Tag: بچوں کا ادب

  • پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    عادل اسیر دہلوی کا نام ہندوستان کے ان تخلیق کاروں‌ میں‌ اہم اور نمایاں ہے جنھوں نے بچّوں کے ادب کو متنوع موضوعات سے مالا مال کیا اور ان کے لیے سادہ و دل نشین انداز میں نہ صرف کہانیاں لکھیں بلکہ آسان اور عام فہم شاعری بھی کی۔

    1959ء میں‌ پیدا ہونے والے عادل اسیر کا تعلق دہلی سے تھا اور وہ اسی نسبت اپنے نام کے ساتھ دہلوی لگاتے تھے۔ 2014ء میں‌ بچّوں‌ کے اس بڑے ادیب اور شاعر نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ یہاں ہم ان کی ایک پہیلی (نظم) نقل کررہے ہیں جو بچّوں‌ ہی نہیں‌ بڑوں‌ کو بھی بظاہر چھوٹی سی ایک چیز کی اہمیت اور افادیت بتاتی ہے، مگر انسان کی ایجاد کردہ اور سب کے بہت کام آنے والی یہ چیز ہے کیا؟ جانیے۔

    مجھ سے بڑھی ہے علم کی دولت
    دیکھنے میں ہوں میں بے قیمت

    جاہل کو بے زاری مجھ سے
    عالم کی ہے یاری مجھ سے

    مجھ میں شیروں جیسی ہمّت
    سچّائی ہے میری طاقت

    گرچہ لگتا چھوٹا سا ہوں
    کام بڑے پَر میں کرتا ہوں

    دیکھو تو بے کار ہی سمجھو
    لیکن میں انمول ہوں بچّو

    تیر نہیں، تلوار نہیں میں
    دشمن پر بھی بار نہیں میں

    میری طاقت کو کیا جانو
    دانا ہو تو تم پہچانو

    کام عدالت میں بھی آؤں
    پیار محبت میں بھی آؤں

    خط لکھنا، پیغام بھی دینا
    ساتھ میں سب کا نام بھی دینا

    پہچانو تو کون ہوں پیارے
    آتا ہوں میں کام تمہارے

    (جواب: قلم)

  • لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    دوستو! کئی سال پہلے ایک گاؤں میں کوئی لکڑہارا اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ روز صبح سویرے اٹھتا اور لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف نکل جاتا۔

    اس کی گزر بسر اور معاش کا ذریعہ یہی لکڑیاں تھیں جنھیں جنگل سے لاکر شہر میں فروخت کرکے ان کے دام وصول کرلیتا تھا۔ کسی طرح تنگی ترشی سے اس کا گھر چل رہا تھا، لیکن اس کی بیوی نہایت تنک مزاج اور بدخُو تھی۔ اس کی زبان پر ہر وقت شکوہ رہتا۔

    ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ لکڑہارے کی جنگل کے ایک شیر سے دوستی ہو گئی۔ شیر جیسا درندہ اسے لکڑیاں چننے میں مدد دینے لگا تھا۔ لکڑہارا بے تکلفی سے اس کے ساتھ اپنے دل کی باتیں بھی کرنے لگا تھا۔

    ایک دن لکڑہارے نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا اور کہا کہ میں اپنے دوست کو کسی دن اپنے گھر بلانا چاہتا ہوں۔ بیوی بہت چیخی چلائی کہ بھلا درندے اور انسان کی کیسی دوستی؟ لکڑہارے کے سمجھانے پر وہ خاموش تو ہو گئی، لیکن اندر سے بہت خوف زدہ تھی۔ ایک دن موقع مناسب جان کر لکڑہارا شیر کو گھر لے آیا۔ بیوی نے شیر کو دیکھتے ہی چلّانا شروع کر دیا اور خوب برا بھلا کہا۔

    اپنے دوست کی بیوی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر شیر کو بہت دکھ ہوا اور اس نے لکڑہارے سے جو بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا، کہا کوئی بات نہیں، بس تم ایسا کرو کہ اپنے کلہاڑے سے میرے سَر پر ایک ضرب لگا دو۔ لکڑہارے نے کہا میں اپنے دوست کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟ جب شیر نے زیادہ اصرار کیا، تو اس نے شیر کے سر پر ضرب لگا دی، جس سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا اور شیر واپس جنگل چلا گیا۔

    لکڑہارا کئی دن تک خوف و ندامت کے باعث جنگل نہ گیا۔ گھر میں‌ نوبت فاقوں تک آگئی تو بھوک سے مجبور ہو کر ڈرتے ڈرتے جنگل کا رخ کیا۔ ابھی وہ درخت پر چڑھ کر لکڑیاں کاٹ ہی رہا تھا کہ دُور سے شیر آتا نظر آیا۔ خوف کے مارے اس کا برا حال ہو گیا۔

