Tag: بچوں کا ادب

  • دیہاتی اور لومڑی

    دیہاتی اور لومڑی

    ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آرہی تھیں۔

    تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک کے کنارے رکھا ہے اور اس پنجرے میں ایک شیر بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس آگیا۔

    اندر بند شیر نے جب اس کو دیکھا تو رونی صورت بنا کر بولا۔ ’’بھیا تم بہت اچھّے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ دیکھو مجھے کسی نے اس پنجرے میں بند کر دیا ہے اگر تم کھول دو گے تو بہت مہربانی ہوگی۔‘‘

    دیہاتی آدمی ڈر رہا تھا مگر اپنی تعریف سن کر اور قریب آگیا۔ تب شیر نے اس کی اور تعریف کرنا شروع کر دی۔ ’’بھیّا تم تو بہت ہی اچھے اور خوب صورت آدمی ہو۔ یہاں بہت سے لوگ گزرے مگر کوئی مجھے اتنا اچّھا نہیں لگا۔ تم قریب آؤ اور پنجرے پر لگی زنجیر کھول دو۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ دو دن سے یہیں بند ہوں۔‘‘

    اس آدمی کو بہت ترس آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔

    شیر دہاڑ مار کر باہر آگیا اور دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا۔ ’’ارے میں نے ہی تم کو کھولا اور مجھ ہی کو کھا نے جارہے ہو؟‘‘

    شیر ہنس کر بولا۔ ’’ اس دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو پاس لگے ہوئے پیڑ سے پوچھ لو۔‘‘

    دیہاتی نے پیڑ سے کہا۔ ’’بھیّا پیڑ! میں راستے پر جارہا تھا، شیر پنجرے میں بند تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کھول دو اور میں نے کھول دیا۔اب یہ مجھ ہی کو کھا نا چاہتا ہے۔‘‘

    پیڑ نے جواب دیا۔ ’’اسِ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ میرے پھل کھاتے ہیں اور میرے سائے میں اپنی تھکن مٹاتے ہیں مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو مجھے کاٹ کر جلا بھی دیتے ہیں۔ مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔‘‘

    شیر یہ سن کر پھر دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا۔ ’’رکو ابھی کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘اس نے راستے سے پوچھا۔

    ’’بھائی راستے! دیکھو کتنی غلط بات ہے کہ شیر کو پنجرے سے میں نے نکالا اور وہ مجھ ہی کو کھانا چاہتا ہے۔‘‘

    راستے نے کہا۔’’ہاں بھائی! کیا کریں، دنیا ایسی ہی ہے۔ مجھ پر چل کر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں، میں ان کو تھکن میں آرام دینے کے لیے اپنے اوپر سلا لیتا ہوں۔ مگر جب ان کو مٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو میرے سینے پر زخم ڈال کر مجھے کھود ڈالتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں نے کبھی آرام دیا تھا۔‘‘

    شیر یہ بات سن کر پھر جھپٹا۔ دیہاتی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ تب وہاں ایک لومڑی گھومتی نظر آئی۔ دیہاتی اس کی طرف لپکا اور بولا۔ ’’دیکھو یہاں کیا غضب ہورہا ہے۔‘‘لومڑی اطمینان سے ٹہلتی ہوئی قریب آئی اور پوچھا۔’’کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو۔‘‘

    ’’دیہاتی نے کہا کہ میں راستے سے جارہا تھا، شیر پنجرے میں تھا اور پنجرہ بند تھا۔ اس نے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ پیاسا ہوں مجھے کھول دو، اور جب میں نے اسے کھولا تو یہ مجھے کھانے کر جھپٹ رہا ہے۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں اور جب ہم نے پیڑ سے پوچھا تو وہ کہہ رہا ہے کہ یہی صحیح ہے اور جب راستے سے پوچھا تو اس نے بھی کہا کہ شیر کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘

    شیر کھڑا یہ سب باتیں سن کر یہی سوچ رہا تھا کہ دیہاتی کی بات ختم ہو تو اسے کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں۔

    لومڑی بولی۔ ’’اچّھا میں سمجھ گئی، تم پنجرے میں بند تھے اور پیڑ آیا اور اس نے تم کو۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ میں نہیں شیر بند تھا۔‘‘دیہاتی نے سمجھایا۔

