Tag: بچوں کی کہانیاں

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں

بچوں کی کہانیاں

  • قلعی کھل گئی!

    قلعی کھل گئی!

    اٹلی میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی رعایا اسے ناپسند کرتی تھی مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کی بہت تعریف کرتے تھے۔ اس بادشاہ کا ایک خوشامدی وزیر تھا۔ وہ دن رات بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا۔

    بادشاہ کا حکم تھا کہ اسے رعایا کا حال سچ مچ بتایا جائے کہ کون کس حالت میں ہے اور میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس طرح میں ان کی رائے اور سب کے حالات صحیح طور پر معلوم کر سکوں گا۔ اس کے جواب میں دوسرے وزیر تو خاموش رہتے، مگر تعریف کرنے والا وزیر فوراً کہتا، حضور کی نیکی اور انصاف کے چرچے سارے ملک بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ بھلا وہ کون بے وقوف آدمی ہوگا جو حضور کے انتظام سے خوش نہ ہو ہمارے ملک کی رعایا تو بے حد آرام اور چین سے ہے۔

    بادشاہ کو اس کی باتیں سنتے سنتے شک ہونے لگا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ خوشامدی مجھ سے سچی اور صاف باتیں نہیں کرتا اور اس کے دھوکے میں اپنی رعایا کے اصل حال سے بے خبر رہوں۔ یہ سوچ کر اس نے ارادہ کیا کہ اس وزیر کو کسی طرح آزمانا چاہیے۔ پہلے تو وہ اسے باتوں باتوں میں سمجھاتا رہا کہ دیکھو دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوتا جس کے سارے لوگ اپنے بادشاہ سے خوش ہوں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ جو کسی معاملے میں بے جا فیصلہ نہ کر بیٹھے، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ وزیر کو چاہئے کہ اس کے سامنے سچ بولے اور حق بات کہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم نڈر ہو کر میرے سامنے رعایا کا حال، ان کے خیالات اور میرے انتظام کی صحیح حالت مجھے بتا دیا کرو تاکہ میں سب لوگوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر سکوں، لیکن وزیر اپنی خوشامد کی عادت سے باز نہ آیا اور اسی طرح جھوٹی سچی باتیں بنا کر تعریفیں کرتا رہا۔

    آخر بادشاہ نے تنگ آکر اس کی آزمائش کے لئے اس سے کہا ہم تمہارے کام اور تمہاری باتوں سے بہت خوش ہیں اور اس صلے میں تمہیں بہت بڑا انعام دینا چاہتے ہیں۔ یہ انعام ایک دن کی بادشاہت ہے۔ کل تم بادشاہ بنو گے اور دربار میں سب امیروں، وزیروں اور رعایا کے اعلیٰ و ادنیٰ لوگوں کو جمع کر کے تمہاری دن بھر کی بادشاہت کا ہم اعلان کریں گے۔

    وزیر یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ دوسرے دن شاہی دربار میں مہمان آنا شروع ہوئے۔ ہر طبقے کے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی اور ان کے سامنے وزیر کو بادشاہ نے اپنا تاج پہنا کر اپنے تخت پر بٹھا دیا اور اعلان کیا کہ آج کے دن ہم بادشاہ نہیں۔ آپ لوگوں کا یہ بادشاہ ہے۔ اس کے بعد سب لوگ کھانے پینے میں مصروف ہو گئے۔ خوشامدی وزیر بادشاہ بنا، بڑی شان سے تخت پر بیٹھا، نئے نئے حکم چلا رہا تھا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔

    اصلی بادشاہ ایک دن کے نقلی بادشاہ کے پاس چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک دن کے بادشاہ کی نظر جو اچانک اٹھی تو وہ ایک دم خوف سے کانپنے لگا۔ اصلی بادشاہ اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکراتا رہا۔ قصہ یہ تھا کہ نقلی بادشاہ نے دیکھا کہ شاہی تخت کے اوپر اس جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا سر پر ایک چمک دار خنجر لٹک رہا تھا جو بال جیسی باریک ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر نقلی بادشاہ کا ڈر کے مارے برا حال ہو گیا کہ کہیں یہ بال ٹوٹ نہ جائے اور خنجر اس کے اوپر نہ آ پڑے۔ اس نے ضبط کر کے بہت سنبھلنے کی کوشش کی، مگر اس سے خوف کی وجہ سے سیدھا نہ بیٹھا گیا۔

    آخر مجبور ہو کر اصلی بادشاہ سے کہنے لگا: ’’حضور! یہ خنجر میرے سر پر سے ہٹوا دیا جائے۔ اصلی بادشاہ نے مسکرا کر کہا:’’یہ کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ تو ہر بادشاہ کے سر پر ہر وقت لٹکا رہتا ہے۔ اسے فرض کا خنجر کہتے ہیں۔ اگر کوئی بادشاہ اپنے فرض سے ذرا غافل ہوتا ہے تو یہی خنجر اس کے سر کی خبر لیتا ہے، لیکن جو بادشاہ انصاف اور سچائی سے حکومت کرتا ہے یہ خنجر اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

    اب تو وزیر کی بہت بری حالت ہو گئی اور وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب کیا کرے، کیا نہ کرے۔ اس کے دل میں خیال آ رہا تھا کہ ایک دن کی بادشاہت میں وہ ایسے ایسے حکم چلائے جس سے اس کے خاندان والوں، عزیزوں اور دوستوں کو خوب فائدے پہنچیں، مگر اب تو اس کے سارے منصوبے خاک میں ملتے نظر آ رہے تھے۔ اس نے سوچا اگر کوئی حکم اس نے انصاف کے خلاف دیا تو یہ خنجر اس کی گردن اڑا دے گا۔ اصلی بادشاہ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر کہنے لگا، اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ بادشاہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی جان کو کیا کیا عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تخت آرام اور من مانی کے لیے نہیں ہے۔ رعایا کا حال اور ملکی انتظام کے بارے میں صحیح صحیح حالات بتاؤ۔ خوشامدی وزیر اپنے بادشاہ کی جھوٹی تعریف کر کے ملک، بادشاہ اور رعایا کی بھلائی نہیں کرتے اور خود اپنے بھی خیرخواہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ اپنے بادشاہ کو اس چمک دار خنجر کی زد میں لاتے ہیں جو اس کے سَر پر لٹک رہا ہے۔

    وزیر جو اس وقت ایک دن کا بادشاہ تھا، اپنے حقیقی بادشاہ کی یہ باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا اور جھوٹی خوشامد سے باز رہنے کا وعدہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہو گیا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، مؤرخ، نقاد اور براڈ کاسٹر عشرت رحمانی کے قلم سے)

  • سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    کہتے ہیں‌ کسی ملک کا بادشاہ اپنے ایک ملازم سے ناراض ہوگیا بادشاہ نے ملازم کو دربار سے نکال دیا اور حکم دیا کہ تم دن رات اپنے گھر میں رہو، کہیں باہر نہ نکلنا اور کوئی کام بھی مت کرنا۔

    یہ بظاہر کوئی کڑی سزا تھی اور نہ ہی ایسی قید جس میں اس ملازم کو تکلیف ہوتی۔ اسے تو اپنے ہی گھر میں‌ رہنا تھا۔ لیکن اس حالت میں‌ چند ماہ گزارنے کے بعد وہ گھبرا گیا۔ ایک آدمی ایک ہی جگہ اور مخصوص لوگوں کے درمیان کب تک رہے؟ اسے وحشت ہونے لگی۔ وقت کاٹنا دوبھر ہوگیا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کا وہ ملازم بہت پریشان تھا کیونکہ اس کے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔

    جب وہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالے گا تو بیوی بچوں کو کھلائے گا کہاں سے؟“ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ بادشاہ کے دربار میں کوئی بڑا اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیر، امراء اور نوابوں‌ کو دربار میں دعوت دی گئی‌ ہے۔ ملازم جس کا نام سردار تھا، اس کو ایک ترکیب سوجھی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اُس نے اپنی بیوی کو پڑوس میں ایک قیمتی جوڑا لانے کیلئے بھیجا۔ وہ پڑوس سے قیمتی جوڑا لے آئی۔ سردار نے مانگے کا قیمتی جوڑا جلدی سے زیب تن کیا اور گھر سے نکل پڑا اور شان سے چلتا ہوا شاہی دربار میں جا پہنچا۔ درباری سمجھے کہ کوئی معزز مہمان ہے، وہ پہچان نہ پائے اور سردار بڑے ادب سے دربار میں دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ دربار شروع ہوا۔ تمام رسمیں ادا کی گئیں اور اس کے بعد دسترخوان پر اعلیٰ قسم کے کھانے چنے گئے۔ سردار نے بھی ہاتھ بڑھا کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا اور پھر نظر بچا کر بڑی چالاکی سے سونے کی ایک رکابی اپنے لباس میں چھپا لی اور دربار ختم ہوتے ہی وہاں سے سب سے نظر بچا کر گھر پہنچ گیا۔ گھر آکر بڑے مزے سے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا۔

