Tag: بچوں کے لیے کہانیاں اور حکایات

  • ناقد (حکایت)

    ناقد (حکایت)

    ایک رات کا ذکر ہے کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار سمندر کی طرف سفر کرتا ہوا سڑک کے کنارے ایک سرائے میں پہنچا۔ وہ اترا اور سمندر کی جانب سفر کرنے والے سواروں کی طرح رات اور انسانیت پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو سرائے کے دروازے کے قریب درخت سے باندھا اور سرائے میں چلا گیا۔

    مشہور حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    رات کے وقت جب تمام لوگ سو رہے تھے ایک چور آیا اور مسافر کا گھوڑا چرا لے گیا۔

    صبح وہ آدمی اٹھا تو دیکھا اس کا گھوڑا چوری ہو گیا ہے۔ وہ گھوڑا چرائے جانے پر بیحد غمگین ہوا۔ نیز اس بات پر اسے بے حد افسوس ہوا کہ ایک انسان نے اپنے دل کو گھوڑا چرانے کے خیال سے ملوث کیا۔

    تب سرائے کے دوسرے مسافر آئے اور اس کے گرد کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔

    پہلے آدمی نے کہا کہ "کیا یہ تمہاری حماقت نہیں کہ تم نے گھوڑے کو اصطبل سے باہر باندھا۔”

    دوسرے نے کہا، "اور یہ اس سے بڑھ کر حماقت ہے کہ گھوڑے کو چھنال نہیں لگائی۔”

    تیسرے نے کہا، "اور یہ حماقت کی انتہا ہے کہ سمندر کی طرف گھوڑے پر سفر کیا جائے۔”

    چوتھے نے کہا، "صرف سست اور کاہل لوگ ہی گھوڑے رکھتے ہیں۔”

    تب مسافر بے حد حیران ہوا اور پھر وہ چلّا کر بولا: "میرے دوستو! کیا تم اس لئے میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو گنوا رہے ہو کہ میرا گھوڑا چوری ہو گیا ہے، لیکن کیا یہ عجب نہیں ہے کہ تم نے ایک لفظ بھی اس شخص کہ متعلق نہیں کہا جس نے میرا گھوڑا چرایا۔

    (عالمی شہرت یافتہ شاعر، نثر نگار اور دانش ور خلیل جبران ہیں)

  • پرانا دوست (حکایت)

    پرانا دوست (حکایت)

    یہ جب کی بات ہے جب شیر خان نے لالہ بنسی دھر سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے۔ اس وقت اس کا دوست جیون بھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لالہ نے یہ روپے چھ ماہ کی مدت پر دیے تھے۔ لیکن جب یہ مدّت گزر گئی۔ تو شیر خان نے دو ماہ کی مدّت طلب کی جو لالہ نے دے دی۔ مگر دو کیا جب چار ماہ گزر گئے اور لالہ بنسی دھر روپیہ مانگنے گیا تو شیر خان نے روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تم سے کوئی روپیہ نہیں لیا۔ جاؤ رپٹ لکھا دو تھانے میں۔

    بس اب تو بات ہی الٹ گی۔ شیر خان نے نہ صرف یہ کہ ایک سال گزر جانے پر روپے نہیں دیے، بلکہ اس بات سے ہی انکار کردیا کہ اس نے روپے لیے ہیں۔

    کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لالہ بنسی دھر کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس کو یاد آیا کہ روپیہ دیتے وقت جیون بھی وہاں بیٹھا تھا۔ جیون بڑا سچا پکا اور نمازی آدمی تھا، اسی لیے لوگ اس کو ملا جیون کہتے تھے۔ لالہ بنسی دھر نے عدالت میں درخواست لگا دی اور یہ بھی لکھ دیا کہ ملا جیون سے اس کی تصدق کر لی جائے۔

    شیر خان کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوا۔ لیکن اس کو یہ اطمینان ہوا کہ معاملہ ملّا جیون کے ہاتھ میں ہے اور ملّا جیون اس کا پکّا دوست ہے۔ وہ فوراً ملّا جیون کے پاس گیا اور سارا معاملہ اس کو سنا دیا اور یہ کہا، ’’یہ میری عزّت کا سوال ہے میں تم کو اپنی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں۔‘‘

    ملّا جیون بہت پریشانی میں پھنس گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سوچ کر کہا، ’’شیر خان اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا دوست۔ ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘

    شیر خان نے چمک کر کہا۔ پرانے کا۔ میں تو تمہارا پرانا دوست ہوں۔‘‘ شیر خان ملاّ جیون کی اس بات کی گہرائی کو نہ جان سکا اور یہ سمجھ لیا کہ وہ اسی کے حق میں گواہی دے گا۔ وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔

    چند ہفتہ بعد عدالت میں پیشی ہوئی۔ بنسی دھر نے اپنا معاملہ پیش کیا۔ جج صاحب نے بہ حیثیت گواہ ملّا جیون کو طلب کیا۔ شیر خان بہت خوش تھا۔ اس کی دوستی کام آ رہی تھی۔ ملّا جیون آیا اور بیان دیا: ’’لالہ بنسی دھر سچ کہتا ہے، اس نے شیر خان کو پانچ سو روپے میرے سامنے دیے تھے۔ شیر خان جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا اور شیر خان کو دو ہفتہ کے اندر ادائیگی کا حکم دے دیا۔

    شیر خان شیر کی طرح بپھرا ہوا ملّا جیون کے پاس آیا اور کہا ’’تم دھوکے باز ہو تم نے مجھے دھوکا دیا۔‘‘

    ملّا جیون نے نرمی سے کہا، ’’ناراض مت ہو۔ میں نے یہ کام تمہارے مشورہ سے کیا۔‘‘

    ’’میرا مشورہ….کیا خاک مشورہ۔‘‘ شیر خان غصّے سے بولا۔

    ملّا جیون نے کہا ’’تم کو یاد نہیں؟ میں نے کہا تھا کہ اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا، ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا کہا ماننا چاہیے۔ تم نے جواب دیا پرانے کا۔ بس پھر میں نے تمہارے مشورہ پر عمل کیا۔ اور پرانے دوست کا کہنا مانا۔‘‘

    ’’کون ہے تمہارا پرانا دوست؟‘‘ شیر خان نے چمک کر کہا۔

    ’’میرا پرانا دوست اللہ ہے۔‘‘ ملّا جیون نے کہا۔ ’’جس سے میری پچاس سال پرانی دوستی ہے۔ روز میں اس کے پاس وقت گزارتا ہوں، اس کی باتیں سنتا ہوں، اپنی باتیں سناتا ہوں۔ اس نے کہا دیکھو جھوٹ کبھی نہیں بولنا۔ بس میں نے یہ کام اس کی دوستی کی خاطر کیا۔ رہا تمہارے قرضہ کا سوال تو کل میں نے اپنا مکان رہن رکھ کر لالہ بنسی دھر کو پانچ سو روپے دے دیے ہیں۔ اب وہ تمہارے پاس رقم کا مطالبہ کرنے نہیں آئے گا۔‘‘

  • تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔

    جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے لیے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا کہ اس کی شادی کس سے کرے۔ اس نے اس بارے میں ملکہ سے بھی مشورہ کیا مگر وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

    مزید دل چسپ کہانیاں اور حکایتیں پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    وہ دونوں پڑوسی ملکوں کے شہزادے تھے۔ ایک شہزادے کا نام شان دار تھا اور وہ نہایت نیک، عقلمند، بہادر اور بہت خوب صورت تھا۔ دوسرے شہزادے کا نام دلشاد تھا۔ وہ نہ تو نیک اور عقلمند تھا اور نہ ہی بہادر۔ اس نے چپکے چپکے دل میں سوچ لیا تھا کہ شہزادی نگینہ سے شادی کرنے کے بعد کوئی سازش کر کے بادشاہ کے تخت پر قبضہ کر لے گا۔

    چونکہ شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتی ہے اس لیے ملکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں شہزادی نگینہ سے اس کی رائے معلوم کرے گی – وہ جس شہزادے کو بھی پسند کرلے گی، اس سے اس کی شادی کروا دی جائے گی۔

    جب اس نے دونوں شہزادوں کے بارے میں ساری معلومات بتا کر شہزادی نگینہ سے اس کی پسند پوچھی تو وہ بولی۔ “امی حضور۔ آپ نے میری تربیت کچھ اس طرح کی ہے کہ میں اپنے ماں باپ کے فیصلوں پر سر جھکانے والی لڑکی بن گئی ہوں۔ آپ جہاں بھی کہیں گی اور جس سے بھی کہیں گی میں شادی کر لوں گی”۔

    ملکہ یہ بات سن کر خوش ہوگئی۔ اس نے شہزادی نگینہ کو گلے سے لگا کر پیار کیا اور بولی۔“جیتی رہو۔ تمہارے لیے دو شہزادوں کے رشتے آئے ہیں جن کے بارے میں ہم تفصیل تمہیں بتا ہی چکے ہیں۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کسے ہاں کریں اور کسے انکار۔ تم فیصلہ کر کے ہمیں بتا دو کہ کس شہزادے سے شادی کرنا پسند کرو گی”۔

    “امی حضور۔ شادی کے لیے آپ کا جو فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہوگا”۔ شہزادی نگینہ نے دھیرے سے اپنی بات دوہرائی۔

    “میں کہہ تو رہی ہوں کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا”۔ ملکہ نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
    شہزادی نگینہ کچھ سوچ کر بولی۔“ تو پھر ٹھیک ہے۔ میں اس شہزادے سے شادی کروں گی جو میری تین شرطیں پوری کرے گا”۔

    “وہ شرطیں کیا ہیں؟”۔ ملکہ نے حیرانی سے پوچھا۔

    “میری پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے جس میں آدم خور مگرمچھ رہتا ہے۔ میری دوسری شرط یہ ہے کہ وہ چاولوں سے بھری ایک پوری دیگ کھائے۔ میری تیسری اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سوتا ہوا گھوڑا لائے اور اس پر سواری کر کے دکھائے”۔ شہزادی نگینہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ملکہ اسے حیرت سے گھورنے لگی اور پھر اٹھتے ہوئے بولی۔ “ اس کا مطلب ہے کہ تم شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہو۔ کوئی بھی تمہاری یہ عجیب و غریب شرطیں پوری نہیں کر سکے گا۔ تمہیں پتہ ہے تالاب کا آدم خور مگرمچھ کتنا خوفناک اور بڑا ہے، کس میں ہمت ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے۔ پھر کون سا شہزادہ دیگ بھر کر چاول کھا سکے گا۔ شہزادے تو ویسے بھی نرم و نازک ہوتے ہیں، تھوڑا سا ہی کچھ کھا لیں تو ان کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ اور سوتے ہوئے گھوڑے پر بھلا کون سواری کرکے دکھائے گا۔ گھوڑا سوئے گا یا بھاگتا پھرے گا؟”

