Tag: بچوں کی کہانی

  • "روٹی کیوں پھولتی ہے؟”

    "روٹی کیوں پھولتی ہے؟”

    دانیال جب ناراض ہوتے ہیں تو منہ پھلا کر کونے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج کل وہ چھٹیوں میں اپنی دادی کے پاس آئے ہوئے تھے۔

    برسات کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ بادل خوب امنڈ کر آئے۔ پھر بارش ہونے لگی۔ دانیال باہر جا کر بارش میں بھیگنا چاہتے تھے۔ دادی نے منع کر دیا۔ موسم کچھ ایسا ہورہا تھا کہ کبھی سخت گرمی تو کبھی مرطوب ہوا۔ کچھ لوگوں کو کھانسی نزلہ ہورہا تھا۔ دادی نے کہا بھیگنے سے بیمار پڑگئے تو چھٹیاں غارت ہوجائیں گی۔ بس دانیال منہ پھلا کر ایک طرف کو کھڑے ہوگئے۔

    دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔ کھانا میز پر آچکا تھا۔ دادی نے آواز لگائی۔ ”آؤ بچّے کھانا کھا لو۔ دیکھو نسیمہ آپا نے گرم گرم پھولی ہوئی روٹیاں پکائی ہیں۔“

    ”ایسی گول اور پھولی ہوئی ہیں جیسے دانیال بھیا کا منہ۔“ نسیمہ نے انھیں چھیڑا۔

    دانیال کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ گرم گرم پھولی پھولی روٹیوں کی بات سن کر وہ غصہ بھول گئے اور ٹیبل پر آگئے۔

    ”پہلے جا کر ہاتھ دھوئیے۔ دادی نے تنبیہ کی۔ کھانے سے پہلے ہاتھ خوب اچھی طرح دھو لینے چاہییں۔ دانیال بھاگ کر واش بیسن پر چلے گئے۔ صابن لگا کر ہاتھ اچھی طرح دھوئے، پھر چھوٹی تولیہ سے پونچھ کر آگئے۔ تب نسیمہ نے ان کی پلیٹ میں توے سے اتاری پھولی ہوئی روٹی لاکر ڈالی۔ دانیال کی پسند کا انڈے آلو کا سالن بھی تھا۔

    ”بہت گرم ہے۔“ دانیال نے پھولی ہوئی روٹی میں انگلی ماری۔ بھاپ سے انگلی میں جلن محسوس ہوئی۔ جلدی سے اسے منہ میں ڈال لیا۔ اب روٹی پچک چکی تھی۔

    دادی۔ دادی۔ روٹی کیوں پھولتی ہے۔

    یہ اچھا سوال پوچھا تم نے۔ دادی نے کہا۔ پہلے کھانا کھالو، پھر بتاتے ہیں۔ کھانا کھالینے کے بعد دادی نے بتایا۔

    ”تمہیں معلوم ہے روٹی عام طور پر گیہوں کے آٹے سے بنتی ہے۔“

    ”معلوم ہے دادی۔ کچن میں کنستر بھر کر گیہوں کا آٹا رکھا ہے۔“

    ”ہاں۔ اسٹور روم میں گیہوں بھی ہے جو گاؤں سے آیا ہے۔ آٹا ختم ہوگا تو اسے لِپوا کر آٹا بنوا لیا جائے گا۔ روٹی پکانے سے پہلے اس آٹے کو گوندھا جاتا ہے۔

    دانیال نے سر ہلایا۔ ”جانتے ہیں“ دانیال اکثر کچن میں گھسے رہتے تھے۔

    ”گیہوں میں ایک چیز ہوتی ہے جسے گلوٹن (Gluten) کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا پروٹین ہوتا ہے۔ تم ابھی چوتھے اسٹینڈرڈ میں ہو۔ اگلے سال شاید تمھیں پروٹین کے بارے میں کلاس میں بتایا جائے۔ بہرحال اس پروٹین کی وجہ سے آٹے میں لچک پیدا ہوتی ہے اور وہ کھینچا جاسکتا ہے۔ تم نے نسیمہ آپا کو یا ہمیں روٹی بیلتے دیکھا ہوگا۔ لچک کی وجہ سے ہی روٹی بڑھتی ہے۔ بہت سے لوگ تو بہت بڑی بڑی روٹیاں بنا لیتے ہیں۔“

    ”جیسے رومالی روٹی جو ہم نے ہوٹل میں کھائی تھی۔“

    ”شاباش۔ ٹھیک بتایا۔“ دادی نے کہا۔

    ”آٹے کو لوچ دار بنانے کے علاوہ یہ پروٹین اس میں ایک جال سا بنا دیتا ہے۔ اس کے ننھے ننھے خانوں میں گیس کے بلبلے پھنس جاتے ہیں۔ روٹی جب توے پر ڈالی جاتی ہے تو گرمی سے بھاپ بنتی ہے۔ یہ بھاپ گلوٹین کے ننھے ننھے خانوں کو پھلا کر اوپر کی طرف دھکیلتی ہے اور روٹی پھول جاتی ہے۔“

    دانیال نے سَر ہلایا۔ جیسے وہ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں۔ ”گرمی سے روٹی کے اندر بھاپ بنتی ہے۔ وہ آٹے میں موجود گلوٹین کے جال کو اوپر کی طرف دھکا دیتی ہے۔ اسی سے روٹی پھول جاتی ہے۔“ انھوں نے دہرایا۔ اور بولے ”ارے دادی پوریاں بھی تو پھولتی ہیں ا ور گول گپّے بھی۔“

    ”وہ بھی اسی اصول کے تحت پھولتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انھیں گرم تیل سے گرمی ملتی ہے۔“ وہ تیل میں تلے جاتے ہیں۔

    ”رات کے کھانے میں پوری کھلائیں گی دادی؟“ دانیال نے کہا۔

    ”ضرور۔ بشرطے کہ تم ساتھ میں ہری سبزی بھی کھاؤ۔ ہری سبزی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اسے کھانے کو کہا جائے تو روٹی کی طرح منہ مت پھلانا۔“ دادی نے پیار سے سَر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔

    (معروف بھارتی ادیب اور افسانہ نگار ذکیہ مشہدی کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)

  • قسمت کی ماری (لوک داستان)

    ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پر اس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔

    اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ پیار سے اس کی پرورش ہو رہی تھی۔ چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہوئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔

    بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔ "اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجیے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچّی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچّی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچّی خوش حال اور آسودہ ہو گی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب ہوگی، اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔” ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچّی کے واسطے تھما دیے۔ بچّی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچّی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جب کہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔

    جب بادشاہ سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔ ادھر دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور اپنی بیٹی کو دیکھ کر ملکہ کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چوں کہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالا۔ خوب صورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح نظر آنے لگی۔

    ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھی۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟” وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔” بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔” دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ کیا کروں؟ اس نے کہا "میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نہ ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔” سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔

    سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب پیٹنا شروع کیا۔ سپاہیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔ بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔” بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔”

    اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہِ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصّے میں آگیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔”

    شہزادہ کو کسی صورت یہ گوارہ نہ ہوا اگرچہ اسے اپنی بہن کے متعلق اب معلوم ہوا تھا۔ لیکن اسے پتا تھا کہ اس نے اسے قتل نہیں کیا تو بادشاہ دونوں کو ہلاک کر دے گا۔ مجبور ہو کر اپنی بہن کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں جنگل پہنچ گئے تو بھائی کی محبت بہن کے لیے جوش میں آ گئی۔ بہن سے کہا کہ "میں تمہیں یہیں چھوڑے دیتا ہوں آگے تمہاری قسمت کہ تمہیں درندے کھا جائیں یا تم بچ کر کہیں اور نکل جاؤ۔” دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو پڑے۔ شہزادی آنسو بہاتے ہوئے گھنے جنگل کی طرف جانے لگی۔ آخری بار پلٹ کر بھائی کو دیکھا اور جنگل میں گھس گئی۔

    اس کے بعد شہزادے نے ادھر ادھر سے ڈھونڈ کر ایک ہرن کا شکار کیا۔ اس کی گردن کا خون نکالا اور آنکھیں نکال کر لے جا کر بادشاہ کو دکھا دیں۔ بادشاہ نے آئینہ منگوایا۔ اس میں ان آنکھوں کو اور اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ آنکھوں کا رنگ ایک ہی ہے تب اسے تسلی ہوئی۔

    ملکہ نے کسی طور شہزادے کو بلا کر اس سے بیٹی کے متعلق پوچھا۔ شہزادے نے ماں کے سامنے سارا احوال گوش گزار کر دیا۔ ملکہ نے منہ آسمان کی طرف کر کے ہاتھ اوپر اٹھائے اور بیٹی کے لیے دعا مانگی کہ اے اللہ! تو میری بیٹی کی حفاظت کر۔ اسے اپنے امان میں رکھ اور اسے کسی اچھی جگہ پار لگا۔”

    اب آگے شہزادی کا قصہ سنیے۔ شہزادی جنگل میں رہنے لگی اور بھوک مٹانے کے لیے جنگلی پھل، پھول، بوٹے کھا کر اپنا وقت گزارنے لگی۔ اس دوران بہت سا وقت گزر گیا۔ ایک دن کسی اور ملک کا بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسی جنگل سے گزر رہا تھا۔ شہزادی کے کانوں میں کسی گھوڑے کے قدموں کی آہٹ پڑی تو جلدی جلدی کسی گھنے درخت پہ چڑھ گئی، اتفاقاً بادشاہ بھی آ کے اسی درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ درخت گھنا اور سایہ دار تھا۔ ایک طرف اپنے گھوڑے کو باندھا، اور درخت کے سائے میں کپڑا بچھا کر تھوڑی دیر سستانے کی خاطر لیٹ گیا۔ چونکہ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور وہ اپنے خیالوں میں گم تھا، اس کی نظر درخت کے گھنے پتّوں میں پوشیدہ کسی ہیئت پر پڑی۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے کہنے لگا، تم جو بھی ہو، اپنے آپ کو ظاہر کرو۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”

    اس پر شہزادی نے کہا۔” اے مسافر ! میں ایک لاچار لڑکی ہوں۔ اور کسی نہ کسی طریقے سے درخت سے اتر گئی۔ جب بادشاہ نے شہزادی کو دیکھا تو پورے دل و جان سے فریفتہ ہو گیا۔ جھٹ شہزادی سے کہا۔” میں ایک بادشاہ ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو تو میں تم سے شادی کر کے تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔” اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شہزادی نے ہامی بھری۔ وہ بھی ایک ایسا بندہ چاہتی تھی جو اسے عزّت دے۔ بادشاہ خوشی خوشی شہزادی کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا۔ اپنے ملک پہنچتے ہی بادشاہ پہلے وزیر کے گھر جا پہنچا اور اس سے کہا۔ "ایسا سمجھو کہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ میں کل رشتہ مانگنے آؤں گا۔ اور شادی بیاہ رچا کر اپنی امانت یہاں سے اپنے محل لے جاؤں گا۔” وزیر نے آداب بجا کر کہا۔” بادشاہ سلامت، آپ پوری طرح سے تسلی رکھیے۔ یہ آپ کی امانت ہے اور میری بیٹی۔ جب آپ کا دل چاہے، اسے بیاہ کر لے جائیے۔” بادشاہ شہزادی کو وزیر کے گھر چھوڑ آیا۔

    اگلے دن وکیل، قاضی بادشاہ کا رشتہ لے کر وزیر کے گھر آ پہنچے۔ وزیر نے رشتہ کے لیے ہاں کر دی۔ جلد ہی شہزادی کو بیاہ کر اپنے محل لایا۔ بادشاہ اور شہزادی شادی سے بہت خوش تھے۔

