Tag: بچوں کا ادب

  • سرائے والی بڑھیا

    سرائے والی بڑھیا

    شیشم کے درختوں کے گھنے جنگل کے کنارے سندیل پور نامی ایک سرسبز قصبہ واقع ہے۔ شہری لوگ یہاں سے عمارتی لکڑی خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہاں تین چار مال دار آڑھتی رہتے ہیں۔

    اس قصبے کی طرف ایک پکّی سڑک بھی جاتی ہے، جس پر کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ کچھ فاصلے پر کچی سڑک ہے، جس سے فاصلہ دس بارہ میل کم ہو جاتا ہے، لیکن اس کچی سڑک پر جیپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہی چل سکتی ہیں۔

    دو برس پہلے جب دو صحافی کسی دوست کی شادی میں سندیل پور گئے تھے تو انھوں نے یہی کچا راستہ اختیار کیا تھا۔ وہ دونوں موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ اس کچی سڑک پر صرف ایک جھگی نما سرائے تھی۔ ان دونوں صحافی دوستوں نے وہاں ٹھہر کر چائے پی تھی۔

    اس جھگی سرائے کی مالکہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ اب دوسری بار وہ دونوں اسی راستے سے سندیل پور جا رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ جھگی سرائے کی جگہ ایک پکی عمارت کھڑی ہے، جس پر "سندیل پور سرائے” لکھا تھا۔

    دونوں دوست موٹر سائیکلوں کو سائے میں کھڑی کر کے سرائے کے اندر گئے۔ اندر وہی بڑی بی موجود تھیں۔ صاف ستھری چینی کی پیالیوں میں چائے لائی گئی۔ ایک صحافی سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ ہی لیا: "اماں جی! یہ تو بتائیں کہ یہ کایا کیسے پلٹی، کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا کیا؟”

    بڑی بی بولیں: "اللہ جب دینے پر آتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے۔”

    دوسرے صحافی نے کہا: "تو پھر اپنی کہانی سنا ڈالیں۔ اگر مزے دار ہوئی تو میں اپنے اخبار میں چھپوا دوں گا۔ لوگ پڑھیں گے، سندیل پور سرائے کی شہرت ہوگی اور بیٹھے بٹھائے آپ کی آمدنی بڑھ جائے گی۔ تو پھر شروع کریں اپنی کہانی۔”

    بڑی بی کی سمجھ میں بات آ گئی اور وہ بولیں: "بیٹا! میرا میاں بہت بوڑھا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ اور جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں اپاہج ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ بکریاں تھیں۔

    ایک دن وہ انھیں چرانے لے گیا تو جنگل میں اسے ایک چھوٹی سی شیشی ملی، جس میں سفید پوڈر سا تھا۔ میرا میاں وہ شیشی اٹھا لایا کہ شاید یہ کوئی دوا ہے۔ دوسرے دن جنگل میں ایک مردہ آدمی ملا۔ پولیس نے بتایا کہ اس آدمی نے زہر کھا کر خود کشی کی ہے۔ میرے میاں نے وہ شیشی طاق کے کونے میں رکھ دی۔ جب اس کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا تو زہر کھا کر مر جانے کی بات کرتا۔ میں نے وہ شیشی چھپّر کے کونے میں چھپا دی۔ کچھ دن بعد وہاں فاختہ کے جوڑے نے گھونسلا بنا لیا۔”

    بڑی نے تھوڑا رک کر کہا: "اب آگے کی سنو کہ کس طرح کہانی کے تانے بانے بنتے چلے گئے۔ ڈیڑھ دو سال گزرے تھے کہ سرائے کے آگے ایک سبز رنگ کی جیپ آ کر رکی۔ دو مسٹنڈے جوان اتر کر سرائے میں آ گھسے۔ تیسرے آدمی نے جیپ درختوں کے پیچھے چھپا کر کھڑی کر دی اور خود بھی سرائے میں آ گیا۔

    ایک آدمی نے ساتھ لائے ہوئے تھیلے میں سے دو ذبح کیے ہوئے مرغے نکالے اور مجھے حکم دیا کہ جا بڑھیا! جلدی سے یہ مرغے بھون لا۔ پھر وہ تینوں آدمی ایک چار پائی پر بیٹھ کر بھنے ہوئے مرغوں کا انتظار کرنے لگے۔ میں کھانا پکانے لگی۔ اتنے میں ایک آدمی نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور تینوں اس پر جھک کر کانا پھوسی کرنے لگے۔ مجھے وہ لوگ اٹھائی گیر لگ رہے تھے۔ میں مرغے بھون کر لائی تو وہ منٹوں میں چٹ کر گئے اور مجھے حکم دیا کہ اے بڑھیا! کھڑی کیا دیکھ رہی ہے۔ تھوڑی سی کھیر بنا کر لا۔ ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ تھوڑی دیر میں کھیر تیار ہو گئی۔ وہ بھی انھوں نے چٹ کر ڈالی۔

    ایک آدمی بولا: "بکری کے دودھ کی بہت مزے دار تھی۔ جا! پوری دیگچی اٹھا لا۔ "میں دیگچی لا رہی تھی تو وہ خود دیگچی کی طرف لپکا۔ چھپرے کے گھونسلے سے ایک فاختہ پھڑ پھڑا کر اڑی اور وہ چھوٹی سی سفید پوڈر والی شیشی کھیر کی دیگچی میں آ پڑی۔ اس آدمی نے دیگچی چھین لی۔ میں اسے روکتی رہ گئی۔ ان تینوں نے ساری دیگچی صاف کر ڈالی تب میں کیا دیکھتی ہوں کہ وہ تینوں فرش پر ذبح کیے مرغوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اتنے میں چار جیپ گاڑیاں سرائے کے سامنے رکیں اور دس بارہ پولیس والے سرائے میں گھس آئے۔ انھوں نے اب تینوں اٹھائی گیروں کو ہتھکڑیاں لگا دیں۔ ایک پولیس والے نے ان کی سبز جیپ بھی ڈھونڈ نکالی۔ تینوں اٹھائی گیروں کی حالتیں بہت بری تھیں، لہٰذا انھیں ایک جیپ میں فوراً اسپتال کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

    تھانے دار صاحب نے کہاَ: "بڑی بی تم نے وہ کام کر دکھایا۔ جو ہم نہیں کر سکے۔ ان تینوں نے ہم پولیس والوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ یہ تینوں اشتہاری ڈاکو ہیں۔ ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر دس دس ہزار روپے کا سرکاری انعام ہے۔” اس واقعہ کے ہفتہ بھر بعد چند پولیس افسر آئے اور مجھے تیس ہزار روپے دے گئے۔ میں اتنی بڑی رقم چھپا کر کہاں رکھتی۔ یہ روپے سندیل پور کے ایک ایمان دار آڑھتی کے پاس رکھوا دیے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو اپنے شوہر کا شہر لے جا کر علاج کراؤ۔ باقی روپوں سے پکی سرائے بنواؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ رقم محفوظ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔

    بیٹا! تمہیں یہ کہانی لگتی ہو گئی، مگر یہ سچّی کہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملتی جاتی ہے۔ مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ میرا میاں صحت مند ہو جائے گا اور میری جھگی سرائے پکی سندیل پور سرائے بن جائے گی۔ یہ سب مرے اللہ کا کرم ہے۔ دن رات میں اللہ تعالیٰ کے گن گاتی رہتی ہوں۔

    (مصنّف: فتح علی انوری)

  • ایک گیند پر پندرہ رن!