    اس کی باتیں سن کر شہزادی مسکرانے لگی۔ اسے مسکراتا دیکھا تو ملکہ کو تھوڑا سا غصہ آگیا۔ اس لیے وہ خفگی سے اٹھ کر بادشاہ کے پاس آئی اور اس سے اس کی لاڈلی بیٹی کی شکایت کی۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا۔ “ملکہ۔ آپ شائد بھول گئی ہیں۔ آپ نے بھی تو اپنی شادی کے لیے تین شرطیں رکھی تھیں۔ بہت سارے شہزادے ان شرطوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ مگر انھیں ہم نے پورا کر کے دکھایا تھا کہ نہیں؟”

    ملکہ کو وہ پرانی باتیں یاد آگئی تھیں۔ انھیں سوچ کر وہ مسکرانے لگی اور بولی۔ “امی حضور میری شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کرنا چاہتی تھیں اور وہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ اسی لیے میں نے وہ شرطیں رکھی تھیں۔ پھر میری شرطیں تو ہمت اور جواں مردی والی تھیں۔ ایک آدم خور شیر کو خنجر سے مارنا تھا جس نے کئی انسانوں کو اپنا نوالہ بنا لیا تھا، معصوم لوگوں کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو گرفتار کرنا تھا، جنہوں نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور پہاڑ کو کاٹ کر ایک نہر نکال کر کسانوں کی بنجر زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ آپ نے وہ تمام شرطیں پوری کی تھیں۔ آپ بہادر اور ہمت والے بھی تو بہت تھے”۔

    “لیکن ملکہ۔ کبھی کبھی ہم یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی شرطوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتے تو پھر آپ سے تو ہماری شادی ہی نہ ہوتی”۔ بادشاہ نے فکرمند ہو کر کہا۔

    “کیوں نہیں ہوتی”۔ ملکہ نے اٹھلا کر کہا۔ “میں اپنی شرطوں میں یہ تبدیلی کر دیتی کہ آپ انہیں شادی کے بعد بھی پورا کر سکتے ہیں”۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی۔ “ پہلے میری یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شہزادی کی شادی کس سے کریں۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ اپنی بے سر و پا شرطوں سے باز آجائے”۔

    “اس بارے میں آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہماری شہزادی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند بھی ہو۔ اگر کوئی ذرا سی بھی عقل لڑائے تو شہزادی کی شرطیں بہ آسانی پوری کرسکتا ہے۔ ہم دونوں شہزادوں کے سامنے شہزادی نگینہ کی شرطیں رکھ دیں گے۔ جس نے بھی انہیں پورا کردیا، اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی”۔

    پھر بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ اس نے ایلچی بھیج کر دونوں شہزادوں کو ان کے ملک سے اپنے محل میں بلوا لیا۔ دونوں شہزادے اپنے اپنے مصاحبوں اور غلاموں کے ساتھ حاضر ہوگئے۔ بادشاہ نے سب کو شاہی مہمان خانے میں ٹہرایا اور ان کی خاطر مدارات کے لیے خاص انتظامات بھی کر وا دیے۔

    جب شام کو بادشاہ ان شہزادوں سے ملا تو اسے شہزادہ شان دار بہت پسند آیا۔ وہ اس کی شکل و صورت اور وجاہت سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کا باپ بہت اچھے طریقے سے اپنے ملک پر حکومت کر رہا تھا جس کی وجہ سے رعایا بہت خوش حال تھی۔ ملکہ کو بھی وہ شہزادہ بہت پسند آیا۔

    دوسرا شہزادہ جس کا نام دلشاد تھا دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ بادشاہ کو محسوس ہوا کہ وہ ایک خوشامدی اور چاپلوس قسم کا نوجوان ہے۔ اس بات سے بادشاہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ نہایت چالاک اور عیار آدمی ہوگا۔

    ملکہ کو تو شہزادہ شان دار اتنا اچھا لگا کہ وہ شہزادی نگینہ کے پاس گئی اور اس سے بولی۔ “بیٹی۔ تم اپنی شرطیں واپس لے لو اور شہزادہ شان دار سے شادی کرلو۔ ایسا شوہر تو قسمت سے ہی ملتا ہے۔ اگر پہلی شرط کے دوران ہی مگرمچھ اسے کھا گیا تو بہت برا ہوگا”۔

    شہزادی نگینہ نے اٹل لہجے میں کہا۔ “اگر میں اپنی شرطیں واپس لیتی ہوں تو اس میں میری بے عزتی ہے۔ شہزادہ اگر میری شرطیں پوری کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے گھر جائے”۔ ملکہ مایوس ہو کر لوٹ گئی۔

    دونوں شہزادوں کی ملاقات شہزادی نگینہ سے کروائی گئی۔ وہ انھیں محل سے کچھ دور جنگل کے نزدیک تالاب تک لائی اور ان سے کہا۔ “یہ ہے وہ تالاب جس میں ایک آدم خور خونخوار مگرمچھ رہتا ہے۔ کیا آپ دونوں اس تالاب میں تیر کر دکھائیں گے؟”۔

    اس کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت ایک بہت بڑا مگرمچھ اپنا منہ کھولے تالاب کے کنارے پر آگیا۔

    اسے دیکھ کر شہزادہ دلشاد خوفزدہ ہوگیا اور بولا۔ “جان ہے تو جہان ہے۔ میں تو اس تالاب میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔ شہزادی کی دوسری شرطیں بھی بہت سخت ہیں۔ دیگ بھر کر چاول تو کوئی دیو ہی کھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میں سوتا ہوا گھوڑا کہاں سے لاؤں گا اور اس پر سواری کیسے کروں گا۔ میں تو چلا۔ مجھے نہیں کرنی یہ شادی”۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد شہزادہ شان دار نے کہا۔ “شہزادی صاحبہ۔ کل میں آپ کو اس تالاب میں تیر کر دکھاؤں گا”۔

    رات ہوئی تو اس کے ساتھ آئے ہوئے غلاموں نے تالاب میں ایک بڑا سا جال ڈال کر مگرمچھ کو پکڑ لیا اور دور ایک دریا میں چھوڑ آئے۔

    اگلی صبح ملکہ، بادشاہ اور شہزادی نے دیکھا کہ شہزادہ مزے سے تالاب میں تیرتا پھر رہا ہے۔ شہزادی نے پوچھا۔“ اس مگرمچھ کا کیا ہوا۔ وہ کہاں ہے؟”۔

    “اسے میں نے پکڑوا کر دریا میں چھڑوا دیا ہے۔ آپ کی پہلی شرط میں نے پوری کردی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات پر اعتراض نہیں کریں گی کہ میں نے مگرمچھ کو دریا میں کیوں چھڑوایا۔ آپ کی شرط صرف تالاب میں نہانے کی تھی، مگرمچھ سے لڑنا نہیں”۔ شہزادے نے تالاب سے باہر آتے ہوئے کہا۔

    ملکہ نے یہ بات حیرانی سے سنی۔ بادشاہ، مسکرا رہا تھا۔ شہزادی نے کہا۔ “بالکل ٹھیک شہزادے۔ آپ پہلی شرط جیت چکے ہیں۔ میری شرط ہی یہ تھی کہ آپ تالاب میں تیر کر دکھائیں۔ میں آپ کی ذہانت کی قائل ہوگئی ہوں”۔

    دوپہر ہوئی تو شہزادی نگینہ نے کہا۔ “شہزادے۔ آپ مجھے دیگ بھر کر چاول کھا کر کب دکھائیں گے؟”

    شہزادے نے کہا۔ “ابھی تھوڑی دیر بعد”۔ یہ کہہ کر شہزادے شان دار نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ اس کا ایک مصاحب دو غلاموں کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا محل کی جانب آرہا تھا۔ شہزادہ شان دار بادشاہ سے اجازت لے کر باہر نکلا اور اپنے مصاحب سے کوئی چیز لے کر جیب میں رکھی اور واپس آگیا۔

    اتنی دیر میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا۔ وہ اپنے ساتھ چاولوں کی ایک بڑی سی دیگ بھی لے کر آئے تھے جسے انہوں نے دسترخوان کے بیچوں بیچ رکھ دیا۔ دیگ کو دیکھ کر بادشاہ کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آئے۔ “کیوں میاں صاحبزادے۔ آپ کھالیں گے دیگ بھر کر چاول؟” اس نے شہزادے سے پوچھا۔

    “ایک دیگ تو کیا میں تو دو دیگیں بھی کھاسکتا ہوں”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار نے اپنی جیب سے ایک نہایت چھوٹی سی دھاتی دیگ نکالی جو اس کے ملازم بازار سے خاص طور سے بنوا کر لائے تھے۔ اس نے اسے چاولوں سے بھرا اور شہزادی نگینہ کے سامنے پوری دیگ چٹ کر گیا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ آپ کی دوسری شرط بھی پوری ہوگئی ہے۔ میں نے دیگ بھر کر چاول کھا لیے ہیں”۔ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے شہزادی سے کہا۔ اس کی بات سن کر شہزادی نگینہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔

    بادشاہ نے ملکہ سے کہا۔ “بیگم۔ اب اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ شہزادے میاں تو سوتے ہوئے گھوڑے پر بھی سواری کر کے دکھا دیں گے”۔

    شام کو بادشاہ، ملکہ اور شہزادی نگینہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ اچانک انہوں نے شہزادہ شان دار کو ایک گھوڑے کے ساتھ آتے دیکھا۔ وہ قریب آیا تو بادشاہ حیرت سے بولا۔“ شان دار بیٹے یہ گھوڑا لیے کہاں پھر رہے ہو؟”

    شہزادہ شان دار نے بڑے فخر سے بتایا۔“ یہ گھوڑا نہایت قیمتی ہے۔ میں اسے منڈی سے خرید کر لا رہا ہوں۔ اس کے مالک نے مجھے بتایا تھا کہ یہ حاتم طائی کے گھوڑوں کی نسل سے ہے۔ اس کا تو میں نے ایک بڑا اچھا سا نام بھی رکھ لیا ہے”۔

