Tag: بچوں کی کہانی

  • ”گاؤں والے…“

    ”گاؤں والے…“

    گاﺅں کا نام تو امیر پور تھا، لیکن وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ ان میں‌ بعض لوگ ہنر مند اور کسی نہ کسی پیشے سے جڑے ہوئے تھے اور اسی سے اپنی روزی روٹی کا انتظام کر پاتے تھے۔ امیر پور کے یہ باسی بڑے صابر و شاکر تھے۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر خدا کا شکر ادا کرتے اور مل جل کر رہتے تھے۔

    گاﺅں سے تھوڑے فاصلے پر ایک پکّی سڑک موجود تھی۔ اس سڑک سے بیل گاڑی یا تانگے پر سوار ہو کر گاؤں والے کام کی تلاش میں‌ شہر جایا کرتے تھے۔ سڑک کے قریب ایک بڑا پرانا مکان تھا، جس میں میاں بیوی اور ان کا ایک بیٹا رہتا تھا۔ پورا گاﺅں انہیں حاجی صاحب اور امّاں بی کے نام سے جانتا تھا۔

    یہ میاں‌ بیوی بہت مہمان نواز اور خدا ترس تھے، لیکن ان کا بیٹا نہایت بدتمیز اور خود سَر تھا۔ اسے گاؤں والے ننّھے کے نام سے پکارتے تھے۔ ماں باپ اپنے بیٹے کو بہت سمجھاتے اور دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے، لیکن اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حاجی صاحب اور امّاں بی فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھ جاتے۔ وہ شہر جانے کے لیے گزرنے والے دیہاتیوں سے سلام دعا کرتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے، اسی طرح شام کو جب لوگ اپنے کاموں سے لوٹتے تو ایک بار پھر حاجی صاحب اور ان کی بیوی سے سامنا ہوتا اور وہ مسکرا کر گویا ان استقبال کرتے۔

    خوش اخلاق اور ملن سار میاں بیوی کی آمدن اور گزر بسر کا ذریعہ ان کے دو مکانات اور تین دکانیں تھیں جو انہوں‌ نے کرایے پر اٹھا رکھی تھیں۔ حاجی صاحب سے گاؤں کے غریب لوگ ضرورت پڑنے پر کچھ رقم ادھار بھی مانگ لیتے تھے اور اکثر ان کے گھر ضرورت مند آتے جاتے رہتے تھے۔ یہ بات ننھّے کو بالکل پسند نہ تھی۔ حاجی صاحب کی غیر موجودگی میں اگر کوئی گاؤں والا ان کے گھر آجاتا تو ننھّا بدتمیزی سے پیش آتا اور انہیں جھڑک دیتا۔ غریب اور مجبور دیہاتی حاجی صاحب کی وجہ سے اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیتے تھے اور اُن سے اس کی شکایت بھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک دن یہ میاں بیوی اپنے بیٹے کو گھر پر چھوڑ کر کسی کام سے شہر گئے، جہاں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔ اس حادثے میں حاجی صاحب اور امّاں بی کی موت واقع ہو گئی۔ اس سانحے پر گاؤں کے ہر فرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ ہر کوئی ان کے اکلوتے بیٹے کو صبر کی تلقین کررہا تھا۔ حاجی صاحب اور امّاں‌ بی کی تدفین کے بعد گاؤں‌ کے بزرگ اور نوجوان سبھی دیر تک ننھّے کے ساتھ بیٹھے رہے۔ اُس دن وہ بہت رویا اور پھر اسے صبر آہی گیا۔

    چند دن بعد ننھّے کے تمام رشتے دار بھی اپنے گھروں کو چلے گئے اور وہ اکیلا رہ گیا تو گاﺅں کے چند بڑوں نے اس کی مزاج پرسی اور دل بہلانے کی غرض سے مرحوم کے گھر کا رخ کیا۔ ننّھا انہیں دیکھ کر بگڑ گیا اور بولا، ”تم لوگ اب یہاں کا رُخ مت کرنا۔ مجھے تم جیسے جاہل اور گنوار لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ گاﺅں والوں نے بڑے تحمّل کا مظاہرہ کیا اور خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

    حاجی صاحب اور امّاں بی کے انتقال کو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ خود سَر اور بدتمیز ننّھے کی غلطی کی وجہ سے گھر کے ایک حصّے میں آگ لگ گئی۔ شاید قدرت اُسے اس کے رویّے کی سزا دے رہی تھی۔ گاﺅں والوں کو اس کی خبر ہوئی تو دوڑے دوڑے آئے اور کسی طرح آگ پر قابو تو پا لیا، مگر اس وقت تک خاصا مالی نقصان ہو چکا تھا۔ دیواریں کالی ہوچکی تھیں، لکڑی کے دروازے اور کمروں میں‌ موجود سامان خاکستر ہوچکا تھا۔ ننھّا شدتِ غم سے نڈھال تھا اور گھر کے سامنے زمین پر بیٹھا اپنا سَر پیٹ رہا تھا۔

    آگ بجھانے کے بعد گاؤں کے چند بڑے گامو، رستم اور شیر خان آگے بڑھے اور اس سے مخاطب ہو کہا، ”بیٹا، ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا نقصان ہے، مگر تم فکر نہ کرو، ہم ہیں تمہارے ساتھ۔“ شیر خان نے بات کرنے میں پہل کی۔ وہ ایک معمولی ٹھیکے دار تھا۔

    ”ہاں، ہم سب مل کر تمہارا مکان دوبارہ تعمیر کریں گے۔“ گامو نے کہا، جو شہر جاکر مزدوری کرتا تھا۔ ننّھے نے خالی خالی نظروں سے اِس کی طرف دیکھا۔ اس دوران دُور کھڑے دیہاتی بھی قریب آگئے اور ننھّے کی ہمّت بندھائی۔ ادھر ننّھا سوچ رہا تھا کہ یہ غریب لوگ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    چند دن گزرے تھے جب اپنے سوختہ گھر کے باقی ماندہ حصّے میں موجود ننھّے نے باہر کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا۔ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ گاؤں والے بیلچے اور پھاؤڑے لے کر جلے ہوئے مکان کا ملبا ہٹانے کی تیّاری کررہے ہیں۔ ابھی وہ کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ گامو اور شیر خان اس کے قریب آئے اور مسکراتے ہوئے کہا۔ ”ننھے میاں! گاﺅں کا ہر ہنرمند اور مزدور یہاں صفائی کرنے کے بعد تمھارا مکان دوبارہ تعمیر کرنے میں حصّہ لے گا، اور تم سے کوئی اُجرت نہیں لی جائے گی۔“

