Tag: بچوں کی کہانی

  • باغ میں‌ تتلی

    باغ میں‌ تتلی

    نہال خوش تھا۔ بہار آئی ہوئی تھی۔ باغیچے میں پھول ہی پھول کِھلے تھے۔

    اُسے رات جلدی سونے کی عادت تھی کیوں کہ اس سے نیند برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اِدھر کھانا کھاتا اور اُدھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونا شروع ہوجاتیں۔ پاپا بڑی مشکل سے اسے تھوڑی سی واک کراتے اور پھر وہ دوڑ کر بستر پر گر جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح سویرے ابھی ممی پاپا اور گڑیا سو رہے ہوتے اور نہال جاگ جاتا۔ پھر وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر پھرتا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگ جاتا یا پھر باہر اپنے گھر کے باغیچے میں نکل جاتا۔

    اُس دن جب وہ سویرے سویرے باغیچے میں گیا تو بہت حیران ہوا۔ پودوں پر بہار ایسی اُتری تھی کہ پھول ہی پھول کِھل گئے تھے۔ باغیچے میں ہلکی سی سفید دھند پھیلی تھی۔ اُفق پر سورج نے ابھی سَر نہیں اٹھایا تھا۔ فضا بے حد خوش گوار تھی اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ اسے بڑا مزا آیا۔ رنگ برنگے پھول دیکھ کر وہ خوش ہوا اور دوڑ کر ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگا۔ سارا باغیچہ خوش بو سے مہکا ہوا تھا۔ وہ گہری سانسیں لے کر خوش بو اپنے پھیپھڑوں میں اُتارنے لگا۔

    اسے یاد آیا کہ انگلش بُک کے ایک سبق میں پارک، بہار اور پھولوں کا ذکر اس نے پڑھا تھا۔ اس نے پودوں، درختوں اور پھولوں پر نگاہ دوڑائی تو اسے یہ منظر بالکل اُسی تصویر جیسا لگا جو کتاب میں شامل تھی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی شوق سے ڈرائنگ کرتا تھا۔

    کیاری سے گزرتے گزرتے وہ سفید اور ملائم پتیوں والے پھولوں کے پاس رک گیا۔ یہ چنبیلی تھی۔ اس نے زور سے سانس کھینچی۔ یہ خوش بو اسے بہت پسند تھی۔ یکایک وہ چونکا۔

    ارے تتلی… نارنجی، سیاہ اور سفید رنگ کے پروں والی تتلی چنبیلی سے اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

    ”ارے رُکو کہاں جارہی ہو۔“ نہال بولا اور سبز گیلی گھاس پر تتلی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ ٹھنڈی گھاس اس کے تلوؤں پر گدگدی کرتی تھی۔ تتلی تھی کہ پھولوں پر سے ہوا کی طرح سرسراتی اڑتی جارہی تھی۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ نہال اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔ تتلی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ اس نے نہال کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیا۔ آخر کار وہ بے حال ہوکر رُک گیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    رنگین پروں والی بڑی تتلی بھی قریبی گلاب پر بیٹھ گئی اور نہال کو دیکھنے لگی۔ ”ٹھیک ہے‘ میں اب تمھیں نہیں پکڑوں گا۔“ نہال نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

    ”تم بھی اب مت اُڑنا۔ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کتنے پیارے، رنگین پر ہیں تمھارے۔ یہ پیلا رنگ کتنا پیارا ہے۔“ نہال نے سَر آگے کر کے اُسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ”میرے قریب مت آؤ۔“ تتلی نے اچانک اسے ٹوکا اور وہ یہ باریک آواز سن کر اچھل پڑا۔
    ”ارے تم بول سکتی ہو۔“ نہال حیران ہوا۔

    ”ہاں‘ لیکن مجھے تم پر غصہ آرہا ہے‘ تم اچھے نہیں ہو۔“ تتلی پیاری سی باریک آواز میں بولی۔

    نہال نے کہا‘ تتلی کو بھی غصّہ آتا ہے۔ تتلی تو اتنی نازک ہوتی ہے۔ غصّہ کیسے سہتی ہے؟

    تتلی بولی کہ اس کے پَروں کا رنگ پیلا نہیں نارنجی ہے۔ اچھے بچّے تتلی کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اور وہ تتلی کے نارنجی پروں کو پیلا بھی نہیں کہتے۔

    ”اچھا میں سوری کرتا ہوں بس۔“ نہال نے جلدی سے غلطی مان لی۔

    تتلی خوش ہوئی اور بولی۔ ”میرا نام مونارک ہے۔ تمھارا نام مجھے معلوم ہے۔ پاپا نے تمھارا نام نہال رکھا تھا۔“

    ”تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا؟“ نہال مزید حیران ہوا۔

    ”بس ہوگیا معلوم، یہ تمھیں نہیں بتا سکتی۔“ مونارک اِترا کر بولی۔

    ”میں نے تمھیں پہلے یہاں نہیں دیکھا۔“ نہال کہنے لگا۔ ”تم کتنی بڑی ہو، تتلی تو چھوٹی ہوتی ہے۔“

    وہ بتانے لگی کہ مونارک بڑی تتلی ہوتی ہے اور یہاں بس کبھی کبھی آجاتی ہے، وہ بھی سویرے سویرے، اور پھر چلی جاتی ہے۔

