Tag: بچوں کی کہانی

  • کھلونوں کی شکایت

    کھلونوں کی شکایت

    بچپن میں ہم سب ہر پریشانی، غم اور ہر طرح کے مسائل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ بچّوں کو فکر ہوتی ہے تو صرف اپنے کھیل کود کی اور نئے نئے کھلونے جمع کرنے کی۔

    اردو ادب میں بچّوں کی تفریح کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ادیبوں نے کہانیاں لکھی ہیں جن میں سے ایک ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    یہ کہانی والدین بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں یا جو بچّے اردو پڑھنا جانتے ہیں، انھیں اے آر وائی کی ویب سائٹ پر خود اس کہانی کو پڑھنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ سادہ زبان اور عام فہم انداز میں لکھی گئی یہ کہانی نہایت دل چسپ ہے اور بچّوں میں شعور اور احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

    اس کا عنوان ہے ’’کھلونوں کی شکایت۔‘‘ آئیے کہانی پڑھتے ہیں۔

    ’’یااللہ! میں اور کتنے دن یوں پلنگ کے نیچے گندی سندی پڑی رہوں گی؟‘‘ نوری نے آزردگی سے سوچا۔

    ابھی پچھلے دنوں ہی زینب نے اس کی شادی کا کھیل کھیلا تھا۔ خوب صورت لال رنگ کا لہنگا اور سنہری بیل والا دوپٹہ پہنا کر اس کو دلہن بنایا تھا۔ سَر پر ستاروں کا ٹیکا اور گلے میں موتیوں کا ہار تھا۔

    زینب کی ساری سہیلیوں نے اس کی تعریفیں کی تھیں اور اب کوئی اس کا یہ حلیہ دیکھے۔ دوپٹہ غائب، لہنگا دھول مٹی میں اٹا اور ٹیکا سنہری بالوں میں الجھا اور گلے کا ہار ٹوٹ کر موتی ادھر ادھر پڑے تھے، لیکن زینب کو کچھ خیال ہی نہیں تھا کہ اس کی گڑیا کہاں اور کس حال میں ہے؟

    غم کے مارے نوری کی آہ نکل گئی۔ ’’کیا ہوا نوری کیوں رو رہی ہو؟‘‘ پلنگ کے نیچے مزید اندر کی طرف پڑے گھوڑا گاڑی کے گھوڑے نے نوری سے پوچھا۔ اسی گھوڑے پر دلہن بنا کر نوری کو بٹھا کر لایا گیا تھا۔ اس وقت اس گھوڑا گاڑی کی شان دیکھنے والی تھی۔ پچھلی نشست پر سرخ کپڑا بچھا تھا، سامنے گھوڑا گاڑی کا کوچوان ہیٹ لگائے بیٹھا تھا۔ چاروں پہیے سلامت تھے۔

    زینب کے چھوٹے بھائی بلال نے دلہن کو احتیاط سے سوار کرایا اور زینب کے اس بستر کے پاس غالیچے پر گھوڑا گاڑی کو آہستہ آہستہ لے کر آیا۔

    یہ غالیچہ دراصل شادی ہال بنایا گیا تھا۔ زینب اور بلال دونوں نے اپنے اپنے دوستوں اور سہیلیوں کو اس شادی میں بلایا تھا، جو بہت خوشی اور انہماک سے دلہن کی گھوڑا گاڑی کو آتے دیکھ رہے تھے۔

    واہ کیا شان دار استقبال ہوا تھا۔ ایک طرف زینب کی سہیلیاں استقبالیہ گیت گارہی تھیں اور دوسری طرف بلال کے دوستوں نے بانسری، ڈف، پیپڑی (منہ سے بجانے والا کھلونا) جو کچھ میسر تھا سب کے ساتھ دلہن کا استقبال کیا۔

    ایک زبردست شور اور ہنگامہ تھا۔ اس شور و ہنگامے کے درمیان زینب نے اپنی گڑیا دلہن نوری کو احتیاط سے گھوڑا گاڑی سے اتارا اور آہستہ آہستہ چلا کر چھوٹی میز پر بنائے گئے اسٹیج پر لے جاکر صوفے پر بٹھا دیا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گلابی گدّوں والے صوفے نوری کو بہت پسند تھے اور پھر یوں سب کے سامنے دلہن بن کر بیٹھنا بھی کیسی شان دار بات تھی۔

    زینب کی گڑیا نوری بہت معصوم شکل والی گڑیا تھی، جس کے سنہرے بال اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اس دن لال گلابی اور سنہری کر دوپٹہ پہن کر ستارے والا ٹیکا اور موتیوں کا ہار پہن کر تو نوری بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ گلابی گدّیوں والے صوفے پر بیٹھ کر وہ سب کو دیکھ رہی تھئ، لیکن یہ مزے کا دن کتنی جلدی گزر گیا۔ اس کے بعد زینب کو ہوش ہی نہیں آیا کہ اس کی گڑیا کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔

    ’’سچ ہے خوشی کے لمحے بہت جلدی گزر جاتے ہیں۔‘‘ نوری نے ایک سسکی لے کر گھوڑا گاڑی کے گھوڑے سے کہا۔

    ’’ہاں! ٹھیک کہا۔ دیکھو ابھی میری گاڑی کہاں ہے؟ مجھے نہیں پتا۔ میری ایک ٹانگ میں موچ آگئی ہے اور اب میں ایسی حالت میں پڑا ہوں۔ نہیں معلوم کتنے دن تک مجھے ایسے ہی پڑے رہنا ہوگا۔‘‘ گھوڑا گاڑی سے الگ پڑے گھوڑے نے اداسی سے کہا۔

