Tag: بچوں کی کہانیاں

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں

بچوں کی کہانیاں

  • رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے بہت منحوس ثابت ہوا اور اسے دن بھر بھوکا رہنا پڑا۔

    وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘ اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔

    وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگ ریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہیے۔

    وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس طرح کا جانور نہیں دیکھا تھا۔

    گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘

    سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘

    ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔

    چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘

    سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘

    نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘

    ’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘

    گیدڑ کی اس بات سے سبھی جانوروں کو تسلّی ہوئی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔

    ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سَیّار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر نکل گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔

    ( ترجمہ: ساحر ہوشیار پوری)

  • نیکی کا بدلہ (پولینڈ کی ایک دل چسپ کہانی)

    نیکی کا بدلہ (پولینڈ کی ایک دل چسپ کہانی)

    ایک رات اتنی تیز آندھی آئی کہ درخت جڑوں سے اُڑ گئے، مکانوں کے چھجے اُڑ گئے اور پرندوں کے لاتعداد گھونسلے تباہ ہوگئے اور وہ ان میں سے گِر کر مر گئے۔

    ایک لکڑہارے نے سوچا کہ آندھی سے جنگل میں درخت کافی گِر گئے ہوں گے اور لکڑی آسانی سے مل جائے گی۔ وہ صبح دھوپ نکلتے ہی جنگل کو چل دیا۔

    جنگل میں ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی اور اِس پہاڑی کی ڈھلان پر ایک بہت بڑا درخت گِرا پڑا تھا۔ اس کا تنا ایک چٹان کے پتھّر پر پڑا تھا اور شاخیں پگڈنڈی پر پھیلی ہوئی تھیں۔

    لکڑہارے نے درخت کی چھوٹی چھوٹی شاخیں کاٹنی شروع کیں تا کہ راستہ صاف ہو جائے۔ اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی دردناک آواز آ رہی ہو۔ اُس نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ آواز پتّھر کے نیچے سے آ رہی ہے۔ بہت ہی باریک آواز تھی۔ کوئی جان دار تکلیف سے کراہ رہا تھا۔

    لکڑہارے سے رہا نہ گیا۔ اُس نے پتھر کے پاس جا کر آواز دی:

    ”کون ہے ؟ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟“

    پتھر کے نیچے سے باریک سی آواز آئی ”خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔ میری جان نکلی جا رہی ہے۔ میں تمہیں اِس احسان کا بدلہ دوں گا۔“

    لکڑہارا بولا ”خدا جانے تم کون ہو اور میرے احسان کا کیا بدلہ دو۔“

    آواز آئی ”تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو دوسرے لوگوں کو ان کے نیک کاموں کا ملتا ہے۔ اس کی فکر مت کرو۔“

    لکڑہارے نے کچھ دیر غور کیا۔ پھر بولا ”لیکن یہ پتھر اتنا وزنی ہے کہ میں کوشش بھی کروں تو اسے ہلا نہیں سکتا۔ یہ میری ہمّت سے باہر ہے۔“

    آواز پھر آئی ”تمہیں سارا پتھر اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک کنارہ تھوڑا سا اٹھا دو۔ پھر میں خود ہی باہر نکل آؤں گا۔ اپنی کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنساؤ اور دستے پر زور لگاؤ۔“

    لکڑہارے نے ایسا ہی کیا۔ اُس نے کلہاڑی کے پَھل کو پتھر کے نیچے پھنسا کر پورے زور سے پتھر کو ہلایا تو کوئی چیز رینگتی ہوئی اس کے نیچے سے نکلی۔ لکڑہارا حیران رہ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک سانپ کھڑا تھا جس کے سات پھن تھے۔ بجائے اس کے کہ وعدہ کے مطابق لکڑہارے کو اِس کے احسان کا بدلہ دیتا، وہ پھنکار کر بولا ”اب میں تمہیں ڈسوں گا۔“

    لکڑہارا گھبرا کر بولا ”کیا کہا؟ مجھے ڈسو گے؟ اس لیے کہ میں نے تمہاری جان بچائی ہے؟“

    سانپ نے اپنی ساتوں زبانوں سے شعلے برساتے ہوئے کہا۔ ”ہاں۔ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ برائی سے دیا جاتا ہے۔“

    لکڑہارے کی سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا، وہ چپکے سے بھاگنے لگا۔ لیکن سانپ بھلا اُسے کہاں بھاگنے دیتا۔ اس نے لکڑہارے کی ٹانگ پکڑ لی اور بولا: ”میں نے یہی وعدہ کیا تھا نا کہ تمہیں وہی بدلہ دوں گا جو دوسرے لوگوں کو ملتا ہے۔“

    لکڑہارا بولا” لیکن صرف تمہارے کہنے سے تو یہ بات نہیں ہو سکتی۔ مجھے لوگوں سے پوچھنے دو کہ جو نیکی میں نے تمہارے ساتھ کی ہے، اُس کا یہی بدلہ ملنا چاہیے جو تم مجھے دینا چاہتے ہو!“

    سانپ نے کہا ”خوشی سے۔ بڑی خوشی سے ۔ تم جس سے چاہو پوچھ لو۔“ دونوں چل کھڑے ہوئے۔ کچھ دور جا کر اُنہیں ایک بوڑھا گھوڑا دکھائی دیا جو گھاس کھا رہا تھا۔ سانپ نے گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”چلو، گھوڑے سے فیصلہ کرائیں۔“

    لکڑہارا بولا ”صرف اکیلا گھوڑا ہی نہیں، کم سے کم تین جانوروں سے پوچھیں گے؟“

    سانپ بولا ”تم جتنے جانوروں سے چاہو، پوچھ لو۔ فيصلہ میرے ہی حق میں ہو گا۔“

    وہ گھوڑے کے پاس جا کر بولے، ”گھوڑے بھائی، ہمارا فیصلہ کرو۔“ گھوڑے کی ہڈّیاں نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے چلا نہیں جاتا تھا۔ بڑی مشکل سے اُس نے سر اوپر اٹھایا اور کہا:
    ”کیا بات ہے؟“

    لکڑہارا بولا، ”میں درخت سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ ایک پتھر کے نیچے سے اس سانپ کے کراہنے کی آواز آئی۔“ یہ کہہ کر لکڑہارے نے تمام بات تفصیل سے گھوڑے کو بتائی اور آخر میں کہا ”اور اب یہ کہتا ہے کہ میں تجھے ڈسوں گا۔ کیا یہ انصاف ہے؟“

    گھوڑا بولا ”سانپ درست کہتا ہے۔ اِس دنیا میں یہی بدلہ ہوتا ہے نیکی کا۔ مجھے دیکھ لو جب میں جوان تھا تو ایک امیر آدمی کی بگھّی کھینچتا تھا۔ میرے پاؤں میں گھنگرو بندھے ہوتے تھے، اور ہر روز شام کو میری مالش ہوتی تھی۔ عمده سے عمدہ کھانے کو ملتا تھا۔ لیکن جب میں بوڑھا ہو گیا تو اس شخص نے میری تمام عمر کی خدمت کا صلہ دیا کہ مجھے جنگل میں چھوڑ دیا، جہاں ہر وقت بھیڑیوں اور دوسرے خوں خوار جانوروں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔“
    لکڑہارا اس فیصلے سے مطمئن نہ ہوا۔ بولا ”آؤ دو جانوروں سے اور پوچھ لیں۔ اگر اُنہوں نے بھی تمہارے حق میں فیصلہ دیا تو پھر مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔“

    یہ کہہ کر وہ آگے چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک بوڑھا کتّا دکھائی دیا، جو بہت کمزور تھا۔ وہ ایک ہڈّی کو چچوڑ رہا تھا۔ لکڑہارے نے کتّے سے کہا ” بھئی ہمارا ایک فیصلہ تو کر دو۔“

    یہ کہہ کر اس نے ساری کہانی کتّے کو کہہ سنائی۔ کتّے نے غور سے ساری بات سنی اور پھر بولا ”سانپ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ دنیا کا یہی دستور ہے ۔ یہاں نیکی کا وہی صلہ مِلتا ہے جو سانپ تمہیں دینا چاہتا ہے۔ مجھے دیکھو۔ جب میں جوان تھا تو جس گھر میں مَیں رہتا تھا وہ لوگ مجھے کرسی پر بٹھاتے تھے۔ اچھّے سے اچھّا کھانے کو دیتے تھے۔ جب میں بوڑھا ہو گیا اور کِسی کام کا نہ رہا تو گھر سے نکال دیا گیا۔ اُسی گھر سے جس کی میں نے تمام عمر رکھوالی کی۔ غیروں کو اُس کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور چوروں کو بھونک بھونک کر بھگایا۔ اب میں بھوکوں مر رہا ہوں۔ میاں لکڑہارے؟ نیکی کا یہی بدلہ ملتا ہے۔ سانپ کچھ غلط تو نہیں کہہ رہا۔“