    شیر عین اس درخت کے نیچے آن کھڑا ہوا اور لکڑہارے سے کہا کہ گھبراؤ نہیں۔ ہم اب بھی دوست ہیں۔ تم ذرا نیچے آؤ۔ لکڑہارا ڈرتے ڈرتے درخت سے نیچے اترا۔ شیر نے کہا تم میرے سَر کے بال اٹھا کر دیکھو وہ زخم تازہ ہے یا پھر بَھر چکا ہے؟ لکڑہارے نے ہچکچاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا اور بتایا کہ زخم کا تو نشان تک نہیں ہے۔ شیر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، لیکن میرے دوست تمھاری بیوی کی باتوں سے جو گھاؤ میرے دل پر لگا ہے، وہ اب بھی تازہ ہے۔

    اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ ہمیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔

  • چاندی کا فرشتہ

    چاندی کا فرشتہ

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔

    اسی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio) تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مال دار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔

    انتونیو بہت ایمان دار اور ہوشیار آدمی تھا، اس لیے اُس کا مالک اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا لیکن اس کے محنتی اور ایمان دار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔

    انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita) سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا (Malaga) کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوب صورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔

    انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی، مگر اب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لیے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برف باری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔

    ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوش نما منظر تھا۔

    ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے، پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ دونوں کے لیے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھا مل جائے گا، اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔

    انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھما جھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے، چاندی کا نیزہ لیے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لیے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

    پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایمان دار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی، لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔

    راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے؟‘‘

    انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔

    راستے میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لیے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔

    لوگوں نے اُسے ان بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اسے جا بجا خوب صورت لڑکیاں اُون اور انڈے لیے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوب صورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔

    بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتش بازی دیکھے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔

    انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاندی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔

    اُس درویش نے انتونیو کے پاس آکر کہا، ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟ میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں، مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیوں کہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘

    درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جس پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔

    جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُتر کر بولا، ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیوں کہ اس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔ بہرحال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا، ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا، مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔

    جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔

    پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگا جیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ’’اِسے مت بھولنا! یہ ساری چاندی تمہارے لیے ہی ہے، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

    جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔

    منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لیے اُس نے گھر آ کر انتونیو سے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایمان دار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔

    منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔

    منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپے دیے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچّوں، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے۔

    (اسپین کے لوک ادب سے انتخاب)

  • پُراسرار دستانے

    پُراسرار دستانے

    مصنّف: مختار احمد

    عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔ خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔

    عظیم کے والد بغرضِ ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔ یہ گاوٴں، دیہات اور ایک بڑے دریا سے ملحق بہت ہی خوب صورت اور پرسکون شہر تھا۔

    عظیم کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس کے اسکول اور محلے کے تو کئی دوست تھے مگرخالہ زاد اور ممانی زاد بہن بھائیوں کی تو بات ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے آنے کی خبر سے وہ بہت خوش ہوا تھا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ پرسوں اس کی چودھویں سال گرہ بھی ہے، سب لوگ ہوں گے اور خوب مزہ آئے گا۔

    چوں کہ ٹرین لیٹ ہو گئی تھی اس لیے وہ سب رات کو دیر سے گھر پہنچے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اور باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ صبح کسی نے اسکول تو جانا نہیں تھا، اس لیے سونے کی کسی کو فکر بھی نہیں تھی۔ عظیم کی امی کو صبح جلدی اٹھنا تھا کیوں کہ اس کے ابّو کو آفس جانا تھا اور انھیں ناشتہ تیار کر کے دینا تھا، اس لیے وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ وہ گئیں تو یہ محفل بھی برخاست ہوگئی۔ آنے والے مہمان کافی تھکے ہوئے تھے، گھوڑے بیچ کر سو گئے۔

    عظیم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور پروگرام بنا رہا تھا کہ خالہ اور ممانی کے بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارے گا۔ نیند تو خیر اس کو آگئی تھی مگر وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ تھکن کی وجہ سے مہمان مزے سے سو رہے تھے۔ عظیم نے ہاتھ منہ دھویا، امی کے ساتھ نماز پڑھی۔ امی تو کچن میں مصروف ہو گئیں اس نے سوچا کہ باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا خوری کرلے۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور کافی اندھیرا تھا۔

    وہ گھر سے قریب ایک پارک میں پہنچ گیا۔ اونچے اونچے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندوں کا شورسنائی دینے لگا تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی، گرم سویٹر پہننے کے باوجود اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر سے چلتے ہوئے اس کی امی نے اسے مفلر بھی تھما دیا تھا جسے اس نے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔

    پارک سنسان پڑا تھا لیکن جب اس نے غور سے دیکھا تو پارک میں نصب آخر والی بینچ پر اسے کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آیا کہ یہ کوئی بچے پکڑنے والا آدمی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس کے پاوٴں من من بھر کے ہوگئے، اس سے اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں گیا۔ وہ مفلر جو اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اچانک اس کے گلے سے نکلا اور اڑتا ہوا اس شخص کی جانب چل دیا جو دور بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’امی۔۔۔۔!‘‘ عظیم کے منہ سے بے اختیار خوف بھری ایک چیخ نکلی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کی جان نکل گئی ہے۔ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ اتنے اندھیرے میں گھر سے نکل کر یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس واقعے نے اسے اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔

    اس کے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ نے اس کے رگ و پے میں خوف کی سنسناہٹ دوڑا دی۔ وہ شخص اٹھ کر اسی کی طرف آنے لگا تھا۔ عظیم کا ڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس سے چیخا بھی نہیں جا رہا تھا، ایسا معلوم دیتا تھا جیسے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

    ’’ماں کے لاڈلے۔ یہ لو پکڑو اپنا مفلر۔‘‘ قریب آنے والے اس شخص نے کہا۔ اب عظیم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔

    ’’بھائی تم کون ہو؟‘‘عظیم نے تھوک نگل کر پوچھا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے تو بھائی بھائی کر رہے ہو۔‘‘ وہ لڑکا بڑی خوش دلی سے ہنسا، مگر پھر فوراً ہی اداس ہوگیا: ’’میں بہت بدنصیب ہوں۔ میرے لیے اب عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا ایک خواب ہی ہے۔‘‘

    اس کے دکھ بھرے لہجے سے عظیم متاثر ہو گیا ۔ کچھ پوچھنے کے لیے اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا ان کے قریب سے اڑتی ہوئی گزری، اس پراسرار لڑکے نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنی مٹھی کھولی، چڑیا آگے جاتے جاتے بجلی کی تیزی سے پلٹی اور اس لڑکے کی مٹھی میں آگئی۔

    یہ دیکھ کر عظیم کے جسم پر کپکی طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور پیٹ میں جیسے کوئی چیز زور زور سے گھومنے لگی۔ اس سے کھڑا رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور خوف بھری نظروں سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑی چڑیا کو فضا میں اچھال کر اسے اڑا دیا اور خود بھی عظیم کے پاس بیٹھ گیا۔

    عظیم اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا:’’میں امی کے پاس جاوٴں گا۔‘‘

    لڑکا ہنس پڑا۔ ’’ہو تو تم میرے ہی جتنے مگر دودھ پیتے بچے بن رہے ہو۔ مجھ سے ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گا۔ دیکھو میں نے تمہارا مفلر بھی واپس کر دیا تھا، اگر میں چاہتا تو اس کو لے کر بھاگ بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم بہت عجیب سے ہو۔ ‘‘ عظیم نے تھوک نگل کر کہا۔ ’’تم کوئی جادوگر ہو، تم نے لڑکے کا روپ دھار رکھا ہے۔‘‘

    ’’اگر میں جادوگر ہوتا تو کسی شہزادی کو اپنے محل میں قید کر کے اس کی خوشامد کررہا ہوتا کہ وہ مجھ سے شادی کرلے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ لڑکا ہنسا پھر اداسی سے بولا۔ ’’میرے سب دوست مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ سب لوگ مجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھومتا پھرتا ہوں، سب سمجھتے ہیں کہ میں کوئی جادوگر ہوں، حالاں کہ میں ہوں نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہو، جادوگر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘۔ عظیم نے کہا۔

    ’’میرا نام انعام ہے۔ ‘‘ اس لڑکے نے کہا۔ ’’کیا تم میری کہانی سننا پسند کرو گے۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘

    انعام کی بات سن کر عظیم کا دل بھر آیا۔ ’’ہاں ہاں، میں ضرور تمہاری کہانی سنوں گا، اچھا ہے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مجھے تو تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو بس تمہاری حرکتیں ٹھیک نہیں لگتیں۔‘‘

    اس کی بات سن کر انعام خوش ہوگیا اور اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ بد قسمتی سے اسکول میں میری دوستی چند آوارہ لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے اسکول سے بھاگنا سکھا دیا تھا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں بجائے اسکول جانے کے، دریا کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریا پر جا کر سیر کروں گا اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑوں گا۔ میں دریا پر پہنچا تو مجھے وہاں ایک بوڑھا شخص ملا۔ اس کی شکل عجیب سی اور خوف ناک تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔

    ’’مچھلیاں پکڑنے آئے ہو لڑکے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ دریا کی طرف کیا اور پل بھر میں اس کی ہتھیلی پر تین چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آکر تڑپنے لگیں۔ اس نے قریب پڑی پلاسٹک کی ایک تھیلی اٹھا کر اس میں پانی بھرا اور مچھلیوں کو اس میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں تمہاری طرح خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔ میں ایک بہادر لڑکا ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تھوڑا بے وقوف ہوں۔ میں نے بوڑھے سے پوچھا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ، لیکن اگر تم چاہو تو میں یہ طاقت تمہیں دے سکتا ہوں۔ مجھے تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو۔‘‘

    اس کی چاپلوسی کی باتیں سن کر میں خوش ہوگیا اور حامی بھر لی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی وہ شخص دستانے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے دستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو بولا۔ ’’ان دستانوں کو تم حیرت سے دیکھ رہے ہو۔ جب یہ طاقت تمہیں مل جائے گی تو تمہیں بھی ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ میں نے اس کی بات پر غور نہیں کیا، اسی سوچ میں مگن رہا کہ جب میں بھی ایسا کرنے لگوں گا تو اپنے دوستوں کو تماشا دکھا کر مرعوب کیا کروں گا۔ وہ کتنا حیران ہوں گے جب میں دور پڑی چیزوں کوایک جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے پاس منگوا لیا کروں گا۔ اس نے مجھے قریب بلایا اور بولا۔ ’’آنکھیں بند کرو اور جو الفاظ میں کہوں تم انھیں دہراتے جاوٴ۔‘‘

    میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں اس طاقت کو اپنی مرضی سے لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘میں نے وہ الفاظ بھی دہرا دیے۔ اس نے کہا ۔ ’’اب آنکھیں کھو ل دو۔ تمہیں یہ عجیب و غریب طاقت مل گئی ہے۔‘‘

    میں نے آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرے دونوں ہاتھ کلائیوں تک بالکل سیاہ رنگ کے ہو گئے تھے۔ اس شخص نے اپنی مکروہ آواز میں کہا ۔ ’’تم چاہو تو اس طاقت کو آزما سکتے ہو۔ ‘‘ میں نے دور زمین پر پڑی ایک شیشے کی بوتل کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا، وہ زمین سے بلند ہوئی اور میرے ہاتھ میں آگئی۔

    اس طاقت کو حاصل کرکے مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میرے ہاتھوں کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ اب میں اپنی امی ابّا اور دوستوں کا کیسے سامنے کروں گا، ان سے اپنے کالے ہاتھوں کے بارے میں کیا کہوں گا۔

    اس بوڑھے نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اتار کر میرے حوالے کیے اور خود ایک جانب روانہ ہوگیا۔ اس بات کو تین روز گزر گئے ہیں۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میں ان دستانوں کو پہنے پہنے تنگ آگیا ہوں۔ ان کی وجہ سے میں کوئی کام ٹھیک طریقے سے بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شیطان بوڑھا بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو میں نے تماشے تو بہت دکھائے مگر مرعوب ہونے کے بجائے وہ مجھ سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے ہیں اور بات چیت کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ اور تو اور کل میرے ابّا بھی میری امی سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ اس کو کسی سینٹر چھوڑ کر آجائیں گے، یہ ہمارا والا انعام نہیں ہے کوئی اور ہے۔ پرسوں کی بات ہے انہوں نے باہر جانا تھا، مجھ سے بولے کہ میرے جوتے اٹھا دو۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ان کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آگئے۔ ابّا گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور بولے۔ ’’ان جوتوں کو اب میں کبھی نہیں پہنوں گا، ان میں جادو لگ گیا ہے۔‘‘

    اس کی یہ کہانی سن کر عظیم کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’اس دنیا میں عجیب عجیب لوگ موجود ہیں جیسے وہ بوڑھا۔ اس نے بچہ سمجھ کر اپنی مصیبت تمہارے گلے ڈال دی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ماں باپ ہمیں اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ اجنبیوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان سے کسی قسم کی کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لوگ ہمیں مصیبتوں میں پھنسا دیتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

    انعام نے افسردگی سے کہا۔ ’’میری امی بھی مجھے بہت سمجھاتی تھیں کہ کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی بات چیت نہ کروں۔ وہ کوئی کھانے کی چیز دے تو وہ بھی نہیں کھاوٴں، ان چیزوں میں بے ہوشی کی دوا ہوتی ہے اور اسے کھلا کر وہ لوگ بچوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور اتنی سی چیز کھلا کر ان کے ماں باپ سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔‘‘

    اب چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔ عظیم نے ایک مرتبہ پھر انعام کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور بولا۔ ’’انعام بھائی کیا تم مجھے دریا پر اس جگہ تک لے جا سکتے ہو جہاں وہ خبیث بوڑھا تمہیں ملا تھا؟‘‘

    ’’وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، آؤ۔‘‘ انعام نے کہا اور دونوں چل پڑے۔ عظیم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کو انعام پر بہت ترس آرہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ انعام کو اس مصیبت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کالے ہوگئے تھے۔ وہ دعا کررہا تھا کہ وہ بوڑھا ان کو دوبارہ مل جائے۔ اور پھر اس کی دعا قبول ہو ہی گئی۔ وہ بوڑھا انھیں نظر آگیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا اس کے پانی سے گاجروں کو دھو دھو کر کھا رہا تھا۔ عظیم نے انعام کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔ اس کی بات سن کرانعام کا چہرہ جوش و مسرت سے تمتمانے لگا۔

    اس بوڑھے نے انعام کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نظر آنے لگی، وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میاں خوب مزے آرہے ہیں۔ اب تو تمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا ہوگا۔ بیٹھے بیٹھے ہی سب چیزیں تمہیں مل جاتی ہوں گی۔‘‘