    ایک گیند پر پندرہ رن!

    میں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ یہ کہانی کرکٹ کی نہیں، کتّے کی ہے۔

    ہمارے بھائی جان نے ایک کتّا پال رکھا تھا۔ لاکھوں کتّوں کی طرح اس کا نام بھی موتی تھا۔ لیکن بھائی جان کا خیال تھا کہ وہ لاکھوں میں ایک تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ بھائی جان کا ذرا زیادہ ہی لاڈلا تھا۔ اسے نہلاتے، دھلاتے، ٹہلانے لے جاتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے۔

    موتی بھی ان کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا۔ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا، ان کے جوتے اٹھا کر لاتا، ان کے سودے کی ٹوکری اٹھا کر چلتا، اور ان کے اشاروں پر طرح طرح کے کرتب بھی دکھاتا۔ بھائی جان بھی ہروقت اسے سدھارنے کی فکر میں رہتے۔ ان کا بس چلتا تو موتی کو پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیتے۔

    میرے خیال میں موتی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بھائی جان کی کرکٹ ٹیم کا اہم کھلاڑی تھا۔ گیند تو وہ بڑی خوب صورتی سے سنبھالتا۔ بس ہاتھ میں بلّا پکڑنے کی کسر تھی۔ موتی بھائی جان کے بہت سے کام کرنے لگا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ گیند کو ہٹ لگا کر وہ خود تو کھڑے رہیں اور ان کی جگہ موتی دوڑ دوڑ کر رن بنائے۔

    ایک دن بھائی جان کسی ٹیم کے خلاف دوستانہ میچ کھیل رہے تھے۔ بیٹنگ کرتے ہوئے، انھوں نے اپنے دوست کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی۔ موتی سمجھا کہ اسے بلایا گیا ہے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جھٹ میدان میں کود پڑا۔ اسی دوران بھائی جان نے ایک چوکا مارنے کی کوشش کی۔ گیند ابھی باؤنڈری لائن تک نہیں گئی تھی کہ موتی نے اسے اپنے منہ میں دبوچ لیا اور رن بناتے بھیا کے ساتھ خود بھی دوڑنا شروع کردیا۔

    اب عالم یہ تھا کہ میدان میں ایک کتّا اور دو کھلاڑی سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور سارے تماشائی پیٹ پکڑ کر ہنس رہے ہیں اور ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جارہے ہیں۔ تو اس طرح موتی نے ایک گیند پر پندرہ رن بنانے میں مدد کی۔

    بھائی جان بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

    (از: عبدالحمید بھکر)

  • حقّا تُو مولٰی تُو…

    حقّا تُو مولٰی تُو…

    کہتے ہیں بعض پرندوں کی بولیاں اور جو مختلف آوازیں وہ اکثر نکالتے ہیں، وہ بے مقصد، مہمل اور لایعنی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا اور ایسے کلمات ادا کرتے ہیں جو غور سے سننے پر ہماری سمجھ میں بھی آسکتے ہیں۔

    ایسی کئی کہانیاں اور حکایات مشہور ہیں جنھیں ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ یہ لیلیٰ خواجہ بانو کی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس کے کردار فاختہ اور کوّا ہیں۔

    یہ دل چسپ اور سبق آموز والدین اپنے بچّوں کو سنا سکتے ہیں۔

    بچاری فاختہ جہاں دیکھو دیوار پر حقّا تو حقّا تو کہا کرتی ہے۔ اصل میں یہ اللہ میاں سے فریاد کرتی ہے۔ کیوں کہ کوّے نے اس پر بڑاظلم کیا ہے۔

    سنا نہیں؟ لوگ کہا کرتے ہیں محنت کریں بی فاختہ، کوّا میوہ کھائے۔ اس کی کہانی اس طرح ہے کہ ایک دفعہ کوّے اور فاختہ نے مل کر باغ لگایا تھا اور دونوں محنت اور نفع میں ساجھے تھے۔

    پہلے دن جب باغ میں پودے لگانے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس گئی اور اس سے کہا چل کوّے چل کر باغ میں درختوں کے پودے لگائیں۔ کوّے نے جواب دیا۔

    تُو چل میں آتا ہوں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو کو پیتا ہوں، پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے کوّے کی بہت راہ دیکھی۔ جب وہ نہ آیا تو اس نے خود اکیلے ہی محنت کر کے پودے لگا دیے۔ اس کے بعد باغ میں پانی دینے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس پھر گئی کہ چلو چل کر پانی دے آئیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا کہ:

    تو چل میں آتا ہوں، ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو پیتا ہوں پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے پھر بہت راہ دیکھی مگر کوّا نہ آیا تو بچاری نے خود ہی پانی بھی دے لیا۔ اس کے بعد باغ کی رکھوالی کا وقت آیا۔ تب بھی کوّے نے یہی جواب دیا۔ جب میوہ پک گیا تو فاختہ پھر گئی کہ چلو چل کر میوہ توڑ لائیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا۔

    فاختہ نے میوہ توڑنے کی محنت اٹھائی اور میوہ باغ میں ایک جگہ جمع کردیا۔ دوسرے دن کوّے کے پاس گئی کہ چلو چل کر میوہ لائیں تو کیا دیکھتی ہے کہ کوّا گھر سے غائب ہے۔ وہ فوراً باغ میں گئی تو دیکھا سارا میوہ کوئی لے گیا۔ یعنی کوّا اس کے آنے سے پہلے آیا اور سب میوہ اٹھا کر کسی اور گھر میں لے گیا۔

