Tag: بچوں کی کہانی

  • خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    ایک گاؤں میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ سارا دن آگ کی بھٹی کے سامنے بیٹھا رہتا۔ لوہا گرم کرتا، اسے کوٹتا اور کسانوں کے لیے ہل، کلھاڑے کے پھل اور درانتیاں وغیرہ بناتا رہتا۔ سردی ہو یا گرمی ، سارا سال وہ اسی کام میں جٹا رہتا تھا۔

    ایک دن شدید گرمی میں لوہار بھٹی میں لوہا گرم کرنے کے بعد اسے کوٹ رہا تھا تاکہ وہ اوزار تیار کرسکے جو اسے گاہک کو بیچنا ہے۔ ایسا کام خطرناک بھی ہوتا ہے اور بہت زیادہ احتیاط بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کبھی بھول چوک اور کبھی حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔ لوہار کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ حادثاتی طور پر اس روز گرم ایک ٹکڑا اس کے جوتے میں جا پڑا۔ اس نے جلدی سے جوتا اتارا، لیکن اس وقت تک پاؤں جل چکا تھا۔ لوہار کو سخت تکلیف بھی ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا:

    ’’یہ کام بہت سخت ہے۔ بھٹی کی گرمی اور پھر گرم لوہے کے ٹکڑے، میں تو اس کام سے تنگ آگیا ہوں۔ بہتر ہوتا، اگر میں پہاڑ پر پڑا ایک پتھر ہوتا۔ پہاڑ پر پڑا پتھر کتنا خوش ہوتا ہو گا۔ پہاڑ پر ہر وقت چلتی ہوا، اسے ٹھنڈا رکھتی ہو گی۔ پھر، پہاڑی پر درختوں کا سایہ بھی تو ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں بھی ٹھنڈک رہتی ہو گی۔‘‘
    جب لوہار باتیں کر رہا تھا تو اسی وقت وہاں سے ایک جنّ کا گزر ہوا۔ جنّ نے اس کی باتیں سنیں اور لوہار سے کہا: ’’چلو، میں تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ لوہار کا وجود ایک پتّھر میں تبدیل ہوگیا۔ اور پھر اس پتّھر کو ایک بڑے پہاڑ کے اوپر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں‌ پہنچ کر لوہار جو اب ایک پتّھر بن چکا تھا، تھوڑی دیر تو آرام سے پڑا رہا، لیکن پھر ایک شخص اس پہاڑ پر آپہنچا۔ یہ شخص کچھ خاص قسم کے پتّھر ڈھونڈ رہا تھا تاکہ انہیں تراش کر مجسمے وغیرہ بنا سکے۔ اس نے کئی پتّھر اپنے تھیلے میں‌ اکٹھا کر رکھے تھے اور جب اس پتّھر پر نظر پڑی تو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اسے اپنے مطلب کا جان کر اٹھایا اور تھیلے میں‌ کئی پتّھروں کی طرح اسے بھی ڈال لیا۔ یہ پتّھر جو اصل میں لوہار تھا، کچھ دیر ہلتے ہوئے تھیلے میں رہا اور محسوس کیا کہ وہ شخص یہ تھیلا اٹھائے اونچے نیچے راستوں‌ پر بڑھ رہا ہے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچ گیا اور پتّھروں سے بھرے ہوئے تھیلے کو ایک جگہ رکھ دیا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ وہ سنگ تراش آیا اور اس نے تھیلا الٹ دیا۔ اس میں‌ سے چند پتّھر دیکھ بھال کر اٹھائے جن میں‌ لوہار بھی شامل تھا۔ سنگ تراش نے اچانک اسے ہاتھ میں لے لیا اور لگا لوہے کے اوزار سے اسے کاٹنے۔ یہ پتّھر چلّانے لگا:

    ’’مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ ضرب سے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے، میں پتّھر نہیں رہنا چاہتا۔ بہتر ہے میں پتّھر کاٹنے والا بن جاؤں۔‘‘ اس کی خواہش جنّ تک فوراً پہنچ گئی۔ اس نے اسے پتّھر سے دوبارہ انسان بنا دیا اور اسے سنگ تراشی کے پیشہ کا پابند بھی کردیا۔ اب وہ شخص جو کبھی لوہار تھا اور پتّھر بن گیا تھا، ایک سنگ تراش کی حیثیت سے پہاڑوں میں‌ پتّھروں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور تھا۔ اس نے پتّھر ڈھونڈنے کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا، لیکن اسے مناسب پتھر نہیں مل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ ان سے خون رِسنے لگا۔ سورج کی تپش سے پہاڑ پر موجود پتّھر نہایت گرم ہو رہے تھے۔ اسے یہ سب مشکل لگا۔ اس نے چلّانا شروع کر دیا:

    ’’میں پتّھر کاٹنے والا نہیں رہنا چاہتا۔ میں سورج بننا چاہتا ہوں۔‘‘ اس مرتبہ جنّ نے پھر اس کی آرزو پوری کردی اور اسے سورج بنا دیا۔ سورج بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ اس کا اپنا وجود ہی لوہار کی بھٹی سے بھی زیادہ گرم ہے۔ تپتے پتّھر سے بھی زیادہ گرم ہے۔ سورج میں‌ تبدیل ہوتے ہی اس نے لمحوں‌ میں اپنی خواہش داغ دی اور کہا:‌

    ’’میں سورج نہیں رہنا چاہتا۔ چاند، سورج کے مقابلے میں کس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں چاند بننا چاہتا ہوں۔‘‘ جنّ نے سورج کی یہ آواز سنی۔ وہ بہت ہنسا اور اس نے لوہار کو چاند بنا دیا۔ چاند بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ چاند پر تو سورج کی ہی روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی اسی طرح تپتا ہے، جیسے سورج کی تپش سے پتھر تپتا ہے۔ اس نے کہنا شروع کر دیا:

    ’’میں چاند بن کر نہیں رہ سکتا، مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ لوہار کی زندگی ہی سب سے بہترین ہے۔‘‘ جنّ نے اس کی بات سنی اور کہنے لگا:

    ’’تم نے جو کہا، میں نے تمہیں ویسا ہی بنا دیا۔ اب میں تمہاری فرمائشوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم نے چاند بننے کا کہا، میں نے تمھیں چاند بنا دیا۔ اب تم چاند ہی رہو۔ اس نے یہ سنا تو جنّ کے آگے گڑگڑانے لگا اور بولا کہ میں‌ وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ اپنے پیشے کی برائی نہیں کروں اور بے جا خواہشات سے بھی باز آتا ہوں، تم مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ جنّ نے اس کے ساتھ نرمی برتی اور اسے لوہار بنا کر نصیحت کی کہ دیکھو جس حال میں‌ ہو خوش رہنا سیکھو، اور ذرا سی تکلیف یا برا وقت آنے پر اپنے اُس پیشے کو برا نہ کہو جس سے تم ایک عرصہ سے روزی کا بندوبست کرتے آ رہے ہو۔ ایسا کرنے والا ناشکرا اور بے وفا انسان ہوتا ہے۔

    (اطفالِ ادب سے انتخاب)

  • نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک تھا درزی، اس کے تھے تین لڑکے۔ درزی بہت ہی غریب تھا۔ درزی کے پاس صرف ایک ہی بکری تھی۔ تینوں لڑکے اسی بکری کا دودھ پیتے اور کسی طرح گزر کرتے، ایک ایک دن ہر لڑکا بکری کو جنگل میں چرانے لے جاتا۔

    جب لڑکے کچھ بڑے ہو گئے تو بکری کادودھ ان کے لئے کم پڑنے لگا۔ مجبورا بڑا لڑکا گھر چھوڑ کر باہر کمانے نکلا، چلتے چلتے راستے میں ایک سوداگر ملا۔ سوداگر نے لڑکے سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ لڑکے نے سارا حال سنا دیا۔ سوداگر کو اس پر ترس آیا اور اپنے پاس نوکر رکھ لیا۔ سوداگر نے خریدنے اور بیچنے کا کام اس کو سکھایا۔ لڑکا اپنا کام بڑی ایمانداری اور محنت سے کرتا۔ سوداگر کے کام کو بہت آگے بڑھا دیا۔ سوداگر بہت امیر ہو گیا۔ سوداگر لڑکے کے کام سے بہت ہی خوش ہوا۔ جب کام کرتے کرتے کئی برس گزر گئے تو لڑکے نے گھر جانے کی چھٹی مانگی۔ سوداگر نے خوشی سے چھٹی دی اور کہا ’’میں تمہارے کام سے بہت خوش ہوں۔ تمہاری ایمانداری کے بدلے میں تم کو یہ عجیب وغریب گدھا دیتا ہوں۔ یہ گدھا اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جب تم اس کے منہ میں تھیلی باندھ کر کہو گے کہ ’’اگل‘‘ تو یہ فورا سونا اگلے گا اور پوری تھیلی بھر دےگا۔ خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔‘‘ لڑکا خوش خوش گھر روانہ ہوگیا۔

    چلتے چلتے رات ہو گئی۔ لڑکا ایک سرائے میں ٹھہر گیا۔ بھٹیارے سے لڑکے نے کہا ’’خوب عمدہ عمدہ کھانا لاؤ۔‘‘ بھٹیارا اچھے اچھے کھانے پکوا کر لایا۔ لڑکے نے سونے کے ٹکڑے بھٹیارے کو دیے۔ بھٹیارا بڑا خوش ہوا اور سوچنے لگا یہ سونے کے ٹکڑ ے لڑکے کے پاس کہاں سے آئے۔ ہو نہ ہو کوئی خوبی اس گدھے میں ضرور ہے۔ یہ سوچ کر بھٹیارا جاگتا رہا۔ جب لڑکا سو گیا تو بھٹیارا گدھا چرا کر لے گیا اور دوسرا گدھا اس کی جگہ باندھ دیا۔ لڑکا اندھیرے منہ اٹھا اور گدھے لے کر روانہ ہو گیا۔ اس کو اپنے اصلی گدھے کی چوری کا کچھ حاصل نہ معلوم ہوا۔ گھر پہنچا تو اس کو دیکھ کر باپ بھائی سب جمع ہو گئے اور خوشی خوشی باتیں کرنے لگے۔

    باپ کہو بٹیا پردیس میں کیا کیا سیکھا۔

    لڑکا:۔ سوداگری۔

    باپ :۔ہمارے لئے کیا لائے ہو۔

    لڑکا یہ گدھا۔

    باپ توبہ کرو۔ گدھا لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں سیکڑوں گدھے مارے مارے پھرتے ہیں۔

    بیٹا:۔نہیں ابا۔ یہ معمولی گدھا نہیں ہے۔ اس میں ایک خاص بات ہے۔

    باپ:۔ وہ کیا خاص بات ہے۔

    بیٹا:۔ اس میں خاص خوبی یہ ہے کہ اس کے منہ میں تھیلی باندھ دیں اور کہیں کہ ’’اگل‘‘ تویہ فورا سونا اگلنے لگتاہے اور تھیلی کو بھر دیتا ہے، خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