    اس دوران بادشاہ نے شہزادی سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔ چند سال بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ بہت خوش تھا۔ اس نے شہزادی سے جو اب ملکہ بن گئی تھی، پوچھا۔” اب جب کہ اللہ نے ہم دونوں کو اولادِ نرینہ سے نوازا ہے، تم اب ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہو، مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کسی کی بیٹی ہو؟ اور کس جگہ سے تمہارا تعلق ہے؟”
    شہزادی نے کسی طریقے سے بادشاہ کو ٹال دیا۔ ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ بادشاہ کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ نے وہی سوال دہرایا۔ شہزادی نے پھر بادشاہ کو ٹال دیا۔ آخرکار ان کے ہاں جب تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر بادشاہ نے شہزادی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا۔ آخر کار شہزادی مان گئی اور بادشاہ کو حقیقت بتائی۔

    بادشاہ نے جب شہزادی کی دکھ بھری کہانی سنی تو اس سے کہا۔” اپنے آپ کو تیار کرو۔ میں تمہیں تمہارے ماں باپ کے گھر لے جاؤں گا۔” شہزادی نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے میرے ظالم باپ کے سامنے مت لے جاؤ۔ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ لیکن بادشاہ نہیں مانا۔ آخر کار وہ مجبور ہو کر اپنے ماں باپ کے گھر جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

    بادشاہ نے پورے جاہ و جلال اور طمطراق سے ایک بڑے لشکر کے ساتھ شہزادی اور تینوں بیٹوں کو بھیجا لیکن خود سلطنت کے ضروری کاموں کی وجہ سے رک گیا۔ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کو شہزادی کے ساتھ کر دیا اور کہا کہ میں پہلی، دوسری یا تیسری منزل پر تم لوگوں سے آ کر ملوں گا۔ سب روانہ ہو گئے۔ شام ہوتے ہوتے انہوں نے پہلے منزل پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کیا۔ تب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کا خیمہ بھی اس کے خیمے کے بالکل قریب کھڑا کیا گیا۔ شہزادی نے وزیر کو بلا کر اس سے پوچھا۔” اے وزیر! تم جانتے ہو کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوں۔ تم اپنا خیمہ یہاں سے دور لگوا دو۔” وزیر نے کہا۔” ملکہ صاحبہ! بادشاہ نے ہمیں آپ کی حفاظت کی خاطر آپ کے ساتھ روانہ کیا ہے۔ اگر آپ یا آپ کے بچّوں کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔” وزیر نہیں مانا۔ خیمے لگ گئے۔ رات ہو گئی تھی۔ تھکے ہارے لوگ سو گئے۔ وزیر کے دل میں کھوٹ تھا۔ آدھی رات کو شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ شہزادی آہٹ پا کر جاگ گئی۔ دیکھا کہ وزیر ہے تو اسے للکار کر باہر نکلنے کو کہا۔ لیکن وزیر آگے بڑھنے لگا۔ جب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کسی صورت نہیں مان رہا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے کو وزیر کے سامنے کیا کہ تمہیں اس بچّے کے سر کی قسم اس طرح مت کرو۔ لیکن بد کردار وزیر آگے بڑھا اور تلوار نکال کر ایک ہی وار سے بچّے کا سر دھڑ سے الگ کردیا۔ شہزادی نے وزیر سے کہا۔”میں ایک پاک عورت ہوں۔ اس وقت بھی وضو میں ہوں۔ مجھے اتنا موقع دو کہ میں اپنے وضو کو توڑ کر آ جاتی ہوں تب تمہارا جو دل چاہے، وہ کرو۔”

    وزیر نے کہا۔” جاؤ اور جلدی آ جانا۔” شہزادی بھاگتی ہوئی وہاں سے دور ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وزیر کچھ دیر بعد اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ لیکن ناکام رہا۔ صبح ہونے والی تھی، تب وہ دوبارہ شہزادی کے خیمے میں داخل ہوا۔ بچّے کی لاش کہیں دور لے جاکر دفن کی اور اپنے خیمے میں گھس گیا۔

    صبح بہت دیر کے بعد شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ اپنے مقتول بیٹے کو نہ پا کر رونے لگی۔ لشکر دوبارہ روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے شام تک دوسری منزل پر جا پہنچے۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کرنا شروع کیا۔ شہزادی نے دیکھا کہ وزیر نے آج اپنا خیمہ بہت دور کھڑا کروایا ہے۔ لیکن خدام وکیل کا خیمہ قریب کھڑا کررہے ہیں۔ شہزادی نے وکیل کو بلوایا اور کہا تم اپنا خیمہ ہٹوا دو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔” وکیل نے کہا۔” اے ملکہ! بادشاہ سلامت نے مجھے آپ کے ساز و سامان کی حفاظت کے لیے آپ کے ہمراہ کیا ہے اور تاکید کی ہے۔ اگر آپ کو یا آپ کے سامان کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔” شہزادی چپ ہوگئی۔ مگر وزیر کے ہاتھوں مار کھا چکی تھی۔ اس لیے رات کو پورے ہوش و حواس میں تھی۔ آدھی رات کو اس نے قدموں کی آہٹ سنی۔ جب دیکھا کہ آنے والا وکیل ہے تو اسے للکارا۔ لیکن بدکردار وکیل کہاں ٹلنے والا تھا۔ شہزادی نے اپنے دوسرے بیٹے کو اس کے سامنے کیا اور اسے دہائی دی۔ لیکن وکیل نے بھی تلوار سے وار کر کے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا۔ شہزادی نے بیچارگی سے کہا۔” میں پاک و صاف اور وضو سے ہوں۔ مجھے کچھ وقت دے تاکہ میں خود کو ناپاک کر دوں۔ اس کے بعد جو تمہارا دل چاہے، کرو۔” وکیل نے اسے جانے دیا ۔ شہزادی خیمے سے نکل گئی۔

    آج بھی شہزادی میں جتنی ہمّت تھی، نکل بھاگی۔ اور آخر کار تھک ہار کر ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وکیل نے اسے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ وکیل جلدی جلدی واپس آیا۔ مرے ہوئے بچّے کو اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں جا کر سوتا بن گیا۔

    جب صبح پو پھٹی تو شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ دیکھا کہ دوسرے بیٹے کی لاش بھی نہیں ہے۔ سمجھ گئی کہ بدکردار وکیل نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بیچاری کس پر اعتبار کرتی، اس لیے چپ رہی۔ لشکر پھر شہزادی کے باپ بادشاہ کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج شہزادی اکیلی ایک بیٹے کے ساتھ غموں کا انبار لیے اونٹ پر سوار تھی۔ جب تیسرے منزل پر پڑاؤ ڈالا گیا تو آج وزیر اور وکیل نے اپنے خیمے شہزادی کے خیمہ سے بہت دور کھڑا کروا دیے تھے۔ وہ شرمندہ شرمندہ شہزادی کے سامنے آ ہی نہیں رہے تھے۔ حیران و پریشان تھے کہ جب بادشاہ کو پتا چلے گا تو اسے کیا جواب دیں گے؟

    آج جیسے ہی شہزادی کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا تو دیکھا کہ قاضی اپنا خیمہ اس کے خیمے کے سامنے ایستادہ کر وا رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھایا لیکن قاضی بد ذات بھی ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا۔ جب رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تو دیکھا کہ قاضی بھی خراماں خراماں خیمے میں داخل ہو رہا ہے۔ شہزادی نے دیکھا کہ یہ بھی نہیں ٹلنے والا تو اس خیال سے کہ شاید اس کے دل میں رحم پیدا ہو جائے، اپنے تیسرے سب سے چھوٹے بیٹے کو اس کے سامنے کر دیا۔ اس کی دہائی دی۔ قاضی بدبخت کو بھی رحم نہ آیا اور معصوم بچّے کا سر قلم کر دیا۔ شہزادی نے اسے بھی یہی کہا کہ میں وضو سے ہوں۔ مجھے موقع دو تاکہ اپنا وضو توڑ دوں۔ قاضی نے بھی اسے جانے دیا۔

    جیسے ہی شہزادی باہر نکلی، جدھر منہ اٹھا، بھاگ نکلی۔ بھاگتے بھاگتے اچانک اس نے دیکھا کہ آگے ایک بہت بڑا دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے دل میں دھواں بھر گیا، اپنے معصوم بچّے یاد آئے۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر بادشاہ نے پوچھا کہ بچے کدھر ہیں تو میں اسے کیا جواب دوں گی؟ اس سے بہتر ہے کہ خود کو اس دریا کے حوالے کر دوں۔ یہ فیصلہ کر کے اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ پُر شور دریا اسے چکر دے کر کہیں کا کہیں پہنچا کے دوسری طرف نکال لے گیا۔ دوسری طرف چھ فقیر جو کہ بھائی تھے، اپنے کپڑے دریا پر دھونے کے لائے تھے۔ جب دیکھا کہ دریا میں کوئی عورت بہتی ہوئی آ رہی ہے تو پکڑ کر باہر نکال لائے۔

    اب شہزادی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ فقیروں میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ یہ میری ہے۔ آخر صلاح یہی ٹھہری کہ اسے باپ کے پاس لے جائیں گے۔ وہ جس کا کہے، یہ عورت اسی کی ہے۔ وہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ ان کا باپ ایک زیرک اور عقل مند انسان تھا۔ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ کسی شہنشاہ گھرانے کی عورت ہے۔ میرا کوئی بھی بیٹا اس کے لائق نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا۔” اے میرے بیٹے! تم چھ بھائی ہو۔ تمہاری کوئی بہن نہیں ہے۔ اسے اپنی بہن بنا لو۔ تم چھ بھائی اور ساتویں تمہاری یہ بہن۔ اس کی خوب نگہداشت کرو۔ اس کی برکت سے تم سب سرخرو رہو گے۔” باپ کے فیصلے سے فقیر بہت خوش ہو گئے اور اپنے سے بڑھ کر شہزادی کا خیال رکھنے لگے۔

    جب بادشاہ چوتھے دن آ کر لشکر سے ملا تو دیکھا وزیر، وکیل اور قاضی اس سے کترا رہے تھے۔ اس کے سامنے شرمسار سے تھے۔ پوچھا میرے بیوی بچے کہاں ہیں؟ تینوں نے یک زبان ہو کر کہا۔” ملکہ تو ایک ڈائن تھی۔ تینوں بچّوں کو کھا کر خود بھاگ نکلی۔”

    بادشاہ حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ کیا بات ہو گئی۔ وہ ان تینوں پر شک میں پڑ گیا۔ لیکن کہا کہ بعد میں دیکھتے ہیں۔ ابھی جس طرف جا رہے ہیں، وہاں جا کے فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ بادشاہ اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ جا کر اپنے ظالم سسر بادشاہ کو دیکھوں اور اس سے پوچھوں کہ اسے کیوں بیٹیوں سے اتنی نفرت ہے؟ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس کی بیٹی ڈائن بن گئی اور اپنے بچّوں تک کو کھا گئی۔ چلتے چلتے انہوں نے ایک بڑے دریا کو پل کے ذریعے پار کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

    ادھر شہزادی فقیروں کی بہن بن کر رہنے لگی۔ اسے ادھر ادھر سے سن گن مل گئی اور سمجھ گئی کہ اپنے باپ بادشاہ کے ملک میں پہنچ گئی ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو قصہ سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے فقیر بھائیوں سے کہا کہ جا کر بادشاہ کو بتا دو کہ ہماری بہن ایک قصہ گو ہے۔ کیا وہ اسے شاہی قصہ گو کے طور پر ملازمت دے گا یا نہیں۔ فقیروں نے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر کے اس کو یہ گوش گزار دیا کہ ہماری ایک بہن ہے جو بہت اچھی قصہ گو ہے۔ اگر اسے پسند ہو تو اسے قصہ سنوانے کے لیے لے کر دربار میں‌ آئیں۔ بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی اور کہا کہ اگر اس کے قصے پسند آئے تو وہ اسے شاہی قصہ گو رکھ دیں گے۔

    شام کو فقیر شہزادی کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ شہزادی نقاب میں تھی اور درمیان میں بھی پردہ حائل تھا۔ اس نے بادشاہ کے لیے ایک قصہ سنایا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا۔ اس نے خوش ہو کر فقیروں کو بہت سا انعام و اکرام دیا۔ فقیر انعام و اکرام لے کر بہن کے ہمراہ واپس گھر آئے۔ وہ پہلے ہی بھیک مانگنے سے بیزار تھے اس لیے بہت خوش تھے۔