    انعام نے کہا۔ ’’اپنی یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو۔ اس کی وجہ سے میرے دونوں ہاتھ بالکل سیاہ ہوگئے ہیں۔ لوگ مجھ سے ڈرنے لگے ہیں۔ میری امی تو مجھ سے اتنی خوف زدہ ہو گئی ہیں کہ انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ دھمکی بھی نہیں دیتیں کہ آ لینے دے تیرے باپ کو تیری شکایت کروں گی۔ میں کسی کا سامنا بھی نہیں کرسکتا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو دونوں ہاتھ گرم ہوجاتے ہیں۔ میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ان ہی تکلیفوں کی وجہ سے تو میں نے یہ طاقت تمہیں دی تھی۔ میں خود ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔‘‘ اس آدمی نے لاپروائی سے کہا۔ ’’میں اب اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ تم یہاں سے چلے جاوٴ۔ اگر زیادہ تنگ کرو گے تو میں تمہیں دریا میں دھکا دے دوں گا اور تمہارے ساتھ اس کو بھی جسے تم حمایتی بنا کرلائے ہو۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے۔ ‘‘ انعام نے دستانے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور بلند آواز میں بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ طاقت نہیں چاہیے۔‘‘

    اس کی بات کو سن کر بوڑھے نے ایک چیخ ماری اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عظیم اور انعام نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ انعام کے ہاتھوں کا کالا رنگ دھویں میں تبدیل ہو کر بوڑھے کی طرف پرواز کرنے لگا اور اس کے قریب پہنچ کر اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دونوں ہاتھ کالے نظر آنے لگے۔

    ’’لو۔ یہ پکڑو اپنے دستانے۔‘‘ انعام نے دستانوں کو پوری طاقت سے بوڑھے کی طرف پھینک دیا۔ اتنی دیر میں دریا کی ایک تیز لہر آئی اور اس بوڑھے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ انعام کے دونوں ہاتھ پھر پہلے کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے۔ اس نے عظیم کو گلے سے لگا لیا۔

    ’’میرے دوست۔ اگر تم وہ الفاظ مجھے نہ بتاتے جو میں نے اس بوڑھے شیطان سے کہے تھے تو مجھے کبھی بھی اس مصیبت سے نجات نہ ملتی۔‘‘

    اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ عظیم گھر پہنچا تو سارے مہمان ناشتے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’عظیم بیٹے۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ ہم ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    عظیم نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد خواتین تو باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ عظیم بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ وہاں اس نے انہیں یہ عجیب و غریب کہانی سنائی۔ تمام بچے یہ کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    عظیم نے کہا۔ ’’آج سے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اسکول جاتے ہوئے اور نہ ہی اسکول سے آتے ہوئے کسی اجنبی سے کوئی بات کریں گے تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔‘‘

    سب بچوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ وہ سب عظیم کی عقل مندی سے بھی بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے انعام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا تھا۔

  • دو دوست، دو دشمن

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔

    بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا خاندان بھی یہاں سیکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو مَیں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، ’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوّت کا پتا چلے۔‘‘

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

    دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔ دلدل اب بھی موجود ہے۔

    (اس مختصر اور سبق آموز کہانی کے مترجم اردو کے معروف ادیب اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • انسانی کنبہ

    انسانی کنبہ

    جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں، لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پَر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔

    اچھا، اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سَر رکھے آنے جانے والوں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لیے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔

    یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتّھر سے ٹھوکر لگی، اور ٹھوکر لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔

    اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں۔ وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔

    لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا، مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔

    میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھرّوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!

    (حجاب امتیاز علی کا شمار اردو کی اوّلین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوں اور رومانی انداز کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ بچّوں کے لیے لکھی گئی اپنی اس مختصر کہانی کے ذریعے انھوں نے دنیا بھر کے لیے امن اور سلامتی کا درس اور ایک آفاقی پیغام دیا ہے)

  • ستارہ پری

    ستارہ پری

    ننّھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لیے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے، لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچّوں کو گود میں لیے کھڑی ہے۔ اس عورت کے بازؤوں کے ساتھ سات رنگ کے خوب صورت پَر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا جیسے تتلی کے پروں کا بنا ہو۔

    شیلا اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی۔ ’’خوب صورت عورت تم کون ہو؟‘‘

    عورت بولی۔ ’’میں ہوں ستارہ پری۔‘‘

    شیلا نے پوچھا:’’تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’ذرا مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دو۔‘‘

    شیلا کہنے لگی۔ ’’گھر میں گھس کر کیا کرو گی؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔‘‘

    شیلا نے جواب دیا۔ ’’اچھا نہلالو۔‘‘

    اب پری اپنے بال بچّوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور شیلا اپنی خوب صورت مہمان کی تواضع کے لیے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوب صورت مہمان غائب ہے، لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔

    شیلا نے حیرت سے غسل خانے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوب صورت دستانہ الگنی پر بھول گئی ہے، دستانہ پیارا تھا۔ اسے دیکھتے ہی شیلا کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔ اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔ دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔

    اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کو بہہ رہی ہیں۔ پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔ شیلا نے ایک چمچ اٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزے دار چوٹیاں کھانے لگی۔ بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اتر آئی۔ دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے۔ ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔

    ہر طرف باغ ہی باغ نظر آرہے تھے۔ جن میں رنگ برنگ شربت کے فوّارے ناچ رہے تھے۔ فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرّد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔ اس نے ایک فوّارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔ پھر دوسرے فوّارے سے پھر تیسرے فوّارے سے ،کیوں کہ ہر فوّارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔

    اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ ایک کوئل اور ایک بلبل شیلا نے پکڑ کر کھائی اور پھر آگے بڑھی۔ آگے ایک بڑا خوب صورت بازار آگیا۔ جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آتی تھیں۔ شیلا ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔

    دکانوں پر بڑی بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔ رنگ برنگ پھول، تتلیاں، ستارے، موتی، کل سے اڑنے والے پنچھی، گل دان مربّے، جام، چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔

    یکایک شیلا کو ستارہ پری اپنے بچّوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔ وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لیے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔

    شیلا چلّا کر بولی۔ ’’ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چُرا رہی ہو۔‘‘

    ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی۔ ’’شیلا میرے قریب آؤ۔‘‘

    جب شیلا اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیے اور بولی۔ ’’شیلا جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔ جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔ جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔‘‘

    اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوب صورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ شیلا کی آنکھوں سے ہٹا لیے۔ شیلا ڈر گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔ اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔

    اس کے بھیّا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔ آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔

    (اس کہانی کے مصنّف راجہ مہدی علی خاں اپنے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے لیے مشہور ہیں، صحافت اور شاعری میں بھی انھوں‌ نے خوب نام کمایا)

  • ہم راجا ہیں راجا…

    ہم راجا ہیں راجا…

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی موگرا، موتیا وغیرہ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دل رُبا بنائے ہوئے تھے۔ شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔

    بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔ پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصّے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالاں کہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہیں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے، لیکن ہم تو راجا ہیں راجا، بغیر گھی مسالا کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹہل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم۔”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی:۔ سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی:۔ میں اپنی تعریف کیا سناؤں ، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کر تی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل: میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی: میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقت ور اور روغن دار ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے۔ پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتّوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا ہے۔ نامعلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (مصنف: نامعلوم)

  • عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    دوستو! اردو زبان کی نام وَر ادیب قرۃ العین حیدر کی تاریخِ پیدائش 20 جنوری ہے۔ وہ 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ قرۃُ العین حیدر نے دنیائے ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کی وجہ سے شہرت اور بلند مقام حاصل کیا۔ وہ ممتاز فکشن رائٹر تھیں‌ جن کا ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ بہت مشہور ہے۔ انھیں‌ علم و ادب کی دنیا کے کئی معتبر اعزازات سے نوازا گیا اور ادب کی نام وَر شخصیات نے ان کے فن اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

    آج قرۃُ العین حیدر ہمارے درمیان موجود نہیں‌، لیکن ان کی ادبی تخلیقات ہمیشہ ان کی اور ان کے کمالِ فن کی یاد تازہ کرتی رہیں‌ گی۔2007ء میں قرۃُ العین حیدر وفات پاگئی تھیں۔ انھیں ہندوستان میں‌ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    دوستو! قرۃُ العین حیدر کے یومِ پیدائش پر ان کے اس مختصر تعارف کے ساتھ ہم یہاں بچّوں کے لیے لکھی گئی اُن کی ایک کہانی بھی نقل کررہے ہیں‌۔ یہ کہانی جہاں آپ کو مطالعے کی طرف راغب کرے گی، وہیں یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث بنے گی کہ اپنے عہد کی ایک عظیم تخلیق کار کی نظر میں بچّوں‌ کی کتنی اہمیت تھی‌ کہ ان کے لیے وقت نکالا اور یہ دل چسپ کہانی بُنی۔

    "ایک پرانی کہانی”
    لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر بسنے والے تنگ آگئے تھے۔

    کبھی تو وہ کسی ننھے سے ستارے کو گیند کی طرح لڑھکا دیتا اور وہ ستارہ قلابازیاں کھاتا دنیا میں آ گرتا یا کبھی وہ انہیں اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیتا اور وہ بے چارے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے۔

    آخرایک دن تنگ آکر وہ سات ستارے جنہیں سات بہنیں کہتے ہیں۔ چاند کے عقل مند بوڑھے آدمی کے پاس گئے اور ریچھ کی شرارتوں کا ذکر کرکے اس سے مدد چاہی۔

    بوڑھا تھوڑی دیر تو سَر کھجاتا رہا۔ پھر بولا ’’اچھا میں اس نامعقول کی خوب مرمت کروں گا۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘

    ساتوں بہنوں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور خوش خوش واپس چلی گئیں۔

    دوسرے دن چاند کے بوڑھے نے ریچھ کو اپنے قریب بلا کر خوب ڈانٹا اور کہا کہ ’’اگر تم زیادہ شرارتیں کرو گے تو تم کو آسمانی بستی سے نکال دیا جائے گا۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان ننھے منّے ستاروں کی روشنی سے دنیا میں انسان اور جہاز اپنا اپنا راستہ دیکھتے ہیں، لیکن تم انہیں روز کھیل کھیل میں ختم کر دیتے ہو۔ تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جب یہ ستارے اپنی اصلی جگہ پر نہیں رہتے تو دنیا کے مسافر اور جہاز رستہ بھول جاتے ہیں۔

    میاں ریچھ نے اِس کان سنا اور اُس کان نکال دیا اور قہقہہ مار کے بولے۔ ’’میں نے کیا دنیا کے جہازوں اور مسافروں کی روشنی کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو ان کی فکر کروں۔ یہ کہہ کر ریچھ چلا گیا۔