    اس نے اپنی بیوی کو وہ سونے کی رکابی دی اور وہ اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بازار جاتی اور جوہری کو فروخت کر کے کچھ رقم لے آتی۔ یوں سردار کی زندگی آرام سے گزرنے لگی اور پریشانی دور ہوگئی۔ ادھر دربار کے ملازموں نے دیکھا کہ سونے کی ایک رکابی کم نکلی ہے تو بیچارے بہت گھبرائے اور رکابی ڈھونڈنے لگے۔ بادشاہ کے کان میں‌ یہ بات پہنچی۔ اس نے ان کی حالت دیکھ کر کہا کہ تم سب کیوں پریشان ہو؟ مجھے معلوم ہے کہ سونے کی رکابی غائب ہوگئی اور اب وہ تمہیں نہیں ملے گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رکابی کس نے چرائی ہے۔ خیر، ایک سال بیت گیا۔ اگلے سال پھر جشن ہوا اور دربار مہمانوں سے بھر گیا۔ جشن کے اختتام پر مہمانوں کو کھانا دیا گیا۔ سردار اس موقع پر بھی موجود تھا۔ کھانا کھانے کے بعد پھر اُس نے نظر بچا کر بڑے اطمینان سے ایک سونے کی رکابی اپنے لباس میں چھپا لی۔

    دربار ختم ہوا تو مہمان جانے لگے تو سردار بھی محل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک بادشاہ سامنے آگیا۔ بادشاہ کو دیکھ کر وہ بہت سٹپٹایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ پچھلے سال کی رکابی ختم ہوگئی جو پھر ایک اور رکابی لے جانا چاہتے ہو؟ یہ سنتے ہی سزا یافتہ ملازم کے ہوش اُڑ گئے اور خوف کے مارے کانپنے لگا۔ آخر کار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا ”حضور کے حکم کی تعمیل میں مجھے میرے گھر میں بند کر دیا گیا تھا۔ کئی مہینوں تک پریشان اور تنگ دست رہا۔ آخر مجبور ہو کر یہ حرکت کی۔ حضور مجھے معاف کردیں۔

    بادشاہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ اچھا ہم نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری ملازمت بھی بحال کر دی۔ غلطی ہماری ہی تھی ہم نے حکم ہی ایسا دیا تھا کہ آدمی بھوک اور تنگ دستی سے مجبور ہو کر چوری کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر ہم تمہیں گھر میں قید نہ کرواتے تو شاید تم ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔

    غلطی تو بادشاہ اور اس ملازم دونوں کی تھی۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ بادشاہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور ملازم کو ایسی سزا دینے پر شرمندہ ہوا جس نے اسے تنگ دستی اور آزمائش میں‌ ڈالا۔

  • خوشی کا راز (اطفالِ ادب سے انتخاب)

    خوشی کا راز (اطفالِ ادب سے انتخاب)

    باجی آج کل محسوس کر رہی تھیں کہ بشریٰ اب کچھ الجھی الجھی اور پریشان رہنے لگی ہے۔ حالاں کہ ابّا جی نے سینٹ اینس کانونیٹ میں اسے داخل کرا کے اس کی یہ ضد پوری کر دی تھی کہ وہ انگریزی اسکول میں انگریز بچوں کے ساتھ پڑھے گی۔ اب اسے کیا پریشانی تھی، باجی یہی جاننا چاہتی تھیں۔

    ایک دن جب وہ سنگار میز کے سامنے کھڑی اپنا منہ آپ چڑا رہی تھی تو باجی نے اسے دیکھ لیا۔ وہ بہت حیران ہوئیں۔ مسکرا کر پوچھا ’’آج ثاقب نہیں ملا منہ چڑانے کو؟

    ’’اپنا منہ تو ہے۔ ثاقب نہ ہوا تو کیا؟‘‘ بشریٰ نے چوٹی گوندھتے ہوئے چڑ کر کہا۔

    ’’آخر کیوں بھئی؟‘‘

    ’’پھر کیا کریں۔ اللہ میاں نے صورت ہی ایسی بنائی ہے آنکھیں دیکھو تو کالی کالی اور سوا سوا انچ لمبی۔ بال کوئی دیکھے تو سمجھے جیسے کسی نے کالک تھوپ دی ہو!‘‘

    باجی کو بشریٰ کی اس انوکھی شکایت پر تعجب ہوا۔ انہوں نے ہنس کر پوچھا ’’کس قسم کی آنکھیں تمہیں پسند ہیں؟‘‘

    سنہری بال اور نیلی نیلی گول گول آنکھیں‘ جیسی میری کلاس فیلو کونی کی ہیں۔‘‘ اس نے بال سنوارتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

    باجی نے ہنسی ضبط کر کے سمجھایا ’’انگریزی اسکول میں پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صورت بھی انگریزوں جیسی ہوجائے کیا پتہ کونی کو تمہاری کالی آنکھیں بھلی لگتی ہوں۔‘‘ بشریٰ نے کوئی جواب نہ دیا اور بیگ اٹھا کر اسکول چلی گئی۔

    اس شام کو وہ کونی کے ساتھ اس کے گھر گئی اور وہاں اس کی شان دار نرسری دیکھی۔ کونی نے ایک بڑی کانچ کی الماری کھولی، جس میں ڈیڑھ دو فٹ لمبی ایک خوبصورت گڑیا تھی۔ اس نے بہت احتیاط کے ساتھ اسے نیچے اتار کر دکھایا۔ بشریٰ نے بے اختیار ہو کر گڑیا کا گلابی گال چوم لیا۔

    کونی نے فخر سے کہا۔ ’’ابھی تم نے اس کی باتیں کہاں سنی ہیں۔ لو اب سنو۔‘‘ اور گڑیا سچ مچ بولنے لگی۔ ’’میرے تین سو بچّے ہیں۔ میں ایک ہزار سال کی ہوں۔ میرے غسل خانے میں ایک اژدھا ہے۔‘‘

    بشریٰ نے سنا تو کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’بھئی یہ تو بہت جھوٹ بولتی ہے۔‘‘ کونی نے مسکرا کر کہا ’’یہ چھ زبانوں میں بات کر سکتی ہے جن میں سے دو تو جاپانی اور روسی ہیں۔‘‘ اس کا نام چارمن چیٹی ہے۔‘‘

    اس نے ایک دوسری گڑیا نکالی ’’یہ ٹائٹی ٹیبرس ہے۔‘‘ میز پر رکھتے ہی گڑیا باقاعدہ دھاروں دھار آنسو بہانے لگی۔ کونی دوڑ کر اس کے لئے دودھ لے آئی، جسے اس نے مزے لے لے کر پی لیا اور بلبلے بھی اڑائے۔

    ’’میرے خدا‘‘ بشریٰ نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا’’اتنی پیاری گڑیاں میں نے آج تک نہیں دیکھی تھیں۔‘‘

    ’’ابھی تو تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔‘‘ کونی نے شان سے کہا اور ایک تیسری گڑیا دکھائی، جس کا ایک پیچ گھماتے ہی اس کے سر پر سچ مچ بال اگ آئے۔

    ’’اس کا نام کیا ہے بشریٰ نے گڑیا کے نرم بالوں پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’ٹریسی۔‘‘ اس کے علاوہ بشریٰ نے اور بہت سے عجیب اور انوکھے کھلونے دیکھے۔ ایک ڈوری کو کھینچتے ہی دو کٹھ پتلیاں باتیں کرنے لگیں۔ ایک رائفل سے جب فائر کئے گئے تو چھوٹا سا ریچھ چیختا چلاتا گرتا پڑتا ساری نرسری میں دوڑ لگانے لگا۔ بانسری کی آواز سن کر ایک کتا اترا اترا کر چلنے لگا۔ بشریٰ کو محسوس ہوا جیسے وہ پریوں کی دنیا میں پہنچ گئی ہو۔ اس کا جی چاہا کہ ہمیشہ کے لئے وہیں رہ جائے۔