    شہزادی ہر رات آ کر بادشاہ کو ایک نیا قصہ سناتی۔ بادشاہ سے داد اور انعام و اکرام پا کر واپس اپنے فقیر بھائیوں کے ساتھ گھر لوٹ آتی۔ فقیروں کی جان بھی بھیک مانگنے سے چھوٹ گئی۔ایک رات جب وہ آئی تو دیکھا کہ آج تو اس کا شوہر بادشاہ، وزیر، وکیل، قاضی وغیرہ بھی اس کے باپ بادشاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ شہزادی نے سوچا آج تو قصہ مزہ کرے گا۔

    شہزادی آج بھی ہر روز کی طرح نقاب میں تھی۔ پردے کے دوسری طرف آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ بادشاہ سے کہا۔ "بادشاہ سلامت! آج میں ایک بہت خاص داستان سنانے والی ہوں۔ اگر کسی کو کوئی حاجت درپیش ہے تو ابھی سے اٹھ کر رفع حاجت پوری کرے۔ داستان کے درمیان کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اٹھ گیا تو میں داستان سنانا بند کروں گی اور آئندہ کے لیے بھی کوئی قصہ سنانے نہیں آؤں گی۔” بادشاہ نے سب کو حکم دیا۔ سب نے اقرار کیا کہ وہ داستان کے درمیان نہیں اٹھیں گے۔

    شہزادی نے داستان سنانا شروع کی۔” ایک ظالم بادشاہ تھا۔ اسے اپنے گھر میں بیٹی کی پیدائش پسند نہیں تھی۔ جب اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو اپنے بیوی کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ اس کے بیوی نے دائی کے ذریعے اپنی بیٹی کو بچا کر اس کی پرورش کی۔ ایک دن اس لڑکی پر بادشاہ کی نظر پڑی جو اب جوان ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے اس بوڑھی دائی کے گھر اپنے لیے رشتہ بھیجا لیکن دائی نے تسلیم نہیں کیا۔ بادشاہ نے اس پر ظلم و ستم ڈھائے تب دائی نے بتایا کہ وہ لڑکی اسی بادشاہ کی بیٹی ہے۔”

    بادشاہ حیران ہوا کہ یہ تو میرا قصہ ہے جو یہ خاتون سنا رہی ہے۔ بادشاہ نے بہت سے ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک کر کہا کہ دیکھنا داستان کو بند مت کرنا۔ شہزادی نے ہیرے جواہرات فقیروں کی طرف پھینک دیے جو اسے پا کر بہت خوش ہوئے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی کہ کس طرح‌ بادشاہ نے بیٹی کو اپنے بیٹے کے حوالے کر کے کہا کہ اسے جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور آگے کیا کچھ ہوا۔

    بادشاہ عمرِ رفتہ کے باعث اب بوڑھا ہو گیا تھا۔ اسے پہلے ہی سے اپنے بیٹی کے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم سے بہت پشیمانی اور پچھتاوا تھا۔ جب اسے داستان کے ذریعے اپنی بیٹی کے متعلق پتا چلا اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ شہزادے کو بھی احساس ہوا کہ یہ تو میری بہن کا قصہ ہے۔ اس نے بے چین ہو کر کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کے طرف پھینک دیے اور کہا کہ داستان جاری رکھنا، روکنا مت۔ فقیر بھائیوں کے تو اتنے انعامات دیکھ کر باچھیں کِھل اٹھیں۔ شہزادی نے داستان جاری رکھی اور بتایا کہ "ایک دن ایک بادشاہ کا گزر اسی جنگل سے ہوا۔ لڑکی کو دیکھا اور اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جا کر اس سے بیاہ رچایا۔”
    شہزادی کا شوہر بادشاہ جو پہلے بڑی دل چسپی اور انہماک سے داستان سن رہا تھا، چونک پڑا کہ یہ تو میرا اور میری بیوی کا قصہ لگ رہا ہے۔ اس نے بھی بہت سے ہیرے جواہرات نکال کر شہزادی کی طرف پھینک دیے اور کہا کہ دیکھنا داستان آخر تک سنانا۔ مجھے اس داستان کو پورا سننا ہے۔ فقیر بھائیوں کے تو پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی۔ "بادشاہ نے اس لڑکی سے شادی کی۔ اس سے اسے تین بیٹے ہوئے۔ ایک دن بادشاہ نے اسے ان کے بیٹوں کے ساتھ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کے ہمراہ اس کے سسرال روانہ کیا۔” اب وزیر، وکیل اور قاضی کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف سراسیمگی سے دیکھنے لگے کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے۔ بادشاہ نے کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک دیے۔ فقیر بھائیوں کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہ رہا تھا۔

    "پہلی منزل پر بادشاہ کا وزیر ناپاک ارادے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بدی کے لیے تنگ کیا۔ اس کے بڑے بیٹے کا سر تن سے جدا کیا۔ لیکن لڑکی کسی طرح اپنی عزّت بچا کے بھاگ نکلی۔” وزیر منمنایا۔” مجھے بہت زور کا پیشاب لگا ہے۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” بادشاہ نے اسے ڈانٹ دیا۔” خاموشی سے بیٹھ بد ذات کہیں کے۔ اسی وقت تمہیں کیوں پیشاب آ رہا ہے؟” وزیر چپ کر کے بیٹھ گیا۔

    "دوسری منزل پر اسی طرح وکیل نے بھی اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لڑکی کو بدی کے لیے تنگ کیا اور اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کے لیے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کرنے سے بھی باز نہ آیا۔ پاک دامن لڑکی نے یہاں بھی اپنی عزّت بچائی اور بھاگ کر کہیں چھپ گئی۔” اب وکیل ہکلایا۔” بادشاہ سلامت! مجھے زور کی حاجت پیش آئی ہے۔ بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔” بادشاہ نے وکیل پر آنکھیں نکالیں۔” بس کر بد ذات، اور خاموشی سے بیٹھ۔ جب حقیقت ظاہر ہو رہی ہے تو تم لوگوں کو حاجت پیش آ رہی ہے۔” وکیل بھی خاموشی سے بیٹھ گیا۔

    "تیسری منزل پر قاضی بھی اللہ رسول کو بھول کر بدی کے لیے لڑکی کو تنگ کرنے لگا اور اس ظالم نے اس کے تیسرے بیٹے کا سر قلم کردیا۔ لڑکی بھاگ کر ایک بڑے دریا میں کود گئی۔” یہ سن کر قاضی نے بھی کوئی بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن بادشاہ نے اسے بھی ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔

    "دریا نے لڑکی کو کہیں دور لے جا کر دوسری طرف پھینک دیا جہاں اسے چھ فقیروں نے دیکھا اور اسے دریا سے نکالا۔” اب فقیر بھائیوں کی گھگھی بندھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ ہماری بہن کا قصہ ہے۔ وہ بھی چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ "فقیر اس لڑکی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ اس کے عقل مند باپ نے اس لڑکی کو ان چھ بھائیوں کی بہن بنا دیا۔”

    اس کے باپ بادشاہ کے آنکھوں سے جھل جھل آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں بادشاہوں نے ہیرے جواہرات کے ڈھیر ان کے سامنے لگا دیے کہ خدارا داستان کو جاری رکھو۔

    "لڑکی کو کسی طرح پتا چلا کہ یہ اس کے باپ بادشاہ کا ملک ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو داستان سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کے ذریعے بادشاہ کو کہلوا بھیجا کہ اگر اسے منظور ہو تو آ کے اسے داستان سنائے۔” یہاں پہنچ کر اس کے باپ بادشاہ کا دل چُور چُور ہو گیا۔ وہ ایک فریاد مار کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ شہزادی نے بھی اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دی تو اس کے شوہر بادشاہ نے بھی شہزادی کو پہچان لیا۔ باپ، بیٹی کو اور شوہر بیوی کو پا کر بے طرح خوش ہو گئے۔

    دونوں نے وزیر، وکیل اور قاضی کو پکڑا۔ ان سے کہا کہ بول کیسی سزا چاہیے۔ چار چڑی چابک یا چار بٹور (یہ براہوی زبان میں دو سخت سزاؤں کے نام ہیں) انہوں نے کہا کہ چار بٹور۔ بادشاہ نے بارہ گھوڑے منگوائے۔ ہر ایک کے ہاتھ پیر چار گھوڑوں سے چار اطراف میں باندھ کر انہیں چار مخالف سمت میں دوڑا دیا۔ جن سے ان کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ اس طرح ان بد ذاتوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور شہزادی کا باپ اپنی بیٹی اور اس کا شوہر اپنی بیوی کو پا کر بہت خوش ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (براہوی لوک داستان، محقق: سوسن براہوی)

  • رڈولف عجیب و غریب ریاست میں

    رڈولف عجیب و غریب ریاست میں

    میرا نام رڈولف ہے۔ میں "اسکندریہ” نامی ایک جہاز راں کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ بحری سفر کے دوران میرے ساتھ کئی حیرت انگیز، دل چسپ اور خوف ناک واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں۔

    ہمارا جہاز اسکندریہ- 680، 24 دسمبر کو "فیڈریہ” نامی بندر گاہ سے مال لے کر "کوسٹریہ” کے لیے روانہ ہوا۔ یہ 28 دن کا سفر تھا۔ چوتھے دن کا ذکر ہے۔ شام کا وقت تھا۔ میں جہاز کی اوپری منزل پر کھڑا غروب ِآفتاب کے منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک ایمرجنسی گھنٹی کی زور دار آواز گونج اٹھی۔

    میں بھی دوسرے ساتھیوں کی طرح کپتان کے کیبن کی طرف لپکا۔ وہاں معلوم ہوا کہ آدھے گھنٹے بعد ایک بہت خوف ناک طوفان آنے والا ہے۔ ہم سب طوفان سے بچاؤ کی تدبیریں کرنے میں مصروف ہو گئے، لیکن طوفان نے ہمیں اس کی مہلت نہیں دی۔ ہمارا جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ سب کچھ بہہ گیا۔ سب اپنی اپنی جانیں بچانے میں مصروف تھے۔ میں بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ پھر کیا ہوا مجھے یاد نہیں۔

    جب میری آنکھ کھلی تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میں لکڑی کے ایک کمرے میں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک بطخوں کے ڈربے میں ہوں۔ اچانک کمرے کا دروازہ خلا۔ ایک بڑی سی بطخ اندر داخل ہوئی۔ میں نے کبھی اتنی بڑی بطخ نہیں دیکھی تھی۔ وہ تقریباً چار ساڑھے چار فٹ لمبی تھی۔ میں اسے دیکھ کر سہم سا گیا۔ بطخ نے میری طرف دیکھ کر کہا، "ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ تم اس وقت ریاستِ بطخیہ میں ہو۔ میرا نام سڈرا ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟”

    "رڈ۔۔۔۔۔ رڈولف” میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔ "اچھا! کچھ دیر میں بادشاہ کے سپاہی آنے والے ہیں۔ وہ تمہیں بادشاہ کے پاس لے جائیں گے۔” سڈرا نے کہا۔

    سس۔۔۔۔۔ سس۔۔۔۔۔ سپاہی! کک۔۔ کیوں؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔” میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

    سڈرا نے کہا، "اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں تو تم مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دو۔ تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ تم سے پہلے بھی یہاں تمھارے جیسے انسان آئے تھے۔ وہ ہمیں قید کر کے لے جانا چاہتے تھے، لیکن ہماری فوج نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا تم بھی اسی مقصد کے لیے آئے ہو؟”

    "جی نہیں! میں تو یہاں لایا گیا ہوں۔” میں نے جواب دیا۔ "وہ تو ٹھیک ہے۔ میں تمہیں خود کنارے سے اٹھا کر لائی ہوں، لیکن تم ہماری ریاست میں کیوں داخل ہوئے؟” سڈرا نے پوچھا۔