    اب وہ تیسرے جج کی تلاش میں نکلے۔ جلد ہی انہیں ایک دبلی پتلی، مریل سی گائے مل گئی جو زمین پر بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔ سانپ اور لکڑہارے کو دیکھ کر اس نے بھاگنا چاہا لیکن اُس سے اُٹھا ہی نہ گیا۔ لکڑہارے نے اُس سے کہا: ”بی گائے، ذرا ہمارا فیصلہ تو کر دو۔“

    گائے بولی، ”خیریت تو ہے؟ کیا مشکل آ پڑی؟“ لکڑہارے نے سارا قصّہ دہرایا تو گائے بولی، ”سانپ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ نیکی کا یہی بدلہ ہوتا ہے جو سانپ تم کو دینا چاہتا ہے۔ میری طرف دیکھو۔ میں نے تمام عمر انسان کی خدمت کی۔ اپنے بچّوں کا حق مار کر اُس کے بچّوں کو دودھ دیا۔ لیکن جب میں بوڈھی ہو گئی اور میرا دودھ خشک ہوگیا تو میرے مالک نے میری تمام عمر کی خدمت کا یہ بدلہ دیا کہ مجھے ایک قصائی کے ہاتھ بیچ دیا کہ وہ مجھے پورے کا پورا کاٹ ڈالے۔ وہ تو ایسا اتفاق ہوا کہ قصائی کا بچّہ مجھے لے کر اِدھر سے گزر رہا تھا کہ میں رسّی تڑا کر بھاگی ورنہ اب تک مجھے نیکی کا وہ بدلہ مل چکا ہوتا جو یہ سانپ تمہیں دینا چاہتا ہے۔“

    گائے کا فیصلہ سن کر لکڑہارا بہت گھبرایا۔ اُسے اپنی موت نظر آنے لگی۔ سانپ نے کہا ”بس تین جج میرے حق میں فیصلہ دے چکے۔ چاہو تو ایک سے اور پوچھ لو۔ لیکن یہ آخری جج ہو گا۔“ وہ پھر آگے چل دیے۔ راستے میں ایک بھیڑ ملی ۔ لیکن لکڑہارا جانتا تھا کہ بھیڑ بہت بزدل ہوتی ہے۔ وہ سانپ سے ڈر جائے گی اور اُسی کے حق میں فیصلہ دے گی۔

    لکڑہارا دراصل لومڑی کی تلاش میں تھا۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ لومڑی بہت عقل مند اور سمجھ دار ہوتی ہے۔ اتفاق کی بات ہے اُسی وقت ایک لومڑی اُدھر سے گزری۔ لکڑہارے نے اُس سے کہا: ”بی لومڑی، ذرا سنو تو۔۔۔ “

    لکڑہارے کے ہاتھ میں کلہاڑی دیکھ کر لومڑی بھاگنے لگی تو وہ جلدی سے بولا ”ڈرو نہیں۔ ہم تو تم سے ایک فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔“

    ”کیسا فیصلہ؟“ لومڑی نے پوچھا۔ لکڑہارے نے ساری بات اُسے بتائی تو وہ بولی ”سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تُم دونوں کے بیان علیحدہ علیحدہ سنوں گی۔“

    سانپ فوراً راضی ہو گیا۔ لومڑی لکڑہارے کو ایک طرف لے جا کر بولی، ”میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ تمہارے حق میں فیصلہ کروں گی لیکن یہ بتاؤ کہ تم اس کے بدلے میں مجھے کیا دو گے؟“

    لکڑہارا بولا ”تم جو چاہو گی دوں گا۔ فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہیے۔“

    لومڑی نے کہا ”تم ہر اتوار کو مجھے ایک موٹی تازی مرغی کھانے کو دے سکو گے؟“
    لکڑہارا بولا ”دوں گا۔ اور ہاتھ باندھ کر دوں گا۔“

    لومڑی بولی، ”ٹھیک ہے۔ میں فیصلہ تمہارے حق میں کروں گی۔ لیکن اپنا وعدہ بھول نہ جانا۔“

    اب وہ سانپ کو ایک طرف لے گئی اور اس سے کہا ” بات یہ ہے کہ تمہارا گواه تو کوئی موجود نہیں اور گواہی کے بغیر صحیح فیصلہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہاں ایک صورت ہے کہ میں اُس پتھر کو دیکھوں جس کے نیچے تم دبے ہوئے تھے۔ اس سے فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی۔ ورنہ یا تو تمہارے ساتھ بے انصافی ہو جائے گی یا لکڑہارے کے ساتھ۔“ وہ تینوں پتھر کے پاس پہنچے تو لکڑہارا بولا ” سانپ اِس پتھر کے نیچے تھا۔“
    لومڑی نے پوچھا ”تم نے اسے باہر کیسے نکالا؟“

    ”میں نے اپنی کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنسایا اور اُس کو ذرا سا اوپر اٹھا دیا ۔ سانپ باہر نکل آیا۔“

    لومڑی بولی ” کس طرح؟ اُٹھا کر دکھاؤ۔“ لکڑہارے نے کلہاڑی کا پھل پتھر کے نیچے پھنسایا اور دستے پر زور لگا کر پتھر کو ذرا سا اوپر اٹھا دیا۔

    لومڑی سانپ سے بولی ”تُم پتھر کے نیچے لیٹ جاؤ تاکہ میں دیکھ سکوں کہ لکڑہارے نے تمہیں باہر نکالنے میں کچھ محنت بھی کی ہے یا یوں ہی احسان جتا رہا ہے۔“

    سانپ اپنے سات سَروں کے باوجود اتنا ذہین نہ تھا۔ وہ رینگ کر پتھر کے نیچے داخل ہوا اور اُس طرح لیٹ گیا جیسے پہلے لیٹا ہوا تھا۔ لومڑی نے لکڑہارے کو اشارہ کیا۔ اُس نے جلدی سے کلہاڑی پتھّر کے نیچے سے کھینچ لی۔ سانپ پتھّر کے نیچے دب گیا۔

    لومڑی بولی، ”لو، سانپ میاں تمہارا فیصلہ ہو گیا۔ اب یہاں لیٹے رہو، جب تک تمہارا جی چاہے۔“

    لکڑہارا بہت خوش ہوا ۔ اُس نے لومڑی سے کہا ”بہت خوب، کمال کر دیا تم نے ! اب آؤ، میرا گھر دیکھ لو۔“ لومڑی نے لکڑہارے کا مکان دیکھ لیا۔ اب وہ ہر اتوار آتی اور لکڑہارے سے ایک موٹی تازی مرغی لے جاتی۔ آہستہ آہستہ لکڑہارے کی تمام مرغیاں ختم ہو گئیں تو اُس نے گاؤں کے لوگوں کی مرغیاں چرانا شروع کر دیں۔ لیکن کب تک۔ گاؤں والوں کو لکڑہارے پر شک ہو گیا اور اُس نے بدنامی سے بچنے کے لیے ایک دن فیصلہ کیا کہ لومڑی کا کام تمام کر دیا جائے۔

    اتوار کی شام کو لومڑی کے آنے کا وقت ہوا تو لکڑہارے نے بندوق بھری اور درختوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ لومڑی خوش تھی کہ موٹی مرغی کھانے کو ملے گی لیکن یہاں معاملہ ہی اور تھا۔ لکڑہارے نے ایسا تاک کے نشانہ مارا کہ گولی لومڑی کے دل کو چیرتی ہوئی نِکل گئی۔

  • چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چار دیہاتی ایک قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ وہ صبح سے سہ پہر تک مچھلیاں پکڑتے رہے۔ جب بہت ساری مچھلیاں پکڑ لیں تو ان کو بانس میں پرو کر اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ چاروں بہت خوش تھے۔

    ایک نے کہا، "آج کا دن تو بہت اچھا رہا۔ ہماری بیویاں اتنی ساری مچھلیاں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔”

    دوسرے نے کہا، ” ہاں، اور ہم سب کے گھر والے خوب مزے لے کر مچھلیاں کھائیں گے۔” باقی دو دیہاتی کچھ نہیں بولے اور ان کی باتوں پر صرف سَر ہلا دیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ ان میں سے ایک اچانک رک گیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر عجیب عجیب سی نظروں سے دوسروں کو دیکھنے لگا۔

    اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا، "کیا ہوا؟”

    اس کے منہ سے نکلا، "چوتھا کہاں گیا؟”

    باقی سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟”

    وہ بولا "بھئی دیکھو! صبح جب ہم گھر سے آئے تھے تو چار تھے۔ اب ہم صرف تین ہیں۔ چوتھا کہاں گیا؟”
    اس بات پر سب حیران ہو گئے۔ اب دوسرے نے گننا شروع کیا، "ایک، دو، تین۔” اس نے خود کو چھوڑ کر باقی کو گنا اور بول اٹھا، "ارے واقعی چوتھا کہاں گیا؟” ان دونوں کو پریشان دیکھ کر باقی دو دیہاتیوں نے بھی باری باری سب کو گنا اور چونکہ ہر دیہاتی خود کو نہیں گنتا تھا، اس لیے ان چاروں کو یقین ہوگیا کہ وہ واقعی تین رہ گئے ہیں اور ان میں سے ایک غائب ہے۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ وہ سوچنے لگے چوتھا اگر غائب ہوا تو کیسے، وہ سب تو ساتھ ہی تھے۔