    فاختہ بے چاری بہت روئی پیٹی۔ مگر کیا کر سکتی تھی۔ خدا کے سوا کوّے سے بدلہ کون لے سکتا تھا۔ اس واسطے وہ اس دن سے جب بولتی ہے یہی بولتی ہے، حقّا تُو، حقّا تُو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الہٰی تُو حق ہے، میرا حق کوّے سے دلوا۔

  • پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    آج جب کہ ہر بچّے کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے جس پر مختلف گیمز اور اسی نوع کی تفریحات ان کا مشغلہ ہیں تو والدین کو یہ بھی فکر ہے کہ ان کی ذہنی و فکری تربیت، کردار سازی کیسے ممکن ہو۔

    وہ اپنے زمانے کی طرف دیکھتے ہیں جب انھیں ان کے دادا دادی، والدین وغیرہ کہانیاں سناتے تھے اور ان کی ذہانت اور فکر و نظر کو تحریک دینے کے ساتھ اخلاقی تربیت کرتے تھے۔ زمانہ تو بدل گیا ہے، مگر سبق آموز کہانیوں اور ایسے قصّوں کی اہمیت آج بھی برقرار ہے جو بچّوں کے لیے باعثِ کشش ہوں۔

    یہاں ہم ایک نہایت دل چسپ کہانی نقل کررہے ہیں جسے والدین اپنے بچّوں کو سنا کر ان کی تفریحِ طبع کا سامان کرسکتے ہیں۔

    کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ کسان کا نام تھا منسا اور اس کی بیوی کا گریا۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ اچھا خاصا تھا مگر گھر میں کام کرنے والے آدمی کم تھے۔ اس لیے ہمیشہ دوسروں سے یا تو مزدوری پر کام لینا پڑتا تھا یا میٹھی بات کر کے کام نکلوانا پڑتا تھا۔

    بیساکھ کا مہینہ تھا۔ منسا کے کھیتوں میں گیہوں کی فصل خوب ہوئی تھی۔ اور کھیت کٹ بھی چکے تھے۔ اب بالیوں پر دائیں چلا کر دانے نکالنا باقی تھا۔ دوسرے سب کسان بھی اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔ تم جانو ان دنوں جب فصل کٹتی ہے تو سب ہی کو تھوڑا بہت کام ہوتا ہے۔

    اس نے بہتیرا چاہا کہ کوئی مزدور ملے مگر نہ ملا۔ ادھر آسمان پر دو ایک دن سے بادل آنے لگے اور ڈر تھا کہ کہیں پانی پڑ گیا تو سب دانے خراب ہوجائیں گے۔

    بیچ میں ایک دن کوئی تہوار آگیا۔ سب کسانوں نے اپنے یہاں کام بند رکھا۔ اس گاؤں میں بہت سے آدمیوں کی چھٹی ہوگئی۔ منسا ان کے پاس گیا اور مشکل سے پانچ آدمیوں کو پھسلا کر لایا کہ بھائی ہماری دائیں چلا دو۔ گھر میں بیوی سے کہا کہ تہوار کا دن ہے۔ یہ لوگ آج کام کو آئے ہیں، انھیں پوریاں کھلانا ہے۔ کوئی گیارہ بجے بیوی نے چولھے پر کڑھائی چڑھائی۔ کئی پلی کڑوا تیل کڑھائی میں ڈالا، آٹے کی چھوٹی سی ٹکیا بنا کر پہلے تیل میں ڈالی اور تیل گرم ہو کر کڑکڑانے لگا تو یہ ٹکیہ نکال لی۔ اس سے کڑوے تیل کی ہیک کم ہوجاتی ہے۔

    اب بیلن سے بیل بیل کر کڑھائی میں پوریاں ڈالنی شروع کیں۔ کچھ پوریاں پک گئیں تو باورچی خانے میں کسان کا بیٹا بدھو جانے کہاں سے آیا اور ادھر ادھر چیزیں کھکورنے لگا اور ناک سے برابر سڑ سڑ سڑ سڑ کرتا جاتا تھا۔ ناک بہہ رہی تھی۔ ماں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور پلّو سے اس زور سے ناک پونچھی کہ بدھو کن کن کرتا ہوا باورچی خانے سے چل دیا۔

    کڑھائی میں جو پوری پڑی تھی وہ اتنی دیر میں جلنے لگی اور اسے برا لگا کہ بدھو کی ماں نے اس کا ذرا خیال نہ کیا اور اتنی دیر جلتے ہوئے تیل میں اسے رکھ کر تکلیف دی۔ بدھو کی ماں نے جلدی سے جو اسے پلٹنا چاہا تو یہ اور چڑ گئی اور جھٹ سے کڑھائی میں کود کر بھاگ کھڑی ہوئی کہ تم بدھو کی ناک پونچھو میں تو جاتی ہوں۔

    بدھو کی ماں نے بہت چاہا کہ اسے پکڑے مگر وہ کہاں ہاتھ آتی۔ جھٹ گھر میں سے نکل کھیت کی طرف بھاگی۔ راستے میں منسا اور اس کے پانچوں دوست دانوں پر دائیں چلا رہے تھے۔ یہ پوری ان کے پاس سے گزری اور کہا کہ میں بدھو کی ماں سے بچ کر کڑھائی سے نکل کر آئی ہوں تم سے بھی بچ کر نکلوں گی۔ لو مجھے کوئی پکڑو تو۔‘‘

    ان آدمیوں نے جب دیکھا کہ اچھی پکی پکائی پوری یوں پاس سے بھاگی جارہی ہے تو کام چھوڑ کر اس کے پیچھے ہو لیے مگر وہ بھلا کہاں ہاتھ آتی۔ یہ سب دوڑتے دوڑتے ہانپ گئے اور لوٹ آئے۔

    کھیت سے نکل کر پوری کو بنجر میں ایک خرگوش ملا۔ اسے دیکھ کر پوری بولی۔ ’’میں تو کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، اور چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر آئی ہوں۔ میاں چھٹ دُمے خرگوش تم سے بھی نکل بھاگوں گی۔‘‘

    خرگوش کو یہ سن کر اور ضد ہوئی اور اس نے بڑی تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور سچی بات تو یہ ہے کہ بی پوری ایک بھٹ میں نہ گھس گئی ہوتیں تو اس چھٹ دُمے نے پکڑ ہی لیا تھا۔ مگر بھٹ میں یہ لومڑی کے ڈر سے نہ گیا۔

    پوری جو بھٹ میں گھسی تو واقعی اس میں لومڑی بیٹھی تھی۔ اس نے جو دیکھا کہ یہ ایک پوری گھسی چلی آتی ہے تو جھٹ اٹھ کھڑی ہوئی کہ اب آئی ہے تو جائے گی کہاں۔ مگر پوری الٹے پاؤں لوٹی اور یہ کہتی ہوئی بھاگی’’ میں تو کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر، اور میاں چھٹ دُمے خرگوش کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ بی مٹ دُمی لومڑی میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔‘‘