    پھر میں نے اس کو اپنی پوری کہانی سچ سچ بتا دی۔ "ہوں میں تو تمہاری بات کا یقین کر لیتی ہوں، لیکن بادشاہ سلامت کو یقین دلانا بہت مشکل ہے۔ میں تمہیں اپنی مدد کا یقین۔۔۔۔۔”

    ابھی سڈرا نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ سڈرا نے دروازہ کھولا۔ دروازے پر نیزوں اور ڈھالوں سے لیس چار سپاہی کھڑے تھے۔ ان کے ہتھیار دیکھ کر مجھے اپنا پستول یاد آ گیا، جو ہر وقت میرے پاس رہتا تھا۔ میں نے فوراً اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ قمیض کے اندر پیٹی موجود تھی۔ اس کی موجودگی سے میں کچھ مطمئن ہو گیا۔ میں سپاہیوں اور سڈرا کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے سیکڑوں سوالات کیے۔ میں نے سب کے جوابات سچ سچ دیے۔ سڈرا نے میری بہت حمایت کی۔

    آخر بادشاہ نے کہا، "ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم ان انسانوں میں سے نہیں ہو اور آزاد ہونے کے بعد تم اپنی فوج کے ساتھ ہم پر حملہ نہیں کرو گے؟”

    اس پر سڈرا نے کہا، "بادشاہ سلامت! میں ایک تجویز پیش کرتی ہوں، اگر آپ کو پسند آ جائے۔ تجویز یہ ہے کہ اس شخص کو ہم ایک دو مہینے اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس سے کوئی کام لیتے ہیں۔ اگر آپ اس سے مطمئن ہو جائیں تو اسے آزاد کر دیا جائے۔”

    دربار میں موجود تمام بطخوں نے اس کی تائید کی۔ بادشاہ کو بھی یہ تجویز پسند آئی۔ بادشاہ نے کہا، "اے شخص! تمہیں ہمارے محل میں مالی کا کام کرنا ہوگا۔ اگر تم ہمارا اعتماد حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے تو تمہیں باعزت بری کر دیا جائے گا اور اگر تم نے کوئی غلط قسم کی حرکت کی اور فرار ہونے کی کوشش کی تو تمہیں سزائے موت دے دی جائے گی۔”

    میں نے سر جھکا کر اقرار کیا کہ میں کوئی گڑبڑ نہیں کروں گا۔ میرےذمّے ایک بہت بڑا شاہی باغ تھا۔ اس باغ کے ایک کونے میں میرے رہنے کے لیے لکڑی کی بنی ہوئی ایک کوٹھری تھی۔ میں نے اپنے پلنگ کے نیچے اپنا پستول چھپا کر رکھ دیا۔ مجھے باغ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن سڈرا روز مجھ سے ملنے آتی تھی۔

    مجھے اپنا کام کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، کیوں کہ مجھے بچپن ہی سے باغبانی کا شوق تھا۔ میں نے تھوڑے ہی عرصے میں باغ کو ہرا بھرا اور بہت خوب صورت بنا دیا۔ بادشاہ اور اس کے رشتے دار سب مجھ سے خوش تھے۔ میں روز خوبصورت گل دستہ بنا کر ملکہ کو بھیجتا تھا۔ اس طرح میں بادشاہ کو کسی حد تک اعتماد میں لینے میں کام یاب ہو گیا۔

    ایک دن کا ذکر ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ ہر طرف سے شور و غل، چیخنے چلّانے اور دوڑنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے دوڑتی ہوئی ایک بطخ سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو اس نے مجھے بتایا، "مینڈکوں نے ریاست پر حملہ کر دیا ہے۔ ان کی فوج ہماری فوج سے کہیں زیادہ ہے۔”

    میرے ذہن میں فوراً پستول کا خیال آیا۔ میں جلدی سے اپنے کمرے میں گیا اور پستول اٹھا کر باہر کی طرف دوڑا۔ باہر میری ملاقات بادشاہ سے ہو گئی۔ وہ بھی بہت پریشان تھا۔ میں نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے فوراً میدانِ جنگ کی طرف بھیج دے۔ بادشاہ نے دو سپاہیوں کے ساتھ مجھے میدانِ جنگ کی طرف روانہ کر دیا۔
    پہلے تو اتنے بڑے مینڈکوں کو دیکھ کر میں بھی خوف زدہ ہو گیا، لیکن پھر میں نے ایک سپاہی سے ڈھال لی، پستول ہاتھ میں پکڑا اور مینڈکوں کے سامنے جا پہنچا۔ مینڈک بھی مجھے دیکھ کر ڈر گئے۔ پھر وہ پیچھے ہٹ کر میرے اوپر نیزے پھینکنے لگے۔ میں نے ڈھال کی مدد سے اپنے آپ کو نیزوں سے بچایا اور پھر ہوائی فائر کر دیا۔ فائر کی آواز ان لوگوں کے لیے بالکل نئی تھی۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میں نے دو فائر کر کے دو مینڈکوں کو مار ڈالا۔ یہ سب دیکھ کر مینڈک بہت خوف زدہ ہوئے اور واپس بھاگ نکلے۔ اسی بھاگ دوڑ میں کئی مینڈک کچلے گئے۔ کئی سمندر میں ڈوب گئے اور کئی گرفتار ہو گئے۔ اس طرح بطخوں کو کام یابی ہوئی۔ اب اس پستول کی وجہ سے بادشاہ بھی مجھ سے ڈر رہا تھا، لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ میں ان کا دوست ہوں۔ بادشاہ نے میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور اپنے رویّے کی معافی مانگی اور میری آزادی کا بھی اعلان کر دیا۔

    بادشاہ نے مجھے چند دن شاہی مہمان بن کر رہنے کی دعوت دی۔ میں چند روز شاہی محل میں رہا۔ پھر میں نے بادشاہ سے ایک کشتی مانگی جس کے ذریعے سے میں اپنے وطن واپس پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے کبھی کشتی نہیں بنائی تھی۔ لہٰذا وہ کشتی مجھے خود ہی بنانی پڑی۔ جب کشتی بن کر تیار ہو گئی تو میں نے جانے کی اجازت چاہی۔ اس رات بادشاہ نے میرے اعزاز میں ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا۔ صبح مجھے رخصت کرنے کے لیے بہت ساری بطخیں کنارے پر موجود تھیں۔ ان میں بادشاہ، اس کے ساتھی اور سڈرا شامل تھی۔ ان سب نے مجھے پھول پیش کیے۔ میں نے جانے سے پہلے بادشاہ کو اپنا پستول تحفے میں دے دیا۔ اسے پا کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔

    مجھے وہاں سے چلے ہوئے چار روز گزر چکے تھے اور میں کسی منزل تک پہنچنے میں کام یاب نہیں ہو سکا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بطخوں نے میری کشتی میں کھانے پینے کا کافی سامان بھر دیا تھا۔ سورج ڈھلنے والا تھا۔ مجھے اندھیرے میں دور ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ میں جلدی جلدی کشتی کھیتا ہوا روشنی کی طرف بڑھا۔ قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک چھوٹا مکان تھا۔ میں نے کشتی کو کنارے سے لگایا اور اتر کر مکان کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی والا تھا کہ ایک خوفناک بڑھیا نے خود ہی دروازہ کھولا اور بولی، "آؤ بیٹا آؤ۔۔۔۔۔ راستہ بھول گئے ہو نا؟”
    میں بڑھیا کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔

    "یہ مکان میں نے تم جیسے لوگوں کے لیے بنایا ہے جو اپنا راستہ بھول جاتے ہیں۔ آؤ اندر آؤ۔” بڑھیا نے کہا۔

    "جی ہاں! مجھے رات بسر کرنے کی اجازت دے دیں، صبح ہوتے ہی چلا جاؤں گا۔”

    پھر میں اندر داخل ہو گیا۔ بڑھیا نے مجھ سے کھانے کو پوچھا اور پھر مجھے ایک کمرے میں لے گئی۔ وہاں اس نے مجھ سے کہا، "تم اس کمرے میں سو جاؤ، صبح میں تمہیں راستہ بتا دوں گی۔ تم چلے جانا۔”

    یہ کہہ کر بڑھیا کمرے سے باہر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک پرانا پلنگ تھا۔ ایک میز تھی جس پر لالٹین، پھل اور ایک بڑا چھرا پڑے ہوئے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں بڑھیا پراسرار لگ رہی تھی۔ مجھے کمرے میں خون کی بُو بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے میز سے چھرا اٹھایا اور اپنے سرہانے رکھ کر لیٹ گیا۔ مجھے ڈر کے مارے نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔ تقریباً آدھی رات کے وقت کمرے کا دروازہ کھلا۔ میں خاموشی سے لیٹا رہا اور دیکھتا رہا۔ بڑھیا کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ میرے سرہانے تک آئی۔ میں پہلے ہی چھرا اپنے ہاتھ میں تھام چکا تھا۔ میں ادھ کھلی آنکھوں سے بڑھیا کو دیکھا۔ وہ بڑے خوف ناک انداز میں مسکرا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اس کے ناخن بہت بڑے بڑے تھے۔ اس نے اپنے ناخنوں سے میری گردن دبانی چاہی۔ جیسے ہی وہ میرے اوپر جھکی میں نے پھرتی سے چھرے سے اس کی گردن پر وار کر دیا۔ اس کی گردن کٹ کر دور جا گری۔ یکایک بڑھیا کا جسم دھویں میں تبدیل و کر غائب ہو گیا۔

    میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ صبح ہونے میں ابھی کافی دیر تھی۔ میں نے سوچا کہ اس مکان کا جائزہ لوں۔ میز پر لالٹین اٹھا کر میں کمرے سے نکلا اور اندر والے کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہاں انسانی کھوپڑیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں نے کمرے کی ایک ایک چیز کو اچھی طرح دیکھا اور پھر کمرے سے باہر نکلا۔ برآمدے میں ایک اور دروازہ تھا۔ میں نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ راستہ تہ خانے کی طرف جاتا ہے۔ میں نیچے پہنچا۔ ایک کونے میں ایک بہت بڑا صندوق پڑا ہوا تھا۔ میں نے قریب جا کر اسے کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ پورا صندوق سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا تھا۔

    میں نے ایک بہت بڑی تھیلی سکّوں سے بھری اور اوپر آ گیا۔ اب صبح ہونے والی تھی۔ سورج کی ہلکی ہلکی روشنی چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ میں نے سکّوں بھرا تھیلا اٹھایا اور کشتی میں سوار ہو گیا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سارا مکان دھویں میں تبدیل ہو رہا تھا۔ میں نے جلدی سے سکّوں بھری تھیلی کو کھولا۔ تھیلی کھولتے ہی سکّے بھی دھواں بننے لگے۔ میں نے فوراً تھیلی کا منہ بند کر دیا۔ اب اس میں تھوڑے سے سکّے باقی تھے۔ میں نے اسے اچھی طرح باندھ کر ایک کونے میں رکھ دیا اور کشتی کھینے لگا۔

    دوپہر کا وقت تھا کہ اچانک میری نظر دور سے آتے ہوئے ایک جہاز پر پڑی۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا اور زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔ جہاز والوں نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ میری طرف آنے لگے۔ قریب پہنچ کر میں یہ دیکھ کر اور بھی خوش ہوا کہ یہ "اسکندریہ” کمپنی کا جہاز تھا۔ جہاز پر سوار میرے کئی دوست مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے جہاز کے حادثے میں تمام لوگ مارے گئے تھے اور وہ سب میری موت کا بھی یقین کر چکے تھے۔ میں نے انہیں اپنا پورا قصّہ سنایا، لیکن انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر میں نے انہیں ثبوت کے طور پر بچے ہوئے سکّے دکھائے تو انہیں یقین آیا۔

    دو دن بعد ہم فیڈریہ پہنچے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میں پورے ایک مہینے تک غائب رہا۔ اس واقعے کی وجہ سے مجھے کافی شہرت و ترقّی ملی اور ان سکّوں کی مدد سے میری مالی حالت بہتر ہو گئی۔

    (غیر ملکی ادب سے اردو میں ترجمہ کی گئی یہ کہانی 1990ء میں‌ بچّوں کے مقبول ماہ نامہ ہمدرد نونہال میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • رانی کی الجھن

