Tag: بچوں کے لیے کہانیاں اور حکایات

  • بد مزاج بڑھیا اور سنہری پرندہ (ایرانی لوک کہانی)

    بد مزاج بڑھیا اور سنہری پرندہ (ایرانی لوک کہانی)

    صدیوں پہلے کسی شہر میں ایک بے اولاد جوڑا رہتا تھا۔ دونوں بوڑھے ہوچکے تھے اور گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، لیکن بڑے میاں کی بیوی اب بھی جوانی کی طرح بد مزاج اور ناشکری ہی تھی۔ اپنے شوہر پر طنز کے تیر برسانا اور کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرنا جیسے اس کا وظیفہ تھا۔

    یہ دونوں غربت کے مارے ہوئے تھے اور انہیں ایک پرانی پن چکی میں رہنا پڑ رہا تھا جس کا ڈھانچا خستہ حال تھا اور بارش ہوتی تو چھٹ ٹپکنے لگتی۔ ایک روز بوڑھے کے ہاتھ بہت ہی خوب صورت سنہری پرندہ لگا اور وہ اسے اپنے ٹھکانے پر لے آیا۔ بڑی بی نے اس پر بھی خوب جھگڑا کیا مگر پھر چپ ہو رہیں۔ اگلے دن بوڑھا جب اس پرندے کے پاس گیا تو حیران رہ گیا۔ وہ انسانوں کی طرح بوڑھے سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا، ’’بڑے میاں! میرے چھوٹے بچّے بھوکے ہوں گے، میں انہیں چوگا کھلاتا ہوں، مہربانی کر کے مجھے چھوڑ دیجیے، میں آپ کو ایک ایسا تحفہ دوں گا کہ اس کی مدد سے جو چاہیں گے وہ ہوجائے گا۔‘‘ بوڑھا یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس سنہری پرندے کو آزاد کرتے ہوئے کہا، میں اپنی زندگی کی تکالیف سے نجات چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی اچھے گھر میں پرسکون طریقے سے رہوں۔

    سنہری پرندے نے کہا، یہ کون سا مسئلہ ہے۔ آپ دونوں‌ میرے پیچھے آئیے۔ وہ سنہری پرندہ انہیں جنگل میں لے گیا، وہاں درختوں میں گھرا ایک دروازہ دکھائی دیا۔ پرندے نے پروں کے اشارے سے دروازہ کھولا۔ تینوں اندر گئے تو دیکھا کہ اندر ایک بڑا بڑا سجا سجایا حسین کمرہ تھا۔ لمبا چوڑا صحن، جس میں بہت سے پھولدار اور پھل دار درخت پودے لگے ہوئے تھے۔ بڑے کمرے میں شکاریوں کا ایک لباس بھی لٹکا ہوا تھا۔ غرض ضرورت کی ہر چیز گھر میں موجود تھی۔ پرندے نے کہا کہ یہ آپ کا نیا گھر ہے، یہاں آرام سے رہیں۔ اس کے بعد اس نے اپنا ایک پَر انہیں دیا اور کہا کہ جب بھی مجھ سے کوئی کام ہو، اس پر کو ذرا سا جلا دیجیے، میں فوراً حاضر ہوجاؤں گا۔ دونوں نے اس سنہری پرندے کو رخصت کیا اور ہنسی خوشی اس خوب صورت گھر میں رہنے لگے۔ ان کی زندگی اب بدل گئی تھی۔ بڑے میاں روزانہ شکاریوں والا لباس پہن کر جنگل میں جاتے اور کوئی نہ کوئی اچھا شکار مل جاتا، وہ گوشت بھون کر کھاتے اور موج کرتے۔ یہاں کوئی دور تک دکھائی نہ دیتا تھا اور جب چند برس گزرے تو بڑھیا آہستہ آہستہ اکتانے لگی۔ ایک دن اس میں وہی پرانی عورت جیسے گھس آئی ہو۔ خاوند پر برس پڑی، ’’آخر ہم لوگ کب تک اس بیاباں میں رہتے رہیں؟ جنگل کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے بھلا؟ ہم جنگلی ہوتے جا رہے ہیں، جیسے یہ پرندے اور جانور ہمارے دوست، رشتہ دار ہوں۔‘‘ بڑے میاں نے اسے سمجھایا کہ اب تو سکون سے زندگی گزر رہی ہے، تم یہی چاہتی تھیں، اس ٹوٹی چھت والی چکی میں کیا گزرتی تھی؟

    بڑھیا نے کہا، یہ کوئی بات نہیں، انسان کو بہتر سے بہترین کی طرف جانا چاہیے۔ تم کو یاد ہے نا سنہری پرندے کا وہ پَر؟ ابھی اسے جلاؤ اور پرندے کو حاضر کرو تاکہ وہ ہمارا کچھ اور بندوبست کرے۔ بڑے میاں نے تنگ آ کر وہ پَر نکالا، اسے ذرا سا جلایا، چند ہی لمحوں میں سنہری پرندہ آن پہنچا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔

    بوڑھے نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کیا کہ اب اپنی خواہش بتائے۔ وہ عورت پھٹ پڑی، کہنے لگی کہ ہم جنگل میں پڑے ہیں، زندگی کا خاک مزہ ہے، کوئی انسان ہی نہیں جس سے دو گھڑی بات کی جاسکے۔ ہمیں کسی شہر میں لے جاؤ تاکہ ہم شہری زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ سنہری پرندے نے کہا، کوئی مسئلہ نہیں، وہ انہیں ایک شہر میں لے گیا، وہاں پہلے سے زیادہ خوب صورت گھر موجود تھا۔ اس گھر میں نوکر چاکر سب موجود تھے۔ ان کی شہری زندگی شروع ہوگئی۔ کچھ عرصہ یوں گزر گیا، دونوں میاں بیوی مزے کرتے رہے۔ پھر بڑی بی کو لگا کہ یہ زندگی کچھ بھی نہیں، انہیں اختیارات اور طاقت کا مزہ بھی چکھنا چاہیے۔ اس نے اپنے خاوند کو کہا کہ پرندے کو بلا کر اس سے کہو کہ ہمیں شہر کا حاکم بنوا دو، ہمارے پاس تمام اختیارات ہوں، سب پر ہمارا حکم چلے۔ بوڑھے نے پھر سنہری پرندے کو اسی طریقے سے پَر جلا کر بلایا۔ پرندے نے اس بار بھی انکار نہ کیا اور انہیں ایک قلعے میں لے گیا۔ وہاں کے حاکم پر جانے کیا جادو ہوا تھا کہ ان کو دیکھا تو محل میں لے گیا اور اعلان کیا کہ آج سے یہ دونوں یہاں کے حاکم ہیں، سب وزیر، مشیر، درباری اس بوڑھے جوڑے کے سامنے آداب بجا لائے۔ حکومت تو خیر انہوں نے کیا کرنی تھی۔ وزیر ذمہ داریاں سنبھالتا اور سارے مشیر وغیرہ ہی انتظام چلاتے۔ بڑھیا کا کام یہ تھا کہ وہ ملازموں، درباریوں پر حکم چلاتی اور اپنی طاقت اور اختیار سے تسکین پاتی۔ ایک روز کنیزوں نے بڑھیا کو غسل دیا اور بڑی بی دھوپ میں بال سکھانے بیٹھ گئیں کہ اچانک ایک بادل سورج کے سامنے آگیا اور دھوپ کی راہ میں حائل ہوگیا۔ تنک مزاج بڑھیا جھنجھلا گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو خوب باتیں سنائیں اور بولی کہ فوری طور پر سنہری پرندے کو بلایا جائے، وہ مزید طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان بادلوں کو سبق سکھا سکے۔ بوڑھے نے یہ سنا تو پریشان ہو کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ طاقت کی ہوس ٹھیک نہیں، غیر مشروط، لامحدود اختیارات اور قوت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو میسر ہے، اس پر گزارہ کرو۔ بلکہ یہ سب تو ہمارے لیے اس عمر میں عظیم الشان نعمت سے کم نہیں ہے۔

    یہ سن کر بڑی بی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ تیکھی نظروں سے اس نے خاوند کو دیکھا اور کہا کہ جو بول رہی ہوں وہی کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ تب بوڑھے نے بڑبڑاتے ہوئے سنہری پرندے کو بلایا اور بڑھیا نے اس کے سامنے کہا کہ بادل نے میری دھوپ کا راستہ روکا، میں چاہتی ہوں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز پر میرا حکم چلے۔

    یہ جان کر سنہری پرندے نے انہیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ دونوں چل پڑے۔ اچانک آندھیاں چلنے لگیں، اندھیرا چھا گیا، ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ کچھ دیر میں جب وہ دونوں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئے تو پرندے کا کچھ پتا نہ تھا، اور وہ اپنی پرانی، خستہ حال پن چکی میں پہنچ چکے تھے۔ اب تو بڑھیا بہت پچھتائی اور اسے معلوم ہوگیا کہ اس مرتبہ پرندے نے اس کی ناجائز اور فضول فرمائشوں سے تنگ آکر سزا کے طور پر وہیں پہنچا دیا ہے جہاں تکلیفیں اور مشکلات اس کا مقدر تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا، بڑھیا رو دھو کر چپ ہورہی۔ اس نے نہ صرف خود کو تکلیف میں ڈالا بلکہ اپنے ساتھ بوڑھے شوہر کو بھی مشکل میں پھنسا دیا۔ بدمزاجی اور ناشکری کا انجام یہی ہوتا ہے۔

  • نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے؟

    نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے؟

    صدیوں سے انسان کہانی کہنے اور سننے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ خاص طور پر قدیم دور کی دل فریب اور سبق آموز حکایات نے فرد اور معاشروں کو متاثر کیا ہے۔ یہ حکایات ہمیں سیکھنے، سمجھنے کا موقع دیتی ہیں اور زندگی گزارنے کے اصول بھی بتاتی ہیں۔ اکثر حکایات مختلف خطّوں کی دانا و بینا شخصیات اور صاحبانِ بصیرت سے منسوب ہیں تاہم کسی داستان، قصّہ و حکایت کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اسے پہلی مرتبہ کس نے الفاظ کا جامہ پہنایا اور اس کا پس منظر یا محرکات کیا تھے۔ یہ سب متنازع فیہ رہا ہے اور یہ بھی ایک ایسی ہی حکایت ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہے اور آج کتابوں میں محفوظ ہے۔

    کہتے ہیں کہ ایک نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم (دانا شخص) کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے۔ حکیم نے اس نوجوان کی بات سنی اور بولا: ‘تم مجھے دن کے وقت دریا کے قریب ملو تو تمھارے سوال کا جواب دے سکوں گا۔’

    اگلے دن وہ دانا حکیم دریا پر پہنچا تو وہاں نوجوان کو اپنا منتظر پایا۔ اس نے مسکرا کر نوجوان سے کہا: ‘مجھے یقین ہے کہ آج تم کام یابی کا راز ضرور جان جاؤ گے۔’ یہ کہہ کر اس نے نوجوان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور کہا کہ انھیں دریا میں اترنا ہوگا۔ نوجوان اس کے ساتھ آگے بڑھا یہاں تک کہ وہ دریا کے پانی میں کمر تک ڈوب گئے۔ نوجوان اس وقت تک تو مطمئن نظر آرہا تھا، لیکن پھر اس دانا شخص نے نوجوان کی کلائیوں پر اپنی گرفت سخت کردی اور کچھ آگے بڑھا تو پانی لگ بھگ ان دونوں کی گردن تک آگیا۔ اب نوجوان گھبرا گیا اور چیخنا شروع کر دیا۔ وہ اس دانا شخص کو دریا سے باہر نکلنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ مگر یوں لگتا تھا کہ وہ شخص جیسے اس کی فریاد سن ہی نہیں رہا۔

