Tag: بچوں کا عالمی دن

  • عالمی یومِ‌ اطفال:‌ "ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے!”

    عالمی یومِ‌ اطفال:‌ "ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے!”

    پھول اور بچّے کسے اچھے نہیں لگتے؟ دونوں ہی دل میں امنگوں اور آرزوؤں کو فروزاں رکھتے ہیں، بقول شاعر

    مجھے بچّوں کی آنکھوں میں وہ سارے رنگ ملتے ہیں
    جنھیں چھونے سے آئے زندگی کی خواہشیں کرنا

    جس طرح باغباں کی عدم توجہی سے پھول مرجھانے لگتے ہیں بالکل ایسے ہی والدین اور اساتذہ کی عدم دل چسپی، بے توجہی، سماجی ناہمواری بچّوں سے معصومیت اور خود اعتمادی چھین لیتی ہے۔ اس کی جگہ تفکرات لے لیتے ہیں۔

    کیا عجب عہد ہے کہ بچّے بھی
    بولتے کم ہیں سوچتے ہیں بہت

    بے فکری اور معصومیت جب نو عمری ہی میں بچّوں سے چھن جائے، تب حساس دل، بیدار مغز اور روشن ضمیر اس دُکھ کو اپنے اندر تک اُترتا محسوس کرتے ہیں۔جنگِ عظیم اوّل اور دوم سے جو تباہی آئی ان کے متاثرین میں ایک بڑی تعداد بچّوں کی بھی تھی، وہ بچّے جن کے دَم سے گھروں ہی میں نہیں دلوں میں بھی رونق اور روشنی سی پھیل جاتی ہے۔ جنگوں کے اثرات سے یہی بچّے مختلف النوع مسائل اور بیماریوں میں گھر گئے تھے۔

    اقوامِ متحدہ کے 1992ء کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 20 نومبرکو عالمی یومِ اطفال منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یوں بچّوں کا عالمی دن آج بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر بچّوں کے حقوق سے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اور ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بچّوں کی فلاح و بہبود کے نعرے تو بہت لگتے ہیں لیکن جب مختلف ممالک بالخصوص پسماندہ ملکوں کی سالانہ جائزہ رپورٹیں‌ سامنے آتی ہیں‌ تو افسوس ہوتا ہے۔ بچّوں کے مسائل ہیں کہ روز بہ روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور وسائل اتنے محدود کہ مسائل کا حل بھی دشوار ہے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں 15 سال سے کم عمر بچّوں کی کثیر تعداد تعلیم، صحت اور غذا سے محروم ہے۔ بھوک اور افلاس کے مارے، دل گرفتہ اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار والدین اپنے بچّوں کو فروخت اور قتل کر رہے ہیں۔ غربت کے نتیجے میں گداگر اور محنت کش بچّوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ روشنی ہیلپ لائن کی ایک تحقیق کے مطابق ”ایک سال سے پانچ برس کی عمر کے بچّے گداگر مافیا کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔

    میرا بھی جی چاہتا ہے میں بھی
    مدرسے جاؤں
    میں اپنے مکتب کے
    سارے بچوں کے ساتھ مل کر
    سبق سناؤں
    جو گیت نغمے کتاب میں ہیں
    وہ گنگناؤں
    مگر یہ سب کچھ میرے نصیبوں میں
    کب لکھا ہے
    میں ایک مفلس غریب ہوں اور
    دکھوں کی دہلیز
    گھر ہے میرا
    اسی سڑک پر بسر ہے میرا
    میں روز وشب اسی سڑک کنارے
    کھڑی ہوئی
    بھیک مانگتی ہوں
    (نظم: اداس بچّی، شاعر سلیمؔ مغل)

