Tag: بچوں کے ادیب

  • بچوں کے لیے ہزاروں کہانیاں لکھنے والے پولیس انسپکٹر

    بچوں کے لیے ہزاروں کہانیاں لکھنے والے پولیس انسپکٹر

    کراچی: بچوں کے معروف ادیب انسپکٹر احمد عدنان طارق پولیس میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اب تک ہزاروں کہانیاں اور درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔

    بچوں کے معروف ادیب ایس ایچ او احمد عدنان طارق شام رمضان کے مہمان بنے اور اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا۔

    فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے احمد عدنان نے تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی محکمہ پولیس جوائن کرلیا، ملازمت کے دوران انہوں نے ایم اے انگلش اور پھر وکالت کی ڈگری حاصل کی۔

    وہ گزشتہ کئی سال سے بچوں کے لیے کہانیاں لکھ رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی اب تک 35 سو کہانیاں مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں چھپ چکی ہیں۔

    ملک کے ایک معروف رسالے تعلیم و تربیت میں گزشتہ 130 ماہ سے ان کی کہانی شائع ہورہی ہے، اپنی کہانیوں پر مشتمل وہ اب تک 50 کتابیں لکھ چکے ہیں۔

    احمد عدنان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے کام پر 2 ایم فل تھیسز بھی لکھے جاچکے ہیں۔

    احمد عدنان کا کہنا تھا کہ سنہ 2010 میں ان کی ایک ٹانگ معذور ہوگئی تھی جس کے بعد لکھنے پڑھنے سے ان کا رشتہ ایک بار پھر قائم ہوا جو اب تک قائم ہے۔

  • باغ میں‌ تتلی

    باغ میں‌ تتلی

    نہال خوش تھا۔ بہار آئی ہوئی تھی۔ باغیچے میں پھول ہی پھول کِھلے تھے۔

    اُسے رات جلدی سونے کی عادت تھی کیوں کہ اس سے نیند برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اِدھر کھانا کھاتا اور اُدھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونا شروع ہوجاتیں۔ پاپا بڑی مشکل سے اسے تھوڑی سی واک کراتے اور پھر وہ دوڑ کر بستر پر گر جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح سویرے ابھی ممی پاپا اور گڑیا سو رہے ہوتے اور نہال جاگ جاتا۔ پھر وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر پھرتا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگ جاتا یا پھر باہر اپنے گھر کے باغیچے میں نکل جاتا۔

    اُس دن جب وہ سویرے سویرے باغیچے میں گیا تو بہت حیران ہوا۔ پودوں پر بہار ایسی اُتری تھی کہ پھول ہی پھول کِھل گئے تھے۔ باغیچے میں ہلکی سی سفید دھند پھیلی تھی۔ اُفق پر سورج نے ابھی سَر نہیں اٹھایا تھا۔ فضا بے حد خوش گوار تھی اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ اسے بڑا مزا آیا۔ رنگ برنگے پھول دیکھ کر وہ خوش ہوا اور دوڑ کر ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگا۔ سارا باغیچہ خوش بو سے مہکا ہوا تھا۔ وہ گہری سانسیں لے کر خوش بو اپنے پھیپھڑوں میں اُتارنے لگا۔

    اسے یاد آیا کہ انگلش بُک کے ایک سبق میں پارک، بہار اور پھولوں کا ذکر اس نے پڑھا تھا۔ اس نے پودوں، درختوں اور پھولوں پر نگاہ دوڑائی تو اسے یہ منظر بالکل اُسی تصویر جیسا لگا جو کتاب میں شامل تھی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی شوق سے ڈرائنگ کرتا تھا۔

    کیاری سے گزرتے گزرتے وہ سفید اور ملائم پتیوں والے پھولوں کے پاس رک گیا۔ یہ چنبیلی تھی۔ اس نے زور سے سانس کھینچی۔ یہ خوش بو اسے بہت پسند تھی۔ یکایک وہ چونکا۔

    ارے تتلی… نارنجی، سیاہ اور سفید رنگ کے پروں والی تتلی چنبیلی سے اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