    آخر ان میں سے ایک چیخا، "ہو نہ ہو، وہ بے وقوف ابھی تک مچھلیاں پکڑ رہا ہو گا۔”

    اس کی یہ بات سب کے دل کو لگی۔ وہ دریا کی طرف بھاگے، مگر دریا کے کنارے پر تو کوئی بھی نہ تھا۔ انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ ایک روہانسا ہو کر بولا، "آخر اسے ہوا کیا؟ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟”

    ایک دور کی کوڑی لایا، "ہو سکتا ہے وہ دریا میں گر گیا ہو۔ آؤ دیکھیں ورنہ اس کی بیوی ہمارا نجانے کیا حشر کرے۔”

    وہ ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملا، البتہ ایک مکّار اور کام چور آدمی ان کو مل گیا۔ وہ کافی دیر سے چھپ کر ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ یہ سب بیوقوف اور گاؤدی ہیں۔ اس نے ان سے مچھلیاں ٹھگنے کی ٹھانی۔

    وہ اچانک ان کے سامنے آ کر بولا، "شام بخیر دوستو! کیسے ہو؟”

    ان میں سے ایک بولا، "ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔”

    وہ بناوٹ سے بولا، "ارے! کیا ہو گیا؟”

    ان میں‌ سے ایک دہیاتی نے سارا ماجرا اس کے سامنے رکھا کہ ہم چاروں دوست گھر سے شکار کو آئے تھے، مگر ہمارا چوتھا ساتھی غائب ہوگیا ہے۔ وہ چالاک شخص دل ہی دل میں ان پر ہنس رہا تھا مگر بناوٹی لہجے میں فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے بولا، "ادھر ادھر دیکھا بھی ہے؟”

    چاروں افسردہ ہو کر بولے، "ہاں بڑا تلاش کیا، مگر وہ مل ہی نہیں رہا۔” "اب ہم اس کی بیوی سے کیا کہیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آ جائے گی۔ ہے بھی بڑی لڑاکا۔”

    مکّار اور کام چور آدمی نے مصنوعی حیرت سے یہ سب باتیں سنیں۔ کچھ دیر یونہی سامنے گھورتا رہا، پھر اچانک لرزنے لگا اور گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ چاروں اس کی حالت دیکھ کر اور بھی ڈر گئے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا، تم کہہ رہے تھے کہ تم چار تھے۔”

    "ہاں ہم چار تھے۔”

    "دریا پر تم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں؟”

    "ہاں ہم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں۔”

    "لیکن اب صرف تین رہ گئے ہو۔” وہ بظاہر لرزتا ہوا مگر اندر سے اپنی ہنسی ضبط کرتا ہوا بولا۔

    چاروں نے ایک آواز ہو کر کہا، "ہاں ہم صرف تین رہ گئے ہیں۔”

    وہ آدمی بولا، "اوہ میرے الله!”

    وہ چاروں لرز گئے، "کیا ہوا؟”

    وہ بری طرح کانپنے لگا اور بولا، "مجھے ڈر لگ رہا ہے۔”

    وہ بے وقوفوں کی طرح بولے، "ڈر تو ہمیں بھی لگ رہا ہے، مگر کس بات سے یہ معلوم نہیں۔”

    مکّار شخص کانپتے ہوئے بولا، "میں بتاتا ہوں کہ مجھے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ وہ چوتھا اسی لیے غائب ہے کہ وہ تمہارا دوست تھا ہی نہیں۔”

    چاروں کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ وہ بولے، "پھر کون تھا وہ؟”

    مکّار آدمی بولا، "وہ؟ وہ تو جنّ تھا۔ وہ جن تھا جنّ۔۔۔۔”

    یہ کہہ کر وہ گاؤں کی طرف بھاگ نکلا۔ ان چاروں احمقوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر انہوں نے اپنا اپنی مچھلیاں وہیں پھینک دیں اور خود بھی یہی چیختے ہوئے بھاگ نکلے، "وہ جنّ تھا جنّ۔”

    وہ ایسے بھاگے کہ مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کام چور آدمی جو ان سے پہلے بھاگ نکلا تھا، کدھر ہے۔ وہ تو ایک پیر کے پیچھے چھپ گیا تھا اور ان بے وقوفوں کے بھاگتے ہی پیڑ کی اوٹ سے نکل کر ان کی مچھلیاں جمع کرنے لگا۔ وہ ان بے وقوفوں‌ کی شکار کی ہوئی مچھلیاں اپنے گھر لے گیا۔

    اس مکّار اور کام چور شخص کی بیوی اس سے بڑی تنگ تھی۔ وہ کوئی کام دھندا نہیں‌ کرتا تھا اور دن بھر گھر سے باہر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی محنت مزدوری کرکے کسی طرح کنبے کا پیٹ بھرنے پر مجبور تھی۔ آج اس عورت نے سوچ رکھا تھا کہ آتے ہی اس کام چور کی خبر لوں گی، لیکن کام چور کی قسمت اچھی تھی۔

    اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں، کیوں کہ وہ ڈھیر ساری مچھلی لے کر آیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بولا، "صبح سے اب تک دریا پر مچھلیاں پکڑتا رہا، بہت تھک گیا ہوں۔ اب تم جلدی سے ایک بڑی مچھلی پکا کر مجھے کھلا دو، بہت بھوک لگ رہی ہے۔ باقی کو اس طرح رکھ دو کہ وہ خراب نہ ہوں۔”

    "ہاں، ہاں، کیوں نہیں‌، اتنی محنت تم نے کی ہے، میرا فرض بنتا ہے کہ تم کو مزیدار سالن بنا کر دوں، آج تو کمال ہی ہوگیا۔” بیوی نے کہا اور چولھے کی طرف بڑھ گئی۔ کام چور چارپائی پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔ وہ دل ہی دل میں ان بے وقوفوں پر ہنس رہا تھا اور اپنی بیوی کو دھوکا دینے پر خوش بھی تھا۔

    سچ ہے کاہل اور کام چور آدمی سے غیر ہی نہیں اپنے بھی نہیں‌ بچ پاتے اور وہ سب کو یکساں طور پر دھوکا دیتا ہے۔

    (ملایا کی یہ لوک کہانی بچّوں کے ماہ نامہ ‘نونہال’ میں‌ 1988ء میں شایع ہوئی تھی جس کے مترجم اشرف نوشاہی ہیں)

  • سترنگا ہیرا

    سترنگا ہیرا

    کسی ملک پر ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ کے سپاہی آئے روز شہریوں اور محل میں آنے والے فریادیوں کو تنگ کرتے اور ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی گردن تک مار دیتے۔ اگر کوئی بھی شخص ان کی شکایت کرنے بادشاہ کے پاس جاتا تو بادشاہ کہتا کہ تم ہمارے سپاہیوں پر الزام لگاتے ہو اور جلّاد کو حکم دیتا کہ اس کا سَر قلم کر دیا جائے تاکہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بادشاہ کے خلاف بات کرتا تو سپاہی فوراً اسے گرفتار کرلیتے اور سخت ترین سزا دی جاتی۔ رعایا بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سے متنفر ہو چکے تھی۔

    بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شہزادی نشاط تھا۔ بادشاہ کو اس سے بہت پیار تھا۔ شہزادی نشاط جب اٹھارہ برس کی ہوئی تو ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئی۔ اس کا جسم موم کی طرح گھلتا ہی جا رہا تھا۔ اس بیماری کا علاج کسی کے پاس نہ تھا۔ شاہی حکیم اور ہر شہر کے بڑے طبیب جواب دے چکے تھے۔ ایک دن بادشاہ کے خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے تو بادشاہ بزرگ کے پاؤں پر گر پڑا اور اپنی بیٹی کی بیماری کا علاج پوچھنے لگا۔ بزرگ نے کہا، ’’یہ تیرے ظلم کی سزا ہے۔ اگر تو اللہ کی مخلوق پر ظلم نہ کرتا تو یہ پریشانی نہ آتی۔ اگر تم اپنی بیٹی کو صحت یاب دیکھنا چاہتے ہو تو اللہ کی مخلوق پر ظلم کرنا چھوڑ دو، عدل کے ساتھ حکومت کرو، کیا تم یہ کر سکتے ہو؟ پھر میں بتاؤں گا کہ تمہاری بیٹی کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے کہا ’’میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ بزرگ نے کہا’’ اب میری بات غور سے سن، یہاں سے جنوب کی طرف 12 کوس دور ایک سردار کے لشکر نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے، اس کا ایک بے حد خاص درباری ہامان ہے، اس کے پاس طلسمی انگوٹھی ہے، اگر اس کو راضی کرلیا تو سمجھو تمہاری بیٹی کا علاج ہو گیا۔ اب تم انصاف کے ساتھ حکومت چلانا اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کرنا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر بزرگ غائب ہو گئے۔