    لومڑی نے کہا، ’’کہاں جاتی ہے ٹھہر تو۔ تیری شیخی کا مزہ تجھے بتاتی ہوں۔‘‘ اور پیچھے لپکی۔ مگر پوری تھی بڑی چالاک۔ اس نے جھٹ سے ایک کسان کے مکان کا رخ کیا اور لومڑی بھلا کتّوں کے ڈر کے مارے ادھر کیسے جاتی۔ ناچار رک گئی۔

    کسان کے مکان کے قریب ایک دبلی سی بھوکی کتیا اور اس کے پانچ بجے ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ انھوں نے بھی ارادہ کیا کہ اس پوری کو چٹ کریں۔ پوری نے کہا ’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی اماں سے بچ کر چھ جوان جوان مردوں کو ہرا کر میاں چھٹ دمے خرگوش کو الّو بنا کر اور مٹ دمی لومڑی کو چونا لگا کرآئی ہوں۔ اجی بی بی لپ لپ، میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔ ‘‘

    کتیا بڑی ہوشیار تھی۔ آگے کو منہ بڑھا کر جیسے بہرے لوگ کرتے ہیں، کہنے لگی، ’’بی پوری کیا کہتی ہو۔ میں ذرا اونچا سنتی ہوں۔ ‘‘ پوری ذرا قریب کو آئی اور کتیا نے بھی بہروں کی طرح اپنا منہ اس کی طرف اور بڑھایا۔

    پوری پھر وہی کہنے لگی۔’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر چھ چھ جوان جوان مسٹنڈوں کو تھکا کر، میاں چھٹ دمے خرگوش اور بی مٹ دمی لومڑی کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ اجی بی لپ لپ ۔۔۔‘‘ اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ کتیا نے منہ مارا’ ’حپ‘‘ اور آدھی پوری اس کے منہ میں آگئی۔ اب جو آدھی پوری بچی تھی وہ ایسی تیزی سے بھاگی اور آگے جاکر نہ معلوم کس طرح زمین کے اندر گھس گئی کہ کتیا ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھک گئی مگر کہیں پتہ نہ چلا۔

    کتیا نے اپنے پانچوں بچّوں کو بلایا کہ ذرا ڈھونڈو تو لیکن بی پوری کا کہاں پتہ لگتا ہے۔ اس کتیا نے اور اس کے بچّوں نے ساری عمر اس آدھی پوری کو ڈھونڈا مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملی۔ ابھی تک سارے کتّے اسی آدھی پوری کی تلاش میں ہروقت زمین سونگھتے پھرتے ہیں کہ کہیں سے اس کا پتہ چلے تو نکالیں۔ اس نے ہماری دادی امّاں کو دھوکہ دیا تھا، مگر اس آدھی پوری کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔

  • ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لیے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔

    بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا۔

    ہوا یوں کہ منگو خریداری کر کے گھر واپس جارہا تھا تو ایک کالے بونے نے اسے پکڑ کر بوری میں بند کردیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ جب اسے بوری سے باہر نکالا گیا تو وہ ایک قلعے نما گھر میں تھا۔

    کالے بونے نے اسے بتایا کہ وہ آج سے بونے کا باورچی ہے۔ مجھے جام سے بھرے ہوئے کیک اور بادام پستے والی چاکلیٹس پسند ہیں۔ میرے لیے یہ چیزیں ابھی بناؤ۔ بے چارہ منگو سارا دن کیک اور چاکلیٹس بناتا رہتا، کیوں کہ کالے بونے کو اس کے علاوہ کچھ بھی پسند نہ تھا۔ وہ سارا دن مصروف رہتا۔ وہ اکثر سوچتا کہ یہ کالا بونا کون ہے؟

    ’’آپ کون ہیں ماسٹر؟‘‘ ایک دن منگو نے اس سے پوچھا۔ کالے بونے نے کہا’’اگر تم میرا نام بوجھ لو تو میں تمہیں جانے دوں گا، لیکن تم کبھی یہ جان نہیں پاؤگے!‘‘

    منگو نے ایک آہ بھری، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ کالے بونے کا اصل نام کبھی نہیں جان پائے گا، کیوں کہ اسے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی کہ وہ دوسرے بونوں ہی سے کچھ معلوم کرسکتا۔ اس نے کچھ تکے لگائے۔

    ایک دن کالا بونا باہر گیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور وہ تالا لگا کر چلا گیا۔ منگو جانتا تھا کہ وہ باہر نہیں جاسکتا، کیوں کہ وہ پہلے بھی کوشش کر چکا ہے، مگر ناکام رہا تھا۔ وہ ایک قیدی بن چکا تھا۔ اس نے ایک آہ بھری اور پھر جلدی جلدی کام کرنے لگا۔

    اسے کام کرتے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس نے اپنی چڑیا کے گانے کی آواز سنی۔ وہ وہی گانا گا رہی تھی، جو منگو کو پسند تھا۔ منگو نے کھڑکی سے باہر دیکھا، چڑیا ایک درخت پر بیٹھی تھی۔

    ’’پیاری چڑیا! وہ چلّایا، میں یہاں ہوں۔ اوہ کیا تم مجھے تلاش کر رہی تھیں؟ کیا تم نے اپنی روٹی کے ٹکڑے یاد کیے؟ میں یہاں قید ہوں۔ میں یہاں سے اس وقت ہی نکل سکتا ہوں، جب میں کالے بونے کا نام معلوم کرلوں، جس نے مجھے یہاں قید کیا ہوا ہے۔‘‘ اسی وقت کالا بونا واپس آگیا۔ منگو بھاگ کر تندور کے پاس چلا گیا۔ چڑیا کچھ منٹ تک وہاں بیٹھی گانا گاتی رہی اور پھر اڑ گئی۔

    چڑیا نا خوش تھی۔ وہ پیارے منگو سے بہت مانوس تھی، کیوں کہ وہ اس سے پیار کرتا تھا اور گانا بھی شوق سے سنتا تھا۔ اب صرف چڑیا ہی تھی جو منگو کو باہر نکالنے کی کوشش کرسکتی تھی مگر کیسے؟