    ”ارے رُکو کہاں جارہی ہو۔“ نہال بولا اور سبز گیلی گھاس پر تتلی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ ٹھنڈی گھاس اس کے تلوؤں پر گدگدی کرتی تھی۔ تتلی تھی کہ پھولوں پر سے ہوا کی طرح سرسراتی اڑتی جارہی تھی۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ نہال اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔ تتلی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ اس نے نہال کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیا۔ آخر کار وہ بے حال ہوکر رُک گیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    رنگین پروں والی بڑی تتلی بھی قریبی گلاب پر بیٹھ گئی اور نہال کو دیکھنے لگی۔ ”ٹھیک ہے‘ میں اب تمھیں نہیں پکڑوں گا۔“ نہال نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

    ”تم بھی اب مت اُڑنا۔ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کتنے پیارے، رنگین پر ہیں تمھارے۔ یہ پیلا رنگ کتنا پیارا ہے۔“ نہال نے سَر آگے کر کے اُسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ”میرے قریب مت آؤ۔“ تتلی نے اچانک اسے ٹوکا اور وہ یہ باریک آواز سن کر اچھل پڑا۔
    ”ارے تم بول سکتی ہو۔“ نہال حیران ہوا۔

    ”ہاں‘ لیکن مجھے تم پر غصہ آرہا ہے‘ تم اچھے نہیں ہو۔“ تتلی پیاری سی باریک آواز میں بولی۔

    نہال نے کہا‘ تتلی کو بھی غصّہ آتا ہے۔ تتلی تو اتنی نازک ہوتی ہے۔ غصّہ کیسے سہتی ہے؟

    تتلی بولی کہ اس کے پَروں کا رنگ پیلا نہیں نارنجی ہے۔ اچھے بچّے تتلی کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اور وہ تتلی کے نارنجی پروں کو پیلا بھی نہیں کہتے۔

    ”اچھا میں سوری کرتا ہوں بس۔“ نہال نے جلدی سے غلطی مان لی۔

    تتلی خوش ہوئی اور بولی۔ ”میرا نام مونارک ہے۔ تمھارا نام مجھے معلوم ہے۔ پاپا نے تمھارا نام نہال رکھا تھا۔“

    ”تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا؟“ نہال مزید حیران ہوا۔

    ”بس ہوگیا معلوم، یہ تمھیں نہیں بتا سکتی۔“ مونارک اِترا کر بولی۔

    ”میں نے تمھیں پہلے یہاں نہیں دیکھا۔“ نہال کہنے لگا۔ ”تم کتنی بڑی ہو، تتلی تو چھوٹی ہوتی ہے۔“

    وہ بتانے لگی کہ مونارک بڑی تتلی ہوتی ہے اور یہاں بس کبھی کبھی آجاتی ہے، وہ بھی سویرے سویرے، اور پھر چلی جاتی ہے۔

    ”تو کیا تم ابھی چلی جاؤ گی۔“ نہال اُداس ہوگیا۔

    ”ہاں۔“ مونارک نے اپنے سَر پر موجود دو انٹینا لہرا کر کہا۔ ”میں جتنی خوب صورت ہوں، اُتنی زہریلی بھی ہوں۔ مجھے کوئی جانور پکڑ کر کھاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پتا ہے میں آج بہت اداس ہوں۔“

    ”ارے تمھیں کیا ہوا، تم کیوں اداس ہو؟“ نہال نے پریشان ہوکر پوچھا۔

    ”میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ تم زہریلی ہو، ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔“ مونارک بولی۔

    نہال نے یہ سن کر جلدی سے کہا کہ آج سے میں تمھارا دوست ہوں، ہم دونوں کھیلیں گے اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ٹھیک ہے اب۔ لیکن تتلی نے اسے بتایا کہ اسے ابھی ضرور جانا ہے۔ وہ ہر سال ہزاروں میل کا سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ آج جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی تو اس کو ایک تتلی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئے تھے۔ سبھی مونارکوں کے ماں باپ اسی طرح مرتے ہیں۔ اسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مونارک رونے لگی۔ ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ نہال بھی اُداس ہوا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    مونارک کہنے لگی۔ ”نہال‘ میرے دوست، تم کتنے اچھے ہو۔ تم میرے لیے دکھی ہوگئے ہو۔“

    ”ہاں‘ میں تمھیں کبھی بھی زہریلی نہیں کہوں گا، پکّا وعدہ۔“ نہال نے کہا۔

    مونارک اپنی چھے ٹانگوں میں سے دو چھوٹی ٹانگوں سے اپنا پیٹ کھجانے لگی۔

    نہال کو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔ اور پھر کہا۔ ”مونارک‘ تم نے سچ مچ اپنے ممی پاپا کو نہیں دیکھا۔“