    ”تو کیا تم ابھی چلی جاؤ گی۔“ نہال اُداس ہوگیا۔

    ”ہاں۔“ مونارک نے اپنے سَر پر موجود دو انٹینا لہرا کر کہا۔ ”میں جتنی خوب صورت ہوں، اُتنی زہریلی بھی ہوں۔ مجھے کوئی جانور پکڑ کر کھاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پتا ہے میں آج بہت اداس ہوں۔“

    ”ارے تمھیں کیا ہوا، تم کیوں اداس ہو؟“ نہال نے پریشان ہوکر پوچھا۔

    ”میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ تم زہریلی ہو، ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔“ مونارک بولی۔

    نہال نے یہ سن کر جلدی سے کہا کہ آج سے میں تمھارا دوست ہوں، ہم دونوں کھیلیں گے اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ٹھیک ہے اب۔ لیکن تتلی نے اسے بتایا کہ اسے ابھی ضرور جانا ہے۔ وہ ہر سال ہزاروں میل کا سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ آج جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی تو اس کو ایک تتلی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئے تھے۔ سبھی مونارکوں کے ماں باپ اسی طرح مرتے ہیں۔ اسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مونارک رونے لگی۔ ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ نہال بھی اُداس ہوا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    مونارک کہنے لگی۔ ”نہال‘ میرے دوست، تم کتنے اچھے ہو۔ تم میرے لیے دکھی ہوگئے ہو۔“

    ”ہاں‘ میں تمھیں کبھی بھی زہریلی نہیں کہوں گا، پکّا وعدہ۔“ نہال نے کہا۔

    مونارک اپنی چھے ٹانگوں میں سے دو چھوٹی ٹانگوں سے اپنا پیٹ کھجانے لگی۔

    نہال کو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔ اور پھر کہا۔ ”مونارک‘ تم نے سچ مچ اپنے ممی پاپا کو نہیں دیکھا۔“

    ”ہاں۔“ اس نے اداسی سے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا۔ ”مونارک اپنے ماں باپ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ انڈوں سے مونارک کے نکلنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

    نہال نے بوجھل دل سے کہا۔ ”اچھی تتلی، اب تو میں تمھارا دوست ہوں۔ اب تم مت روؤ۔“

    ”ٹھیک ہے میرے دوست۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا۔“ تتلی بولی اور اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی۔ وہ اُڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ”مجھے بہت دور، دوسرے ملک جانا ہے۔ اب تمھارے ممی پاپا بھی جاگنے والے ہیں۔ وہ تمھیں تلاش کرنے ادھر آئیں گے۔“

    نہال نے پوچھا کہ کیا وہ پھر آئے گی اس باغیچے میں۔ تتلی نے کہا کہ تتلیاں بس ایک بار سفر کرتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔ پھر شاید اس کے بچّے یہاں چکر لگائیں۔

    نہال پریشان ہوگیا۔ ”تو کیا تم اپنے ننھے بچّوں کے ساتھ نہیں ہوگی‘ وہ اکیلے ہوں گے؟“

    ”ہاں۔“ وہ بولی۔ ”مونارک کے بچے یتیم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ گھبراتے نہیں ہیں۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے رنگین پَروں سے دنیا کو خوب صورت بناتے ہیں۔“ یہ کہہ کر مونارک اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

  • گیت کا اثر

    گیت کا اثر

    کسی خوش حال ملک میں ایک شاعر اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا جو کوئی کام نہیں کرتا تھا اور سارا دن شاعر دوستوں کی محفل جمائے رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت غریب تھا۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اس سے کہا۔ تم بادشاہ کے پاس جا کر کوئی گیت ہی سنا دو۔ شاید بادشاہ سے انعام مل جائے۔ شاعر کو یہ بات پسند آئی اور وہ کسی طرح دربان کی خوشامد کرکے بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اس سے آمد کا سبب دریافت کیا۔ شاعر نے کہا کہ وہ اپنا ایک گیت سنانے کی اجازت چاہتا ہے۔ بادشاہ نے اسے گیت سنانے کی اجازت دے دی۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کو گیت اچھا لگا۔ اس نے اُسے اپنے استعمال کے تمام برتنوں پر لکھوانے کا حکم جاری کر دیا۔

    چند دنوں بعد بادشاہ اور وزیر میں کسی بات پر تکرار اور ناراضی ہو گئی۔ وزیر مزاج کا اچھا آدمی نہیں تھا۔ وہ بادشاہ کو جان سے مار ڈالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس طرح حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ آ جاتی یعنی وہ خود بادشاہ بن جاتا۔

    وزیر نے بادشاہ کو ختم کرنے کے لیے کئی منصوبے ذہن میں ترتیب دیے اور آخر میں ایک پر عمل کرانے کے لیے تیار ہو گیا۔

    ایک حجام روزانہ بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے آتا تھا۔ وزیر نے حجام کو ڈھیر ساری دولت دینے کا لالچ دے کر اسے اس قتل کے لیے راضی کر لیا۔ اس نے کہا کہ جب حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے جائے تو اُسترا خوب تیز کر لے اور داڑھی بناتے وقت بادشاہ کی گردن کاٹ دے۔

    دوسرے دن حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے گیا۔ کٹورے میں پانی آیا۔ حجام پتھر پر پانی ڈال کر استرا تیز کرنے لگا۔ بیٹھے بیٹھے بادشاہ کی نظر کٹورے پر گئی۔ کٹورے پر شاعر کا وہ گیت کُھدا ہوا تھا۔ بادشاہ گیت گنگنانے لگا۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کی گنگناہٹ سن کر حجام کانپنے لگا۔ وہ سمجھا کی بادشاہ کو وزیر کی سازش کا پتہ چل گیا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھا اور سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