    چڑیا نے سوچا کہ وہ کالے بونے کا پیچھا کرے گی اور دیکھے گی کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ اگلے دن جب کالا بونا باہر نکلا تو وہ اس کے پپیچھے ہو لی۔ آخر کار بونا ایک گھر پر رکا، چڑیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گھر کا دروازہ ایک بلّی نے کھولا، جس کا رنگ کالا اور آنکھیں سبز تھیں۔ چڑیا سوچنے لگی کہ دیکھوں کہ یہ کالی بلّی کب بونے کو پکارے گی۔ کالا بونا کچھ دیر وہاں رکا اور پھر چلا گیا۔ چڑیا بھی جانے والی تھی کہ اس نے بلّی کو گاتے سنا۔ وہ اون بُن رہی تھی اور گاتی بھی جارہی تھی۔ وہ گانا بہت عجیب تھا۔

    پہلا انگور کا دوسرا سیب کا
    دوسرا انار کا تیسرا ٹماٹر کا
    تیسرا جامن کا چوتھا لیچی کا
    چوتھا نارنگی کا چوتھا خوبانی کا
    پہلا میرا، دوسرا ان کا، تیسرا ہمارا
    دوسرا آم کا اور تیسرا آڑو کا
    کھیلو گے تو بن جائے گا کام
    ہوسکتا ہے مل جائے اس کا نام

    کالی بلّی یہ گانا گاتی جارہی تھی اور چڑیا سنتی رہی۔ یہاں تک کہ اسے بھی یہ گانا یاد ہوگیا۔ چڑیا اڑ کر قلعے کے پاس جا پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ منگو کالے بونے کے لیے کھانا سجا رہا ہے اور اس سے باتیں بھی کر رہا ہے۔

    اگلے دن چڑیا کالے بونے کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور جب وہ چلا گیا تو اس نے گانا شروع کیا، منگو اس کی آواز سن کر کھڑکی کے پاس آیا اور جب اس نے یہ عجیب گانا سنا تو حیران رہ گیا کہ آج چڑیا دوسرا گانا کیوں گا رہی ہے۔ منگو سمجھ گیا کہ چڑیا گانا گا کر اس کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

    منگو جلدی سے ایک پینسل اور کاغذ لے آیا اور گانا سن کر لکھنے لگا اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اس گانے میں کیا نام چھپا ہے۔ الفاظ کچھ یوں تھے۔

    پہلا انگور کا۔ الف، دوسرا سیب کا، ی، دوسرا انار کا۔ ن، تیسرا ٹماٹر کا۔ الف، تیسرا جامن کا۔ م، چوتھا لیچی کا۔ ی، چوتھا نارنگی کا۔ ن، چوتھا ہی خوبانی کا۔ الف، پہلا میرا یعنی۔ م، دوسرا ان کا۔ ن، تیسرا ہمارا۔ الف، دوسرا آم کا۔ م اور تیسرا آڑو کا و!‘‘

    اس نے حروف کو لفظ کی شکل میں لکھا اور پھر اسے پڑھنے کی کوشش کی۔

    اینا، مینا، منا مو!

    ’’تو یہ ہے کالے بونے کا نام! وہ خوشی سے چلایا’’میں نے کبھی یہ نام سوچا بھی نہیں تھا۔ چڑیا جلدی سے اڑ گئی، کیوں کہ اس نے کالے بونے کی آواز سن لی تھی۔ وہ اندر داخل ہوا اور یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگیا کہ منگو کیک بنانے کی بجائے میز پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے۔

    ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ دھاڑا۔

    ’’کیا تمہارا نام بھوری بلّی ہے؟‘‘ منگو نے جان بوجھ کر پوچھا۔ ’’نہیں نہیں‘‘ کالا بونا بولا، ’’جا کر کام کرو۔‘‘ کالا بونا پوری قوّت سے چیخا اور کہا، ’’میرے کیک کہاں ہیں؟‘‘

    ’’کیا تمہارا نام ’’اینا، مینا، منا، مو‘‘ ہوسکتا ہے؟‘‘ منگو خوشی سے چیخا۔

    کالے بونے نے منگو کو گھورا اور ڈر سے پیلا ہوگیا، تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔ تمہیں میرا راز معلوم ہوگیا ہے تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ منگو خوشی سے باہر بھاگا۔

    وہ سارے راستے کودتا پھلانگتا، اپنے گھر پہنچا۔ اس نے اپنے باغ کے دروازے پر چڑیا کو اپنا منتظر پایا۔ منگو نے چڑیا کا بہت شکریہ ادا کیا کہ یہ رہائی صرف اس کی وجہ سے ملی ہے۔ اب منگو کی دوستی چڑیا سے مزید گہری ہوگئی اور وہ روز اس کا گانا سنتا اور اسے روٹیاں بھی کھلاتا۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • کھلونوں کی شکایت

    کھلونوں کی شکایت

    بچپن میں ہم سب ہر پریشانی، غم اور ہر طرح کے مسائل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ بچّوں کو فکر ہوتی ہے تو صرف اپنے کھیل کود کی اور نئے نئے کھلونے جمع کرنے کی۔

    اردو ادب میں بچّوں کی تفریح کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ادیبوں نے کہانیاں لکھی ہیں جن میں سے ایک ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    یہ کہانی والدین بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں یا جو بچّے اردو پڑھنا جانتے ہیں، انھیں اے آر وائی کی ویب سائٹ پر خود اس کہانی کو پڑھنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ سادہ زبان اور عام فہم انداز میں لکھی گئی یہ کہانی نہایت دل چسپ ہے اور بچّوں میں شعور اور احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

    اس کا عنوان ہے ’’کھلونوں کی شکایت۔‘‘ آئیے کہانی پڑھتے ہیں۔

    ’’یااللہ! میں اور کتنے دن یوں پلنگ کے نیچے گندی سندی پڑی رہوں گی؟‘‘ نوری نے آزردگی سے سوچا۔

    ابھی پچھلے دنوں ہی زینب نے اس کی شادی کا کھیل کھیلا تھا۔ خوب صورت لال رنگ کا لہنگا اور سنہری بیل والا دوپٹہ پہنا کر اس کو دلہن بنایا تھا۔ سَر پر ستاروں کا ٹیکا اور گلے میں موتیوں کا ہار تھا۔

    زینب کی ساری سہیلیوں نے اس کی تعریفیں کی تھیں اور اب کوئی اس کا یہ حلیہ دیکھے۔ دوپٹہ غائب، لہنگا دھول مٹی میں اٹا اور ٹیکا سنہری بالوں میں الجھا اور گلے کا ہار ٹوٹ کر موتی ادھر ادھر پڑے تھے، لیکن زینب کو کچھ خیال ہی نہیں تھا کہ اس کی گڑیا کہاں اور کس حال میں ہے؟