    ”ہاں۔“ اس نے اداسی سے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا۔ ”مونارک اپنے ماں باپ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ انڈوں سے مونارک کے نکلنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

    نہال نے بوجھل دل سے کہا۔ ”اچھی تتلی، اب تو میں تمھارا دوست ہوں۔ اب تم مت روؤ۔“

    ”ٹھیک ہے میرے دوست۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا۔“ تتلی بولی اور اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی۔ وہ اُڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ”مجھے بہت دور، دوسرے ملک جانا ہے۔ اب تمھارے ممی پاپا بھی جاگنے والے ہیں۔ وہ تمھیں تلاش کرنے ادھر آئیں گے۔“

    نہال نے پوچھا کہ کیا وہ پھر آئے گی اس باغیچے میں۔ تتلی نے کہا کہ تتلیاں بس ایک بار سفر کرتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔ پھر شاید اس کے بچّے یہاں چکر لگائیں۔

    نہال پریشان ہوگیا۔ ”تو کیا تم اپنے ننھے بچّوں کے ساتھ نہیں ہوگی‘ وہ اکیلے ہوں گے؟“

    ”ہاں۔“ وہ بولی۔ ”مونارک کے بچے یتیم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ گھبراتے نہیں ہیں۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے رنگین پَروں سے دنیا کو خوب صورت بناتے ہیں۔“ یہ کہہ کر مونارک اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

  • پھول والے دادا جی…

    پھول والے دادا جی…

    کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتّا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔

    ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا بھی اسے ہٹانے کی کوشش کرتا پوچی اتنے ہی زور سے بھوں بھوں کرتے ہوئے پھر زمین کریدنے لگتا۔ آخر بوڑھے نے پھاوڑا اٹھا کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ کھودنے پر وہاں سے ہیرے اور موتیوں سے بھرا ہوا گھڑا نکلا جسے پاکر بوڑھا بہت خوش ہوا اور سارا خزانہ لے کر اپنے گھر آگیا۔

    بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بے حد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادہ۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔

    اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لیے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتّے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچرا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔

    جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی۔ نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکّوں میں بدلنے لگا۔

    پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصّے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہوگئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔

    اسی وقت وہاں سے بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ بادشاہ نے پھولوں سے لدے پیڑوں کو دیکھا۔ اس کا دل خوش ہوگیا اور اس نے بوڑھے کو اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔

    حاسد پڑوسی نے یہ دیکھا تو بچی ہوئی راکھ اٹھالی اور بادشاہ کے راستے میں جاکر ایک سوکھے پیڑ پر راکھ ڈالی۔ پیڑ ویسا ہی ٹھنٹ بنا رہا پر راکھ اڑ کر بادشاہ کی آنکھوں میں جا پڑی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب پیٹا۔

    بوڑھا آس پڑوس میں پھول والے دادا جی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    (اس کہانی کے خالق اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد افسر میرٹھی ہیں۔ وہ بامقصد اور تعمیری ادب کے قائل تھے اور اسی خیال کے تحت انھوں نے بچّوں کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں)

  • پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    عادل اسیر دہلوی کا نام ہندوستان کے ان تخلیق کاروں‌ میں‌ اہم اور نمایاں ہے جنھوں نے بچّوں کے ادب کو متنوع موضوعات سے مالا مال کیا اور ان کے لیے سادہ و دل نشین انداز میں نہ صرف کہانیاں لکھیں بلکہ آسان اور عام فہم شاعری بھی کی۔

    1959ء میں‌ پیدا ہونے والے عادل اسیر کا تعلق دہلی سے تھا اور وہ اسی نسبت اپنے نام کے ساتھ دہلوی لگاتے تھے۔ 2014ء میں‌ بچّوں‌ کے اس بڑے ادیب اور شاعر نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ یہاں ہم ان کی ایک پہیلی (نظم) نقل کررہے ہیں جو بچّوں‌ ہی نہیں‌ بڑوں‌ کو بھی بظاہر چھوٹی سی ایک چیز کی اہمیت اور افادیت بتاتی ہے، مگر انسان کی ایجاد کردہ اور سب کے بہت کام آنے والی یہ چیز ہے کیا؟ جانیے۔