    بوڑھا درزی بیٹے کی بات کوتعجب سے سنتا رہا اور شک کی نظروں سے دیکھتا رہا۔ آخر لڑکے نے باپ کے شک کو دور کرنے کے لئے کہا آپ اپنے دوستوں کو بلائیے۔ میں ابھی سب کو دولت سے مالامال کیے دیتا ہوں، درزی نے اپنے خاص خاص دوستوں کو لاکر جمع کیا اور دولت حاصل کرنے کی خوشخبری سنائی۔ سب لوگ آ گئے تو لڑکا گدھے لے کر آیا اس کے منہ میں تھیلی باندھی اور کہا کہ ’’اگل‘‘ لیکن گدھا جوں کا توں کھڑا رہا۔ لڑکے نے کئی مرتبہ چلا چلا کر کہا ’’اگل، اگل‘‘ لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ تھیلی جیسی خالی تھی ویسی ہی رہی اور گدھاچپ چاپ کھڑا رہا۔ اب لڑکا سمجھا کہ بھٹیارے نے گدھا چرا لیا۔ درزی اپنے دوستوں کے سامنے بڑا شرمندہ ہوا۔ لڑکے پر خفا ہونے لگا تو مجھے سب کے سامنے ذلیل کیا۔

    لڑکے نے سارا قصہ اپنے منجھلے بھائی کو سنایا۔ اب دوسرا بھائی سفر پر روانہ ہوا۔ کئی دن تک برابر چلتا رہا۔ رات کوپیڑ کے نیچے سو رہتا۔ آخر ایک دن اس کو ایک بڑھیا ملی، بڑھیا جنگل کے کنارے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتی تھی۔ لڑکا بڑھیا کے ساتھ رہنے لگا، بڑھیا جو کام بتلاتی اس کو بڑ ی محنت سے کرتا۔ بڑھیا اس کے کام سے بڑی خوش تھی۔ ایک دن لڑکے نے گھر جانے کو کہا، بڑھیا نے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور کہا کہ’’دیکھو بیٹا میرے پاس ایک ’’سینی‘‘ ہے۔ جب کہو گے ’’بھر جا‘‘ تو یہ بہترین کھانوں سے بھر جائے گی اور جتنے آدمی بیٹھے ہوں گے پیٹ بھر کر کھا لیں گے۔ تم یہ سینی لیتے جاؤ۔ ’’لڑکا سینی پاکر بہت خوش ہوا اور گھر کی طرف چلا۔ راستے میں اس کو وہی سرائے ملی جہاں بڑے بھائی کا گدھا چوری ہو گیا تھا۔ رات بسر کرنے کے لئے رک گیا۔ بھٹیارے نے کھانے کے لئے پوچھا۔ لڑکے نے کہا‘‘میں تم کو کھلاؤں گا’’ بھٹیارے نے کہا ‘‘تمہارے پاس تو کچھ ہے نہیں تم کہاں سے کھلاؤ گے؟ ’’لڑکے نے کہا ’’ٹھہرو’’سینی سامنے نکال کر رکھ دی اور کہا ’’بھر جا‘‘ یہ کہتے ہی سینی اچھے اچھے کھانوں سے بھر گئی۔ بھٹیارا اس نرالی سینی کو لالچ بھری نظروں سے تکنے لگا اور اس کے چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ لڑکا کافی تھک چکا تھا۔ کھانا کھاتے ہی سو گیا۔ بھٹیارا تاک میں تو لگا ہی ہوا تھا جب لڑکا سو گیا تو چپکے سے آیا اور سینی اٹھا کر لے گیا اور اس کی جگہ پر دوسری ویسی ہی سینی رکھ دی۔ لڑکا صبح سویرے اٹھا اور سینی لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو باپ اور بھائی سب اس کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور باتیں کرنے لگے۔ لڑکے نے اپنے سفر کا سارا حال بیان اور مزے لے لے کر سینی کی خوبی بیان کی، درزی کو سینی کی اس خوبی کا یقین نہ آیا۔ لڑکے نے کہا ۔’’امتحان لے لیجیے۔ آپ لوگوں کو بلوائیے۔ دیکھئے میں ابھی سب کے لئے اچھے اچھے کھانے چنوائے دیتا ہوں۔‘‘ لڑکے نے جب بہت ہی اصرار سے سینی کی خوبی بیان کی تو باپ نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی۔ سب لوگ گول دائرہ بناکر بیٹھے اور بیچ میں سینی رکھی گئی۔ لڑکے نے کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن سینی خالی کی خالی ہی رہی۔ اس نے پھر کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ تین چار مرتبہ چلا چلاکر کہا ’’بھرط جا، بھر جا، بھر جا‘‘ لیکن سینی ویسی ہی خالی کی خالی پڑی رہی۔ سب لوگ لڑکے کا منہ تکنے لگے اور اسے جھوٹا بتانے لگے۔ لڑکا بہت شرمندہ ہوا اور باپ تو مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ لڑکے کو ایک تو سب کے سامنے شرمندگی کا افسوس تھا اور دوسرے اصلی سینی کے گم ہو جانے کا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بلایا اور سارا قصہ بتلایا۔ یہ چھوٹا بھائی سمجھ گیا کہ یقیناً بھٹیارے ہی کی شرارت ہے اور اسی نے گدھا اور سینی دونوں چیزیں چرائی ہیں۔

    چھوٹا بھائی بہادر بھی تھا اور عقلمند بھی۔ ہمت باندھ کر روانہ ہوا کہ یہ دونوں چیزیں ضرور واپس لاؤں گا۔ کئی دن چلنے کے بعد اس کا گزر ایک میدان سے ہوا۔ یہ میدان پریوں کا تھا۔ رنگ برنگ کے پھول چاروں طرف کھلے ہوئے تھے۔ ہری ہری گھاس سبز مخمل کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ بیچ بیچ میں پانی کی سفید لہریں بہہ رہی تھیں۔ ہوا خوشبو میں بسی ہوئی تھی۔ لڑکا دم لینے کے لئے (سستانے کے لئے) ٹھہر گیا۔ ہوا کی مست خوشبو نے آنکھوں میں نیند بھر دی اور وہ جلدہی ایک گلاب کے پودے کے پاس پڑھ کر سو رہا۔ لڑکا ابھی سویا ہی تھا کہ نیلم پری جو اس گلاب پر رہتی تھی اتری اور لڑکے کو ہوا میں لے کر اڑ گئی۔ دوسرے دن لڑکے نے اپنے باپ کو ایک بہت ہی گھنے جنگل کے بیچ پایا۔ وہ کہاں ہے، یہاں کیسے آیا؟ ابھی ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ سارا جنگل طرح طرح کی آوازوں سے گونجنے لگا۔ اس کے بعد یک بیک لال رنگ کی روشنی سارے جنگل میں پھیل گئی۔ لڑکا بڑا پریشان ہوا۔ بار بار سوچتا ،کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ اتنے میں بڑے زور کی آواز اس کے کانوں میں آئی اور سارا جنگل نیلے رنگ میں رنگ گیا۔ اس آواز کو سن کر لڑکا کانپ گیا اور گھبرا کر ایک طرف بھاگا۔ اس کے بھاگنے پر جنگل کی سب پریاں ہنس پڑیں۔ بات یہ تھی کہ پریاں لڑکے سے کھیل رہی تھیں۔ جب پریوں نے اپنا کھیل ختم کر لیا تو نیلم پری چھم چھم کرتی ہوئی لڑکے کے پاس آئی اور بولی ’’تم ہمارے میدان میں کیوں آئے؟‘‘

    لڑکا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میدان آپ کا ہے۔ یہاں آنا منع ہے۔ اب کبھی نہیں آؤں گا۔

    نیلم پری:۔ (ہنستے ہوئے) کیا میدان پسند نہیں۔

    لڑکا:۔ جی۔ میدان تو پسند ہے لیکن جنگل ۔۔۔

    نیلم پڑیکیا ڈر لگتا ہے۔

    لڑکا:۔ جی ہاں۔

    نیلم پری:۔ اچھا۔ اپنی آنکھیں بند کرو۔ ادھر لڑکے نے آنکھیں بند کیں۔ ادھر پری نے ہوا میں اپنا آنچل ہلایا اور سارا جنگل پھر اسی ہرے بھرے میدان میں بدل گیا۔ لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ میدان دیکھ کر جان میں جان آئی۔ لڑکے کو جب ذرا اطمینان ہوا تو نیلم پری نے پوچھا ’’تم کیسے آئے؟‘‘ لڑکے نے دونوں بھائیوں کا سارا قصہ سنا دیا۔ وہ سینی اور گدھا واپس لینے جا رہا ہے۔ پری نے تالی بجائی اور فورا ایک دیو حاضر ہوئے۔ پری نے حکم دیا کہ ’’جاؤ سرائے والے بھٹیارے سے سینی اور گدھا چھین لاؤ۔‘‘ دیو آناً فاناً سرائے میں پہنچے اور چند منٹ میں سینی اور گدھا لاکر حاضر کر دیا۔ پڑی نے لڑکے کو ایک ڈنڈا دیا اور کہا ’’جو شخص تمہارا دشمن ہو اس کی طرف اس ڈنڈے کو پھینک کر کہنا ’’ناچ‘‘ پھر یہ ڈنڈا اس آدمی کی پیٹھ پر خوب ناچ دکھائے گا۔ اتنا مارے گا کہ وہ آدمی بے ہوش ہو جائے گا۔ ’’لڑکا سینی، گدھا اور ڈنڈا لے کر گھر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ پری نے دیو کو حکم دیا کہ جاؤ لڑکے کو گھر تک پہنچا آؤ ۔ دیو نے حکم پاتے ہی لڑکے کو تمام سامان کے ساتھ ہاتھ پر اٹھا لیا اور ہوا میں اڑتا ہوا آن کی آن میں گھر پہنچا۔

    گھرکے سب لوگ جمع ہو گئے۔ چھوٹے بھائی نے سب کی خوب دعوتیں کیں اور سونے کے ٹکڑے بھی بانٹے۔ اب درزی کی شرمندگی دور ہو گئی اور سب لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کی اس کہانی کے مصنف ممتاز صاحب اسلوب ادیب، افسانہ نگار، صحافی اور مترجم اشرف صبوحی ہیں)

  • اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔

    وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریو، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘

    یہ سن کر ایک پری آئی اور بولی، ’’آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ ذرا تم پہیوں کے آس پاس سے کیچڑ تو ہٹاؤ۔‘‘ گاڑی والے نے فوراً کیچڑ ہٹا دی۔

    پری بولی، ’’اب ذرا راستے سے کنکر پتھر بھی ہٹا دو۔‘‘ گاڑی بان نے کنکر پتھر بھی ہٹا دیے اور بولا، ’’پیاری پری، اب تو میری مدد کرو۔‘‘

    پری ہنستے ہوئے بولی، ’اب تمہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنا کام آپ کر لیا ہے۔ گھوڑے کو ہانکو۔ راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘

    (معروف پاکستانی شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • قصہ لکھن لال جی کا…

    قصہ لکھن لال جی کا…

    مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا۔

    وہ اچانک ہماری حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہرہ، کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اچھلتی لچکتی بڑی سی دُم، میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اچھل اچھل کر کہنے لگے،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میرے ماموں کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر ان کے اور بھی قریب کر دیا اور انھوں نے مجھے گود میں لے لیا۔ پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال ہو گیا، تم نہیں جانتے بچو میرا کیا حال ہو گیا۔ جب انھوں نے مجھے چھوڑا تو میں نڈھال ہو چکا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا— پھر مجھے فوراً ہی تیز بخار آ گیا۔ شب میں بھی میرے کانوں میں ان کی آواز گونجی،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھر رہے کھاں’’

    ابھی تک مجھے وہ بے معنی آواز یاد ہے۔ بچپن کی یادوں کے ساتھ یہ آواز بھی آ جاتی ہے۔ کل اس آواز کا خوف طاری ہو جاتا تھا تو تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔

    وہ ہر جمعہ کو آ جاتے، اسی طرح چیختے ہوئے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں۔’’ اور میں سہم جاتا۔ دالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن میرے ابو میرے ہاتھ سے محتاجوں کو پیسے کپڑے تقسیم کراتے۔ اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اس دن آ جاتے ہیں، جو مل جاتا لے کر چلے جاتے۔ اُنھیں دیکھ کر میری روح فنا ہو جاتی۔

    وہ۔۔۔ اور ان کے بے معنی لفظوں کی بھیانک آواز مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھی۔ حویلی کے کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا نا بچو، تو وہ کہتے ’’دیکھو وہ آ گیا بندر کی دُم والا۔‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    اور میری حالت غیر ہو جاتی، کبھی پلنگ کے نیچے کبھی لحاف کمبل میں دبک جاتا۔

    بہت دن بیت گئے۔ جب کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا ان کا نام لکھن لال ہے اور وہ ایک بہروپیا ہیں، مختلف قسم کے بھیس بدلتے اور گھر گھر جاکر پیسے مانگتے ہیں۔

    یاد ہے ایک روز وہ ڈاکیہ بن کر آئے اور حویلی کے چبوترے پر بیٹھے کچھ لوگ دھوکہ کھا گئے۔ پھر وہ بیٹھے رہے چبوترے پر اور اپنی کہانی سناتے رہے۔ میں بھی پاس ہی بیٹھا ان کی کہانی سننے لگا۔ مجھے یاد نہیں ان کی کہانی کیا تھی البتہ یہ تاثر اب تک ہے کہ وہ جو کہانی سنا رہے تھے اس میں کچھ دُکھ بھری باتیں تھیں، اپنی کہانی سناتے سناتے رو پڑے تھے۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا اس لیے کہ میں کسی کو روتا دیکھ نہیں سکتا۔

    اتنا یاد ہے ان کا نام لکھن لال تھا، موتی ہاری شہر سے کچھ دور ’’بلوا ٹال’’ میں رہتے تھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہونے لگی۔ مجھے بتاتے کس کس طرح بہروپ بھر کر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالتے رہے ہیں۔ اُن کی ہر بات بڑی دلچسپی سے سنتا، وہ کبھی عورت بن جاتے، کبھی پوسٹ مین، کبھی ہنومان، کبھی کرشن کنہیا۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتے تو میں فرمائش کرتا ایک بار بولیے نا ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر…’’ اور وہ میری خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے خاص انداز سے کہتے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘ ان سے اس طرح سنتے ہوئے اچھا لگتا۔

    پھر وہ کہاں اور میں کہاں، میں اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست سے بہت دور اور وہ میرے اور اپنے پرانے شہر میں جانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ ان کی یاد آئی تو اپنے پہلے خوف سے ان سے دوستی تک ہر بات یاد آ گئی۔ کشمیر میں اپنے بچّوں کو ان کے بارے میں بتایا اور میرے بچّوں کو بھی ان بے معنی لفظوں سے پیار سا ہو گیا۔ ’’ناک دھودھڑکی ناک نجر کھررے کھاں۔‘‘

    بہت دن بیت گئے۔ موتی ہاری گیا تو لکھن لال کی یاد آئی، پرانے لوگوں میں ان سے بھی ملنے کی بڑی خواہش ہوئی، اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا ’’میرے ساتھ بلوا ٹال چلو، لکھن جی کا مکان ڈھونڈیں شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔‘‘

    بڑی مشکل سے ان کی جھونپڑی ملی، ہم اندر گئے، دیکھا ایک کھٹولہ ہے، اسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے، لکھن لال بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، بال ابرو غائب، دانت ندارد، حد درجہ سوکھا جسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھریاں کہ بس انھیں ہٹاکر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ منہ کھولے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا، اچھا ہوا جو مل لیے، اچھا ہوتا جو نہ ملتے۔ وہ اس رُوپ میں ملیں گے، سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو، ہنومان، لنگور کا مکسچر یاد آ گیا کہ جس نے اُچھل اُچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں۔

    کیا یہ وہی شخص ہے؟ کیا یہ وہی لکھن لال ہیں؟ انھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ ممتاز نے انھیں میری یاد دلائی۔ انھیں یاد آ گیا، پرانا وقت، میرا نام سنتے ہی کھٹولے پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ان کے پیار کی خوشبو مجھ تک پہنچ گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھوں سے کئی قطرے ٹپک پڑے، میری آنکھوں میں بھی اپنے پرانے بزرگ دوست کو دیکھ کر آنسو آ گئے۔ اُنھوں نے آہستہ آہستہ ایک ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا۔ اسی وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے۔ نیم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رشتوں کو پڑھ رہے تھے۔ کوئی آواز نہ تھی۔ بچّو! میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے ، سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ اے- ون ہے۔ سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اسی کی ہنسی پر دنیا قائم ہے۔ ذرا اب تو ہنس کر دیکھے یہ بہروپ دیکھ کر رو پڑے گا۔

    جب رخصت ہونے لگا تو انھوں نے روکا، آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک۔۔۔ دھو۔۔۔ دھڑ۔۔۔ کی ناک۔۔۔ نجر۔۔۔ کھررے۔۔۔ کھاں۔’’ پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی۔

    پھر میری طرف دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں بند کر لی۔ پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سو جاتے ہیں۔ اور ایک دن لکھن اچانک ابدی نیند سو گئے۔

    بہروپیا اپنے نئے روپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا۔

    (اردو میں جمالیاتی تنقید کے ممتاز نقاد شکیل الرّحمٰن کی بچّوں کے لیے ایک کہانی)

  • ماچس والی لڑکی

    ماچس والی لڑکی

    بَلا کی سردی تھی۔ شام اندھیری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بالآخر رات آگئی۔ سال کی آخری رات۔

    ایک چھوٹی سی غریب بچّی، ننگے سَر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کے پاؤں میں اس کے اپنے نہیں بلکہ ماں کے چپل تھی لیکن وہ کس کام کے؟ وہ تو اس کے ننھے ننھّے پاؤں سے بہت بڑے تھے۔ صبح جب وہ سڑک پار کرنے لگی تھی تو ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی سے بچنے کی کوشش میں چپل اس کے پاؤں سے اتر گئے۔ ایک تو گٹر میں گر گیا ، دوسرا ایک لڑکا اس کا منہ چڑاتا ہوا، لے کر بھاگ گیا۔

    جب سے بچّی ننگے پاؤں پھر رہی تھی، پاؤں سردی کی شدت سے نیلے ہو رہے تھے۔ اس نے ایک پھٹا پرانا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ ماچسوں کے کچھ پیکٹ اس نے ایپرن کی جھولی میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک پیکٹ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ لیکن صبح سے اب تک اسے کوئی گاہک نہیں ملا تھا۔ اب تک اس نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں کمائی تھی۔ سردی سے کانپتی، بھوک سے لاغر دکھ کی تصویر بنی یہ غریب معصوم بچّی گلی گلی گاہکوں کی تلاش میں پھرتی رہی۔

    گھروں سے لذیذ کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔ اس کی بھوک اور بھڑک اٹھی تھی۔ اب وہ جس گلی میں آئی تھی اس کے دو مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تھڑا تھا۔ تھکن سے چور بچّی سستانے وہاں بیٹھ گئی۔ اپنے یخ پاؤں کو اس نے ہاتھوں سے گرمانے کی کوشش کی، پھر اکڑوں بیٹھ کر اپنی فراک سے انہیں کسی حد تک ڈھانپا لیکن وہ ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔

    سردی شدید ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کی ہمّت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ گھر واپس جائے، کیسے واپس جاتی؟ اس کی تو صبح سے ایک ماچس بھی نہیں بکی تھی۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جاسکتی تھی اور ویسے بھی گھر میں سردی کون سی کم تھی۔ ایک کمرے والے گھر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا اور چھت میں ایک بڑا سا سوراخ جس کو بھوسے اور پرانے چیتھڑوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن وہاں سے ہر وقت ٹھنڈی ہوا آتی رہتی۔ اب اس کے ہاتھ سردی سے بالکل سُن ہو چکے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کاش اس وقت کہیں سے تھوڑی سی آگ مل جائے تو اس کے ہاتھ کچھ گرم ہو جائیں۔ لیکن آگ کیسے ملے؟ کہاں سے آئے؟

    اس نے لالچ بھری نظروں سے ماچس کی ڈبیہ کی طرف دیکھا۔ امید کی ہلکی سی کرن نظر آئی۔ سَر کے ایک جھٹکے سے اس نے اس خیال کو بھگانے کی کوشش کی، مگر خیال بار بار واپس لوٹتا رہا۔ اس نے جھجکتے جھجکتے ایک تیلی نکالی، ڈرتے ڈرتے اسے تھڑے کے فرش سے رگڑا۔ ایک شعلہ نمودار ہواتو اس نے جلتی تیلی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپا، شعلے کی تپش کو محسوس کیا، شعلے کی چمک عجیب سی تھی۔

    اس لمحے بچّی کو ایسا لگا کہ وہ ماچس کا شعلہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا آتش دان ہے، جس پر چمکیلے پیتل کے دستے لگے ہوئے ہیں اور سنہری جالی کے پیچھے جلتی آگ اس سجے سجائے کمرے کو تاپ رہی ہے، جہاں وہ ایک دیوان پر موٹا سا گرم اونی گاؤن پہنے بیٹھی ہے۔ اچانک شعلہ لپک کر ایک دم بجھ گیا۔ آتش دان، گرم اونی گاؤن، دیوان، سب اچانک غائب ہو گئے، تاریکی پھر سے چھا گئی۔ صرف بجھی ہوئی ماچس کی تیلی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے ایک اور تیلی جلائی۔

    تھڑے سے جڑی ہوئی دیوار کو شعلے کی روشنی نے چمکیلے موتیوں سے جڑی جھالر میں بدل دیا۔ اس کے پیچھے اسے صاف نظر آیا جیسے ایک خوش و خرم خاندان کے لوگ دستر خوان کے گرد بیٹھے ہیں اور دستر خوان پر کھانے کی پلیٹیں لگی ہیں۔ کٹوروں میں انواع و اقسام کے کھانے ہیں، ایک بڑا برتن گرم گرم سوپ سے بھرا ہوا ہے جس میں سے بھاپ نکل رہی ہے۔ ایک لڑکا سوپ کا پیالہ لے کر اس بچّی کے پاس آیا۔ لیکن جیسے ہی اس نے سوپ کا پیالہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ماچس کی تیلی بجھ گئی اور پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ اب اس کے سامنے صرف ٹھنڈی، پتھریلی دیوار تھی۔

    بچّی نے آنکھیں اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ایک ستارہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آ رہا تھا۔ بچّی کی دادی، واحد شخص تھیں جن سے اس کو پیار ملا تھا۔ وہ اسے کہانیاں سناتی تھیں۔ دادی نے ایک کہانی سناتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ جب آسمان سے چمکتا ہوا تارہ ٹوٹ کر نیچے آتا ہے تو زمین سے کوئی روح آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تارہ کس کی موت کا پیغام لے کر میری طرف بڑھ رہا ہے؟ کوئی نہ کوئی ضرور مرنے والا ہے۔ خدا جانے کون؟