    ”اور ہاں، رنگ و روغن کا کام دو، چار دن میں نمٹا دوں گا، تم فکر نہ کرنا۔“ یہ رستم نامی رنگ ریز کی آواز تھی۔ شیر خان الیکٹریشن تھا۔ اس نے پورے گھر کا بجلی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اسی طرح گاؤں میں رہنے والے بڑھئی نے بھی دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تیّار کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ گاؤں کا ہر فرد ننّھے کے ساتھ تھا، لیکن ضروری ساز و سامان کی خریداری بھی ایک مسئلہ تھا۔ قدرت نے اس کا انتظام بھی کردیا۔ گاؤں کے ایک شخص نے حاجی صاحب سے کچھ رقم قرض لے رکھی تھی، جو اس کام کے لیے کافی تھی اور یہ وہی مہینہ تھا جس میں اس نے حاجی صاحب سے قرض لوٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے گاؤں والوں کی موجودگی رقم ننھّے کو دے دی۔

    ننھّا جان گیا تھا کہ انسان کا امیر یا غریب ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، اصل چیز انسانیت ہے۔ وہ اپنے رویّے پر گاؤں والوں سے بہت شرمندہ تھا۔ اُس دن شہر کو جانے والی پکّی سڑک سے گزرنے والوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، ایک سوختہ عمارت سے ملبا ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔

    (مصنّف: عارف عزیز)

  • قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔

    دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، ’’اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔‘‘

    کتّا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، ‘’اے دوست! اگر تُو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تُو بھی میری طرح خوش رہے گا۔‘‘

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟‘‘

    کتّے نے جواب دیا، ’’تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”

    بھیڑیے نے کہا ’’بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔‘‘

    کتّے نے کہا، ’’یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔‘‘ یہ سن کر بھیڑیا کتّے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔

    ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتّے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹّے سے پڑ گیا تھا۔

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟

    کتّے نے کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بھیڑیے نے پھر کہا، ’’اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟‘‘

    کتّے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا ’’اگر تُو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹّا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹّا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہو گا۔‘‘

    یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتّے نے کہا، ’’چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔‘‘

    بھیڑیے نے کہا، ’’اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تُو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔

  • سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی ملک پر ایک مغرور بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ ہیرے جواہرات، شان و شوکت اور اپنے جاہ و جلال کے نشے میں بدمست ہوکر رعایا کی طرف سے بالکل غافل ہوچکا تھا اور اسے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ کچھ لوگ اس کے لیے بد دعائیں کرتے تو کچھ اس کے لیے ہدایت اور نیک توفیق کے طلب گار بھی ہوتے۔

    ایک وقت آیا جب خدا نے رعایا کی سن لی۔ ہوا یہ کہ بادشاہ ایک دن نہایت شان و شوکت سے سپاہیوں کے لاؤ لشکر کو ساتھ لے کر شکار پر نکلا۔ جنگل میں اسے ایک ہرن نظر آیا، اس نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن کا تعاقب کرتے ہوئے وہ بہت دور نکل آیا اور راستہ بھٹک گیا۔ وہ اپنے محافظ دستے اور تمام درباریوں سے بچھڑ گیا تھا۔ ادھر انھوں نے بادشاہ کو بہت ڈھونڈا لیکن گھنے جنگل میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اور یوں بھی رعایا کی طرح بادشاہ کے سپاہی اور درباری سبھی اس کی اکڑ اور غرور سے تنگ آچکے تھے۔ انھوں نے اپنے فرماں روا کی تلاش بند کر دی اور واپس لوٹ گئے۔

    بادشاہ سارا وقت راستہ تلاش کرتا رہا، لیکن نہ تو اسے اپنے محل کی طرف جانے کا راستہ ملا اور نہ اس کے درباری۔ اس دوڑ دھوپ میں اسے پیاس لگنے لگی۔ مگر کہیں بھی پانی نہیں ملا۔ میلوں چلنے کے بعد اسے بہت دور ایک جھونپڑی نظر آئی تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے سرپٹ گھوڑا دوڑایا اور جھونپڑی تک جا پہنچا۔ وہاں ایک بزرگ بیٹھے عبادت میں مشغول تھے اور ایک طرف کونے میں پانی کا گھڑا رکھا تھا۔ بادشاہ نے بڑی بیتابی اور خشک زبان کو بمشکل حرکت دے کر بزرگ سے پوچھا، ’’پپ…پانی مل جائے گا ایک گلاس؟‘‘ ’ہاں مل جائے گا مگر ایک شرط پر‘‘ بزرگ کی پُر جلال آواز جھونپڑی میں‌ سنائی دی۔

    ’’مجھے ہر شرط منظور ہے، میں اس سلطنت کا حکم راں ہوں، پپ… پانی… پلا دو! بادشاہ نے بے تابی سے کہا، مگر اس موقع پر بھی اس نے اپنی امارت کا احساس دلانا ضروری سمجھا تھا۔

    ’’پہلے شرط سن لو۔ پانی کے گلاس کے بدلے میں تمہاری پوری سلطنت لوں گا۔‘‘ بزرگ نے درشتی سے کہا۔

    ’’پوری سلطنت؟ ایک گلاس پانی کے بدلے‘‘؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔

    بزرگ نے کرخت لہجے میں کہا۔ ’’ ہاں‘‘، ’’منظور ہے تو ٹھیک ورنہ یہاں سے چلے جاؤ اور مجھے عبادت کرنے دو۔‘‘پیاس کی شدت سے بادشاہ کو اپنا دم نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے نڈھال ہو کر کہا۔ ’’ مجھے منظور ہے، اب مجھے پانی دے دیں۔‘‘

    پانی پی کر بادشاہ کی جان میں جان آئی تو وہ بزرگ سے کہنے لگا۔ ’’وعدے کے مطابق اب میں بادشاہ نہیں رہا، آپ میری جگہ بادشاہ ہوگئے ہیں۔‘‘آپ میرے ساتھ محل چلیں اور تخت سنبھال کر مجھے وہاں سے رخصت کریں۔‘‘

    بادشاہ کی بات سن کر بزرگ نے مسکراتے ہوئے اور ایک بے نیازی کے ساتھ کہا۔ ’’ جس سلطنت کی قیمت ایک گلاس پانی ہو، اس کی حقیر بادشاہت لے کر میں کیا کروں گا؟‘‘ یہ سن کر بادشاہ بہت شرمندہ ہوا۔ اسے اپنی اصلیت کا علم ہو گیا تھا اور وہ جان چکا تھا کہ واقعی انسان کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں یا کوئی بڑی سلطنت لیکن جب وہ مجبور ہو تو اس کی قیمت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔

    باشاہ کے دل سے شان و شوکت اور اپنی امارت کا سارا ذوق و شوق اور ہر آرزو گویا جاتی رہی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آج اسے ہدایت ملی۔ بادشاہ نے ایک اچھے حکم راں کے طور پر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب اس بزرگ نے بادشاہ کو گھنے جنگل سے نکالا اور محل تک پنہچایا۔ اس موقع پر بادشاہ نے بزرگ سے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اور اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا رہے گا۔

    (ماخوذ از بادشاہ کی کہانیاں)

  • کہانی ایک جھیل کی…

    کہانی ایک جھیل کی…

    دور بہت دور، شہروں سے بہت دور، ایک ہرا بھرا، خوب صورت اور پرسکون جنگل تھا۔

    اس جنگل کے بیچوں بیچ ایک بہت حسین چھوٹی سی جھیل تھی۔ اس جھیل کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کی تہ میں اگے ہوئے پودے اور گھاس تک صاف نظر آتے تھے۔ جھیل کی تہ میں پڑے ہوئے پتھر بہت خوب صورت اور چمکیلے تھے۔ اس کی مچھلیاں اتنے پیارے رنگوں کی تھیں کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔

    جھیل کا پانی اتنا میٹھا تھا کہ جو ایک دفعہ پی لے بس وہیں کا ہو جائے۔ جھیل کے چاروں طرف گھنے اور اونچے اونچے درخت تھے جو ہوا میں اس طرح جھومتے تھے جیسے وہ جھیل کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ ان درختوں کے قدموں میں پودے اگے ہوئے تھے جن پر طرح طرح کے رنگ برنگے پھول کھلتے۔ ان پھولوں پر تتلیاں ناچتیں۔ بھونرے آتے، کیڑے مکوڑے اور مینڈک بھی وہاں خوشی خوشی رہتے تھے۔ درختوں پر پیارے پیارے پرندوں کا بسیرا تھا۔

    جھیل اور جنگل کی ہوا بہت صاف اور صحّت بخش تھی۔ جنگل کے درندے اور چرندے بھی وہاں پانی پینے آتے تھے تو اس کی خوب صورتی، سکون اور صاف اور میٹھے پانی سے اتنے متاثر ہوتے تھے کہ کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔

    یہ جنگل، یہ جھیل، اس کا پانی، اس کی ہوا، پودے، پرندے، پھول، کیڑے مکوڑے، مچھلیاں درخت اس کے پتھر اور اس کے جانور، یہ سب اس جھیل اور جنگل کے ماحول کا حصہ تھے۔ یہ ماحول ہماری دنیا کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک نعمت تھا۔

    لیکن پھر پتا ہے کیا ہوا؟ کس طرح انسانوں کو اس جھیل کے بارے میں پتا چل گیا اور انسانوں نے وہاں جانا شروع کردیا۔ جو لوگ شروع شروع میں وہاں گئے وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے نہ تو جھیل کو گندا کیا، نہ پھول توڑے اور نہ پرندوں کا شکار کیا۔ وہ لوگ جھیل پر جاتے، اس کی خوب صورتی، سکون اور اس کی صاف و شفاف اور صحت بخش ہوا سے لطف اٹھاتے اور واپس آجاتے۔

    یہ جھیل اتنی خوب صورت تھی کہ جلد ہی دور دور تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ یہ جھیل اتنی مشہور ہوگئی کہ ہزاروں انسانوں وہاں پہنچنے لگے۔ اوّل تو ان کی گاڑیوں اور بسوں کا دھواں وہاں کی ہوا کو گندا کرنے لگا۔ پھر لوگوں نے وہاں گندگی بھی پھیلانی شروع کردی۔ لوگ وہاں پکنک پر جاتے اور کھانے پینے کی بچی ہوئی چیزیں اور کچرا ادھر ادھر پھینک دیتے۔ جھیل کے پانی میں طرح طرح کی چیزیں پھینکتے، مچھلیاں پکڑتے، پرندوں کا شکار کرتے، پھول تو توڑتے ہی، پودے تک اکھاڑ لیتے۔ کھانا پکانے کے لیے گھاس، پتے اور درختوں کی ٹہنیاں جلاتے، جس کا دھواں بھی ہوا میں مل جاتا تھا۔

    یہ سب حرکتیں بہت بری تھیں اور انہیں پتا نہیں تھا کہ وہ کتنی بری بے وقوفی کر رہے ہیں۔

    اس ساری گندگی اور اوندھی سیدھی حرکتوں نے ماحول کو تباہ کردیا۔ صاف ہوا صاف نہ رہی۔ جھیل کا صاف اور میٹھا پانی کالا اور بدمزہ ہوگیا۔ تہ میں پڑے ہوئے رنگین پتھر کالے اور بدصورت ہوگئے۔ مچھلیاں مرنے لگیں۔ پرندے دوسرے علاقوں کو پرواز کر گئے۔ جانور دوسرے جنگل میں چلے گئے۔ تتلیاں غائب ہوگئیں۔ پودے اور سبزہ ختم ہوگیا۔ درختوں کے کٹنے سے مٹی ہوا میں اڑنے لگی۔ اس طرح ایک حسین جھیل اور پیارا ماحول برباد ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے پودوں، درختوں اور ہوا کا خیال نہیں رکھا۔ آلودگی یعنی گندگی پھیلائی۔

    جانتے ہو اس ساری آلودگی کا نتیجہ کیا نکلا؟ بارشیں ہونا بند ہوگئیں، کیوں کہ درختوں کے کٹنے سے بارش کم ہوجاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ پورے علاقے میں فصلیں تباہ ہوگئیں۔ کھیت سوکھ گئے۔ لوگ غریب ہوگئے۔ ان کے پاس کھانے کو اناج بھی کم رہ گیا۔

    اب تو لوگ بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ یہ کیا ہوا؟ اور کیسے ہوگیا؟ ادھر جنگل کے بچے کھچے پرندے اور جھیل کی مچھلیاں بھی چپکے چپکے روتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ ہمارا جنگل دوبارہ اگا دے، ہماری جھیل کا پانی صاف کردے، بارش برسا دے اور ان انسانوں کو اتنی عقل عطا فرمادے کہ وہ اپنے ماحول کی ساری آلودگیاں ختم کردیں۔

    آخر کچھ عقل مند لوگوں نے اس مسئلے پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب ہم انسانوں کی غلطی سے ہوا ہے۔ تب انہوں نے اعلان کروا دیا کہ کوئی بھی درخت کو نہ کاٹے۔ نہ تو گھاس اکھیڑے اور نہ خواہ مخواہ آگ جلائے۔ اس کے بعد سب نے فیصلہ کیا کہ ہر آدمی ایک درخت لگائے گا۔ لوگوں نے درخت لگائے۔ پودوں اور گھاس کی دیکھ بھال کی۔ بغیر ضرورت کے آگ جلانا بند کر دیا۔ آخر اللہ تعالی کو ان پر رحم آیا اور ایک روز بارش ہوئی۔ جھیل میں صاف پانی آگیا۔ پودے اور درخت دوبارہ اگنے لگے، لیکن آلودگی سے ماحول کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اتنی جلدی اور آسانی سے پورا نہیں ہوتا۔

