Tag: بچوں کی بیماری

  • والدین بچوں کو خسرہ جیسی خطرناک بیماری سے کیسے بچائیں؟

    والدین بچوں کو خسرہ جیسی خطرناک بیماری سے کیسے بچائیں؟

    بچوں کو ہونے والی خطرناک بیماریوں میں خسرہ سرفہرست ہے اس دوران والدین اگر خصوصی احتیاط نہ کریں تو بعد میں بچے کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    خسرہ جسے ’روبیولا‘ بھی کہا جاتا ہے، ایک انتہائی متعدی اور تنفس سے متعلق وائرل بیماری ہے، یہ ایسی وائرل بیماری ہے جو چھوٹے بچوں کے لیے سنگین ثابت ہو سکتی ہے لیکن خسرہ کی ویکسین کے ذریعے اسے آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔

    زیرنظر مضمون میں مارہین صحت کی جانب سے کچھ ایسی علامات کا ذکر کیا جارہا ہے کہ جسے دیکھ کر والدین بچے کو ہونے والی خسرہ کا وقت پر علاج کروا سکتے ہیں تاکہ وہ پہلے مرحلے میں ہی معالج کے قابو میں آجائے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ خسرہ کی علامات عام طور پر انفیکشن کے 7 سے 14 دن بعد شروع ہوتی ہیں اور یہ خاص طور پر چھوٹے بچوں اور کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں کے لیے خطرناک ہوتی ہیں۔

    خسرہ کچھ معاملات میں مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے یہ وہ تین ابتدائی علامات ہیں جنہیں والدین کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

    اوّل نمبر پر ناک بہنا یا بند ہونا، چھینکیں اور کھانسی خسرہ کی ابتدائی علامت ہیں، اگر تیز بخار، چھوٹے سفید دھبے یا آنکھ آگئی ہے تو بیماری کا ابتدائی مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔

    یہ ممکنہ طور پر خارش زدہ جلد کا پیش خیمہ ہوتا ہے آخر میں خارش اور جسم پر سُرخ دانے کا مرحلہ مذکورہ بالا ابتدائی علامات کے3 سے 5 دن بعد شروع ہوتا ہے، یہ چہرے سے شروع ہوتا ہے اور تیزی سے جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتا ہے۔

    ان علامات کو محسوس کرتے ہی یہ نہ ہو کہ کسی ٹوٹکے وغیرہ کے چکر میں پڑیں بلکہ فوری طور پر بچے کو معالج کے پاس لے کر جائیں اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ علاج کرائیں۔

     

  • آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں، وہ ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے

    آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں، وہ ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے

    آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں، وہ پٹھوں کی ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے۔

    مسکولر ڈسٹرافی (Muscular Dystrophy) کو ایک خاموش قاتل سمجھا جاتا ہے، آپ کی عمر 2 سال سے 60 سال تک ہے، اور آپ بڑی اچھی زندگی جی رہے ہیں، لیکن یہ قاتل آپ کے اور میرے جسم میں بھی چھپا یا سویا ہوا ہو سکتا ہے، جو کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے۔

    مسکولر ڈسٹرافی کو عام زبان میں پٹھوں کی بیماری کہا جاتا ہے، اسے ہمارے جینز میں چھپا ہوا قاتل سمجھا جاتا ہے، جو عمر کے کسی بھی حصے میں جاگ کر جسم کے چند حصوں یا پورے جسم میں تباہی مچا دیتا ہے۔

    اس بیماری کی 8 اقسام ہیں، مگر سب سے عام قسم ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی (Duchene Muscular Dystrophy) ہے، یہ ایک جنیٹک یعنی موروثی بیماری ہے، جو سب سے چھوٹی عمر میں ہوتی ہے، یہ ہمیشہ لڑکوں کو ہوتی ہے، جو انھیں ماؤں سے منتقل ہوتی ہے۔

    جیسے ہی لڑکے کی عمر 5 سال ہوتی ہے، ٹھیک ٹھاک بچہ اچانک پاؤں کی ایڑھی زمین سے اٹھا کر پنجوں پر چلنے لگتا ہے، چند ہی ماہ بعد بچہ چھاتی بھی باہر نکال کر چلنا شروع ہوتا ہے، جیسے پہلوان سینہ تان کر چلتے ہیں، والدین بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ یہ تم کیسے چل رہے ہو؟ ایڑھی نیچے لگاؤ سینہ پیچھے کرو، مگر بچہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