    رانی کی الجھن

    رانی نواب صاحب کی لاڈلی بیٹی تھی۔ ویسے تو سبھی لوگ رانی کو چاہتے تھے لیکن رانی کو انسانوں سے زیادہ جانوروں سے لگاؤ تھا۔ جانوروں میں بھی اسے جنگلی جانوروں سے بڑی دل چسپی تھی۔

    اس کی حویلی سے لگ کر ایک ندی بہتی تھی۔ ندی کے اس پار جنگل تھا جس میں بہت سے جانور رہتے تھے۔ رانی گھر والوں سے نظر بچا کر اکثر اس جنگل میں چلی جاتی۔ وہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی اور ان کی آواز کی نقل کرتی۔

    ایک دن اس نے ندی کے پُل پر سے کیا دیکھا کہ کچھ جنگلی کتّے ہیں جنہوں نے ایک چیل کو پکڑ رکھا ہے اور آپس میں چھینا جھپٹی مچا رکھی ہے۔ اس کھینچا تانی میں چیل ان کے چنگل سے چھوٹ گئی۔ وہ اوپر اڑی اور چاہتی تھی کہ ندی پار کر کے بستی کی طرف نکل جائے۔ لیکن وہ اڑتے اڑتے پل پر آکر گری۔ رانی چیل کی طرف دوڑ پڑی اور اسے گود میں اٹھا لیا۔ رانی نے چیل کے پروں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ رانی نے دیکھا کہ اس کے پَر کچھ نئی قسم کے رنگ برنگے اور پٹے دار ہیں۔ اس نے سوچا، جنگل کی چیل شاید ایسی ہوتی ہوگی، بڑی خوب صورت ہے، میں اسے پال لوں گی۔

    پھر رانی نے اپنے خاندانی حکیم کے ذریعے چیل کے زخموں کا علاج کروایا۔ علاج میں کافی دن نکل گئے۔ رانی اور چیل اتنے دنوں میں ایک دوسرے سے خوب ہل مل گئے۔ رانی نے چیل کا نام چبری رکھ دیا تھا۔ چبری اڑ تو پاتی نہیں تھی، ہاں رانی جب اسے چبری کہہ کر پکارتی تو چیل پیروں سے چل کر رانی کے پاس چلی آتی اور آکر اس کی گود میں بیٹھ جاتی۔ رانی چبری کو اپنی سہیلیوں سے بڑھ کر سمجھنے لگی تھی۔

    کچھ دنوں میں چبری پوری طرح ٹھیک ہوگئی۔ اب رانی چاہتی تھی کہ چبری اڑنے بھی لگ جائے۔ وہ اسے ہش ہش کر کے دوڑاتی، جواب میں چبری اپنے پروں کو پھڑ پھڑا کر اڑتی لیکن تھوڑی دور جاکر پھر زمین پر اتر آتی۔

    ایک دن کی بات ہے۔ رانی کے بڑے بھائی کی شادی کا موقع تھا نواب صاحب کے باغیچے میں مہمانوں کا ہجوم تھا۔ بہت سے لوگ چیل اور رانی کا کھیل دیکھ رہے تھے۔ رانی چیل کو دوڑا رہی تھی۔ چیل کبھی اڑ کر دور چلی جاتی اور کبھی واپس آکر رانی کے کندھے پر بیٹھ جاتی، پھر ایک مرتبہ جب رانی نے دوڑ کر چبری کو ہشکارا تو وہ اڑ کر باغیچے کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ رانی کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ وہ اچھل اچھل کر تالیاں بجانے لگی۔ رانی کے ساتھ مہمان بچوں نے بھی خوشی سے تالیاں پیٹیں۔

    چبری نے درخت پر سے آسمان کی طرف نظر دوڑائی۔ دیکھا کہ کوّے اور بگلے اس کے سر پر سے اڑ کر چلے جا رہے ہیں۔ چبری نے اپنے پر پھیلائے وہ بھی اڑی اور کوؤں کے پیچھے پیچھے اڑ کر چلی۔ اڑتے اڑتے وہ دور نکل گئی اور نظر سے اوجھل ہوگئی۔

    رانی کو امید تھی کہ چبری واپس پلٹ کر آئے گی لیکن وہ پھر واپس نہیں آئی۔ اس بات کا رانی کے دل کو بڑا دھچکا لگا۔ وہ اس رات سوئی نہیں اور روتی رہی۔ اس دن اسے اپنی نئی بھابھی کے آنے کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنا چبری کے چلے جانے کا غم تھا۔

    جنگلی جانوروں پر سے رانی کا بھروسہ اٹھ گیا۔ اب یا تو وہ اپنے باڑے کے جانوروں کے ساتھ کھیلتی یا اپنی سہیلیوں کے ساتھ۔ مگر جب بھی وہ آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتی، اسے چبری کی یاد آجاتی اور وہ کچھ دیر کے لیے اداس ہو جاتی۔

    ایک مرتبہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ جنگل میں پہنچی۔ صندلیں رنگ کا ایک خرگوش اس کے اگے سے پھدکتا ہوا بھاگا۔ دونوں سہیلیاں اس خرگوش کے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایسا خوش رنگ اور خوب صورت خرگوش رانی کے باڑے میں نہ تھا۔ دونوں سہیلیاں خرگوش پکڑنے کی دھن میں دوڑتی رہیں لیکن انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ایک کالی ناگن ان دونوں کے پیچھے دوڑتی ہوئی چلی آرہی ہے۔

    دوڑتے دوڑتے رانی نے دیکھا کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا بجلی کی سی رفتار سے ان دونوں کی طرف اتر رہا ہے۔ رانی نے غور کیا کہ یہ تو اپنی چبری ہے جو شاید اسی کے پاس آرہی ہے۔ رانی الجھن میں پڑ گئی کہ وہ ہنسے یا روئے، چبری رانی کے پیچھے کی طرف آکر اتری۔ قریب تھا کہ ناگن ان دونوں میں سے کسی کو ڈس لیتی۔ چبری نے ایک جھپٹا مارا اور اس ناگن کو اپنے پنجوں میں اٹھا لیا۔ اپنے پیچھے ناگن کو دیکھ کر دونوں سہیلیاں سکتے میں آگئی تھیں۔ چبری ناگن کو اٹھا کر اڑتی ہوئی آگے چلی۔ وہ ناگن کو لے کر دور ہوتی گئی اس کے ساتھ ہی چبری پر رانی کا غصہ کافور ہوتا گیا۔ جانوروں کے بارے میں اس کی الجھن دور ہوگئی اب وہ ہر حال میں خوش رہنے لگی تھی۔

    (مصنّف: م ن انصاری)

  • شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا جو بہت بوڑھا ہوگیا تھا۔

    وہ بہت کم شکار کے لیے اپنے ٹھکانے سے نکل پاتا تھا۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو وہ چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہو گیا۔ اس حالت میں بھوک سے جب برا حال ہوا تو اس نے اپنے غار کے آگے سے گزرنے والی ایک لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔” فکر نہ کرو، میں پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوبست کردوں گی۔”

    یہ کہہ کر لومڑی چلی گئی اور اپنے وعدے کے مطابق اس نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ لومڑی تو ایک چالاک جانور مشہور ہی ہے۔ وہ جنگل کے کسی بھی جانور سے خوش کہا‌ں تھی۔ اسے سبھی برے لگتے تھے۔ اس لیے اس نے ایسا کیا تھا۔

    یہ خبر سن کر جنگل کے جانور اس بوڑھے اور معذور کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا تھا، لیکن لومڑی کے کہنے پر روزانہ ایک ایک کرکے عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کو کسی طرح شکار کرکے اپنی بھوک مٹانے لگا تھا۔

    ایک دن لومڑی نے خود بھی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے غار کے دہانے پر کھڑے ہو کر اسے آواز دی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔” باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔”

    لومڑی جو بہت چالاک تھی، اس سے نے جواب دیا۔” نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔”

    اس حکایت سے سبق یہ ملا کہ انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • دو چوہے…

    دو چوہے…

    دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔

    ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’بھائی! ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔‘‘

    شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کر لی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔ گاؤں کا چوہا بہت عزّت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کھانے میں مٹر، گوشت کے ٹکڑے، آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے، وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آہستہ چباتا رہا۔

    جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا، ’’ارے یار جانی! اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں؟‘‘

    گاؤں کے چوہے نے کہا، ’’کہو بھائی! ایسی کیا بات ہے؟‘‘

    شہری چوہے نے کہا، ’’تم ایسے خراب اور گندے بِل میں کیوں رہتے ہو؟ اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔ چاروں طرف پہاڑ، ندی اور نالے ہیں۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ سرکار دربار ہیں۔ صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔ کھانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔ آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔ جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے۔ بس اب تم میرے ساتھ چلو۔ دونو ں پاس رہیں گے۔ باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔‘‘

    گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔ شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بِل تھا۔ حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر، تاجر، زمین دار، وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔

    وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔ شہری چوہے نے اپنے دوست، گاؤں کے چوہے کو ریشمی ایرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا، ‘’واہ یار! کیا مزیدار کھانے ہیں۔ ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔”

    ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکایک کسی نے دروازہ کھولا۔ دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں دو کتّے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔ یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔

    ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’اے بھائی! اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔ میں تو باز آیا۔ ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں، اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔‘‘

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، از قلم جمیل جالبی)

  • ایک اُسترے کی کہانی

    ایک اُسترے کی کہانی

    اگر میں چاہوں تو اس کہانی کو ایک ہزار سال پہلے سے شروع کر دوں۔ چاہوں تو آج سے۔ اس لیے کہ یہ کہانی ہر زمانے میں سچّی ہے۔ میں نے یہ کہانی اپنی نانی سے سنی تھی جنہوں نے اپنی نانی جان سے سنی ہو گی اور انہوں نے اپنی نانی جان سے۔

    یہ اتنی پرانی کہانی اتنی نئی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک سچائی بیان کی گئی ہے اور سچائی پرانی ہوتی ہے نہ نئی۔ سچائی صرف سچائی ہوتی ہے۔

    وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، اس اُسترے کی طرح ہیں جس کی یہ کہانی ہے۔

    یہ استرا ایک گاؤں کے نائی کا تھا۔ وہ اس چمکتے ہوئے تیز استرے سے کسانوں کی حجامت بناتا تھا۔ کسانوں کے چہرے پر نہ کریمیں لگتی ہیں اور نہ لوشن۔ اس لیے ان کے بال موٹے موٹے اور سخت ہوتے ہیں۔ گاؤں کے نائی حجامت بنانے سے پہلے بالوں پر نہ صابن ملتے ہیں نہ برش چلاتے ہیں۔ وہ تو چٹکیوں کو پانی سے بھگو کر لوگوں کے چہروں کی چٹکیاں لیتے ہیں جن کی انہیں حجامت بنانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس استرے کو دِن بھر بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ اس کی دھار کو لوہے کے تار ایسے بالوں میں سے گزرنا پڑتا تھا اور وہ تھک جاتی تھی۔ مگر نائی بڑا سیانا اور بہت نرم دل تھا۔ وہ ایک پتھر یا لکڑی کے ایک ٹکڑے کو پانی سے بھگو کر اُسترے کو دائیں بائیں تھپکیاں دیتا تھا۔ یوں استرے کی چمک بھی اٹھتی تھی اور تازہ دم بھی ہو جاتی تھی۔ پھر جب نائی دن بھر کا کام ختم کر لیتا تھا تو اُسترے کو بند کر دیتا تھا۔ استرا اپنے دستے کے بستر پر سو جاتا تھا اور رات بھر کے آرام کے بعد صبح کو پھر محنت مزدوری شروع کر دیتا تھا۔

    ایک دن گاؤں کا یہ نائی اپنی کسوت لیے کہیں جا رہا تھا۔ کسوت پھٹی ہوئی تھی۔ اُسترے نے جو باہر کھسکنے کا راستہ دیکھا تو اپنے دستے سے الگ ہونے کے لیے خوب زور لگایا۔ آخر وہ اپنی کوشش میں کام یاب ہو گیا۔ دستہ کسوت میں رہ گیا اور استرے کا پھل نرم نرم گھاس پر آ گرا۔