    دربدری، جھڑکیاں اور ذلّت و خواری ان گداگر بچّوں کا نصیب بنتی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بچّوں سے جبری مشقت کرانے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ سرکاری اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار کو دیکھیں‌ تو پاکستان میں محنت کش بچّوں کی تعداد ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں تقریباً 50 لاکھ بچّوں کی عمریں 10 سے 14 برس کے درمیان ہیں۔ 9 برس سے کم عمر بچّے ہزاروں کی تعداد میں چائلڈ لیبر کی وجہ سے اپنی صحت ہی نہیں بچپن بھی گنوا رہے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں۔ حقوقِ اطفال کی ایک شق کے تحت 14 سال سے کم عمر بچّوں کو فیکٹریوں، معدنی کانوں، تعمیراتی کاموں اور دیگر خطرناک ملازمتوں پر نہیں رکھا جاسکتا، لیکن پاکستان کی گھریلو صنعتوں میں محنت کش بچوں کی کثیر تعداد چوڑی، قالین بافی کی صنعت، بجلی کے آلات کی مدد سے پیکنگ اور ایسے ہی دیگر کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ شاہراہوں، ہوٹلوں، ورکشاپس وغیرہ میں بھی محنت کش بچے نظر آتے ہیں۔

    ان ہی بھکاری اور محنت کش بچوں میں سے بعض بچّے جرائم کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔ پاکستان میں جسمانی و ذہنی تشدد کے علاوہ بچّے جنسی تشدد کا شکار بھی ہیں۔ انھیں تحفظ دینا حکومت کام ہے اور اس میں معاشرے کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔

    دوسری طرف وہ والدین اور سرپرست ہیں جو بچّوں‌ سے منفی سلوک کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہوئے اور ان کی راہ نمائی کرنے کے بجائے ان پر حکم صادر کرتے ہیں یا بچّوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں جیسا کہ تعلیم کے دوران مضامین کے انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر والدین بچّوں کو نرمی سے سمجھائیں اور قائل کرنے کی کوشش کریں‌ اور ان کی بات سنیں تو یقیناً بچّے پُراعتماد بھی ہوں گے اور ان میں‌ زندگی اور اس سے متعلق فیصلے کرنے کا شعور بھی پیدا ہوگا۔ ایسے بچّے عملی زندگی میں زیادہ کام یاب ہوسکتے ہیں اور بہترین شہری بھی ثابت ہوتے ہیں۔

    گزشتہ چند برسوں سے بچّوں کے کھیل کود اور تفریحی سرگرمیاں یا مشاغل میں بہت واضح تبدیلی آئی ہے جس کا براہِ راست اثر ان کی شخصیت پر پڑ رہا ہے۔ اب سے کچھ عرصے پہلے تک بچّے ایسی جسمانی اور دماغی سرگرمیاں‌ انجام دے سکتے تھے جس سے ان کی صحت کے ساتھ ذہنی و اخلاقی تربیت بھی ہوتی۔ بچوں کے کھیل اور مشاغل تفریح کے ساتھ ساتھ انہیں تعمیری سوچ اور مثبت طرزِ عمل سکھاتے تھے۔ نتیجے میں بہت سی کامیابیاں ان کے حصے میں آتیں۔ لیکن اب بچّے تن آسانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ نہ وہ پہلی سی پھرتی رہی نہ خوش دلی۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ والدین نے بچّوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا میں چھوڑ کر خود کو اپنی مصروفیات میں گم کر لیا ہے۔ یہ تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ بچے کس نوعیت کے کھیلوں میں دل چسپی لے رہے ہیں؟ اور ان سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ والدین بچّوں کی عادات اور رویوں میں تبدیلی سے متفکر تو نظر آتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں‌ کرتے اور اپنا کردار بھی ادا نہیں‌ کر رہے، والدین اپنے بچوں کی جائز خواہشات کا احترام ضرور کریں، انہیں جدید ٹکینالوجی اور اشیاء و سہولتیں بھی مہیا کریں لیکن ساتھ ہی بچوں پر نظر بھی رکھیں اور ان کے معمولات میں دل چسپی لیں تاکہ یہ جاننا آسان ہو کہ وہ کیا سوچتے اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔

    ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے بچوں نے معلومات کے حصول کا ذریعہ موبائل اور انٹرنیٹ ہی کو سمجھ لیا ہے اور مطالعے سے ان کی دل چسپی باقی نہیں‌ رہی ہے۔ اچھی کتاب کا مطالعہ شخصیت کو نکھار دیتا ہے۔ بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں اقدامات کرے۔

    قارئینِ کرام! حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عالمی یومِ اطفال پر زور و شور سے بیانات دینے والوں کو اپنی مجرمانہ غفلت کا احساس تک نہیں کہ ہم ان معصوم بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ حقوق سے محرومی بچوں کی شخصیت کو کس طرح مسخ کر دیتی ہے یہ ہمیں سمجھنا ہوگا ورنہ بچّے کہہ سکتے ہیں کہ

    ہمارا حال ہم سے کہہ رہا ہے
    ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے

    (عالمی یومِ اطفال پر شائستہ زریں ؔ کی خصوصی تحریر)

  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں‌ پہلے تھیم بیسڈ ’چلڈرن ویک‘ کا انعقاد، ہزاروں بچے شریک

    سندھ کے تعلیمی اداروں میں‌ پہلے تھیم بیسڈ ’چلڈرن ویک‘ کا انعقاد، ہزاروں بچے شریک

    کراچی: سندھ کے تعلیمی اداروں میں‌ پہلے تھیم بیسڈ ’چلڈرن ویک‘ کا انعقاد کیا گیا، اختتامی تقریب میں 20 ہزار سے زیادہ بچوں نے شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے تعلیمی اداروں میں منائے گئے چلڈرنز ویک کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کمشنر کراچی محمد اقبال میمن نے کہا کہ بچوں کا عالمی دن بچوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے، والدین ہراسمنٹ اور ڈرگز کے استعمال پر کڑی نظر رکھیں۔

    انھوں نے کہا تعلیمی ادارے، والدین اور انتظامی ادارے مل کر بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کرسکتے ہیں۔

    ایڈیشنل ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز حکومت سندھ رفیعہ جاوید نے کہا کہ بچے فیوچر سٹیزنز ہیں، دنیا میں تبدیلی اور ترقی ان کے ذریعے ہی ممکن ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حساس اور سنگین مسائل پر کھل کر بات کریں۔ انھوں نے کہا پہلا تھیم بیسڈ چلڈرن ویک سندھ کے تعلیمی اداروں میں بھرپور انداز میں منعقد ہوا۔

    ڈاکٹر نصرت پروین سہتو نے کہا کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھ کر ان کی بہترین نشوونما کی جا سکتی ہے، حیدرعلی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب مل کر بچوں کو مستقبل کے بہترین شہری تیار کر سکتے ہیں، بچوں کی ذہنی قابلیت کے ساتھ جذباتی اور معاشرتی نشوونما بھی ضروری ہے۔

    واضح رہے کہ صوبائی وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ کی ہدایات پر ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ اور آل سندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے اشتراک سے بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے پہلے تاریخی ’چلڈرن ویک‘ کا 14 نومبر تا 19 نومبر انعقاد کیا گیا۔

    چلڈرن ویک میں بچوں کی بُلنگ، جسمانی سزا، ہراسمنٹ، ڈرگز کے استعمال، والدین کی اہمیت اور فیوچر سٹیزنز کے لازمی تقاضے، جیسے عنوانات پر مختلف پینل ڈسکشنز اور سرگرمیوں پر مشتمل پروگرامز منعقد کیے گئے۔

    آخری روز 20 ہزار سے زیادہ بچوں اور 4 ہزار سے زیادہ اساتذہ کے لیے پی اے ایف میوزیم کراچی میں گرینڈ کارنیوال منعقد کیا گیا۔