    بچّی نے ماچس کی ایک اور تیلی جلائی، پھر سے روشنی ہوئی۔ اب اسے روشنی میں صاف نظر آیا کہ سَر پر روشنی کا تاج پہنے اس کی دادی اس کے سامنے کھڑی اسے پیار سے دیکھ رہی ہیں۔ ’’دادی، پیاری دادی مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ میں بہت بھوکی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں دادی۔ مجھے معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ ماچس بجھے گی آپ بھی چلی جائیں گی، جیسے وہ گرم آتش دان غائب ہو گیا، جیسے سوپ کا پیالہ ۔ آپ بھی ایسے ہی چلی جائیں گی لیکن آپ نہ جانا۔ میں اب اندھیرا نہیں ہونے دوں گی۔

    میں آپ کو نہیں جانے دوں گی‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ تیلی بجھ جاتی اس نے ایک تیلی اور جلائی، پھر دوسری، پھر اس نے پورے ماچسوں کے بنڈل کو تیلی دکھا دی۔ ماچس کی تمام تیلیاں دم جلیں۔ ایک بہت بڑا شعلہ اٹھا، رات دن کی طرح روشن ہو گئی۔ دادی نے ہاتھ بڑھائے، بچّی کو گود میں لیا تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔ اسے لگا وہ ستاروں کی طرف جا رہی ہے لیکن دو پرانے مکانوں کے درمیان بنے تھڑے پر دیوار سے لگی ایک چھوٹی سی بچّی، جس کے رخسار لال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، سردی کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اس کا بے جان جسم سردی سے جم کر اکڑ چکا تھا۔ وہ ایسے ہی بیٹھی تھی جیسے رات کو بیٹھی تھی۔ ایک طرف جلی ماچسوں کا ڈھیر تھا، دوسری طرف، جھولی میں کچھ ماچسوں کی ڈبیاں۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ کوئی تو مجھ سے ماچس خرید لے۔

    صبح کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے تھڑے کے پاس جمع ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بے چاری اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش میں مر گئی۔ لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ وہ اپنے تصور میں کتنی خوب صورت دنیا دیکھ رہی تھی اور اب کتنی مسرت سے اپنی بوڑھی دادی کی گود میں ایسی دنیا میں ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ سردی ہے، جہاں صرف خوشی ہی خوشی ہے، محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے۔

    (عالمی شہرت یافتہ ادیب ہینز کرسچن اینڈرسن کی مشہور کہانی کا اردو ترجمہ)

  • چار دوست اور پانچ جھوٹ

    چار دوست اور پانچ جھوٹ

    ایک گاؤں میں چار دوست رہتے تھے۔ وہ چاروں بے حد نکمّے اور کام چور تھے۔

    وہ چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی کام بھی نہ کرنا پڑے اور کھانے، پینے اور رہنے کی ہر چیز بھی میسر آتی رہے۔ ان چاروں میں جو سب سے بڑا تھا، وہ بہت چالاک اور ذہین کا تھا۔ اس نے انہیں لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسے بٹورنے کا ایک عجیب طریقہ بتایا۔ اس نے کہا ہم کسی دوسرے گاؤں چلے جاتے ہیں، وہاں کے لوگ ہمارے لئے اجنبی ہوں گے اور ہم ان کے لئے اجنبی ہوں گے، ہم گاؤں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر جھوٹ موٹ کی کہانیاں سنائیں گے اور اپنی مظلومیت بیان کریں گے یوں ہمیں کچھ نہ کچھ پیسے مل ہی جائیں گے۔ تینوں دوستوں نے اس طریقہ سے اتفاق کیا۔ چنانچہ اگلے ہی دن چاروں دوستوں نے رخت سفر باندھا اور ایک گاؤں میں پہنچے۔ وہاں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر عجیب و غریب جھوٹی کہانیاں گھڑتے اور بعض دفعہ اپنی مظلومیت بیان کرتے تو لوگ ان کو پیسے دے دیتے۔ جب یہ چاروں گاؤں کے امیر لوگوں کو اچھی طرح لوٹ لیتے اور گاؤں کے لوگ ان کی چالاکی اور مکاری کو سمجھنے لگتے تو یہ اس گاؤں سے بھاگ کر کسی دوسرے گاؤں میں پہنچ جاتے اور وہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنانے لگتے۔ اس طرح انہوں نے اچھا خاصا مال جمع کرلیا تھا۔ اور جھوٹ بولنے میں مہارت ہوگئی تھی۔

    ایک دفعہ یہ چاروں یوں سفر کرتے کرتے ایک دور دراز کے گاؤں میں پہنچے، وہاں ایک ہوٹل میں انہوں نے دیکھا کہ ایک کونے میں امیر کبیر تاجر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے آس پاس اس کا قیمتی سامان بھی پڑا ہوا تھا اور اس تاجر نے قیمتی لباس پہنا ہوا تھا۔ تاجر کو دیکھ کر ان چاروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور سب سوچنے لگے کہ کسی طرح اس تاجر کا سب مال ہمیں مل جائے۔ ان چاروں میں سب سے بڑے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے یہ ترکیب تینوں کو بتائی تو تینوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔

    چنانچہ یہ چاروں دوست تاجر کے پاس گئے، سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک دوست نے تاجر سے کہا: اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے ساتھ ایک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم سب ایک دوسرے کو جھوٹی کہانیاں سنائیں گے اور شرط یہ ہوگی کہ ان جھوٹی کہانیوں کو سچ کہنا پڑے گا، اگر ان کہانیوں پر کسی نے جھوٹا ہونے کا الزام لگایا تو وہ ہار جائے گا اور اس ہارنے والے کا سارا مال لے لیا جائے گا۔

    تاجر نے کہا واہ! یہ کھیل تو بہت مزیدار ہوگا۔ میں تیار ہوں اگر میں ہار گیا تو یہ سارا مال تمہارا ہو جائے گا۔ چاروں دوست یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ ہم ایسی ایسی جھوٹی کہانیاں اس کو سنائیں گے کہ یہ فوراً پکار اٹھے گا، یہ جھوٹ ہے ایسا نہیں ہوسکتا اور ہم جیت جائیں گے اور اس تاجر کا سارا مال قبضہ میں کرلیں گے۔

    ضروری ہے کہ ہمارے اس کھیل میں گاؤں یا ہوٹل کا بڑا بھی موجود ہو تاکہ وہ ہار، جیت کا فیصلہ کرسکے۔ تاجر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ چاروں دوستوں نے اس بات سے اتفاق کیا چنانچہ گاؤں کے چوہدری کو بلایا گیا اور وہ ان پانچوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

    پہلے دوست نے کہانی شروع کی، کہنے لگا: میں ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا یعنی پیدا نہیں ہوا تھا کہ میری ماں اور باپ سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں آم کا ایک درخت نظر آیا، میری ماں نے وہاں رک کر میرے باپ سے کہا، مجھے آم کھانے ہیں، آپ درخت پر چڑھ کر آم توڑ کر لا دیں۔ میرے باپ نے کہا یہ درخت کسی اور کا ہے اور آم بھی بہت اوپر لگے ہوئے ہیں، میں نہیں چڑھ پاؤں گا۔ لہٰذا میرے باپ نے انکار کر دیا۔ مجھے جوش آیا میں چپکے سے ماں کے پیٹ سے نکلا اور درخت پر چڑھ کر آم توڑے اور لاکر ماں کے سامنے رکھ دیے اور واپس پیٹ میں چلا گیا۔ میری ماں اپنے سامنے آم دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مزے لے لے کر کھانے لگی۔

    پہلے دوست نے کہانی سنا کر تاجر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ تاجر نے کہا: واہ! کیا زبردست کہانی ہے ماں کے کام آئے، یہ کہانی کیسے جھوٹی ہوسکتی ہے، نہیں یہ بالکل سچی کہانی ہے۔

    پہلے دوست نے جب یہ سنا تو منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ اب دوسرے دوست کی باری تھی وہ کہنے لگا: میری عمر ابھی صرف سات سال تھی، مجھے شکار کھیلنے کا بے حد شوق تھا، ایک دفعہ میں جنگل میں گیا وہاں اچانک مجھے دور ایک خرگوش نظر آیا، میں اس کے پیچھے دوڑ پڑا یہاں تک کہ میں اس کے قریب پہنچ گیا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ خرگوش نہیں بلکہ شیر ہے۔ شیر نے مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھنا شروع کیا اب تو میں بہت گھبرا گیا اور شیر سے کہا: دیکھو شیر بھائی میں تو تمہارے پیچھے صرف اس لئے آیا تھا کہ مجھے لگا جیسے آپ خرگوش ہو، خدا کے لئے مجھے جانے دو، لیکن شیر نے میری بات نہیں مانی اور دہاڑنے لگا، مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے ایک زور دار تھپڑ شیر کو مارا، شیر وہیں دو ٹکڑے ہوکر مرگیا۔

    واہ واہ! کیا بہادری ہے۔ بندہ کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہیے۔ یہ کہانی بالکل جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ تاجر نے دوسرے دوست کی کہانی سن کر اسے داد دیتے ہوئے کہا۔ اب وہ دونوں دوست جنہوں نے کہانی سنائی تھی انہوں نے ﴿اپنے تیسرے ساتھی کو﴾ چپکے سے آنکھ ماری کہ تو کوئی ایسی غضب کی جھوٹی کہانی سنا، جسے تاجر فوراً جھوٹ مان لے۔

    چنانچہ تیسرے دوست نے کہنا شروع کیا: مجھے مچھلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس وقت میری عمر صرف ایک سال تھی، ایک دن میں دریا کے کنارے گیا اور وہاں پانی میں جال ڈال کر بیٹھ گیا، کئی گھنٹوں جال لگانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہ آئی، میں نے پاس کھڑے مچھیروں سے پوچھا کہ آج دریا میں مچھلی نہیں ہے کیا؟ انہوں نے بتایا کہ تین چار دنوں سے ایک بھی مچھلی ہمیں نظر نہیں آئی۔ میں یہ سن حیران ہوا اور دریا میں غوطہ لگا دیا۔ دریا کی تہہ میں پہنچ کر میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی مچھلی بیٹھی ہوئی ہے اور آس پاس کی تمام چھوٹی بڑی مچھلیوں کو کھائے جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے اس بڑی مچھلی پر بہت غصہ آیا۔ میں نے اس مچھلی کو ایک زبردست مکا رسید کیا اور اسے وہیں ڈھیر کردیا، پھر میں نے وہیں دریا کی تہہ میں بیٹھ کر آگ جلائی اور وہیں مچھلی پکائی اور کھا کر واپس دریا سے باہر آگیا اور اپنا سامان لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔
    تیسرے نے کہانی سنا کر امید بھری نظروں سے تاجر کی طرف دیکھا، تاجر نے کہا بہت اچھی کہانی ہے، دریا کی سب چھوٹی مچھلیوں کو آزادی دلائی، کتنا نیکی کا کام ہے بالکل سچی کہانی ہے۔

    اب چوتھے دوست کی باری تھی اس نے کہنا شروع کیا: میری عمر صرف دو سال تھی، ایک دن میں جنگل میں گیا، وہاں کھجوروں کے بڑے بڑے درخت تھے اور ان پر کھجوریں بہت لگی ہوئی تھیں۔ میرا بہت دل چاہا کہ میں کھجوریں کھاؤں، چنانچہ میں درخت پر چڑھا اور پیٹ بھر کر کھجوریں کھائیں۔ جب میں نے درخت سے نیچے اترنے کا ارادہ کیا تو مجھے لگا میں نیچے اترتے اترتے گر جاؤں گا۔ میں بھول گیا تھا کہ درخت سے نیچے کیسے اترتے ہیں۔ میں درخت پر بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ میں گاؤں سے سیڑھی لاکر اس کے ذریعے سے نیچے اتروں۔ چنانچہ میں گاؤں گیا، وہاں سے سیڑھی اٹھا کر درخت کے ساتھ لگائی اور اس کے ذریعے سے نیچے اترگیا۔