    نائی بے چارے کو کیا پتا تھا کہ اس کا پیارا استرا اس سے بے وفائی کر گیا ہے۔ وہ اپنی راہ چلتا رہا۔ ایک جگہ اسے ایک کسان کی حجامت بنانا تھی۔ اس نے کسوت کو کھول کر استرا نکالنا چاہا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دستہ پڑا ہے اور اُسترا غائب ہے۔ اس کا کُل سرمایہ یہی ایک استرا تھا۔ وہ دن بھر اس راستے پر بھٹکتا رہا جہاں سے گزرا تھا۔ ایک بار اس کا پاؤں بھاگتے ہوئے استرے کے بالکل پاس پڑا۔ ڈر کے مارے استرے کی جان ہی تو نکل گئی۔ مگر پھر نائی آگے بڑھ گیا اور استرا دھوپ میں ہنسنے لگا۔
    خوب ہنس لینے کے بعد اُسترے نے اپنے جسم کو دیکھا تو یہ معلوم کر کے اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس کے انگ انگ سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ سورج آسمان پر چمک رہا تھا اور اُسترے کی چمکتی دمکتی سطح پر اس کا عکس پڑ رہا تھا۔ اپنی دھار دیکھ کر تو استرے کو ایسا لگا جیسے تارا ٹوٹ رہا ہے۔ اپنے جسم پر جہاں بھی اس کی نظر پڑتی تھی کئی سورج جگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔

    اس نے سوچا۔ ’’ارے! میں تو بڑا ہی خوب صورت ہوں کہ مجھے دیکھ کر خود سورج کی آنکھیں چندھیا رہی ہوں گی۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ نائی کی قید سے بھاگ آیا ہوں۔ وہاں مجھے اتنی محنت کرنی پڑتی تھی کہ دانتوں پسینا آ جاتا تھا۔ مجھے اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ میں اپنے آپ کو دیکھ سکوں۔ یہاں میں کتنے آرام میں ہوں۔ نہ کام ہے نہ کاج۔ مزے سے لمبا لمبا لیٹا ہوا ہوں۔ سورج میرے جسم میں اپنی صورت دیکھ رہا ہے۔ ہوا میری سطح پر کھیل رہی ہے۔ آس پاس کی گھاس جھک جھک کر مجھ میں جھانکتی ہے۔ ابھی ابھی کتنی پیاری سی تتلی مجھے آئینہ سمجھ کر پَر سنوارتی رہی۔ کوئی اُٹھانے والا نہ بند کرنے والا۔ میری تو دُعا ہے کہ قیامت تک یہیں پڑا رہوں۔ آرام ملا تو خوب موٹا تازہ ہو جاؤں گا اور بڑے مزے آئیں گے۔

    یہ کہنے کے بعد اُسترے نے سوچا کہ اگر میں یہاں پڑا رہا تو ہو سکتا ہے کبھی کوئی آدمی میری چمک دمک کو دیکھ لے، مجھے اٹھا کر گھر لے جائے اور وہاں مجھے قید کر دے۔ اس لیے وہ وہاں سے کھسکا۔ ایک بِل میں گھس گیا اور برسوں کی تھکن دور کرنے کے لیے سو گیا۔

    استرا چھے سات مہینے تک سوتا رہا۔ بارشیں ہوئیں۔ پانی اس کے بل میں گھس آیا مگر جب بھی اس کی آنکھ نہ کھلی۔ کئی کیڑے مکوڑے اس پر سے گزرے مگر اسے کھجلی تک محسوس نہ ہوئی۔ اس نے کروٹ تک نہ بدلی۔ جس رُخ سویا تھا اسی رُخ اٹھا۔ سوچا، چلو ذرا سی ہوا خوری کر لیں۔ آ کر پھر سو رہیں گے۔ آخر ہمیں اور کون سا کام کرنا ہے!

    وہ بل میں سے کودا اور باہر آ گیا۔ سورج اسی طرح چمک رہا تھا۔ ہوا اسی طرح چل رہی تھی۔ گھاس کی پتّیاں اسی طرح ہل رہی تھیں۔ اُسترے نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے ہونٹ جڑ گئے تھے۔ اس نے گھبرا کر اپنے جسم پر نظر دوڑائی تو وہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ سَر سے لے کر پاؤں تک اس پر زنگ چڑھ چکا تھا۔ سورج کی کرنیں اس سے دور رہتیں۔ اُس کی تمام چمک ماند پڑ چُکی تھی۔

    اس نے سوچا کہ گھاس مجھ سے ڈر ڈر کر دوسری طرف دیکھنے لگتی ہے۔ سورج کی کرن مجھے چھوتے ہی بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ کاش! میرا نائی ایک بار ادھر سے گزرے اور میں اچھل کر اس کی کسوت میں جا بیٹھوں اور خوب محنت کروں اور میری چمک دمک مجھے واپس مل جائے، لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ استرا وہیں پڑا گلتا سڑتا رہا۔

    وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں؛ محنت میں عظمت ہے۔

    (اس نصیحت آموز کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، صحافی، شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی ہیں)

  • بالائی والا فقیر

    بالائی والا فقیر

    یہ ایک بامقصد اور جوہرِ حسنِ تعمیر سے آراستہ کہانی ہے جس کے مصنّف ہندوستان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور نقاد علی عباس حسینی ہیں۔ بچّوں کی تربیت، ان کی راہ نمائی اور اصلاحِ معاشرہ میں ادب اور اہلِ قلم کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کہانی بھی کسی معاشرے میں بہتری کے لیے ننھے ذہنوں کو راستہ دکھانے کی غرض سے لکھی گئی ہے۔

    اللہ رکھے ہمارا لکھنؤ بھی عجیب شہر ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ، انوکھی باتیں، یہاں کے ہر باشندے کی الگ ریت ہے۔

    امیروں رئیسوں کو تو جانے دیجیے روپے کی گرمی ہر جگہ ہر دل و دماغ میں نیا ابال پیدا کرتی ہے۔ اس لیے دولت والوں کو تو چھوڑیے یہاں کے غریبوں بلکہ بھکاریوں کے بھی نئے نئے انداز ہوتے ہیں۔ جھونپڑیوں میں رہنے والے اگر محلوں کے خواب دیکھیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں، مگر اس شہر کے فٹ پاتھ پر پڑے رہنے والے فقیر بھی شیر مال اور پلاؤ سے کم درجے کی چیز کھانے کے لائق نہیں سمجھتے۔ جھوٹ نہیں کہتا، ایک سچی کہانی سنو! ایسی جو کان کی سنی نہیں آنکھ کی دیکھی ہے۔

    لکھنؤ سٹی اسٹیشن اور جوبلی کالج کے درمیان جو ریل کا پل ہے وہ نہ جانے کب سے بھکاریوں کا اڈہ چلا آتا تھا۔ کئی لنگڑے، لولے، اندھے بھکاری اور بھکارنیں، گودڑوں میں لپٹے مٹی اور گندگی میں اٹے ہوئے اس پل کے نیچے بیٹھے اور لیٹے رہتے ہیں۔ ان میں کئی کوڑھی بھی ہوتے ہیں اور چاہے کوئی پیسہ دے یا نہ دے، یہ ہر آنے جانے والے کو اپنا مرض بانٹتے رہے ہیں۔ انگریزی راج کے زمانے میں اس پل کے نیچے کی آبادی اسی قسم کی تھی۔ آج ہمارے راج میں بھی وہاں کا یہی حال ہے۔ گوروں کی حکومت میں وہ انسان نہ تھے، ہندوستانی تھے۔ اپنوں کے دور دورہ میں وہ نہ انسان ہیں نہ ہندوستانی۔

    لو میں تو کہانی کہتے کہتے تمہیں سبق دینے لگا۔ اپنی حکومت کی کمیوں اور برائیاں بیان کرنے لگا مگر کیا کروں، سچی بات منہ سے نکل ہی پڑتی ہے اور پھر تمہیں دھیان کیوں نہ دلاؤں؟ تم ہی تو بڑے ہو کر ایک دن ملک کی حکومت کی باگ سنبھالو گے!

    ہاں، تو خیر سنو۔ اسی ریل کے پل نیچے ایک فقیر رہتا تھا۔ وہ ٹاٹ پر بیٹھا گدڑی سے ٹانگیں چھپائے رکھتا تھا۔ اس کی ٹانگیں ہیں یا نہیں، کم سے کم طالب علموں میں سے کسی نے اسے کھڑایا چلتے پھرتے نہیں دیکھا تھا۔ جب دیکھا بیٹھے ہی دیکھا، مگر کمر کے اوپر کا دھڑ خاصا تھا۔ بڑی ی توند تھی۔ سینہ پر موٹے موٹے ڈھیروں بال تھے۔ گول چہرے پر بڑی سی گول کھچڑی داڑھی تھی، چپٹی موٹی ناک اور آنکھوں کے دھندلے دیدوں کے کونوں میں کیچڑ بھری ہوئی۔ سر کے بال بڑے بڑے الجھے ہوئے، مٹی میں اٹے ہوئے۔ صبح سے شام تک بس ایک رٹ لگاتا تھا۔ ’’ایک پیسہ بابا! ایک پیسہ۔‘‘

    آواز میں گرج سی تھی۔ بالکل جیسی کہ بڑے طبل پر ہاتھ سے چوٹ دینے سے نکلتی ہے مگر اس فقیر کا کمال یہ تھا کہ وہ اس موٹی بھدی، گرج دار آواز کو بالکل روہانسی بنا لیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جو ایک پیسہ مانگتا ہے، تو اس کا یہ سوال نہ پورا کیا گیا تو وہ مر ہی جائے گا۔ بس اس ایک پیسہ کے نہ ہونے سے اس کا دم ہی نکلنے والا ہے۔ وہ بھوک سے پھڑک کر جان دینے ہی والا ہے اور ہم ایک پیسہ دے کر اسے زندہ کر لیں گے۔ نہیں تو اس کے مرنے کا گناہ اور پاپ اپنے سر ڈھوئیں گے۔

    اس لیے ادھر سے کوئی آنے جانے والا ایسا نہ تھا جو اسے ایک پیسہ دینے پر مجبور نہ ہو۔ کالج میں پڑھنے والے لڑکے، ان کو پڑھانے والے ماسٹر، جن کا بھی پل کے نیچے سے راستہ تھا، اس کے لیے گھر سے چلتے وقت پیسہ، دو پیسہ جیب میں ڈال کر نکلتے تھے۔ یکّے، ٹانگے، رکشہ والے بھی کسی نہ کسی پھیرے میں اس فقیر کو پیسہ، دو پیسہ بھینٹ ضرور چڑھاتے تھے اور اس کا حال یہ تھا کہ آپ پیسہ دیجیے یا نہ دیجیے اس کی یہ رٹ ’’ایک پیسہ بابا‘‘ ایک پیسہ بابا‘‘ برابر جاری رہتی تھی۔ اس طرح جیسے کہ اس کی سانس اسی آواز کے ساتھ ساتھ آتی جاتی ہے۔ اس طرح کہ دَم توڑتا مریض ہر سانس میں کراہتا ہے۔