  • آج کے بچے کل کے لیڈر ہیں: بلاول بھٹو

    آج کے بچے کل کے لیڈر ہیں: بلاول بھٹو

    اسلام آباد: وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے بچے ہیں، آج کے بچے کل کے لیڈر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بچوں کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے بچے ہیں، بچوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آج کے بچے کل کے لیڈر ہیں، پاکستان کو داخلی و خارجی محاذ پر متعدد مشکلات کا سامنا ہے، ہماری اولین ترجیح ہمارے بچوں کا مستقبل ہونا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ آج ہم پولیو سے پاک ملک بننے کے قریب ہیں، یقینی بنانا ہوگا کہ ہر بچے کو تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات تک رسائی حاصل ہو۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے بچوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں تقریباً 19 ہزار اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے، ہم مستقبل میں موسمیاتی آفات کا شکار پوری دنیا کے مقدمے کو لڑ رہے ہیں۔

  • بچوں کےعالمی دن کے موقع پر دنیا کشمیری بچوں پر ظلم کا نوٹس لے،شبلی فراز

    بچوں کےعالمی دن کے موقع پر دنیا کشمیری بچوں پر ظلم کا نوٹس لے،شبلی فراز

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کشمیری بچوں پر ظلم کا نوٹس لے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وفاقی وزیر شبلی فراز نے اپنے پیغام میں کہا کہ بھارتی جرائم میں کم سن بچوں کی قید،شہادتیں عالمی ضمیر پر سوالیہ ہے، پیلٹ گنز کے بے رحم استعمال نے بچوں کی بصارت چھین لی ہے۔

    وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وادی جنت نظیر میں غیرانسانی،تاریخ کا طویل لاک ڈاؤن جاری ہے،مقبوضہ وادی میں بچے بھی قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

    شبلی فراز کا کہنا تھا کہ مقبوضہ وادی میں خوراک،ادویات،بچوں کے لیے دودھ تک نہیں پہنچ پا رہا،قابض افواج کے جرائم پر انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

    وفاقی وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کشمیری بچوں پر ظلم کا نوٹس لے۔

  • کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    آج ہانز کرسچن اینڈرسن کا یومِ پیدائش ہے اور اسی مناسبت سے دنیا ہر سال 2 اپریل کو بچوں کی کتب کا عالمی دن بھی مناتی ہے۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا ایک عظیم لکھاری اور ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔

    اس کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے۔ 1805 میں پیدا ہونے والے اینڈریسن نے غربت اور تنگ دستی دیکھی تھی اور ایک روز والد کا سایہ بھی سَر سے اٹھ گیا۔ وہ دس سال کا تھا جب معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    اینڈرسن اسکول میں چند ہی جماعتیں ہی پڑھ سکا تھا، مگر جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن کے تخلیقی جوہر اور اس کی صلاحیتوں کو بھانپ کر اس کے ایک محسن نے اسے کہانیاں لکھنے پر آمادہ کر لیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس کا یہ فیصلہ درست تھا۔

    اس نے بچوں اور بڑوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔ اس کی کہانیاں دل چسپ، بامقصد اور سبق آموز تھیں جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کے بارے میں‌ نہایت خوب صورتی سے کہانیاں تخلیق کیں جن میں اسنوکوئن، اگلی ڈکلنگ، ماچس فروش اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس لکھاری کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کے قلم کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے دنیا نے اس کے یومِ پیدائش پر بچوں کی کتب کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔ تاہم کرونا کی وبا کے باعث اس سال کہیں بھی اجتماع اور کتب میلوں کا انعقاد نہیں‌ کیا جاسکا ہے۔ ماضی میں اس دن کی مناسبت سے میلے اور دیگر تقاریب منعقد کی جاتی رہی ہیں۔

    آج زمانہ بدل چکا ہے، اور اب کتب بینی کا رجحان کم ہو رہا ہے یا مطالعے کے لیے برقی آلات کا سہارا لیا جارہا ہے، لیکن اس دور میں بھی کتب اور مختلف رسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید آلات اوراقِ رسائل اور کتابوں کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتے۔ ان کی اپنی اہمیت اور افادیت ضرور ہے، لیکن ہمیں اپنے مستقبل کو زیادہ باشعور، کارآمد اور مفید انسان بنانے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کے بہترین طریقے اپنانے کی ضرورت ہے اور کتابوں کو اس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