    بادشاہ کو حجام کے اس طرح بھاگ جانے پر بڑی حیرت ہوئی، ساتھ ہی غصہ بھی آیا۔ اس نے حکم دیا کہ حجام کو پکڑ کر لایا جائے۔

    حجام جب بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا۔ "کیا بات ہے؟ تم نے ایسی حرکت کی جرأت کیسے کی”؟

    حجام جان کی امان چاہتے ہوئے گڑ گڑانے لگا۔ اور سب کچھ اگل دیا۔

    بادشاہ نے وزیر کو گرفتار کرانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اُس شاعر کو دربار میں طلب کر کے خوب سراہا اور کہا۔ "جس قدر بھی دولت اٹھا سکو، اٹھا کر اپنے گھر لے جاؤ۔” شاعر کے تو دن ہی پھر گئے۔ وہ بیٹھے بیٹھے امیر ہو گیا۔ ادھر بادشاہ نے وزیر کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    (قدیم لوک کہانی)

  • شہزادے کی روح

    شہزادے کی روح

    یونان کا ملک حسن، خوب صورتی اور دیو مالائی داستانوں کے لیے بہت مشہور ہے۔ آج ہم آپ کو یونان کی ایک ایسی ہی خوبصورت اور قدیم داستان سنا رہے ہیں۔

    بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا۔ وہ بادشاہ ملک یونان پر حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے گھر کوئی اولاد نہ تھی۔ بادشاہ بہت پریشان رہتا تھا۔ بہت دعائیں کرتا تھا۔ پھر ایک دن اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کی دعا سن لی اور اسے ایک خوبصورت شہزادہ عطا کیا۔ بادشاہ بے حد خوش ہوا۔

    اس نے پورے ملک میں تین دن تک خوب جشن منایا۔ لوگوں میں تحائف تقسیم کیے اور کھانا کھلایا۔ بچّو! ننھا شہزادہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ گلابی، گلابی چہرہ، سنہری ریشم کی طرح بال، کھڑی ناک اور گہری سیاہ روشن چمک دار آنکھیں، خوب صورت دل موہ لینے والی مسکراہٹ جو بھی دیکھتا وہ شہزادہ کو پیار کیے بغیر نہیں رہتا۔ شہزادہ بہت عیش اور ناز و نعم سے پالا گیا۔ جب وہ تھوڑا سا بڑا ہوا تو بادشاہ نے اس کے لیے استاد مقرر کر دیے۔ یہ شہزادے کو ابتدائی عمر ہی سے تعلیم و تربیت سکھانے لگے۔

    شہزادہ بہت ذہین تھا۔ جلد ہی سب کچھ سیکھنے لگا۔ اسی طرح شہزادہ بڑا ہوتا گیا۔ شہزادہ جہاں جاتا تھا سب لوگ اس کے حسن اور خوبصورتی کی تعریف کرتے اور اسے دیکھنے کے لیے رش لگ جاتا۔ شہزادہ بہت خوبصورت تھا۔ سب کی باتیں سن کر شہزادہ کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنی صورت دیکھے کہ وہ کتنا خوبصورت اور حسین ہے کہ اسے سب پسند کرتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔

    پیارے بچّو! یہ اس زمانے کی بات ہے جب آئینہ ایجاد نہیں ہوا تھا بلکہ اور بھی بہت ساری سائنس کی چیزیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ لوگ بہت سادہ اور آسان زندگی گزارتے تھے۔ شہزادے کی یہ خواہش بڑھتی گئی کہ وہ کسی طرح اپنی شکل دیکھے مگر وہ دیکھتا کس طرح؟ اسے کوئی طریقہ ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ جب کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا تو شہزادہ افسردہ ہوگیا۔ اب شہزادہ اداس رہنے لگا۔ سب نے بہت کوشش کی مگر شہزادے کے دوستوں نے شکار کا پروگرام بنایا اور شہزادہ کو زبردستی جنگل میں لے گئے تاکہ اس کا دل بہل سکے۔

    یہ جنگل بھی بہت بڑا اور گھنا تھا۔ بہت سارے گھنے اور سبز درخت تھے۔ بیلیں لگی تھیں، جن پر خوبصورت پھول لگے تھے۔ گھنی گھاس تھی۔ شہزادے کے دوست اسے لے کر بہت دور دور تک جنگل میں گھومے۔ ہرن، تیتر اور خرگوش شکار کیے۔ وہ لوگ اب بہت تھک گئے تھے چنانچہ طے پایا کہ کہیں رک کر خیمہ لگایا جائے اور گوشت بھنا جائے۔ ایک وزیر نے بتایا جنگل کے مشرقی سمت ایک خوبصورت جھیل ہے جس کے گرد خوبصورت پھولوں کی بیلیں اور گھاس اگی ہے۔ وہ جگہ کیمپ کے لیے مناسب رہے گی۔