    یہی وجہ ہے کہ جھیل ابھی تک پہلے کی طرح خوب صورت، صاف اور صحت بخش نہیں ہوسکی، لیکن اب وہاں کے لوگ اس کے ماحول کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور شاید ایک دن جھیل پھر اتنی ہی خوب صورت ہوجائے، اس کا پانی پہلے کی طرح صاف اور شفاف اور میٹھا ہوجائے۔

    آپ بھی اس کے لیے دعا کریں اور اگر آپ کے گھر کے پاس کوئی جھیل، کوئی درخت، پودے یا سبزہ ہے تو اس کو بچانے کی کوشش کریں۔ ہماری دنیا کو اس کی بہت ضرورت ہے۔

    (مصنّف: رؤف پاریکھ)

  • چور

    چور

    رات کے دو بج رہے تھے۔ سلو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔

    ہُوا یوں تھا کہ اسکول سے واپس آ کر وہ سو گیا تھا۔ پھر رات کے کھانے کے بعد اس نے بھائی جان کے ساتھ کافی کی ایک پیالی پی لی تھی۔ اب بھائی جان تو رات دیر تک پڑھتے رہتے تھے، مگر وہ تو زیادہ سے زیادہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک سو جاتا تھا۔ وہ اپنے بستر پر نیم دراز، باہر تاروں بھری رات کا نظارہ کر رہا تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا اور چاندنی سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ سامنے باغ کے درخت بالکل خاموش تھے۔

    ایک دم سلو کو آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے نظریں گھما کر دیکھا اور باغ کی دیوار پر اس کی نگاہ ٹھہر گئی۔ ایک شخص دیوار پھاند کر اندر کودا اور بہت احتیاط سے دبے پاؤں گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ سلو صاحب کی تو جان ہی نکل گئی۔ اب وہ کیا کرے؟ اس وقت تو بھائی جان بھی سو گئے ہوں گے۔ وہ بہت احتیاط سے اٹھا اور چور کی طرح ہی دبے پاؤں چلتا ہوا نیچے بھائی جان کے کمرے میں آ گیا۔

    "کیا بات ہے سلو؟” بھائی جان نے پوچھا۔

    "شش بھائی جان!” سلو نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا۔ وہ ان کے بالکل قریب پہنچ گیا اور کان میں سرگوشی کر کے بولا۔

    "گھر میں چور گھس آیا ہے۔ بھائی جان بڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔

    "سلو اگر یہ مذاق ہے تو تمہاری خیر نہیں۔”

    "بھائی جان! میں مذاق نہیں کر رہا۔ میں نے خود ایک آدمی کو اندر کودتے دیکھا ہے۔ وہ باغ سے ہوتا ہوا گھر کی طرف آیا ہے۔”

    بھائی جان بستر سے نکلے اور کمرے سے باہر آ گئے۔ سلو ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ دونوں بغیر آواز بلند کیے گھر کی کھڑکیوں سے باہر جھانک رہے تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ چور اس وقت کہاں ہے۔ آخر سیڑھیوں کی کھڑکی سے وہ نظر آ گیا۔ باہر کچھ خالی ڈبے پڑے ہوئے تھے وہ انہیں ٹٹول رہا تھا۔ بھائی جان اور سلو نے اوپر بچوں کے کمرے میں آ کر چیکو اور نازک کو جگایا۔ پہلے تو انہوں نے بھائی جان کی بات کو مذاق سمجھا مگر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو دونوں خوف زدہ ہو گئے۔

    چیکو بھائی جان کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور نازک نے ذرا اونچی آواز میں کہا: ہائے اللہ! مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں تو ڈر سے مر ہی جاؤں گی۔ چور ہمیں مارے گا تو نہیں؟

    بھائی جان غصے سے بولے: "نازک! آہستہ بولو، ورنہ میں ایک تھپڑ لگاؤں گا۔”

    اس بات پر سلو اور چیکو کی ہنسی چھوٹ گئی۔ "کچھ شرم کرو۔ ہم مصیبت میں پھنسے ہیں اور تم ہنس رہے ہو۔” بھائی جان نے انہیں ڈانٹا مگر پھر خود بھی ہنس پڑے۔ "اب کیا کروں اس چور کا؟” وہ سوچنے لگے۔

    "بندوق ہوتی تو گولی ہی مار دیتے۔” سلو نے کہا۔ پھر چاروں نیچے اتر کر سیڑھیوں کی کھڑکی سے لگ کر چور کو دیکھنے لگے۔ وہ اب دوسری چیزیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی حرکات میں ایک بے چینی تھی۔ جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔ انہیں حیرت ہوئی کہ وہ کوڑے کی بالٹی بھی ٹٹول رہا تھا۔

    "کوئی ایسا طریقہ نہیں ہو سکتا کہ یہ خود ہی ڈر کے بھاگ جائے۔” چیکو نے کہا۔

    "نہیں ہمیں اس طرح کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔” بھائی جان نے کہا” سلو! وہ جال کہاں ہے جو میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے دریا پر لے جاتا ہوں؟”

    "باورچی خانے میں پڑا ہے۔”

    "بغیر آواز پیدا کیے وہ اٹھا لاؤ۔” سلو جلدی سے جال لے آیا۔ بھائی جان نے جال کی ،مضبوطی کو دیکھا اور پھر بچوں سے کہا: "دیکھو! یوں کرتے ہیں کہ میں چھت پر جاتا ہوں۔ سلو! تم جس طرح چچا حمید کی نقل اتارتے ہو، اسی بھاری آواز میں چور سے کہنا خبردار جو اپنی جگہ سے ہلے ورنہ گولی مار دوں گا۔ اس کی توجہ تمہاری طرف ہو گی تو میں اس پر جال پھینکوں گا اور خود بھی نیچے کود کر اس کو قابو کر لوں گا۔”

    "ٹھیک ہے بھائی جان!”