    ’’اچّھا۔‘‘ لومڑی نے سر ہلایا اور پھر بولی۔ ’’شیر بند تھا اور راستے نے شیر کو کھول دیا تو تم کیوں پریشان ہو؟‘‘

    ’’ ارے نہیں۔ راستے نے نہیں، میں نے اس کو پنجرے سے۔‘‘دیہاتی الجھ گیا تھا۔

    ’’بھئی میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، کون بند تھا، کس نے کھولا، کیا ہُوا پھر سے بتاؤ۔‘‘ لومڑی نے کہا۔

    ادھر شیر نے سوچا یوں تو بہت وقت بر باد ہو رہا ہے۔ اس نے لومڑی کو سمجھانے کی غرض سے اپنی طرف متوجہ کیا اور بولا۔ ’’دیکھو! میں پنجرے میں۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پنجرے کی طرف گیا اور اندر گھس گیا اور لومڑی کو سمجھایا کہ وہ یوں اندر بند تھا اور۔۔۔‘‘

    لومڑی تیزی سے چند قدم اگے بڑھی اور پنجرے کا دروازہ بند کر کے زنجیر چڑھا دی۔ آخر اس کے بڑے اور اس کے خاندان کے کئی لوگوں کو بھی تو شیر نے اپنا شکار بنایا تھا۔ آج اسے بدلہ چکانے کا موقع مل رہا تھا۔ چالاک تو وہ مشہور تھی ہی اور آج پھر ایک انسان کے سامنے اپنی چالاکی اور ذہانت منوا لی۔

    اس مڑ کر دیہاتی سے کہا۔ اب تم اپنے راستے جاؤ۔ ہر ایک مدد کے لائق نہیں ہوتا۔

    دیہاتی کی جان میں‌ جان آئی۔ اس نے اپنی لاٹھی اٹھائی اوراحسان مندی سے لومڑی کو دیکھتا ہوا اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

    (ایک لوک کہانی)

  • کہاں کی نیکی، کیسی بھلائی!

    کہاں کی نیکی، کیسی بھلائی!

    ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص، پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔

    ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں۔‘‘ چوہیا نے کہا چلو۔ دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔

    چڑیا تو اُڑتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک پھدک چلتی جاتی تھی۔ راستے میں آیا ایک دریا۔ چڑیا اس دریا کے کنارے پر بیٹھ کر نہانے لگی۔ چڑیا نے کہا، بہن چوہیا تم بھی منہ ہاتھ دھولو۔ چوہیا جو اپنا منہ ہاتھ دھونے لگیں تو دریا میں ڈوب گئیں۔

    چڑیا لگی رونے اور دعا مانگنے کہ میری چوہیا بہن نکل آئیں۔ میں کونڈا (نذر) دوں گی۔ چوہیا نکل آئی۔

    آگے چلیں تو ایک ہاتھی جارہا تھا۔ چوہیا بی اس کے پاؤں کے نیچے دب گئیں۔ چڑیا پھر رونے لگی کہ میری چوہیا بہن نکل آئیں تو میں کونڈا دوں گی۔ چوہیا ہاتھی کے پیر تلے سے بھی جتنی جاگتی نکل آئی۔

    آگے چلیں تو بہت سی کانٹوں کی جھاڑیاں تھیں۔ چوہیا بی اس میں پھنس گئیں۔ چڑیا پھر رونے لگی اور وہی دعا مانگی۔ چوہیا وہاں سے بھی صحیح و سلامت نکل آئی۔

    دونوں سہیلیاں گھر پہنچیں۔ چڑیا نے کورا کونڈا منگایا۔ ملیدہ بنا کے صحنک دی اور شکر کیا کہ میری چوہیا بہن سب جگہ سے صحیح و سلامت نکل کر گھر پہنچیں۔

    ایک روز چوہیا اور چڑیا میں لڑائی ہوئی۔ چڑیا بولیں، وہ دن بھول گئیں جب دریاؤں میں ڈوب ڈوب جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا تمہیں میری کیا پڑی؟ میں اپنا منہ ہاتھ دھلواتی تھی۔

    چڑیا نے کہا: وہ دن بھول گئیں جب ہاتھی کے پیر تلے دب دب جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا: تجھے کیا پڑی؟ میں اپنے ہاتھ پاؤں دبواتی تھی۔