    جب کونی نرسری کی سیر کرا چکی تو بشریٰ نے حسرت سے پوچھا۔
    ’’یہ سب کھلونے تمہارے پاس کہاں سے آئے؟‘‘ کونی نے کسی ہنس کی طرح گردن اٹھا کر کہا۔ ’’میرے ڈیڈی امریکہ سے آتے ہوئے لائے تھے۔ بشریٰ نے ٹھنڈا سانس لی اور گھر لوٹ آئی۔

    گھر آتے ہی بشریٰ نے اپنے کھلونے کا جائزہ لیا ایک گڈے کو ہاتھ میں لے کر الٹ پلٹ کر دیکھا اور فرش پر دے مارا۔ وہ گویا احتجاجاً بولا ’’پیں‘‘ دوسرے لمحے ربر کا ایک خرگوش پھدک پھدک کر الٹا ہو گیا۔ تیسرا نمبر ایک چست و چالاک جاپانی گڑیا کا تھا، جو نیچے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ ’’کس کام کے ہیں یہ لوگ‘‘ وہ بڑبڑائی، ’’کوئی گونگا، کوئی بدصورت، کوئی نکی تو کوئی چڑیل۔‘‘ وہ تمام گڈے گڑیاں، جن سے بشریٰ کو اتنا پیار تھا۔ جنہیں سردیوں کی راتوں میں وہ ننھے ننھے لحافوں میں سلایا کرتی، آج زمین پر ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے اور بشریٰ کو کوئی افسوس نہ ہوا۔

    اس کی اس حرکت پر بشریٰ کو خوب ڈانٹ پڑی۔ امی ابّا نے کبھی فرمائش نہ پوری کرنے کی دھمکیاں دیں۔ بھائی جان نے ’’ناشکری چڑیل‘‘ کا خطاب دیا۔ چھوٹے بھائی ثاقب نے ’’توڑ پھوڑ‘‘ نام رکھ دیا۔ باجی کی نصیحتیں الگ سننی پڑیں۔ غریب بشریٰ کا وقت اس کوئل کی طرح اداس گزرنے لگا جسے چہکنے کو ہری بھری ڈالیاں نہ ملی ہوں!

    ایک دن بادل گھر آئے۔ اتنے کالے بادل کہ بشریٰ کے بالوں سے ان کا رنگ مل گیا۔ ان کی گرج برس دیکھنے کے لئے وہ برآمدے میں چلی آئی۔ کچھ ہی دیر میں موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گر کر سوندھی خوشبو اڑانے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بھیگ گئی۔ بارش کا نظارہ کرتے کرتے اس کی نظر ایک چھوٹی سی لڑکی پر پڑی، جو ایک بڑھیا کا ہاتھ تھامے تیز تیز قدموں سے اسی کی طرف آ رہی تھی۔بشریٰ نے انہیں برآمدے میں پناہ دے دی۔ بڑھیا کے ہاتھ میں کشکول دیکھ کر اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ لوگ کون تھے۔ اس عورت کے چہرے پر دو آنکھوں کی بجائے بدنما سرخ بے نور گڑھے تھے۔ خدا جانے کیوں بشریٰ کو جھرجھری سی آ گئی۔ وہ دوڑ کر اندر آ گئی اور شیشہ اٹھا کر اپنا چہرہ دیکھا۔ اپنی آنکھوں کا بڑھیا کی بے نور آنکھوں سے مقابلہ کیا اور یہ سوچ کر اسے تعجب ہوا کہ اس سے پہلے اسے اپنی آنکھیں اتنی خوبصورت، اتنی چمکیلی کیوں نہیں دکھائی دی تھیں؟ وہ برآمدے میں واپس لوٹ آئی۔ اس وقت وہ لڑکی جھک کر نیچے سے کچھ اٹھا رہی تھی۔ بشریٰ کو دیکھتے ہی اس نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ بشریٰ نے جھانک کر دیکھا تو اسے اپنی ٹوٹی ہوئی گڑیا کا اوپر کا دھڑ نظر آیا۔

    ’’اٹھا لو۔ اٹھا لو۔‘‘ بشریٰ نے لڑکی سے کہا اور اس نے خوش ہو کر گڑیا کو اٹھا لیا۔ کرتے کے دامن سے بارش کے قطرے اور مٹی کے ذرے صاف کئے اور چوم کر اسے جھولی میں ڈال لیا وہ اتنی جلدی بھول گئی تھی کہ بشریٰ سامنے کھڑی ہے۔ پھر جب اس نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو دانتوں سے زبان کاٹ لی، بشریٰ اندر چلی گئی۔ باجی کے پاس سے گزرتے گزرتے بولی ’’باجی اب نیل آنکھیں نہیں چاہئیں۔‘‘

    باجی نے مسکرا کر کہا ’’مجھے اس کی وجہ معلوم ہے۔‘‘ شاید انہوں نے بشریٰ کو برآمدے میں کھڑا دیکھ لیا تھا۔ کہ وہ اسے ڈھونڈتی ہوئی جب اسی کے کمرے میں آئیں، تو بشریٰ کو اپنے تمام کھلونے دوبارہ سنوار کر رکھتے ہوئے پایا۔

    ’’ہم نے کہا تھا نا‘‘ وہ بولیں۔ ’’اچھے اور بلند ارادوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ اپنے سے اونچوں کو دیکھنا چاہئے اور جہاں تک صورت، ٹھاٹ باٹ، امیری اور شان و شوکت کا تعلق ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ رک گئیں اور بشریٰ نے اپنی کالی آنکھیں اٹھا کر جملہ پورا کیا، ’’اپنے سے کم تر کو دیکھو۔۔۔ اور اسی میں خوشی کا راز ہے۔ ہے نا میری باجی؟‘‘

    آج پہلی بار باجی کی نصحیت کا مطلب اس کی سمجھ میں آیا تھا!

    (مصنّف:‌ فریدہ خان)

  • سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔ سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چنانچہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی جب پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی ” جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ اپنی درباری پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟ اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا: "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔” اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟ وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ یہ ہرے بھرے جنگل، پھلوں پھولوں سے لدے ہوئے باغات، ان میں بولتی چڑیاں اور کلیلیں کرتے ہوئے جانور چھوڑ کر کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔ بادشاہ نے اسی طرح باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور سب نے سمندر میں جانے سے کھلم کھلا انکار کر دیا۔ اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان کی طرف مخاطب ہوا اور یہ دیکھ کر ہر ایک کو حیرت ہوئی کہ وہ بلاجھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں”ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔ گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔ اب جہاں جہاں ہم رہتے ہیں، ان میں چند مچھلیوں اور چھوٹے چھوٹے جھینگا جیسے جانوروں کے سوا کیا رکھا ہے؟ بڑے سے بڑا دریا بھی ہمارے لیے کافی نہیں، جب کہ ندی نالوں کو ہم قید خانے سے کم نہیں سمجھتے۔ حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ ان باتوں کا ذرا خیال نہ کرو۔ جب تمھارا دل چاہے، روزانہ رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے، البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ۔”

    بادشاہ کی یہ تقریر سن کر سمندر کا ایلچی بھی خوش ہو گیا کہ ان کی عرض بھی قبول ہو گئی اور سمندر کی نئی پریاں بھی خوش تھیں کہ انھیں سمندر کی نئی حکومت ملی۔ چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کےتصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے پاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں کرنے کے لیے بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگاتار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو آخرکار بادشاہ کو فکر ہوئی کہ کہیں کوئی مصیبت تو نہیں آ گئی؟ کیا بات ہے کہ پریاں سمندر سے باہر نہیں آئیں۔ اس نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا۔ ان کا حال پوچھا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: "بادشاہ سلامت کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر دینا کہ ہمیں بھی اپنی سہیلیوں سے اتنے دن تک نہ ملنے کا بہت افسوس ہے۔ ہم کو یہاں آ کر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا ہے، وہ سنائیں گے۔”

    رات ہوئی تو پریاں سمندر کے کنارے پانی سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے کے لیے جمع ہو گیا اور جب انھوں نے سمندر کی تہہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور تمام درباری پریاں حیران رہ گئیں اور بڑی دلچسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔ چوں کہ تمھاری مصروفیت بہت زیادہ ہے اور تمھارا رہنا بھی ٹھہرا دور دراز، اس لیے مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ بھی الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں۔ انھوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھیں اپنا علیحدہ بادشاہ ملا اور اپنی الگ سلطنت حاصل ہوئی۔ وہ اپنے نئے بادشاہ کے محل کی تعمیر کرنے کے لیے سمندر میں چلی گئیں۔