    گھوڑا واقعی بہت خوب صورت تھا۔ شہزادی نگینہ کو بھی بے حد پسند آیا۔ اس کا رنگ ہلکا کتھئی تھا اور اس کی گردن پر بڑی بڑی چمکدار ایال تھی۔ “شہزادے۔ کیا نام رکھا ہے آپ نے اس کا ؟” اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ میں نے اس کا نام رکھا ہے “سوتا ہوا گھوڑا”۔ چونکہ یہ میرا گھوڑا ہے، میں جو بھی اس کا نام رکھوں، میری مرضی۔ اب میں آپ کو سوتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر دکھاؤں گا، تاکہ آپ کی تیسری شرط بھی پوری ہو سکے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار رکاب میں پاؤں ڈال کر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور ایڑ مار کر اسے دوڑاتا ہوا باغ کا ایک چکر لگا کر دوبارہ ان لوگوں کے پاس آگیا۔

    یہ سب دیکھ کر ملکہ اور بادشاہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا تھا۔ شہزادی نگینہ بھی مسکرانے لگی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔ “ابّا حضور۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی ایک ایسے شہزادے سے ہو جو بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی ہو۔ ہم نے اپنی شرطیں اسی لیے رکھی تھیں کہ انہیں پورا کرنے والے کی ذہانت کا امتحان ہوسکے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایسا شہزادہ مل گیا ہے”۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ نے سکھ کا سانس لیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی خوب دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کے لیے لکھی گئی اس کہانی کے مصنّف مختار احمد ہیں)

  • موروں کا دکھ کوئی نہیں‌ سمجھ سکا (ایک دل چسپ کہانی)

    موروں کا دکھ کوئی نہیں‌ سمجھ سکا (ایک دل چسپ کہانی)

    یہ ہزاروں سال پرانی بات ہے جب دھرتی پر انسان، جانور اور پرندے اکٹھے رہتے تھے۔ اس دور میں جنگل آج کی طرح سمٹے ہوئے نہیں تھے اور انسانی آبادی بھی یوں پھیلی ہوئی نہ تھی۔ ہر طرف سبزہ اور ہریالی تھی اور چرند پرند کے ساتھ انسان بھی جگہ جگہ چھپر بنا کر رہا کرتے تھے۔

    مزید دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اگر اس بات کو مزید سمجھنا ہو تو یوں سمجھو کہ زمین کا وسیع رقبہ درختوں اور سبزے کے ساتھ شفاف ندی اور دریاؤں پر مشتمل تھا۔ انسانو‌ں نے گاؤں، قصبے اور شہر آباد نہ کیے تھے اور اس کے لیے درختوں کو نہیں کاٹا تھا۔ کئی اقسام کے پرندے اور چوپائے ہر طرف نظر آتے تھے۔ انسان جنگلوں سے پھل، شہد اور جڑی بوٹیاں حاصل کرتے تھے۔ ٹھوس غذا کھانے کے لیے شکار بھی کرنا پڑتا اور اس کے لیے جنگل کے جانوروں اور پرندوں پر ان کی نظر ہوتی۔ جانور اور پرندے بھی جنگلوں میں زندگی بسر کرتے اور انھیں بھی کھانے پینے اور زندہ رہنے کا سامان جنگلوں سے ہی کرنا پڑتا۔ ایک نظام تھا فطرت کا جو جاری و ساری تھا۔

    ایک مرتبہ جانوروں اور پرندوں کا انسانوں سے جھگڑا ہو گیا۔ انھیں شکایت ہوئی کہ انسانوں نے جانوروں کا شکار کرتے ہوئے ان کے کھانے کے وسائل گھٹانا شروع کر دیے ہیں۔ پرندوں کو بھی انسانوں سے شکایت ہوئی کہ انھیں مار کر کھا جاتے ہیں۔ چڑیوں کو پالنے کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ دھیرے دھیرے انسانوں اور جانوروں کے بیچ جھگڑے بڑھنے لگے۔ اسی غصہ میں اکثر کئی جانوروں، خاص طور پر شیر، بھالو اور بھیڑیوں نے آدمیوں پر حملے کیے۔ کبھی کبھی بدمعاش لکڑبگھے لوگوں کے بچے اٹھا لاتے اور انھیں کھا جاتے تھے۔

    “تم لوگ اگر جانوروں کو مارو گے تو ہم کیا کھائیں گے؟” شیروں نے غصّہ سے دہاڑتے ہوئے کہا۔ دراصل انسانوں کے ایک گروہ نے جنگل میں بڑی تعداد میں ہرن، سانبھر اور چیتل مارے تھے۔ شیروں نے بھوکے ہونے پر کئی لوگوں پر حملہ کر دیا۔

    روزانہ بڑھتے ہوئے جھگڑوں کو نپٹانے کے لیے جنگل میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں انسانوں کے علاوہ سبھی جانور اور پرندے شریک ہوئے۔

    آج جھگڑوں کو نپٹانے کا فیصلہ ہونا ہے۔ ایک طرف درندے جیسے شیر، بھیڑیے، لکڑ بگھّے اور جنگلی کُتّے بیٹھے۔ ان سے تھوڑی دور پر ہرن، چیل، سانبھر اور بھینسے چوکنے کھڑے تھے۔ کہیں گھاس میں خرگوش، گلہری اور دوسرے چھوٹے جانور د بکے ہوئے تھے۔ پیڑوں پر بہت کم پرندے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر نہیں آئے کیونکہ ہوا میں اُڑنے کی وجہ سے وہ انسانوں اور جانوروں کے ہاتھ کم ہی لگتے ہیں اس لیے پرندے اس جھگڑے میں پڑنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ یوں سمجھو کہ ان کو انسانوں سے خطرہ کم تھا تو اس میٹنگ کی اہمیت بھی ان کے لیے کم ہی تھی۔

    ” تم لوگ ہمارا شکار کرتے رہتے ہو جب کہ ہم تمھارا شکار نہیں کرتے ہیں ۔” جانوروں نے انسانوں سے شکایت کی۔ یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ جانور شاید ہی کبھی انسانوں کا شکار کرتے ہیں۔

    ” لیکن ابھی لکڑ بگھّے اور بھیڑیے کئی بچوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ لوگوں نے شکایت کی۔ شیر نے کھڑے ہو کر کہا۔

    “پھر فیصلہ کر لو کہ انسان اور جانور الگ الگ رہیں گے تا کہ کوئی جھگڑا ہی نہ ہو۔“

    یہ بات سنتے ہی تمام بھیڑیوں نے ہاؤں ہاؤں کرتے ہوئے شیر کا ساتھ دیا۔ اُدھر چیتل اور ہرن وغیرہ نے انسانوں کو جنگل سے چلے جانے کے لیے کہا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح کم سے کم انسانوں کے شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ باقی جنگل کے درندوں کا نوالہ بننا تو ان کا مقدر ہی ہے۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد انسانوں نے جنگل چھوڑ دیے۔ وہ کچھ جگہوں پر پیڑوں اور زمین کو صاف کرنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے لگے۔ لیکن یہ بات بھی طے ہوئی کہ انسان جنگلوں سے شہد اور جڑی بوٹیاں لینے آتے رہیں گے۔

    وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم لوگ جانوروں کا شکار نہیں کرو گے۔“ شیر نے راجا ہونے کا فرض نبھایا۔

    جانور بھی ہماری بستی میں نہیں آئیں گے۔ وہ ہمارے کھیتوں میں چرنے کے لیے ہرگز نہ آئیں۔ آدمیوں نے کہا۔ وہاں موجود پرندوں نے دیکھا کہ ان کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ چڑیوں کو کوئی فکر بھی نہیں کہ وہ ہوا میں اڑتی اور پیڑوں پر گھونسلہ بنا کر رہتی تھیں۔ انھیں کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ جنگل کے پپیڑوں پر رہیں یا بستی میں پیڑوں پر بسیرا کریں۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسانوں اور جانوروں میں کیا سمجھوتہ ہوتا ہے۔ درخت پر بیٹھے توتے نے کہا۔

    ” اور کیا ؟ ہمیں تو انسان اور جانور دونوں سے خطرہ رہتا ہے۔” کبوتر نے توتے کی ہاں میں ہاں ملائی۔

    ” لیکن ہم کہاں جائیں؟” ایک مور نے اداس ہو کر کہا۔ ہم تو چھوٹی چڑیوں کی طرح اڑتے نہیں۔ مور کی بات صحیح تھی کیونکہ وہ بھاری بھر کم پرندہ ہے جو بہت کم اور بس تھوڑا اڑتا ہے۔

    آدمیوں نے مور کی بات سنی تو کہنے لگے۔ ہمارے لیے پرندے بھی جانور ہیں۔ وہ بھی جنگلوں میں رہیں۔ ہماری بستیوں میں صرف انسان رہیں گے۔“

    جانوروں کی طرف سے ہاتھی نے کہا ” ہمیں پرندوں کے جنگل میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہاتھی کی بات سن کر سبھی جانوروں نے رضا مندی دی۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے یہ طے ہو گیا کہ سبھی پرندے بھی جنگلوں میں ہی رہیں گے۔

    مور نے اپنی بات دہرائی ہمیں تو کھیتوں کھلیانوں اور باغوں میں رہنے میں زیادہ مزا آئے گا۔“

    یہاں لڑائی ختم کرنے کے لیے فیصلہ ہورہا ہے۔ اس میں تمھاری پسند اور ناپسند کا کوئی سوال نہیں ۔” جنگلی کتے نے رال ٹپکاتے ہوئے کہا۔

    ہاں تم کیوں چاہو گے کہ ہم بستیوں میں رہیں۔ مور نے پلٹ کر جواب دیا۔ وہ جانتا ہے کہ کتے، بھیڑیے اور شیر بھی موروں کا اکثر شکار کر لیتے ہیں۔ کئی چڑیوں کو بہت افسوس ہوا کہ انسان انھیں اپنی زندگی سے نکال رہے ہیں۔ مگر بستی بن جانے کے بعد کئی چڑیاں گھریلو کہلائی جانے لگیں۔ گوریّا تو لوگوں کے آنگن میں دیکھی جاتی۔ اُسے جنگل سے زیادہ بستی میں رہنا راس آرہا تھا۔ اسی طرح کبوتر اور فاختہ بھی گھروں کی منڈیروں پر بیٹھتے۔ انھیں بھی جنگل میں رہنے میں اتنا مزا نہیں آتا تھا جتنا کہ انسانوں کے ساتھ آنے لگا۔