    بچوں کی کہانیاں

    نوجوان نے یہ دیکھا تو ہاتھ پیر مارنے لگا اور پانی سے باہر نکلنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ وہ کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اس دانا شخص کی گرفت سے خود کو آزاد کروا لے۔ لیکن اوّل تو وہ دریا میں اس دانا شخص کی طرح اپنا توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہا تھا اور دوسری طرف نوجوان نے محسوس کیا کہ وہ دانا شخص اس کے مقابلے میں قوی ہے اور ہاتھوں‌ پر اُس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ نوجوان حیرت اور بے بسی سے اس دانا شخص کو دیکھنے لگا۔ کچھ وقت گزرا تو نوجوان کا جسم سرد پڑنے لگا۔ تب اچانک اس نے اپنا پورا زور لگایا اور لمحوں میں خود کو اس شخص کی گرفت سے آزاد کروانے میں کام یاب ہوگیا۔

    اب دونوں ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ پر تھے اور نوجوان اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے بمشکل مگر تیزی سے کنارے کی طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ آدمی بھی اس کے پیچھے آرہا ہے۔ جب نوجوان ہانپتا کاپنتا کنارے پر پہنچا تو زمین پر لیٹ گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اتنے میں وہ دانا شخص بھی اس کے سَر پر پہنچ گیا اور اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ نوجوان کو حیرت ہورہی تھی کہ اس شخص نے ایسا کیوں کیا؟ وہ ڈوب بھی سکتا تھا۔ تب اس دانا آدمی نے نوجوان سے پوچھا، ‘تم پانی میں مجبور اور بے بس ہوگئے تھے تو سب سے بڑی خواہش کیا تھی؟ نوجوان نے جواب دیا، ” ظاہر ہے میں فراوانی سے ہوا چاہتا تھا اور سانس لینا چاہتا تھا۔’ سقراط نے کہا، ’’یہی کام یابی کا پہلا زینہ ہوتا ہے کہ کوئی انسان ایک خواہش کرے اور پھر اس کی جستجو میں نکل پڑے۔ دریا سے باہر نکلنا تمھاری کام یابی ہے اور اس کام یابی کا راز تمھارا وہ جذبہ ہے جس کا اظہار تم نے پوری شدت کے ساتھ کیا اور تم کام یاب ہوئے۔’

  • حلوائی کا بیٹا

    حلوائی کا بیٹا

    قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے ایسا شفا خانہ قائم کیا جس میں مفت علاج کے ساتھ مریضوں کو صحت یاب ہونے تک قیام و طعام پر ایک دمڑی تک خرچ نہیں‌ کرنا پڑتی تھی بلکہ انواع و اقسام کی نعمتیں اور دیگر مراعات بھی میسر تھیں۔ سو، چند ہی روز میں شفا خانہ مریضوں سے بھر گیا۔

    شفا خانہ ایسا بھرا کہ مزید مریضوں کو داخل کرنا ممکن نہ رہا۔ شروع میں حکمیوں کا خیال تھا کہ معمولی تکلیف اور عام درد اور دوسری شکایات میں‌ مبتلا مریض جلد ہی صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں‌ گے۔ ایسا ہوا بھی، لیکن ان مریضوں کی تعداد بہت کم تھی جو صحت یاب ہوکر شفا خانہ چھوڑ گئے۔ اکثریت ایسی تھی جو مسلسل علاج اور بھرپور توجہ کے باوجود کوئی نہ کوئی شکایت لے کر بیٹھ جاتی اور حکیم ان کے نئے یا مستقل مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام ہورہے تھے۔ ان میں سے کسی کو مستقل جسم میں درد رہتا، تو کسی کو کوئی ایسا روگ لاحق تھا کہ وہ اس سے نجات ہی نہیں حاصل کر پا رہا تھا۔ الغرض صورتِ حال بہت پریشان کن ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے مریضوں نے شفا خانہ میں‌ ایک طویل عرصہ گزار دیا۔

    جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا کہ بڑے بڑے حاذق حکیموں کے علاج سے بھی مریض صحت یاب نہیں ہورہے اور شفا خانے میں گنجائش باقی نہیں تو بادشاہ بھی پریشان ہوا۔ اس نے اعلان کروایا کہ جو حکیم ان عمر بھر کے روگیوں کا روگ دور کرے گا اُسے انعام و اکرام اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا جائے گا۔ بڑے بڑے حکیم اور ماہر اطبا آئے مگر ’منہ پِٹا کر‘ چلے گئے۔ آخر کو ایک حلوائی کا بیٹا دربار میں آیا اور دعویٰ کیا کہ وہ چند ساعتوں میں ایسے تمام روگیوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرسکتا ہے۔ بادشاہ نے کہا ’’چلو، تم بھی قسمت آزما لو۔‘‘

    اس لڑکے کو شفا خانہ لے جایا گیا جہاں پہنچ کر اس نے ایک بڑا سا کڑھاؤ، منوں تیل اور ٹنوں کے حساب سے لکڑیاں منگوا لیں۔ سب کچھ آگیا تو لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی۔ آگ پر کڑھاؤ چڑھایا گیا۔ کڑھاؤ میں تیل کھولایا گیا۔ تیل جوش مارنے لگا تو حلوائی کے فرزند نے شفا خانے کے عملے سے کہا کہ کسی بھی ایسے مریض کو لے آؤ جو برسوں سے یہاں پڑا ہے۔ ایک مریض جو چلنے پھرنے سے قاصر تھا، اسے پلنگ پر لاد کر لایا گیا۔ حلوائی کے پُوت نے پوچھا: ’’بڑے صاحب! آپ کب سے شفاخانے میں داخل ہیں؟‘‘

    معلوم ہوا: ’’پندرہ برس سے۔‘‘

    پوچھا: ’’ ٹھیک نہیں ہوئے؟‘‘

    جواب ملا: ’’نہیں، یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں درد ہے، وہاں درد ہے۔‘‘