    سمندر کی تہ میں پہنچتے ہی پریوں نے محل کا ڈول ڈال دیا۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔ محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔ دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف سمندر کے پھولوں کے درختوں سے آراستہ باغات تھے۔ جگہ جگہ فوارے، جو رات دن چلا کرتے۔ رات کی روشنی کے لیے چمکتی ہوئی مچھلیاں تھیں، جو ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں ان شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں، کیوں کہ سونے کے علاوہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کیے ہی جاتے اور ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہ بیٹھتے۔

    کیکڑوں کی نہایت خوب صورت اور نرالی وردیاں بنائی گئی تھیں، ان کی پشتوں پر خوش نما رنگوں کا سمندری سبزہ اگا دیا گیا تھا۔ انہیں اپنی تمام عمر میں کبھی ایسا اچھا زمانہ نہیں ملا تھا۔ ان کی پرانی زندگی بدل گئی تھی۔ وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ اول اول پریاں بہت گھبرائیں، لیکن ایک بوڑھے دریائی بچھڑے نے، جو کئی برس سے ایک عجائب خانے میں رہتا تھا، پریوں کو بتایا کہ سمندر میں دعوت کا سامان کیا ہوتا ہے اور کس طرح کرنا چاہیے۔ چناں چہ اس کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئیں اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    دعوت کی رونق کے لیے پانی کے کم از کم دس لاکھ بچے بلائے گئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک خوب گانے والا تھا۔ کھانا کھاتے وقت گانا لازمی تھا، اس لیے گانے والوں اور بجانے والوں کی ایک بہت بڑی ٹولی جلوس کے کمرے میں ایک طرف کھڑی کر دی گئی اور دروازے کے پاس دو نقارچی بڑے بڑے سنکھ لیے کھڑے تھے کہ جب بادشاہ سلامت اندر آئیں تو اس کا اعلان کریں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائیں ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھ دار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوبصورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔ بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔ سمندر کے اژدہے اپنے آپے سے تو باہر نہیں ہوتے، گنڈلی ٹنڈلی مار کر دوسروں کا راستہ تو نہیں روک لیتے۔ ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے۔ اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟ شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ رات کو اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت ہر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا کودنا، چٹانوں پر بیٹھنا، اپنے بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔ بدذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔ سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی وحشت ناک طوفان آتے اور پانی کی موجیں شور کے ساتھ سمندری مملکت پر حملہ آور ہوتیں تو پریاں پانی کی بلند سے بلند سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے سن لیا کہ خشکی کی پریوں کی طرح سمندر میں پریاں کس طرح پیدا ہوئیں اور کیوں کر وہاں آ گئیں؟

    (مصنّف نامعلوم)

  • ملکہ اولگا کا انتقام (عالمی ادب سے انتخاب)

    ملکہ اولگا کا انتقام (عالمی ادب سے انتخاب)

    کئی سال پہلے ملک کیف پر ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس کا نام اغور تھا۔ وہ ہر وقت سیر و تفریح میں مصروف رہتا تھا۔ اسے ملک کے انتظام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوگ اغور کو بہت ناپسند کرتے تھے۔

    اس کی ملکہ اولگا بہت خوبصورت، عقلمند اور ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ملک کا سب انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ مظلوم لوگ ظلم و ستم کی فریاد لے کر ملکہ کے پاس پہنچتے۔ وہ ان کی فریاد سنتی، ظالموں کو سخت سزا دیتی اور مظلوموں کو جو نقصان پہنچا تھا اسے خزانے سے پورا کر دیتی۔ وہ غریبوں اور حاجت مندوں کی امداد کرتی رہتی تھی۔ رعایا کے سب لوگ چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، سبھی ملکہ کو بے حد چاہتے تھے۔

    ایک دن بادشاہ اغور شکار کھیلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور بدقسمتی سے ایک ایسے علاقے میں جا نکلا جہاں ایک دشمن قبیلے ڈرالون کی حکومت تھی۔ یہ وحشی اور جنگجو قبیلہ تھا۔ ان کی گزر اوقات لوٹ مار اور غارت گری پر تھی۔ وہ قافلوں کو لوٹ لیتے یا آس پاس کی بستیوں میں لوٹ مار کر قتل اور غارت گری کرتے۔ ان کی دہشت دور دور تک بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈرالون کے سردار نے بادشاہ اغور کو بہت تکلیفیں پہنچائیں۔ آخر اسے مار ڈالا اور لاش کو ایک صندوق میں بند کر کے ملکہ اولگا کے پاس بھیج دیا۔ جب ملکہ نے صندوق کھولا اور لاش کو دیکھا تو اسے بے حد رنج اور شدید صدمہ پہنچا۔ ملکہ اولگا بہت ہمت اور حوصلے والی تھی۔ اس نے اپنے رنج و غم کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ دربار میں موجود سب لوگوں کا یہی مطالبہ تھا کہ بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا جائے اور ڈرالون قبیلے کو سخت سزا دی جائے۔

    ملکہ نے بہت تحمل سے جواب دیا، "میرے معزز درباریو! میں بادشاہ کے قتل کا انتقام ضرور لوں گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی میں ڈرالون والوں سے انتقام بھی لے لوں اور ہمارا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔”

    شاہ اغور کو قتل کرنے کے بعد ڈرالون کے سردار کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ اس نے سوچا اگر میں ملکہ اولگا سے شادی کر لوں تو اس طرح ملک کیف بھی ہمارے قبضے میں آ جائے گا۔ چنانچہ اس نے بیس آدمیوں کا ایک وفد ملکہ اولگا کی خدمت میں بھیجا اور ان کی معرفت شادی کا پیغام ملکہ کو پہنچایا۔ ملکہ اولگا، ڈرالون سردار کی اس جسارت پر بے حد ناراض ہوئی۔ وہ بہت ہوشیار اور عقلمند عورت تھی، اس لیے اس نے اپنے غیظ و غضب کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور بولی، "تم لوگوں نے میرے دل کی بات کہہ دی، میں خود بھی تمہارے سردار سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی تھی۔ اب تم اپنے ڈیرے واپس جاؤ۔ کل میں اپنے امیروں اور وزیروں کو تمہارے پاس بھیجوں گی تاکہ وہ تمہیں عزت و احترام سے اپنے ساتھ لائیں۔”

    ملکہ اولگا نے وفد کے سربراہ کو بہت سے تحفے تحائف دے کر ڈرالون سردار کے پاس اسی وقت روانہ کر دیا اور کہلوایا کہ میں شادی کے لیے تیار ہوں۔

    جب ڈرالون والے اپنے ڈیرے پر جا چکے تو ملکہ نے اپنے امیروں اور وزیروں سے کہا، "انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ خبردار، میرے حکم کی تعمیل میں کوئی اعتراض نہ کرنا۔ میں جیسا کہوں ویسا ہی کرنا۔”

    اگلے دن صبح سویرے وزیر اور امیر وفد کے استقبال کے لیے جا پہنچے۔ انہوں نے کہا، "آپ تشریف لے چلیے، ملکہ حضور نے آپ لوگوں کو یاد فرمایا ہے۔”

    ڈرالون کے لوگ وحشی ہونے کے ساتھ ساتھ احمق بھی تھے۔ انہوں نے کہا، "ہم نہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جائیں گے اور نہ کسی اور سواری پر بیٹھیں گے۔ ہم تمہارے کندھوں پر سوار ہو کر جائیں گے تاکہ لوگوں پر ہمارا رعب بیٹھ جائے اور وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب ہم ان کے حاکم ہوں گے۔”

    یہ بیہودہ فرمائش سن کر کیف کے امیروں کو بےحد غصہ آیا۔ ایک وزیر نے کہا، "ہماری ملکہ کا حکم ہے کہ ہم آپ لوگوں کو عزت و احترام سے لے کر جائیں۔ اگر آپ لوگوں کی یہ مرضی ہے تو ہمیں آپ کی یہ شرط منظور ہے۔” یہ کہہ کر انہوں نے ڈرالون والوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور محل کی طرف لے چلے۔ جب وہ محل کے نزدیک پہنچے تو ایک دربان انہیں محل کی پچھلی طرف لے گیا۔ وہاں ایک گہرا کنواں کھدا ہوا تھا۔ انہوں نے ڈرالون والوں کو یہاں اتار دیا۔ دربان نے کہا، "ملکہ کا حکم ہے کہ ان معزز مہمانوں کو زندہ دفن کر دیا جائے۔”

