی آواز بنا کر کہا:

    "چور کے بچّے! اپنی جگہ سے نہ ہلنا ورنہ گولیوں کی بوچھاڑ سے تمہارا پیٹ اس طرح پھاڑوں گا کہ ڈاکٹر بھی نہیں سی سکے گا۔”

    چور ڈر کر پیچھے ہٹا اور بھائی جان نے اس پر جال پھینک دیا۔ وہ جال میں الجھ کر زمین پر گر گیا، اوپر سے بھائی جان نے کود کر اس کو قابو کر لیا۔ سلو اور چیکو بھی دروازہ کھول کر باہر آ گئے اور چور کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ وہ کراہنے لگا۔ بھائی جان نے جلدی جلدی اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھے اور اسے اٹھا کر کچن میں لے آئے۔ نازک نے بتی جلا دی۔ بھائی جان نے دروازہ بند کیا اور چور کو کرسی پر بٹھا کر رسیوں سے باندھ دیا۔

    "مجھے چھوڑ دو، خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔” چور چلّایا۔

    "اگر تم چاہتے ہو کہ میں یہ ڈنڈا مار کر تمہارا سر نہ کچل دوں تو خاموش رہو۔” سلو نے کہا۔

    جب بھائی جان نے اسے باندھ کر اپنا اطمینان کر لیا تو اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور اس کے سر پر سے جال اتار دیا۔

    اف اللہ کتنی سخت بو اٹھ رہی ہے پسینے کی۔ چور صاحب! آپ نہاتے نہیں ہیں؟ آپ کو اتنا تو خیال ہونا چاہیے کہ اگر آپ چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو آپ کو پکڑنے والوں کا اس بدبو سے کیا حال ہو گا۔” نازک نے اپنے نازک خیالات کا اظہار کیا۔ پھر وہ بھاگ کر اپنے کمرے سے پرفیوم لے آئی اور چور پر بہت سا پرفیوم چھڑک دیا۔ "ہاں اب کچھ بہتر ہے۔”

    "تم لوگ اس کی نگرانی کرو۔ میں پولیس کو فون کر کے آتا ہوں۔” بھائی جان جانے لگے تو چور بولا:

    "خدا کے واسطے پولیس کو فون نہ کرنا، میں تمہاری منت کرتا ہوں۔ میں پہلے ہی برباد ہوں اور برباد ہو جاؤں گا۔ جو جی چاہے سزا دے لو، مگر پولیس کو مت بلانا۔”

    "فضول باتیں نہ کرو۔ سزا دینا میرا کام نہیں ۔ تم نے رات کے وقت چوری کی نیت سے ہمارے گھر میں کود کر جرم کیا ہےجس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی۔” بھائی جان نے غصے سے کہا۔

    "تمہیں ان پیارے بچوں کی قسم، پولیس کو نہ بلانا۔ تم جو کہو گے میں کرنے کو تیار ہوں۔”

    "اچھا اگر ہم تمہیں بجلی کی تاروں کو گیلے کپڑے سے صاف کرنے کو کہیں تو کیا تم یہ کام کرو گے؟” چیکو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے۔

    "چھوڑیں بھائی جان پولیس کو "سلو نے کہا” میں اسے سزا دینے کے لیے کافی ہوں۔ اسے بیس گلاس پانی کے پلاتے ہیں۔”

    "گرم گرم چائے بنا کر اس کے سر پر انڈیل دیں۔” سلو نے ایک تجویز پیش کی۔

    "اس سے دس ہزار دفعہ لکھوائیں کہ میں آئندہ کبھی چوری نہیں کروں گا۔”

    نازک نے اپنا نازک سا مشورہ دیا۔ بھائی جان کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ پھر وہ چور کے سامنے سٹول پر بیٹھ گئے اور اس سے پوچھا:

    "کیوں بھئی! ان بچّوں کے سارے مشورے مان لیں یا پولیس کو فون کر دیں؟”

    یہ سنتے ہی چور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بھائی جان اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔

    "کیا ہوا ہے، کیوں روتے ہو؟”

    "میں تین دن سے بھوکا ہوں۔” اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر رہے تھے۔

    "تو پہلے بتاتے ناں اس وقت سے اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو، چلو خیر آج تم ہمارے مہمان ہو۔”

    سلو ٹوکری میں سے سیب نکال لایا اور چھیلنے شروع کیے۔ چیکو سیب کے ٹکڑے چور کے منہ میں ڈالتا جاتا تھا۔ وہ ہر ٹکڑے پر انہیں دعا دیتا تھا "جیتے رہو! اللہ کبھی تمہارا رزق تنگ نہ کرے۔” دوسری طرف نازک بھائی جان کی مدد کر رہی تھی۔