    ’’ارے بھئی تم لوگ تو ابھی سے گھبرا گئے۔ مجھے دیکھو میں تو پچھلے پورے ماہ سے ایسا بے حال پڑا ہوں۔‘‘ پلنگ کے دوسرے کونے میں پڑا رنگ برنگا لٹّو بھی بول اٹھا جو بہت دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔

    ’’میرے ساتھ تو ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلال مجھے چابی دے کر زور زور سے گھماتا ہے اور جب میں نیچے کہیں جاکر پھنس جاتا ہوں تو وہ مجھے بھول جاتا ہے، کبھی پلنگ کے نیچے، کبھی الماری اور کبھی صوفے کے نیچے پڑے پڑے بے حال ہوتا رہتا ہوں۔‘‘ لٹّو نے بھی اپنی شکایت سنائی۔

    ’’پھر تم کیسے باہر نکلتے ہو؟‘‘ نوری نے ہمدردی سے پوچھا۔

    ’’میں بس اسی صورت میں باہر آتا ہوں جب امی جان ماسی کو کہتی ہیں کہ آج سب چیزوں کو ہٹا کر جھاڑو دینا۔‘‘

    ’’ہائے ہائے ہماری بھی کیا اوقات ہے؟‘‘ لٹّو نے مایوس ہو کر کہا۔

    نوری بولی: ’’اوقات تو ٹھیک ہی ہے، بس ہمیں شکایت ہے بچّوں سے کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلتے تو ہیں لیکن ہمارا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ہمیں سنبھالتے نہیں ہیں۔ ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ یوں ہم ایسے ہی دھول مٹّی میں رُلتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’امی جان نے بھی زینب کو کئی دفعہ سمجھایا ہے، لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ نوری نے افسوس سے کہا۔

    ’’کیا بچّوں کو ہماری یاد بالکل بھی نہیں آتی؟‘‘ پاؤں کی موچ سے پریشان گھوڑے نے حسرت سے کہا۔

    ’’جب ہم بے جان کھلونوں کو بچّوں کی یاد آتی ہے تو بچّے بھی ضرور ہم کو یاد کرتے ہوں گے بلکہ کرتے ہیں۔ ماسی جب بھی مجھے باہر نکالتی ہیں تو بلال بہت خوش ہوتا ہے۔ مجھے صاف ستھرا کر کے دوبارہ کھیلتا ہے۔‘‘ لٹّو بولا۔

    ’’اچھا تو زینب بھی مجھے یاد کرتی ہوگی؟‘‘ نوری گڑیا نے ذرا حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں کیوں نہیں، دیکھنا جب وہ تم کو دوبارہ دیکھے گی تو کتنا خوش ہوگی۔‘‘ لٹّو نے تسلّی دی۔ یہ سن کر نوری گڑیا خوشی سے مسکرائی۔ گھوڑے گاڑی کے گھوڑے نے بھی حوصلہ پکڑا۔

    ’’اللہ کرے کوئی ہماری شکایت بچّوں تک پہنچا دے کہ وہ کھیلنے کے بعد ہم کو سنبھال کر رکھا کریں تاکہ وہ بھی خوش رہیں اور ہم بھی۔‘‘

    (مصنّف: نامعلوم)

  • بلّی کے گلے میں گھنٹی!

    بلّی کے گلے میں گھنٹی!

    برکت فلور مل چوہوں کی ایک قدیم اور وسیع ریاست تھی۔ گندم کی بوریوں کے ساتھ سوکھی روٹیوں کی بوریاں بھی موجود ہوتی تھیں تاکہ دونوں کو ملا کر آٹا تیار کیا جاسکے اور یوں حاجی برکت علی کی آمدنی اور لوگوں کے پیٹ کے امراض میں اضافہ ہوتا رہے۔

    جب گندم اور سوکھی روٹیوں کی نئی کھیپ آتی تو چوہوں کی عید ہوجاتی۔ جب سیر ہو کر کھانے کے بعد ان کے پیٹ لٹک جاتے تو وہ نئے نئے خواب دیکھنے لگتے اور اس قسم کی تقریریں ہوتی۔

    ایک بزرگ چوہا اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے بولے۔

    ’’میرے عزیز ہم وطنو! آخر ہم کب تک چوہے دانوں اور بلّی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ آخر کب وہ انقلاب آئے گا جب ہر گودام، ہر باورچی خانہ اور ہر پرچون کی دکان پر ہماری حکومت ہوگی؟‘‘

    اگلا نوجوان چوہا دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر پہلوانوں کی طرح ران پر ہاتھ مارتے ہوئے۔

    ’’اس بار نامراد بلّی مجھے نظر آجائے پھر دیکھنا اس کا کیاحشر کرتا ہوں۔ ظلم سہنا بھی ظالم کی حمایت ہے۔‘‘

    اگلا ضعیف چوہا کھانستے ہوئے۔ ’’ہم صدیوں سے بلّی کے مظالم سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں اگر ہم بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے میں کام یاب ہو جائیں تو ہم ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘

    بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی تدبیر واقعی چوہوں کی قوم میں ایک عرصہ سے گردش کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں کچھ سنجیدہ اور انقلابی اقدامات بھی ہوئے لیکن کام یابی حاصل نہ ہوسکی۔ ایک بار چند نوجوان وہ گھنٹہ گھسیٹ لائے جو اسکول میں لکڑی کے ہتھوڑے سے بجایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھاری تھالی نما گھنٹہ سپاہیوں سے سنبھل نہ سکا اور دو تین اسی کے نیچے دب کر رحلت فرما گئے۔ دوسری بار کچھ کم فہم نوجوان کسی بیل کی گھنٹی گھسیٹ لائے۔ اس کے گھسیٹنے میں ایسا شور مچا کہ سوئی ہوئی بلیاں جاگ گئیں اور یوں تمام انقلابی بلّیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    جو جو ایک نہایت چالاک شریر اور نڈر چوہا تھا۔ والدین کے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ چوہے دان میں لگا مکھن پنیر یا ڈبل روٹی کا ٹکڑا صاف نکال لاتا اور چوہے دان کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا۔ جو جو بھی اپنے بزرگوں کے دعوے اور احمقانہ تقریریں سنتا رہتا۔ آخر اس نے بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا بیڑا اٹھایا۔

    اس نے اپنے تینوں دوستوں چوں چوں، گو گو اور چمکو کو اپنی اسکیم تفصیل سے سمجھائی اور تنبیہ کر دی کہ اس اسکیم کی اطلاع کسی بزرگ کو نہ دی جائے۔

    چمکو کا گھر بوتل گلی کی مشہور دکان عطر ہاؤس میں تھا۔ چاروں دوست وہاں سے ایک خوب صورت سنہری عطر کی خالی شیشی لے کر آئے اور اسے صاف کر کے ایک مخمل کی ڈبیا میں رکھ دیا۔

    اگلے دن چاروں دوست وہ شیشی لے کر پھول باغ پہنچے۔ ایک کیاری میں چنبیلی کے پھول آنکھیں موندے سورہے تھے۔ جو جو نے ان کی نازک گردن ہلا کر کہا۔

    ’’چنبیلی بہن! معاف کرنا ہم آپ کی نیند میں مخل ہوئے۔ آپ کی بہت مہربانی ہو اگر آپ اپنی خوشبو کے چند قطرے عنایت کردیں۔‘‘ چنبیلی نے مسکراتے ہوئے چند قطرے شیشی میں ٹپکا دیے۔

    اس کے بعد چاروں دوست گلاب کے پاس گئے جو کھکھلا کر بلبل سے باتیں کر رہا تھا۔ چوں چوں نے گلاب کو سلام کر کے کہا۔

    ’’پھولوں کے راجہ اگر آپ ہمیں اپنی خوشبو کے چند قطرے دے دیں تو آپ کا بہت احسان ہوگا۔‘‘

    ’’ارے ہمارا تو کام ہی خوشبو بانٹنا ہے۔ بھر لو شیشی۔‘‘ گلاب نے ہنس کر کہا۔

    یوں چاروں دوست بیلا، چمپا، رات کی رانی، دن کا راجہ کے پاس بھی گئے اور ان کی خوشبوؤں کے قطرے بھی حاصل کر لیے اور سنہری شیشی پتوں میں چھپا دی۔

    بلّیوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے تھے اور برکت فلور مل پر مانو چمپا کی حکومت تھی۔ جو جو کو علم تھا کہ بائیس جنوری کو بی چمپا کی سالگرہ ہے اور اس دن فلور مل کی چھت پر علاقہ کی بلّیاں جمع ہو کر جشن منائیں گی اور یوں اس دن چاروں دوست اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر ایک چوہے گاڑی پر وہ خوشبوؤں سے بھری شیشی لاد کر اس وقت چھت پر پہنچے جب بلّیوں کا جشن عروج پر تھا۔

    فرش پر ایک سفید دستر خوان پر گوشت کی بوٹیوں، نرم نرم ہڈیوں اور مچھلیوں کا ڈھیر تھا۔ مٹی کے کونڈوں میں دودھ بھرا ہوا تھا۔ چاروں دوست ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئے۔

    کچھ دیر بعد جب بی چمپا کی نظر ان چاروں پر پڑی تو اس کی دُم اور کمر کے بال کھڑے ہوگئے اور اس نے چیخ کر کہا۔’’تم! تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہماری محفل میں آنے کی۔‘‘

    ایک اور مہمان بلّی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔’’چلو اچھا ہوا۔ اب کھانے کے مینو میں ان چاروں کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

    جو جو نے ادب سے سر جھکا کر کہا۔

    ’چمپا بہن ہماری نیّت صاف ہے۔ ہم لوگ آپ کی سالگرہ پر ایسا نایاب تحفہ لے کر آئے ہیں کہ آپ کا دل باغ باغ ہوجائے گا۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جب جو جو نے خوشبو کی شیشی کا ڈھکنا کھولا تو مست کر دینے والی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔

    مانو چمپا نے حیرت سے سنہری شیشی کی طرف دیکھا اور پھر چند قطرے اپنے ریشمی بالوں پر لگا لیے جس سے اس کے پورے جسم سے خوشبوؤں کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔

    چمپا نے خوش ہو کر کہا۔ ’’واقعی تم لوگوں کا تحفہ لاجواب ہے۔ اس لیے ہم اس خوشی میں آج تم لوگوں کو نوش فرمانے کا ارادہ ترک کرتے ہیں۔‘‘

    اس کے بعد جب بھی بی چمپا خوشبو لگا کر نکلتیں تو چاروں طرف مہک پھیل جاتی اور تمام چوہے محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے اور یوں جو جو کی عقل مندی سے آخر کار چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے بجائے انھیں خوشبو میں معطّر کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ان کا بلّی سے ہوشیار رہنے کا خواب پورا ہوگیا۔

    (مصنّف: وقار محسن)

  • ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا۔ مینا کا گھر موم کا تھا اور کوّے کا نون کا تھا۔