    مجھ سے بڑھی ہے علم کی دولت
    دیکھنے میں ہوں میں بے قیمت

    جاہل کو بے زاری مجھ سے
    عالم کی ہے یاری مجھ سے

    مجھ میں شیروں جیسی ہمّت
    سچّائی ہے میری طاقت

    گرچہ لگتا چھوٹا سا ہوں
    کام بڑے پَر میں کرتا ہوں

    دیکھو تو بے کار ہی سمجھو
    لیکن میں انمول ہوں بچّو

    تیر نہیں، تلوار نہیں میں
    دشمن پر بھی بار نہیں میں

    میری طاقت کو کیا جانو
    دانا ہو تو تم پہچانو

    کام عدالت میں بھی آؤں
    پیار محبت میں بھی آؤں

    خط لکھنا، پیغام بھی دینا
    ساتھ میں سب کا نام بھی دینا

    پہچانو تو کون ہوں پیارے
    آتا ہوں میں کام تمہارے

    (جواب: قلم)

  • ستارہ پری

    ستارہ پری

    ننّھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لیے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے، لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچّوں کو گود میں لیے کھڑی ہے۔ اس عورت کے بازؤوں کے ساتھ سات رنگ کے خوب صورت پَر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا جیسے تتلی کے پروں کا بنا ہو۔

    شیلا اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی۔ ’’خوب صورت عورت تم کون ہو؟‘‘

    عورت بولی۔ ’’میں ہوں ستارہ پری۔‘‘

    شیلا نے پوچھا:’’تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’ذرا مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دو۔‘‘

    شیلا کہنے لگی۔ ’’گھر میں گھس کر کیا کرو گی؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔‘‘

    شیلا نے جواب دیا۔ ’’اچھا نہلالو۔‘‘

    اب پری اپنے بال بچّوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور شیلا اپنی خوب صورت مہمان کی تواضع کے لیے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوب صورت مہمان غائب ہے، لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔

    شیلا نے حیرت سے غسل خانے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوب صورت دستانہ الگنی پر بھول گئی ہے، دستانہ پیارا تھا۔ اسے دیکھتے ہی شیلا کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔ اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔ دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔

    اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کو بہہ رہی ہیں۔ پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔ شیلا نے ایک چمچ اٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزے دار چوٹیاں کھانے لگی۔ بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اتر آئی۔ دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے۔ ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔

    ہر طرف باغ ہی باغ نظر آرہے تھے۔ جن میں رنگ برنگ شربت کے فوّارے ناچ رہے تھے۔ فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرّد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔ اس نے ایک فوّارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔ پھر دوسرے فوّارے سے پھر تیسرے فوّارے سے ،کیوں کہ ہر فوّارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔

    اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ ایک کوئل اور ایک بلبل شیلا نے پکڑ کر کھائی اور پھر آگے بڑھی۔ آگے ایک بڑا خوب صورت بازار آگیا۔ جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آتی تھیں۔ شیلا ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔

    دکانوں پر بڑی بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔ رنگ برنگ پھول، تتلیاں، ستارے، موتی، کل سے اڑنے والے پنچھی، گل دان مربّے، جام، چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔

    یکایک شیلا کو ستارہ پری اپنے بچّوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔ وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لیے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔

    شیلا چلّا کر بولی۔ ’’ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چُرا رہی ہو۔‘‘

    ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی۔ ’’شیلا میرے قریب آؤ۔‘‘

    جب شیلا اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیے اور بولی۔ ’’شیلا جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔ جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔ جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔‘‘

    اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوب صورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ شیلا کی آنکھوں سے ہٹا لیے۔ شیلا ڈر گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔ اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔

    اس کے بھیّا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔ آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔

    (اس کہانی کے مصنّف راجہ مہدی علی خاں اپنے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے لیے مشہور ہیں، صحافت اور شاعری میں بھی انھوں‌ نے خوب نام کمایا)

  • بولتا درخت

    بولتا درخت

    ٹن۔ٹن۔ٹن۔ٹن….ٹن ٹن۔ اسکول میں چھٹّی کا گھنٹہ بجا۔ استادوں نے اپنی اپنی جماعت کے بچّوں کو قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ بچّوں نے گھنٹے کی آواز کے ساتھ ساتھ استادوں کے حکم کو انتہائی خوشی سے سنا اور جھٹ پٹ مُنّے منّے ہاتھوں اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکا کر لائنوں میں جا لگے۔ قومی ترانہ گایا گیا اور بچّے پرنسپل کو خدا حافظ کہہ کر قطار در قطار اسکول سے باہر نکلنے لگے۔