    "ذرا سی غلطی ہوئی تو ہم مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کے پاس بندوق ہے، پھر بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔”

    اب چور پر قابو پانے کی تیاری ہونے لگی۔ سلو، چیکو اور نازک باورچی خانے کی کھڑکی سے لگ کر کھڑے ہو گئے اور بھائی جان جال اور رسیاں کندھے پر ڈال کر چھت پر چڑھ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ چور اب باورچی خانے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف سلو نے دل کی دھڑکنوں کو قابو کیا اور چچا حمید کی آواز بنا کر کہا:

    "چور کے بچّے! اپنی جگہ سے نہ ہلنا ورنہ گولیوں کی بوچھاڑ سے تمہارا پیٹ اس طرح پھاڑوں گا کہ ڈاکٹر بھی نہیں سی سکے گا۔”

    چور ڈر کر پیچھے ہٹا اور بھائی جان نے اس پر جال پھینک دیا۔ وہ جال میں الجھ کر زمین پر گر گیا، اوپر سے بھائی جان نے کود کر اس کو قابو کر لیا۔ سلو اور چیکو بھی دروازہ کھول کر باہر آ گئے اور چور کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ وہ کراہنے لگا۔ بھائی جان نے جلدی جلدی اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھے اور اسے اٹھا کر کچن میں لے آئے۔ نازک نے بتی جلا دی۔ بھائی جان نے دروازہ بند کیا اور چور کو کرسی پر بٹھا کر رسیوں سے باندھ دیا۔

    "مجھے چھوڑ دو، خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔” چور چلّایا۔

    "اگر تم چاہتے ہو کہ میں یہ ڈنڈا مار کر تمہارا سر نہ کچل دوں تو خاموش رہو۔” سلو نے کہا۔

    جب بھائی جان نے اسے باندھ کر اپنا اطمینان کر لیا تو اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور اس کے سر پر سے جال اتار دیا۔

    اف اللہ کتنی سخت بو اٹھ رہی ہے پسینے کی۔ چور صاحب! آپ نہاتے نہیں ہیں؟ آپ کو اتنا تو خیال ہونا چاہیے کہ اگر آپ چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو آپ کو پکڑنے والوں کا اس بدبو سے کیا حال ہو گا۔” نازک نے اپنے نازک خیالات کا اظہار کیا۔ پھر وہ بھاگ کر اپنے کمرے سے پرفیوم لے آئی اور چور پر بہت سا پرفیوم چھڑک دیا۔ "ہاں اب کچھ بہتر ہے۔”

    "تم لوگ اس کی نگرانی کرو۔ میں پولیس کو فون کر کے آتا ہوں۔” بھائی جان جانے لگے تو چور بولا:

    "خدا کے واسطے پولیس کو فون نہ کرنا، میں تمہاری منت کرتا ہوں۔ میں پہلے ہی برباد ہوں اور برباد ہو جاؤں گا۔ جو جی چاہے سزا دے لو، مگر پولیس کو مت بلانا۔”

    "فضول باتیں نہ کرو۔ سزا دینا میرا کام نہیں ۔ تم نے رات کے وقت چوری کی نیت سے ہمارے گھر میں کود کر جرم کیا ہےجس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی۔” بھائی جان نے غصے سے کہا۔

    "تمہیں ان پیارے بچوں کی قسم، پولیس کو نہ بلانا۔ تم جو کہو گے میں کرنے کو تیار ہوں۔”

    "اچھا اگر ہم تمہیں بجلی کی تاروں کو گیلے کپڑے سے صاف کرنے کو کہیں تو کیا تم یہ کام کرو گے؟” چیکو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے۔

    "چھوڑیں بھائی جان پولیس کو "سلو نے کہا” میں اسے سزا دینے کے لیے کافی ہوں۔ اسے بیس گلاس پانی کے پلاتے ہیں۔”

    "گرم گرم چائے بنا کر اس کے سر پر انڈیل دیں۔” سلو نے ایک تجویز پیش کی۔

    "اس سے دس ہزار دفعہ لکھوائیں کہ میں آئندہ کبھی چوری نہیں کروں گا۔”

    نازک نے اپنا نازک سا مشورہ دیا۔ بھائی جان کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ پھر وہ چور کے سامنے سٹول پر بیٹھ گئے اور اس سے پوچھا:

    "کیوں بھئی! ان بچّوں کے سارے مشورے مان لیں یا پولیس کو فون کر دیں؟”

    یہ سنتے ہی چور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بھائی جان اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔

    "کیا ہوا ہے، کیوں روتے ہو؟”

    "میں تین دن سے بھوکا ہوں۔” اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر رہے تھے۔

    "تو پہلے بتاتے ناں اس وقت سے اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو، چلو خیر آج تم ہمارے مہمان ہو۔”

    سلو ٹوکری میں سے سیب نکال لایا اور چھیلنے شروع کیے۔ چیکو سیب کے ٹکڑے چور کے منہ میں ڈالتا جاتا تھا۔ وہ ہر ٹکڑے پر انہیں دعا دیتا تھا "جیتے رہو! اللہ کبھی تمہارا رزق تنگ نہ کرے۔” دوسری طرف نازک بھائی جان کی مدد کر رہی تھی۔

    "لو بھئی چور صاحب!” بھائی جان نے کہا "جتنی دیر ہم آپ کے لیے مرغ پکائیں، اتنی دیر آپ سلو اور چیکو کے ہاتھ سے سیب کھائیں۔ معاف کیجیے گا ابھی آپ کے ہاتھ نہیں کھولے جا سکتے۔”

    "کب سے چوریاں کر رہے ہو؟” سلو نے پوچھا۔

    "میں چور نہیں ہوں، مجبوری میں پہلی بار چوری کرنے نکلا تھا اور پہلی بار ہی پکڑا گیا۔”

    "اناڑی جو ہوئے "چیکو نے اس کے منہ میں سیب کا ٹکڑا ڈالتے ہوئے کہا۔ "ہمیں دیکھو! خانساماں مشکل سے مشکل جگہ بسکٹ چھپا کر رکھتا ہے پھر بھی ہم ڈھونڈ نکالتے ہیں۔” سب ہنسنے لگے۔ چور بھی ہنس پڑا۔

    "تمہیں کیا مجبوری ہے؟” بھائی جان نے کہا "اچھے خاصے جوان آدمی ہو۔ محنت کیوں نہیں کرتے؟”

    "بابو جی! اگر کوئی دن رات دل لگا کر محنت کرے اور پھر بھی اسے فاقے کرنے پڑیں تو آدمی کہاں جائے؟ میں تو اب خدا سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے بچّوں کو موت ہی دے دے۔”

    "اللہ رحم کرے، ایسا کیا ہو گیا تھا؟”

    "میں ایک کوٹھی میں خانساماں تھا۔ بہت بڑا گھر تھا۔ اس میں ایک ہی خاندان کے تیس افراد رہتے تھے۔ ہفتے کے سات دن میں ان سب کا تین وقت کا کھانا پکاتا تھا۔ سخت گرمی میں چولہے کے آگے کھڑے گھنٹوں گزر جاتے تھے۔ ان کے مرد چار چار روٹیاں کھاتے تھے۔ بچے وقت بے وقت کھانے کی فرمائشیں کرتے تھے۔ سب کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے مجھے روزانہ کئی طرح کے کھانے پکانے پڑتے تھے اور تنخواہ بہت کم تھی۔ میں مجبور تھا۔ مشقت کرتا رہا۔