    مینا نے ایک دن کھچڑی پکائی۔ بازار بند ہوگیا تھا۔ نمک نہ ملا تو اس نے اپنے بچّے کو کوّے کے پاس بھیجا کہ اپنے گھر میں سے ذرا سا نون دے دے۔ مینا کے بچّے نے جب کوّے سے یہ بات جاکر کہی تو کوّا بہت خفا ہوا اور کہنے لگا جا، جا بڑا بچارا نمک مانگنے والا آیا، تیری ہنڈیا کی خاطر میں اپنے گھر کی دیوار توڑ دوں، تب تجھ کو نمک دوں؟ ایسے بیوقوف مینا کے محلّہ میں رہتے ہوں گے۔

    مینا کا بچہ اپنا سا منہ لے کر ماں کے پاس آگیا اور اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کی کہ الہٰی گھمنڈ کرنے والوں کو نیچا دکھا، یہ دعا کرنی تھی کہ ایسا مینہ برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ کوّے کا گھر تو نون کا تھا، سب بہہ گیا۔ مینا کا گھر موم کا تھا، اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا۔

    جب کوّے کا گھر برباد ہوگیا تو وہ مینا کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا بی مینا رات کی رات مجھے اپنے گھر میں ٹھہرا لو۔ مینا نے جواب دیا تُو نے غرور کا کلمہ بولا تھا اور مجھ کو نمک نہ دیا تھا، خدا نے اس کا بدلہ دکھایا ہے، اب میں تجھے گھر میں کیوں ٹھہراؤں، تُو بڑا خود غرض اور خدا کا گنہگار بندہ ہے۔ کوّے نے بہت عاجزی کی تو مینا کو ترس آگیا اور اس نے خیال کیا ایسا نہ ہو خدا مجھ سے بھی ناراض ہوجائے کہ تُو نے مصیبت زدہ کی مدد کیوں نہ کی، اس واسطے اس نے دروازہ کھول دیا اور کوّے کو اندر بلا لیا۔

    کوّے نے کہا آپا مینا میں کہاں بیٹھوں۔ مینا بولی چولھے پر بیٹھ جا۔ کوّے نے کہا۔

    میں جَل مروں گا، میں جَل مروں گا۔

    مینا نے کہا اچّھا جا میری چکّی پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں پس مروں گا، میں پس مروں گا۔

    مینا نے کہا اچھا میرے چرخے پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں کٹ مروں گا، میں کٹ مروں گا۔

    تو مینا نے کہا اچھا کوٹھری میں جا بیٹھ، وہاں میرے چنے بھرے ہوئے ہیں، ان کو نہ کھا لیجو۔ کوّے نے کہا، توبہ ہے آپا مینا، تم بھی کیسی بدگمان ہو۔ تم مجھ پر احسان کرو، گھر میں جگہ دو اور میں تمہارے ہاں چوری کروں گا۔ توبہ توبہ، اس کا تو خیال بھی نہ کرنا۔

    مینا نے کوٹھری کھول دی اور کوّا اندر جاکر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کو مینا کی آنکھ کھلی تو کوٹھری میں کچھ کھانے کی آواز آئی۔ مینا نے پوچھا بھائی کوّے کیا کھا رہے ہو۔ بولا آپا مینا میری سسرال سے بن آئے تھے۔ وہ سردی میں چبا رہا ہوں۔

    مینا چپکی ہوئی۔ پچھلی رات کو مینا کی آنکھ پھر کھلی تو کھانے کی آواز آئی اور مینا نے پھر پوچھا تو کوّے نے وہی جواب دیا۔

    کوّا سب جانوروں سے پہلے جاگا کرتا ہے۔ مینا ابھی بچھونوں سے اٹھی بھی نہ تھی جو کوّا کوٹھری سے نکل کر بھاگ گیا۔ مینا نے اٹھ کر دیکھا تو ساری کوٹھری خالی تھی۔ کوّے نے سب چنے کھالئے تھے۔

    مینا نے کہا، بد ذات اور شریر کے ساتھ احسان کرنے کا یہ بدلہ ملتا ہے۔

    (از قلم لیلیٰ خواجہ بانو)

  • پُراسرار دستانے

    پُراسرار دستانے

    مصنّف: مختار احمد

    عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔ خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔

    عظیم کے والد بغرضِ ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔ یہ گاوٴں، دیہات اور ایک بڑے دریا سے ملحق بہت ہی خوب صورت اور پرسکون شہر تھا۔

    عظیم کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس کے اسکول اور محلے کے تو کئی دوست تھے مگرخالہ زاد اور ممانی زاد بہن بھائیوں کی تو بات ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے آنے کی خبر سے وہ بہت خوش ہوا تھا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ پرسوں اس کی چودھویں سال گرہ بھی ہے، سب لوگ ہوں گے اور خوب مزہ آئے گا۔

    چوں کہ ٹرین لیٹ ہو گئی تھی اس لیے وہ سب رات کو دیر سے گھر پہنچے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اور باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ صبح کسی نے اسکول تو جانا نہیں تھا، اس لیے سونے کی کسی کو فکر بھی نہیں تھی۔ عظیم کی امی کو صبح جلدی اٹھنا تھا کیوں کہ اس کے ابّو کو آفس جانا تھا اور انھیں ناشتہ تیار کر کے دینا تھا، اس لیے وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ وہ گئیں تو یہ محفل بھی برخاست ہوگئی۔ آنے والے مہمان کافی تھکے ہوئے تھے، گھوڑے بیچ کر سو گئے۔