    چنانچہ سب مشرق کی سمت چل پڑے۔ وہاں واقعی میں ایک بہت بڑی شفاف جھیل تھی جس کے کنارے بہت سارے خوبصورت پھولوں کے پودے تھے۔ جگہ جگہ گھنے درخت تھے جن کے سایے سے زمین ڈھکی ہوئی تھی۔ سب نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ وہ سب گھوڑوں سے اتر گئے اور خیمہ لگا لیا۔ شہزادہ بہت تھک گیا تھا۔ وہ گھوڑے سے اتر کر جھیل کی طرف بڑھ گیا تاکہ ہاتھ منہ دھو کر تازہ دم ہو کر خیمہ میں آکر آرام کر سکے۔ جھیل کا پانی ساکت اور شفاف تھا۔ جیسے ہی شہزادے نے جھک کر پانی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ ایک دم ٹھٹھک گیا۔

    جھیل کے شفاف اور ساکت پانی میں شہزادہ کا عکس نظر آرہا تھا۔ عکس شبیہ کو کہتے ہیں یعنی نقلی شکل جس کو ہم چھو نہ سکیں مگر وہ اصل کی طرح ہی ہوتی ہے۔ شہزادہ حیران ہو کر پانی میں دیکھنے لگا۔ پانی میں سنہرے ریشمی بالوں، گہری سیاہ چمک دار آنکھیں اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ ایک خوبصورت شکل نظر آرہی تھی۔ شہزادہ مبہوت ہو کر اپنی شکل دیکھتا رہا پھر اس نے آہستہ سے ہاتھ اٹھا کر اپنے چہرے کو چھوا، پانی میں موجود عکس میں بھی حرکت ہوئی۔

    اب شہزادے نے آنکھیں جھپکیں۔ شہزادہ مسکرایا عکس بھی مسکرایا۔ شہزادہ حیران ہوگیا۔’کیا یہ واقعی میں ہوں؟‘ شہزادے نے بہت لوگوں کو دیکھا تھا مگر پانی میں نظر آنے والا عکس اتنا خوبصورت تھا کہ شہزادے کو اس بات پر یقین آگیا کہ لوگ اس کی خوبصورتی اور حسن کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ غلط نہیں۔

    جب وہ خود اپنا عکس دیکھ کر مبہوت ہوگیا تو دوسرے کیوں نہیں ہوں گے۔ آج شہزادے کی برسوں کی چھپی دلی آرزو پوری ہوئی تھی۔ شہزادے نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سب نے اسے بہت سمجھایا مگر شہزادے نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اب شہزادہ وہیں رہنے لگا۔

    اس کے لیے وہیں بادشاہ نے ایک گھر بنا دیا۔ مگر شہزادہ سارا وقت جھیل کے کنارے بیٹھا رہتا اور اپنا عکس دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ بادشاہ نے اور سب لوگوں نے شہزادے کو سمجھایا کہ وہ دنیا کے اور کاموں میں حصہ لے اور محل واپس چلے مگر شہزادہ نے کسی کی بات نہ مانی۔ بادشاہ شہزادے کی یہ محویت دیکھ کر بہت افسوس کرتا مگر شہزادہ اپنے حال میں مگن رہتا۔

    محل میں رہنے والا اتنے عیش میں پلنے والا شہزادہ کہاں جنگل کے موسم کی سختی برداشت کر سکتا تھا۔ جب کہ وہ گھنٹوں جھیل کے کنارے بیٹھا رہتا وہیں کھاتا۔ وہیں سوتا۔ آخر شہزادے کی صحت خراب ہوگئی۔ بہت علاج کروایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا اور ایک دن مر گیا۔

    مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ اسے جھیل کے کنارے ہی دفن کیا جائے۔ بادشاہ نے اس کی وصیت پوری کر دی۔ کچھ عرصے بعد جھیل کے کنارے پانی میں ایک پودا نکلا۔ یہ اسی جگہ سے پیدا ہوا تھا جہاں شہزادے کو دفنایا گیا تھا۔ پودا بڑا ہوگیا تو اس میں ایک انتہائی خوبصورت پھول نکلا۔ پھول اس قدر خوب صورت تھاکہ جو دیکھتا مبہوت ہوجاتا۔

    مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ پھول کی تمام پتیوں کا رخ پانی کی طرف تھا۔ لوگوں نے اس خوبصورت پھول کو توڑ کر دوسری جگہ لگانے کی کوشش کی مگر وہ مرجھا گیا۔ یونان کے لوگ کہتے ہیں کہ اصل شہزادہ جھیل کے پاس رہنا پسند کرتا تھا۔ اس طرح یہ پھول بھی خوبصورت جھیل کے پانی میں ہی رہتا تھا اور شہزادے ہی کی طرح پانی میں اپنا عکس دیکھتا رہتا ہے۔

    بچّو! کبھی تم کلری جھیل کی طرف جاؤ تو بہت آگے جاکر دیکھنا تمہیں بہت سارے خوبصورت پھول نظر آئیں گے جو پانی کی طرف اپنی پتیاں جھکائے رکھتے ہیں۔ یہی وہ پھول ہیں جسے یونان کے لوگ شہزادے کی روح اور ہم لوگ کنول کا پھول کہتے ہیں۔

    (یونان کی لوک کہانی، ترجمہ و تدوین حمیرا خاتون)

  • گیدڑ نے جان کیسے بچائی؟

    گیدڑ نے جان کیسے بچائی؟

    ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن بھی اس کے لیے کتنا منحوس تھا۔ اسے دن بھر بھوکا ہی رہنا پڑا۔ وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔

    اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘

    اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔

    وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔

    گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہوگیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہئے۔

    وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس طرح کا جانور نہیں دیکھا تھا۔

    گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘

    سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘

    ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہوگئے۔

    چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘

    سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘

    نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘

    ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘

    ’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘

    گیدڑ کی اس بات نے سبھی جانوروں کی تسلی کر دی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔

    ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کردیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ رنگا ہوا سیار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کردیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر ہوگیا۔ اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔

    (ساحر ہوشیار پوری کے قلم سے بچوں کے لیے ایک کہانی)

  • میٹھے جوتے

    میٹھے جوتے

    یہ بھائی، بہنوں کو عجیب عجیب طریقے سے بیوقوف بناتے ہیں۔

    ننھے بھائی بالکل ننھے نہیں بلکہ سب سے زیادہ قد آور اور سوائے آپا کے سب سے بڑے ہیں۔ ننھے بھائی آئے دن نت نئے طریقوں سے ہم لوگوں کو الّو بنایا کرتے تھے۔

    ایک دن کہنے لگے، ’’چمڑا کھاؤ گی؟‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں تھو! ہم تو چمڑا نہیں کھاتے۔‘‘

    ’’مت کھاؤ!‘‘ یہ کہہ کر چمڑے کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ لیا اور مزے مزے سے کھانے لگے۔ اب تو ہم بڑے چکرائے۔ ڈرتے ڈرتے ذرا سا چمڑا لے کر ہم نے زبان لگائی۔ ارے واہ، کیا مزے دار چمڑا تھا، کھٹا میٹھا۔ ہم نے پوچھا، ’’کہاں سے لائے ننھے بھائی؟‘‘

    انہوں نے بتایا، ’’ہمارا جوتا پرانا ہو گیا تھا، وہی کاٹ ڈالا۔‘‘

    جھٹ ہم نے اپنا جوتا چکھنے کی کوشش کی۔ آخ تھو، توبہ مارے سڑاند کے ناک اڑ گئی۔
    ’’ارے بےوقوف! یہ کیا کر رہی ہو؟ تمہارے جوتے کا چمڑا اچھا نہیں ہے اور یہ ہے بڑا گندا۔ آپا کی جو نئی گرگابی ہے نا، اسے کاٹو تو اندر سے میٹھا میٹھا چمڑا نکلےگا۔‘‘ ننھے بھائی نے ہمیں رائے دی۔

    اور بس اس دن سے ہم نے گرگابی کو گلاب جامن سمجھ کر تاڑنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا۔

    عید کا دن تھا۔ آپا اپنی حسین اور مہ جبین گرگابی پہنے، پائنچے پھڑکاتی، سویاں بانٹ رہی تھیں۔ آپا ظہر کی نماز پڑھنے جونہی کھڑی ہوئیں، ننھے میاں نے ہمیں اشارہ کیا۔

    ’’اب موقع ہے، آپا نیت توڑ نہیں سکیں گی۔‘‘

    ’’مگر کاٹیں کاہے سے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

    ’’آپا کی صندوقچی سے سلمہ ستارہ کاٹنے کی قینچی نکال لاؤ۔‘‘

    ہم نے جونہی گرگابی کا بھورا ملائم چمڑا کاٹ کر اپنے منہ میں رکھا، ہمارے سر پر جھٹ چپلیں پڑیں۔ پھر پوچھا ’’یہ کیا کر رہی ہے؟‘‘

    ’’کھا رہے ہیں۔‘‘ ہم نے نہایت مسکین صورت بنا کر بتایا۔

    یہ کہنا تھا سارا گھر ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ہماری تکا بوٹی ہو رہی تھی کہ ابا میاں آ گئے۔ مجسٹریٹ تھے، فوراً مقدمہ مع مجرمہ اور مقتول گرگابی کے روتی پیٹتی آپا نے پیش کیا۔ ابا میاں حیران رہ گئے۔ ادھر ننھے بھائی مارے ہنسی کے قلابازیاں کھا رہے تھے۔ ابا میاں نہایت غمگین آواز میں بولے، ’’سچ بتاؤ، جوتا کھا رہی تھی؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ہم نے روتے ہوئے اقبال جرم کیا۔

    ’کیوں؟‘‘

    ’میٹھا ہوتا ہے۔‘‘

    ’جوتا میٹھا ہوتا ہے؟‘‘

    ’ہاں۔‘‘ ہم پھر رینکے۔

    ’یہ کیا بک رہی ہے بیگم؟‘‘ انہوں نے فکر مند ہو کر اماں کی طرف دیکھا۔

    اماں منہ بسور کر کہنے لگیں۔ ’’یا خدا! ایک تو لڑکی ذات، دوسرے جوتے کھانے کا چسکا پڑگیا تو کون قبولے گا۔‘‘ ہم نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی چمڑا سچ میں بہت میٹھا ہوتا ہے۔ ننھے بھائی نے ہمیں ایک دن کھلایا تھا، مگر کون سنتا تھا۔

    ’’جھوٹی ہے۔‘‘ ننھے بھائی صاف مکر گئے۔ بہت دنوں تک یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ خود ہماری عقل گم تھی کہ ننھے بھائی کے جوتے کا چمڑا کیسا تھا جو اتنا لذیذ تھا۔