    اس لڑکے نے جو معالج بن کر آیا تھا، اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور تسلّی دی کہ وہ ابھی اسے ٹھیک کردے گا۔ پھر اس نے کارندوں سے کہا: ’’اس کا مرض میں جان گیا ہوں۔ اب اس کا علاج شروع کرتے ہیں، اسے ڈنڈا ڈولی کر کے لے جاؤ اور کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں اس کی ٹانگیں تین مرتبہ ڈبو دو۔ اس کے بعد دونوں بازوؤں کو تین مرتبہ کھولتے تیل میں‌ ڈالنا ہوگا۔ اور دیکھو بہت احتیاط سے یہ کام کرنا ہے۔ بزرگ کو کڑھاؤ میں‌ مت گرا دینا۔‘‘ یہ سنتے ہی لاعلاج بابا یکلخت چھلانگ مار کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’نہیں، نہیں۔ حکیم جی! میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے میں اچھل کود کرنے لگا اور سب کو چل کر دکھایا۔ حکیم نے کہا: ’’اب تم شفا خانے کے ہر کمرے میں جاؤ، ہر مریض کو بتاؤ کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘ پھر شفا خانے سے باہر نکل جاؤ۔‘‘ اس کے بعد اُس کے سامنے ایسے چند اور مریض لائے گئے اور ان کے لیے بھی اس نوجوان حکیم نے وہی علاج تجویز کیا جو پہلے مریض کے لیے کیا گیا۔ وہ بھی طریقۂ علاج سن کر فوراً‌ ٹھیک ہوگئے اور ہر قسم کا درد کافور ہوگیا یوں اس حکیم نے کچھ ہی دیر میں سارے مریض ٹھیک کر دیے اور شفا خانہ ان ہڈ حرام اور مفت خوروں سے خالی ہوگیا۔

    بادشاہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور حلوائی کے فرزند کو انعام و اکرام کے ساتھ خلعت سے نوازا گیا۔

    (لوک ادب سے انتخاب)

  • اشرفیوں والا صندوق

    اشرفیوں والا صندوق

    ایک زمین دار تھا، بہت امیر۔ گاؤں کی ساری اچھّی اور زرخیز زمینیں اس کی ملکیت تھیں۔ ان زمینوں کے سرے پر ایک ٹکڑا ایسی بنجر زمین کا تھا جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا تھا۔ زمیں دار نے سوچا، اس زمین سے کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں، کیوں نہ اسے کسی غریب کسان کو دے کر اس پر احسان جتایا جائے۔ اگر اس کی محنت سے زمین اچھّی ہو گئی اور فصل دینے لگی تو پھر واپس لے لوں گا۔

    زمین دار کے پاس بہت سے کسان کام کرتے تھے۔ ان میں سے اس نے ایک ایسا کسان چنا جس کے متعلق اسے یقین تھا کہ اگر کبھی زمین واپس لینی پڑے تو چپ چاپ واپس کر دے گا۔ زمیں دار نے کسان کو بلایا اور کہا ”میں اپنی زمین کا وہ ٹکڑا جو ٹیلے کے پاس ہے، تمہیں دیتا ہوں۔ میرا اس سے اب کوئی تعلّق نہیں۔ تم محنت کر کے اسے ٹھیک کرو۔ اس میں تم جو بھی فصل اگاؤ گے، وہ تمہاری ہو گی۔“ کسان نے زمیں دار کا شکریہ ادا کیا اور اگلے ہی دن زمین پر کام شروع کر دیا۔

    اس نے ایک ہفتے لگاتار محنت کر کے زمین میں سے کنکر، پتھر اور گھاس پھونس صاف کیا اور پھر اس میں ہل چلانا شروع کیا۔ لیکن ایک جگہ ہل کسی چیز میں اٹک گیا۔ اس نے ہل روک لیا اور اس چیز کو نکالنے کے لیے اس جگہ زور سے پھاؤڑا مارا۔ جوں ہی پھاؤڑا زمین پر لگا، ایسی آواز آئی جیسے لوہا لوہے سے ٹکراتا ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ زمین کے اندر لوہے کا کیا کام! اس نے پھاؤڑا پھینک دیا اور بیلچے سے آہستہ آہستہ زمین پر سے مٹّی ہٹانے لگا۔

    کوئی فٹ بھر مٹّی ہٹانے کے بعد اس نے ہاتھ سے چھو کر دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے لوہے کا صندوق ہے۔ اس نے جلدی جلدی مٹّی ہٹائی۔ واقعی وہ صندوق تھا۔ اب تو اس کی دلچسپی بڑھ گئی۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دور دور تک کوئی نہ تھا۔ اس نے صندوق کے چاروں طرف کی مٹّی کھودی اور پورے زور سے صندوق کو ہلایا۔ لیکن وہ اتنا بھاری تھا کہ ذرا بھی نہ ہلا۔ اس میں ایک موٹا سا تالا پڑا ہوا تھا۔ کسان نے پھاؤڑا تالے پر مارا تو وہ ٹوٹ گیا۔ اس نے جلدی جلدی ڈھکن اٹھایا۔ مارے حیرت کے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ صندوق میں سونے کی اشرفیاں بھری ہوئی تھیں۔ کسان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ واقعی سونے کی اشرفیاں تھیں۔ اس نے پھر ایک بار ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔ اس نے ایک اشرفی اٹھا کر جیب میں ڈالی، صندوق کو بند کیا اس کے اوپر مٹّی ڈال کر زمین برابر کر دی۔ آدمی سمجھدار تھا۔ اس نے سوچا اگر جلد بازی سے کام کیا تو ساری دولت ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ وہ چپ چاپ ہل چلاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ سوچتا رہا کے اس صندوق کو یہاں سے لے جانے میں کس سے مدد لے۔