    عظیم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور پروگرام بنا رہا تھا کہ خالہ اور ممانی کے بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارے گا۔ نیند تو خیر اس کو آگئی تھی مگر وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ تھکن کی وجہ سے مہمان مزے سے سو رہے تھے۔ عظیم نے ہاتھ منہ دھویا، امی کے ساتھ نماز پڑھی۔ امی تو کچن میں مصروف ہو گئیں اس نے سوچا کہ باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا خوری کرلے۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور کافی اندھیرا تھا۔

    وہ گھر سے قریب ایک پارک میں پہنچ گیا۔ اونچے اونچے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندوں کا شورسنائی دینے لگا تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی، گرم سویٹر پہننے کے باوجود اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر سے چلتے ہوئے اس کی امی نے اسے مفلر بھی تھما دیا تھا جسے اس نے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔

    پارک سنسان پڑا تھا لیکن جب اس نے غور سے دیکھا تو پارک میں نصب آخر والی بینچ پر اسے کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آیا کہ یہ کوئی بچے پکڑنے والا آدمی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس کے پاوٴں من من بھر کے ہوگئے، اس سے اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں گیا۔ وہ مفلر جو اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اچانک اس کے گلے سے نکلا اور اڑتا ہوا اس شخص کی جانب چل دیا جو دور بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’امی۔۔۔۔!‘‘ عظیم کے منہ سے بے اختیار خوف بھری ایک چیخ نکلی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کی جان نکل گئی ہے۔ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ اتنے اندھیرے میں گھر سے نکل کر یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس واقعے نے اسے اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔

    اس کے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ نے اس کے رگ و پے میں خوف کی سنسناہٹ دوڑا دی۔ وہ شخص اٹھ کر اسی کی طرف آنے لگا تھا۔ عظیم کا ڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس سے چیخا بھی نہیں جا رہا تھا، ایسا معلوم دیتا تھا جیسے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

    ’’ماں کے لاڈلے۔ یہ لو پکڑو اپنا مفلر۔‘‘ قریب آنے والے اس شخص نے کہا۔ اب عظیم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔

    ’’بھائی تم کون ہو؟‘‘عظیم نے تھوک نگل کر پوچھا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے تو بھائی بھائی کر رہے ہو۔‘‘ وہ لڑکا بڑی خوش دلی سے ہنسا، مگر پھر فوراً ہی اداس ہوگیا: ’’میں بہت بدنصیب ہوں۔ میرے لیے اب عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا ایک خواب ہی ہے۔‘‘

    اس کے دکھ بھرے لہجے سے عظیم متاثر ہو گیا ۔ کچھ پوچھنے کے لیے اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا ان کے قریب سے اڑتی ہوئی گزری، اس پراسرار لڑکے نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنی مٹھی کھولی، چڑیا آگے جاتے جاتے بجلی کی تیزی سے پلٹی اور اس لڑکے کی مٹھی میں آگئی۔

    یہ دیکھ کر عظیم کے جسم پر کپکی طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور پیٹ میں جیسے کوئی چیز زور زور سے گھومنے لگی۔ اس سے کھڑا رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور خوف بھری نظروں سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑی چڑیا کو فضا میں اچھال کر اسے اڑا دیا اور خود بھی عظیم کے پاس بیٹھ گیا۔

    عظیم اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا:’’میں امی کے پاس جاوٴں گا۔‘‘

    لڑکا ہنس پڑا۔ ’’ہو تو تم میرے ہی جتنے مگر دودھ پیتے بچے بن رہے ہو۔ مجھ سے ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گا۔ دیکھو میں نے تمہارا مفلر بھی واپس کر دیا تھا، اگر میں چاہتا تو اس کو لے کر بھاگ بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم بہت عجیب سے ہو۔ ‘‘ عظیم نے تھوک نگل کر کہا۔ ’’تم کوئی جادوگر ہو، تم نے لڑکے کا روپ دھار رکھا ہے۔‘‘

    ’’اگر میں جادوگر ہوتا تو کسی شہزادی کو اپنے محل میں قید کر کے اس کی خوشامد کررہا ہوتا کہ وہ مجھ سے شادی کرلے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ لڑکا ہنسا پھر اداسی سے بولا۔ ’’میرے سب دوست مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ سب لوگ مجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھومتا پھرتا ہوں، سب سمجھتے ہیں کہ میں کوئی جادوگر ہوں، حالاں کہ میں ہوں نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہو، جادوگر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘۔ عظیم نے کہا۔

    ’’میرا نام انعام ہے۔ ‘‘ اس لڑکے نے کہا۔ ’’کیا تم میری کہانی سننا پسند کرو گے۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘

    انعام کی بات سن کر عظیم کا دل بھر آیا۔ ’’ہاں ہاں، میں ضرور تمہاری کہانی سنوں گا، اچھا ہے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مجھے تو تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو بس تمہاری حرکتیں ٹھیک نہیں لگتیں۔‘‘

    اس کی بات سن کر انعام خوش ہوگیا اور اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ بد قسمتی سے اسکول میں میری دوستی چند آوارہ لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے اسکول سے بھاگنا سکھا دیا تھا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں بجائے اسکول جانے کے، دریا کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریا پر جا کر سیر کروں گا اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑوں گا۔ میں دریا پر پہنچا تو مجھے وہاں ایک بوڑھا شخص ملا۔ اس کی شکل عجیب سی اور خوف ناک تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔

    ’’مچھلیاں پکڑنے آئے ہو لڑکے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ دریا کی طرف کیا اور پل بھر میں اس کی ہتھیلی پر تین چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آکر تڑپنے لگیں۔ اس نے قریب پڑی پلاسٹک کی ایک تھیلی اٹھا کر اس میں پانی بھرا اور مچھلیوں کو اس میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں تمہاری طرح خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔ میں ایک بہادر لڑکا ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تھوڑا بے وقوف ہوں۔ میں نے بوڑھے سے پوچھا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ، لیکن اگر تم چاہو تو میں یہ طاقت تمہیں دے سکتا ہوں۔ مجھے تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو۔‘‘

    اس کی چاپلوسی کی باتیں سن کر میں خوش ہوگیا اور حامی بھر لی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی وہ شخص دستانے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے دستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو بولا۔ ’’ان دستانوں کو تم حیرت سے دیکھ رہے ہو۔ جب یہ طاقت تمہیں مل جائے گی تو تمہیں بھی ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ میں نے اس کی بات پر غور نہیں کیا، اسی سوچ میں مگن رہا کہ جب میں بھی ایسا کرنے لگوں گا تو اپنے دوستوں کو تماشا دکھا کر مرعوب کیا کروں گا۔ وہ کتنا حیران ہوں گے جب میں دور پڑی چیزوں کوایک جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے پاس منگوا لیا کروں گا۔ اس نے مجھے قریب بلایا اور بولا۔ ’’آنکھیں بند کرو اور جو الفاظ میں کہوں تم انھیں دہراتے جاوٴ۔‘‘

    میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں اس طاقت کو اپنی مرضی سے لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘میں نے وہ الفاظ بھی دہرا دیے۔ اس نے کہا ۔ ’’اب آنکھیں کھو ل دو۔ تمہیں یہ عجیب و غریب طاقت مل گئی ہے۔‘‘

    میں نے آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرے دونوں ہاتھ کلائیوں تک بالکل سیاہ رنگ کے ہو گئے تھے۔ اس شخص نے اپنی مکروہ آواز میں کہا ۔ ’’تم چاہو تو اس طاقت کو آزما سکتے ہو۔ ‘‘ میں نے دور زمین پر پڑی ایک شیشے کی بوتل کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا، وہ زمین سے بلند ہوئی اور میرے ہاتھ میں آگئی۔

    اس طاقت کو حاصل کرکے مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میرے ہاتھوں کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ اب میں اپنی امی ابّا اور دوستوں کا کیسے سامنے کروں گا، ان سے اپنے کالے ہاتھوں کے بارے میں کیا کہوں گا۔

    اس بوڑھے نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اتار کر میرے حوالے کیے اور خود ایک جانب روانہ ہوگیا۔ اس بات کو تین روز گزر گئے ہیں۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میں ان دستانوں کو پہنے پہنے تنگ آگیا ہوں۔ ان کی وجہ سے میں کوئی کام ٹھیک طریقے سے بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شیطان بوڑھا بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو میں نے تماشے تو بہت دکھائے مگر مرعوب ہونے کے بجائے وہ مجھ سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے ہیں اور بات چیت کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ اور تو اور کل میرے ابّا بھی میری امی سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ اس کو کسی سینٹر چھوڑ کر آجائیں گے، یہ ہمارا والا انعام نہیں ہے کوئی اور ہے۔ پرسوں کی بات ہے انہوں نے باہر جانا تھا، مجھ سے بولے کہ میرے جوتے اٹھا دو۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ان کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آگئے۔ ابّا گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور بولے۔ ’’ان جوتوں کو اب میں کبھی نہیں پہنوں گا، ان میں جادو لگ گیا ہے۔‘‘

    اس کی یہ کہانی سن کر عظیم کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’اس دنیا میں عجیب عجیب لوگ موجود ہیں جیسے وہ بوڑھا۔ اس نے بچہ سمجھ کر اپنی مصیبت تمہارے گلے ڈال دی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ماں باپ ہمیں اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ اجنبیوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان سے کسی قسم کی کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لوگ ہمیں مصیبتوں میں پھنسا دیتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

    انعام نے افسردگی سے کہا۔ ’’میری امی بھی مجھے بہت سمجھاتی تھیں کہ کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی بات چیت نہ کروں۔ وہ کوئی کھانے کی چیز دے تو وہ بھی نہیں کھاوٴں، ان چیزوں میں بے ہوشی کی دوا ہوتی ہے اور اسے کھلا کر وہ لوگ بچوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور اتنی سی چیز کھلا کر ان کے ماں باپ سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔‘‘

    اب چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔ عظیم نے ایک مرتبہ پھر انعام کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور بولا۔ ’’انعام بھائی کیا تم مجھے دریا پر اس جگہ تک لے جا سکتے ہو جہاں وہ خبیث بوڑھا تمہیں ملا تھا؟‘‘

    ’’وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، آؤ۔‘‘ انعام نے کہا اور دونوں چل پڑے۔ عظیم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کو انعام پر بہت ترس آرہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ انعام کو اس مصیبت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کالے ہوگئے تھے۔ وہ دعا کررہا تھا کہ وہ بوڑھا ان کو دوبارہ مل جائے۔ اور پھر اس کی دعا قبول ہو ہی گئی۔ وہ بوڑھا انھیں نظر آگیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا اس کے پانی سے گاجروں کو دھو دھو کر کھا رہا تھا۔ عظیم نے انعام کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔ اس کی بات سن کرانعام کا چہرہ جوش و مسرت سے تمتمانے لگا۔

    اس بوڑھے نے انعام کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نظر آنے لگی، وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میاں خوب مزے آرہے ہیں۔ اب تو تمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا ہوگا۔ بیٹھے بیٹھے ہی سب چیزیں تمہیں مل جاتی ہوں گی۔‘‘