    چند ماہ بعد بچہ بیٹھے بیٹھے جب اٹھنے لگتا ہے تو اس سے اٹھا ہی نہیں جاتا، اور پیچھے گر جاتا ہے، ٹانگیں کم زور ہوتی جاتی ہیں، بظاہر تو ٹانگیں ٹھیک ہوں گی مگر اندر موجود مسلز کمزور ہو کر بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے سے بیماری کی شناخت شروع ہوتی ہے، اسے گاور سائن کہتے ہیں، لیکن تب تک بچے کی عمر 7 سے 8 سال ہو چکی ہوتی ہے یعنی 2 سے 3 سال مسلسل قاتل اپنا کام کرتا رہا تھا، اور جب تک بیماری کی مکمل تشخیص ہوتی ہے بچہ موت کے منہ میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔

    رفتہ رفتہ کندھوں کے جوڑ کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں، 10 سال کی عمر تک بازو کو کندھے سے حرکت دینا بہت مشکل اور کئی کیسز میں بلکل ناممکن ہو جاتا ہے، ٹانگیں اور بازو مکمل یا 90 فی صد مفلوج ہو جاتے ہیں، بچہ پانی بھی خود سے نہیں پی سکتا، کچھ بچوں میں دل کے پٹھے بھی کمزور ہونا شروع ہوتے ہیں، جس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔

    ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار بچے 10 سال تک کسی طرح چل لیتے ہیں، لیکن پھر وھیل چیئر یا چار پائی پر آجاتے ہیں اور دوبارہ کبھی بھی کھڑے نہیں ہو سکتے یا چل نہیں سکتے۔ بچے کو اگر اس دوران بخار ہو جائے، تو ساکت پڑے ہوئے بچے پر قاتل اپنا حملہ بہت تیز کر دیتا ہے، اور مسلز بڑی تیزی سے ضائع ہونے لگتے ہیں، اس لیے ان بچوں کو بخار میں ہر وقت لیٹنے نہ دیں، پیراسیٹامول دے کر بچوں کو تھوڑا تھوڑا چلائیں، کیوں کہ ایک دفعہ مسلز ضائع ہونے پر ٹوٹنے شروع ہوگئے تو ان کو پھر روکا نہیں جا سکتا۔

    دراصل اس بیماری میں ٹانگوں، کولہوں اور کمر کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم اپنے خود کار دفاعی نظام کے تحت ان پٹھوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بچے کو ایڑھیاں اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

    بچاؤ کیسے؟

    اس بیماری کا پوری دنیا میں کوئی علاج نہیں، ہاں اسٹیم سیل تھراپی شاید چند سالوں بعد اس کے علاج میں مددگار ہو۔ اگر شروع ہی میں اس بیماری کا پتا چل جائے اور کوالٹی آف لائف بہتر کر دی جائے، تو بچوں کی زندگی 30 سے 40 اور بہت کم کیسز میں 50 سال تک بھی جا سکتی ہے۔

    احتیاط

    مالش بالکل نہیں کرنی، کوئی بریس کوئی اسپیشل جوتا نہ پہنائیں، سرجری نہ کروائیں، بیکری کی تمام اشیا سے پرہیز ضروری ہے، چاول، کولڈ ڈرنکس، مصنوعی جوسز نہ دیں، بچوں کو موٹا بھی نہ ہونے دیں، کیوں کہ موٹاپے کا مطلب موت ہے اس بیماری میں۔

    اسکول آسانی سے جا سکیں تو بھیجیں، پڑھائی اور امتحانوں کے دباؤ اور ڈپریشن سے دور رکھیں، بچے کو اچھی طرح سمجھائیں کہ آپ کی زندگی اب وھیل چیئر کے ساتھ گزرنی ہے، پاور وھیل چیئر مل جائے تو آسانی ہو جائے گی۔

    ایسے بچے کیا کریں؟

    ان بچوں کو بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں، وائس اوور آرٹسٹ بن سکتے ہیں، نیوز کاسٹر بن سکتے ہیں، وی لاگنگ کر سکتے ہیں۔