    چڑیا نے کہا: وہ دن بھول گئیں جب کانٹوں میں چِھد چِھد جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا: ’’تمہیں میری کیا پڑی؟ میں تو اپنے ناک کان چِھداتی تھی۔

    سبق: سچ ہے کہ لڑائی جھگڑا اور غصّہ ہمارے تعلقات اور برسوں کی رفاقت کو پل بھر میں‌ ختم کردیتا ہے اور ایسا شخص غصّے کے عالم میں دوسرے کی تمام اچھائیوں اور احسانات کا انکار کرتے ہوئے اپنے منصب سے گر جاتا ہے۔ اس کہانی سے ہمیں‌ یہ بھی سبق ملتا ہے کہ نیکی اور احسان کے جواب میں کسی صلے اور ستائش کی توقع کم ہی رکھنی چاہیے۔

    (اردو زبان کے پرانے کتابی نسخے سے لی گئی سبق آموز کہانی جس پر مصنف یا تدوین کار کا نام درج نہیں‌ ہے)

  • پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے؟

    پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے؟

    یہ کہنا تو شاید صحیح نہ ہو کہ پاکستان میں بچوں کی کتابیں بہت کم تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ ادب کے نام پر پاکستانی بچوں کے ساتھ شدید بدسلوکی روا رکھی جا رہی ہے اور انہیں عموماً ایسی کتابیں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کے بغیر وہ زیادہ بہتر شہری بن سکتے ہیں۔

    اب یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ توجہ تو بہت زیادہ دی جا رہی ہے مگر اس توجہ کا رخ سرے سے غلط ہے۔ ذرا ان دکانوں میں جا کر جھانکیے جہاں بچوں کی کتابیں پانچ پانچ، دس دس پیسے کے عوض کرایے پر دی جاتی ہیں۔ یہ دکانیں بچوں کی کتابوں سے اٹی پڑی ہیں، مگر آپ کو ان کے ناموں اور ان کے ٹائٹلوں ہی سے اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے۔

    یہ کتابیں عموماً جنوں بھوتوں، دیوؤں، روحوں، ڈاکوؤں اور قزاقوں سے متعلق ہوتی ہیں اور ان کے سرورق انسانی چہرے میں سے نکلے ہوئے لمبے نکیلے دانتوں، چلتے ہوئے ریوالوروں اور بہتے ہوئے خون سے آراستہ ہوتے ہیں۔

    کیا کبھی کسی نے اس نکتے پر غور فرمانے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ایسا ادب ہم اس نسل کو پڑھنے کے لیے دے رہے ہیں جسے ربع صدی بعد پاکستان کی ترقی و تعمیر کا نگران بننا ہے۔

    ہمارے ہاں پہلے ہی جنوں، بھوتوں اور دیوؤں کی کہانیوں کی کمی نہ تھی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مغرب کے "کومکس” کے زیرِ اثر انسانوں نے ہی دیوؤں اور جنوں کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی مار دھاڑ اور قتل و غارت کی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے بچوں کے ایک مقبول رسالے میں بھوپت ڈاکو کی کہانی بالاقساط شائع ہوتی رہی اور بچے اسے شوق سے پڑھتے رہے۔

    بچے غیر معمولی واقعات سے بھری ہوئی کہانیاں ہمیشہ شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں کیوں کہ اس طرح ان کی بے پناہ قوتِ تخیل کو تسکین ملتی ہے، مگر اس نوع کی کہانیاں بچوں کی نفسیات اور کردار پر جو اثر مرتب کرتی ہیں ان کے بارے میں ان مصنفینِ کرام اور ناشرینِ عظام نے شاذ ہی سوچا ہو۔

    نتیجہ یہ ہے کہ آج بازاروں میں بچوں کی جو کہانیاں دھڑا دھڑ بک رہی ہیں یا کرائے پر پڑھی جا رہی ہیں وہ ہماری نئی نسل کو ذہنی طور پر بگاڑنے کا کام تیزی سے انجام دے رہی ہیں۔ ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو یکایک کیا ہو گیا ہے۔ اور وہ اپنے سے پہلی نسل سے اتنی ناگوار حد تک مختلف کیوں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تفاوت کے دوسرے اسباب کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں نسلوں کو بچپن میں جو ادب پڑھنے کو ملتا رہا ہے وہ موضوع و مواد کے معاملے میں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔

    حیرت ہے کہ اس صورتِ حال سے متعلق اِکا دکا بیانات نظر سے ضرور گزرتے رہتے ہیں مگر حکامِ تعلیم یا مصنفین یا ناشرین نے اجتماعی طور پر اس صورت کی اصلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

    ناشرین اپنے حقوق کے لیے تو متفق ہو جاتے ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ اپنے حقوق کا تحفظ دراصل اس امر کی علامت ہے کہ ہمیں اپنی آزادی اور اس آزادی سے ملنے والی سہولتوں کا شعور حاصل ہے، چنانچہ ناشرین کو اپنے حقوق کی یقیناً حفاظت کرنی چاہیے، مگر حقوق کے علاوہ ہر آزاد شہری کے فرائض بھی تو ہوتے ہیں۔

    اب تو ناشرین میں ماشاءاللہ بڑے پڑھے لکھے اور با شعور افراد شامل ہیں، اگر وہ طے کر لیں کہ وہ بچوں کا ایسا ادب نہیں چھاپیں گے جو بچوں کی ذہنی تعمیر کی بجائے ان کی تخریب کرے اور اگر وہ ایسے ناشرین کا مقاطعہ کرنے کا فیصلہ کریں جو محض معمولی سی مالی منفعت کی خاطر پاکستان کی پوری نسل کو اور یوں بالواسطہ طور پر پاکستان کے مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کا جو خطرناک ادب ان دنوں شائع ہو رہا ہے اس کا کماحقہ تدارک ہو جائے گا۔

    (اردو کے معروف ادیب، افسانہ نگار، شاعر، صحافی اور مدیر احمد ندیم قاسمی کی نسلِ نو کی تعلیم و تربیت سے متعلق ایک چشم کُشا اور فکر انگیز تحریر سے اقتباس)

  • وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے سامنے کسی ملزم کو پیش کیا گیا اور کوتوال نے بادشاہ سے اجازت طلب کی کہ دربار میں اس کا مقدمہ سنایا جائے۔

    بادشاہ نے مقدمہ سنا اور ملزم کو موت کی سزا سنا دی۔ بادشاہ کا فیصلہ جان کر سپاہیوں نے ملزم کو پکڑا اور دربار سے باہر کی طرف لے کر چلے۔

    ملزم نے باہر جاتے ہوئے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ سچ ہے کہ جان کا خوف بڑا ہوتا ہے۔ کسی شخص کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کرنے کا حکم دیا جا چکا ہو اور وہ سپاہیوں کے نرغے میں مقتل کی طرف جا رہا ہو۔

    ملزم کو سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے کم از کم یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ اس کی بکواس بادشاہ سن لے یا کوئی دوسرا سن کر بادشاہ کو بتا دے تو وہ طیش میں‌ آکر اس کا سَر قلم کروا دے۔ یہ تو اب یوں‌ بھی ہونے ہی والا تھا۔

    بادشاہ نے قیدی کو کچھ کہتے دیکھا تو اس نے ایک وزیر، جو قیدی کے نہایت قریب تھا، سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا تھا؟ بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا۔ اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصّے میں‌ آجائے گا اور ممکن ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو جسمانی تکلیف اور آزار دے۔

    اس رحم دل وزیر نے جواب دیا۔ جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔

    بادشاہ کا ایک اور وزیر بھی دربار میں‌ موجود تھا جو اس رحم دل وزیر کا بڑا مخالف اور ایک تنگ دل انسان تھا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا۔

    یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں۔ اب اس نے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ سچ یہ ہے کہ وہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ اس نے غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہیں کی۔

    وزیر کی یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا۔ اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔

    یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو۔ وہ سچ جو فساد کا سبب ہو، اس سے بہتر نہیں‌ کہ وہ جھوٹ زباں پر آئے جو فساد اور اس کی تباہ کاریوں کا راستہ روک لے۔ حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔

    بادشاہ نے قیدی کو آزاد کرنے کا حکم بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ شاہانِ وقت ہمیشہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر وہ اسے اچھا مشورہ اور بھلی بات کہیں‌ تو یہ سب کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