    اب ڈرالون والے بہت گھبرائے اور انہوں نے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ملکہ اولگا کے امیروں نے انہیں دھکیل کر کنویں میں گرا دیا۔
    اس کام سے فارغ ہو کر ملکہ اولگا نے اپنے کچھ ہوشیار امیروں کو ڈرالون کے سردار کے پاس بھیجا۔ انہوں نے سردار کی خدمت میں بہت قیمتی تحفے پیش کیے اور کہا، "ہماری ملکہ کو آپ سے شادی کرنا منظور ہے۔ آپ نے جو لوگ بھیجے تھے وہ ملکہ نے اپنے پاس ٹھہرا لیے ہیں تاکہ وہ آپ کے آداب اور رسوم سے واقف ہو جائیں۔ ہماری ملکہ کی خواہش ہے کہ آپ اپنے اعلی شہہ سواروں، فوجی افسروں اور معزز لوگوں کو بھیجیں تاکہ وہ انہیں دھوم دھام سے یہاں لائیں۔”

    ڈرالون کا سردار یہ خوش خبری سن کر پھولا نہ سمایا۔ اس نے اپنے سب معزز سرداروں، فوجی افسروں، امیروں اور وزیروں کو ملکہ اولگا کے پاس بھیجا تاکہ وہ ملکہ کو شان و شوکت سے اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ ملکہ اولگا نے ان لوگوں کی خوب خاطر و مدارت کی۔ اس نے کہا، "معزز مہمانو! آپ لوگ لمبے سفر سے تھک گئے ہوں گے، اس لیے پہلے غسل کر کے اپنے کپڑے تبدیل کر لیجیے۔”

    انہیں غسل کے لیے حمام بھیج دیا گیا۔ یہ گرم حمام یا غسل خانے خاص طرح کے ہوتے ہوتے تھے۔ ان کے فرش کے نیچے دھیمی دھیمی آنچ ہوتی تھی تاکہ غسل خانہ گرم رہے۔

    جب یہ لوگ حمام میں داخل ہوئے تو اس کے دروازے بند کر دیے گئے اور فرش کے نیچے آگ تیز کر دی گئی۔ تھوڑی دیر میں حمام میں سخت گرمی ہو گئی۔ ڈرالون کے لوگ گرمی سے بے تاب ہو کر چیخنے چلانے لگے لیکن کسی نے دروازہ کھول کر نہیں دیا۔ آخر وہ سب لوگ حمام کے اندر دم گھٹ کر مر گئے۔

    اب ملکہ اولگا نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ پہلے اس نے ایک قاصد ڈرالون سردار کے پاس بھیجا۔ اس نے اطلاع دی کہ ہماری ملکہ روانہ ہو چکی ہیں۔ وہ شہر کے باہر قیام کریں گی۔

    پہلے وہ سب سرداروں، معزز لوگوں اور فوج کے سب سپاہیوں کی دعوت کریں گی۔ اس کے بعد وہ ان سب لوگوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوں گی۔ شادی کی رسم محل کے اندر ادا کی جائے گی۔

    ڈرالون سردار بہت خوش ہوا۔ جب اسے ملکہ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ کی ہزاروں بہادر سپاہیوں، سرداروں اور امیروں کے ساتھ ملکہ کے استقبال کے لیے نکلا۔ ملکہ اولگا نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ سردار نے پوچھا، "میں نے جو فوجی افسر اور سردار آپ کے استقبال کے لیے بھیجے تھے وہ کہاں ہیں؟”

    ملکہ اولگا نے کہا، "وہ پورے لشکر کے ساتھ پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔” یہ جواب سن کر ڈرالون کا سردار مطمئن ہو گیا۔

    رات کے وقت ملکہ نے ڈرالون سردار اور اس کے ساتھیوں کی پُرتکلف دعوت کی۔ طرح طرح کے کھانے دستر خوان پر چنے گئے۔ سب لوگوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ اس کے بعد شراب کا دور چلا۔ شراب میں کوئی تیز نشہ اور دوا ملائی گئی تھی۔ اس لیے دو چار جام پی کر سب لوگ مدہوش ہو گئے۔ جب ملکہ کو یقین ہو گیا کہ اب انہیں کسی بات کا ہوش نہیں رہا ہے تو اس نے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کر دیا۔ ڈرالون والوں کی یہ حالت تھی کہ وہ بھاگنا چاہتے تھے مگر نشے کی وجہ سے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ اٹھ اٹھ کر گرتے اور گرنے کے بعد پھر اٹھنے کی کوشش کرتے۔ ملکہ اولگا کے سپاہیوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔

    ڈرالون سردار کسی نہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے ملکہ کی چال بازی کی سب کو اطلاع دی۔ اسی وقت شہر کے سب دروازے بند کر دیے گئے۔ ہر طرف ایک افراتفری مچ گئی۔ لوگ حیران پریشان تھے۔ ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

    ملکہ نے ڈرالون والوں کی قوّت بالکل توڑ دی تھی۔ اب ان میں مقابلے کی سکت بالکل نہ رہی تھی۔ وہ قلعہ بند کر کے بیٹھ گئے۔ ملکہ نے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ اس نے قلعہ فتح کرنے کے لیے کئی حملے کیے، لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکی۔

    آخر ملکہ نے چالاکی سے کام لیا۔ اس نے اپنے سفیر کے ذریعے پیغام بھیجا، "میں نے قسم کھائی تھی کہ میں یہ قلعہ فتح کیے بغیر واپس نہیں جاؤں گی۔ لیکن اگر تم صلح کرنا چاہو تو میں تمہارا قصور معاف کر دوں گی۔ میں تم سے معمولی جرمانہ وصول کروں گی جو تم آسانی سے ادا کر سکتے ہو۔”

    ڈرالون سردار نے کہلوایا، "مجھے صلح کرنی منظور ہے۔ آپ جو جرمانہ طلب کریں گی میں ادا کروں گا۔”

    بچوں کی کہانیاں

    ملکہ نے کہلوایا، "ہمارے ملک میں کبوتر اور چڑیاں نہیں ہوتے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر گھر سے دو چڑیاں اور دو کبوتر بھیجے جائیں۔ میں اس جرمانے کو وصول کر کے واپس چلی جاؤں گی۔”

    ڈرالون سردار نے یہ پیغام سن کر کہا، "یہ کون سی مشکل بات ہے؟ ہم ایسی آسان شرط پر ملکہ سے صلح کرنے کو تیار ہیں۔”

    دو تین دن کے اندر ہر گھر سے چڑیا اور کبوتر اکھٹے کر کے ملکہ کی خدمت میں روانہ کر دیے گئے۔

    ملکہ نے حکم دیا جتنے کبوتر اور چڑیاں ہیں، اتنی ہی لوہے کی چھوٹی چھوٹی سلائیاں تیار کی جائیں۔ ان کے ایک سرے پر روئی کی گولی تیل میں ڈبو کر باندھ دی جائے۔ ان سلائیوں کا دوسرا سرا چڑیاؤں اور کبوتروں کی دموں سے باندھ دیا جائے۔

    سپاہیوں نے ملکہ کے حکم کی تعمیل کی۔ شام کے وقت روئی کی گولیوں میں آگ لگا کر ان چڑیاؤں اور کبوتروں کو چھوڑ دیا گیا۔ پرندوں کے اڑنے سے آسمان پر ایک عجیب قسم کی آتش بازی کا تماشا نظر آیا۔ ڈرالون کے لوگ یہ تماشا دیکھنے کے لیے اپنے کوٹھوں پر چڑھ گئے۔ ہر طرف پھلجڑیاں سی چھوٹ رہی تھیں۔ لوگ اس تماشے کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ذرا دیر بعد یہ چڑیاں اور کبوتر اپنے اپنے گھونسلے میں جا پہنچے۔

    وہ جہاں پہنچے اور جس گھر میں اترے، اس میں آگ لگ گئی۔ قلعے کے ہر کونے اور آبادی کے ہر گھر سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ہر طرف آگ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس میں جل کر مر گئے۔ لوگوں نے گھبرا کے قلعے کا پھاٹک کھول دیا اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ لیکن یہاں ملکہ اولگا کے سپاہی ان کی گھات میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ ہزاروں لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا اور ڈرالون کی پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور ان کے قلعے اور آبادی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔

    اس طرح ملکہ اولگا نے بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا۔ اس پورے معرکے میں اس کا ایک بھی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • بلبلِ ہزار داستان…

    بلبلِ ہزار داستان…

    ایک تو گڈی بی بی خوب صورت، دوسرے ان کی ادائیں۔ ہائے غضب… بس پارہ تھیں پارہ۔ سارے گھر کا ان کے مارے ناک میں دَم تھا۔