    غم کے مارے نوری کی آہ نکل گئی۔ ’’کیا ہوا نوری کیوں رو رہی ہو؟‘‘ پلنگ کے نیچے مزید اندر کی طرف پڑے گھوڑا گاڑی کے گھوڑے نے نوری سے پوچھا۔ اسی گھوڑے پر دلہن بنا کر نوری کو بٹھا کر لایا گیا تھا۔ اس وقت اس گھوڑا گاڑی کی شان دیکھنے والی تھی۔ پچھلی نشست پر سرخ کپڑا بچھا تھا، سامنے گھوڑا گاڑی کا کوچوان ہیٹ لگائے بیٹھا تھا۔ چاروں پہیے سلامت تھے۔

    زینب کے چھوٹے بھائی بلال نے دلہن کو احتیاط سے سوار کرایا اور زینب کے اس بستر کے پاس غالیچے پر گھوڑا گاڑی کو آہستہ آہستہ لے کر آیا۔

    یہ غالیچہ دراصل شادی ہال بنایا گیا تھا۔ زینب اور بلال دونوں نے اپنے اپنے دوستوں اور سہیلیوں کو اس شادی میں بلایا تھا، جو بہت خوشی اور انہماک سے دلہن کی گھوڑا گاڑی کو آتے دیکھ رہے تھے۔

    واہ کیا شان دار استقبال ہوا تھا۔ ایک طرف زینب کی سہیلیاں استقبالیہ گیت گارہی تھیں اور دوسری طرف بلال کے دوستوں نے بانسری، ڈف، پیپڑی (منہ سے بجانے والا کھلونا) جو کچھ میسر تھا سب کے ساتھ دلہن کا استقبال کیا۔

    ایک زبردست شور اور ہنگامہ تھا۔ اس شور و ہنگامے کے درمیان زینب نے اپنی گڑیا دلہن نوری کو احتیاط سے گھوڑا گاڑی سے اتارا اور آہستہ آہستہ چلا کر چھوٹی میز پر بنائے گئے اسٹیج پر لے جاکر صوفے پر بٹھا دیا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گلابی گدّوں والے صوفے نوری کو بہت پسند تھے اور پھر یوں سب کے سامنے دلہن بن کر بیٹھنا بھی کیسی شان دار بات تھی۔

    زینب کی گڑیا نوری بہت معصوم شکل والی گڑیا تھی، جس کے سنہرے بال اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اس دن لال گلابی اور سنہری کر دوپٹہ پہن کر ستارے والا ٹیکا اور موتیوں کا ہار پہن کر تو نوری بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ گلابی گدّیوں والے صوفے پر بیٹھ کر وہ سب کو دیکھ رہی تھئ، لیکن یہ مزے کا دن کتنی جلدی گزر گیا۔ اس کے بعد زینب کو ہوش ہی نہیں آیا کہ اس کی گڑیا کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔

    ’’سچ ہے خوشی کے لمحے بہت جلدی گزر جاتے ہیں۔‘‘ نوری نے ایک سسکی لے کر گھوڑا گاڑی کے گھوڑے سے کہا۔

    ’’ہاں! ٹھیک کہا۔ دیکھو ابھی میری گاڑی کہاں ہے؟ مجھے نہیں پتا۔ میری ایک ٹانگ میں موچ آگئی ہے اور اب میں ایسی حالت میں پڑا ہوں۔ نہیں معلوم کتنے دن تک مجھے ایسے ہی پڑے رہنا ہوگا۔‘‘ گھوڑا گاڑی سے الگ پڑے گھوڑے نے اداسی سے کہا۔

    ’’ارے بھئی تم لوگ تو ابھی سے گھبرا گئے۔ مجھے دیکھو میں تو پچھلے پورے ماہ سے ایسا بے حال پڑا ہوں۔‘‘ پلنگ کے دوسرے کونے میں پڑا رنگ برنگا لٹّو بھی بول اٹھا جو بہت دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔

    ’’میرے ساتھ تو ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلال مجھے چابی دے کر زور زور سے گھماتا ہے اور جب میں نیچے کہیں جاکر پھنس جاتا ہوں تو وہ مجھے بھول جاتا ہے، کبھی پلنگ کے نیچے، کبھی الماری اور کبھی صوفے کے نیچے پڑے پڑے بے حال ہوتا رہتا ہوں۔‘‘ لٹّو نے بھی اپنی شکایت سنائی۔

    ’’پھر تم کیسے باہر نکلتے ہو؟‘‘ نوری نے ہمدردی سے پوچھا۔

    ’’میں بس اسی صورت میں باہر آتا ہوں جب امی جان ماسی کو کہتی ہیں کہ آج سب چیزوں کو ہٹا کر جھاڑو دینا۔‘‘

    ’’ہائے ہائے ہماری بھی کیا اوقات ہے؟‘‘ لٹّو نے مایوس ہو کر کہا۔

    نوری بولی: ’’اوقات تو ٹھیک ہی ہے، بس ہمیں شکایت ہے بچّوں سے کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلتے تو ہیں لیکن ہمارا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ہمیں سنبھالتے نہیں ہیں۔ ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ یوں ہم ایسے ہی دھول مٹّی میں رُلتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’امی جان نے بھی زینب کو کئی دفعہ سمجھایا ہے، لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ نوری نے افسوس سے کہا۔

    ’’کیا بچّوں کو ہماری یاد بالکل بھی نہیں آتی؟‘‘ پاؤں کی موچ سے پریشان گھوڑے نے حسرت سے کہا۔

    ’’جب ہم بے جان کھلونوں کو بچّوں کی یاد آتی ہے تو بچّے بھی ضرور ہم کو یاد کرتے ہوں گے بلکہ کرتے ہیں۔ ماسی جب بھی مجھے باہر نکالتی ہیں تو بلال بہت خوش ہوتا ہے۔ مجھے صاف ستھرا کر کے دوبارہ کھیلتا ہے۔‘‘ لٹّو بولا۔

    ’’اچھا تو زینب بھی مجھے یاد کرتی ہوگی؟‘‘ نوری گڑیا نے ذرا حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں کیوں نہیں، دیکھنا جب وہ تم کو دوبارہ دیکھے گی تو کتنا خوش ہوگی۔‘‘ لٹّو نے تسلّی دی۔ یہ سن کر نوری گڑیا خوشی سے مسکرائی۔ گھوڑے گاڑی کے گھوڑے نے بھی حوصلہ پکڑا۔

    ’’اللہ کرے کوئی ہماری شکایت بچّوں تک پہنچا دے کہ وہ کھیلنے کے بعد ہم کو سنبھال کر رکھا کریں تاکہ وہ بھی خوش رہیں اور ہم بھی۔‘‘

    (مصنّف: نامعلوم)

  • بلّی کے گلے میں گھنٹی!