    یہ حکایت حضرت شیخ‌ سعدیؒ سے منسوب ہے۔ تاہم اس حکایت کے بیان کا مدعا اور مقصود یہ ہے کہ مصلحتا اور نیک نیتی کے ساتھ کسی برائی اور بڑے فساد کو روکنے کے لیے جھوٹ بولا جاسکتا ہے، لیکن پیشِ نظر کوئی اعلیٰ و ارفع مقصد ہو تو اسے معاملہ فہمی اور تدبیر کہا جاسکتا ہے، ورنہ جھوٹ اور دروغ گوئی بدترین فعل ہی ہے۔

  • کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    آج ہانز کرسچن اینڈرسن کا یومِ پیدائش ہے اور اسی مناسبت سے دنیا ہر سال 2 اپریل کو بچوں کی کتب کا عالمی دن بھی مناتی ہے۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا ایک عظیم لکھاری اور ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔

    اس کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے۔ 1805 میں پیدا ہونے والے اینڈریسن نے غربت اور تنگ دستی دیکھی تھی اور ایک روز والد کا سایہ بھی سَر سے اٹھ گیا۔ وہ دس سال کا تھا جب معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    اینڈرسن اسکول میں چند ہی جماعتیں ہی پڑھ سکا تھا، مگر جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن کے تخلیقی جوہر اور اس کی صلاحیتوں کو بھانپ کر اس کے ایک محسن نے اسے کہانیاں لکھنے پر آمادہ کر لیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس کا یہ فیصلہ درست تھا۔

    اس نے بچوں اور بڑوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔ اس کی کہانیاں دل چسپ، بامقصد اور سبق آموز تھیں جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کے بارے میں‌ نہایت خوب صورتی سے کہانیاں تخلیق کیں جن میں اسنوکوئن، اگلی ڈکلنگ، ماچس فروش اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس لکھاری کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کے قلم کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے دنیا نے اس کے یومِ پیدائش پر بچوں کی کتب کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔ تاہم کرونا کی وبا کے باعث اس سال کہیں بھی اجتماع اور کتب میلوں کا انعقاد نہیں‌ کیا جاسکا ہے۔ ماضی میں اس دن کی مناسبت سے میلے اور دیگر تقاریب منعقد کی جاتی رہی ہیں۔

    آج زمانہ بدل چکا ہے، اور اب کتب بینی کا رجحان کم ہو رہا ہے یا مطالعے کے لیے برقی آلات کا سہارا لیا جارہا ہے، لیکن اس دور میں بھی کتب اور مختلف رسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید آلات اوراقِ رسائل اور کتابوں کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتے۔ ان کی اپنی اہمیت اور افادیت ضرور ہے، لیکن ہمیں اپنے مستقبل کو زیادہ باشعور، کارآمد اور مفید انسان بنانے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کے بہترین طریقے اپنانے کی ضرورت ہے اور کتابوں کو اس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

    دنیا بھر میں دانش وروں اور نابغہ روزگار شخصیات کا اصرار ہے کہ بچوں کی کردار سازی اور ان کی تعلیم و تربیت میں معیاری کہانیاں اور معلوماتی کتب بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    والدین کو چاہیے کہ وہ اسمارٹ فونز اور دیگر آلات کے غیر ضروری اور خاص طور پر بے مقصد استعمال کے نقصانات کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کو کتب بینی پر آمادہ کریں اور اس دن کی مناسبت سے بچوں کو دل چسپ انداز اور عام فہم انداز سے کتابوں کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کریں۔

    پاکستان میں چند دہائیوں قبل تک بچوں کے جرائد کی اشاعت اور مختلف رسالوں میں ان کے لیے گوشہ مخصوص ہوتا تھا جس کا ہر گھر میں‌ بچے بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔ یہ سب نونہالانِ وطن کی اخلاقی اور فکری تربیت، کردار سازی اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا اہم ذریعہ ہے جن کے قارئین کی تعداد کم ہوچکی ہے اور کئی ماہ نامے اور مختلف رسائل بند ہو چکے ہیں جو نہایت افسوس ناک اور قابلِ توجہ مسئلہ ہے۔