    بادشاہ نے اگلے روز وزیر اور سپاہیوں کو لیا اور سردار کے لشکر کی طرف چل پڑا۔ چند گھنٹوں بعد سردار کے سامنے حاضر ہوا، دعا سلام کے بعد بادشاہ نے اپنی پریشانی بتائی تو سردارنے فوراً ہامان کو بلایا اور اسے یہ سب بتایا۔ ہامان بولا ’’عالی جاہ! آپ کہتے ہیں تو میں یہ کام کرتا ہوں اور بیماری کا علاج ڈھونڈ لوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر ہامان وہاں سے نکل گیا، پھر اپنی طلسمی انگوٹھی سے پوچھا ’’اے طلسمی انگوٹھی مجھے بتاؤ کہ شہزادی نشاط کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ تو طلسمی انگوٹھی نے بتایا کہ یہاں سے شمال کی طرف تین کوس دور ایک جنگل ہے، اس میں ایک سیاہ غار ہے، اس کے اندر ایک شیش ناگ رہتا ہے، اسے مار کر اس کے منہ سے ایک سترنگا ہیرا نکال لینا۔ اگر وہ ہیرا شہزادی کے بالوں میں دو دن تک باندھ دیا جائے تو شہزادی صحت یاب ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر ہامان اس جنگل کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر ہی دم لیا۔ اس نے غار ڈھونڈ کر اس میں موجود شیش ناگ کو اپنی تلوار سے مار کر ہیرا نکالا اور بادشاہ کے ساتھ اس کے ملک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر شہزادی نشاط کے بالوں میں وہ سترنگا ہیرا باندھا گیا تو وہ ٹھیک ہونے لگی۔ ہفتہ بھر میں شہزادی خود بخود چلنے پھرنے لگی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور ہامان کے لیے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا۔ ہامان نے بادشاہ سے انعام لیا اور کئی خچروں پر لاد کر اپنے سردار کے پاس لوٹ گیا۔ بادشاہ نے کئی محافظ بھی اس کے ساتھ روانہ کیے تاکہ اسے منزل پر پہنچا سکیں۔ اس کے بعد بادشاہ بھی عدل کے ساتھ حکومت کرنے لگا اور ظلم و ستم سے باز آگیا۔

    (بادشاہ اور طلسماتی دنیا کی کہانیاں)

  • آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    ایک بادشاہ دریا کی سیر کو نکلا تو اس غلام کو بھی ساتھ لے لیا جو چند دن پہلے ہی اس کے پاس آیا تھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ کشتی دریا میں آگے بڑھی تو اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔

    بادشاہ کا ایک وزیر اور دوسرے نوکر جو اس کے ساتھ تھے، وہ اسے نرمی کے ساتھ سمجھانے لگے اور ہر طرح اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں‌ ہوتا اور وہ نہیں ڈوبا۔ لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور سیر و تفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح خاموش کرائیں۔ اس کشتی میں ایک دانا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اسے چپ کرا دوں۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس عقلمند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھو‌‌‌‌ں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے، اس دانا کے اشارے پر اس کے بال پکڑ کر کشتی میں کھینچ لیا گیا۔ پھر اس کے دونوں ہاتھ رسی سے جکڑ کر کشتی کے پتوار سے باندھ دیا۔ کچھ وقت گزر گیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقلمند آدمی سے پوچھا، بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اُٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب سے پہلے اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جو کی روٹی اچھی نہیں معلوم دیتی۔ جو چیز ایک شخص کو بری نظر آتی ہے وہی، دوسرے کو بھلی لگتی ہے۔

  • سچ کا نام بڑا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    سچ کا نام بڑا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    آج انگریزی املا کا دن تھا۔ کمرۂ جماعت میں موجود سبھی بچّے گھر سے خوب خوب املا یاد کر کے آئے تھے۔

    گھنٹہ بجنے کے تھوڑی دیر بعد انگریزی کے استاد کلاس میں آ گئے۔ سب بچّے ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انگریزی کے استاد نے بہت شفقت اور نرمی سے کہا، ’’بچوں آج ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آئے ہیں اور وہ معائنہ کریں گے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو املا نہیں بولوں گا ابھی انسپکٹر صاحب آتے ہوں گے وہی تم لوگوں کو املا بولیں گے۔‘‘

    ’’جی جی اچھا ماسٹر صاحب۔’’ اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں نے استاد کی بات ختم ہوتے ہی ایک ساتھ دھیمی آواز میں کہا یہ سن کراستاد نے پھر ان کو مخاطب کیا۔

    ’’دیکھو بچوں گھبرانا بالکل نہیں جیسے ہی انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوں تم سب بہت خاموشی اور بہت ادب سے کھڑے ہو جانا پھر جب وہ کہیں (Please Sit down) پلیز سٹ ڈاؤن تو تم سب بیٹھ جانا پھر جب وہ پوچھیں کہ آج کیا ہے تو صرف مانٹیر جواب دے کہ سر آج (Dictation) ڈکٹیشن کا دن ہے۔‘‘

    انگریزی کے استاد بچوں کو یہ سمجھا ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے پورے کلاس پر بھرپور نظر دوڑاتے ہوئے ان سب سے بیٹھ جانے کو کہا پھر انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’ماسٹر صاحب کیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘

    ’’سر آج ڈکٹیشن کا دن ہے۔’’ انگریزی کے استاد نے جواب دیا، ’’اچھا اچھا تو آج ڈکٹیشن کا دن ہے تو لائیے آج میں ہی بول دوں دیکھوں آپ کے بچّے کیا پڑھتے ہیں۔‘’ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے انگریزی کے استاد سے کہا انگریزی کے استاد یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے ذرا سا ہٹ کر اور ایک کونے میں کھڑے ہوگئے تاکہ انسپکٹر صاحب سب لڑکوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ سبھی بچّے املا لکھنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔

    ’’بچوں تمہارا قلم کاپی تیار ہے نا؟‘‘

    ’’جی ہاں سر‘‘ سبھی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

    ’’تو لکھو میں بولتا ہوں۔‘‘ انسپکٹر صاحب نے کہا اور پھر رک رک کر املا بولنا شروع کر دیا۔ Forest فاریسٹ، Man مین، Cup کپ، Teacher ٹیچر، Kettle کیٹل۔

    سبھی بچے گھر سے خوب پڑھ کر اور یاد کر کے آئے تھے اس لئے ان سبھی نے جلدی جلدی انسپکٹر صاحب کے بولے ہوئے پانچوں لفظ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھ دیے۔ انگریزی کے استاد نے خوش ہو کر بچوں کے پاس جا جا کر دیکھا تو صرف ایک بچہ ایسا نکلا جو ’’کیٹل‘‘ نہیں لکھ پاتا تھا اور باقی چاروں لفظ اس نے بالکل ٹھیک لکھے تھے۔ وہ بچہ چاہتا تو بغل میں بیٹھے کسی بھی بچے کی نقل کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور اس نے اپنی نظر اپنی کاپی سے ذرا بھی نہ ہٹائی۔

    انسپکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے سبھی بچوں کے پاس گئے اور انہوں نے سب کی کاپیاں دیکھیں ۔وہ جب اس کے پاس گئے تو وہ بچہ سب بچوں کی طرح ادب سے کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنی کاپی انسپکٹر صاحب کو پیش کر دی۔ انسپکٹر صاحب نے اس کی کاپی دیکھی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔

    ’’تم کو‘’ کیٹل ‘‘کی اسپیلنگ نہیں معلوم؟‘‘

    ’’نو سَر‘‘ اس بچّے نے بہت ایمانداری اور شرمساری سے کہا۔

    انسپکٹر صاحب اس بچے کا جواب سن کر اس پر غصہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بہت خوش ہوئے اور انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر صاحب! آپ کے کلاس کے بچے نہ صرف پڑھنے میں تیز ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں۔ اس بچے کے دائیں بائیں دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچوں نے سبھی لفظ صحیح لکھے ہیں اگر یہ بچہ چاہتا تو نقل کر سکتا تھا یا پوچھ سکتا تھا مگر یہ نقل کرنا یا پوچھنا بھی بے ایمانی سمجھتا ہے اس لئے اس نے ایسا نہیں کیا میں آپ کے سبھی بچوں سے اور اس بچے سے بہت خوش ہوں۔‘‘

    انسپکٹر صاحب انگریزی کے استاد سے اتنا کہہ کر اس بچہ سے مخاطب ہوئے۔

    ’’کیوں بچے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    اس نے اپنا نام بتایا جس کو سن کر انسپکٹر صاحب نے کہا۔ ’’تم ضرور ایک اچھے آدمی بنو گے اور معاشرے میں مقام پیدا کرو گے۔ کیوں کہ ذہین وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اکثر بڑے بڑے فراڈ اور نہایت منظم طریقے سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں‌، لیکن ذہانت کے ساتھ ایمان داری اور سچ بولنا وہ صفت ہے جو سب کو نصیب نہیں‌ ہوتی۔‘‘