    بہت سے لڑکے، بلکہ ماسٹر تک اسے پہونچا ہوا سمجھتے تھے۔ بڑا ہی اللہ والا، لوگ کہتے وہ دنیا کو چھوڑ چکا ہے۔ اسی کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو بھیک اس لیے مانگتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے کو دوسروں کی نظروں میں گراتا ہے۔ اس طرح اپنے کو گرانے سے اس کی روح اور بھی پاک صاف ہوتی ہے۔ ان ہی میں سے حمید بھی تھا۔ وہ بڑا سیدھا سادہ لڑکا تھا۔ جوبلی کی دسویں درجہ میں پڑھتا تھا اور اس کا راستہ اس پل کے نیچے سے تھا۔ وہ برابر ماں سے ضد کر کے فقیر بابا کے لیے پیسہ ہی نہیں طرح طرح کی چیزیں لاتا تھا۔ کبھی مٹھائی، کبھی پھل، کبھی شیرمالیں، کبھی مٹی کی پلیٹ میں پلاؤ، کبھی زردہ۔ آہستہ آہستہ یہ بات درجہ میں پھوٹ نکلی۔ سبھوں نے مسکوٹ کی۔ یہ فقیر حمید کو خوب بے وقوف بنا رہا ہے۔ کچھ علاج ہونا چاہیے۔ طے ہوا کہ اسکول کے آس پاس رہنے والے طلباء ہر وقت اس پر نگاہ رکھیں۔ کب سوتا ہے، کب جاگتا ہے، کب ہاتھ منہ دھوتا ہے۔ کب کھاتا پیتا ہے۔ جتنے پیسے روز کماتا ہے انہیں کیا کرتا ہے۔ اب کیا تھا دو ہی چار دن میں رپورٹیں آنے لگیں، پھر کمیٹی، جلسے میں طے ہوا اس رنگے سیار کا بھانڈا پھوڑنا ہمارا فرض ہے۔

    دوسرے ہی دن حمید سے کہا گیا تمہارا فقیر بابا جھوٹا، مکار بنا ہوا ہے۔ وہ بہت خفا ہوا لڑنے جھگڑنے لگا۔ کہا گیا، ’’اچھا!آج اسکول کے میچ بعد گھر نہ جاؤ، ہمارے ساتھ تماشا دیکھو، آٹھ دس لڑکے ایک ساتھ اس شام کو ریل کے پل کے پاس منڈراتے رہے۔ مغرب کی اذان کے ساتھ فقیر کی رٹ میں کمی ہوئی۔ بس جب کوئی بھولا بھٹکا پل کے نیچے سے گزرتا تو وہ اپنی ہانک لگا دیتا۔ جیسے جیسے اندھیرا بڑھا، آواز لگانے کا فاصلہ بھی بڑھتا رہا۔

    کوئی ساڑھے سات بجے تھے کہ بالائی والا آواز دیتا ہوا پل کے نیچے پہنچا۔ اس نے چار بڑی بڑی شیرمالیں اور پاؤ بھر بالائی فقیر بابا کو دی اور اس سے اس کے دام ہی نہیں لیے بلکہ دن کے جمع کیے ہوئے سارے پیسے نوٹوں میں بدل دیے۔ جب وہ پل سے نکلا تو لڑکوں نے گھیرا۔

    کہا یہ روز اتنی ہی شیرمالیں اور بالائی لیتا ہے۔ حمید نے پوچھا، اس نے جواب دیا ’’میں یہ کچھ نہیں جانتا میاں، صبح دو شیر مالیں اور پاؤ بھر بالائی۔‘‘

    حمید غصہ میں بھرا ہوا فقیر کے پاس پہونچا۔ اس نے پوچھا شرم نہیں آتی تمہیں بابا؟ بھیک مانگتے ہو اور شیر مالیں اور بالائی اڑاتے ہو؟

    فقیر نے جھڑک کر کہا ’’جاؤ جاؤ، میرے دھندے پر منہ نہ آؤ، پاؤ سوا پاؤ بالائی روزانہ نہ کھاؤں تو یہ دن بھر ’’ایک پیسہ! ایک پیسہ!‘‘ کی ضربیں کیسے لگاؤں؟

    حمید اس وقت تو پاؤں پٹختا گھر چلا گیا مگر اس دن سے اس نے اپنے ساتھیوں کا جتھا بنا کر ہر ایک آنے جانے والے سے کہنا شروع کردیا۔

    ’’اس فقیر کو کچھ نہ دینا، یہ دوسرے بھکاریوں کا پیٹ کاٹتا ہے اور روز سوا پاؤ بالائی کھاتا ہے!‘‘

    ادھر چھوٹے بچوں نے نعرہ لگانا شروع کردیا ’’بالائی کھانے والا فقیر! توند والا فقیر!‘‘ لطف یہ کہ جتنا ہی فقیر بابا چڑھتا، خفا ہوتا اتنا ہی لڑکوں کو نعرہ لگانے میں مزہ آتا اور اتنا ہی اس کے بھکاری ساتھی کھی کھی کر کے ہنستے۔ خیرات کے نالے کا منہ اب ان کی طرف مڑ گیا تھا جو بادل صرف فقیر بابا کی گود میں برسا کرتے تھے وہ اب دوسروں کی جھولیوں میں جل تھل بنانے لگے تھے۔

    چند ہی دنوں میں فقیر بابا کا دھندہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ اس نے ریل کا پل چھوڑ کر شاہ مینا کے مزار کے پاس جا کر فٹ پاتھ پر بسیرا کر لیا مگر وہاں درخت کی شاخوں کے سوا دھوپ، اوس یا پانی سے بچانے والی کوئی جھونپڑی نہ تھی۔ ایک رات دسمبر کی سردیوں میں بوندا باندی کے ساتھ جب اولے بھی پڑے تو فقیر بابا کو کہیں پناہ نہ ملی۔ درخت کی شاخیں اسے ٹھنڈی گولیوں کی بوچھار سے نہ بچا سکیں۔ صبح کو وہ اپنی گدڑی میں لپٹا ہوا پایا گیا۔

    پولیس نے جب اس کے چیتھڑوں کی تلاشی لی تو ان میں آٹھ سو کے بڑے نوٹ اور پچاس روپوں کے چھوٹے نوٹ اور پیسے سے بندھے ملے۔ کون کہے کہ اگر ان روپوں سے کوئی جھونپڑی بنا کر وہ اس میں رہتا تو اس کی جان بچ جاتی۔

    جس نے بھی اس کے موت کی ساتھ ساتھ اس کے پاس سے ملنے والی رقم کی بات سنی، اس کی حالت پر افسوس کیا۔

    مگر حمید بار بار یہی سوچتا رہا’’آخر حکومت ہر شہر میں ایسے گھر کیوں نہیں بنا سکتی جس میں سارے بھکاری رکھے جاسکیں اور جنتا ان کے دھوکوں اور ان کی بیماریوں سے محفوظ رہے؟‘‘

    بچّو! تمہیں، جو اس ملک کے ہونے والے حاکم ہو اس سوال کا جواب دینا ہے۔

  • کچھوا اور مینڈک

    کچھوا اور مینڈک

    ایک تھا کچھوا۔ اکثر سمندر سے نکل کر ریت پر بیٹھ جاتا اور سوچنے لگتا دنیا بھر کی باتیں۔

    سمندر کے تمام کچھوے اسے اپنا گرو مانتے تھے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ اچھے اور مناسب مشورے دیا کرتا تھا۔ مثلاً ریت پر انڈے دینے کے لیے کون سی جگہ مناسب ہو گی، عموماً دشمن انڈوں کو توڑ دیا کرتے تھے اس لیے اس بزرگ کچھوے کی رائے لینا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ گرو نے انڈے دینے کے لیے جو جگہ بتائی وہاں کوئی دشمن کبھی نہیں پہنچ سکا۔ پھر گرو جی سمندر کی لہروں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ سمندری طوفان کب آئے گا، سمندر کی لہریں کتنی تیز ہو سکتی ہیں۔ تمام کچھوے اپنے بال بچّوں کو لے کر ساحل کے قریب کس مقام پر رہیں۔ طوفان کتنی دیر رہے گا، یہ سمجھو بچّو ذہین، دُور اندیش فلسفی قسم کا کچھوا تھا وہ۔

    ایک صبح سمندر سے نکل کر وہ کچھوا ریت پر بیٹھا سوچ رہا تھا، ہم تو سمندر اور ریت پر رہتے ہیں، پاس ہی جو بستی ہے وہاں لوگ کس طرح رہتے ہوں گے۔سوچتے سوچتے اس کی خواہش ہوئی کہ وہ بستی کی طرف جائے اور اپنی آنکھوں سے وہاں کا حال دیکھے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ کچھوے کی چال کیسی ہوتی ہے، بہت ہی آہستہ آہستہ چلتا ہے نا وہ۔ اپنی خاص چال سے آہستہ آہستہ چلا اور پہنچ گیا بستی میں۔

    بستی میں پہنچتے ہی اُسے ایک آواز سنائی دی، ’’چھپ چھپ’’ پھر یہ آواز بند ہو گئی، تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز سنائی دی ’’چھپ چھپ’’ پھر یہ آواز رُک گئی، کچھوے کو یقین آگیا کہ یہ پانی کی آواز ہے، کہیں قریب ہی پانی میں کوئی چیز اُچھل رہی ہے۔ پھر آواز آئی ’’چھپ چھپ’’ کچھوے کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ پانی کی آواز بہت پاس سے آ رہی ہے اور اس میں کوئی جانور اُچھل رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی خاص چال سے اُس جانب چلا کہ جہاں سے آواز آ رہی تھی اور پہنچ گیا ایک کنویں کے پاس۔ اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں پانی نظر آیا۔ پانی میں آواز ایک مینڈک کی اُچھل کود سے ہو رہی تھی۔ مینڈک پھر اُچھلا اور آواز آئی ’’چھپ چھپ‘‘ کچھوے نے پوچھا، ’’بھائی مینڈک بڑے خوش نظر آ رہے ہو بات کیا ہے، خوب اچھل رہے ہو کنویں کے پانی میں؟‘‘

    مینڈک نے جواب دیا ’’میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں اور کنویں کے پانی میں اسی طرح اُچھلتا رہتا ہوں۔‘‘کچھوے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’کنواں گہرا تو ہے لیکن تم اندر نہیں جا سکتے۔‘‘

    بھلا میں اندر کیوں جاؤں، گہرائی میں تو میرا دَم گھٹ جائے گا۔‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔’’

    تم صرف اس کی سطح ہی پر اُچھل کود کر سکتے ہو۔ ‘‘کچھوے نے کہا۔’’

    ’’ہاں اس پانی میں مجھے اسی طرح چھپاک چھپاک کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔’’

    ’’اور پانی تو اینٹوں کی دیواروں سے گھِرا ہوا ہے، تم اینٹوں کے درمیان بند ہو۔‘‘

    ’’کمال کرتے ہو بھائی اگر کنویں کے گرد دیوار نہ ہو تو پانی بہہ جائے گا اور میں بھی بہہ جاؤں گا پھر کنواں کہاں رہے گا۔‘‘ مینڈک نے کہا۔

    وہی تو میں سوچ رہا ہوں۔ ’’فلسفی کچھوے نے کچھ کہنا چاہا لیکن خاموش رہا۔’’

    ’’کیا سوچ رہے ہو بھائی، اس کنویں میں تم سما نہیں سکتے یہی سوچ رہے ہو نا۔ میری قسمت پر رشک آ رہا ہے تمھیں۔‘‘ مینڈک نے طنزیہ انداز میں کہا۔

    ’’نہیں مینڈک جی، میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تم کنویں کے مینڈک ہو اور ہمیشہ کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے، تم نے سمندر نہیں دیکھا، سمندر دیکھو گے نا تو علم ہو گا کہ پانی کیا ہوتا ہے۔‘‘ کچھوے نے اپنی بات سمجھائی۔

    ’’سمندر کیا ہوتا ہے؟’’ مینڈک نے پوچھا۔

    ’’سمندر پانی کا ایک بہت بڑا، بہت ہی بڑا اور بہت ہی بڑا کنواں ہوتا ہے جو دیواروں کے درمیان نہیں ہوتا، اس کے گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی اینٹوں پتھروں کی کوئی دیوار نہیں ہوتی، جہاں تک دیکھو گے نا پانی ہی پانی نظر آئے گا۔ سمندر نے ساری دنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ہم سمندر ہی میں رہتے ہیں۔ تم وہاں نہیں رہ سکتے۔‘‘

    ’’کیوں نہیں رہ سکتے بھلا؟‘‘ مینڈک نے دریافت کیا۔

    ’’اس لیے کہ تم اس کے بہاؤ میں بہہ جاؤ گے اور تمھاری خبر تاقیامت کسی کو نہیں ملے گی۔ ہاں ایک بات ہو سکتی ہے۔‘‘