  • آرٹس کونسل کراچی میں بچوں کا شاندار لٹریچر فیسٹیول

    آرٹس کونسل کراچی میں بچوں کا شاندار لٹریچر فیسٹیول

    کراچی:  ساٹھویں چلڈرن لٹریچر فیسٹول کے دو روزہ پروگرام میں سے پہلے دن کا انعقاد نہایت کامیابی کے ساتھ عمل میں آیا جس میں بچوں اور بڑوں نے نہایت جوش و خروش سے حصّہ لیا۔

    فیسٹول کے لئے سجائے گئے تمام پنڈالوں کے نام مشہور ہیروز یا شخصیات کے نام پر رکھے گئے ہیں مثال کے طور پر بھٹ شاہ آڈیٹوریم‘ فہمیدہ ریاض کی بیٹھک‘حمیدہ کھوڑو کی بیٹھک‘باب ہنگول‘جمشید نصیروانجی میٹھا کورٹ یارڈ‘صادقین کی گلی‘سہیل رعنا آڈیٹوریم‘ انیتا غلام علی آڈیٹوریم‘حکیم سعید کا گہوارہ‘ پروفیسر عبدالسلام لیب اور برنس روڈ کا ڈھابا۔

    بیک وقت کئی سیشنوں سے فیسٹول کاآغاز ہوا جس کی وجہ سے شرکاء کے لئے اس بات کا تعین کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ وہ کس سیشن میں شریک ہوں اور کس سیشن کو چھوڑیں اسی وجہ سے بہت سے لوگ سیشن کے دوران ایک سیشن سے دوسرے سیشن کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیشنوں میں حصّہ لے سکیں۔

    فیسٹول کے پہلے دن بھٹائی آڈیٹوریم میں ایسے بچوں کی بھیڑ نظر آئے جو تھیٹر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہاں ورکشاپ کا اہتمام دی اسپینسرز تھیڑ کے عاطف بدر کی جانب سے کیا گیا تھا۔تحریک نسواں نے کٹھ پتلی کا تماشہ پیش کرکے خوب داد وصول کی‘یہاں موسیقی‘ شاعری اور ڈرامے کے سیشن بھی منعقد ہوئے۔

    سہیل رانا آڈیٹوریم میں اوپن مائیک سیشن کے تحت ماہرین‘طلباء کے سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔اس کے بعد خالد انعم کی ہمراہی میں گانے بھی گائے گئے‘بعد ازاں نوجوان قوالوں نے قوالی پیش کرکے حاضرین سے خوب داد پائی۔

    جو بھی افتتاحی پروگرام اس آڈیٹوریم میں منعقد ہورہے تھے اس میں وزیر تعلیم و خواندگی تعلیم‘ ثقافت‘ سیاحت اور نوادرات سید سردار علی شاہ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔تلاوت کی پرفارمنس کے مظاہر ے کے دوران ہی 2011ء سے اب تک فیسٹول کے لئے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اسپیشل سی ایل ایف آؤٹ اسٹینڈنگ سروس ایوارڈز پیش کئے گئے۔اسی آڈیٹوریم میں فلم اسکریننگ بھی کی گئی جس پر شرمین عبید چنائے اور شہر بانو سید نے اظہار خیال کیا۔

    حکیم سعید کے کمرے میں سارا دن جو سیشن ہوئے اس میں رومانہ حسین کی ٹام مور کے ساتھ ”سندھ کے بچوں کی تاریخ“کے حوالے سے اسٹوری ٹیلنگ‘ تھیڑ‘ ورکشاپس اور مباحثوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں کتاب اور سیکھنے کے جدید طریقوں پر بھی بات کی گئی۔

    انیتا غلام علی آڈیٹوریم میں کتابوں کی اجرائی تقریبات‘ ایک ڈرامے اور آرکیٹیکٹ مختار حسین کی سربراہی میں کراچی کی تاریخی عمارتوں پر مباحثوں کا سلسلہ جاری تھا۔

    فہمیدہ ریاض کی بیٹھک میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے فہمیدہ ریاض کے فن کے حوالے سے بات چیت کی گئی جنہوں نے بچوں کے ادب کے حوالے سے بہت زیادہ کام کیا ہے‘ علاوہ ازیں یہاں بک میکنگ کے حوالے سے پورے دن کی ورکشاپ بھی منعقد ہوئی۔