    پھاٹک سے باہر کچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ، دہی بڑے، مونگ پھلی، امرود کے کچالو۔ فالسے۔‘‘ کی آوازیں لگا رہے ہیں۔ بچّے ان کے ٹھیلوں پر ٹوٹ پڑے۔ ننّھا بختیار بھی ایک ہاتھ سے اپنا بستہ، دوسرے سے نیکر سنبھالے ایک ٹھیلے کے پاس رک گیا۔ جیب سے اِکَنّی نکالی اور ٹھیلے والے سے انگلی کے اشارے سے کہا۔

    ’ایک آنہ کے فالسے دے دو۔‘ فالسے والے نے جو لہک لہک کر آواز لگانے میں مگن تھا بختیار کے ہاتھ سے اِکَنّی لے اپنی گلک میں ڈالی اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیا میں فالسے ڈالے۔ ان پر نمک چھڑکا۔ دو چار دفعہ پڑیا کو اچھالا اور بختیار کو’’لو مُنّے‘‘ کہہ کر پکڑا دی اور پھر گانے میں مصروف ہو گیا۔ وہ گا رہا تھا:۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔‘‘

    بختیار کو اس کی امّی اسکول کے لیے ایک آنہ روز دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے تو کوئی صاف ستھری چیز گھر پر لا کر کھا لے، ورنہ پیسے جمع کر کے اپنے لیے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خرید لے۔

    ننّھا بختیار اسی اِکَنّی کے فالسے کی پڑیا مٹھی میں دبا گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جا کر کتابوں کا بستہ مقررہ جگہ پر رکھا اور فالسوں کی پڑیا ماں کو دی، اپنی یونیفارم اور جوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے ماں سے کہا۔

    ’’امّی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنی مزے دار ہیں نا؟

    امّی نے کہا۔’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھر سے نمک چھڑکا۔ بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے۔ نہ جانے صاف تھے یا نہیں۔ کھانا کھا کر میں بھی دو چار کھالوں گی، باقی تم کھانا۔ فالسے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں صحّت کے لیے، مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہارا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیر دینا۔ تمہارے گھر میں فالسے ہی فالسے ہو جائیں گے۔‘‘

    بختیار کھانا ختم کر کے فالسے کھاتا جائے اور گٹھلیاں جمع کرتا جائے اور پھر اس نے وہ گٹھلیاں اپنی کیاری میں ڈال دیں۔

    کچھ دنوں بعدایک ننّھا سا پودا زمین سے نکلا۔ ننّھا بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑ کر امّی کو پکڑ لایا۔’’امی، دیکھیے میرے فالسے کا پودا نکلا۔‘‘ اسے دھیان سے پانی دیا کرو۔ کبھی کبھی زمین کی گڑائی کرتے رہا کرو۔ میں کھاد اور میٹھی مٹّی منگا کر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھر تمہارا یہ ننّھا پودا جلدی سے بڑا اور پھل دار درخت بن جائے گا۔‘‘

    ننّھا بختیار ہر روز اسکول سے آ کر دوپہر کو آرام کرنے کے بعد اپنے باغ میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرتا اور فالسے کی پتیوں کو محبت سے چومتا اور اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔

    ایک روز بختیار نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان پھولوں کا ذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔ دوستوں کا بھی دیکھنے کو جی چاہا۔ وہ بختیار کے ساتھ اس کے گھر آئے اور پھول دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ پھول توڑ کر گھر لے جائیں اور خوش ہوں مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آواز آئی جیسے کوئی درد بھری آواز سے کہہ رہا ہو’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    بچّوں نے ڈر کے مارے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہا ہو، مگر جب انہیں کوئی نظر نہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھر وہی آواز آئی۔ ’’ہائے ظالم ، مارڈالا‘‘

    اب تو سب بچّے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کو بھاگے۔ بیچارا بختیار اپنے گھر کے اندر بھاگا اور جا کر اپنی امّی کو سب حال بتا دیا۔

    امّی باہر آئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جو بچّوں کو ڈرا رہا ہے۔ امّی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کو اپنے پھولوں کے توڑے جانے کا درد ہے۔ انہوں نے بختیار کو سمجھایا ’’بیٹا یہ بھوت کی آواز نہیں ہے بلکہ درخت کہہ رہا ہے کہ میرے پھول نہ توڑو۔ ان کے توڑنے سے مجھے دکھ ہوگا، کیوں کہ پھولوں سے فالسے بنیں گے اور اگر انہیں توڑ لو گے تو میں پھول دار کیسے بنوں گا۔‘‘