    بلّی کے گلے میں گھنٹی!

    برکت فلور مل چوہوں کی ایک قدیم اور وسیع ریاست تھی۔ گندم کی بوریوں کے ساتھ سوکھی روٹیوں کی بوریاں بھی موجود ہوتی تھیں تاکہ دونوں کو ملا کر آٹا تیار کیا جاسکے اور یوں حاجی برکت علی کی آمدنی اور لوگوں کے پیٹ کے امراض میں اضافہ ہوتا رہے۔

    جب گندم اور سوکھی روٹیوں کی نئی کھیپ آتی تو چوہوں کی عید ہوجاتی۔ جب سیر ہو کر کھانے کے بعد ان کے پیٹ لٹک جاتے تو وہ نئے نئے خواب دیکھنے لگتے اور اس قسم کی تقریریں ہوتی۔

    ایک بزرگ چوہا اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے بولے۔

    ’’میرے عزیز ہم وطنو! آخر ہم کب تک چوہے دانوں اور بلّی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ آخر کب وہ انقلاب آئے گا جب ہر گودام، ہر باورچی خانہ اور ہر پرچون کی دکان پر ہماری حکومت ہوگی؟‘‘

    اگلا نوجوان چوہا دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر پہلوانوں کی طرح ران پر ہاتھ مارتے ہوئے۔

    ’’اس بار نامراد بلّی مجھے نظر آجائے پھر دیکھنا اس کا کیاحشر کرتا ہوں۔ ظلم سہنا بھی ظالم کی حمایت ہے۔‘‘

    اگلا ضعیف چوہا کھانستے ہوئے۔ ’’ہم صدیوں سے بلّی کے مظالم سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں اگر ہم بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے میں کام یاب ہو جائیں تو ہم ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘

    بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی تدبیر واقعی چوہوں کی قوم میں ایک عرصہ سے گردش کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں کچھ سنجیدہ اور انقلابی اقدامات بھی ہوئے لیکن کام یابی حاصل نہ ہوسکی۔ ایک بار چند نوجوان وہ گھنٹہ گھسیٹ لائے جو اسکول میں لکڑی کے ہتھوڑے سے بجایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھاری تھالی نما گھنٹہ سپاہیوں سے سنبھل نہ سکا اور دو تین اسی کے نیچے دب کر رحلت فرما گئے۔ دوسری بار کچھ کم فہم نوجوان کسی بیل کی گھنٹی گھسیٹ لائے۔ اس کے گھسیٹنے میں ایسا شور مچا کہ سوئی ہوئی بلیاں جاگ گئیں اور یوں تمام انقلابی بلّیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    جو جو ایک نہایت چالاک شریر اور نڈر چوہا تھا۔ والدین کے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ چوہے دان میں لگا مکھن پنیر یا ڈبل روٹی کا ٹکڑا صاف نکال لاتا اور چوہے دان کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا۔ جو جو بھی اپنے بزرگوں کے دعوے اور احمقانہ تقریریں سنتا رہتا۔ آخر اس نے بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا بیڑا اٹھایا۔

    اس نے اپنے تینوں دوستوں چوں چوں، گو گو اور چمکو کو اپنی اسکیم تفصیل سے سمجھائی اور تنبیہ کر دی کہ اس اسکیم کی اطلاع کسی بزرگ کو نہ دی جائے۔

    چمکو کا گھر بوتل گلی کی مشہور دکان عطر ہاؤس میں تھا۔ چاروں دوست وہاں سے ایک خوب صورت سنہری عطر کی خالی شیشی لے کر آئے اور اسے صاف کر کے ایک مخمل کی ڈبیا میں رکھ دیا۔

    اگلے دن چاروں دوست وہ شیشی لے کر پھول باغ پہنچے۔ ایک کیاری میں چنبیلی کے پھول آنکھیں موندے سورہے تھے۔ جو جو نے ان کی نازک گردن ہلا کر کہا۔

    ’’چنبیلی بہن! معاف کرنا ہم آپ کی نیند میں مخل ہوئے۔ آپ کی بہت مہربانی ہو اگر آپ اپنی خوشبو کے چند قطرے عنایت کردیں۔‘‘ چنبیلی نے مسکراتے ہوئے چند قطرے شیشی میں ٹپکا دیے۔

    اس کے بعد چاروں دوست گلاب کے پاس گئے جو کھکھلا کر بلبل سے باتیں کر رہا تھا۔ چوں چوں نے گلاب کو سلام کر کے کہا۔

    ’’پھولوں کے راجہ اگر آپ ہمیں اپنی خوشبو کے چند قطرے دے دیں تو آپ کا بہت احسان ہوگا۔‘‘

    ’’ارے ہمارا تو کام ہی خوشبو بانٹنا ہے۔ بھر لو شیشی۔‘‘ گلاب نے ہنس کر کہا۔

    یوں چاروں دوست بیلا، چمپا، رات کی رانی، دن کا راجہ کے پاس بھی گئے اور ان کی خوشبوؤں کے قطرے بھی حاصل کر لیے اور سنہری شیشی پتوں میں چھپا دی۔

    بلّیوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے تھے اور برکت فلور مل پر مانو چمپا کی حکومت تھی۔ جو جو کو علم تھا کہ بائیس جنوری کو بی چمپا کی سالگرہ ہے اور اس دن فلور مل کی چھت پر علاقہ کی بلّیاں جمع ہو کر جشن منائیں گی اور یوں اس دن چاروں دوست اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر ایک چوہے گاڑی پر وہ خوشبوؤں سے بھری شیشی لاد کر اس وقت چھت پر پہنچے جب بلّیوں کا جشن عروج پر تھا۔

    فرش پر ایک سفید دستر خوان پر گوشت کی بوٹیوں، نرم نرم ہڈیوں اور مچھلیوں کا ڈھیر تھا۔ مٹی کے کونڈوں میں دودھ بھرا ہوا تھا۔ چاروں دوست ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئے۔

    کچھ دیر بعد جب بی چمپا کی نظر ان چاروں پر پڑی تو اس کی دُم اور کمر کے بال کھڑے ہوگئے اور اس نے چیخ کر کہا۔’’تم! تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہماری محفل میں آنے کی۔‘‘

    ایک اور مہمان بلّی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔’’چلو اچھا ہوا۔ اب کھانے کے مینو میں ان چاروں کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