    ہم تمھاری منڈیروں پر بیٹھ کر کائیں کائیں نہیں کریں گے تو تمھیں مہمانوں کے آنے کی خبر کیسے ہوگی ؟ کوے نے انسانوں سے کہا۔

    پھر ہماری چہچہاہٹ کیسے سنو گے؟ بلبل نے اُداسی سے کہا جو ہمیشہ چہکتی دیکھی گئی۔ اُسے بھی اس فیصلے کے بعد بستیوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں رہنا جو پڑتا۔

    ہم تو تمھارے کام آتے ہیں۔ مور نے آدمیوں سے کہا “ہم سانپوں کو مار ڈالتے ہیں جن سے تمھیں ڈر لگتا ہے ۔“

    لوگوں کو یہ بات پتا تھا کہ مور سانپوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ پھر بھی کہنے لگے۔

    تم ہمارے کھیتوں سے اناج بھی کھاتے ہو۔ یہ سنتے ہی مور چُپ ہو گئے۔ تو پھر فیصلہ ہو گیا انسانوں نے بیٹھک سے جاتے ہوئے کہا۔ ” چڑیوں کے بارے میں بعد میں دیکھیں گے۔

    ابھی تو انھیں جنگل میں ہی رہنا ہوگا۔“

    جانوروں نے بھی چڑیوں سے کہا تم لوگوں کو کیا پریشانی ہے؟ آسمانوں میں اڑو اور پیڑوں پر گھونسلوں میں رہو۔“ یہ سن کر ایک چڑیا نے چِڑتے ہوئے کہا ” اور ہوا کھاؤ!”

    مجبوری میں سبھی پرندے جنگلوں میں واپس چلے آئے۔ ان میں زیادہ تر جنگی پھلوں پر گزارہ کرنے لگے۔ اس کے علاوہ زمین میں کیڑے مکوڑے کھاتے۔ یہی موروں کے ساتھ ہوا۔ انھیں بھی دانے دُنکے کی جنگلوں میں کوئی کمی نہیں۔ لیکن درندوں کے شکار ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہی بات موروں نے جنگل کی بیٹھک میں رکھی۔

    “تمھیں یہ خطرہ تو انسانوں سے بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی شکار کرتے اور چڑیوں کو کھاتے ہیں۔“

    شیر را جانے سمجھایا۔ حالانکہ اس کی نیت میں کھوٹ تھا۔ وہ بھی بھوکے ہونے پر شتر مرغ اور مور جیسے بھاری پرندوں کو کھا جاتا تھا۔ لیکن چھوٹی چڑیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی بلکہ وہ اپنے دکھ درد بتانے لگیں۔ ایک کبوتر نے کہا۔ عجیب بات ہے کہ کسی انسان پر فالج گر جائے تو وہ ہمارا خون مالش کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فاختہ بی نے بھی اسی طرح کی بات کی ۔ کبوتر اور فاختہ کا گوشت گرمی پیدا کرنے والا مانتے ہیں۔ اس لیے ہمارا شکار کرتے ہیں۔

    ” تو پھر خوش رہو جنگل میں ۔ بھیڑیے نے غراتے ہوئے کہا۔ یہاں تمھارا شکار نہیں ہوتا۔

    ” ہاں ۔ اگر کبھی لومڑی دبے پاؤں آتی ہے تو ہم پُھر سے اڑ جاتے ہیں ۔ چڑیوں نے جنگل میں رہنے میں ہی اپنی بھلائی مان لی۔

    اب بھلا مور کیا کہتے؟ وہ بے چارے اُداس ہو کر بیٹھک سے چلے گئے۔ پھر برسات کی پھواریں آئیں جنگل کے پیڑ پودوں اور گھاس میں جیسے نئی زندگی آگئی۔ پانی برسنے سے پھول، پتیوں میں بھی جان پڑ گئی۔ اس وقت ہلکی رم جھم ہو رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی مست ہوا چلنے لگی۔ ایسے سہانے موسم میں بھلا مور خود پر قابو کیسے رکھ پاتے؟ وہ مستی میں ناچنے لگے اپنے خوبصورت پنکھ پھیلائے لیکن انھیں افسوس ہورہا تھا کہ جنگل میں ان کا ناچ دیکھنے اور خوش ہونے والا کوئی نہیں۔ جنگل کے جانوروں نے کیا چڑیوں نے بھی کوئی دھیان نہیں دیا۔

    اسی وقت سے موروں کے خاندان میں‌ یہ مشہور ہوگیا کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا!

  • ڈبیہ میں بند پَر (دل چسپ کہانی)

    ڈبیہ میں بند پَر (دل چسپ کہانی)

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے جب کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شہزادی گل فشاں تھا۔ شہزادی گل فشاں اپنی خوب صورتی، خوش اخلاقی اور عقل مندی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی اور کئی ملکوں کے شہزادے اس سے شادی کے خواہش مند تھے مگر بادشاہ ان شہزادوں کے رشتے نامنظور کر دیا کرتا تھا۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھیں
    یہ بات نہیں تھی کہ وہ شہزادے خوب صورتی یا بہادری میں کسی سے کم تھے۔ بادشاہ کے پاس ان رشتوں سے انکار کی صرف ایک ہی وجہ تھی۔ شہزادی گل فشاں چونکہ اس کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اس سے بہت محبّت کرتا تھا، اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی لاڈلی بیٹی کی شادی کسی دور دراز کے ملک کے شہزادے سے ہو اور وہ اس سے جدا ہو کر دور جائے۔ بادشاہ نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ اس کی شادی اپنے ملک کے ہی کسی اچھے سے نوجوان سے کر دے گا اور اس کا محل اپنے محل کے برابر میں بنوا دے گا تاکہ وہ دونوں اس میں رہ سکیں۔ اس مقصد کے لیے اس نے نہایت ماہر معماروں سے محل کی تعمیر بھی شروع کروا دی تھی۔

    بادشاہ اپنی ملکہ سے بھی بہت محبّت کرتا تھا۔ ویسے تو وہ ہر لحاظ سے ایک بہترین حکمران تھا، حکومت کے امور میں بہت دلچسپی لیتا تھا اور اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کوشاں رہتا تھا مگر اس کی اس ضد نے سب کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا کہ وہ شہزادی کی شادی کسی دور دراز ملک کے شہزادے سے نہیں کرے گا۔ ملکہ اس کو لاکھ سمجھاتی کہ لڑکیاں تو پرائی ہوتی ہیں، ایک روز ان کو اپنے گھر جانا ہی پڑتا ہے مگر بادشاہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ ایک روز جب اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی تو ملکہ نے بادشاہ کو اپنی مثال دی کہ وہ سات سمندر پار ایک ملک کی شہزادی تھی مگر بادشاہ سے شادی کر کے اسے بھی اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آنا پڑگیا تھا۔

    بادشاہ اس بات پر قائل تو کیا ہوتا، مسکرا کر بولا۔ ’’ملکہ – اگر آپ کے ابّا بھی آپ سے اتنی محبّت کرتے جتنی کہ ہم شہزادی گل فشاں سے کرتے ہیں تو وہ بھی آپ کو بیاہ کر اتنی دور نہیں بھیجتے‘‘۔

    ملکہ نے یہ بات سنی تو منہ پھلا کر بولی۔’’جہاں پناہ آپ کو پتہ ہے میرے ابّا حضور میرے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے، میں ایک لمحے کے لیے بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی تھی تو وہ بے چین ہوجاتے تھے‘‘۔

    بادشاہ کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کے منہ سے ایک نامناسب بات نکل گئی ہے جس سے ملکہ کی دل آزاری ہوئی ہے۔ اس نے کہا۔”پیاری ملکہ ۔ ہم معافی چاہتے ہیں، ہم نے مذاق ہی مذاق میں ایک غلط بات کہہ دی تھی ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام باپ اپنی بیٹیوں سے یکساں محبّت کرتے ہیں‘‘۔

    ملکہ نے بادشاہ کی شرمندگی محسوس کر کے نرمی سے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہماری شہزادی ملک فارس کے شہزادے احمر کو پسند کرتی ہے۔ آپ کو یاد ہے نا وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ تھوڑے دن پہلے ہمارے ملک میں آیا تھا۔ دونوں حالانکہ چند روز ہی ایک ساتھ رہے تھے مگر اتنے کم عرصے میں ہی آپس میں کافی گھل مل گئے تھے۔ اس کی ماں نے شہزادی کا رشتہ بھی مانگا تھا مگر آپ نے کہہ دیا تھا کہ سوچ کر جواب دیں گے۔ میرا تو خیال ہے کہ آپ ہاں کر ہی دیجیے، شہزادہ احمر ہماری بیٹی کو بہت خوش رکھے گا‘‘۔

    بادشاہ نے ملکہ کی بات کا جواب تو نہیں دیا، صرف اتنا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ملکہ تم اس سلسلے میں جلد ہی خوشخبری سنو گی‘‘۔ یہ کہہ کر بادشاہ تو کمرے سے نکل گیا اور ملکہ دھک سے رہ گئی کہ جانے بادشاہ کیا کرنے والا ہے۔

    بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا، بہت عقلمند، وفادار اور بادشاہ کا جاں نثار – وزیر کا ایک بیٹا بھی تھا اور اس کا نام شہریار تھا۔وہ تلوار بازی، تیر اندازی اور نیزہ بازی میں یکتا تھا۔ صورت شکل اس کی ایسی تھی کہ جو دیکھے دیکھتا رہ جائے۔ شہزادی گلفشاں اور شہریار کا بچپن ایک ساتھ ہی گزرا تھا۔ بادشاہ اور ملکہ اس کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی چاہتے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اس کی تعلیم و تربیت اور تلوار بازی وغیرہ کی تربیت شہزادی گل فشاں کے ساتھ ہی ہوئی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت مانوس تھے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔

    گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ کھانا کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں آرام کررہے تھے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک کنیز بھاگتی ہوئی ملکہ کے پاس آئی اور گھبرائے ہوے لہجے میں بولی۔’’ملکہ عالیہ – جلدی سے آئیے۔شہزادی صاحبہ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے‘‘۔