    بختیار کو فالسے کے درخت سے بہت سے محبت تھی۔ فوراً ایک اچھے بچّے کی طرح اپنی ماں کی بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے ان پھولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔

    تھوڑے دنوں بعد اس درخت میں ہری ہری گٹھلیاں سی لگی ہوئی دیکھنے میں آئیں تو بختیار سمجھا کہ یہی فالسے ہیں۔ اس نے اسکول میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آرہے ہیں۔ اس کے دوستوں کو وہ پچھلا بھوت کا واقعہ کچھ یاد تو تھا مگر فالسے کھانے کے شوق میں اسکول سے واپسی پر وہ پھر بختیار کے ساتھ اس کے گھر پر آ ہی دھمکے۔ ہاتھ بڑھا کر فالسے توڑنا ہی چاہتے تھے کہ پھر وہی دردناک آواز سنائی دی۔

    ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ اوہو! بچوں کو اب پوری طرح یقین ہوگیا کہ بختیار کے فالسے کا درخت بھوتوں کا اڈّا ہے۔ بھاگے سب کے سب اور اپنے اپنے گھر جا کر ہی دم لیا۔

    ننھا بختیار یہ تماشا دیکھ کر باہر آیا۔ ’’امی سچ کہہ رہا ہوں، فالسے کے درخت کے اندر بھوت رہتا ہے۔ ابھی پھر اس میں سے آواز آئی تھی۔‘‘

    امی اپنی ہنسی روکتی جائیں اور پتّوں کو ہٹا کر دیکھنا چاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔ امّی کا ہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آگئیں۔ پھر اس میں سے آواز آئی ’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    امّی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں۔’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کا کچّا پھل توڑا جائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اس لیے یہ بچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘ ننھا بختیار کچھ سمجھا، کچھ نہ سمجھا، مگر چپ ضرور ہو گیا۔

    کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے بختیار نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آ رہا ہے۔ ہری ہری پتّیوں کی آڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اور پھلوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ بس اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اور خود بھی کھاؤں گا۔

    اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لایا۔ بچّے کہنے لگے۔’’بھئی تمہارا درخت تو بھوتوں کا اڈّا ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے؟‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھا کے فالسے توڑنے لگے، مگر اس بار درخت میں سے بڑی پیار بھری دھیمی دھیمی آواز آرہی تھی۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔ آؤ بچو…….‘‘ اور ڈالیاں تھیں کہ بچوں کے آگے محبت سے بڑھی آتی تھیں، جھکی جاتی تھیں۔

    اس روز سب بچّوں اور ننّھے بختیار نے خوب مزے لے لے کر اپنے درخت سے فالسے توڑ توڑ کر کھائے اور تھوڑے تھوڑے فالسے جیبوں میں بھر کر اپنے اپنے گھر لے گئے۔

    راستہ بھر ایک دوسرے سے کہتے تھے۔ ’’بختیار کا درخت بولتا درخت ہے، مگر ہے بڑے کام کا، ہم بھی اس کے فالسے کے بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔‘‘

  • عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    دوستو! اردو زبان کی نام وَر ادیب قرۃ العین حیدر کی تاریخِ پیدائش 20 جنوری ہے۔ وہ 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ قرۃُ العین حیدر نے دنیائے ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کی وجہ سے شہرت اور بلند مقام حاصل کیا۔ وہ ممتاز فکشن رائٹر تھیں‌ جن کا ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ بہت مشہور ہے۔ انھیں‌ علم و ادب کی دنیا کے کئی معتبر اعزازات سے نوازا گیا اور ادب کی نام وَر شخصیات نے ان کے فن اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

    آج قرۃُ العین حیدر ہمارے درمیان موجود نہیں‌، لیکن ان کی ادبی تخلیقات ہمیشہ ان کی اور ان کے کمالِ فن کی یاد تازہ کرتی رہیں‌ گی۔2007ء میں قرۃُ العین حیدر وفات پاگئی تھیں۔ انھیں ہندوستان میں‌ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    دوستو! قرۃُ العین حیدر کے یومِ پیدائش پر ان کے اس مختصر تعارف کے ساتھ ہم یہاں بچّوں کے لیے لکھی گئی اُن کی ایک کہانی بھی نقل کررہے ہیں‌۔ یہ کہانی جہاں آپ کو مطالعے کی طرف راغب کرے گی، وہیں یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث بنے گی کہ اپنے عہد کی ایک عظیم تخلیق کار کی نظر میں بچّوں‌ کی کتنی اہمیت تھی‌ کہ ان کے لیے وقت نکالا اور یہ دل چسپ کہانی بُنی۔