    ڈاکٹر حمیدہ کھوڑوکی بیٹھک میں ارسلان لاڑک کی جانب سے ایموشنل اور مینٹل ہیلتھ پر سیشن کا سلسلہ جاری تھا۔اسٹوری ٹیلنگ‘بچو ں کے لئے انٹریکٹو تفریحی کھیل‘ نوجوان مصنفوں کا فورم‘ریڈنگ امپرومنٹ پروگرام کا سیشن اور گدھوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے سے متعلق پروگرام بھی دیکھنے میں آئے۔

    صادقین کی گلی میں آرٹ اینڈ کرافٹ کی ورکشاپ‘تھیم گیمز‘فوٹو بوتھ اور بچوں کی بک الیسٹریشن کی کی ایگزبیشن کی گئی۔

    باب ہنگول میں دن بھر ایک تھری ڈی آرٹ پرفارمیٹو انٹریکٹو ڈسپلے کیا جاتا رہا جبکہ عبدالسلام لیب میں ڈیجیٹل سرگرمیاں جاری تھیں۔نوجوان نسل کی تخلیقی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے کے لئے جمشیدنصیراونجی مہتہ کورٹ یادڑ میں کلے ماڈلنگ‘ ڈیجیٹل تھری ڈی سرگرمیاں‘پاپ اپ لرننگ‘مکلی پر ڈاکومنٹری اور ہونے والی دیگر سرگرمیاں‘ مینٹل ہیلتھ کیمپ‘ لرننگ اینڈ ریڈنگ کارنر ہوتے نظر آئے۔

    یاد رہے کہ سی ایل ایف یا چلڈرن لٹریچر فیسٹول ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو نہ صرف پاکستانی بچوں بلکہ اساتذہ کو بھی اپنی ذہانت بروئے کار لانے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔سی ایل ایف کا انتظام ادارہ تعلیم و آگاہی)آئی ٹی اے(کی جانب سے کیا گیا ہے۔یہ ملک بھر میں منعقد ہونے و الا ایک انتہائی بااثر فیسٹول ہے جس کی 2011ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک چاروں صوبوں کے دارلخلافہ اسلام آباد اور 25سے زائد اضلاع میں 59تقریبات منعقد ہوچکی ہیں جس سے تقریباً14لاکھ سے زائد بچے اور اساتذہ مستفید ہوچکے ہیں۔

  • عالمی اردوکانفرنس میں بچوں کے ادب کا خصوصی سیشن

    عالمی اردوکانفرنس میں بچوں کے ادب کا خصوصی سیشن

    کراچی: آرٹس کونسل میں جاری عالمی اردو کانفرنس میں بچوں کے ادب سے متعلق خصوصی سیشن منعقد ہوا جبکہ اس موقع پر کلینڈر کا اجرا بھی کیا گیا۔

    معروف شاعر ، ادیب اور جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی نے کہا ہے کہ کرپشن ذہنی بیماری ہے اور ذہنی بیمار لوگ کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں ، کرپشن کے خاتمہ ادبی سرگرمیوں کے فروغ اورتربیت سے ممکن ہے،بچوں کا ادب ناپید ہوتا جا رہا ہے، بچوں کے ادب کے ذریعے پہلے شخصیت کی تعمیر ہوتی تھی اور اب بچوں کے ادیب کم ہوتے جا رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے ، ٹیکنالوجی کے نام پر ہم نے بچوں روبوٹس میں تبدیل کردیا ہے ۔بچوں کو موبائل ، لیپ ٹاپ اور ٹیب لیٹس کے بہ جائے کتاب اور کتاب دوست سرگرمیوں کے فروغ کی ضرورت ہے ۔ہم بچوں کے ادب کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں جو نئی نسل کی تربیت کا ذریعہ ہوتا ہے ۔

    وہ جہان مسیحا ادبی فورم اور ادویہ ساز ادارے کے زیراہتمام نئے سال کے موضوعاتی کیلنڈر کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے، سال 2019کے کیلنڈر کا موضوع’’ بچوں کا ادب،قومی تعمیر کا سبب ‘‘ رکھا گیا ہے ،35ہزار سے زائد کیلنڈر ڈاکٹروں،ادیبوں اور عام افراد میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ جہان مسیحا ادبی فورم اب تک 20موضوعاتی کیلنڈر کا اجراء کرچکا ہے۔