    شرارتیں کرنے کا تو گویا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ میز پر سیاہی پھیلی ہوئی ہے تو سمجھ لیجئے، بلا شبہ گڈی نے گرائی ہے۔ گل دان کے پھول نُچے ہوئے ہیں تو ذہن میں سوائے گڈی کے اور کس کا نام آسکتا ہے؟ بھائی جان کی ٹائیاں تو مزے سے دو دو آنے میں ملنے والی ٹین کی گاڑیوں میں جوتی جاتیں۔ ان کے بڑے بڑے جوتے گڑیوں کا گھر بنتے۔ پہلے پہل تو سارے بچّوں نے حد درجہ اعتراض کرنا شروع کیا۔

    "کوئی حد ہے۔ ہم تو کبھی اپنی گڑیا کو جوتے میں نہ بٹھائیں۔”

    "ارے واہ کسی نے دلہن کو جوتے میں سلایا ہوگا۔” گڈی بیگم تو جدید ترین فیشنوں کی موجد ہیں ہی۔ انہیں ایسے اعتراض بھلا کیا کھلتے؟

    "ارے بھئی قسم ہے، خود ہم نے اپنی آنکھ سے آج کل اس ٹائپ کی کاریں دیکھی ہیں۔” کسی اور کچھ اعتراض کیا تو بول پڑیں”بھئی اللہ ہم خود ڈیڈی کے ساتھ رشید انکل کی کار میں پکنک پر گئے تھے۔ بس ہوبہو جوتا ہی دیکھ لو۔”

    پھر تو یہ ہونے لگا کہ ریک کے سارے جوتے آنگن کے پچھواڑے ملتے اور جو بھائی جان بھناتے ہوئے آنگن سے جوتے سمیٹ کر لاتے تو کسی میں دلہن بیٹھی ہے تو کسی میں دولہا۔ اور تو اور "گھر” سجانے کی خاطر جو رنگ چڑھائے جاتے تھے وہ جوتوں کا روپ ہی دونا کر دیتے! نتیجے میں گڈی بیگم، اور ان کے ساتھ سب ہی کی پٹائی ہوتی۔ مگر توبہ کیجئے جو وہ ذرا بھی ٹس سے مس ہوتی ہوں! غضب خدا کا۔ زبان تو وہ تیز پائی تھی کہ بڑے بڑوں کے منہ بند کردیے۔ اس پر بھی امی کا وہ لاڈ کہ پوچھئے نہیں۔ ابا لاکھ جوتے ماریں مگر پھر خود ہی لاڈ کرنے بیٹھ جائیں۔

    "ارے یہ تو میری بلبل ہزار داستاں ہے۔ یہ نہ چہکے تو گھر میں چہل پہل کیسے مچے۔”

    گھر میں کسی ایک بچے کو چاہا جائے تو دوسرے بچے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، گڈی بی بی کے بھی ان گنت دشمن تھے، مگر وہ کسے خاطر میں لاتی تھیں۔ کبھی چنّو کی موٹر کی چابی چھپا دی تو کبھی منّی کے جوتے لے جا کر پھولوں کے گملے میں چھپا دیے۔ اور جناب وہ تو ابا تک کو نہ چھوڑتیں۔ اس دن ابا نے عید کی خوشی میں معاف کر دیا شاید۔ ورنہ وہ پٹائی ہوتی کہ سارا چہکنا بھول جاتیں۔ ہوا یوں کہ ابا اپنی کتابیں رکھنے کے لئے ایک نیا شیلف لائے۔ اس سے پہلے والا بک شیلف وہیں ابا کے کمرے میں ہوتا تھا مگر شاید بلبل ہزار داستان کی نظر نہ پڑی ہوگی۔ تب ہی اس نئے شیلف کو دیکھ دیکھ کر اچھل پھاند مچانے لگیں۔

    "آہا جی۔۔۔۔۔اور ہو جی۔۔۔۔ ڈیڈی گڑیا گھر لائے ہیں، آہا، ہو ہو۔” اب دوسرے بڑے بچّے تھک ہار کر سمجھا رہے ہیں، مرمر کر کہہ رہے ہیں کہ بی بنّو یہ تمہاری گڑیا کا محل نہیں۔ کتابیں رکھنے کا شیلف ہے، مگر کسی کی مانتیں؟؟ کہنے لگیں۔” یہ جو خانے بنے ہوئے ہیں تو اسی لئے کہ سب الگ الگ رہیں اور لڑیں جھگڑیں نہیں۔۔ اور جو یہ گول گول گھومتا بھی ہے تو اس لئے کہ گڑیوں کے بچّے اگر رونے لگیں تو اس چھت پر بٹھا کر انہیں چک پھیریاں دی جائیں۔

    ان کی زبان کی تیزی کے آگے کون منہ کھول سکتا تھا۔ بس جناب ہتھوڑی اور کیلیں لے کر پہنچ ہی تو گئیں۔ ہر طرف کیلیں ٹھونک کر اس میں رنگین جھنڈیاں، غبارے اور پیپر فلاورز لگا دیے، ایسا شان دار گڑیا گھر تیار ہوا کہ سب بچے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اب اس کے پاس تو کوئی نہ کوئی دوڑ ہی جاتا، اتنا ڈر بھی کیوں رہے؟ سب کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سبھوں کی گڑیوں کو ایک ایک کمرہ دے دیا، ہر چند کہ ڈیڈی اپنے ہی لئے گڑیا گھر لائے تھے، پھر بھی اگر وہ محض اسی بات پر چڑ جاتے تو اگلے دن تو عید ہے اور یہ بچّے بجائے عید کی تیاریوں کے الٹ پلٹ دھندوں میں ہی جتے ہوئے ہیں تو۔۔۔؟!

    شام کو ننھّے منّے دوست اپنی اپنی عید کی پوشاکیں اور تیاریوں کی داستانیں بتانے، سنانے آئے تو گڈی نے سب کو اپنا گڑیا گھر دکھایا۔ جہاں اب کترنوں کے بچے کھچے کپڑوں کے پرے لٹک رہے تھے۔ دل میں تو سب جل گئے مگر منہ سے تو کہنا ہی پڑا۔ "واہ بھئی۔۔۔ بڑا اچھا گھر ہے۔ اچھا کل آئیں گے۔۔ ٹاٹا۔” عید کا کیا ہے ایک دن کے لئے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ گڑیا گھر کی خوشی تو لافانی بن کر آئی تھی۔ گڈی کی اتراہٹ کا کیا پوچھنا تھا؟!

    ابا عید گاہ سے لوٹے تو مزے سے آکر گردن میں جھول گئیں۔ "ہماری بٹیا کتنی عیدی لے گی؟” جواب میں بٹیا اور بھی اترا گئیں۔ "آپ نے تو پیشگی عیدی دے ڈالی ڈیڈی۔ غضب خدا کا کتنا اچھا گھر ہے ڈیڈی۔”

    "ہائیں۔۔۔ کیا بک رہی ہے۔” ابا جھنجھلائے۔ "ہاں ہاں اور جو کل آپ لائے ہیں تو پھر کیا ہے؟” ابا نے تو شیلف گیسٹ روم میں رکھوادیا تھا کہ عید کے بعد فرصت سے اسے اپنے کمرے میں جائز مقام پر رکھوائیں گے آنکھیں گھماکر دیکھا اور پوچھا۔

    "گھر، کیسا گھر بھئی۔” جواب میں بٹیا رانی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم تک ڈیڈی کو لائیں۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ نیا شیلف! پورے تین سو روپے میں بنوایا تھا۔ کیلے چبھے ہوئے، ہتھوڑی کی مار سے پالش جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی۔ گوند سے چپکائی گئی جھنڈیا۔ جھولتے غبارے، رنگین پھول۔۔۔ اف۔۔۔۔اف۔

    ” یہ سب کیا ہے بے بی؟” ڈیڈی بپھر کر بولے۔

    "جی گڑیا گھر۔” اب تو ڈیڈی کا پارہ آخری سرے تک چڑھ گیا، ابھی کچھ پٹائی کرتے ہی تھے کہ امی ہائیں ہائیں کرتی لپکی آئیں۔

    "اے لو۔۔۔۔ بھلا عید کے دن بچّی پر ہاتھ اٹھاؤ گے؟” ابا نے گڑبڑا کر امی کو دیکھا پھر اپنی لاڈو کو۔ منہ سے تو کچھ بولے نہیں مگر پیر پٹختے کمرے کو چلے گئے۔
    دوسرے دن ابا نے اپنے کمرے میں شیلف منگوایا۔ سب کیلیں، جھنڈیاں، جھاڑ جھنکار، غبارے اور پھول نکال باہر کئے۔ اب جو شیلف اپنی اصلی صورت میں سب کے سامنے آیا تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ لگتا تھا، ہراج گھر سے دو چار روپے میں اٹھالائے ہوں گے۔