    پھر ایک دن انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا۔ بڑے صاحب نے مار مار کر مجھے ادھ موا کر دیا۔ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس شرط پر پولیس کو خبر نہیں کریں گے کہ میں نقصان پورا کر دوں۔ وہ لوگ طاقت ور تھے اور میں کم زور۔ کیا کرتا؟ اپنا سب کچھ بیچ کر میں نے ان کے پیسے پورے کیے۔ تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے۔ میرے بچّے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ مجھ سے ان کا رونا نہیں دیکھا جاتا۔” اس کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے۔ سبھی اس کی درد بھری داستان سن کر متاثر ہو گئے۔ نازک کی آنکھوں میں تو آنسو آ گئے۔

    "فکر نہ کرو۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔” بھائی جان نے اسے تسلی دی۔

    سلو اور چیکو اٹھ کر اپنے کمرے میں گئے۔ اپنی پرانی کتابیں اور اپنی الماری سے فالتو کپڑے اور جوتے ایک تھیلے میں ڈال کر لے آئے۔ بھائی جان نے پہلے ہی اپنے کچھ کپڑے اور جوتے خیرات کرنے کے لیے الگ کر کے رکھے تھے۔ وہ بھی لا کر رکھ دیے گئے۔ انہوں نے فریج میں سے تقریباً سارا سامان پنیر، ڈبل روٹیاں، انڈے، سبزیاں، دودھ اور گوشت وغیرہ نکال کر اس کے لیے باندھ دیا۔

    مرغ تیار ہو گیا تو بھائی جان نے سلو اور چیکو کو دے دیا۔ وہ نوالے توڑ توڑ کر چور کو کھلانے لگے۔ دو تین نوالے کھانے کے بعد چور بڑی عاجزی سے بولا:

    "بابو جی! جب تک میرے بچّے فاقہ کر رہے ہیں۔ میں بے چین رہوں گا۔ آپ کی بڑی مہربانی مجھے جانے دیں تاکہ میں جلدی سے بچّوں تک کھانا پہنچا سکوں۔”

    بھائی جان نے اس کی رسیاں کھول دیں پھر وہ سامان اٹھا کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ بچّے اور بھائی جان اسے باہر جاتے دیکھ رہے تھے۔ وہ مسلسل آنسو بہا رہا تھا اور انہیں دعائیں دیتا جا رہا تھا۔

    "ویسے میری بڑی خواہش تھی کہ کبھی چور سے مقابلہ ہو اور میں کرکٹ کے بیٹ سے اس کی مرمت کروں۔ مگر یہ چور تو بےچارہ شریف نکلا۔” سلو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے اور اپنے بستروں پر سونے چلے گئے۔

    (مؤلفہ سیّدہ شگفتہ)

  • ایک گیند پر پندرہ رن!

    ایک گیند پر پندرہ رن!

    میں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ یہ کہانی کرکٹ کی نہیں، کتّے کی ہے۔

    ہمارے بھائی جان نے ایک کتّا پال رکھا تھا۔ لاکھوں کتّوں کی طرح اس کا نام بھی موتی تھا۔ لیکن بھائی جان کا خیال تھا کہ وہ لاکھوں میں ایک تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ بھائی جان کا ذرا زیادہ ہی لاڈلا تھا۔ اسے نہلاتے، دھلاتے، ٹہلانے لے جاتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے۔

    موتی بھی ان کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا۔ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا، ان کے جوتے اٹھا کر لاتا، ان کے سودے کی ٹوکری اٹھا کر چلتا، اور ان کے اشاروں پر طرح طرح کے کرتب بھی دکھاتا۔ بھائی جان بھی ہروقت اسے سدھارنے کی فکر میں رہتے۔ ان کا بس چلتا تو موتی کو پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیتے۔

    میرے خیال میں موتی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بھائی جان کی کرکٹ ٹیم کا اہم کھلاڑی تھا۔ گیند تو وہ بڑی خوب صورتی سے سنبھالتا۔ بس ہاتھ میں بلّا پکڑنے کی کسر تھی۔ موتی بھائی جان کے بہت سے کام کرنے لگا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ گیند کو ہٹ لگا کر وہ خود تو کھڑے رہیں اور ان کی جگہ موتی دوڑ دوڑ کر رن بنائے۔

    ایک دن بھائی جان کسی ٹیم کے خلاف دوستانہ میچ کھیل رہے تھے۔ بیٹنگ کرتے ہوئے، انھوں نے اپنے دوست کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی۔ موتی سمجھا کہ اسے بلایا گیا ہے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جھٹ میدان میں کود پڑا۔ اسی دوران بھائی جان نے ایک چوکا مارنے کی کوشش کی۔ گیند ابھی باؤنڈری لائن تک نہیں گئی تھی کہ موتی نے اسے اپنے منہ میں دبوچ لیا اور رن بناتے بھیا کے ساتھ خود بھی دوڑنا شروع کردیا۔

    اب عالم یہ تھا کہ میدان میں ایک کتّا اور دو کھلاڑی سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور سارے تماشائی پیٹ پکڑ کر ہنس رہے ہیں اور ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جارہے ہیں۔ تو اس طرح موتی نے ایک گیند پر پندرہ رن بنانے میں مدد کی۔

    بھائی جان بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

    (از: عبدالحمید بھکر)

  • حقّا تُو مولٰی تُو…

    حقّا تُو مولٰی تُو…

    کہتے ہیں بعض پرندوں کی بولیاں اور جو مختلف آوازیں وہ اکثر نکالتے ہیں، وہ بے مقصد، مہمل اور لایعنی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا اور ایسے کلمات ادا کرتے ہیں جو غور سے سننے پر ہماری سمجھ میں بھی آسکتے ہیں۔

    ایسی کئی کہانیاں اور حکایات مشہور ہیں جنھیں ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ یہ لیلیٰ خواجہ بانو کی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس کے کردار فاختہ اور کوّا ہیں۔

    یہ دل چسپ اور سبق آموز والدین اپنے بچّوں کو سنا سکتے ہیں۔

    بچاری فاختہ جہاں دیکھو دیوار پر حقّا تو حقّا تو کہا کرتی ہے۔ اصل میں یہ اللہ میاں سے فریاد کرتی ہے۔ کیوں کہ کوّے نے اس پر بڑاظلم کیا ہے۔