    کنیز کی بات سن کر ملکہ گھبرا گئی اور دوڑ کر شہزادی کے کمرے میں آئی۔ اس نے دیکھا شہزادی گل فشاں آنکھیں بند کیے اپنے بستر میں لیٹی ہوئی ہے۔ ایسا معلوم دیتا تھا جیسے وہ بے خبر سو رہی ہے۔ ملکہ نے غصیلی نظروں سے کنیز کی طرف دیکھا اور بولی۔ ’’شہزادی تو سو رہی ہے۔ تم کہہ رہی ہو کہ اس کی طبیعت خراب ہو گئی ہے؟‘‘۔

    کنیز خوف سے تھر تھر کانپنے لگی اور بولی۔’’ملکہ حضور، شہزادی صاحبہ اچھی خاصی مجھ سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک انہوں نے ایک چیخ ماری اور بستر پر گر پڑیں۔میں نے انہیں بہت آوازیں دیں مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘۔ یہ بات سن کر ملکہ کو بھی تشویش ہوئی۔ اس نے پہلے تو شہزادی کو ہلا جلا کر اٹھانے کی کوشش کی پھر جب کوئی کامیابی نہیں ہوئی تو اس نے بادشاہ کو اطلاع کروائی۔

    شہزادی کی خراب طبیعت کے بارے میں سن کر بادشاہ کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ وہ بھاگا بھاگا آیا اور محل کے تمام طبیبوں کو طلب کر لیا۔ وہ سب شہزادی کا معائنہ کرنے لگے۔ایک طرف وزیر زادہ شہریار بھی منہ لٹکائے خاموش کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب طبیبوں نے معائنہ ختم کیا تو وہ خاصے مایوس تھے۔ انہوں نے بادشاہ کو بتا دیا کہ شہزادی کا مرض ان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

    یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ بادشاہ نے اسی وقت ملک کے دوسرے حکیموں اور طبیبوں کو بھی طلب کرلیا اور شہزادی کو دکھایا گیا مگر بے سود۔شہزادی کا مرض کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور وہ بدستور اپنے بستر پر بے سدھ سوتی رہی۔

    اسی پریشانی میں شام ہو گئی۔ اگلے روز مایوس ہو کر بادشاہ نے یہ اعلان کروا دیا کہ جو بھی شہزادی کو نیند سے بیدار کرے گا، شہزادی کی شادی اس سے کر دی جائے گی۔ اس اعلان کو سن کر کوئی بھی حاضر نہیں ہوا۔ سب لوگ یہ ہی سوچ رہے تھے کہ جب بڑے بڑے حکیم اور طبیب اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکے تو وہ کیا کر لیں گے۔

    اس صورت حال سے بادشاہ اور ملکہ سخت پریشان تھے۔ ان کی مایوسی بڑھتی جا رہی تھی کہ ایسے میں ایک چوبدار نے آکر اطلاع دی کہ ملک فارس کا شہزادہ احمر آیا ہے اور شہزادی کے علاج کے سلسلے میں بادشاہ سے ملنا چاہتا ہے۔ ناامید بادشاہ کی امید ابھی باقی تھی۔ اس نے شہزادے احمر کو فوراً ہی اپنے کمرے میں طلب کر لیا۔ محل کے پہرے دار اس کو لے کر حاضر ہو گئے۔ بادشاہ اس سے پہلے بھی ملا ہوا تھا۔ چند روز قبل وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اس کے محل میں آیا تھا۔

    شہزادہ احمر نے جھک کر بڑے ادب سے بادشاہ کو سلام کیا اور بولا- “ جہاں پناہ۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکار پر نکلا ہوا تھا۔ منادی کرنے والوں سے سنا کہ شہزادی صاحبہ نیند سے نہیں جاگ رہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کی بیماری کا علاج میرے پاس ہے اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہوں”۔

    اس کے گفتگو کرنے کے انداز اور وجاہت نے بادشاہ کو بہت متاثر کیا تھا۔ اس نے دل میں سوچا کہ اگر اس خوبرو شہزادے نے اس کی بیٹی کو ٹھیک کر دیا تو وہ ضرور اس سے اس کی شادی کر دے گا۔ پھر بھی اس نے اپنی تسلی کے لیے ایک سوال کیا۔ ’’تم تو ایک شہزادے ہو۔ حکمت کے کاموں سے تمہارا کیا واسطہ؟‘‘۔

    شہزادے احمر نے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہا۔’’جہاں پناہ۔ شہزادی صاحبہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ دوسرا ہے‘‘۔

    بادشاہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ تمہارا مطلب ہے یہ کسی جادوگر یا دیو وغیرہ کا چکر ہے؟‘‘۔

    شہزادہ احمر نے نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔“ جی نہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا”۔ پھر اس نے ہیرے جواہرات سے مرصّع ایک چھوٹی سی خوبصورت ڈبیہ نکالی اور اسے بادشاہ کو دکھا کر بولا۔ شہزادی صاحبہ کو کچھ بھی ہوا ہو، ان کا علاج اس ڈبیہ میں بند ہے‘‘۔

    بادشاہ حیرت اور دلچسپی سے اس ڈبیہ کو دیکھنے لگا۔ احمر کی بات میں جانے کیا بات تھی کہ ملکہ کو بھی امید ہو گئی کہ اس کی بیٹی اب ٹھیک ہو جائے گی۔ وزیر زادہ شہریار بھی وہیں تھا اور بڑی دلچسپی سے شہزادے کی باتیں سن رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر ایک دوستانہ مسکراہٹ تھی۔

    اس کے بعد بادشاہ اور وہ سب لوگ اس کمرے میں آئے جہاں شہزادی محو خواب تھی۔شہزادے احمر نے بغور شہزادی کو دیکھا، کچھ سوچتے ہوئے اس نے وہ خوبصورت ڈبیہ کھول کر اس میں سے ایک پَر نکالا۔ وہ پَر حسین و جمیل رنگوں سے جگمگا رہا تھا۔ شہزادے احمر نے اس پر کو شہزادی کے تلوؤں سے لگایا۔ جیسے ہی پر نے اس کے تلوؤں کو چھوا، شہزادی کو ایک ہلکی سی چھینک آئی اور وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرانی سے سب کو دیکھنے لگی۔

    بادشاہ اور ملکہ کے منہ سے خوشی کی ایک چیخ نکل گئی۔ بادشاہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر شہزادی کو گلے سے لگا لیا۔ شہزادی گھبرائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔’’ابّا حضور مجھے کیا ہو گیا تھا؟‘‘۔اس نے پوچھا۔

    ’’کچھ نہیں میری بیٹی۔ تم بالکل ٹھیک ہو‘‘۔ پھر بادشاہ نے شہزادہ احمر کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔’’شہزادے ہم تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے‘‘۔

    یہ خبر تھوڑی ہی دیر میں پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ اس خوشی میں بادشاہ نے غریبوں کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے تھے۔ چند روز کے بعد حسب وعدہ شہزادہ احمر اور شہزادی گل فشاں کی بڑی دھوم دھام سے شادی کر دی گئی۔ رخصتی کے وقت شہزادی بادشاہ کے سینے سے لگ کر رونے لگی تو بادشاہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔’’بیٹی ہم غلطی پر تھے۔ ہر لڑکی کو ایک نہ ایک روز اپنے گھر جانا پڑتا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ تمھاری شادی احمر جیسے خوبصورت اور ذہین شہزادے سے ہوئی ہے‘‘۔

    ملکہ شہزادی کی جدائی سے رنجیدہ تو تھی مگر اس بات پر خوش بھی تھی کہ بادشاہ نے شہزادی کی شادی کے سلسلے میں اپنی ضد چھوڑ دی تھی۔ اس نے بھی شہزادی کو گلے سے لگا کر دعائیں دیں۔ اس موقع پر سارے وزیر، مشیر اور دوسرے ملازمین وہاں جمع تھے۔بادشاہ نے اپنی بیٹی کو بے شمار قیمتی تحفے دیے تھے اور سو سپاہیوں کا دستہ ان کی حفاظت کے لیے ساتھ کر دیا تھا۔

    سفر پر روانہ ہونے سے پہلے شہزادی نے چاروں طرف دیکھا جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہو۔ جلد ہی اس کی نگاہ وزیر زادے شہریار پر پڑی، وہ ایک کونے میں سر جھکائے اداس کھڑا تھا۔ شہزادی دوڑ کر اس کے قریب پہنچی اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر بولی۔’’شہریار بھائی۔ اگر آپ یہ سب کچھ نہ کرتے تو میری شادی کبھی بھی شہزادہ احمر سے نہیں ہوتی۔ آپ نے اتنی اچھی ترکیب بتائی تھی کہ ابّا حضور اپنی شرط سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو گئے‘‘۔

    شہریار مسکرا کر بولا۔’’میں نے بہت ساری کہانیوں میں سن رکھا تھا کہ کوئی شہزادی جب کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاتی تھی تو بادشاہ سلامت یہ ہی اعلان کرواتے تھے کہ جو شہزادی کو اس مصیبت سے نجات دلائے گا اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی۔ میں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تم جھوٹ موٹ کی سوتی ہوئی بن جاؤ اور شہزادہ احمر تمہیں ٹھیک کر دے۔ اس نے بھی بڑی مہارت سے اپنا کام کیا تھا۔ بادشاہ سلامت کو ذرا بھی شبہ نہیں ہو سکا تھا۔ اب تم سے یہ ہی کہنا ہے کہ وہاں جا کر ہمیں بھول نہیں جانا‘‘۔

    اس کی بات سن کر شہزادی نے اداسی سے کہا۔’’میں ابّا حضور کو، امی حضور کو اور شہریار بھائی آپ کو کیسے بھول سکتی ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے دو آنسو ڈھلک گئے۔

    شہزادہ احمر بھی ان کے قریب آکر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس نے کہا۔’’شہریار تم ایک اچھے اور سچے دوست ہو۔ تم اگر وہ ترکیب نہ بتاتے اور میری شادی شہزادی سے نہ ہوتی تو میں خود سچ مچ کا سوتا شہزادہ بن گیا ہوتا۔ تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے شہریار کو گلے سے لگا لیا۔ پھر یہ قافلہ شہزادی کو لے کر پردیس روانہ ہوگیا۔