    "ایک پرانی کہانی”
    لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر بسنے والے تنگ آگئے تھے۔

    کبھی تو وہ کسی ننھے سے ستارے کو گیند کی طرح لڑھکا دیتا اور وہ ستارہ قلابازیاں کھاتا دنیا میں آ گرتا یا کبھی وہ انہیں اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیتا اور وہ بے چارے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے۔

    آخرایک دن تنگ آکر وہ سات ستارے جنہیں سات بہنیں کہتے ہیں۔ چاند کے عقل مند بوڑھے آدمی کے پاس گئے اور ریچھ کی شرارتوں کا ذکر کرکے اس سے مدد چاہی۔

    بوڑھا تھوڑی دیر تو سَر کھجاتا رہا۔ پھر بولا ’’اچھا میں اس نامعقول کی خوب مرمت کروں گا۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘

    ساتوں بہنوں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور خوش خوش واپس چلی گئیں۔

    دوسرے دن چاند کے بوڑھے نے ریچھ کو اپنے قریب بلا کر خوب ڈانٹا اور کہا کہ ’’اگر تم زیادہ شرارتیں کرو گے تو تم کو آسمانی بستی سے نکال دیا جائے گا۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان ننھے منّے ستاروں کی روشنی سے دنیا میں انسان اور جہاز اپنا اپنا راستہ دیکھتے ہیں، لیکن تم انہیں روز کھیل کھیل میں ختم کر دیتے ہو۔ تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جب یہ ستارے اپنی اصلی جگہ پر نہیں رہتے تو دنیا کے مسافر اور جہاز رستہ بھول جاتے ہیں۔

    میاں ریچھ نے اِس کان سنا اور اُس کان نکال دیا اور قہقہہ مار کے بولے۔ ’’میں نے کیا دنیا کے جہازوں اور مسافروں کی روشنی کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو ان کی فکر کروں۔ یہ کہہ کر ریچھ چلا گیا۔

    ریچھ کے جانے کے بعد بوڑھے نے بہت دیر سوچا کہ اس شیطان کو کس طرح قابو میں لاؤں۔ یکایک اسے خیال آیا کہ اورین دیو سے مدد لینی چاہیے۔ اورین دیو ایک طاقت وَر ستارے کا نام تھا جو اس زمانے میں بہت اچّھا شکاری سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کی طاقت کی وجہ سے سب اسے دیو کہتے تھے۔

    یہ سوچ کر بوڑھے نے دوسرے دن اورین دیو کو بلا بھیجا۔ اس کے آنے پر بڑی دیر تک دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ آج شام ریچھ کو پکڑنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ رات گئے اورین دیو نے شیر کی کھال پہنی اور ریچھ کے غار کی طرف چلا۔ جب ریچھ نے ایک بہت بڑے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ ننھے منے ستاروں سے بنی ہوئی اس سڑک پر جو پریوں کے ملک کو جاتی ہے اور جسے ہم کہکشاں کہتے ہیں، بے تحاشا بھاگا۔

    آخر بڑی دوڑ دھوپ کے بعد طاقت وَر شکاری نے میاں ریچھ کو آلیا اور ان کو پکڑ کر آسمان پر ایک جگہ قید کر دیا جہاں وہ اب تک بندھے کھڑے ہیں۔ اگر تم رات کو قطب ستارے کی طرف دیکھو تو تمہیں اس کے پاس ہی ریچھ بندھا نظر آئے گا جس کو ان سات بہنوں میں سے چار پکڑے کھڑی ہیں۔ باقی تین بہنوں نے اس کی دُم پکڑ رکھی ہے۔

    اگر تم آسمان پر نظر دوڑاؤ تو تمہیں اورین دیو بھی تیر و کمان لیے ریچھ کی طرف نشانہ لگائے کھڑا نظر آئے گا۔

    (یہ کہانی 1967ء میں‌ پٹنہ (بھارت) سے نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں‌ شایع ہوئی تھی)