    سنا نہیں؟ لوگ کہا کرتے ہیں محنت کریں بی فاختہ، کوّا میوہ کھائے۔ اس کی کہانی اس طرح ہے کہ ایک دفعہ کوّے اور فاختہ نے مل کر باغ لگایا تھا اور دونوں محنت اور نفع میں ساجھے تھے۔

    پہلے دن جب باغ میں پودے لگانے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس گئی اور اس سے کہا چل کوّے چل کر باغ میں درختوں کے پودے لگائیں۔ کوّے نے جواب دیا۔

    تُو چل میں آتا ہوں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو کو پیتا ہوں، پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے کوّے کی بہت راہ دیکھی۔ جب وہ نہ آیا تو اس نے خود اکیلے ہی محنت کر کے پودے لگا دیے۔ اس کے بعد باغ میں پانی دینے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس پھر گئی کہ چلو چل کر پانی دے آئیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا کہ:

    تو چل میں آتا ہوں، ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو پیتا ہوں پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے پھر بہت راہ دیکھی مگر کوّا نہ آیا تو بچاری نے خود ہی پانی بھی دے لیا۔ اس کے بعد باغ کی رکھوالی کا وقت آیا۔ تب بھی کوّے نے یہی جواب دیا۔ جب میوہ پک گیا تو فاختہ پھر گئی کہ چلو چل کر میوہ توڑ لائیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا۔

    فاختہ نے میوہ توڑنے کی محنت اٹھائی اور میوہ باغ میں ایک جگہ جمع کردیا۔ دوسرے دن کوّے کے پاس گئی کہ چلو چل کر میوہ لائیں تو کیا دیکھتی ہے کہ کوّا گھر سے غائب ہے۔ وہ فوراً باغ میں گئی تو دیکھا سارا میوہ کوئی لے گیا۔ یعنی کوّا اس کے آنے سے پہلے آیا اور سب میوہ اٹھا کر کسی اور گھر میں لے گیا۔

    فاختہ بے چاری بہت روئی پیٹی۔ مگر کیا کر سکتی تھی۔ خدا کے سوا کوّے سے بدلہ کون لے سکتا تھا۔ اس واسطے وہ اس دن سے جب بولتی ہے یہی بولتی ہے، حقّا تُو، حقّا تُو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الہٰی تُو حق ہے، میرا حق کوّے سے دلوا۔

  • "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    ایک بادشاہ کو اس کے وزیروں اور مشیروں نے بتایا کہ حضور آپ کی سلطنت میں دو ایسے شخص بھی رہتے ہیں جن سے ان کے اڑوس پڑوس والے بے حد تنگ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں دربار میں طلب کرکے سرزنش کی جائے۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ مجھے ان کے متعلق تفصیل بتاؤ تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان کا قضیہ دربارِ شاہی میں لانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

    وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت ان دونوں میں سے ایک حاسد ہے اور ایک بخیل، بخیل کسی کو کچھ دینے کا روادار نہیں اور حاسد ہر کسی کے مال سے حسد رکھتا ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    اگلے روز جب دونوں بادشاہ کے حضور پیش ہوئے تو، بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں کے متعلق مشہور ہے کہ ایک حسد میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا حد درجے کا کنجوس ہے، کیا یہ سچ ہے؟

    وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے نہیں بادشاہ سلامت، یہ سب افواہیں ہیں، جو نجانے کیوں لوگ پھیلا رہے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر کہا، اچھا پھر میں تم دونوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، وہ انعام تم دونوں کی مرضی کا ہوگا، جو مانگو گے ملے گا، اور جو پہل کرتے ہوئے مانگ لے گا اسے تو ملے گا ہی مگر دوسرے کو وہی انعام دگنا کرکے دیا جائے گا۔

    اب دونوں کشمکش میں گرفتار ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرا ہی پہل کرے، کنجوس نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلے بول کر زیادہ انعام سے محروم رہوں، اور حاسد اسی سوچ میں تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میں مانگوں، اس کا دگنا انعام اس بخیل کو بھی ملے۔ وہ بھی بنا مانگے۔ اس کشمکش میں دنوں نے کافی وقت گزار دیا مگر بولنے میں پہل کسی نے بھی نہ کی۔

    اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ان دونوں پر ایک جلّاد مقرر کیا، اسے حکم دیا کہ تین تک گنتی گنو اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی بولنے میں پہل نہ کرے تو قید خانے میں ڈال دو،

    جلّاد نے جیسے ہی گننا شروع کیا تو حاسد فوراً بول اٹھا۔

    "بادشاہ سلامت، میری ایک آنکھ نکال دیجیے!”

    (قدیم عربی حکایت سے ماخوذ)

  • بھونرا

    بھونرا

    آج ننّھی کنول کو زکام ہو گیا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔

    گھر میں امّی اور نرسری میں آنٹی بہت منع کرتیں، بہت روکتیں، آنٹی نرسری میں سمجھاتیں، مگر ربر کے غباروں میں پانی بھر کر اس کا فوّارہ بنانا، اسے دوسروں پر پھینکنا اور پانی کے سارے کھیل اسے بہت اچھے لگتے تھے اور ننگے پاؤں گھومنے میں تو اسے بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بس پھر اسے زکام ہو گیا۔ ناک سے پانی، آنکھوں سے پانی، آنکھیں لال۔

    ’’آچھیں‘‘ کھوں، کھوں اور پھر بخار بھی ہوگیا۔ اب وہ نرسری کیسے جاتی۔ تو اسے چھٹی کرنی پڑی۔

    گھر پر اکیلے لیٹے لیٹے اس کا جی بہت گھبرا رہا تھا۔ امّی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں۔ بہن بھائی سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اور ابّا اپنے دفتر۔ پڑوس کے بچّے بھی سب اپنے اپنے اسکول جاچکے تھے اور باہر گلی میں کھیلنے پر امّی بہت خفا ہوتی تھیں۔

    جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تو وہ چپکے سے اٹھی اور گھر کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور آہستہ آہستہ اپنی گیند سے کھیلنے لگی۔ مگر اکیلے کب تک کھیلتی۔ بس اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔

    رنگ برنگی تتلیاں ،لال پیلی نیلی تتلیاں، پھولوں پر ناچتی پھررہی تھیں۔ وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھونرے پر پڑ گئی۔

    بھن بھن کرتا کالا کلوٹا بھونرا جلدی جلدی ایک پھول سے دوسرے پھول پر اور دوسرے سے تیسرے پر اڑتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کسی پھول پر بیٹھتا تو پھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔ ننّھی کنول تھوڑی دیر بھونرے کوغور سے گھورتی رہی اور پھر جیسے کوئی اپنے آپ سے بولنے لگے، اس نے بولنا شروع کردیا۔