    اور پھر ایک دن خالہ بی دوسرے شہر سے آئیں۔ بقچہ کھول کر انہوں نے پتوں میں لپٹا چمڑا نکالا اور سب کو بانٹا۔ سب نے مزے مزے سے کھایا۔ ہم کبھی انہیں دیکھتے، کبھی چمڑے کے ٹکڑے کو۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ جسے ہم چمڑا سمجھتے تھے، وہ آم کا گودا تھا۔ کسی ظالم نے آم کے گودے کو سکھا کر اور لال چمڑے کی شکل کی یہ ناہنجار مٹھائی بنا کر ہمیں جوتے کھلوائے۔

    (عصمت چغتائی کے قلم سے)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا تھا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا تھا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہوسکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیارسے بولی:’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑسکتے ہو، میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کرسکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کرسکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔

    میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔ میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہرانی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اسی پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کرسکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھاجاتا اور کتنوں کو زخمی کردیتا۔ یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ دوسرے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔ اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔

    ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہوگئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہوسکتا ہے؟

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، مصنّف جمیل جالبی)

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    کسی ملک میں ابراہم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔

    اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہم کے گھ روالوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکر ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اور ایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ اس نے ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابراہم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ کچھ دیر آرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر دہرایا۔ ابراہم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے، تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی؟‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘

    اتنا سن کر ابراہم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا پر یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہم نے اسے کھانا دیے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔

    ابراہم یہ تم نے کیا کیا؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے۔ خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہو گے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہم کو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (پیرس کی ایک لوک کہانی)

  • انگوٹھی اور بانسری

    انگوٹھی اور بانسری

    پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی۔ عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا۔ عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا جب کہ مانی فنِ سپاہ گری سیکھ رہا تھا تاکہ شاہی فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔

    یوں تو عدنان تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ ہی سفر پر روانہ ہوتا تھا مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس کا باپ بیمار پڑ گیا۔ وہ کافی کم زور بھی ہوگیا تھا اس لیے اسے آرام کی ضرورت تھی۔ عدنان نے سوچا کہ اس مرتبہ وہ اکیلا ہی تجارت کا مال لے کر نکل جائے۔

    اس کے ارادے کی خبر مانی کو ملی تو وہ بھی گھومنے پھرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہو لیا۔ ان کے سفر پر جانے کی وجہ سے ان کے گھر والے فکر مند ہوگئے تھے کیوں کہ ان دنوں بہت ہی خطرناک اور ظالم ڈاکوؤں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ وہ سنسان جگہوں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تھا تو اسے قتل بھی کر دیتے تھے۔ دونوں دوستوں نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی اور بیٹھ کر یہ منصوبہ بنانے لگے کہ خدانخواستہ اگر کبھی انھیں ڈاکوؤں نے گھیر لیا تو وہ کیا کریں گے۔

    سفر کے دوران انھیں کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بڑے آرام سے اس ملک میں پہنچ گئے جہاں عدنان کو اپنا تجارتی مال فروخت کرنا تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا سارا سامان فروخت ہوگیا۔ اس تجارت میں اسے بہت فائدہ ہوا تھا۔ وہ دونوں جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ پورا ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کی واپسی کی تیاری شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بہت سے تحفے تحائف بھی خریدے تھے۔

    سفر کے لیے ان کے پاس ان کے گھوڑے تھے۔ عدنان کے گھوڑے پر دو چمڑے کے تھیلے لٹکے ہوئے تھے جو سونے کی اشرفیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ اشرفیاں اسے اپنا مال بیچ کر حاصل ہوئی تھیں۔ مانی کے پاس بھی چند سو اشرفیاں تھیں جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلا تھا تاکہ سفر میں اس کے کام آسکیں۔ اس کی اشرفیاں اور تحفے تحائف کے تھیلے بھی اس کے گھوڑے پر لدے ہوئے تھے۔

    دو دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے ملک میں داخل ہوگئے۔ اب ان کا تھوڑا ہی سا سفر باقی تھا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے۔ اچانک انہوں نے سامنے سے دھول اڑتی دیکھی۔ ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ اس دھول کو دیکھ کر اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سن کر دونوں دوست گھوڑوں سے اتر گئے اور تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے گھڑ سوار ان کے نزدیک پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ وہ لوگ شکل و صورت سے ڈاکو لگتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلواریں تھیں۔

    سب سے آگے خوفناک شکل اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لحیم شحیم شخص تھا۔ وہ ان کا سردار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ایک خوفناک قہقہ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا ۔ “شکل سے یہ لوگ امیر زادے لگتے ہیں۔ سارا مال ان سے چھین لو۔ مزاحمت کریں تو قتل کر دو۔ ”

    عدنان اور مانی ماہر تلوار باز تھے اور بہادر بھی بہت تھے۔ لیکن اتنے بہت سے ڈاکوؤں سے وہ لوگ ہرگز نہیں جیت سکتے تھے۔ عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “ہم دو ہیں اور تم لوگ بہت سارے۔ عقل کا تقاضہ ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ نہ کریں۔ تم ہمارا مال لے لو اور ہمیں جانے دو۔ ”

    ڈاکوؤں کا سردار ایک مرتبہ پھر بلند آواز میں ہنسا۔ پھر اس کا اشارہ پا کر اس کے دو ساتھی گھوڑوں سے اترے اور ان کے گھوڑوں کی طرف بڑھے تاکہ ان پر لدے سامان پر قبضہ کر سکیں۔