    دنیا بھر میں دانش وروں اور نابغہ روزگار شخصیات کا اصرار ہے کہ بچوں کی کردار سازی اور ان کی تعلیم و تربیت میں معیاری کہانیاں اور معلوماتی کتب بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    والدین کو چاہیے کہ وہ اسمارٹ فونز اور دیگر آلات کے غیر ضروری اور خاص طور پر بے مقصد استعمال کے نقصانات کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کو کتب بینی پر آمادہ کریں اور اس دن کی مناسبت سے بچوں کو دل چسپ انداز اور عام فہم انداز سے کتابوں کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کریں۔

    پاکستان میں چند دہائیوں قبل تک بچوں کے جرائد کی اشاعت اور مختلف رسالوں میں ان کے لیے گوشہ مخصوص ہوتا تھا جس کا ہر گھر میں‌ بچے بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔ یہ سب نونہالانِ وطن کی اخلاقی اور فکری تربیت، کردار سازی اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا اہم ذریعہ ہے جن کے قارئین کی تعداد کم ہوچکی ہے اور کئی ماہ نامے اور مختلف رسائل بند ہو چکے ہیں جو نہایت افسوس ناک اور قابلِ توجہ مسئلہ ہے۔

  • بچوں کو بہتر تعلیم و علاج کی سہولتیں دینا ریاست کی ذمے داری ہے: بلاول بھٹو

    بچوں کو بہتر تعلیم و علاج کی سہولتیں دینا ریاست کی ذمے داری ہے: بلاول بھٹو

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ بچوں کو بہتر تعلیم و علاج کی سہولتیں دینا ریاست کی ذمے داری ہے، پاکستانی بچے بہت سی سہولتوں سے محروم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ انسانوں کا سب سے قیمتی اثاثہ بچے ہوتے ہیں، بچوں کو بہتر تعلیم و علاج کی سہولتیں دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستانی بچے بہت سی سہولتوں سے محروم ہیں، بہبود اطفال پیپلز پارٹی کی اولین ترجیحات میں شامل رہے گی۔

    اس سے قبل ایک موقع پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہر جیالے کا یہ کام ہے کہ وہ عام آدمی کے معیار زندگی کی بہتری کے لیے کام کرے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ جب تک آزاد جمہوریت نہیں ہوگی تو مسائل کا حل کیسے ممکن ہوگا، اسمبلیوں میں عوامی نمائندے نہیں ہوں گے تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔

    بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو آئین دیا ہے، ان کو اپنے ہی ملک کی عدالتوں نے تختہ دار پر لٹکا دیا، شہید بینظیر بھٹو کو بھی انصاف نہ ملے تو عام آدمی کہاں جائے گا۔

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا گیا، تقاریب کا اہتمام

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا گیا، تقاریب کا اہتمام

    کراچی : بچوں کے حقوق سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا گیا، اس موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔

    بچوں کو ان کے حقوق کے ساتھ بہتر صحت اور طبی حقوق کے تحفظ کی آگاہی کیلئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بیس نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔1989میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے منظور شدہ حقوق کا اعلان کیا۔

    اس اعلان کے بعد 20نومبر 1990ء کو دنیا کے تقریباً 186 ممالک نے بچوں کے عالمی دن کی منظور شدہ حقوق کے مطابق باضابطہ حمایت کر کے اسے قانونی شکل دے دی اور ایک قرارداد کے ذریعے ہر سال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن قرار دیا۔

    اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    پاکستان میں نہ تو بچوں کی جسمانی صحت قابل فخر ہے اور نہ ہی ان کے حقوق سے متعلق سماجی آگہی فراہم کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں کے رویے روز بروز پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، پاکستان میں بہت سے بچے تو ایسے بھی ہیں جنہیں تعلیم اور خوراک جیسے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غذائیت کا شکار اور اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد افریقہ کے کئی پسماندہ ملکوں سے بھی زیادہ ہے لیکن اس وقت بچوں کے رویے اور ان کی ذہنی صحت سے متعلق معاملات نے زیادہ سنگینی اختیار کر لی ہے۔ اس کا اہم ثبوت استاد کی ناراضگی اور والدین کے زبردستی ہوسٹل بھیجنے پر بچوں کی خودکشیوں کے واقعات ہیں۔

    ملک میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث روز سینکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ہماری سرکار سب اچھا ہے کہ راگ الاپنے سے تھکتی نہیں، اس دن کی مناسبت سے آج ملک بھر میں سمینارز، ورکشاپ اور ریلیوں کاا نعقاد کیا گیا جن میں والدین سے بچوں کی مناسب تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر پرورش کرنے پر بھی زور دیا گیا۔

  • بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور روشن مستقبل ہوتے ہیں‘ عثمان بزدار

    بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور روشن مستقبل ہوتے ہیں‘ عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ نئے پاکستان میں بچوں کوان کے حقوق دینے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کےعالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور روشن مستقبل ہوتے ہیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ نئے پاکستان میں بچوں کوان کے حقوق دینے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں، بچوں کے حقوق کے تحفظ اوربہترمستقبل کے اقدامات ترجیح ہیں۔

    سردارعثمان بزدار نے مزید کہا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کومشن سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اقوام متحدہ کے زیراہتمام بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے، تاکہ دنیا بھرکے بچے مستقبل میں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1989 میں بچوں کے منظور شدہ حقوق کا اعلان کیا تھا جس کے بعد 20 نومبر 1990 کو دنیا کے تقریباََ 186 ممالک نے بچوں کے عالمی دن کی منظور شدہ حقوق کے مطابق باضابطہ حمایت کرکے اسے قانونی شکل دی تھی۔

  • عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    آج دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ بچوں کی پرورش نہایت ہی توجہ طلب معاملہ ہے کیونکہ آپ کی تربیت ہی آگے چل کر کسی بچے کو معاشرے کے لیے اچھا یا برا انسان بنا سکتی ہے۔

    اکثر والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا لیتے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

    دراصل حد سے زیادہ بچوں کا خیال رکھنا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا خیال بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ روک ٹوک بچپن کی سرحد سے گزرنے کے بعد آگے چل کر ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    یہاں ہم والدین کی تربیت کے دوران کی جانے والی ایسی ہی کچھ غلطیاں بتا رہے ہیں جن سے تمام والدین کو پرہیز کرنا چاہیئے۔


    نئے تجربات سے روکنا

    بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، والدین کا یہ خیال بچوں کو نئے تجربات کرنے سے روک دیتا ہے۔ جب بچے باہر نہیں کھیلتے، گرتے نہیں، اور انہیں چوٹ نہیں لگتی تو وہ حد سے زیادہ نازک مزاج یا کسی حد تک ڈرپوک بن جاتے ہیں۔

    بڑے ہونے کے بعد ان کی جڑوں میں موجود یہ خوف مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو انہیں زندگی میں کئی مواقع حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔


    بہت جلدی مدد کرنا

    بچپن یا نوجوانی میں جب بچے کسی مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو والدین بہت جلد ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں، یوں بچے ان مصائب کا سامنا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔

    والدین کی جذباتی، سماجی یا مالی مدد کی وجہ سے بچے خود انحصار نہیں ہو پاتے اور وہ نہیں سیکھ پاتے کہ کس طرح کے مشکل حالات سے کس طرح نمٹنا ہے۔ انحصار کرنے کی یہ عادت اس وقت بچوں کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے جب وہ والدین کے بعد اکیلے رہ جاتے ہیں۔