    بی گڈی کا یہ عالم کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ساری چہک چہکار ہوا ہو گئی، اب کے تو ابا کو بھی اپنی "بلبلِ ہزار داستان” پر پیار نہ آیا۔ بار بار غصے سے گھورا کئے اور پھر نتیجے میں رانی بٹیا سے بول چال بند کردی۔

    اور جناب آپ کو معلو م ہے کہ لاڈلے بچّوں سے ماں باپ بات بند کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ انہیں بہت دکھ ہوتا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کر پاتے ہیں اور پھر بیمار پڑنا تو لازمی ہے۔ گڈی بی بی نے بھی پٹخنی کھائی۔ کچھ تو موسم ہی بدل رہا تھا اور کچھ ان کا دل ہی اداس تھا! پلنگ پر پڑے پڑے انہیں بس یہی خیال آتا کہ ہائے سب کے سامنے کیسی رسوائی ہوئی۔ بلا سے ڈیڈی دو چار طمانچے ہی جڑ دیتے۔ مگر اف انہوں نے تو بات ہی بند کر دی۔ اچھی بری کوئی بات سنتے، نہ جواب دیتے، اسکول کی رپورٹ آتی تو کچھ تو جہ بھی نہ دیتے۔ گڈی نے اپنے کمرے میں ایک دن یہ بھی سنا۔ ابا، امی کی بات کے جواب میں کہہ رہے تھے۔
    "ہمیں ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو ہمیں اس قدر پریشان کرے۔” اس نے صاف دیکھا کہ ڈیڈی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ باتیں سن رہی ہے تب بھی اس کے دل کا کوئی خیال نہ کیا۔ ہائے اللہ، ڈیڈی کو میری ضرورت نہیں۔ امی کو بھی نہیں، منو کو چنو کو رابی منی۔ نیکی، یہ سب مجھ سے کٹے کٹے رہتے ہیں، کیا سچ میں بہت بری ہوں؟ ہاں چنّو کہتا بھی تھا کہ دیکھ لینا ایک دن تم اتنا دکھ اٹھاؤ گی۔ اف تمہاری زبان ہے کہ قینچی۔ اور توبہ کہیں لڑکیاں بھی اتنی شرارت کرتی ہیں؟ اور اب امی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔کوئی مجھے نہیں چاہتا۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔اف۔۔۔

    پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابا کے کمرے میں پہنچ گئے، ابا نے بے تابی سے پوچھا۔

    "کیوں ڈاکٹر صاحب اب کیا حال ہے بے بی کا؟” ڈاکٹر صاحب مسکرائے۔”شریر بچے بہت ذہین اور بہت حساس بھی ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب۔ میرے خیال سے اب آپ کو اور بیگم صاحبہ کو کبھی شکایت نہ ہوگی کہ رانی بٹیا شرارتی ہے۔ ضدی ہے، کسی کا کہا نہیں مانتی۔ میں نفسیاتی طور پر اس کے دل میں اتر چکا ہوں۔ اب اس وقت تو اسے صرف آپ کے ایک ذرا سے بلاوے کی ضرورت ہے، اتنے دنوں سے جو آنسو بہہ چکے ہیں، ان کا بہہ نکلنا ہی ٹھیک ہے۔”

    ڈیڈی لپک کر اٹھے اور پردے کے پاس جاکر پوچھا۔”کیوں بے بی اب کے ہفتے تمہارے مارکس بہت کم ہیں کیا بات ہے؟”

    اتنا سننا تھا کہ بی گڈی بے تابی سے اٹھیں اور ڈیڈی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ "آپ ہی نے محبت اور توجہ چھوڑ دی تو پڑھائی میں خاک جی لگتا۔ امی بھی دور دور رہتی تھیں۔ اور سب۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔”ہچکیاں منہ سے آواز نہ نکلنے دیتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب ڈیڈی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور گڈی کہے جارہی تھی۔
    "اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ شرارت اتنی بری چیز ہے کہ امی ڈیڈی سے ٹوٹ جانا پڑتا ہے تو….تو ہم کبھی یوں ضد اورشرارت نہ کرتے۔” ہائے بے چاری موٹی موٹی گوری گوری گڈی اس وقت کیسی دبلی اور زرد نظر آرہی تھی۔۔۔۔! اور یہ سب کچھ تین چار ہفتوں ہی میں تو ہوا۔ ڈیڈی نے ذرا سا مسکراکر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ اور بے بی کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔ "سچ مچ اب اچھی بچی بن جاؤ گی۔”

    "جی ہاں۔۔۔۔” وہ آنسو پونچھ کر بولی۔” اور وہ تین سو روپے ہم پر ادھار سمجھئے۔۔۔۔ ڈاکٹر بن جاؤں گی تو پہلی تنخواہ آپ کے ہاتھ میں لاکر رکھ دوں گی۔” پیچھے سے چنّو نے جلا بھنا طعنہ چھوڑا۔

    "بھلا بلبل ہزار داستان چہکنا چھوڑ سکتی ہے؟!”

    (معروف فکشن رائٹر واجدہ تبسّم کی یہ بچّوں کے لیے لکھی گئی یہ کہانی 1959ء میں‌ ماہ نامہ کھلونا، نئی دہلی میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی: ’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پَروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑ سکتے ہو، میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کر سکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کر سکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کر سکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔‘‘

    میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لوگے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دوگے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرّم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیارے محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچّو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلّا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔

    یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔

    اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہو گئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہو سکتا ہے؟

    (بچّوں کی اس کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ ہاتھی پر سوار کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جو درختوں کی کاٹ چھانٹ میں‌ مصروف تھا۔

    وہ پھل دار درخت تھے، لیکن ابھی ان پر پھل آنے کا موسم نہ تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص خاصا سن رسیدہ ہے اور اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا اور شاہی سواری کو فیل بان نے اس مقام پر ٹھہرا لیا۔ اب بادشاہ نے سپاہیوں‌ کو کہا کہ اس بوڑھے کو میرے سامنے حاضر کرو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    بوڑھا بادشاہ کے روبرو آیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاصا کمزور ہے اور اس کی جلد جھریوں سے بھری ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا، اے بوڑھے! تُو جن درختوں کا خیال رکھ رہا ہے، کیا تجھے ان درختوں کا پھل کھانے کی اُمید بھی ہے؟

    بوڑھے نے کہا، بادشادہ سلامت! ہمارے پہلے لوگوں نے زراعت کی، اپنے جیتے جی اناج پایا اور اسے پکا کر کھایا، پھر باغات کی زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ بیج کو اپنے اندر دبا کر اللہ کے حکم سے اس کے بطن سے پودا نکالے جو توانا درخت بنے اور اس کی شاخیں پھلوں سے بھر جائیں۔ وہ زندہ رہ سکے تو پھل بھی کھایا اور جب وہ نہیں رہے تو ان کے بچّوں اور ان بچّوں‌ کی اولادوں‌ نے وہ پھل کھائے۔ ان کی محنت سے ہم سب لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے حضور لیکن اب میں اپنے بعد آنے والوں کے لیے یہ محنت کر رہا ہوں تاکہ وہ نفع حاصل کریں۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بامذاق اور مفید بات بہت ہی پسند آئی۔ خوش ہو کر بادشاہ نے بوڑھے کو ایک ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دیں۔ اس پر بوڑھا ہنس پڑا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟ بوڑھے نے کہا مجھے اپنی محنت کا اس قدر جلد پھل مل جانے سے تعجب ہوا۔ اس بات پر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا۔ بوڑھا یقیناً ذہین بھی تھا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اور دیں۔ باغ بان بوڑھا پھر ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیوں ہنسے؟ وہ بولا کہ کاشت کار پورا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے میری باغ بانی نے تھوڑی سے دیر میں دو مرتبہ اپنی محنت کا ثمر دے دیا۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار اشرفیاں مزید دیں اور سپاہیوں‌ کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔

    سبق: زندگی میں‌ کوئی کام صرف اپنے مفاد اور نفع کی غرض‌ سے نہیں‌ کرنا چاہیے، بلکہ نیک نیّتی کے ساتھ دوسروں‌ کی بھلائی کے لیے بھی اگر کچھ وقت نکال کر کوئی کام کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور اکثر ہماری توقع سے بڑھ کر اور آن کی آن میں قدرت ہم پر مہربان ہوسکتی ہے۔

  • بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    صدیوں پہلے ایک سلطنت کا بادشاہ بڑا ظالم تھا اور خود کو بہت عقل مند سجھتا تھا۔ وہ اکثر حیلوں بہانوں سے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگا دیتا تھا، مگر ان کی فلاح و بہبود پر کچھ توجہ نہ تھی۔ رعایا اس بادشاہ سے تنگ آچکے تھے اور خدا دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح اس سے نجات مل جائے۔

    بادشاہ ہر وقت خوشامدی لوگوں میں گھرا رہتا جو اس کی ہر جائز ناجائز بات اور فیصلوں پر اس کی تعریف کرتے اور اس کو قابل اور نہایت ذہین کہتے۔ بادشاہ کو وہ لوگ ناپسند تھے جو اس کی کسی غلط بات کی نشان دہی کرتے اور اس کے فیصلے پر تنقید کرتے۔ ایسے ہی لوگوں میں مشیر بھی شامل تھا جو بادشاہ کے والد کے زمانے سے دربار میں موجود تھا اور جس کی تنقید کی وجہ سے وہ اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔

    وہ مشیر ایک انتہائی قابل اور ذہین شخص تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بادشاہ کو اپنی عوام کی فلاح کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام کو جائز ٹیکس ادا کرنا اور بادشاہ کا وفادار ہونا چاہیے۔ وہ بادشاہ کو گھیرے ہوئے خوشامدیوں سے سخت بیزار تھا اور ان کو غلط مشورے دینے سے روکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سب ایسے موقع کی تلاش میں رہتے کہ اس مشیر کو بادشاہ کے سامنے ذلیل کر سکیں۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ان لوگوں کو موقع مل گیا۔

    ایک دن مشیر نے بھرے دربار میں کہہ دیا کہ اگر کوئی انسان اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرے تو وہ ہر جگہ اپنی روٹی روزی کا بندوبست کر سکتا ہے۔ بادشاہ جو مشیر سے اس کے سچ بولنے پر پہلے ہی ناراض تھا، اسے یہ وقت مناسب لگا کہ وہ مشیر کو اس کی حق گوئی کی سزا دے سکے۔ اس نے کہا کہ مشیر کو اپنی بات کی سچائی ثابت کرنی ہوگی اور حکم دیا کہ اسے گھوڑوں کے اصطبل میں بند کر دیا جائے۔ اسے کوئی تنخواہ نہیں ملے گی اور اصطبل سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ ایک ماہ میں ایک ہزار سونے کے رائج الوقت سکے اپنی عقل اور ذہانت کو بروئے کار لا کر کمائے اور خزانہ میں جمع کرائے۔ بصورتِ دیگر اس سے شاہی عہدہ واپس لے لیا جائے گا۔

    بادشاہ کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر مشیر بڑا دل برداشتہ ہوا مگر ہمت نہ ہارا۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی اور کہا کہ اسے اپنا وزنی کنڈا ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ جو بادشاہ نے منظور کر لی۔ مشیر کو اصطبل میں بند کر دیا گیا۔

    مشیر نے گھوڑوں کی خوراک کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو اصطبل کے ملازمین نے خیال کیا کہ مشیر کا دماغ چل گیا ہے، پھر بھی انہوں نے مشیر سے خوراک کے وزن کرنے کا سبب پوچھا تو مشیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ گھوڑوں کو پوری خوراک دی جا رہی ہے۔ یہ سن کر اصطبل کے ملازمین پریشان ہو گئے کیوں کہ وہ گھوڑوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ چوری کرکے بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔ انہوں نے مشیر کی منت سماجت شروع کر دی اور کہا کہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے۔ اس کے عوض مشیر جو کہے وہ رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس طرح مشیر نے ایک ماہ میں سونے کے ایک ہزار سکے ان سے حاصل کیے اور خزانہ میں جمع کروا دیے۔

    ادھر بادشاہ نے مشیر کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ رقم اصطبل سے کما کر خزانہ میں جمع کروائی ہے بلکہ الٹا مشیر پر الزام لگا دیا کہ اس نے یہ رقم باہر سے اکٹھی کر کے خزانہ میں جمع کروائی ہے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ لہٰذا مشیر کو دریا پر ایک جھو نپڑی میں بند کرنے کا حکم دے کر اسے کہا کہ اس دفعہ وہ دو ہزار سکے ایک ماہ میں سرکاری خزانہ میں جمع کروائے، بصورتِ دیگر اُس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ مشیر کے پاس بادشاہ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے دوبارہ ایک بڑا ترازو ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی جو منظور کر لی گئی۔

    مشیر نےدریا پر اپنے ترازو سے پانی کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ کشتی بانوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو مشیر نے ان کو بتایا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ جو کشتی بان زیادہ سواریاں کشتی میں سوار کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرےم یں ڈالتے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ کرے تا کہ انہیں سخت سزا دی جائے۔ چونکہ تم سب زیادہ سواریاں اٹھاتے ہوں اس لیے سزا کے لیے تیار رہنا۔

    تمام کشتی بان یہ جان کر فوراً مشیر سے معافی مانگنے لگے۔ معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ وہ ماہ کے آخر تک دو ہزار سکے دیں گے اور آیندہ زیادہ سواریاں نہیں اٹھائیں گے۔ ماہ کے آخر تک کشتی باتوں نے دو ہزار سکے سوداگر کو ادا کر دیے جو اس نے خزانہ سرکار میں جمع کروا دیے۔

    دو ماہ کے بعد مشیر کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا، مشیر اس دفعہ بہت خوش تھا کہ اُس نے اپنی عقل اور دانش سے بادشاہ کے 2 ہزار سونے کے سکے ادا کر دیے ہیں اور ضرور اُس کو خوش ہوکر مشیر سے ترقی دے کر وزیر بنا دیا جائے گا۔

    بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ مشیر اس دفعہ بھی کام یاب ہوگیا ہے تو وہ دل ہی دل میں غُصہ کرنے لگا کہ یہ مشیر اب اُسے دربار میں شرمندہ کرنے پھر آگیا ہے۔ اس لیے اُس نے اپنے ایک خوشامدی وزیر جو مشیر سے نفرت بھی کرتا تھا کو اشارہ کیا کہ وہ اُس کے قریب آئے اور جب خوشامدی بادشاہ کے قریب آیا تو بادشاہ نے اُس کے کان میں کہا ” اس مشیر کو فصیل سے دھکا دے دو تاکہ اس کی صورت ہم دوبارہ نہ دیکھیں۔

    وزیر انتہائی خوش ہوا اور مشیر کو انعام دینے کا کہہ کر فصیل پر لے گیا، جب مشیر فصیل پر پہنچا تو اُس نے وزیر سے کہا میری عقل اور دانش مجھے دکھا رہی ہے کہ تُم مجھے اس فصیل سے دھکا دینے والے ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا جب کوئی بادشاہ اہلِ علم کو اپنے دربار سے یوں رسوا کر کے نکالتا ہے تب اُس کے تاج کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں۔

    وزیر نے مشیر کو بات ختم کرنے سے پہلے ہی فصیل دے دھکا دیا اور واپس چلا گیا۔ ٹھیک سات دن بعد بادشاہ کی سلطنت پر اُس کے طاقتور پڑوسی ملک نے حملہ کیا، بادشاہ دربار میں موجود تمام دانشوروں کو چُن چُن کر ختم کر چکا تھا جو ہمیشہ اُسے اپنی ذہانت سے طاقتور پڑوسی سے جنگ سے بچا لیا کرتے تھے۔ اس نے خوشامدی اکٹھے کر رکھے تھے۔ وہ اُسے اس جنگ سے کیسے بچاتے۔ بادشاہ بُری طرح جنگ ہارا اور جب پکڑا گیا تو پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اُسے اُسی فصیل پر کھڑا کر کے جہاں سے مشیر کو دھکا دیا گیا تھا نیچے دھکا دے دیا۔

  • مالی کا ارادہ

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی، موگرا موتیا وغیرہ۔ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دلربا بنائے ہوئے تھے۔

    شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔ بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔

    پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالانکہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہوں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا ہے، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے۔ لیکن ہم تو راجا ہیں راجا بغیر گھی مسالہ کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹھل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم…”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی: سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی: میں اپنی تعریف کیا سناؤں، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کرتی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل:۔ میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی:۔ میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں، اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقتور اور روغنی ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا۔ کیا معلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)