    (مصنّف مختار احمد)

  • بادشاہ کے تین سوال

    بادشاہ کے تین سوال

    کسی ملک کا بادشاہ اکثر باغ کی سیر کو جاتا اور اپنے مصاحبوں‌ سے کچھ وقت کے لیے الگ ہو کر تالاب کے کنارے بیٹھ جاتا اور مختلف امورِ‌ سلطنت اور دوسرے معاملات پر غور و فکر کرتا رہتا۔

    بادشاہ کچھ عرصہ سے یہ سوچنے لگا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر مجھے یہ معلوم ہو جایا کرے کہ کوئی بہترین کام کرنے کا صحیح وقت کیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی مجھے سخت ضرورت ہے اور وہ کون سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے؟

    ایک روز یہ خیال آیا تو بادشاہ نے بلا تاخیر اپنے وزیر کو حکم دیا کہ پوری سلطنت میں اعلان کروا دے کہ جو شخص بادشاہ کے ان تین سوالوں کے جواب دے گا اور اسے مطمئن کر دے گا، خوب انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ ملک کے کونے کونے میں‌ منادی کرا دی گئی۔

    عام لوگوں اس اعلان کو حیرت اور دل چسپی سے سنا مگر چند ہی تھے جنھوں نے قسمت آزمانے کا قصد کیا البتہ ملک کے بڑے بڑے عالم فاضل، شاعر و ادیب، فلسفی اور ذہین و عقل مند لوگ بڑے اعتماد سے محل کا رخ کرنے لگے۔ روز کوئی نہ کوئی دربار میں‌ موجود ہوتا اور بادشاہ کے سامنے اپنے جواب رکھتا، مگر کئی روز گزر گئے اور ان میں سے کوئی بھی بادشاہ کو اپنے جوابات سے مطمئن نہ کر سکا۔ بادشاہ اس مشق سے بیزار ہوگیا تو ایک وزیر نے اسے ایک درویش کے بارے میں بتایا اور کہا کہ بادشاہ کو اُس بزرگ کی خدمت میں حاضری دینا ہوگی جو ایک سنسان جنگل میں رہتا ہے اور صرف عام آدمیوں سے ہی ملاقات کرتا ہے۔

    بادشاہ کو اُس درویش سے ملاقات کرنے کے لیے عام آدمی یا روپ دھارنا پڑا یعنی معمولی کپڑے اور جوتی پہن کر بادشاہ اپنے مصاحبوں‌ اور چند سپاہیوں کے ساتھ اُس جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ درویش کی کٹیا سے کچھ دوری پر بادشاہ اپنے گھوڑے سے اتر گیا کیوں کہ آگے اسے تنہا ہی جانا تھا۔

    بادشاہ اس بزرگ کی جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس وقت وہ اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین کی گُڑائی کر رہا تھا۔ بزرگ کی نظر بادشاہ پر پڑی تو حسبِ عادت سلام کیا اور دوسرے ہی لمحے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ بادشاہ نے درویش کی خدمت میں بڑے ادب سے عرض کیا۔

    ’’اے بزرگ! میں آپ کے پاس تین سوال لے کر حاضر ہوا ہوں، امید ہے کہ آپ مجھے جواب دے کر مطمئن کرسکیں‌ گے۔ بادشاہ نے بزرگ کا اشارہ پاکر تینوں‌ سوال اس کے سامنے دہرا دیے۔

    درویش نے بادشاہ کے تینوں سوال بہت غور سے سنے لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ پھر زمین کی گڑائی شروع کر دی۔

    آپ تھک گئے ہوں گے، لائیے پھاؤڑا مجھے دے دیجیے۔ تھوڑی دیر یہ کام میں کرلیتا ہوں۔‘‘ بادشاہ نے بزرگ سے پھاؤڑا لیتے ہوئے کہا۔ پھاؤڑا بادشاہ کو تھماتے ہوئے بزرگ خود زمین پر بیٹھ گیا۔

    جب بادشاہ دو کیاریاں گوڑ چکا تو اس نے پھر اپنے سوال دہرائے، لیکن درویش نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اُٹھ کھڑا ہوا اور بادشاہ سے پھاؤڑا لینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے صرف اتنا کہا۔’’اب تم دَم بھر آرام کرو اور مجھے تھوڑا کام کرنے دو۔‘‘

    لیکن بادشاہ نے بزرگ کو پھاؤڑا نہیں دیا اور زمین کی گڑائی جاری رکھی۔ اِس طرح وقت گزرتا گیا۔ دھیرے دھیرے شام ہو گئی۔ انجام کار بادشاہ نے زمین پر آخری پھاؤڑا مارتے ہوئے کہا۔

    ’’محترم بزرگ! میں آپ کے پاس اپنے تین سوالوں کے جواب لینے آیا تھا۔ اگر آپ میرے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تو کہہ دیجیے تاکہ میں اپنے گھر لوٹ جاؤں۔ ‘‘

    بزرگ نے اس مرتبہ پھر بادشاہ کی بات کو گویا نظر انداز کردیا اور جواب دینے کی بجائے پیچھے مڑتے ہوئے بولا۔

    ’’دیکھو، کوئی آدمی اِدھر ہی بھاگا ہوا آ رہا ہے۔ آؤ دیکھیں، وہ کون ہے؟‘‘

    بادشاہ نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک آدمی جنگل سے جھونپڑی کی طرف بھاگا آ رہا ہے۔ وہ شخص اپنے ہاتھوں سے اپنا پیٹ دبائے ہوئے ہے اور خون اُس کے ہاتھوں کے نیچے سے بہہ رہا ہے۔ وہ شخص کراہتا ہوا بادشاہ کے قریب پہنچ کر زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔

    بادشاہ اور درویش نے اُس آدمی کے زخم کو غور سے دیکھا۔ اس کے پیٹ پر بڑا سا زخم تھا۔ بادشاہ نے جہاں تک ہو سکا اس کے زخم کو اچھی طرح صاف کیا اور اس پر اپنے رو مال اور درویش کے انگوچھے سے پٹی باندھی۔ بڑی مشکل سے اس کا خون بہنا بند ہوا۔

    اب سورج ڈوب چکا تھا۔ ٹھنڈک بھی بڑھ چلی تھی۔ اس لیے بادشاہ نے اس بزرگ کی مدد سے زخمی کو جھونپڑے کے اندر لے جاکر چار پائی پر لٹا دیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ زخمی شخص سو گیا۔

    بادشاہ بھی دِن بھر کی دوڑ دھوپ اور کام کی وجہ سے اِتنا تھک گیا تھا کہ دہلیز پر ہی سو گیا۔

    صبح جب بادشاہ کی آکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ چارپائی پر پڑا ہوا زخمی اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔

    ’’مجھے معاف کر دیجیے، میرے آقا۔ ‘‘ اُس زخمی نے بادشاہ سے التجا کی۔

    ’’میں تم کو نہیں جانتا اور جب جانتا نہیں تو معاف کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ بادشاہ نے جواباً کہا۔

    ’’میں آپ کا دشمن ہوں۔ آپ نے میرے بھائی کو قتل کرا دیا تھا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔ میں نے عہد کیا تھا کہ میں آپ کو قتل کر دوں گا۔ کل جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ اس جنگل میں‌ بزرگ درویش سے اکیلے ملنے گئے ہیں تو میں نے طے کیا کہ آپ کو واپسی پر راستے میں ہی قتل کر دوں گا، لیکن پورا دن گزر گیا اور آپ واپس نہیں لوٹے تو میں آپ کا پتہ لگانے کے لیے اپنے ٹھکانے سے باہر آیا۔ جلد ہی آپ کے محافظ سپاہیوں سے میری مڈبھیڑ ہو گئی۔ انھوں نے مجھے پہچان لیا اور ان کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد میں کسی طرح بھاگ نکلا، لیکن اگر آپ میرے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو میں زیادہ خون نکل جانے کی وجہ سے مر جاتا۔ میں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن آپ نے میری جان بچا لی۔ اب اگر میں زندہ رہا تو ساری عمر غلام بن کر آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘

    بادشاہ دشمن سے اتنی آسانی سے صلح کر کے اور اُسے دوست بنا کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اُس کو معاف ہی نہیں کیا، بلکہ اُس سے یہ بھی کہا۔ ’’میں اپنے خادموں اور شاہی طبیب کو تمہاری دیکھ بھال اور علاج کے لیے بھیج دوں گا اور تمہاری جائیداد بھی واپس کر دوں گا۔‘‘

    زخمی آدمی سے رخصت ہو کر بادشاہ جھونپڑی سے باہر آیا اور بزرگ کی تلاش میں نظر دوڑائی کہ جانے سے پہلے ایک بار پھر اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس نے دیکھا ایک جانب وہ درویش ان کیاریوں میں بوائی کر رہا تھا جو ایک روز پہلے گوڑی اور بنائی گئی تھیں۔ بادشاہ درویش کے پاس پہنچا اور بولا۔

    ’’بزرگوار! میں آخری بار اپنے سوالوں کے جواب کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘

    بزرگ نے کہا ’’تم جواب پا چکے ہو، لیکن شاید تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ خیر میں تفصیل سے بتاتا ہوں۔ اگر تم نے کل میری بزرگی پر ترس کھا کر کام میں‌ میرا ہاتھ نہ بٹایا ہوتا اور اپنے راستے چلے گئے ہوتے تو وہ آدمی تم پر حملہ کر دیتا، اس لیے وہ وقت بہت اہم تھا جب تم کیاریاں گوڑ رہے تھے۔ میں بہت اہم آدمی تھا اور میرے ساتھ نیکی کرنا سب سے اہم کام تھا۔

    بعد کو جب وہ آدمی بھاگ کر ہم لوگوں کے پاس آیا تو وہ بڑا اہم وقت تھا کیونکہ تم اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اگر تم اس کے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے وہ اہم آدمی تھا اور جو کچھ تم نے اُس کے ساتھ کیا وہ بہت اہم کام تھا۔

    اس لیے یاد رکھو کہ ایک ہی وقت بہت اہم ہے اور وہ ہے ’’اب‘‘ یعنی موجودہ وقت۔ اس لیے کہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں کوئی موقع اور کوئی طاقت حاصل رہتی ہے۔

    ’’سب سے اہم آدمی وہ ہے جس کے ساتھ تم ہو، اِس لیے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ پھر کبھی اُس سے معاملہ پڑے گا یا نہیں …

    اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ اس کے ساتھ نیکی کی جائے، کیوں کہ انسان کو اسی مقصد سے یہ زندگی عطا ہوئی ہے۔‘‘

    اِتنا کہہ کر وہ بزرگ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ بادشاہ کچھ دیر کھڑا سوچتا تھا اور پھر مسکراتے ہوئے ایک نظر بزرگ پر ڈالی اور اس راستے پر نکل گیا جہاں اس کے مصاحب اور محافظ اس کے منتظر تھے۔

  • بادشاہ کا مرتبہ کم نہ ہوا (حکایت)

    بادشاہ کا مرتبہ کم نہ ہوا (حکایت)

    ایک بادشاہ اپنے چند خاص مصاحبوں کے ساتھ شکار کے لیے نکلا۔ جاڑوں کے دن تھے، وہ سب دور نکل گئے اور اسی اثناء میں رات سر پر آ گئی۔

    اندھیرا بڑھنے لگا اور بادشاہ اور اس کے مصاحبوں کو واپسی کا راستہ سجھائی نہیں‌ دے رہا تھا۔ وہ کسی امید کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ بادشاہ کو ایک مکان نظر آیا۔ یہ کسی کسان کا گھر تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ آج رات وہ اس کسان کے گھر میں قیام کرے گا تاکہ سردی کے اثر سے بچ جائے۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ایک وزیر نے یہ سنا تو کہا کہ یہ بات بادشاہ کے بلند مرتبہ کے لائق نہیں ہے کہ ایک کسان سے رہنے کی جگہ مانگے۔ ہم اسی جگہ خیمے لگا دیں گے اور آگ جلائیں گے تاکہ کھانا بھی تیار کرا لیں۔ کسان کو بادشاہ کے قافلے کی خبر ہو گئی۔ اس کے یہاں جو کچھ کھانے کے لیے موجود تھا وہ لا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا اور آداب بجا لایا اور کہا کہ بادشاہ سلامت آج رات میرے گھر گزاریں تو مجھ غریب پر احسان ہوگا۔ وزیر نے پھر مداخلت کی اور اپنی بات دہرائی تو کسان نے ادب سے کہا کہ حضور اس سے آپ بلند مرتبہ ہرگز کم نہ ہوگا لیکن شاید لوگ نہیں چاہتے کہ ایک کسان کی عزت بڑھ جائے۔

    بادشاہ کو کسان کی یہ بات بہت پسند آئی۔ اس نے حکم دیا کہ رات کو اس کا قیام کسان کے گھر ہوگا اور یہ کہہ کر کھانا کھانے لگا۔ کسان کی خوشی کا عالم ہی اور تھا۔ بادشاہ نے صبح کو رخصت ہوتے وقت اسے انعام دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کسان کچھ دور تک بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور کہتا جاتا تھا کہ بادشاہ نے ایک کسان کے گھر قیام کیا، مگر بادشاہ کی عزت اور بڑائی میں کوئی کمی نہیں ہوئی لیکن بلند مرتبہ بادشاہ کی مہربانی کا سایہ کسان کے سر پڑا تو اس کا سر آسمان کی بلندی تک جا پہنچا۔

    (گلستانِ سعدی سے ایک حکایت)

  • ایک آنہ دام اور پھانسی کا پھندا (دل چسپ حکایت)

    ایک آنہ دام اور پھانسی کا پھندا (دل چسپ حکایت)

    ایک گرو اور اس کا چیلا محوِ سفر تھے کہ ایک ملک کے سب سے بڑے شہر کے قریب شام ان کے سَر پر آ گئی۔ دونوں کئی میل کی مسافت طے کرچکے تھے۔ اب اگرچہ انھیں آرام کرنے کی ضرورت تھی۔ مگر گرو مسلسل آگے بڑھ رہا تھا اور چیلے کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ کہیں قیام نہیں‌ کرے گا۔

    چیلے نے یہ دیکھا تو اپنے گرو سے کہا، حضرت یہاں رات گزار کر صبح سفر پر روانہ ہو جائیں گے، ویسے بھی میں تھک گیا ہوں اور بھوک بھی زوروں کی ہے۔

    گرونے اپنے اس خدمت گزار کو ٹوکا اور بولا، چلتے رہو کسی اور جگہ رکیں گے، مجھے یہاں نحوست نظر آرہی ہے۔ مگر چیلا جو اس کا بڑا لاڈلا اور ضدی بھی تھا، گڑ گڑانے لگا کہ حضور اب اور نہیں چلا جاتا، رک جائیے۔

    گرو نے اس کو یوں گڑگڑاتے پایا تو رحم کھا کر خیمہ لگانے کی ہدایت کردی۔ ساتھ ہی کہا کہ قریبی آبادی سے کھانے پینے کا سامان لے آؤ، ہم یہاں‌ سے صبح سفر پر نکلیں‌ گے۔

    چیلے نے فوراََ خیمہ گاڑ دیا اور قریبی آبادی میں ایک دکان پر پہنچا۔ اس نے دکان دار سے پوچھا، ماچس کتنے کی ہے؟ دکان دار نے ایک آنہ قیمت بتائی تو اس نے وہاں لٹکے ہوئے گوشت کے نرخ پوچھے۔ دکان دار نے کہا یہ ایک سیر گوشت بھی ایک آنہ کا ہے۔ چیلے نے ایک کلو نمک کی قیمت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک آنہ میں مل جائے گا۔ اب اس نے ایک سیر گھی کا بھاؤ پوچھا اور جواب میں دکان دار نے پھر ایک آنہ کہا تو چیلا حیران و متجسس نظر آیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیسا عجیب شہر ہے کہ جہاں تمام چیزوں کا بھاؤ یکساں ہے۔ وہ خوشی خوشی سامان لے کر گرو کے پاس پہنچا اور کہا حضور اب ہم مستقل یہیں قیام کریں گے، آپ اللہ اللہ کیا کریں اور میں آپ کی خدمت۔ یہاں سب کچھ سستا ہے۔ گرو نے اسے ڈانٹا اور حکم دیا فوراََ خیمہ اکھاڑو۔ اورجلدی نکلو، عنقریب یہاں کوئی عذاب آنے والا ہے۔ گرو کی بات سن کر اس کے لاڈلے چیلے نے کہا، حضور آپ بھی کمال کرتے ہیں، ہم نہیں جائیں گے، میں آپ کا پرانا خدمت گزار ہوں، میری مانیں یہیں رہیں۔

    گرو کو واقعی اپنا یہ خادم بہت عزیز تھا۔ وہ کچھ سوچ کر چپ ہوگیا اور وہیں مستقل قیام کرلیا۔ اب چیلا روزانہ شہر جاتا اور اپنی پسند کا سامان خرید لاتا۔ وہ دن بدن فربہ اور اس کی گردن موٹی ہو رہی تھی۔ ایک دن چوروں نے ایک کچے مکان میں نقب لگائی چوری کر کے جب نکل رہے تھے تو دیوار گر گئی۔ ایک چور دیوار کے نیچے آکر موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ مزے کی بات دیکھو کہ چور خود ہی بادشاہ کی عدالت میں مقدمہ لے کر پیش ہوئے اور مالک مکان کو طلب کر کے سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ مکان کی کمزور دیوار گرنے کی وجہ سے ان کے ایک ساتھی کی جان چلی گئی۔ مالک مکان پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم نے اتنی کمزور دیوار کیوں بنائی کہ ایک معصوم کی جان چلی گئی۔ مالک مکان نے جان بچانے کے لئے ذمہ داری مستری پر ڈال دی۔ حکم ہوا کہ مستری کو پیش کیا جائے۔ اس سے بادشاہ نے کہا کہ تمہاری بنائی ہوئی کمزور دیوار گرنے کی وجہ سے ایک معصوم شہری کی جان چلی گئی اور حکم دیا کہ اس ظالم مستری کو فوراََ پھانسی دے دی جائے۔

    مستری گڑگڑایا اور خوشامد کرتے ہوئے بولا حضور کا اقبال بلند ہو، یہ گارا بنانے والے مزدور کا جرم ہے، اس نے پتلا گارا بنایا جس کی وجہ سے کمزور دیوار بنی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ مزدور کو پیش کیا جائے۔ مزدور نے ایک عذر پیش کیا کہ حضور ایک ہاتھی میری جانب دوڑا چلا آتا تھا، میں گھبرا گیا اور جان بچانے کے لئے بھا گ نکلا۔ گھبراہٹ میں پانی کا نل کھلا رہ گیا جس کی وجہ سے گارا پتلا ہو گیا۔ اب بادشاہ نے ہاتھی کے مالک کو طلب کرلیا۔ دربار میں‌ رتھ بان ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور بتا رہا تھا کہ حضور سنار کی بیوی سونے کے زیورات سے لدی ہاتھی کے سامنے آگئی تھی، ہاتھی کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ہاتھی بوکھلا کر بھاگ نکلا۔ میں اسے سنبھال نہیں پایا۔ اب سنار کو پیش کیا گیا اور سنار کوئی جواب نہ دے پایا۔

    بادشاہ نے کہا کہ جرم ثابت ہوچکا ہے اور فوراََ سنار کو پھانسی دے دی جائے۔ سپاہی آئے اور سنار کو پکڑ کر جلاد کے پاس لے گئے۔ جلاد نے پھندا اس کی گردن میں ڈالا تو پریشان ہوا کہ وہ اس کی کمزور و نحیف گردن میں فٹ نہیں آ رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کی اطلاع دی گئی تو حکم ہوا کہ آبادی میں کوئی ایسا انسان دیکھو جس کی گردن میں پھندا فٹ آئے تاکہ شاہی حکم کی تعمیل میں تاخیر نہ ہو۔ سپاہی موٹی گردن والے کسی بھی انسان کو ڈھونڈتے ہوئے چیلے تک پہنچ گئے۔ وہ اس شہر میں‌ کھا پی کر پھول چکا تھا اور اس کی گردن کافی موٹی ہوچکی تھی۔ سپاہیوں نے اسے جکڑ لیا تو چیلا چیخا کہ حضور مجھے بچائیں۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ گرو نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا یہاں سے نکل چلو، کوئی عذاب آنے والا ہے۔