    مانی کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی۔ عدنان کے ہاتھ میں ایک بانسری تھی۔ ڈاکوؤں کو آتا دیکھ کر اس نے یہ بانسری اپنی جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ جب ڈاکو ان کے تھیلے گھوڑوں سے اتار کر اپنے قبضے میں لے رہے تھے تو مانی نے اپنی انگوٹھی انگلی سے اتاری اور اسے زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ عدنان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بانسری جلدی سے اپنے لباس کی جیب میں چھپا لی۔

    دونوں ڈاکو تو اپنے کام میں مصروف تھے مگر ڈاکوؤں کے سردار نے دونوں کی یہ حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا۔ اس نے مانی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زمین سے انگوٹھی اٹھالی۔ پھر اس نے عدنان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی بانسری بھی نکال لی اور بولا۔ “بے ایمان لڑکو۔ یہ بتاو کہ تم لوگ یہ انگوٹھی اور بانسری کیوں چھپا رہے تھے؟”

    مانی نے گڑ گڑا کر کہا۔ “اے ڈاکوؤں کے سردار۔ ہم سے ہمارا سارا مال لے لو مگر یہ انگوٹھی اور بانسری ہمیں واپس کر دو۔ ”

    ڈاکوؤں کے سردار نے غور سے انگوٹھی اور بانسری کو دیکھا اور بولا۔ “نہ تو یہ انگوٹھی سونے کی ہے اور نہ ہی بانسری پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ پھر تم لوگ ان معمولی چیزوں کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو؟”

    مانی نے بے بسی سے عدنان کو دیکھا اور بولا۔ “انگوٹھی اور بانسری کا ایک راز ہے۔ ادھر سامنے پہاڑوں کے پاس والے جنگل میں ہزاروں سال پرانا ایک درخت ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگل کا سب سے بڑا درخت ہے اور جھیل کے نزدیک ہے۔ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس انگوٹھی کو انگلی میں پہن کر اس بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔”

    مانی کی باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں طرح طرح کی جادو کی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ مانی کی باتوں سے اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ انگوٹھی اور بانسری جادو کی ہیں۔ اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ وہ جنگل میں جا کراس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی پہن کر بانسری بجائے گا اور پھر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے۔

    دونوں ڈاکو عدنان اور مانی سے لوٹا ہوا سامان اپنے گھوڑوں پر لاد چکے تھے۔ سردار نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ ہونے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے اپنے گھوڑے موڑے اور انھیں تیزی سے بھگاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ شکر یہ ہوا کہ انہوں نے عدنان اور مانی کے گھوڑے اپنے قبضے میں نہیں لیے تھے ورنہ انھیں گھر پہنچنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔

    ڈاکوؤں کے چلے جانے کے بعد عدنان نے کہا۔ “خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ ”

    “فکر کیوں کرتے ہو۔ الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا”۔ مانی نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے اسے تسلی دی۔ پھر دونوں دوست اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔

    دونوں نے اپنے گھر والوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کی کہانی سنائی۔ ان کی کہانی سن کر سب نے اظہار افسوس کیا مگر وہ اس بات پر خوش بھی ہوئے اور الله تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ ڈاکوؤں نے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

    یہ اگلے روز دوپہر کی بات ہے۔ ڈاکوؤں کا سردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں آیا۔ وہ سب جھیل کے نزدیک اس پرانے درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بہت خوش تھا کہ اب اس انگوٹھی اور بانسری کے راز سے پردہ اٹھ جائے گا۔ اس نے انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنا اور پھر بانسری بجانے لگا۔

    بانسری کی لے اتنی تیز تھی کہ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے شور مچاتے ہوئے اڑ گئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بانسری بجانے میں مصروف تھا۔ اس کے تمام ساتھی اسے بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھ رہے تھے۔

    اچانک قریبی درختوں سے بے شمار سپاہی کود کود کر زمین پر اترے اور بے خبر ڈاکوؤں کے سروں پر پہنچ گئے۔ بہت سے سپاہی بڑی بڑی جھاڑیوں میں بھی چھپے ہوئے تھے۔ وہ بھی باہر آگئے۔ ان سپاہیوں کے ساتھ مانی کا کوتوال باپ بھی تھا۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ انہوں نے تمام ڈاکوؤں کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک تو ڈاکو بے خبر تھے۔

    دوسرے سپاہی اتنے زیادہ تھے کہ ڈاکو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے وہ بڑی آسانی سے قابو میں آگئے۔ سپاہیوں نے ان کی تلواریں اور خنجر اپنے قبضے میں لے کر ان کو گرفتار کر لیا۔

    اسی وقت جھاڑیوں کے پیچھے سے عدنان اور مانی بھی نکل آئے۔ انھیں دیکھ کر تمام ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ دونوں تو وہ ہی نوجوان تھے جنہیں کل ان لوگوں نے لوٹا تھا اور جن سے ان کے سردار نے انگوٹھی اور بانسری چھینی تھیں۔

    مانی نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہن کر بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔ اب بتاؤ کہ یہ سب کچھ دیکھ کر تمہیں حیرت ہوئی یا نہیں؟ “

    اس کی بات سن کر عدنان مسکرانے لگا۔ مانی نے پھر کہا۔ “ہمیں پتہ تھا کہ ہماری باتیں سن کر تم ضرور اس جگہ پہنچو گے تاکہ انگوٹھی اور بانسری کے راز سے واقف ہو سکو۔ میں نے اپنے ابّا جان سے کہہ کر ان سارے سپاہیوں کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا تاکہ یہ تمہیں گرفتار کر سکیں۔ ”

    عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “جب ہم لوگ تجارت کا مال لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوئے تھے تو ہم نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ گیا تو ہم انھیں انگوٹھی اور بانسری کی کہانی سنائیں گے تاکہ جب وہ اس درخت کے پاس آئیں تو سپاہی انھیں گرفتار کرلیں۔ تم لوگوں نے بڑے عرصے سے اس علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اب تمہیں اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ اگر تم لوگ لوٹ مار کے بجائے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوتے تو اس ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑتا۔”

    ڈاکوؤں کا سردار اس بات پر سخت شرمندہ تھا کہ عدنان اور مانی نے اسے بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

    بعد میں ڈاکوؤں پر مقدمہ چلا اور انھیں سزائیں ہو گئیں۔ عدنان اور مانی کو بھی ان کی اشرفیاں اور دوسرا سامان واپس مل گیا تھا۔ یوں ان دونوں کی ذہانت کی وجہ سے یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

    (مصنّف: مختار احمد)

  • چاند کی بیٹی….

    چاند کی بیٹی….

    ایک چھوٹی سی بچّی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔

    ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچّوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا کودنا تو کیا دو گھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ آدمی بہت چالاک اور بے رحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو قدم آگے تھی۔

    ایک رات چاند آسمان پر چمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔ امیر آدمی کی بیوی نے اس بچّی سے پانی لانے کے لیے کہا۔ بچّی پانی بھرنے باہر گئی۔ جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر ہو چکے تھے۔ تالاب کا پانی بھی اوپر سے جما ہوا تھا۔ بچّی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا۔ بچی گھبرا گئی۔ وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔ وہ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔

    بچّی نے چاند سے کہا، ’’چندا ماموں، دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں۔ میری مدد کرو۔ مجھے ان ظالموں سے بچاؤ۔ یہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘

    چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔ وہ ایک خوب صورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچّی کی فریاد سن لی تھی۔ وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اتر آیا۔

    سورج نے چاند سے کہا، ’’میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔ کیوں کہ میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘

    چاند نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی، لیکن اس وقت رات ہے، اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔ اس بچّی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    چاند بچّی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ جب سے وہ ننھی بچّی چاند میں رہتی ہے۔ جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھو گے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئے گی۔

    (پاکستان کی نام وَر شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    یہ بہت پرانا قصّہ اُن دو آدمیوں کا ہے جو کسی زمانے میں پیدل سفر کو نکلے تھے۔ ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب۔

    دونوں کی مڈ بھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوگئی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ چلچلاتی دھوپ تھی۔ دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ توشہ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ وہ دونوں اس انتظار میں تھے کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دستر خوان بچھائے تو اس میں شریک ہو جائے۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔ دونوں میں سے کسی نے پیٹ بھرنے کے لیے توشہ کھولنے میں پہل نہ کی۔ دراصل وہ دونوں نہایت ہی کنجوس تھے۔

    بڑی دیر کے بعد بادلِ ناخواستہ ایک نے تالاب سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی، اس نے روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی سے پانی میں ڈبویا اور پھر فوراً توشہ دان میں رکھ لیا۔ البتہ جس پانی میں روٹی کو ڈبویا تھا، اسے غٹا غٹ پی گیا۔ پھر آرام سے ایک طرف لیٹ گیا۔

    اب دوسرے سے بھی شاید رہا نہیں‌ جارہا تھا۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، لیکن پھر ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے روٹی تو نکالی، لیکن نہ تو اسے توڑا اور نہ ہی پانی میں‌ ڈالا بلکہ اس انداز سے روٹی کو برتن کے اوپر پکڑا کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی پر پڑے۔ اس نے گویا پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر وہ پانی پی لیا۔ اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کر دی۔

    وہ آدمی جس نے روٹی کا ٹکڑا پانی میں‌ ڈبویا تھا، اس نے بھی یہ دیکھا اور سوچنے لگا کہ دوسرا آدمی بھی اس جیسا ہی ہے۔ تھے تو دونوں ہی حد درجہ بخیل اور کنجوس، مگر پہلا آدمی جس نے روٹی کو پانی میں بھگویا تھا، دوسرے والے کی حرکت دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔

    اب وہ ایک دوسرے کو گویا پہچان چکے تھے اور سخت ضرورت اور بھوک میں بھی کھانا بچا کر رکھنے والی حرکت کرتا دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے خیالات اور طبیعت میں یکسانیت موجود ہے اور تب انہوں نے آپس میں تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ انہوں نے اپنے اپنے سفر کا مقصد ایک دوسرے کو بتایا تو دونوں ہی کو بہت خوشی ہوئی، کیوں‌ وہ ایک ہی مقصد لے کر گھروں سے روانہ ہوئے تھے۔

    ان کا مقصد تھا رشتہ تلاش کرنا۔ ایک کو اپنے بیٹے کے لیے رشتہ چاہیے تھا اور دوسرا اپنی بیٹی کو بیاہنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ دونوں نے فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ان کے خاندانوں کے درمیان مثالی رشتہ قائم ہو سکے گا۔

    یوں‌ ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک بخیل کی بیٹی سے ہوگئی۔

    (ماخوذ از قصّۂ قدیم)