    انعام نے کہا۔ ’’اپنی یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو۔ اس کی وجہ سے میرے دونوں ہاتھ بالکل سیاہ ہوگئے ہیں۔ لوگ مجھ سے ڈرنے لگے ہیں۔ میری امی تو مجھ سے اتنی خوف زدہ ہو گئی ہیں کہ انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ دھمکی بھی نہیں دیتیں کہ آ لینے دے تیرے باپ کو تیری شکایت کروں گی۔ میں کسی کا سامنا بھی نہیں کرسکتا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو دونوں ہاتھ گرم ہوجاتے ہیں۔ میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ان ہی تکلیفوں کی وجہ سے تو میں نے یہ طاقت تمہیں دی تھی۔ میں خود ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔‘‘ اس آدمی نے لاپروائی سے کہا۔ ’’میں اب اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ تم یہاں سے چلے جاوٴ۔ اگر زیادہ تنگ کرو گے تو میں تمہیں دریا میں دھکا دے دوں گا اور تمہارے ساتھ اس کو بھی جسے تم حمایتی بنا کرلائے ہو۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے۔ ‘‘ انعام نے دستانے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور بلند آواز میں بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ طاقت نہیں چاہیے۔‘‘

    اس کی بات کو سن کر بوڑھے نے ایک چیخ ماری اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عظیم اور انعام نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ انعام کے ہاتھوں کا کالا رنگ دھویں میں تبدیل ہو کر بوڑھے کی طرف پرواز کرنے لگا اور اس کے قریب پہنچ کر اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دونوں ہاتھ کالے نظر آنے لگے۔

    ’’لو۔ یہ پکڑو اپنے دستانے۔‘‘ انعام نے دستانوں کو پوری طاقت سے بوڑھے کی طرف پھینک دیا۔ اتنی دیر میں دریا کی ایک تیز لہر آئی اور اس بوڑھے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ انعام کے دونوں ہاتھ پھر پہلے کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے۔ اس نے عظیم کو گلے سے لگا لیا۔

    ’’میرے دوست۔ اگر تم وہ الفاظ مجھے نہ بتاتے جو میں نے اس بوڑھے شیطان سے کہے تھے تو مجھے کبھی بھی اس مصیبت سے نجات نہ ملتی۔‘‘

    اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ عظیم گھر پہنچا تو سارے مہمان ناشتے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’عظیم بیٹے۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ ہم ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    عظیم نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد خواتین تو باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ عظیم بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ وہاں اس نے انہیں یہ عجیب و غریب کہانی سنائی۔ تمام بچے یہ کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    عظیم نے کہا۔ ’’آج سے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اسکول جاتے ہوئے اور نہ ہی اسکول سے آتے ہوئے کسی اجنبی سے کوئی بات کریں گے تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔‘‘

    سب بچوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ وہ سب عظیم کی عقل مندی سے بھی بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے انعام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا تھا۔

  • ایک حماقت ایک شرارت

    ایک حماقت ایک شرارت

    معلوم نہیں کہ بچپن کا دور ایسا ہی سہانا، حسین، دل فریب اور سنہرا ہوتا ہے یا وقت کی دبیز چادر کے جھروکے سے ایسا لگتا ہے۔

    اب میرے سامنے میرے خاندان کی تیسری نسل کے شگوفے پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے بچوں کا بچپن اتنا پُر رونق، رنگین اور پُر جوش نہیں جیسا ہمارا بچپن تھا۔ دو تین گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کارٹون دیکھنا، ویڈیو گیم، موبائل فون اور انٹرنیٹ میں غرق بچوں کی دنیا ایک کمرہ تک محدود ہوتی ہے جب کہ ہمارے کھیلوں اور شرارتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

    اکثر ہمارے کھیلوں کے شور اور ہنگاموں سے گھر والے اور کبھی کبھی اہلِ محلّہ بھی عاجز رہتے تھے۔

    ہمارے بچپن کے محبوب کھیل آنکھ مچولی، چور سپاہی، اندھا بھینسا، اونچ نیچ اور کوڑا جمال شاہی ہوتے تھے۔ جب کچھ اور بڑے ہوئے تو گلی ڈنڈا، کبڈی، گیند تڑی، گیند بلا، فٹ بال اور پتنگ بازی کی طرف راغب ہوئے۔ لُو کے گرم تھپیڑوں اور دانت کٹکٹانے والی سردی میں بھی ہم اسی طرح ان کھیلوں میں محو رہتے۔

    بچپن کی یادوں کی کہکشاں سے ایک شرارت کا احوال بھی سن لیں۔

    ہمارے جگری دوستوں میں ایک یونس کپاڈیا تھے جن کو ہم پیار سے کباڑیا کہتے تھے کیوں کہ حلیہ سے وہ لگتے بھی ایسے ہی تھے۔ کباڑیا کا شمار محلّے کے شریر ترین لڑکوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہر روز کسی نئی شرارت کا پروگرام لے کر آتے اور کبھی کبھی ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ اکثر وہ تو اپنی چالاکی کی وجہ سے بچ کر نکل جاتے اور ہم پھنس جاتے۔

    ایک بار ہمارا دل پلاؤ کھانے کے لیے بہت مچل رہا تھا۔ دبی دبی زبان سے اماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے خوب صورتی سے ٹال دیا۔ ایک دن دوپہر کو گلی ڈنڈا کھیلنے کے بعد ہم اور کباڑیا نیم کے نیچے بیٹھے سستا رہے تھے۔ جب ہم نے ان سے پلاؤکھانے کی خواہش کا ذکر کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کچھ دیر ہونٹ سکوڑ کر سوچتے رہے پھر بولے۔