    اب چاروں دوستوں نے امید بھری نظروں سے تاجر کو دیکھا کہ اب ضرور کہہ دے گا نہیں یہ کہانی جھوٹی ہے۔ لیکن تاجر نے آگے بڑھ کر چوتھے سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا کیا زبردست دماغ پایا ہے۔ ایسی ترکیب تو بہت ذہین آدمی کے ذہن میں آسکتی ہے۔ بالکل سچی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

    اب تو چاروں بہت گھبرائے کہ کہیں ہم ہار نہ جائیں اور ہمارا سارا مال یہ تاجر لے اڑے۔ کہانی سنانے کی باری اب تاجر کی تھی۔ تاجر کہنے لگا: میں نے بہت سال پہلے ایک خوبصورت باغ لگایا تھا۔ اس باغ میں ایک سنہرے رنگ کا بہت نایاب درخت تھا۔ میں اس کی خوب حفاظت کرتا تھا، اور اس کو روز پانی دیتا تھا، یہاں تک کہ ایک سال بعد اس درخت پر چار سنہرے رنگ کے سیب نمودار ہوئے، وہ سیب بہت خوبصورت تھے اسی لئے میں نے ان کو نہیں توڑا اور درخت پر لگا رہنے دیا۔ ایک دن میں اپنے باغ میں کام کررہا تھا کہ اچانک ان چاروں سیبوں سے ایک ایک آدمی نکلا، چونکہ یہ چاروں آدمی میرے باغ کے ایک درخت سے نکلے تھے اس لئے میں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا اور چاروں کو کام پر لگا دیا، لیکن یہ چاروں بہت نکمے اور کام چور تھے، ایک دن یہ چاروں بھاگ گئے اور خدا کا شکر ہے آج وہ چاروں غلام میرے سامنے بیٹھے ہیں۔

    یہ کہانی سن کر چاروں دوستوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ گاؤں کے چوہدری نے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی؟ چاروں دوستوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ تاجر کی اس کہانی کو جھوٹ کہیں تو ان کا سارا مال تاجر کا ہوجاتا ہے اور اگر سچ کہیں تو تاجر کے غلام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ چاروں خاموش ہوگئے نہ ہاں میں جواب دیا اور نہ ہی ناں میں۔ گاؤں کے چوہدری نے ان کو چپ دیکھ کر تاجر کے حق میں فیصلہ کر دیا کہ یہ چاروں تمہارے غلام ہیں۔ یہ سن کر وہ چاروں تاجر کے قدموں میں گر پڑے اور لگے معافیاں مانگنے۔ تاجر نے چوہدری سے کہا: یہ چاروں بھاگتے ہوئے میرا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے بھاگے تھے، چلو میں ان کو آزاد کرتا ہوں لیکن ان کے پاس جو مال ہے وہ میرا ہے۔ چنانچہ گاؤں کے چوہدری نے ان چاروں دوستوں کے پاس جتنا مال تھا وہ سارا تاجر کو دے دیا۔

    وہ تاجر سارا سامان اور مال و دولت لے کر چلا گیا، یہ چارون بہت سخت پشیمان ہوئے انہیں جھوٹ کی نہایت بری سزا ملی تھی۔ چاروں دوستوں نے تہیہ کیا کہ وہ کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے اور محنت کر کے روزی کمائیں گے۔ چاروں واپس اپنے گاؤں چلے گئے اور جھوٹ سے توبہ کر لی۔

  • پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    آپ لوگوں نے شاید ہیپلے کا نام سن رکھا ہو جو علم حیاتیات میں کیڑوں کا مطالعہ کرنے والا سب سے مشہور سائنس دان تھا۔ اگر آپ نے اس کا نام سن رکھا ہے تو یقیناً آپ ہیپلے اور پروفیسر پاکنز کے درمیان ہونے والے مشہور جھگڑے سے بھی واقف ہوں گے۔ لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ اس جھگڑے کا انجام کیا ہوا؟

    اس جھگڑے کا آغاز برسوں پہلے ہوا جب پاکنز نے ”مائیکرولیپا ڈوپٹرا“ (اس کا مطلب راقم الحروف کو خود بھی نہیں معلوم) پر ایک سائنسی مضمون لکھا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ ایک نئی قسم کا کیڑا جو ہیپلے اپنی دریافت بتاتا ہے، وہ کوئی نئی قسم ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ کیڑا ویسا ہی ہے جیسے اور ”مائیکرولیپا ڈوپٹر“ ہوتے ہیں۔ ہیپلے جو ویسے ہی تیز مزاج تھا، اس مضمون کی اشاعت پر بہت سیخ پا ہوا اور اس نے اپنی دریافت کا دفاع کرنے کے لیے نہایت سخت الفاظ میں جواب دیا۔ پاکنز نے اس جواب کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہیپلے کا مطالعہ و مشاہدہ اتنا ہی ناقص ہے جتنا اس کا مائیکرو اسکوپ!

    ہیپلے نے جوابی حملہ کرتے ہوئے ”آپ جیسے اناڑی سائنس دان“، اور ”آپ کے بے ڈھنگے آلات“ جیسے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا۔ سرد جنگ چھڑ چکی تھی۔
    اس دن کے بعد سے مستقل بنیادوں پر دونوں سائنس دانوں میں ہر موضوع اور ہر موقعے پر بحث ہونے لگی۔ میرا خیال ہے کہ عام طور پر پاکنز، ہیپلے کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہوتا تھا لیکن ہیپلے کو اپنا موقف کہنے کا ڈھنگ زیادہ بہتر طریقے سے آتا تھا۔ اس کے پاس اپنے مخالف کو احمق ثابت کرنے کے درجنوں دلائل موجود ہوتے تھے۔

    دوسری طرف پاکنز کو اپنی بات منوانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ساکھ اس حوالے سے بھی خراب تھی کہ وہ طالب علموں کو پاس کرنے کے لیے پیسے طلب کرتا تھا۔ لہٰذا نوجوانوں کی اکثریت ہیپلے کے ساتھ تھی۔ یہ سرد جنگ کئی برس تک جاری رہی اور دونوں سائنس دانوں کے درمیان نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

    1891ء میں پاکنز (جس کی صحت اب بہت خراب رہنے لگی تھی) نے ڈیتھ ہیڈ نامی کیڑے کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون میں بے شمار غلطیاں قابلِ گرفت تھیں اور ہیپلے نے اس مضمون کے خلاف لکھتے ہوئے ان ہی غلطیوں کا حوالہ دیا۔ یہ مضمون بہت بے رحمی سے لکھا گیا تھا جس میں ہر ایک غلطی کی نشان دہی بڑی تفصیل سے کی گئی تھی اور پاکنز کو مکمل طور پر احمق ثابت کیا گیا تھا۔ پاکنز نے ان اعتراضات کا جواب دیا لیکن اس کے دلائل بودے تھے اور لکھنے کا طریقہ بھی کمزور تھا۔ البتہ اس میں نفرت کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ وہ ہیپلے کو تکلیف پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس پر قادر نہیں تھا۔ وہ بہت بیمار رہنے لگا تھا۔
    اس کامیاب حملے کے بعد ہیپلے نے اپنے دشمن کو فیصلہ کن شکست دینے کی ٹھان لی۔ اس نے ایک تفصیلی مضمون لکھا جو بظاہر تو کیڑوں کے متعلق ایک عام مضمون تھا لیکن درحقیقت اس میں پاکنز کی تمام تحقیقات کو رد کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی زبان بہت جارحانہ تھی لیکن اس میں دیے گئے دلائل بہت مضبوط تھے جنھوں نے پاکنز کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

    اب تمام سائنس دان پاکنز کی طرف سے جوابی حملے کے منتظر تھے۔ لیکن ان ہی دنوں پاکنز شدید بیماری کے باعث انتقال کر گیا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ شاید اس کی وفات ہی اس کی طرف سے ہیپلے کو دیا جانے والا بہترین جواب تھا۔ کیوں کہ اس کے بعد لوگوں نے ہیپلے کی حمایت کرنا چھوڑ دیا۔ وہ لوگ جو اس لڑائی میں ہیپلے کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اب بہت سنجیدگی سے پاکنز کی وفات پر افسردگی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ہار جانے کی ذلّت ہی پاکنز کی موت کا اصل سبب تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنسی بحث و تکرار کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ اتفاق سے ہیپلے کا لکھا ہوا ایک تنقیدی مضمون جو اس نے کچھ ہفتے قبل لکھا تھا، عین اس دن ایک میگزین میں شائع ہو گیا جس دن پاکنز کی تدفین تھی۔ اس مضمون کی اشاعت نے لوگوں کو ہیپلے کے خلاف کر دیا۔ عوامی ہمدردیاں اب پاکنز کے ساتھ تھیں اور وہ اس کے لکھے گئے تمام مضامین بھول گئے جو مرحوم نے ہیپلے کے خلاف لکھے تھے۔ یہاں تک کہ اخبارات تک نے ہیپلے کے اس مضمون کی مذمت کی جو پاکنز کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔

    سچ تو یہ تھا کہ اس طرح مر جانے پر ہیپلے، پاکنز کو کبھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اوّل تو یہ فیصلہ کن شکست سے بچ نکلنے کا بہت بزدلانہ طریقہ تھا اور دوسرا یہ کہ اب ہیپلے کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پاس کوئی کام کرنے کو بچا ہی نہیں ہے۔ گزشتہ بیس برسوں سے وہ اپنی ساری توانائیاں صرف پاکنز کی ساکھ برباد کرنے میں صرف کرتا چلا آیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی اپنی ساکھ ہمیشہ بہتر ہوتی چلی گئی تھی۔

    یہ سچ تھا کہ ان کے آخری قلمی جھگڑے نے پاکنز کی جان لے لی تھی۔ لیکن اس واقعے نے ہیپلے کی زندگی کو بھی بہت متاثر کیا تھا۔ اس کے ڈاکٹر نے اسے کچھ عرصہ مکمل آرام تجویز کیا تھا۔ لہٰذا ہیپلے ایک پُرفضا مقام پر چھٹیاں گزارنے چلا گیا۔ لیکن یہاں بھی وہ دن، رات پاکنز کے خلاف ان تمام دلائل کے بارے میں سوچتا رہا جو اب نہیں دیے جا سکتے تھے۔
    ٭٭٭

    آخرکار ہیپلے نے اس حقیقت کا ادراک کر ہی لیا کہ پاکنز کے متعلق مستقل سوچتے رہنا اسے ذہنی طور پر بیمار کر سکتا ہے۔ اس نے پاکنز کو اپنے دماغ سے نکالنے کی شعوری کوششیں شروع کر دیں۔ وہ بہت ساری کتابیں خرید کے لایا لیکن جب بھی وہ کوئی کتاب اٹھا کے پڑھنے کی کوشش کرتا تو اسے کتاب کے ہر صفحے پر پاکنز کا سفید چہرہ نظر آ رہا ہوتا۔ وہ اسے تقریر کرتے ہوئے دیکھتا، ایک ایسی تقریر جس میں سے ہیپلے بیسیوں غلطیاں نکال سکتا تھا۔