    دوستو! دنیا میں جتنے بھی بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو ذہین تو تھے ہی لیکن ان کی ایک بڑی خوبی جھوٹ سے ان کا نفرت کرنا اور ہر حال میں سچ بولنا تھا۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • چور پتّھر (دل چسپ کہانی)

    چور پتّھر (دل چسپ کہانی)

    بہت دنوں پہلے کسی گاؤں میں ایک مچھیرا رہتا تھا۔ اس کی ایک بیوی تھی اور ایک لڑکا۔ بیچارہ تھا بہت غریب! لیکن محنت بھی خوب کرتا تھا۔

    وہ صبح ہوتے ہی اپنا جال لے کر چھوٹی سی کشتی میں بیٹھ جاتا اور سمندر کی چنچل موجوں سے کھیلتا ہوا دور بہت دور مچھلیاں پکڑنے کے لئے نکل جاتا۔ گھر میں اس کی بیوی بھی محنت کرتی۔ گھر کا کام کاج کرنے کے بعد وہ گرم گرم مزے دار بھجیے بناتی اور بیچنے کے لئے اپنے لڑکے کو دے دیتی۔ وہ ان بھجیوں کو لے کر گاؤں کے گلی کوچوں میں چلا جاتا۔ اس طرح مچھیرے کا یہ چھوٹا سا کنبہ ہنسی خوشی اپنےغریبی کے دن گزار رہا تھا۔

    ایک روزمچھیرے کا لڑکا بھجیے بیچنے کے لئے گاؤں میں دور نکل گیا۔ جب سب بھجیے بک گئے تو وہ پیسوں کو تھال میں رکھ کر، تھال سر پر اٹھائے اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر دور تھا، دھوپ تیز تھی۔ لڑکا چلتے چلتے تھک گیا۔ راستے میں اسے ایک بڑا سا پتھر دکھائی دیا۔ پتھر کو دیکھ کر اسے خیال آیا کہ اس کے سائے میں کچھ دیر آرام کر لوں۔ یہ سوچ کر اس نے تھال پتھر پر رکھ دیا اور خود پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

    تھوڑی ہی دیر بعد اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا۔ کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ تھال خالی ہے اور اس میں ایک بھی پیسہ نہیں۔ اب تو وہ بہت ڈرا کہ اگر خالی ہاتھ گھر گیا تو ماں ناراض ہوگی۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ شاید کوئی اس کی مدد کرے لیکن وہاں سوائے گھاس پھونس اور پتھروں کے کچھ بھی نہیں تھا۔
    آخر بہت سوچ بچار کے بعد ایک بات اس کی سمجھ میں آئی۔ اس نے جلدی سے خالی تھال ہاتھ میں لیا اور قاضی کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس وقت قاضی صاحب اپنے دوستوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ جب انہوں نے ایک چھوٹے سے لڑکے کو خالی تھال لئے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی اور ان کے دوستوں کو بھی تعجب ہوا۔

    بچوں کی کہانیاں

    لڑکا قاضی صاحب کے سامنے آیا، تھال زمین پر رکھا اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ قاضی صاحب نے مسکرا کر پوچھا، ’’کیوں بیٹا! کیا بات ہے؟ یہاں کیسے چلے آئے؟‘‘

    قاضی صاحب کے لہجے میں ہمدردی تھی، محبت تھی اور لڑکا اسی ہمدردی اور محبت کا محتاج تھا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اس نے روتے ہوئے اپنی پوری کہانی انہیں سنانا شروع کی۔ قاضی صاحب اور ان کے دوستوں نے لڑکے کی بپتا کو بڑے غورسے سنا۔ جب اس کی آپ بیتی ختم ہوئی تو چاروں طرف ایک خاموشی چھا گئی۔ قاضی صاحب نے اپنی آنکھیں موند لیں، سر جھکا لیا اور کچھ سوچنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے سر اٹھایا، آنکھیں کھولیں اور بڑی متانت اور سنجیدگی سے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا۔ ’’اس لڑکے کے ساتھ جاؤ اور اس پتھر کو، جس پر اس نے پیسوں کا تھال رکھا تھا، رسیوں سے جکڑ کر ہماری خدمت میں پیش کرو۔ اس نے اس غریب کے پیسے چرائے ہیں، اس کی محنت چرائی ہے۔ لہٰذا اسے اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘

    قاضی صاحب کے اس حکم پر سپاہیوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ وہ سوچنے لگے کہ کہیں پتھر بھی چوری کر سکتا ہے۔ لیکن قاضی صاحب کا حکم تھا، لہٰذا وہ لڑکے کے ساتھ گئے۔ پتھر کو رسیوں سے باندھا اور کھینچتے ہوئے چلے۔ جب گاؤں کے لوگوں نے قاضی کے سپاہیوں کو اس طرح پتھر لے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟ سپاہیوں نے جو سچ بات تھی وہ بتا دی۔ بس پھر کیا تھا آن کی آن میں یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی کہ ایک پتھر نے مچھیرے کے لڑکے کے پیسے چرائے ہیں اور اسے انصاف کے لئے قاضی صاحب کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی گاؤں کے سب لوگ عدالت کی طرف چل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے عدالت کا کمرہ ہجومیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔

    قاضی صاحب عدالت میں کرسی پر بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے ایک طرف مچھیرے کا لڑکا ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور دوسری جانب رسیوں میں جکڑا ہوا پتھر رکھا ہوا تھا۔ قاضی صاحب نے لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ تم نے پیسے تھال میں رکھے تھے اور تھال کو اس پتھر پر رکھا تھا؟‘‘ لڑکے نے بڑے ادب سے جواب دیا، ’’جی حضور، مجھے پورا یقین ہے کہ تھال اس پتھر پر تھا اور پیسے تھال میں تھے۔‘‘
    اب قاضی صاحب نے اپنا رخ پتھر کی جانب کیا اور کہا، ’’مدعی نے اس وقت جو کچھ بھی کہا ہے، کیا تمہیں اس سے انکار ہے؟‘‘

    قاضی صاحب کے اس سوال پر پوری عدالت میں ایک قہقہہ گونج اٹھا۔ سب آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کہیں پتھر بھی چوری کر سکتا ہے؟ کہیں پتھر بھی سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ قاضی نے لوگوں سے عدالت کی عزت اور احترام کی خاطر خاموش رہنے کے لئے کہا۔ عدالت میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ جب پتھر کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا تو قاضی صاحب نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’چونکہ عدالت کے سوال پر پتھر کی خاموشی اپنے جرم کا اقبال کر رہی ہے، اس لئے اپنے جرم کے پاداش میں اسے سو کوڑے لگائے جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔‘‘

    قاضی صاحب کے اس فیصلہ پر عدالت میں پھر ایک بار قہقہہ کی آواز گونج اٹھی۔ چوبدار نے دوبارہ مجمع کو خاموش رہنے کا حکم دیا۔ عدالت کے کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اب پتھر کو عدالت کے بیچوں بیچ لایا گیا۔ اس کی رسیاں کھول دی گئیں۔ سپاہی کا کوڑا اس پر برسنا شروع ہوا۔ کوڑے کی آواز فضا میں کانپنے لگی اور لوگ اس عجیب و غریب سزا پر ہنسنے لگے۔

    سزا مکمل ہو گئی۔ قاضی صاحب نے عدالت برخاست کر دی اور جب لوگ باہر جانے لگے تو قاضی صاحب نے اچانک سبھوں کو رک جانے کا حکم دیا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا!’’چوں کہ آپ لوگوں نے عدالت کے کمرے میں بے اختیار قہقہہ لگا کر اس کی توہین کی ہے، لہٰذا ہر شخص کو سزا کے طور پر ایک پیسہ جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ایک سپاہی پانی سے بھرا ہوا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے دروازہ پر کھڑا رہے گا اور ہر شخص اس پانی سے بھرے ہوئے پیالہ میں ایک پیسہ ڈال کر باہر کی طرف نکل جائے گا۔ حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔‘‘

    قاضی اپنا حکم سنا کر خاموش ہو گیا۔ عدالت کا کمرہ مختلف شکوک اور شبہات کا مرکز بن گیا۔ سپاہیوں نے مجمع کو ایک قطار کی صورت میں کھڑا کر دیا۔ اب ہر شخص باری باری اس پانی سے بھرے ہوئے پیالہ میں ایک پیسہ ڈالتا اور باہر کی طرف نکل جاتا۔ قاضی صاحب کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ایک شخص پیالہ میں پیسہ ڈال کر باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ قاضی صاحب نے چلّا کر کہا، ’’اس شخص کو گرفتار کیا جائے۔ سپاہیوں نے اسے فوراً پکڑ لیا اور قاضی کے سامنے پیش کیا۔ عدالت دوبارہ بیٹھی۔ قاضی صاحب نے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’چور پکڑا گیا اور آپ لوگوں کے سامنے حاضر ہے۔‘‘