    آخر وہ اس فیصلے پر پہنچا کہ سوائے بیوی کے اور کسی کو یہ راز نہ بتانا چاہیے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کی بیوی پیٹ کی بہت ہلکی تھی۔ وہ جب بھی اپنی بیوی کو کوئی راز کی بات بتاتا، وہ سارے گاؤں میں اسے پھیلا دیتی۔

    سوچ سوچ کر کسان نے اس کا بھی حل ڈھونڈ لیا. وہ شہر گیا اور ایک سنار کے ہاتھ اشرفی فروخت کی۔ سنار نے اسے اتنے روپے دیے کہ اس کی جیبیں بھر گئیں۔ اب وہ پکوڑوں کی دکان پر گیا اور ایک من پکوڑے خریدے۔ پکوڑے لے کر وہ اپنے کھیت میں گیا اور سارے کھیت میں پکوڑے بکھیر دیے۔ اس کے بعد وہ پھر شہر گیا اور بازار سے دو سو سموسے، ایک جھاڑو اور چار کبوتر خریدے۔ پھر ایک مزدور سے یہ سب چیزیں اٹھوا کر گھر آ گیا۔ لیکن گھر میں داخل نہ ہوا، بلکہ پچھلی دیوار سے چھت پر چڑھ کر سارا سامان رسّی میں باندھ کر اوپر کھینچ لیا۔ اس کی بیوی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

    اَب کسان نے ساری چھت اور منڈیروں پر پکوڑے بکھیر دیے۔ پھر سیڑھیوں پر پکوڑے بکھیرتا ہوا نیچے آیا اور جھاڑو اور کبوتر ایک کمرے میں چھپا دیے۔
    اسے دیکھتے ہی اس کی بیوی کہنے لگی ”تم کو تو بس گھر کی کچھ پروا ہی نہیں ہے۔ اس بے کار زمین پر سارا دن وقت ضائع کرتے رہتے ہو۔ میں پوچھتی ہوں، کیا ہم ہمیشہ یوں ہی بھوکے رہیں گے؟ اس زمین کو چھوڑو۔ کوئی اور کام کرو، جس سے چار پیسے ہاتھ آئیں؟“

    کسان بولا، ” اری نیک بخت، ذرا صبر تو کر۔ مجھے سانس تو لینے دے۔ تھکا ہارا آ رہا ہوں، اور تو نے اوپر سے باتیں بنانا شروع کر دیں۔ لا، کچھ کھانے کو دے۔“
    بیوی بولی ”کھانے کو کیا دوں ؟ گھر میں کچھ تھا ہی نہیں جو پکاتی۔ ہمسایوں کے ہاں پوچھتی ہوں۔ شاید ان کے پاس کچھ فالتو بچ رہا ہو۔“

    یہ کہہ کر وہ چھت پر جانے کے لیے سیڑھی پر چڑهی تو پکوڑے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ چھت پر پہنچی تو وہاں بھی ہر طرف پکوڑے پڑے تھے۔ وہ وہیں سے چلائی ” ارے۔۔۔! ارے۔۔۔! ادھر آؤ۔“ کسان نے کہا ”کیا ہے؟“

    بیوی بولی ”دیکھو، آج ہمارے گھر پکوڑوں کی بارش ہوئی ہے۔ ذرا اوپر تو آؤ۔۔۔۔“
    کسان اوپر جا کر بولا ”واقعی۔ یہ تو کمال ہو گیا۔ انہیں اکٹھا کر لو۔ ایک ہفتہ آرام سے کھائیں گے۔“

    جب وہ پکوڑے کھا رہے تھے تو کسان نے کہا ”میں تمہیں ایک خوش خبری سناتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ بات تمہارے سوا کسی اور کو معلوم نہ ہو۔“ بیوی بولی ” تم پوری تسلّی رکھو۔ میں کسی سے ذکر نہ کروں گی۔“ اس پر کسان نے بیوی کو صندوق والی بات بتا دی۔ لیکن پکوڑوں، سموسوں، جھاڑو اور کبوتروں کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ اتنی دولت کا خیال کر کے کسان کی بیوی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ بولی ”چلو، ابھی اٹھا لاتے ہیں وہ صندوق۔“

    کسان بولا ”کیسی باتیں کر رہی ہو۔ رات تو ہو لینے دو۔“ اندھیرا ہوا تو دونوں گھر سے باہر نکلے۔ کسان نے کہا ” پہلے تم جاؤ۔ میں تھوڑی دیر بعد آؤں گا۔“ بیوی چلی گئی تو کسان نے جلدی جلدی کبوتروں کو ذبح کیا اور ان کے خون میں جھاڑو کو خوب تر کر لیا۔ پھر بھاگ کر بیوی سے آملا۔

    دونوں زمین کی طرف جا رہے تھے کہ کسان نے چپکے سے جھاڑی ہلائی، جس سے خون کے چھینٹے اڑ کر اس کی بیوی کے کپڑوں پر پڑے۔ بیوی نے کپڑے دیکھے تو بولی: ”ارے آسمان تو بالکل صاف ہے۔ تارے نکلے ہوئے ہیں۔ یہ بارش کہاں سے ہوئی ہے؟“

    کسان بولا ”صاف موسم میں بارش ہو تو پانی کے بجائے خون برستا ہے۔“ یوں ہی باتیں کرتے ہوئے وہ اپنی زمین پر پہنچ گئے۔ کھیت میں قدم رکھتے ہی کسان کی بیوی چلّائی:
    ” ارے ارے یہ دیکھو! یہ تو سموسوں کی بارش ہوئی ہے!“ یہ کہہ کر اس نے سموسے اٹھا اٹھا کر کھانے شروع کر دیے۔ اس کے بعد دونوں نے اشرفیوں کا صندوق نکالا اور خاموشی سے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں زمین دار کی حویلی پڑتی تھی۔ کسان اور اس کی بیوی حویلی کے پاس سے گزرے تو حویلی کے چوکی دار کے کراہنے کی آواز آئی۔ کسان جانتا تھا کہ چوکی دار کافی عرصے سے بیمار ہے۔ بیوی نے پوچھا:

    ”یہ کون رو رہا ہے؟“ کسان بولا ”سنا ہے ایک جن زمیندار کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ اسی لیے اس کے بیوی بچّے رو رہے ہیں۔“ گھر پہنچ کر کسان نے زمین کھودی اور بیوی کی مدد سے اشرفیوں والا صندوق اس میں دبا دیا۔ صبح اٹھتے ہی کسان کی بیوی نے کسان سے مطالبہ شروع کر دیا کہ اسے اچھے اچھے کپڑے اور زیورات بنانے کے لیے کچھ اشرفیاں دے۔ لیکن کسان ڈرتا تھا کہ اگر اس طرح انہوں نے روپیہ خرچ کیا تو لوگ سوچیں گے کہ ان کے پاس اچانک اتنی دولت کہاں سے آ گئی۔ دوسرے وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی فضول دولت اڑانی شروع کر دے۔ اس نے اشرفیاں دینے سے انکار کر دیا۔

    بیوی اپنی عادت کے مطابق شوہر سے خوب لڑی اور پھر ناراض ہو کر پڑوس میں جا بیٹھی۔ کسان نے زمین میں سے صندوق نکالا اور صحن کے کونے میں نیا گڑھا کھود کر اس میں دفن کر دیا۔ شام کو کسان کی بیوی واپس آئی اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہمسائے کی بیوی آئی اور کسان کی بیوی نے اس سے کہا ”بہن میں تمہیں ایک بات بتاتی ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا۔“

    ہمسائی نے اسے یقین دلایا کہ وہ کسی سے نہ کہے گی تو کسان کی بیوی نے اسے اشرفیوں والے صندوق کی بات بتا دی۔ عورتوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹھہرتی۔ ہمسائی نے وہ بات کسی اور کو بتا دی، اور یوں ہوتے ہوتے یہ بات تمام گاؤں میں پھیل گئی۔ زمیندار کے کان میں بھی اس کی بھنک پڑ گئی۔

    زمیندار غصّے سے بپھرا ہوا کسان کے گھر آیا اور بولا”تو بہت دھوکے باز اور بے ایمان ہے۔ میں نے تیری غربت کا خیال کر کے تجھے زمین دی۔ اس زمین میں سے اشرفیوں کا صندوق نکلا تو تجھے چاہیے تھا کہ فوراً میرے حوالے کر دیتا۔ کہاں ہے وہ صندوق؟“

    کسان پہلے تو گھبرایا لیکن پھر گھبراہٹ پر قابو پاکر کہا ”حضور، میری کیا مجال کہ اتنی بڑی دولت ہاتھ آتی اور میں آپ سے چھپاتا۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔“

    زمین دار گرج کر بولا ”سارا گاؤں اس بات کو جانتا ہے۔ تیری بیوی نے سب کو بتا دیا ہے۔ وہ خود تیرے ساتھ وه صندوق اٹھا کر لائی ہے۔ زیاده چالاکی مت کر۔ جلدی بتا، کہاں ہے وہ صندوق؟“

    کسان نے زمیندار کے آگے ہاتھ جوڑ تے ہوئے کہا ”حضور یہ بڑی جھوٹی عورت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ مجھ سے لڑتی رہتی ہے۔ یہ بات بھی اس نے مجھے بدنام کرنے کے لیے گھڑی ہے۔“

    کسان کی بیوی، جو اب تک چپ بیٹھی تھی ایک دم برس پڑی ”کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ اس دن مجھے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے؟“

    کسان نے کہا ”کس دن کی بات کر رہی ہو؟“

    بیوی بولی ” جس دن شام کو پکوڑوں کی اور رات کو سموسوں کی بارش ہوئی تھی۔“

    کسان کی بیوی کی یہ بات سن کر زمیندار نے سوچا کہ کہیں ا،س عورت کا دماغ تو نہیں چل گیا۔ کبھی پکوڑوں اور سموسموں کی بارش بھی ہوئی ہے!

    کسان اپنی اسکیم کی کامیابی بہت خوش تھا۔ اس نے بیوی سے کہا ”اور کیا ہوا تھا اس دن؟“

    بیوی بولی ”خون کی بارش ہوئی تھی۔ اور کیا ہونا تھا۔“

    زمیندار نے کسان سے کہا ”کیسی باتیں کر رہی ہے تیری بیوی۔ خون کی بارش تو ہم نے نہ کبھی سنی نہ دیکھی۔“

    کسان نے کہا ” یہ ہمیشہ ایسے ہی بَک بَک کرتی رہتی ہے۔“ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا ”کچھ اور یاد ہو تو وہ بھی بتاؤ۔۔۔۔“

    ” ہاں ہاں“ بیوی بولی ”اس دن ایک جن زمیندار صاحب کو اٹھا کر لے گیا تھا اور حویلی میں لوگ رو رہے تھے۔۔۔“

    یہ سنتے ہی زمیندار کو غصّہ آ گیا۔ اس نے اپنے ملازموں سے کہا ” اس چڑیل کی خوب مرمت کرو۔ کسی جن کی جرأت ہے کہ مجھے اٹھا کر لے جائے۔ اس کم بخت نے جھوٹ بول کر غریب کسان کو ناحق بدنام کیا۔۔۔“

    کسان کی بیوی بولی ”حضور، آپ اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ میں آپ کو وہ جگہ دکھاتی ہوں جہاں ہم نے صندوق دبایا تھا۔۔۔“

    زمیندار کے حکم سے ملازموں نے وہ جگہ کھودی جہاں کسان کی بیوی کے مطابق اشرفیوں کا صندوق دبایا گیا تھا۔ لیکن وہاں سے کچھ بھی نہ نکلا۔

    اب تو زمیندار کو یقین ہو گیا کہ اس عورت کے دماغ میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ وہ غصّے سے پیر پٹختا ہوا چلا گیا۔

    کسان نے بیوی سے کہا ”اب کیا خیال ہے ؟ اور بتاؤ لوگوں کو یہ بات اور خوب جوتے کھاؤ۔“