    پھر ہیپلے نے شطرنج کھیلنا شروع کی۔ وہ جلد ہی اس کھیل میں ماہر ہو گیا اور اپنے مخالف کو باآسانی شکست دینے لگا۔ تاہم جب شطرنج میں اس کے مخالف کھلاڑی کی شکل پاکنز سے ملنے لگی تو اس نے اس کھیل کو بھی خیرباد کہہ دیا۔
    آرام کی سب سے بہترین شکل یہ تھی کہ وہ کسی نئی قسم کے کام میں مصروف ہو جائے۔ اس نے پانی میں اُگنے والے پودوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کام میں مشغول ہونے کے بعد تیسرا دن تھا جب اس نے ایک نئی قسم کے کیڑے کو دیکھا۔ وہ رات کا وقت تھا اور کمرے میں روشنی کا واحد ذریعہ ایک ننھا سا لیمپ تھا۔ اس کی ایک آنکھ اپنے مائیکرو اسکوپ پر مرکوز تھی جب کہ دوسری آنکھ سے وہ میز پوش کو دیکھ سکتا تھا۔ کپڑے کی زمین سرمئی تھی اور اس پر شوخ سرخ، سنہرے اور نیلے رنگ سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ اس نے اچانک کپڑے میں ایک جگہ حرکت محسوس کی اور اپنا سر اُٹھا کر دونوں آنکھوں سے کپڑے کا جائزہ لیا۔ اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میز پوش کا یہ رنگین حصہ باقاعدہ حرکت کر رہا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کمرے کی ساری کھڑکیاں اور دروازہ بند تھے تو یہ کیڑا اندر کہاں سے آ گیا؟ یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ اس نے یہ کیڑا کہیں سے اُڑ کے آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کیڑے کا میز پوش کے رنگوں سے ہم آہنگ ہونا بھی عجیب تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیپلے جو کیڑوں کے علم کا سب سے بڑا ماہر تھا، وہ اس کیڑے کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔

    کیڑا آہستہ آہستہ لیمپ کی طرف رینگ رہا تھا۔ ”ایک نئی قسم کا کیڑا!“ ہیپلے کا فطری تجسس بیدار ہو گیا۔ اسے اچانک پاکنز کا خیال آ گیا: ”اگر پاکنز کو پتا چل جائے کہ میں نے ایک بالکل انوکھی قسم کا کیڑا دریافت کیا ہے تو جلن کے مارے اس کا برا حال ہو جائے۔ لیکن پاکنز تو مر چکا ہے!“

    اس نے سوچا، ”مجھے اس کیڑے کو پکڑنا چاہیے۔“

    اب اس نے اردگرد کسی ایسی چیز کی تلاش شروع کی جس کی مدد سے وہ اس کیڑے کو پکڑ سکے۔ وہ بہت آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اچانک کیڑا ہوا میں بلند ہوا اور لیمپ سے ٹکرایا۔ لیمپ ایک طرف لڑھک کر بجھ گیا۔ اب کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ ہیپلے نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کے لیمپ کو سیدھا کیا اور کمرے میں دوبارہ روشنی ہو گئی۔ لیکن کیڑا اب میز پر موجود نہیں تھا۔ ہیپلے نے کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اسے وہ کیڑا دروازے کے قریب دیوار پر بیٹھا دکھائی دیا۔ ہاتھ میں لیمپ شیڈ پکڑ کر وہ کیڑے کو اس میں قید کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن کیڑا اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اب ہیپلے اس کیڑے کے تعاقب میں کمرے میں ناچتا پِھر رہا تھا۔ ایک بار اس کا لیمپ شیڈ والا ہاتھ لیمپ سے ٹکرا گیا اور وہ لڑھک کر میز کے نیچے جا گرا۔ کمرے میں ایک بار پھر تاریکی کا راج ہو گیا۔ ہیپلے کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا سخت بھنا رہا تھا۔ ایک بار کیڑا اس کے منہ سے آ کر ٹکرایا بھی لیکن اس کے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ اگر وہ کمرے کا دروازہ کھولتا ہے تو کیڑا اُڑ کے باہر چلا جائے گا اور پھر شاید وہ اسے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکے۔

    اندھیرے میں اس نے اچانک پاکنز کا چہرہ دیکھا۔ وہ زور زور سے اس پر ہنس رہا تھا۔ ہیپلے نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں اور اتنی زور سے پاؤں پٹخے کہ کمرہ اس کے جوتوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور کسی نے باہر سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون کے خوف زدہ چہرے نے دروازے کی جھری سے جھانکا۔ ”کیا بات ہے؟ یہ شور کی آواز کیسی ہے؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ اسی وقت باہر سے آنے والی روشنی میں ہیپلے کو وہ کیڑا ادھ کھلے دروازے سے بالکل قریب نظر آیا۔

    ”دروازہ بند کر دو!“ہیپلے پوری قوت سے چلایا اور دروازے کی طرف دوڑا۔ مالک مکان اس کے چہرے کے تاثرات سے سمجھی کہ وہ شاید اسے مارنے دوڑا ہے۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور اوپری منزل پر پہنچ کر اپنے کمرے کا دروازہ بھی بند کر لیا۔ وہ ہیپلے کے اس عجیب و غریب رویّے سے بہت سہم گئی تھی۔ ہیپلے کے کمرے میں اب پھر گھپ اندھیرا تھا۔ ہیپلے کو اندازہ تھا کہ اس کا رویہ پراسرار اور خوف زدہ کر دینے والا ہے۔

    ہیپلے اندھوں کی طرح ٹٹولتے ہوئے الماری کی طرف بڑھا اور ماچس تلاش کرنے لگا۔ اس تلاش کے دوران اس کا ہاتھ شیشے کے ایک گلدان سے ٹکرا گیا جو چھناکے سے ٹوٹ گیا تاہم اس کے بعد ہیپلے ماچس ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اس نے ایک موم بتی جلا کے اس کی روشنی میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہاں کیڑے کا نام ونشان بھی نظر نہ آیا۔ ہیپلے اب بری طرح تھک چکا تھا۔ اس نے سو جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ پرسکون نیند نہ سو سکا۔ رات بھر خواب میں اسے وہ کیڑا اور پاکنز نظر آتے رہے۔ رات میں دو بار اُٹھ کر اس نے اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا۔

    ایک بات تو طے تھی، وہ مالک مکان خاتون کو اپنے عجیب و غریب رویے کی کوئی وضاحت نہیں دے سکتا تھا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ کیڑا پکڑنے میں ناکام رہا تھا۔ صبح اٹھ کر اس نے طے کیا کہ وہ رات کے واقعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔ وہ ناشتے کے بعد چہل قدمی کرنے نکل گیا۔ چہل قدمی کے دوران تمام تر کوشش کے باوجود وہ کیڑے کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکا۔ ایک دفعہ تو اس نے بڑے واضح طور پر کیڑے کو باغ کی پتھریلی دیوار پر بیٹھے دیکھا لیکن جب وہ بھاگ کر وہاں پہنچا تو وہ کیڑے کے بجائے محض پتھر کا قدرتی رنگ اور ڈیزائن نکلا۔

    دوپہر میں ہیپلے پادری صاحب سے ملنے گیا۔ وہ گرجے کے باغ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہیپلے نے اچانک کہا: ”آپ وہ کیڑا دیکھ رہے ہیں؟“

    ”کہاں؟“ پادری صاحب نے حیران ہو کر کہا۔

    ”کیا آپ کو اس بینچ کے کونے پر کیڑا بیٹھا ہوا نہیں نظر آ رہا؟“ ہیپلے نے اس سے بھی زیادہ حیران ہو کر کہا۔

    ”نہیں تو!“ پادری صاحب نے نفی میں سر ہلایا اور ہیپلے حیران، پریشان نظر آنے لگا۔ پادری صاحب اسے گھور رہے تھے۔

    اس رات ہیپلے نے کیڑے کو اپنے بستر پر رینگتے ہوئے دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرنے لگا کہ کیا یہ اس کا وہم ہے یا حقیقت میں کیڑا اس کے بستر پر رینگ رہا ہے۔ اسے لگا جیسے وہ پاگل ہو جائے گا۔ اس نے اس پاگل پن سے اسی طرح لڑنے کی کوشش کی جیسے وہ اپنے سابق حریف پاکنز سے لڑتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ اب پاکنز سے لڑتے رہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ انسانی نفسیات بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ دماغ جب تھکا ہوا ہو تو وہ طرح طرح کی ایسی چیزیں اختراع کرنے لگتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ کیڑے کو محض دیکھ ہی نہیں رہا تھا، اس نے رات کی تاریکی میں کیڑے کو دو بار اپنے چہرے سے ٹکراتے ہوئے بھی محسوس کیا۔ اس نے موم بتی کی روشنی میں غور سے دیکھا۔ وہ کیڑا مجسم حقیقت تھا۔ اس نے کیڑے کا بالوں سے بھرا جسم دیکھا، اس کے پر دیکھے، اس کی باریک ٹانگیں دیکھیں اور ایک لمحے کے لیے اسے خود پر شدید غصہ آیا کہ وہ ایسے ننھے منے کیڑے سے کیسے ڈر سکتا ہے!
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون نے اس رات اپنی ملازمہ کو کمرے میں بلا لیا تھا کیوں کہ اسے اکیلے سوتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے کمرہ بند کر کے دروازے کے ساتھ ایک بھاری میز بھی لگا دی تھی۔ رات گیارہ بجے کے قریب انھوں نے کرائے دار کے کمرے میں بھاری قدموں کی آواز سنی۔ ایک کرسی گرنے کی آواز آئی پھر ایک دیوار پر زبردست مکا مارا گیا۔ اس کے بعد شیشے کی کوئی چیز چھناکے سے ٹوٹ گئی۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر ہیپلے سیڑھیاں اترتے ہوئے محسوس ہوا۔ دونوں خواتین نے ڈر کے مارے ایک دوسرے کو پکڑ لیا۔ قدموں کی آواز بار بار سنائی دے رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بار بار سیڑھیاں چڑھ اور اُتر رہا تھا۔ آخرکار گھر کا مرکزی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ شاید وہ گھر سے باہر جا رہا تھا۔ وہ بھاگ کر کھڑکی کے پاس گئیں اور پردہ ہٹا کر تاروں کی ملگجی روشنی میں ہیپلے کو جاتے دیکھا۔ وہ نہ صرف سڑک پر دیوانوں کی طرح دوڑ رہا تھا بلکہ بار بار ہوا میں اس طرح ہاتھ چلا رہا تھا جیسے کچھ پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ تاہم ان دونوں کو ہیپلے کے سوا اس وقت سڑک پر کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دوڑتے ہوئے سڑک کے کنارے جنگل میں غائب ہو گیا۔

    ابھی وہ دونوں آپس میں اس بات کا فیصلہ کر ہی نہ پائی تھیں کہ نیچے جا کر دروازہ کون بند کرے کہ ہیپلے گھر واپس لوٹ آیا۔ اس نے خاموشی سے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے بعد گہرا سناٹا چھا گیا۔

    ”مسز کولول! مجھے امید ہے کہ میں نے کل رات آپ کو خوف زدہ نہیں کیا ہو گا۔“ ہیپلے نے اگلی صبح مالک مکان سے کہا۔ مالک مکان نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ”دراصل مجھے نیند میں چلنے کی بیماری ہے۔ میں نے گزشتہ دو راتوں سے نیند کی دوا نہیں لی تھی، اس لیے ایسا ہوا۔ آپ کو خوف زدہ ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو میرے رویے سے پریشانی ہوئی تو میں اس کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔ میں آج کیمسٹ سے اپنی نیند کی دوا خرید لاؤں گا۔ بلکہ مجھے یہ کام کل ہی کر لینا چاہیے تھا۔ بہت معذرت!“ ہیپلے نے جلدی، جلدی کہا۔
    لیکن کیمسٹ کی دکان جاتے ہوئے ہیپلے کو وہ کیڑا دوبارہ نظر آ گیا۔ وہ بار بار اس کے چہرے سے ٹکرا رہا تھا اور ہیپلے کو اسے ہاتھ ہلا کر بھگانا پڑ رہا تھا۔