    ہر طرح کی کارکردگی پر یکساں تاثرات

    اگر کہیں دو بچوں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کرتا ہے، جبکہ دوسرا ناکام ہوجاتا ہے تو والدین یہ سوچ کر کہ کہیں ناکام ہونے والے بچے کا دل نہ ٹوٹ جائے، دونوں کو ایک سے تحائف دیتے ہیں اور ایک سی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    لیکن یہ طرز عمل دونوں بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ناکام ہونے والا بچہ اپنی ناکامی کو اہمیت نہیں دیتا کوینکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر صورت میں اپنے کامیاب بھائی جیسی ہی سہولیات اور حوصلہ افزائی ملے گی۔

    دوسری طرف کامیاب ہونے والا بچہ بھی اپنی کامیابی کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے والدین کے نزدیک اس کی کامیابی اور اس کے بھائی کی ناکامی میں کوئی فرق نہیں۔ یوں وہ محنت کرنا اور کچھ حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔


    اپنی ماضی کی غلطیاں نہ بتانا

    والدین اگر اپنے بچوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں نئے تجربے کرنے سے روکنے کے بجائے انہیں اپنے تجربات سے آگاہی دیں۔

    والدین نے خود اپنی نوجوانی میں جو سبق حاصل کیے اور جن غلطیوں کی وجہ سے نقصانات اٹھائے ان کے بارے میں اپنے بچوں کو ضرور بتائیں تاکہ وہ، وہی غلطیاں نہ دہرائیں۔


    ذہانت کو سمجھ داری سمجھنا

    اکثر والدین اپنے بچے کی خداد ذہانت کو ذہنی پختگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا بچہ ذہین ہے لہٰذا وہ خود ہی برے کاموں سے دور رہے گا اور اپنے اوپر آنے والی مشکلات کا خود ہی حل نکال لے گا۔

    یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کوئی بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے بعد ہی آئے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ دار جان کر سمجھانا چھوڑ دیں گے تو ہوسکتا ہے وہ اپنی ذہانت کی بنا پر کسی برے کام کو فائدوں کا ذریعہ بنا لے۔


    قول و فعل میں تضاد

    بچوں کی تربیت کو خراب کرنے والی ایک عادت والدین کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔ جب والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی اور الکوحل بری اشیا ہیں، لیکن وہ خود اس کا استعمال کرتے ہیں تو ظاہر ہے بچے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیں گے۔

    یاد رکھیں بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد فرد اور انفرادی طور پر انہیں ایک کامیاب اور مضبوط شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود بھی اپنی عادات کو تبدیل کریں اور ایسی شخصیت بنیں جسے بچے اپنا آئیڈیل سمجھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    بچوں کے حقوق سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    بچوں کو ان کے حقوق کے ساتھ بہتر صحت اور طبی حقوق کے تحفظ کی آگاہی کیلئے بیس نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، پاکستان میں نہ تو بچوں کی جسمانی صحت قابل فخر ہے اور نہ ہی ان کے حقوق سے متعلق سماجی آگہی، یہی وجہ ہے کہ بچوں کے رویے روز بروز پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، پاکستان میں بہت سے بچے تو ایسے بھی ہیں جنہیں تعلیم اور خوراک جیسے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں۔

    day

    یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غذائیت کا شکار اور سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد افریقہ کے کئی پسماندہ ملکوں سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن اس وقت بچوں کے رویئے اور ان کی ذہنی صحت سے متعلق معاملات نے زیادہ سنگینی اختیار کر لی ہے۔ اس کا اہم ثبوت استاد کی ناراضگی اور والدین کے زبردستی ہوسٹل بھیجنے پر بچوں کی خودکشیوں کے واقعات ہیں۔

    children

    ملک میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث روز سینکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ہماری سرکار سب اچھا ہے کہ راگ آلاپنے سے تھکتی نہیں ۔اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں سمینارز، ورکشاپ اور ریلیوں کاا نعقاد کیا جارہا ہے۔