    خیر، اب گرو جسے اپنا وہ خادم بہت عزیز تھا، پریشان ہوا، مگر ایک ترکیب ذہن میں‌ آہی گئی۔اب صورت حال یہ تھی کہ چیلا پھانسی گھاٹ پر پھندا پکڑے کہہ تھا کہ مجھے پھانسی لگائیں۔یہ میرا ہی حق ہے۔ اور گرو اپنی جانب پھانسی کا پھندا کھینچتا اور کہتا کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو یہ سعادت حاصل نہ کرنے دے گا۔ صورت حال بہت عجیب ہو چکی تھی۔ دو لوگ بیک وقت پھانسی کا پھندا پکڑے پھانسی چڑھ جانے کی ضد کر رہے تھے۔ سپاہی اور جلاد سب حیران ہی نہیں پریشان بھی تھے۔ یہ دونوں ان کے گلے ہی پڑ گئے تھے۔ مشاورت کے بعد انھوں‌ نے بادشاہ کو اس کی اطلاع دی۔ بادشاہ نے پھانسی گھاٹ پر جانا پسند کیا اور ان دونوں سے پوچھا کہ وہ کیوں پھانسی لگنا چاہتے ہیں۔

    گرو نے موقع غنیمت جانا اور اپنا کام دکھا دیا۔ وہ بولا، حضور! یہ وقتِ قبولیت ہے، اس وقت جو بھی پھانسی گھاٹ پر جھولے گا، وہ بخشا جائے گا اور بہت سی نعمتیں اس کی منتظر ہیں۔

    یہ سنا تو بادشاہ نے کہا، میرے ہوتے ہوئے کوئی پھانسی چڑھ کر بخشش اور جنت کیسے پا سکتا ہے۔ یہ بادشاہ کا حق ہے۔ کچھ دیر بعد ہی بادشاہ پھانسی کے پھندے پر جھول رہا تھا۔

    یوں وہ عجیب و غریب بادشاہ اپنے انجام کو پہنچا اور اس کے بعد شہر میں‌ کوئی چیز ایک آنہ کی نہ رہی بلکہ ہر شے کے اس کی خاصیت اور طلب کے مطابق نرخ مقرر ہوئے۔ دنیا کا نظام اسی طرح‌ چلتا ہے جس میں اجتماعی فائدہ ہو۔ الٹے سیدھے اور دکھاوے کے فیصلے اور اقدامات سے قومیں نہیں سدھرتیں۔

  • لڈو کا گیت (روسی لوک کہانی)

    لڈو کا گیت (روسی لوک کہانی)

    روسی لوک کہانیوں میں عموماً پرندوں، مینڈکوں، بکریوں اور میمنے یا مختلف اشیاء کی مزاحیہ اور دل چسپ کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اصلاح، کوئی سبق دینا ہوتا ہے۔ یہ ایسی ہی ایک کہانی ہے جو دل چسپ ہے اور بچّوں کے لیے سبق آموز ہے۔

    یہ ایک لڈو کی لوک کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑھیا نے ایک بڑا لڈو بنا کر اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے کھڑکی پر رکھ دیا۔ لڈو وہاں سے لڑھک کر بھاگ نکلا۔ وہ بہت زعم میں تھا۔ لڑھکتے ہوئے سڑک پر جا رہا تھا اور یہ گیت گا رہا تھا: ’’میں گول گول ہوں، لال لال ہوں، خوبصورت ہوں، خوب کمال ہوں، بوڑھیا کو چکمہ دے کر بھاگ گیا ہوں، میں چالاکی کی مثال ہوں۔‘‘

    یہ گیت گاتے ہوئے لڈو جنگل میں پہنچ گیا۔ راستے میں اسے پہلے ایک خرگوش ملا، پھر ایک بھالو ملا، پھر ایک بھیڑیا ملا۔ سب نے لڈو کو کھانے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی آسانی سے سب کو چکمہ دے کر نکل گیا۔ اس کے بعد لڈو کا سامنا چالاک لومڑی سے ہوا۔ لومڑی کے من میں بھی لڈو کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے لڈو سے کہا: ’’ارے، تم کتنا اچھا گاتے ہو! لیکن میں ذرا بہری ہوں اور تمہارا گیت ٹھیک سے نہیں سن پا رہی ہوں۔ ایسا کرو! میری زبان پر بیٹھ جاؤ اور میرے کان کے پاس آ کر پھر سے اپنا گیت سناؤ۔‘‘ لڈو اپنی ستائش سن کر پھولا نہ سمایا۔ دوسرا اسے یقین تھا کہ وہ بہت چالاک ہے اور جس طرح‌ سب کو چکمہ دے کر نکل آیا ہے اس لومڑی کو بھی اگر خطرہ محسوس کیا تو آسانی سے چکمہ دے کر بھاگ نکلے گا۔ وہ پھدک کر لومڑی کی زبان پر چڑھ گیا اور لومڑی اسے ہڑپ کر گئی۔

    اس لوک کہانی سے بتانا یہ مقصود ہے کہ غرور اور زعم عقل و ہوش اور فہم و فراست کا دشمن ہوتا ہے اور کسی بھی موقع پر انسان نقصان اٹھا سکتا ہے۔

  • دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    یہ بہت پرانی کہانی ہے جس میں‌ ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے سمندر پار، بہت دور کسی سلطنت کا بادشاہ طبیعتاً زود رنج اور مزاجاً جارح تھا۔ اپنی رائے سے اختلاف اسے ناپسند تھا۔ اگر کسی وزیر، درباری اور خادم سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی تو سخت سزا دینے سے نہ چوکتا۔

    بادشاہ اگرچہ ظالم نہیں تھا، مگر اپنے ریاستی امور اور اپنی ذات سے متعلق کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رعایت اور نرمی برتنے سے درباری اس پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بات پر بگڑتا تو ایسا بگڑتا کہ لوگوں کے سَر ان کے شانوں سے اتروانے میں‌ ذرا دیر نہ کرتا۔ بادشاہ نے دس جنگلی کتّے بھی پال رکھے تھے۔ ان خونخوار کتّوں کو خاص تربیت دی گئی تھی اور وہ بادشاہ کے حکم پر اپنے سامنے پھینکے گئے آدمی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ ظاہر ہے ایک مجبور اور بے بس انسان ان کتّوں کے آگے کیا کرسکتا ہوگا۔ کتّوں کے نوکیلے دانت اور پنجوں سے گھائل ہونے کے بعد موت ایسے آدمی کا مقدر بن جاتی۔ بادشاہ کے خادمین اور نوکروں سب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھیں اور بادشاہ کے روبرو حاضر باش رہیں تاکہ کسی موقع پر غلطی سے بچ سکیں۔ وہ خوب سوچ سمجھ کر کسی بات کا جواب دیتے اور ہمیشہ بادشاہ کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔

    مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے
    ایک روز کسی نوکر کی شامت آئی اور اس نے بادشاہ کا کوئی کام انجام دیتے ہوئے کسی بات پر اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی مگر بادشاہ کو نوکر کے خیالات نے برافروختہ کردیا۔ اس نے کچھ کہے سنے بغیر بیک لحظہ نوکر کو کتّوں کے باڑے میں پھینک دینے کا حکم جاری کردیا۔ بادشاہ کے کمرے کے باہر موجود سپاہی آواز سن کر دوڑے آئے اور نوکر کو پکڑ لیا۔ نوکر کی رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ موت اس کے سَر پر تھی۔ مگر اس نے ہمّت کرکے بادشاہ کو مخاطب کیا اور اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا، ”حضور! میں نے دس سال آپ کی خدمت کی، آپ مجھ پر اتنا رحم ضرور کریں ان خونخوار کتوں کے سامنے پھینکنے سے پہلے دس دن کی مہلت دے دیں! بادشاہ کچھ سوچ کر اس پر رضامند ہوگیا۔ اب نوکر دس دن کے لیے آزاد تھا۔

    نوکر اسی روز کتّوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے پاس پہنچا اور اس سے سارا ماجرا بیان کر کے درخواست کی کہ وہ اگلے دس دنوں تک کتّوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے۔ کتّوں کا رکھوالا اس پر راضی ہو گیا۔ وہ معتوب نوکر روز باڑے میں جاتا اور کتّوں کو کھانا کھلاتا، ان کو نہلاتا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اپنے گھر لوٹ جاتا۔

    جب دس دن پورے ہوئے تو بادشاہ نے اس نوکر کو طلب کیا اور کہا کہ وہ سزا بھگتنے کو تیار ہوجائے۔ نوکر نے گردن جھکا کر تعظیم کی اور سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے۔ اسے کتّوں کے باڑے میں دھکیلا گیا تو وہاں موجود عملہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنگلی کتّے اس کے آگے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے گھوم رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ نوکر ان کے کتّوں کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا۔

    بادشاہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ بھی حیران ہوا اور بولا۔ ’’میرے ان خونخوار کتوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس آدمی کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں؟‘‘

    پہرے دار بادشاہ کو اس بارے میں کیا بتاتے۔ وہ لاعلم تھے کہ نوکر نے دس روزہ مہلت میں ان کتّوں کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ یہ بات صرف کتّوں کا رکھوالا اور چند دوسرے محافظ جانتے تھے۔ بہرحال، بادشاہ نے نوکر کو دربار میں طلب کیا اور اس بابت سوال کرنے پر نوکر نے بتایا، "حضور! جان کی امان پاؤں تو ایک خطا اور کی ہے، جو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے جو دس روز کی مہلت طلب کی تھی، اس میں ان کتوں کی خدمت کرتا رہا، اور آج جب ان کے سامنے مجھے پھینکا گیا تو یہ نتیجہ نکلا، وہ میری دس روزہ خدمت نہیں بھولے۔ میں نے پورے دس سال آپ کی خدمت کی اور ایک معمولی غلطی پر آپ نے مجھے موت کے منہ میں‌ ڈال دیا۔” نوکر کی اس جسارت پر درباری دم بخود رہ گئے اور خیال کیا کہ اب بادشاہ اس کے ساتھ نہایت برا سلوک کرے گا۔ ادھر بادشاہ اپنے اس پرانے خادم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ یک دم اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بادشاہ نوکر کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔

    سبق:‌ جب کسی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارا ہو تو اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر بھی کرنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ ظرفی بھی ہے اور تعلق کا تقاضا بھی۔ اگرغلطی سنگین ہو یا کسی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہو تب بھی ممکن ہو تو ایسا راستہ اختیار کریں جس کی اپنے تو ایک طرف دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