    بیوی اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھی۔ اس نے شوہر سے معافی مانگی اور آئندہ کبھی گھر کی بات کسی کو نہ بتائی۔ کچھ عرصے بعد وہ دونوں گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے اور وہاں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (یورپی ادب سے ماخوذ اس کہانی کے مترجم سیف الدّین حُسام ہیں)

  • رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے بہت منحوس ثابت ہوا اور اسے دن بھر بھوکا رہنا پڑا۔

    وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘ اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔

    وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگ ریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہیے۔

    وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس طرح کا جانور نہیں دیکھا تھا۔

    گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘

    سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘

    ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔

    چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘

    سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘

    نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘

    ’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘

    گیدڑ کی اس بات سے سبھی جانوروں کو تسلّی ہوئی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔

    ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سَیّار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر نکل گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔

    ( ترجمہ: ساحر ہوشیار پوری)

  • ایک تھا بادشاہ!

    ایک تھا بادشاہ!

    ابا جان بھی بچّوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ آخر نہ رہ سکے، بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں؟

    ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا۔‘‘ سب نے شور ہی مچا دیا۔

    ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی:

    کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
    مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
    نہ آتا تھا کوئی بھی اس کے قریب

    بادشاہ اور غریب۔ سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں۔ ابا سنا رہے تھے:

    کئے ایک دن جمع اس نے فقیر
    کھلائی انہیں سونے چاندی کی کھیر
    فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
    امیروں وزیروں سے کہنے لگا
    کہ آؤ چلو آج کھیلیں شکار
    قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
    مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
    کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
    تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
    کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
    مگرمچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
    سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں

    ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہو کر ایک دوسرے کا مونہہ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا ۔ کہنے لگے ’’یہ تو عجیب بے معنی کہانی ہے، جس کا سر نہ پیر۔‘‘

    ابا جان بولے ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

    منجھلے بھائی نے کہا ’’سمجھ میں تو آتی ہے مگر پتہ نہیں چلتا۔‘‘ یہ سن کر سب ہنس پڑے ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے اور پتہ نہیں چلتا۔‘‘ آپا نے کہا ’’ابا جان بادشاہ غریب تھا۔ تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں کیسے رکھ لیا۔ مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا مطلب کیا ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھر سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڑے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگر مچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘

    ننھی بولی’’توبہ توبہ۔ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا جان نے کہا’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔ ہوا یہ کہ:

    سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
    وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
    مرے پاس دال اور آٹا نہیں
    تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
    یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
    کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
    وہیں ایک مکھی کا پر کٹ گیا
    جلاہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا

    یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا’’یہ کہانی تو کچھ اور جلول سی ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا تھا۔‘‘

    ننھی نے کہا ’’خاک مزا آتا ہے۔ تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہوں۔ ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا ہوگا۔ تو پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا نے کہا ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ:

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور

    ’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے—تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’بھئی مجھے کیا معلوم۔ کہانی بنانے والے نے یہی لکھا ہے۔‘‘

    ’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے؟‘‘

    ’’حفیظؔ صاحب نے۔‘‘

    ’’ابا اب میں سمجھا۔ اب میں سمجھا۔ آگے سنائیے ابا جان جی۔‘‘ ابا جان آگے بڑھے۔

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
    لگا ناچنے سانپ کی دم پہ مور
    کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
    بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
    کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
    لئے شیر سے بیر چہیا نے چھین

    چوہیا نے شیر سے بیر چھین لئے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری آزمانے کے لئے کہانی کہہ رہے ہیں۔ اماں جان بھی ہنستی ہوئی بولیں ’’اور تو خیر، یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی۔ سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہیے کہیے آگے کہیے۔ ابا جان نے کہا ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے۔ ہاں میں کیا کہہ رہا تھا۔

    لئے شیر سے بیر چہیا نے چھین
    یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
    اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
    وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
    ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے

    بھائی جان نے قہقہہ مارا ’’ہہ ہہ ہا ہا۔ لیجئے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا بھی آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی۔‘‘ منجھلے بولے ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘ ابا جان نے کہا’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔ کمند ہوا چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘

    آپا نے پوچھا۔’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں؟‘‘ مگر ننھی اب بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور بسورنے لگی ’’اوں اوں اوں۔ کہانی ختم کیجئے۔ واہ ساری کہانی خراب کر دی۔‘‘ ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی:

    غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
    چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
    مگر راہ میں چیونٹیاں آ گئیں
    چنے جس قدر تھے وہ سب کھا گئیں
    بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
    لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی
    اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

    (بچّوں کی اس دل چسپ کہانی کے مصنف حفیظ جالندھری ہیں)

  • آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    ایک بادشاہ دریا کی سیر کو نکلا تو اس غلام کو بھی ساتھ لے لیا جو چند دن پہلے ہی اس کے پاس آیا تھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ کشتی دریا میں آگے بڑھی تو اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔

    بادشاہ کا ایک وزیر اور دوسرے نوکر جو اس کے ساتھ تھے، وہ اسے نرمی کے ساتھ سمجھانے لگے اور ہر طرح اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں‌ ہوتا اور وہ نہیں ڈوبا۔ لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور سیر و تفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح خاموش کرائیں۔ اس کشتی میں ایک دانا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اسے چپ کرا دوں۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس عقلمند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھو‌‌‌‌ں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے، اس دانا کے اشارے پر اس کے بال پکڑ کر کشتی میں کھینچ لیا گیا۔ پھر اس کے دونوں ہاتھ رسی سے جکڑ کر کشتی کے پتوار سے باندھ دیا۔ کچھ وقت گزر گیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقلمند آدمی سے پوچھا، بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اُٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب سے پہلے اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جو کی روٹی اچھی نہیں معلوم دیتی۔ جو چیز ایک شخص کو بری نظر آتی ہے وہی، دوسرے کو بھلی لگتی ہے۔