    اچانک اسے اپنے اندر وہی غصہ ابھرتا ہوا محسوس ہوا جو وہ پاکنز کے لیے محسوس کرتا تھا۔ اس نے غصے میں مٹھیاں بھینچ کر کیڑے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی اور کسی چیز پر سے پھسل کر گر پڑا۔

    جب وہ کوشش کر کے اُٹھا تو اسے پتا چلا کہ وہ ایک کھائی کے اندر جا گرا ہے اور اس کی ٹانگیں اس کے بوجھ تلے مڑ گئی ہیں۔ عجیب و غریب کیڑا اس وقت بھی اس کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن حسب سابق ناکام رہا۔ اسی اثنا میں اس نے دو مردوں کو سامنے سے آتا دیکھا۔ ان میں سے ایک قصبے کا ڈاکٹر تھا۔ ہیپلے نے ان کے آنے کو اپنی خوش قسمتی خیال کیا کیوں کہ اسے باہر نکلنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت تھی۔ تاہم اسے یہ بھی یقین تھا کہ دونوں اشخاص اس کے سر پر منڈلاتا کیڑا نہیں دیکھ پائیں گے۔ لہٰذا اس نے طے کیا کہ وہ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔
    ٭٭٭

    رات تک اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا درد تو خاصا کم ہو چکا تھا لیکن اسے ہلکا سا بخار ہو گیا تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے کمرے کا جائزہ لیا۔ پہلے پہل اس نے فیصلہ کیا کہ کمرے میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن اسے خودبخود وہ کیڑا بستر کے سرہانے رکھے لیمپ پر بیٹھا ہوا نظر آ گیا۔ اس کو اچانک شدید غصہ آنے لگا اور اس نے کیڑے کو مارنے کے لیے زور سے اپنا ہاتھ گھمایا۔ لیمپ الٹ گیا اور سامنے کرسی پر بیٹھی نرس جو تقریباً سو چکی تھی، گھبرا کر اٹھ گئی۔

    ”وہ کیڑا! نہیں…میرا مطلب ہے کہ مجھے اپنے تصور میں یہاں ایک کیڑا نظر آ رہا ہے اور کوئی بات نہیں۔“

    ہیپلے نے جلدی جلدی کہا۔ اسے وہ کیڑا کمرے میں اڑتا ہوا بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نرس اسے نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے خود پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کی لیکن جیسے جیسے رات گزرتی گئی، اس کے بخار میں شدت آتی گئی اور کیڑے کو نہ دیکھنے کی ناکام کوشش میں اس کا سر درد سے پھٹنے لگا۔ اس نے بستر سے اٹھ کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ چل نہ سکا۔ نرس نے بڑی مشکل سے اسے اس ارادے سے باز رکھا۔ لیکن وہ ہر دس منٹ بعد اٹھنے کی کوشش کرتا۔ مجبوراً اس کے ہاتھ پاؤں بستر کے ساتھ باندھ دیے گئے۔ اسے بندھا دیکھ کر کیڑے کی جرات میں اضافہ ہو گیا۔ اب وہ کبھی اس کے بالوں پر آ بیٹھتا کبھی بازو پر اور کبھی اس کے چہرے پر چہل قدمی شروع کر دیتا۔ ہیپلے کبھی غصے سے چلاتا، برا بھلا کہتا اور کبھی رو دیتا۔ وہ نرسنگ اسٹاف سے درخواست کرتا کہ اس کے اوپر سے کیڑے کو ہٹا دیا جائے لیکن یہ سب کرنا بے سود ہی رہا۔

    اس کا ڈاکٹر شاید انسانی نفسیات کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، لہٰذا وہ محض یہ کہہ دیتا کہ کمرے میں کوئی کیڑا نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ ہیپلے کو اس اذیت سے بچا سکتا تھا۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ کیڑا وہاں موجود ہے، ہیپلے کو منہ ڈھانکنے کے لیے کوئی رومال دے سکتا تھا تاکہ کیڑا اس کے منہ پر نہ بیٹھ سکے۔ لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا اور ہیپلے اپنی ٹانگ کے صحت یاب ہو جانے تک بستر سے بندھا رہا۔ اس سارے عرصے میں کیڑا اسے کسی عفریت کی طرح ڈراتا رہا جسے وہ سوتے جاگتے اپنے اردگرد پاتا تھا۔

    ہیپلے اب اپنی باقی ماندہ زندگی ایک پاگل خانے میں ایک ایسے کیڑے سے خوف زدہ ہو کر گزار رہا ہے جو کسی اور کو نظر نہیں آتا۔ پاگل خانے کے معالج کا کہنا تھا کہ یہ کیڑا ہیپلے کے دماغ کی اختراع ہے۔ لیکن ہیپلے جب اپنے ہوش و حواس میں ہوتا تھا تو لوگوں کو بتاتا کہ یہ کیڑا پاکنز کی روح ہے لہٰذا اس کو پکڑنا سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

    (مصنّف: ایچ جی ویلز، مترجم: گل رعنا صدیقی)

  • اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    بندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اٹھا تے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔

    بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزّت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔ بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزّتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔

    ہُوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں، اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔ بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آنکلے تھے، بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔ کیا چا ٹ بنائی ہے میں نے، واہ بی لومڑی واہ۔“

    بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے، لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔ دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں، لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزّتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔ بی لومڑی نے اپنی بے عزّتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔ اور بالآخر وہ دن آہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔

    اُس روز موسم سخت گرم تھا، دھوپ بھی بہت تیزتھی، بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔ اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یادآ گیا۔ وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پَل بھر میں‌ یہ جا، وہ جا۔

    بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں، اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، لیکن یہ اُن کی بھول تھی، کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہوگئے تھے، اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے، بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔ پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بندرمیاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ تمام جانور بادشاہ کے دربارمیں حاضر ہو گئے۔

    بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ ان کا زخمی چہرہ اور کلا ئی سے رِستا ہُوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔ بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔ تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔ کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔

    جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سُنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔

    یہ فیصلہ سُنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اُن کی آنکھیں بھر آئیں، جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔ بی لومڑی منہ بسورے، کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔ یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔ عادت سے مجبور جو تھے۔ پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔ کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟ تمام جانورہنس رہے تھے۔ بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشا ہ بھی مسکرا دیے۔ اپنی بھد اڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہُوئیں اور اُداس بھی۔

    بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آگیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چُکی تھی۔ خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزّت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔ فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔ اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لیے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔

    بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہُوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔ بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔

    (شائستہ زرّیں کے قلم سے بچّوں کے لیے ایک سبق آموز کہانی)

  • اُلٹا نگر (ایک دل چسپ کہانی)

    اُلٹا نگر (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک تھا الٹا نگر۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے رہنے والوں کی ہر بات اُلٹی تھی۔

    وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے، بائیں طرف چلتے اور ہمیشہ بائیں کروٹ سوتے تھے۔ وہ لیٹ کر کھانا کھاتے اور بیٹھ کر سوتے تھے۔ لحاف بچھاتے اور گدّے اوڑھے تھے۔ منہ پہلے دھوتے اور ہاتھ بعد میں، روٹی پہلے کھاتے اور سالن بعد میں۔

    درزی الٹے کپڑے سیتے تھے۔ ہر شخص جوتے خریدنا ضروری سمجھتا تھا مگر جب چلتا تو جوتوں کو سَر پر رکھ لیتا۔ حکیم زکام کے مریض کو قبض کی دوا دیتے اور قبض کے مریض کو ایسی دوا دیتے کہ اُسے زکام ہو جاتا۔ اگر انہیں کہیں جلدی جانا ہوتا تو بہت آہستہ چلتے اور جہاں جلدی نہ پہنچنا ہوتا وہاں اتنی تیزی سے جاتے جیسے کہیں آگ لگی ہو۔ کسی کا بیاہ ہوتا تو سب مل کر اِس طرح روتے کہ دل سہم جاتا اور جب کوئی مر جاتا تو اتنا ہنستے اتنا ہنستے کہ پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ بچّے سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے اور بوڑھے پڑھنے کے لیے بلا ناغہ اسکول جاتے تھے۔

    غرض کہ اس شہر کا باوا آدم ہی نرالا تھا۔ لیکن اپنی الٹی پلٹی باتوں کے باوجود بھی اُلٹے نگر کے لوگ بڑے سکھ چین سے رہتے تھے۔ ان کے ہاں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا تھا۔ کوتوالی کے سپاہی سارا دن لمبی تان کر سوئے رہتے۔

    الٹے نگر میں کوئی اجنبی آتا تو ہر شخص اسے اپنے ہاں ٹھہرانے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ شخص کسی کے ہاں مہمان ٹھہرنا پسند نہ کرتا تو وہ اُسے غلط راستہ بتا دیتے اور وہ اجنبی سارے شہر میں پاگلوں کی طرح گھومتا پھرتا۔

    اس شہر کی اُلٹی پُلٹی باتوں کی خبر بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اُسے بڑا غصّہ آیا۔ اس نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ فوراً الٹا نگر جاؤ اور وہاں کے لوگوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔ وزیر دوسرے ہی دن اُلٹا نگر جا پہنچا۔

    ’’خُدا ہی بہتر جانے یہ کس قسم کا شہر ہے۔ مجھے تو ان لوگوں سے خوف آتا ہے۔‘‘ وزیر نے اسٹیشن سے باہر نکل کر چاروں طرف نگاہ دوڑا کر کہا۔

    ایک سڑک پر بورڈ لگا تھا۔ ’’یہ سڑک جنوب کی طرف جاتی ہے۔‘‘

    وزیر بولا۔ ’’لا حول ولا قوة! ارے یہ حماقت تو دیکھو ذرا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس طرف مغرب ہے۔ مگر ان احمقوں نے الٹا بورڈ لگا رکھا ہے۔‘‘

    ’’جناب! یہ الٹا نگر یوں ہی تو مشہور نہیں ہو گیا۔‘‘ ایک افسر نے کہا۔ وہ آگے بڑھے تو ایک آدمی ملا۔ وزیر نے اُس سے کہا۔ ’’بھئی! ہمیں کوتوالی جانا ہے۔ کون سا راستہ جاتا ہے اُدھر؟‘‘

    ’’کوتوالی جانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ میرے گھر مہمان کیوں نہیں رہ جاتے؟‘‘ اُس نے جواب دیا۔

    اِتنے میں اور بھی بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور ہر شخص اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہریں مگر جب وہ نہیں مانے تو انہوں نے کہا۔ ’’اچھا! آپ کی مرضی! ایسا کیجیے کہ ناک کی سیدھ میں چلے جائیے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر کوتوالی ہے۔‘‘

    وہ ان کا شکریہ ادا کر کے اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگے۔ جب وہ سڑک کے آخر میں پہنچے تو اُنہیں بھنگیوں کے گھر نظر آئے۔

    ’’لا حول و لا قوّۃ! بھئی یہ لوگ تو اوّل درجے کے شیطان ہیں۔ لو ہمیں بھنگیوں کے گھر بھیج دیا ہے۔ حد ہو گئی۔‘‘ وزیر نے غصّے سے کہا۔