    ریچھ کے جانے کے بعد بوڑھے نے بہت دیر سوچا کہ اس شیطان کو کس طرح قابو میں لاؤں۔ یکایک اسے خیال آیا کہ اورین دیو سے مدد لینی چاہیے۔ اورین دیو ایک طاقت وَر ستارے کا نام تھا جو اس زمانے میں بہت اچّھا شکاری سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کی طاقت کی وجہ سے سب اسے دیو کہتے تھے۔

    یہ سوچ کر بوڑھے نے دوسرے دن اورین دیو کو بلا بھیجا۔ اس کے آنے پر بڑی دیر تک دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ آج شام ریچھ کو پکڑنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ رات گئے اورین دیو نے شیر کی کھال پہنی اور ریچھ کے غار کی طرف چلا۔ جب ریچھ نے ایک بہت بڑے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ ننھے منے ستاروں سے بنی ہوئی اس سڑک پر جو پریوں کے ملک کو جاتی ہے اور جسے ہم کہکشاں کہتے ہیں، بے تحاشا بھاگا۔

    آخر بڑی دوڑ دھوپ کے بعد طاقت وَر شکاری نے میاں ریچھ کو آلیا اور ان کو پکڑ کر آسمان پر ایک جگہ قید کر دیا جہاں وہ اب تک بندھے کھڑے ہیں۔ اگر تم رات کو قطب ستارے کی طرف دیکھو تو تمہیں اس کے پاس ہی ریچھ بندھا نظر آئے گا جس کو ان سات بہنوں میں سے چار پکڑے کھڑی ہیں۔ باقی تین بہنوں نے اس کی دُم پکڑ رکھی ہے۔

    اگر تم آسمان پر نظر دوڑاؤ تو تمہیں اورین دیو بھی تیر و کمان لیے ریچھ کی طرف نشانہ لگائے کھڑا نظر آئے گا۔

    (یہ کہانی 1967ء میں‌ پٹنہ (بھارت) سے نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • ایک حماقت ایک شرارت

    ایک حماقت ایک شرارت

    معلوم نہیں کہ بچپن کا دور ایسا ہی سہانا، حسین، دل فریب اور سنہرا ہوتا ہے یا وقت کی دبیز چادر کے جھروکے سے ایسا لگتا ہے۔

    اب میرے سامنے میرے خاندان کی تیسری نسل کے شگوفے پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے بچوں کا بچپن اتنا پُر رونق، رنگین اور پُر جوش نہیں جیسا ہمارا بچپن تھا۔ دو تین گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کارٹون دیکھنا، ویڈیو گیم، موبائل فون اور انٹرنیٹ میں غرق بچوں کی دنیا ایک کمرہ تک محدود ہوتی ہے جب کہ ہمارے کھیلوں اور شرارتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

    اکثر ہمارے کھیلوں کے شور اور ہنگاموں سے گھر والے اور کبھی کبھی اہلِ محلّہ بھی عاجز رہتے تھے۔

    ہمارے بچپن کے محبوب کھیل آنکھ مچولی، چور سپاہی، اندھا بھینسا، اونچ نیچ اور کوڑا جمال شاہی ہوتے تھے۔ جب کچھ اور بڑے ہوئے تو گلی ڈنڈا، کبڈی، گیند تڑی، گیند بلا، فٹ بال اور پتنگ بازی کی طرف راغب ہوئے۔ لُو کے گرم تھپیڑوں اور دانت کٹکٹانے والی سردی میں بھی ہم اسی طرح ان کھیلوں میں محو رہتے۔

    بچپن کی یادوں کی کہکشاں سے ایک شرارت کا احوال بھی سن لیں۔

    ہمارے جگری دوستوں میں ایک یونس کپاڈیا تھے جن کو ہم پیار سے کباڑیا کہتے تھے کیوں کہ حلیہ سے وہ لگتے بھی ایسے ہی تھے۔ کباڑیا کا شمار محلّے کے شریر ترین لڑکوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہر روز کسی نئی شرارت کا پروگرام لے کر آتے اور کبھی کبھی ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ اکثر وہ تو اپنی چالاکی کی وجہ سے بچ کر نکل جاتے اور ہم پھنس جاتے۔

    ایک بار ہمارا دل پلاؤ کھانے کے لیے بہت مچل رہا تھا۔ دبی دبی زبان سے اماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے خوب صورتی سے ٹال دیا۔ ایک دن دوپہر کو گلی ڈنڈا کھیلنے کے بعد ہم اور کباڑیا نیم کے نیچے بیٹھے سستا رہے تھے۔ جب ہم نے ان سے پلاؤکھانے کی خواہش کا ذکر کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کچھ دیر ہونٹ سکوڑ کر سوچتے رہے پھر بولے۔

    ’’یار ایک ترکیب ہے۔ تم کہہ رہے تھے کہ جب تمہارے ماموں موتی میاں حسن پور سے آتے ہیں تو تمہاری اماں پلاؤ ضرور بناتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں وہ تو ہے لیکن فی الحال تو ماموں کے آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔

    ’’یار سنو تو۔ تم تو گاؤں کے گاؤدی ہو۔ ایسا کرو کہ ماموں کی طرف سے اپنے گھر کے پتے پر ایک خط لکھو جس میں یہ اطلاع ہو کہ تمہارے ماموں فلاں فلاں تاریخ کو تمہارے گھر پہنچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی آمد کی خبر سن کر تمہاری امی ان کی پسند کے کھانے پکائیں گی۔ ماموں نے تو آنا نہیں ہے۔ کچھ دیر انتظار کر کے گھر کے لوگ ہی وہ کھانا کھائیں گے۔‘‘

    ’’یار کباڑیا! بات تو پتے کی ہے لیکن اگر پول کھل گیا تو شامت آجائے گی۔‘‘ ہم نے خدشہ ظاہر کیا۔

    ’’اماں کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ دن بعد یہ بات پرانی ہوجائے گی۔ تمہارے ماموں کون سے روز روز آتے ہیں لیکن دوست! ہمیں بھی اس موقع پر یاد رکھنا۔‘‘ کباڑیا مسکرائے۔

    قصہ مختصر کہ دو پیسے کا پوسٹ کارڈ خریدا گیا۔ کباڑیا کی بیٹھک میں کواڑ بند کر کے ہم نے کانپتی انگلیوں سے قلم پکڑا۔ کباڑیا نے ڈانٹتے ہوئے قلم لے لیا۔

    ’’یار تم بالکل عقل سے پیدل ہو۔ ایک تو تمہارا خط اتنا خراب ہے کہ تم خود نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے علاوہ گھر میں ہر کوئی تمہاری تحریر پہچانتا ہے۔ فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ یوں خط لکھنے کے فرائض کباڑیا نے انجام دیے۔

    خط ماموں کی طرف سے ہماری اماں کے نام تھا جس میں یہ اطلاع تھی کہ ماموں ہفتہ کی شام تشریف لارہے ہیں۔ جب ہم وہ خط چوکی چوراہے کے لیٹر بکس میں پوسٹ کرنے جارہے تھے تو ڈر کے مارے پیر کانپ رہے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر ہمیں گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ بہت انتظار کے بعد جمعرات کے دن وہ تاریخی خط پہنچ گیا۔

    ہم نے دیکھا کہ دوسری ڈاک کے ساتھ وہ پوسٹ کارڈ ہمارے والد صاحب کے سرہانے رکھا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد ہمارے والد صاحب نے ہماری اماں سے کہا:’’ارے بھئی سنتی نہیں ہو (قبلہ والد صاحب ہماری والدہ کو ’’سنتی نہیں ہو‘‘ یا ’’کہاں گئیں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے) ہفتہ کی شام کو موتی میاں آرہے ہیں۔‘‘

    امّاں بہت خوش ہوئیں۔ ابھی تک ہماری اسکیم کام یاب جارہی تھی۔ ہفتہ کے دن تیسرے پہر پلاؤ کی یخنی چولھے پر چڑھ گئی۔ شامی کباب کے لیے چنے کی دال اور قیمہ سل پر پسنا شروع ہوا۔ کھانے کی خوش بُو سے شام ہی سے پیٹ میں چوہے دوڑنا شروع ہوگئے۔

    شام چار بجے ایک ایسا بم گرا کہ ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہم سائیکل پر دہی لے کر آرہے تھے۔ دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک سائیکل رکشے سے ہمارے موتی ماموں اپنا مخصوص خاکی رنگ کا تھیلا لیے اتر رہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے گلے سے لگایا۔ ہماری ایسی سٹی گم تھی کہ ہمیں ان کو سلام کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ ماموں کے خط کا ذکر ضرور آئے گا اور ہماری شرافت کا سارا پھول کھل جائے گا۔

    ماموں کے گھر میں آتے ہی ہم ان سے چپک گئے کہ جیسے ہی خط کا ذکر آئے ہم بچاؤ کی کچھ ترکیب کریں۔ دو تین گھنٹے خیریت سے گزر گئے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم سب لوگ آنگن میں بیٹھے تھے۔ ماموں محفل سجائے شکار کے فرضی قصے سنا رہے تھے۔ ہماری امّاں ادھر سے گزریں اور کہنے لگیں۔

    ’’ارے بھیا! تُو نے تو لکھا۔۔۔‘‘ اتنا سنتے ہی ہم پیٹ دبا کر ایسے کراہے کہ سب گھبرا کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ ہم پیٹ پکڑ کرپلنگ پر لیٹ گئے۔ اماں کام چھوڑ کر ہماری طرف لپکیں۔ ہمیں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے وہی مخصوص کڑوا لال شربت دے کر چکنی غذا سے پرہیز کی تاکید کردی۔

    رات کو سب لوگ دسترخوان کے گرد بیٹھے پلاؤ اور شامی کباب کے مزے لے رہے تھے اور ہم چمچے سے دلیا کھاتے ہوئے حسرت سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ گلی میں سے کباڑیا کی مخصوص سیٹی کی آواز آرہی تھی۔ شاید وہ بھی بھوک سے تلملا رہے تھے۔