    جو جو نے ادب سے سر جھکا کر کہا۔

    ’چمپا بہن ہماری نیّت صاف ہے۔ ہم لوگ آپ کی سالگرہ پر ایسا نایاب تحفہ لے کر آئے ہیں کہ آپ کا دل باغ باغ ہوجائے گا۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جب جو جو نے خوشبو کی شیشی کا ڈھکنا کھولا تو مست کر دینے والی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔

    مانو چمپا نے حیرت سے سنہری شیشی کی طرف دیکھا اور پھر چند قطرے اپنے ریشمی بالوں پر لگا لیے جس سے اس کے پورے جسم سے خوشبوؤں کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔

    چمپا نے خوش ہو کر کہا۔ ’’واقعی تم لوگوں کا تحفہ لاجواب ہے۔ اس لیے ہم اس خوشی میں آج تم لوگوں کو نوش فرمانے کا ارادہ ترک کرتے ہیں۔‘‘

    اس کے بعد جب بھی بی چمپا خوشبو لگا کر نکلتیں تو چاروں طرف مہک پھیل جاتی اور تمام چوہے محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے اور یوں جو جو کی عقل مندی سے آخر کار چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے بجائے انھیں خوشبو میں معطّر کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ان کا بلّی سے ہوشیار رہنے کا خواب پورا ہوگیا۔

    (مصنّف: وقار محسن)

  • عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    اگر ہم بچّوں کے ادب کے مدارج دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بچّوں کے ادب کی ترقّی کا سلسلہ انیسویں صدی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی میں تو اس میں ایک زبردست انقلاب آیا۔ اس صدی میں بچّوں کا ادب عروج کی منزلوں پر پہنچ گیا۔

    مشرقی ملکوں میں بچّوں کے ادب میں زندگی کے مادّی پہلوؤں مذہب و اخلاق پر خاص طور سے توجہ دی گئی جیسے سچّے تنتر میں دل چسپ کہانیوں کے ذریعہ اخلاق و حکمت کی تعلیم دی گئی۔ بچّے کا کائنات سے اوّلین رابطہ کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے یعنی طوطے، مینا، پریوں، پرندوں، راجاؤں، پھولوں کی کہانیوں کے ذریعہ ارد گرد کی چیزوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ کہانیوں کے کردار اس کے ارد گرد گھومنے لگتے ہیں۔ اور وہ خود کو ان چیزوں کا ایک حصّہ سمجھنے لگتا ہے۔

    ان کہانیوں کے ذریعہ وہ ان چیزوں کو اپنانے اور رد کرنے کا عمل سیکھتا ہے۔ ڈرامے کی دنیا بچّوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں پر وہ خود کو وہ کردار ادا کرتے دیکھتا ہے جس کو وہ کتابوں میں پڑھتا ہے۔ اسی لیے بچّے ڈرامے بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچّوں کے ڈرامے بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس کو بڑے شوق سے اپناتے ہیں۔ تصویر بھی بچّے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ تصویر کا تعلق براہِ راست دل اور نظر سے ہوتا ہے۔ یہ بچّوں کی قوّتِ متخیلہ بڑھاتی ہے۔ تصویر کی مدد سے وہ تمام چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

    بچّوں کے ادب کی اہم خصوصیت اس کا حیرت اور استعجاب ہے۔ اس کی وجہ سے بچّوں میں کیوں، کیا اور کیسے، کب جیسے سوالا ت اٹھتے ہیں۔چوں کہ بچّہ کی فطرت متجسس ہوتی ہے، اس لیے بچّوں کے ادب میں بھی حیرت اور تجسس کا عنصر ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ جانور کی شکل تو کبھی دیو اور بھوت تو کبھی پری کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اسی لیے پنچ تنتر میں جانوروں کی بولی کی وجہ سے وہ اتنی دل چسپ اور انوکھی چیز بن گئی کہ صدیوں کے بعد بھی اس ادب کا مزہ تر و تازہ ہے۔

    اس کے علاوہ بچّوں کے ادب کی زبان سادہ عام فہم اور مزے دار ہو جو روز مرّہ کے الفاظ پر مشتمل ہو جن کو پڑھ کر بچّے نہ صرف لطف اندوز ہوں بلکہ وہ کہانی کی چاشنی کو محسوس کریں۔

    اس کے بعد بچّوں کی سیرت کی تعمیر ہو، مذہبی عقائد کے قصّے بزرگوں کی کہانیاں، ان کی سیرت، بہادروں کے کارنامے، خدا کا خوف، سیرت سے واقفیت بھی ادبِ اطفال کے ادیبوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ ادبِ اطفال کی سب سے اہم ذمہ داری یکجہتی، بھائی چارگی، حب الوطنی، آپسی میل ملاپ کا بڑھاوا ہو۔ ان کی تربیت میں نفرت، عداوت، جلن جیسی رزیل چیزوں کو ان کی سیرتوں سے پرے رکھنا بھی ادیب کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے موضوعات ایسے ہوں جن میں ہمیشہ نیا پن ہو کیوں کہ وہ ایک جیسی چیزوں سے اکتا جاتے ہیں۔

    ادب کے ذریعہ بچوں کو تنگ نظری تعصب جیسی برائیوں سے دور رہنے کا درس فراہم کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی باتیں بتائی جائیں جن سے ان کے ذہن میں وسیع النّظری کو فروغ ملے اور محبت کی فضا قائم رہ سکے۔

    (ماخوذ از: مضمون برائے سمینار بہ عنوان "اردو ادب: تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل” شمیم سلطانہ، تلنگانہ)

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

  • بہلول کی باتیں

    بہلول کی باتیں

    کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرتِ شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔

    شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ” تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے۔؟”

    لوگوں نے کہا: "حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: ” ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔” مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا:

    "تم کون ہو؟”

    "میں ہوں جنید بغدادی۔”

    "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟”

    "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔”

    "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟”

    "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔”

    پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔”

    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔”

    یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔”

    "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔”

    بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا:

    "کون ہو تم؟”

    "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔”

    بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔”

    "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟”

    "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلقِ خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔” اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

    بہلول نے کہا: ” کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔” پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انھوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔” اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا:

    "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟”

    شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔”

    "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟”

    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔” یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انھیں بزرگانِ دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

    بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔”

    یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا:

    "اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔”

    کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔”

    شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔” (اللہ تمھارا بھلا کرے)

    پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تماہرے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔”

    پھر سونے کے متعلق بتایا: ” اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمھارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمھارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبّت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔”

    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے مں ذرا بھی نہ شرمائے۔

    حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گم راہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

    (معروف مدیر اور بچّوں کے ادیب مسعود احمد برکاتی کے قلم سے)