    فلسفی کچھوے نے سوچتے ہوئے کہا۔

    ’’کیا؟ کون سی بات؟‘‘ مینڈک نے پوچھا۔

    ’’یہ ہو سکتا ہے کہ تم کنویں سے نکل کر میرے ساتھ سمندر کی طرف چلو، دیکھو سمندر کیا ہے، اس کی لہریں کیسی ہیں، ہم کچھوے وہاں کس طرح رہتے ہیں۔‘‘

    نہیں بھائی، میں تو اسی کنویں میں خوش ہوں۔ میں نہیں جاتا سمندر ومندر دیکھنے، تم ہی کو مبارک ہو سمندر۔‘‘’’

    ’’تو تم زندگی پھر کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے؟‘‘ کچھوے نے غیرت دِلائی۔

    یہی میری تقدیر ہے تو میں کیا کروں؟‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔ اس کے لہجے میں اُداسی تھی۔ ’’

    ’’دیکھو تقدیر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہم اپنی تقدیر خود بناتے ہیں، تم چاہو تو خود اپنی تقدیر بنا سکتے ہو۔‘‘ کچھوے نے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’بھلا کس طرح؟ تم تو کہتے ہو کہ میں سمندر میں جاؤں گا تو پانی میں بہہ جاؤں گا، میرا اَتا پتا بھی نہ ہو گا۔‘‘

    ’’یہ تو سچی بات ہے لیکن تم سمندر کے اندر نہیں، اس کے پاس رہ سکتے ہو جس طرح دوسرے سیکڑوں ہزاروں مینڈک رہتے ہیں۔ وہاں بڑے بڑے مینڈک بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بھی تمھاری طرح، سمندر کے کنارے کئی مقامات پر پانی جمع رہتا ہے کہ جس میں مینڈک رہتے ہیں، وہاں رہ کر سمندر کا نظّارہ بھی کرتے ہیں۔ نکلتے ہوئے خوب صورت سورج کو بھی دیکھتے ہیں، ڈوبتے ہوئے پیارے سورج کا منظر بھی دیکھتے ہیں۔ سورج کی خوب صورت روشنی کو لہروں پر دیکھ کر اُچھلتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں، تم سے زیادہ چھپاک چھپاک چھپ چھپ کرتے ہیں، اُن کے بال بچّے ہیں جو کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ رات میں چاندنی کا مزہ لوٹتے ہیں، اُنھیں ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں ملتی ہیں، وہاں ان کی غذا کا بھی انتظام ہے، تمھیں اس کنویں میں کیا ملتا ہے، باہر نکل کر تو دیکھو دنیا کتنی خوب صورت اور کتنی پیاری ہے، ہواؤں میں درخت کس طرح جھومتے ہیں، سمندر کی لہریں کس طرح اُٹھتی ہیں، کیسی کیسی خوب صورت مچھلیاں ساحل تک آتی ہیں۔ تم تو کنویں کے اندر بند ہو دنیا سے الگ، میرے ساتھ چل کر دیکھ لو اگر سمندری علاقہ تمھیں پسند آئے تو وہیں رہ جانا اور پسند نہ آئے تو واپس آ جانا اور بن جانا کنویں کا مینڈک۔ میں تو تمھیں دنیا اور اس کی خوب صورتی دِکھانا چاہتا ہوں تم نے کنویں کے اندر رہ کر بھلا دیکھا کیا ہے کچھ بھی تو نہیں۔ بولو چلو گے میرے ساتھ سمندر کی طرف یا یہاں رہو گے کنویں کا مینڈک بن کر؟‘‘ کچھوے نے صاف جواب طلب کیا۔

    مینڈک سوچنے لگا یہ تو سچ ہے کہ میں نے دنیا کو نہیں دیکھا ہے، اسی کنویں میں جنم لیا اور اسی میں اُچھل کود کر رہا ہوں، دُنیا اور اس کی خوب صورتی کو دیکھ لینے میں مضائقہ کیا ہے۔

    ’’چلو تمھارے ساتھ چلتا ہوں جگہ پسند نہ آئی تو واپس آ جاؤں گا۔’’ مینڈک نے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے ایسا ہی کرنا لیکن مجھے یقین ہے کہ تمھیں سمندر کی آزاد فضا اور دنیا کی خوب صورتی بہت بھلی لگے گی اور تم وہاں سے واپس آنا پسند نہ کرو گے۔ کنویں کا مینڈک بن کر رہنے والے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ انھیں دنیا کب نظر آتی ہے۔‘‘

    مینڈک باہر آگیا اور دونوں سمندر کی جانب روانہ ہو گئے۔ سمندر کے ساحل پر پہنچتے ہی مینڈک کی باچھیں کھل گئیں۔ بھلا اس نے کب دیکھا تھا یہ ماحول، کب دیکھا تھا سمندر کی لہروں کو، اُبھرتے ہوئے سورج کو، مچھلیوں کے رنگوں کو اور کچھوؤں کی فوج کو اور مینڈکوں کے ہجوم کو۔ کنویں کا مینڈک خوش ہو گیا، پہلی بار اُسے ٹھنڈی ہوا نصیب ہوئی، پہلی بار اُس نے دیکھا دُنیا کتنی بڑی ہے، پہلی بار دیکھا کہ تمام کچھوے، تمام مچھلیاں اور تمام آبی جانور اور تمام چھوٹے بڑے مینڈک کتنے آزاد ہیں۔ سب خوشی سے ناچ رہے ہوں جیسے۔

    یہ سب دیکھ کر مینڈک نے کچھوے سے کہا ’’بھائی تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، کنویں کی زندگی سے باہر نکالا ہے۔ اب تو میں ہرگز ہرگز کنویں کے اندر نہیں جاؤں گا یہیں رہوں گا اپنے نئے دوستوں کے ساتھ۔ دنیا دیکھوں گا، دنیا کی خوب صورتی کا نظّارہ کروں گا، خوب کھاؤں گا، ناچوں گا، گیت گاؤں گا۔‘‘

    کنویں کے مینڈک کے اس فیصلے سے کچھوا بہت خوش ہوا۔ اس نے یہ خوش خبری سب کو سنائی، کچھوؤں کو، مینڈکوں کو، مچھلیوں کو، تمام آبی جانوروں اور آبی پرندوں کو، سب خوشی سے ناچنے لگے گانے لگے۔ کنویں کے مینڈک نے سوچا ’’اگر میں کنویں میں رہتا تو یہ جشن کب دیکھتا‘‘ اس نے ذرا فخر سے سوچا ’’بھلا ایسا استقبال کب کسی مینڈک کا ہوا ہو گا۔‘‘

    گرو کچھوے اور اس مینڈک میں گہری دوستی ہو گئی۔ نئی آزاد خوب صورت سی پیاری دنیا کو پا کر مینڈک بھول گیا کنویں کو۔

    (مصنّف: شکیل الرّحمٰن)

  • مانو کی نو زندگیاں!

    مانو کی نو زندگیاں!

    ایک دفعہ کا ذکر ہے…. اووہو! اب یہ مت کہنا کہ یہ جملہ بہت پرانا ہے۔ پرانی چیزیں تو ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری مانو بلّی کی زندگی۔

    مانو بلّی کی نو زندگیوں کی کہانی بھی بڑی دل چسپ ہے۔ وہ گرمیوں کا ایک دن تھا۔ مانو بلّی کی امی نے اسے نصیحت کی۔ ’’مانو! ہر بلّی کے پاس نو زندگیاں ہوتی ہیں۔ اس لیے تم اپنی ہر زندگی کی قدر کرنا۔‘‘

    ’’نو زندگیاں!‘‘ مانو بلّی نے حیرت سے پوچھا۔ اس نے نو زندگیوں کا تذکرہ پہلی بار سنا تھا۔

    ’’مطلب تم اسے موقع (چانس) کہہ سکتی ہو۔ یعنی تم آٹھ خطرات سے بچ جاؤ گی لیکن نواں خطرہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘

    مانو بلّی کی امی یہ بات کہہ کر چلی گئیں لیکن مانو کو شاید یہ باتیں سمجھ نہیں آئی تھیں۔ امی کے جانے کے بعد مانو نے کمرے میں شور شرابا کر کے برتن الٹ پلٹ دیے۔ برتنوں کی آواز سن کر گھر کا مالک مانو کی خبر لینے اٹھا۔ مانو نے مالک کے تیور دیکھے تو کھلی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ خوش قسمتی سے وہ درخت کی ایک شاخ میں الجھ گئی اور پھر اس نے آرام سے زمین پر قدم رکھ لیے۔ اس کی زندگی بال بال بچ گئی تھی۔ اس کے پاس آٹھ موقع رہ گئے تھے۔

    مانو کی نظر اچانک ایک مینڈک پر پڑی۔ اس نےمینڈک پر چھلاگ لگائی لیکن مینڈک اس سے کہیں زیادہ پھرتیلا نکلا۔ مانو بلّی مینڈک کو کھانے کے چکر میں پانی کے اندر گر کر ڈوبنے لگی۔ اس نے ایک پتھر کا سہارا لے کر اپنی جان بچالی۔ اب اس کے پاس سات موقع رہ گئے تھے۔

    اسے دودھ کا ایک جگ دکھائی دیا۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلّی کو دودھ کتنا پسند ہے۔ دودھ پینے کے چکر میں اس کا سر جگ میں پھنس گیا۔ وہ زور زور سے چلانے لگی۔ اب اس کی زندگی اس کی ایک سہیلی بلّی نے جگ کو توڑ کر بچائی۔ چھ زندگیاں ابھی باقی تھیں لیکن مانو بلّی کو اب بھی احتیاط کا خیال نہ آیا اور اس نے ایک بڑی مچھلی کے سر کو کھانے کی ناکام کوشش کی۔ مچھلی کا کانٹا اس کے حلق میں اس بری طرح پھنسا کہ وہ تڑپنے لگی۔ بڑی مشکل سے قےکر کے اس نے کانٹا تھوک دیا۔ اس کے پاس پانچ مواقع رہ گئے تھے۔

    مانو بلّی احتیاط کے تمام اصولوں کو نظرانداز کر کے درخت کے نیچے اور سڑک کے کنارے بے فکری سے لیٹ گئی۔ اف یہ کیا۔ ڈبل روٹی لے جانے والی ایک گاڑی نے بڑی مشکل سے بریک لگا کر مانو کی جان بچائی۔ اب صرف چار زندگیاں باقی تھیں۔ مانو اب ایک باغ میں گئی جہاں اس نے غصے میں آکر توڑپھوڑ شروع کردی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ باغ کا رکھوالا کتا اسے دیکھ رہا ہے۔ کتّے نے مانو کی طرف چھلانگ لائی۔ مانو بھاگ کر درخت پر چڑھ گئی۔ اب اس کے پاس تین مواقع رہ گئے تھے۔

    درخت پر اس نے پرندوں کے گھونسلوں میں موجود انڈوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ پرندوں نے جب اپنے انڈوں کا یہ حشر دیکھا تو طیش میں آکر مانو پر حملہ کر دیا۔ مانو نے جان بچانے کے لیے نیچے چھلانگ لگا دی۔ اس کی زندگی کے دو مواقع رہ گئے لیکن مانو اس دفعہ ایک کچرا دان میں گر گئی تھی۔ اس نے کچرا دان سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کام یابی نہیں ملی۔ ساری رات اسے آلو کے چھلکے اور خراب انڈوں کی بدبو میں گزارنی پڑی۔

    اب مانو کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    ’’کاش! میں اپنی امی کی بات مان لیتی اور اپنی زندگی اچھے انداز سے گزارتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مانو کے آنسوؤں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو رحم آیا اور اس نے مانو کی جان بچانے کے لیے خاکروب (کچرا اٹھانے والا) کو بھیج دیا۔ خاکروب نے کچرا دان دریا کے کنارے خالی کر دیا۔ سورج کی روشنی جب مانو بلّی کی آنکھوں سے ٹکرائی تو اسے ہوش آیا۔ اب اس کے پاس ایک موقع رہ گیا تھا۔ لیکن اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے نہیں گنوائے گی۔

    (مصنّف: ابنِ بہروز)