    وہ لوگ سارا دن شہر میں مارے مارے پھرے اور کہیں شام کے وقت بڑی مشکلوں سے کوتوالی پہنچے۔ یہ لوگ کئی دن تک وہاں بیٹھے سر پٹختے رہے مگر الٹے نگر کے لوگوں نے اُن کی ایک نہ سنی۔ ان کی ہر بات کا مذاق اُڑایا۔ ان کے بنائے ہوئے کسی قانون کو نہیں مانا۔ ان کی تدبیریں سب اکارت گئیں۔

    ’’ہم کس پاگل خانے میں آ گئے ہیں۔ اِن لوگوں کو تو گولی مار دینی چاہیے۔ ان کی کوئی بھی تو کل سیدھی نہیں ہے۔‘‘ ایک افسر نے تنگ آ کر کہا۔

    ’’چند دن اور کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ سیدھی راہ پر آ جائیں۔‘‘ وزیر بولا۔
    ایک دن دو ڈاکو سرکاری خزانہ لوٹ کر اُلٹا نگر چلے آئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس شہر کے لوگ بے وقوف ہیں اِس لیے وہ یہاں آرام سے بیٹھ کر موج اڑائیں گے۔ جونہی یہ شامت کے مارے الٹے نگر میں داخل ہوئے، لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر شخص انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے کے لیے اصرار کرنے لگا۔

    ’’اجی صاحب! آپ میرے غریب خانے پر چلیے۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔ چُپ رہو تم اتنے بڑے آدمیوں کی میزبانی کے اہل نہیں ہو۔ حضور! آپ بندے کے گھر چلیے۔ وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔‘‘ دوسرے نے کہا۔

    ’’تم کیا کرایہ لو گے؟‘‘ ایک ڈاکو نے پوچھا۔

    ’’آپ ہماری توہین کر رہے ہیں صاحب۔ ہم مہمانوں سے کرایہ نہیں لیا کرتے۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔

    ’’پھر تو بہت اچھّی بات ہے۔ ہم تمہارے ہی گھر چلیں گے۔‘‘ ڈاکوؤں نے کہا۔

    ’’نہیں نہیں۔ میں اتنی دور سے آپ کے پیچھے آیا ہوں۔ آپ کو میرے گھر چلنا ہو گا۔‘‘ ایک اور آدمی نے کہا۔

    ’’بکواس بند کرو۔ یہ میرے مہمان ہیں۔ میں ان کے لیے درجنوں مرغے ذبح کروا سکتا ہوں۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے کہا اور دونوں ڈاکوؤں کو پکڑ کر اپنے گھر کی طرف گھسیٹنے لگا۔

    جب دوسروں نے دیکھا کہ یہ تو اُنہیں ہانک لے چلا ہے تو اُنہوں نے دوسروں کو بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اپنے اپنے گھر کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اس کھینچا تانی میں ڈاکوؤں کے کپڑے تار تار ہو گئے۔

    اتّفاق سے کوتوال کا اس طرف سے گزر ہوا۔ اس نے مجمع لگا دیکھا تو آگے آیا اور بڑی مُشکل سے ڈاکوؤں کو لوگوں کے پنجے سے چھڑایا۔

    ’’کیا بات ہے۔ تم انہیں کیوں مار رہے ہو؟‘‘ کوتوال نے پُوچھا۔

    ’’مار کون رہا ہے جناب! ہم تو انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانا چاہتے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

    ’’اوہو! تو یہ جھگڑا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اِن دونوں کو میں اپنے ہاں مہمان رکھوں گا۔ تم سب اپنی اپنی راہ لگو۔‘‘ کوتوال نے بڑے رُعب سے انہیں حُکم دیا اور خود اُن دونوں کو اپنے گھر لے آیا۔

    لوگوں سے جب کچھ اور نہ بن پڑا تو اُنہوں نے ڈاکوؤں کی موٹر کو خوب صاف کیا اور اُس کا پٹرول نکال کر اس میں دودھ بھر دیا۔

    دوسرے دن صبح کو ریڈیو پر سرکاری خزانہ لوٹے جانے کی خبر سُنائی گئی اور ڈاکوؤں کا حلیہ بھی بتایا گیا۔ الٹے نگر کے لوگوں نے چوروں کے حلیے پر غور کیا تو انہیں یقین ہو گیا کہ کوتوال کے مہمان ہی وہ ڈاکو ہیں۔ وہ غصّے سے لال پیلے ہو کر کوتوال کے گھر کی طرف چلے۔

    ’’میرے دروازے کے سامنے کیوں بھیڑ لگا رکھی ہے تم نے؟‘‘ کوتوال نے دروازہ کھول کر پوچھا۔

    ’’جناب! آپ کے دونوں مہمان ڈاکو ہیں۔ سرکاری خزانہ لوٹ کر یہاں لائے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

    ’’ایں! واقعی؟‘‘ کوتوال نے حیران ہو کر کہا اور چوروں کو پکڑنے کے لیے اندر بھاگا مگر چور پہلے ہی پچھلے دروازے سے رفو چکر ہو چکے تھے۔

    ’’پکڑو پکڑو۔ جانے نہ پائیں۔ ابھی یہیں کہیں ہوں گے۔‘‘ کوتوال نے کہا۔

    لوگ بھاگتے ہوئے چوک میں پہنچے۔ یہاں ڈاکوؤں کی کار کھڑی تھی اور وُہ کار میں بیٹھے انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر کار میں پٹرول کی جگہ دودھ بھرا ہوا تھا۔ وہ چلتی کیسے۔ ڈاکو لوگوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر موٹر چھوڑ چھاڑ سرپٹ بھاگے مگر چند ہی منٹوں میں گرفتار کر لیے گئے۔

    جب لوگ ڈاکوؤں کو لے کر کوتوالی پہنچے تو وزیر اپنے بنائے ہوئے قانون کوتوال کو سمجھا رہا تھا۔

    ’’جناب! ہمیں آپ کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے چوروں کو خود پکڑ سکتے ہیں۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔

    ’’بھئی! تُم اپنی الٹی پُلٹی حرکتوں سے اپنا کام نکال ہی لیتے ہو۔‘‘ وزیر نے ہنس کر کہا۔

    ’’میرا خیال ہے کہ اِنہیں اِن کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ ایک افسر بولا۔ ’’یہ جانیں اور ان کا کام۔ اگر ہم کچھ دن اور یہاں رہے تو ہم بھی ان کی طرح الٹے پلٹے ہو جائیں گے۔‘‘ اور وہ سب اسی دن الٹے نگر سے چلے گئے۔

    (مصنّف:‌ جبّار توقیر)

  • جسے اللہ رکھے، اسے  کون چکھے (کہانی)

    جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے (کہانی)

    بہت پرانی بات ہے کہ ایک گاؤں میں مراد نامی نوجوان اپنے بال بچّوں سمیت رہتا تھا۔ اس کا گھر کچّا بھی تھا اور چھوٹا بھی، لیکن مراد مطمئن تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔

    اس نوجوان کے زیادہ تر رشتہ دار اور عزیز و اقارب قریبی دیہات اور شہر کے مضافاتی علاقوں‌ میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے گاؤں سے باہر جاتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ماموں کی مزاج پرسی کے کے ارادے گھر سے نکلا جو خاصی دور ایک مقام پر رہتے تھے۔ مراد صبح سویرے گھر سے چل پڑا تاکہ شام ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا اور گزر گاہ خطرناک تھی۔ اس راستے پر جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ رہتا تھا۔ مراد گھر سے دوپہر کا کھانا اور ضروری سامان ساتھ لیے منزل کی طرف چل پڑا۔

    جب وہ جنگل کے قریب تھا تو اچانک مشرق کی طرف سے اس نے گرد کا طوفان اور آندھی آتی دیکھی۔ مراد نے پناہ گاہ کی تلاش میں‌ نظر دوڑائی۔ خوش قسمتی سے قریب ہی اسے ایک جھونپڑی نظر آگئی۔ اس نے جھونپڑی کی طرف قدم بڑھائے اور تقریباً دوڑتا ہوا جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا۔ اس اثناء میں آندھی جو بڑی زور آور تھی، کئی درختوں کو ہلاتی اور مختلف ہلکی اشیاء کو اڑاتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ اسی کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش بھی شروع ہو گئی۔

    مراد کو جھونپڑی میں داخل ہونے سے کسی نے نہ روکا۔ وہ اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے چھے نوجوان پناہ لیے ہوئے تھے۔ دعا سلام کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی کی گرج چمک میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ جب بجلی چمکتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اسی جھونپڑی کی چھت پر پڑی ہے۔ اندر جتنے لوگ تھے وہ بجلی کی کڑک سن کر خوف ذدہ ہو جاتے۔ وہ آفت ٹلنے کے لیے دعائیں‌ کرنے لگے اور اپنی اپنی جان کی امان اللہ سے طلب کرنے لگے۔

    جب بجلی بار بار جھونپڑی کی طرف آنے لگی تو سب کو یقین ہو گیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور اس ایک کی وجہ سے سب کے سب موت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ جھونپڑی میں پہلے سے موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب مرنے کے بجائے یہ کریں‌ کہ ہر ایک باری باری سامنے کچھ فاصلے پر موجود درخت کو ہاتھ لگا کر آئے۔ ان کو نجانے کیوں یہ یقین ہوچلا تھا کہ جس کی موت آنی ہو گی، باہر نکلنے پر بجلی اس پر ضرور گرے گی۔

    جھونپڑی میں موجود ایک شخص پہلے نکلا اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گیا۔ بجلی کڑکی مگر وہ شخص زندہ سلامت جھونپڑی میں واپس آ گیا۔ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا شخص حتّیٰ کہ وہ چھے کے چھے اشخاص درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گئے اور بجلی کڑکتی رہی، مگر ان میں‌ کوئی نشانہ نہیں‌ بنا تھا۔

    اب آخری شخص مراد تھا جسے ان سب نے جاکر درخت کو ہاتھ لگانے کے لیے کہا۔ مراد نجانے کیوں گھبرا گیا۔ اس نے پناہ لیے ہوئے تمام لوگوں کی منت سماجت کرنی شروع کر دی اور کہا کہ شاید وہ ان سب کی وجہ سے بچا ہوا ہے، لہٰذا اسے باہر نہ جانے کو کہا جائے۔ مگر سب بضد تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بجلی جس زور سے کڑک رہی ہے، وہ یقیناً‌ کسی ایک کو نوالہ بنانا چاہتی ہے، ہم سب نے اپنی باری پوری کی ہے، ہم مرنا نہیں چاہتے۔ اب تمہاری باری ہے جاؤ اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ جاؤ۔ اگر تمھاری زندگی ہوگی تو تم لوٹ آؤ گے۔ انہوں نے اسے پکڑا اور باہر دھکیل دیا۔

    مراد طوفانی بارش اور گرج چمک میں‌ درخت کی طرف بھاگا تاکہ جلدی سے اسے ہاتھ لگا کر واپس آ جائے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ جونہی وہ جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر پہنچا، اچانک بجلی چمکی ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ مراد کے اوسان اس آواز کو سنتے ہی خطا ہوگئے، لیکن لمحوں میں‌ جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو جھونپڑی جل گئی تھی۔ بجلی اس جھونپڑی پر گری تھی جہاں وہ چھے افراد موجود تھے جنھوں‌ نے اسے باہر نکال دیا تھا۔ وہ سب کے سب لقمۂ اجل بن چکے تھے۔