    ’’یار ایک ترکیب ہے۔ تم کہہ رہے تھے کہ جب تمہارے ماموں موتی میاں حسن پور سے آتے ہیں تو تمہاری اماں پلاؤ ضرور بناتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں وہ تو ہے لیکن فی الحال تو ماموں کے آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔

    ’’یار سنو تو۔ تم تو گاؤں کے گاؤدی ہو۔ ایسا کرو کہ ماموں کی طرف سے اپنے گھر کے پتے پر ایک خط لکھو جس میں یہ اطلاع ہو کہ تمہارے ماموں فلاں فلاں تاریخ کو تمہارے گھر پہنچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی آمد کی خبر سن کر تمہاری امی ان کی پسند کے کھانے پکائیں گی۔ ماموں نے تو آنا نہیں ہے۔ کچھ دیر انتظار کر کے گھر کے لوگ ہی وہ کھانا کھائیں گے۔‘‘

    ’’یار کباڑیا! بات تو پتے کی ہے لیکن اگر پول کھل گیا تو شامت آجائے گی۔‘‘ ہم نے خدشہ ظاہر کیا۔

    ’’اماں کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ دن بعد یہ بات پرانی ہوجائے گی۔ تمہارے ماموں کون سے روز روز آتے ہیں لیکن دوست! ہمیں بھی اس موقع پر یاد رکھنا۔‘‘ کباڑیا مسکرائے۔

    قصہ مختصر کہ دو پیسے کا پوسٹ کارڈ خریدا گیا۔ کباڑیا کی بیٹھک میں کواڑ بند کر کے ہم نے کانپتی انگلیوں سے قلم پکڑا۔ کباڑیا نے ڈانٹتے ہوئے قلم لے لیا۔

    ’’یار تم بالکل عقل سے پیدل ہو۔ ایک تو تمہارا خط اتنا خراب ہے کہ تم خود نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے علاوہ گھر میں ہر کوئی تمہاری تحریر پہچانتا ہے۔ فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ یوں خط لکھنے کے فرائض کباڑیا نے انجام دیے۔

    خط ماموں کی طرف سے ہماری اماں کے نام تھا جس میں یہ اطلاع تھی کہ ماموں ہفتہ کی شام تشریف لارہے ہیں۔ جب ہم وہ خط چوکی چوراہے کے لیٹر بکس میں پوسٹ کرنے جارہے تھے تو ڈر کے مارے پیر کانپ رہے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر ہمیں گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ بہت انتظار کے بعد جمعرات کے دن وہ تاریخی خط پہنچ گیا۔

    ہم نے دیکھا کہ دوسری ڈاک کے ساتھ وہ پوسٹ کارڈ ہمارے والد صاحب کے سرہانے رکھا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد ہمارے والد صاحب نے ہماری اماں سے کہا:’’ارے بھئی سنتی نہیں ہو (قبلہ والد صاحب ہماری والدہ کو ’’سنتی نہیں ہو‘‘ یا ’’کہاں گئیں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے) ہفتہ کی شام کو موتی میاں آرہے ہیں۔‘‘

    امّاں بہت خوش ہوئیں۔ ابھی تک ہماری اسکیم کام یاب جارہی تھی۔ ہفتہ کے دن تیسرے پہر پلاؤ کی یخنی چولھے پر چڑھ گئی۔ شامی کباب کے لیے چنے کی دال اور قیمہ سل پر پسنا شروع ہوا۔ کھانے کی خوش بُو سے شام ہی سے پیٹ میں چوہے دوڑنا شروع ہوگئے۔

    شام چار بجے ایک ایسا بم گرا کہ ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہم سائیکل پر دہی لے کر آرہے تھے۔ دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک سائیکل رکشے سے ہمارے موتی ماموں اپنا مخصوص خاکی رنگ کا تھیلا لیے اتر رہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے گلے سے لگایا۔ ہماری ایسی سٹی گم تھی کہ ہمیں ان کو سلام کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ ماموں کے خط کا ذکر ضرور آئے گا اور ہماری شرافت کا سارا پھول کھل جائے گا۔

    ماموں کے گھر میں آتے ہی ہم ان سے چپک گئے کہ جیسے ہی خط کا ذکر آئے ہم بچاؤ کی کچھ ترکیب کریں۔ دو تین گھنٹے خیریت سے گزر گئے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم سب لوگ آنگن میں بیٹھے تھے۔ ماموں محفل سجائے شکار کے فرضی قصے سنا رہے تھے۔ ہماری امّاں ادھر سے گزریں اور کہنے لگیں۔

    ’’ارے بھیا! تُو نے تو لکھا۔۔۔‘‘ اتنا سنتے ہی ہم پیٹ دبا کر ایسے کراہے کہ سب گھبرا کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ ہم پیٹ پکڑ کرپلنگ پر لیٹ گئے۔ اماں کام چھوڑ کر ہماری طرف لپکیں۔ ہمیں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے وہی مخصوص کڑوا لال شربت دے کر چکنی غذا سے پرہیز کی تاکید کردی۔

    رات کو سب لوگ دسترخوان کے گرد بیٹھے پلاؤ اور شامی کباب کے مزے لے رہے تھے اور ہم چمچے سے دلیا کھاتے ہوئے حسرت سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ گلی میں سے کباڑیا کی مخصوص سیٹی کی آواز آرہی تھی۔ شاید وہ بھی بھوک سے تلملا رہے تھے۔