    اس کے بعد قاضی نے گرفتار شخص سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’سچ سچ بتاؤ، کیا تم نے اس غریب کے پیسے نہیں چرائے؟ اگر تم نے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا تو تمہیں دگنی سزا دی جائے گی۔ ایک چوری کے الزام میں اور دوسرا جھوٹ بولنے کے جرم میں۔‘‘ اس شخص نے فورا اپنے گناہ کو قبول کیا۔ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا۔ سبھوں نے مل کر قاضی صاحب سے درخواست کی کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے چور کو کیسے پکڑا؟ قاضی صاحب نے کہا، ’’پتھر کو عدالت میں پیش کرنے کا مقصد آپ سبھوں کو یہاں جمع کرنا تھا۔ پتھر سے گفتگو اور اس کی سزا ایک مذاق تھا۔ جس کا مقصد آپ لوگوں کو ہنسا کر توہینِ عدالت کا مجرم قرار دینا تھا اور آپ لوگوں سے جرمانہ وصول کرنے سے مراد چور کو پہچاننا تھا اور وہ مراد حاصل ہو گئی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ کس طرح تو وہ بھی سن لیجئے۔ آپ لوگوں نے پانی میں ایک ایک پیسہ ڈال دیا، لیکن کچھ نہیں ہوا اور جب اس شخص نے پانی میں پیسہ ڈالا تو پانی کی سطح پر تیل کی چکناہٹ تیرنے لگی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے پیسے پر تیل لگا ہوا تھا اور تیل پر لگا ہوا پیسہ اس کی جیب میں کہاں سے آیا؟ اسی بھجیے کے تھال سے جس میں تیل پیسے پر لگ گیا تھا۔‘‘

    قاضی کی یہ بات سن کر سب کو حیرت ہوئی اور وہ قاضی کے فیصلے کی داد دینے لگے۔ اس کے بعد جرمانے کے وہ تمام پیسے مچھیرے کے لڑکے کو دیے گئے۔ اس طرح لڑکا خوش خوش اپنے گھر لوٹا اور چور کو اس کے کئے کی سزا ملی۔

    (بچوں کے لیے لکھی گئی اس کہانی کے مصنّف ریاض آفندی ہیں)

  • بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    پرانے زمانے کی بات ہے، ایک تاجر تجارت کی غرض سے بغداد پہنچا۔ پچھلے وقتوں میں تجارت کا یہ قانون تھا کہ تجارتی سامان کے ساتھ جس ملک میں کوئی تاجر داخل ہوتا تو اسے سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ تاجر اپنا تعارف کرواتا اور سامانِ تجارت کی خوبیوں اور انفرادیت سے آگاہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس تاجر کو بھی بغداد میں بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔

    تاجر نے بیش قیمت تحائف بادشاہ کی نذر کیے۔ پھر مالِ تجارت کی تفصیل بتاتے ہوئے ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرنے لگا۔ اس دوران تاجر نے بادشاہ کو پانی سے چلنے والی ایک گھڑی دکھائی اور بتایا یہ میں نے یونان سے خریدی ہے۔ اس کے بعد قالین دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ میں نے ایران سے خریدا ہے اور خالص ریشم کے تار سے بنا ہے۔ اس نے ایک قلم دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا ہے۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بہت خوب، تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں جو تم نے ایران، یونان اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاﺅ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایانِ شان کوئی چیز نظر آئی۔ تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کے لیے کہا، یوں تو بادشاہ سلامت آپ کے شایانِ شان بہت چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے مجھے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنا پڑتا جب کہ میرے پاس صرف دو دن کا وقت تھا۔

    بادشاہ نے پوچھا۔ اچھا وہ کیا چیز تھی۔ تاجر بولا، جناب وہ ایک موتی ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ اس کو کوئی چرا بھی نہیں سکتا اور اس موتی سے بہت سارے زیور بھی بنا کر پہنے جاسکتے ہیں۔ بادشاہ کو یہ سن کر تعجب ہوا اور کہنے لگا۔ میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہوں گا۔ اس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کو اس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے۔ وزیر اپنے مقصد کے لیے نکل پڑا۔ ادھر تاجر دربار سے رخصت ہوگیا۔

    جنگلوں، سمندروں، پہاڑوں اور صحراﺅں غرض یہ کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری۔ وادی وادی گھوما، ہر شخص سے اس نادر و نایاب موتی کا پوچھا مگر سب نے یہ ہی کہا کہ ایسا کوئی موتی نہیں ہے جو چوری نہ ہوسکے اور اس سے بہت سارے زیور بن جائیں۔ لوگ اس کی بات سن کر ہنستے اور کہتے۔ مسافر پاگل ہوگیا ہے۔

    یوں ہی مہینوں بیت گئے، ناامیدی کے سائے گہرے ہونے لگے لیکن بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اس کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ وزیر نے ہر ممکن کوشش کر لی، سو اس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ وزیر اپنی ناکامی پر خوف زدہ اور روتا ہوا جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات کافی ہوچکی تھی اور وزیر بہت تھک بھی گیا تھا۔ ایک درخت کے پاس آرام کے ارادے سے لیٹا ہی تھا کہ اسی لمحے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ پہلے تو وزیر ڈر گیا مگر پھر ایک آواز نے اس کو حوصلہ دیا۔

    اے نوجوان ڈرو مت، میں اچھی پری ہوں۔ بتا تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، تو مدتوں کا تھکا ہوا مسافر معلوم ہوتا ہے، بتا میں تیری کیا مدد کروں۔

    وزیر نے اپنی داستان کہہ سنائی کہ اسے جس موتی کی تلاش تھی، وہ کہیں نہیں ملا۔ اب اچھی پری وزیر کے سامنے آچکی تھی اور وہ وزیر کی بات سن کر بے ساختہ ہنس پڑی، پھر بولی۔ افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک موتی کی تلاش میں مہینوں مارا مارا پھرتا رہا۔

    وزیر بولا۔ اچھی پری، میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔ وہ بولی، بھلے آدمی، وہ موتی دراصل علم کا موتی ہے لیکن تو اس کی ظاہری شکل کو تلاش کرتا رہا۔ علم تو ایک ایسی شے ہے جسے ہزاروں نام دیے جاسکتے ہیں۔ کہیں اسے پھل دار درخت کہتے ہیں تو کبھی سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسے سمندر بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    لیکن اس سے زیور بنانے والی صفت۔ وزیر نے حیرت سے پوچھا۔

    پری نے مسکراتے ہوئے کہا۔ علم کی بہت ساری صفات ہیں۔ تم اس موتی کی صورت کو کیوں تلاش کرتے ہو۔ یاد رکھو، ہر شے کی تاثیر کا تعلق اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کی اندرونی خوبیوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح علم بھی ایک نایاب موتی ہے کہ جس سے یہ حاصل ہوجائے، وہ اس سے ایسے ہی سج جاتا ہے جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے اور اسے کوئی چرا نہیں سکتا بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔

    وزیر بڑے غور سے پری کی بات سن رہا تھا اور بالآخر اس بات کا قائل ہوگیا کہ واقعی علم ایک ایسا موتی ہے کہ جس کے پاس ہو، وہ دراصل دنیا کے سب سے قیمتی زیور کا مالک بن جاتا ہے۔ وزیر نے پری کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد اچھی پری وہاں سے غائب ہوگئی۔ اب وزیر بہت خوش تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ بادشاہ کو بھی قائل کر لے گا، وہ اپنے ملک خوشی خوشی روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہوگیا کہ صرف علم ہی وہ موتی ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    وہ تاجر بغداد میں اپنا سامان فروخت کر کے اپنے ملک جاچکا تھا۔ بادشاہ نے وزیر کو کہا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں‌ تھا بلکہ ایک دانا اور قابل شخص تھا اور یقیناً اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت سے ہمارے ملک کے اس عظیم شہر میں اپنا مال بیچ کر خوب منافع پایا ہو گا۔

    (بچوں کے ادب سے انتخاب)

  • عظیم کاری گر (یونانی کی لوک کہانی)

    عظیم کاری گر (یونانی کی لوک کہانی)

    صدیوں پہلے یونان کے شہر ایتھنز میں ڈیڈیلس نامی ایک شخص رہتا تھا جو لکڑی، پتھر اور دھاتوں کے کام میں اتنا ماہر تھا کہ دور دور سے لوگ اس کے پاس مختلف قسم کا سامان بنوانے کے لیے آتے تھے۔ وہ ایک شان دار اور نہایت باکمال کاری گر تھا۔

    اسی نے لوگوں کو بتایا کہ مضبوط اور خوب صورت مکان کیسے بنائے جاتے ہیں، دروازے مضبوط اور عالی شان کیسے بنتے ہیں اور ستونوں کے سہارے چھت کیسے بنائی جاتی ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے چیزوں کو گوند سے جوڑنا سیکھا تھا۔ اس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی تھیں۔ اسے یونان کے مشہور ترین موجد اور عظیم فن کار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