  • سچ کا نام بڑا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    سچ کا نام بڑا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    آج انگریزی املا کا دن تھا۔ کمرۂ جماعت میں موجود سبھی بچّے گھر سے خوب خوب املا یاد کر کے آئے تھے۔

    گھنٹہ بجنے کے تھوڑی دیر بعد انگریزی کے استاد کلاس میں آ گئے۔ سب بچّے ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انگریزی کے استاد نے بہت شفقت اور نرمی سے کہا، ’’بچوں آج ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آئے ہیں اور وہ معائنہ کریں گے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو املا نہیں بولوں گا ابھی انسپکٹر صاحب آتے ہوں گے وہی تم لوگوں کو املا بولیں گے۔‘‘

    ’’جی جی اچھا ماسٹر صاحب۔’’ اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں نے استاد کی بات ختم ہوتے ہی ایک ساتھ دھیمی آواز میں کہا یہ سن کراستاد نے پھر ان کو مخاطب کیا۔

    ’’دیکھو بچوں گھبرانا بالکل نہیں جیسے ہی انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوں تم سب بہت خاموشی اور بہت ادب سے کھڑے ہو جانا پھر جب وہ کہیں (Please Sit down) پلیز سٹ ڈاؤن تو تم سب بیٹھ جانا پھر جب وہ پوچھیں کہ آج کیا ہے تو صرف مانٹیر جواب دے کہ سر آج (Dictation) ڈکٹیشن کا دن ہے۔‘‘

    انگریزی کے استاد بچوں کو یہ سمجھا ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے پورے کلاس پر بھرپور نظر دوڑاتے ہوئے ان سب سے بیٹھ جانے کو کہا پھر انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’ماسٹر صاحب کیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘

    ’’سر آج ڈکٹیشن کا دن ہے۔’’ انگریزی کے استاد نے جواب دیا، ’’اچھا اچھا تو آج ڈکٹیشن کا دن ہے تو لائیے آج میں ہی بول دوں دیکھوں آپ کے بچّے کیا پڑھتے ہیں۔‘’ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے انگریزی کے استاد سے کہا انگریزی کے استاد یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے ذرا سا ہٹ کر اور ایک کونے میں کھڑے ہوگئے تاکہ انسپکٹر صاحب سب لڑکوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ سبھی بچّے املا لکھنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔

    ’’بچوں تمہارا قلم کاپی تیار ہے نا؟‘‘

    ’’جی ہاں سر‘‘ سبھی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

    ’’تو لکھو میں بولتا ہوں۔‘‘ انسپکٹر صاحب نے کہا اور پھر رک رک کر املا بولنا شروع کر دیا۔ Forest فاریسٹ، Man مین، Cup کپ، Teacher ٹیچر، Kettle کیٹل۔

    سبھی بچے گھر سے خوب پڑھ کر اور یاد کر کے آئے تھے اس لئے ان سبھی نے جلدی جلدی انسپکٹر صاحب کے بولے ہوئے پانچوں لفظ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھ دیے۔ انگریزی کے استاد نے خوش ہو کر بچوں کے پاس جا جا کر دیکھا تو صرف ایک بچہ ایسا نکلا جو ’’کیٹل‘‘ نہیں لکھ پاتا تھا اور باقی چاروں لفظ اس نے بالکل ٹھیک لکھے تھے۔ وہ بچہ چاہتا تو بغل میں بیٹھے کسی بھی بچے کی نقل کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور اس نے اپنی نظر اپنی کاپی سے ذرا بھی نہ ہٹائی۔

    انسپکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے سبھی بچوں کے پاس گئے اور انہوں نے سب کی کاپیاں دیکھیں ۔وہ جب اس کے پاس گئے تو وہ بچہ سب بچوں کی طرح ادب سے کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنی کاپی انسپکٹر صاحب کو پیش کر دی۔ انسپکٹر صاحب نے اس کی کاپی دیکھی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔

    ’’تم کو‘’ کیٹل ‘‘کی اسپیلنگ نہیں معلوم؟‘‘

    ’’نو سَر‘‘ اس بچّے نے بہت ایمانداری اور شرمساری سے کہا۔

    انسپکٹر صاحب اس بچے کا جواب سن کر اس پر غصہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بہت خوش ہوئے اور انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر صاحب! آپ کے کلاس کے بچے نہ صرف پڑھنے میں تیز ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں۔ اس بچے کے دائیں بائیں دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچوں نے سبھی لفظ صحیح لکھے ہیں اگر یہ بچہ چاہتا تو نقل کر سکتا تھا یا پوچھ سکتا تھا مگر یہ نقل کرنا یا پوچھنا بھی بے ایمانی سمجھتا ہے اس لئے اس نے ایسا نہیں کیا میں آپ کے سبھی بچوں سے اور اس بچے سے بہت خوش ہوں۔‘‘

    انسپکٹر صاحب انگریزی کے استاد سے اتنا کہہ کر اس بچہ سے مخاطب ہوئے۔

    ’’کیوں بچے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    اس نے اپنا نام بتایا جس کو سن کر انسپکٹر صاحب نے کہا۔ ’’تم ضرور ایک اچھے آدمی بنو گے اور معاشرے میں مقام پیدا کرو گے۔ کیوں کہ ذہین وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اکثر بڑے بڑے فراڈ اور نہایت منظم طریقے سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں‌، لیکن ذہانت کے ساتھ ایمان داری اور سچ بولنا وہ صفت ہے جو سب کو نصیب نہیں‌ ہوتی۔‘‘

    دوستو! دنیا میں جتنے بھی بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو ذہین تو تھے ہی لیکن ان کی ایک بڑی خوبی جھوٹ سے ان کا نفرت کرنا اور ہر حال میں سچ بولنا تھا۔

    (مصنّف: نامعلوم)