    ’’میاں بھونرے۔ میاں بھونرے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ سب تتلیاں تو کتنی رنگ برنگی اور سندر ہیں؟‘‘

    ننّھی کنول ایک آواز سن کر ایک دم چونک پڑی۔

    ’’کیا تم میری کہانی سنو گی؟‘‘ اس نے پھر وہی آواز سنی اور پھر اسے یقین ہوگیا کہ یہ بھونرے کی ہی آواز ہے۔ بھونرا بھن بھن کررہا تھا۔ اور اسی میں سے یہ آواز آرہی تھی۔

    ’’کیوں!‘‘ کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں سنو! بھونرے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے، چاندی، ہیرے سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے، ہیرے موتی کے پردے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔ یہ پھول، پتّے، ہری ہری گھاس سب سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اور ہاں مجھے چڑیو ں کی چوں چوں، کبوتروں کی غٹرغوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔

    بس میں نے ایک دم حکم دیا۔ یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتّے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔ چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں، ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا‌ں باندھی جائیں۔‘‘

    ’’بس میراحکم ہونے کی دیر تھی۔ تمام باغ اجڑ گئے۔ چڑیاں مرگئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘

    ’’کیا ہوا‘‘؟ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میرے دیس کے بچے جو باغوں میں کھیلتے پھرتے تھے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے وہ سب اداس ہوگئے۔ اور پھر بیمارہوگئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ اس لیے بچّوں کے ماں باپ پریشان ہوگئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور ایک دن دیس کے سارے بچوں نے اور ان کے ماں باپ نے میرے محل کو گھیر لیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔ میرے سارے بدن پر کالک مل دی۔

    انہوں نے کہا تم نے ہمارے دیس کو اجاڑ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو دکھی کر دیا ہے۔ انہیں بیمار ڈال دیا ہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کا ہے۔ جاؤ، یہاں سے چلے جاؤ۔ باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں، ہری ہری گھاس اور جھومتے پودوں کو لے آؤ، ان سب ناچتی گاتی چڑیوں اور رنگ رنگیلی تھرکتی تتلیوں کو لاؤ جنہیں تم نے دیس سے بھگا دیا ہے۔ ان سب کو منا لاؤ تو اس دیس میں آنا۔

    ’’بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھر رہا ہوں، میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتّوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھررہا ہوں۔ ننھی کنول! کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کے لیے کہہ دوگی۔ اب مجھے پھولوں ،پتّوں، کلیوں، تتلیوں، چڑیوں سب سے بہت پیار ہو گیا ہے۔‘‘

    ننھی کنول کی امی کو جب اپنے کام سے ذراچھٹی ہوئی تو وہ اسے دیکھنے اس کے بستر کے پاس آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی اک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سورہی ہے اور ایک بھونرا اس کے پھول جسے لال لال کلے کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اُڑ رہا ہے۔

    (مصنّف: سیدہ فرحت)

  • ایک غریب بادشاہ کی کہانی!

    ایک غریب بادشاہ کی کہانی!

    ابا جان بھی بچوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ وہ چپ نہ رہ سکے۔ بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں!

    ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا۔‘‘ ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی:

    کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
    مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
    نہ آتا تھا کوئی بھی اس کے قریب

    بادشاہ اور غریب۔ سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں۔ ابا سنا رہے تھے:

    کیے ایک دن جمع اس نے فقیر
    کھلائی انہیں سونے چاندی کی کھیر
    فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
    امیروں وزیروں سے کہنے لگا
    کہ آؤ چلو آج کھیلیں شکار
    قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
    مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
    کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
    تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
    کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
    مگرمچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
    سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں

    ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہو کر ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا ۔ کہنے لگے ’’یہ تو عجیب بے معنی کہانی ہے، جس کا سر نہ پیر۔‘‘

    ابا جان بولے ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

    منجھلے بھائی نے کہا ’’سمجھ میں تو آتی ہے مگر پتہ نہیں چلتا۔‘‘ یہ سن کر سب ہنس پڑے ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے اور پتہ نہیں چلتا۔‘‘ آپا نے کہا۔

    ’’ابا جان بادشاہ غریب تھا۔ تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں کیسے رکھ لیا۔ مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا مطلب کیا ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھر سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڑے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگرمچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘

    ننھی بولی’’توبہ توبہ۔ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا جان نے کہا’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔ ہوا یہ کہ:

    سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
    وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
    مرے پاس دال اور آٹا نہیں
    تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
    یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
    کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
    وہیں ایک مکھی کا پر کٹ گیا
    جلاہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا

    یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا’’یہ کہانی تو کچھ اول جلول سی ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا تھا۔‘‘

    ننھی نے کہا ’’خاک مزا آتا ہے۔ تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہوں۔ ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا۔ تو پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا نے کہا ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ:

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور

    ’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے—تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’بھئی مجھے کیا معلوم۔ کہانی بنانے والے نے یہی لکھا ہے۔‘‘

    ’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے؟‘‘

    ’’حفیظؔ صاحب نے۔‘‘

    ’’ابا اب میں سمجھا۔ اب میں سمجھا۔ آگے سنائیے ابا جان جی۔‘‘ ابا جان آگے بڑھے۔

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
    لگا ناچنے سانپ کی دُم پہ مور
    کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
    بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
    کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
    لیے شیر سے بیر چہیا نے چھین

    چوہیا نے شیر سے بیر چھین لیے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری ذہانت آزمانے کے لیے کہانی کہہ رہے ہیں۔ اماں جان بھی ہنستی ہوئی بولیں ’’اور تو خیر، یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی۔ سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہئے کہئے آگے کہئے۔ ابا جان نے کہا ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے۔ ہاں میں کیا کہہ رہا تھا۔

    لیے شیر سے بیر چہیانے چھین
    یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
    اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
    وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
    ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے

    بھائی جان نے قہقہہ مارا۔ ’’ہہ ہہ ہا ہا۔ لیجیے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا بھی آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی۔‘‘ منجھلے بولے، ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘ ابا جان نے کہا۔ ’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔ کمند ہوا چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘

    آپا نے پوچھا۔’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں؟‘‘ مگر ننھی اب بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور بسورنے لگی، ’’اوں اوں اوں۔ کہانی ختم کیجیے۔ واہ ساری کہانی خراب کر دی۔‘‘ ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی:

    غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
    چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
    مگر راہ میں چیونٹیاں آ گئیں
    چنے جس قدر تھے، وہ سب کھا گئیں
    بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
    لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی

    اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

    (اس کہانی کے خالق مشہور شاعر، ادیب اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری ہیں)