    ڈیڈیلس کا ایک یتیم بھتیجا تھا جس کا نام پرڈکس تھا۔ ڈیڈیلس نے اسے ساتھ کام کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ اس طرح وہ ڈیڈیلس کا شاگرد بھی تھا۔ پرڈکس اتنا ذہین تھا کہ تیزی سے کام سیکھتا گیا اور کچھ عرصہ میں اپنے چچا سے زیادہ ماہر ہوگیا۔ اسے جنگل، پہاڑ اور سمندر بہت پسند تھے۔ وہ اکثر ان مقامات پر چہل قدمی کرتا اور یہاں نظر آنے والی اشیاء سے کچھ ایجاد کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک دن ساحل پر اس نے ایک بڑی مچھلی کی ریڑھ کی ہڈی اٹھائی اور اس سے آری ایجاد کی۔ پرندوں کو درختوں کے تنوں میں سوراخ کرتے دیکھ اس نے چھینی بنائی اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ بھی سیکھا۔ پھر اس نے کمہار کا پہیہ ایجاد کیا جس پر مٹی کے برتن بنائے جاتے ہیں۔ اس نے کانٹے والے قطب نما کے علاوہ کم عمری میں کئی دل چسپ اور مفید چیزیں ایجاد کر لیں۔

    پرڈکس کی مہارت دیکھ کر ڈیڈیلس کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ اگر یہ لڑکا اسی طرح کام سیکھتا رہا اور ایجادات کرتا رہا تو یہ ایک دن مجھ سے بڑا آدمی بن جائے گا اور دنیا مجھے نہیں بلکہ اسے یاد رکھے گی۔ بس پھر کیا تھا، دن بہ دن ڈیڈیلس کے دل میں پرڈکس کے لیے نفرت پروان چڑھتی گئی۔

    ڈیڈیلس، ایتھنز کے نوجوان بادشاہ ایجیئس کے لیے پتھر کا ایک عالیشان محل بنا رہا تھا جس میں اس نے ایتھینا (یونانی دیوی) کا ایک خوبصورت مندر بھی بنایا تھا۔ یہ محل شہر کے وسط میں ایک بڑی چٹان پر تعمیر کیا جارہا تھا۔ اس کی تزئین و آرائش کا کام ڈیڈیلس اور پرڈکس مل کر کررہے تھے۔ ایک دن ڈیڈیلس کے ذہن میں اچانک ایک ترکیب آئی۔

    ایک صبح جب دونوں ایتھینا کے مندر کی بیرونی دیواروں پر نقاشی کر رہے تھے تو ڈیڈیلس نے بھتیجے کو دیوار کے ایک تنگ حصے پر جانے کے لیے کہا جس کے نیچے انتہائی پتھریلی چٹانیں تھیں۔ پرڈکس نے سوچا کہ وہ دبلا پتلا ہے اور تنگ حصے پر باآسانی کھڑا ہو کر نقاشی کرسکتا ہے لہٰذا وہ وہاں پہنچ گیا۔ تبھی ڈیڈیلس نے ایک ہتھوڑی اس کی جانب بڑھائی اور کہا کہ دیوار کی سطح ہموار کر دو۔ پرڈکس نے جیسے ہی وزنی ہتھوڑی اٹھائی، اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سہارے کے لیے بنائی گئی پتلی پٹی سے اس کا پاؤں پھسل گیا۔ ایتھینا جو بظاہر مجسمہ مگر درحقیقت دیوی تھی، کو پرڈکس کا یہ انجام منظور نہیں تھا، لہٰذا پرڈکس کے چٹان پر گرنے سے قبل ہی ایتھینا نے اسے ایک تیتر میں بدل دیا جو ہوا میں اُڑتا ہوا جنگل اور پہاڑوں کی جانب نکل گیا۔ اس طرح پرڈکس کی جان بچ گئی۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے عشق کرنے والا اب انہی مقامات کا باسی بن گیا۔ یونانی آج بھی کہتے ہیں کہ موسم گرما میں جب پھول کھلتے ہیں اور ہوائیں چلتی ہیں تو پرڈکس کی میٹھی آوازیں جنگل میں سنائی دیتی ہیں۔

    جب ایتھنز کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ڈیڈیلس نے اپنے بھتیجے کے ساتھ کس قدر گھناؤنا فعل انجام دیا ہے تو ان کے دل میں اس کے خلاف غم و غصہ بھر گیا۔ پرڈکس ایک محبت کرنے والا لڑکا تھا جسے پورا شہر پسند کرتا تھا مگر اپنے بد اخلاق چچا (جسے صرف خود سے محبت تھی) کے سبب وہ ان کے درمیان سے غائب ہوگیا تھا۔ سبھی چاہتے تھے کہ ڈیڈیلس کو سزائے موت دی جائے لیکن جب انہیں یاد آیا کہ اس نے ان کے گھروں کو خوب صورت اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے تو انہوں نے اسے زندہ رہنے دیا مگر ایتھنز سے نکال دیا۔

    بندرگاہ پر ایک بحری جہاز لنگر انداز تھا جس کا سفر چند منٹوں بعد ہی شروع ہونے والا تھا۔ اس جہاز میں ڈیڈیلس اپنے تمام قیمتی آلات اور اپنے جوان بیٹے اِیکروس کے ساتھ سوار ہوگیا۔ جہاز سمندر کی لہروں پر آہستہ آہستہ جنوب کی طرف بڑھتا رہا۔ آخر کار کریٹ نامی مشہور جزیرے پر پہنچ گیا۔ وہاں اترتے ہی لوگوں میں بات پھیل گئی کہ ایتھنز کا مشہور کاری گر ڈیڈیلس ان کی سرزمین پر آیا ہے۔ کریٹ کے بادشاہ نے پہلے ہی اس کی غیر معمولی مہارت کے قصے سن رکھے تھے۔ اس نے ڈیڈیلس کا والہانہ استقبال کیا اور اسے اپنا ایک محل بطور رہائش پیش کر دیا۔ بادشاہ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ یہاں کے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے کے لیے اچھا کام کرے تو اسے مالا مال کر دیا جائے گا۔

    کریٹ کے بادشاہ کا نام مائنوز تھا۔ اس کے دادا کا نام بھی مائنوز تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے دادا ’’یوروپا‘‘ (یونانی دیوی) کے بیٹے تھے۔ یوروپا ایک نوجوان شہزادی تھی جو ایک سفید بیل پر بیٹھ کر ایشیاء سے کریٹ آئی تھی۔ براعظم یورپ اسی سے موسوم ہے۔ دادا مائنوز کو مردوں میں عقلمند ترین خیال کیا جاتا تھا۔ وہ اتنا عقلمند تھا کہ زیوس (یونانی دیوتا) نے اسے دنیا کے ججوں میں سے ایک مقرر کیا تھا۔ نوجوان مائنوز بھی اپنے دادا ہی کی طرح عقلمند تھا۔ وہ بہادر اور دور اندیش بھی تھا۔ اس کے بحری جہاز دنیا کے ہر حصے میں تھے جہاں سے بے شمار دولت کریٹ کی سرزمین پر آتی تھی۔ ڈیڈیلس نے بادشاہ مائنوز کے لیے سنگ مرمر کے فرش اور گرینائٹ کے ستونوں والا سب سے شان دار محل بنایا۔ محل میں ایسے سنہری مجسمے نصب کئے جو بات کرسکتے تھے۔ اس محل سے خوبصورت دنیا میں کوئی دوسری عمارت نہیں تھی۔

    ہر سال بادشاہ مائنوز، یوروپا کی کریٹ آمد اور اس شہر کی بنیاد رکھنے کی یاد میں ایک دیوتاؤں کو ایک بیل کی قربانی پیش کرتا تھا لیکن اس سال مائنوز نے بیل قربان نہیں کیا۔ یہ بات پوسائڈن (یونانی اسے قربانی کا دیوتا کہتے ہیں) کو سخت ناگوار گزری۔ اس نے مائنوز کو سزا دینے کے لیے اس کی بیوی پاسیفائی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ایک بیل سے شادی کر لے۔ بس پھر پاسیفائی پر عجیب پاگل پن سوار ہوگیا۔ مائنوز کے لاکھ سمجھانے کے بعد وہ نہ مانی اور اس نے ڈیڈیلس سے خفیہ ملاقات کرکے گزارش کی کہ وہ اس کے لیے ایک ایسا بیل تیار کرے جس سے وہ شادی کرسکے مگر یہ بات مائنوز کو معلوم نہ پڑے۔ ڈیڈیلس حکم کا غلام تھا۔ اس نے ملکہ پاسیفائی کے لیے ایک بیل تیار کردیا۔ پاسیفائی نے چھپ کر اس سے شادی کرلی۔ کچھ عرصہ بعد جب مائنوز کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ طیش میں آگیا۔ اس دوران پاسیفائی نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اگر مائنوز کو ڈیڈیلس سے شان دار عمارتوں کی غرض نہ ہوتی تو وہ اسی وقت اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا۔