    "لو بھئی چور صاحب!” بھائی جان نے کہا "جتنی دیر ہم آپ کے لیے مرغ پکائیں، اتنی دیر آپ سلو اور چیکو کے ہاتھ سے سیب کھائیں۔ معاف کیجیے گا ابھی آپ کے ہاتھ نہیں کھولے جا سکتے۔”

    "کب سے چوریاں کر رہے ہو؟” سلو نے پوچھا۔

    "میں چور نہیں ہوں، مجبوری میں پہلی بار چوری کرنے نکلا تھا اور پہلی بار ہی پکڑا گیا۔”

    "اناڑی جو ہوئے "چیکو نے اس کے منہ میں سیب کا ٹکڑا ڈالتے ہوئے کہا۔ "ہمیں دیکھو! خانساماں مشکل سے مشکل جگہ بسکٹ چھپا کر رکھتا ہے پھر بھی ہم ڈھونڈ نکالتے ہیں۔” سب ہنسنے لگے۔ چور بھی ہنس پڑا۔

    "تمہیں کیا مجبوری ہے؟” بھائی جان نے کہا "اچھے خاصے جوان آدمی ہو۔ محنت کیوں نہیں کرتے؟”

    "بابو جی! اگر کوئی دن رات دل لگا کر محنت کرے اور پھر بھی اسے فاقے کرنے پڑیں تو آدمی کہاں جائے؟ میں تو اب خدا سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے بچّوں کو موت ہی دے دے۔”

    "اللہ رحم کرے، ایسا کیا ہو گیا تھا؟”

    "میں ایک کوٹھی میں خانساماں تھا۔ بہت بڑا گھر تھا۔ اس میں ایک ہی خاندان کے تیس افراد رہتے تھے۔ ہفتے کے سات دن میں ان سب کا تین وقت کا کھانا پکاتا تھا۔ سخت گرمی میں چولہے کے آگے کھڑے گھنٹوں گزر جاتے تھے۔ ان کے مرد چار چار روٹیاں کھاتے تھے۔ بچے وقت بے وقت کھانے کی فرمائشیں کرتے تھے۔ سب کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے مجھے روزانہ کئی طرح کے کھانے پکانے پڑتے تھے اور تنخواہ بہت کم تھی۔ میں مجبور تھا۔ مشقت کرتا رہا۔

    پھر ایک دن انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا۔ بڑے صاحب نے مار مار کر مجھے ادھ موا کر دیا۔ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس شرط پر پولیس کو خبر نہیں کریں گے کہ میں نقصان پورا کر دوں۔ وہ لوگ طاقت ور تھے اور میں کم زور۔ کیا کرتا؟ اپنا سب کچھ بیچ کر میں نے ان کے پیسے پورے کیے۔ تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے۔ میرے بچّے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ مجھ سے ان کا رونا نہیں دیکھا جاتا۔” اس کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے۔ سبھی اس کی درد بھری داستان سن کر متاثر ہو گئے۔ نازک کی آنکھوں میں تو آنسو آ گئے۔

    "فکر نہ کرو۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔” بھائی جان نے اسے تسلی دی۔

    سلو اور چیکو اٹھ کر اپنے کمرے میں گئے۔ اپنی پرانی کتابیں اور اپنی الماری سے فالتو کپڑے اور جوتے ایک تھیلے میں ڈال کر لے آئے۔ بھائی جان نے پہلے ہی اپنے کچھ کپڑے اور جوتے خیرات کرنے کے لیے الگ کر کے رکھے تھے۔ وہ بھی لا کر رکھ دیے گئے۔ انہوں نے فریج میں سے تقریباً سارا سامان پنیر، ڈبل روٹیاں، انڈے، سبزیاں، دودھ اور گوشت وغیرہ نکال کر اس کے لیے باندھ دیا۔

    مرغ تیار ہو گیا تو بھائی جان نے سلو اور چیکو کو دے دیا۔ وہ نوالے توڑ توڑ کر چور کو کھلانے لگے۔ دو تین نوالے کھانے کے بعد چور بڑی عاجزی سے بولا:

    "بابو جی! جب تک میرے بچّے فاقہ کر رہے ہیں۔ میں بے چین رہوں گا۔ آپ کی بڑی مہربانی مجھے جانے دیں تاکہ میں جلدی سے بچّوں تک کھانا پہنچا سکوں۔”

    بھائی جان نے اس کی رسیاں کھول دیں پھر وہ سامان اٹھا کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ بچّے اور بھائی جان اسے باہر جاتے دیکھ رہے تھے۔ وہ مسلسل آنسو بہا رہا تھا اور انہیں دعائیں دیتا جا رہا تھا۔

    "ویسے میری بڑی خواہش تھی کہ کبھی چور سے مقابلہ ہو اور میں کرکٹ کے بیٹ سے اس کی مرمت کروں۔ مگر یہ چور تو بےچارہ شریف نکلا۔” سلو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے اور اپنے بستروں پر سونے چلے گئے۔

    (مؤلفہ سیّدہ شگفتہ)