    تقریب سے ہمدرد فاؤنڈیشن کی صدر سعدیہ راشد، جہان مسیحا ادبی فورم کے سرپرست سید جمشید احمد، قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر،معروف صنعت کار ہارون قاسم، پروفیسر سلیم مغل،ڈاکٹر نثار احمد راؤ، ڈاکٹر مشہور عالم اور دیگر نے خطاب کیا۔

    ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی کا کہنا تھا کہ بچوں کاا دب تخلیق کرنا آسان کام نہیں ہے ،اس کے باوجود بہت سے شاعر اور ادیب کوشش کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے لیے لکھ سکیں لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا،کیوں کہ یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لکھا جا رہا ہے جو انتہائی مختصر ہے اور پڑھنے والوں کو وہ پسند بھی نہیں ۔پیرزادہ قاسم کا کہنا تھا کہ ہر ادیب بچوں کے لیے لکھ نہیں سکتا یہ ایک خاص صلاحیت ہے جو خاص عطا کردہ ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کیا جائے۔

    ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچوں کے لیے اچھا لٹریچر موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں کی کتابوں سے دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے ، بچوں کی کتاب دوستی میں فرق پڑا ہے اور ان کی دلچسپی دوسری سرگرمیوں میں بڑھ گئی ہے، انہیں موبائل، لیپ ٹاپس اور ٹیبلیٹس کے نام پر دوسری سرگرمیاں میسر آچکی ہیں جو ان کی ذہنی صلاحیتوں کو ماند کر رہی ہیں ،، ان کا کہنا تھا کہ سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ بچوں کا ادب فروغ پانے سے بچوں میں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا شوق بھی پیدا کرتا ہے ۔بچوں کی شخصیت کو نکھارتا اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے ۔

    ہمدرد فاؤنڈیشن کی صدر سعدیہ راشد کا کہنا تھا کہ میرے والد حکیم محمد سعید بچوں کے ادب کے سرخیل ہیں ، انہوں نے بچوں کے لیے نونہال رسالہ نکالا جو 50برس سے آج بھی شائع کیا جا رہا ہے اور اس رسالے نے ہزاروں بچوں کی زندگیوں کو سدھارا ہے اور ان کی شخصیت کو نکھارا ہے ۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ جو بچوں کے ادب پر مبنی کیلنڈر جاری کیا گیا اس میں ان کے والد اور نونہال کا ذکر کہیں نہیں ہے جو بدقسمتی کی بات ہے ۔

    انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جس طرح فوڈ اسٹریٹس بنائی گئی ہیں ایسے ہی بک اسٹریٹس بنائی جائیں تاکہ بچے وہاں جا سکیں کتابیں خرید سکیں اور اپنا وقت موبائل اور دیگر سرگرمیوں میں ضائع کرنے کے بہ جائے اپنا وقت کردار سازی اور اچھے سرگرمیوں میں صرف کر سکیں ۔جہان مسیحا ادبی فورم کے سرپرست سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے ادارے کی جانب سے بیسواں کیلنڈر ہے جو بچوں کے ادب سے متعلق جاری کیا گیا ہے ، جس کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ پاکستان میں اردو زبان زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے ، اسکولوں میں بچوں پر زور دیاجاتا ہے کہ وہ انگریزی میں بات کریں، وہ والد جو کہ اسکول انتظامہ سے بات کرتے ہیں ان سے بڑا عامیانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے جبکہ انگریزی بولنے والے والدین کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں میں کتابیں پڑھنے کے رجحان کو عام کرنے کی ضرورت ہے ،وہ بھی ان کی اپنی مادری زبان میں ہو تاکہ وہ اپنی تہذیب سے آشنا ہو سکیں ۔قائد اعظم اکیڈمی کے سربراہ خوجہ رضی حیدر نے کہا کہ اس کیلنڈر کے لیے انہوں نے بچوں کی سینکڑوں کتابیں اور رسائل وجرائد کا مطالعہ کیا ۔کیلنڈر کے بارہ صفحات کے لیے 12شخصیات اور بچوں کے لکھاریوں کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں تھا ۔