    اس کے علاوہ مائنوز کو اپنے نوزائیدہ بیٹے ’’مینی تور‘‘ کے لیے ایک ایسی عمارت بنوانی تھی جس میں وہ اسے قید کرسکے۔ مینی تور ایک وحشی درندہ تھا۔ چند عرصے ہی میں اس کا ڈیل ڈول کافی بڑھ گیا تھا۔ وہ تیزی سے تندرست ہوتا جارہا تھا۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں آج تک اس جیسا خطرناک انسان کوئی نہیں پیدا ہوا۔ اس کا جسم ایک آدمی کا تھا لیکن چہرہ اور سر جنگلی بیل جیسا تھا۔ اس کی گرج نے پوری مملکت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تقریباً ہر روز وہ کسی نہ کسی انسان کو پکڑ کر کھا جاتا تھا۔

    بادشاہ نے ڈیڈیلس سے کہا ’’اس عفریت کے ذمہ دار تم ہو۔ یہ میرا بیٹا ہے۔ میں اسے قتل نہیں کرواسکتا لیکن تم اپنی حکمت سے اس پر قابو پاسکتے ہو۔‘‘

    ’’میں اس کے لیے ایک ایسا محل بناؤں گا کہ وہ اس میں سے کبھی نکل نہیں سکے گا۔‘‘ ڈیڈیلس نے کہا۔

    چنانچہ ڈیڈیلس نے اپنے ماہر کاری گروں کو اکٹھا کیا اور کریٹ کے نوسوس شہر میں ایک محل بنانے کا آغاز کیا جس میں بے شمار کمرے اور اتنے چکر دار راستے تھے کہ جو بھی اس میں جاتا، اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ اس کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد مینی تور کو اس محل میں داخل کردیا گیا۔ جلد ہی وہ محل کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ لیکن اس کی خوف ناک گرج کی آواز دن رات سنی جا سکتی تھی۔ وہ اس بھول بھلیاں سے نکلنے کی بے کار کوششوں میں دن رات دندناتا پھرتا تھا۔

    اس کے بعد بادشاہ نے ڈیڈیلس کو طلب کیا۔ ’’تم نے اپنی مہارت سے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں تمہار احترام کرتا ہوں لیکن تم نے مجھے اور میری بیوی کو دھوکہ دیا، اور اب تم ہمیشہ کے لیے میرے غلام رہو گے۔‘‘

    پھر بادشاہ نے شہر کے دروازوں پر محافظوں کا سخت پہرہ لگا دیا کہ ڈیڈیلس اور اس کے بیٹے اِیکروس کو شہر سے نکلنے نہ دیا جائے۔ بندرگاہ کی نگرانی بڑھا دی گئی۔ بادشاہ نے کریٹ جیسے عظیم جزیرے میں دنیا کے سب سے ماہر اور شان دار فن کار کو قیدی بنا لیا تھا۔ ڈیڈیلس ہمیشہ یہی سوچتا رہتا کہ وہ اپنی آزادی کیسے حاصل کرے۔

    ایک دن اس نے اپنے بیٹے ایکروس سے کہا کہ ’’میری اب تک کی تمام ایجادات دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے تھی۔ مگر اب میں اپنی خوشی کے لیے ایک نایاب چیز ایجاد کروں گا۔‘‘
    چنانچہ دن بھر وہ بادشاہ کے لیے کام کرتا اور رات میں اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر کے موم بتی کی روشنی میں چھپ کر محنت کرتا رہتا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عظیم فن کار اپنے لئے کیا بنارہا ہے۔

    دن اور سال گزرتے چلے گئے، اور ڈیڈیلس نے اپنے لیے پَروں کا ایک مضبوط جوڑا تیار کرلیا۔ یہ پَر کندھوں پر چڑھائے جاسکتے تھے۔ اس نے ایک جوڑا ایکروس کے لیے بھی بنایا تھا۔ آدھی رات کو جب کریٹ کے تمام لوگ سو رہے ہوتے تو ڈیڈیلس اور ایکروس پروں کو پہن کر پرواز کی مشق کرتے۔ ابتداء میں وہ زیادہ دور تک نہیں اڑان بھر پاتے تھے مگر انہیں اتنا یقین ہوگیا تھا کہ وہ ان پروں کی مدد سے لمبی پرواز کرسکتے ہیں۔ بس تھوڑی مشق کی ضرورت ہے۔ یہ مشق ہر رات کی جاتی۔ ایک صبح بادشاہ مائنوز کے بیدار ہونے سے پہلے ہی دونوں نے پَر پہنے اور ہوا میں چھلانگ لگا دی۔ لوگوں نے ڈیڈیلس اور ایکروس کو پرندوں کی طرح ہوا میں اڑتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کی پرواز تیز تھی۔ مہینوں کی مشق رنگ لائی تھی۔ کوئی بھی انہیں نہیں روک سکا۔ وہ دونوں پرندوں کی طرح آرام سے اڑتے ہوئے سسلی کی طرف بڑھنے لگے جو وہاں سے سیکڑوں میل دور تھا۔

    کچھ دیر تک سب ٹھیک رہا۔ سمندر کی بپھرتی لہروں پر دو افراد جرأت مندی سے پرواز کررہے تھے۔ دوپہر ہوگئی اور سورج سر پر آگیا۔ ڈیڈیلس نے پیچھے پلٹ کر ایکروس کو دیکھا اور کہا ’’سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے۔ سورج کے قریب مت جاؤ بلکہ لہروں سے تھوڑا اوپر پرواز کرو۔ جیسا میں کررہا ہوں، ویسا کرو۔ ‘‘ مگر نوجوان ایکروس کو اپنی پرواز پر ناز تھا۔ وہ بڑی مہارت سے اڑ رہا تھا۔ جب اس نے سورج کی طرف دیکھا تو اس نے سوچا کہ نیلے آسمان کی بلندی پر اڑنے میں بہت لطف آئے گا۔

    اس نے سوچا، ’’مجھے تھوڑا اور اوپر جانا چاہئے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ سورج کہاں طلوع اور کہاں غروب ہوتا ہے۔ ‘‘ چنانچہ اس کی پرواز بلند ہوتی گئی۔ آگے اڑتے باپ ڈیڈیلس نے نہیں دیکھا کہ اس کا بیٹا پیچھے کیا کر رہا ہے۔ جوں جوں ایکروس سورج کے قریب جارہا تھا، اس کی تپش اسے اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ وہ اُڑ نہیں پا رہا ہے بلکہ آہستہ آہستہ نیچے گر رہا ہے۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنے آپ کو ہوا میں گرتا محسوس کیا۔ اس کے کندھوں سے پنکھ ڈھیلے ہوگئے تھے۔ اس نے چیخ کر باپ کو پکارا مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔

    ڈیڈیلس کو اس کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا اور اپنے بیٹے ایکروس کو لہروں میں گرتے اور پھر ڈوبتے دیکھا۔ یہ وہی منظر تھا جب اس نے برسوں پہلے اپنے بھتیجے پرڈکس کو سازش کر کے بلندی سے گرایا تھا۔ گہرے سمندر کی طاقتور لہروں نے ایکروس کو ڈبو دیا۔ ماہر اور عظیم کاری گر اپنے بیٹے کو سمندر کے غضب سے نہیں بچا سکا۔ وہ سوگوار اور نم آنکھوں سے لہروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے سسلی تک تنہا پرواز کی۔ ڈیڈیلس نے دن رات محنت کر کے پرندوں کے پَر جمع کئے تھے جنہیں گوند سے چپکا کر اس نے پرندوں جیسے بڑے بڑے پَر بنائے تھے۔ جب ایکروس کی پرواز بلند ہوئی تو سورج کی تپش سے گوند پگھلنے لگا اور ایک ایک کرکے سارے پَر گرنے لگے، اس طرح ایکروس سمندر میں ڈوب گیا۔

    سسلی کے لوگ بتاتے ہیں کہ ڈیڈیلس کئی سال تک زندہ رہا مگر اس نے کریٹ کی بھول بھلیاں اور پروں کے بعد کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں بنائی۔ جس سمندر میں ایکروس ڈوبا تھا، آج اسے ایکارین سمندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    (ایک دل چسپ یونانی لوک کہانی جسے کئی مصنّفین نے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور اردو سمیت متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جاچکا ہے)

  • بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔

    اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکّہ چلتا تھا۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوّت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں‌ استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کرکے انھیں بھی فتح کرلیا تھا۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہورہی تھی۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہوچکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کرلینی چاہیے۔

    یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکّہ جاری کرکے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کردیتا اور اس وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کرکے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں‌ کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کردیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گویا فراموش کر بیٹھا تھا۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہوگیا۔ اس نے مزید لشکر تیّار کرکے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہوگیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کردیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

    اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کررہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ‌ جنگ میں کام یاب ہوسکتا ہے۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں‌ طلب کیا۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کردیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں‌ آکر خود ملے۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہوگیا۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے۔

    ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہوگیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گُر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے۔ بادشاہ کو غصّہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہوچکا تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو بزرگ نے کہا، "اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے! تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے۔

    یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کرکے قانع ہوجائے۔