Tag: بچوں کی کہانیاں

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں

بچوں کی کہانیاں

  • ستارہ پری

    ستارہ پری

    ننّھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لیے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے، لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچّوں کو گود میں لیے کھڑی ہے۔ اس عورت کے بازؤوں کے ساتھ سات رنگ کے خوب صورت پَر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا جیسے تتلی کے پروں کا بنا ہو۔

    شیلا اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی۔ ’’خوب صورت عورت تم کون ہو؟‘‘

    عورت بولی۔ ’’میں ہوں ستارہ پری۔‘‘

    شیلا نے پوچھا:’’تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’ذرا مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دو۔‘‘

    شیلا کہنے لگی۔ ’’گھر میں گھس کر کیا کرو گی؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔‘‘

    شیلا نے جواب دیا۔ ’’اچھا نہلالو۔‘‘

    اب پری اپنے بال بچّوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور شیلا اپنی خوب صورت مہمان کی تواضع کے لیے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوب صورت مہمان غائب ہے، لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔

    شیلا نے حیرت سے غسل خانے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوب صورت دستانہ الگنی پر بھول گئی ہے، دستانہ پیارا تھا۔ اسے دیکھتے ہی شیلا کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔ اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔ دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔

    اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کو بہہ رہی ہیں۔ پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔ شیلا نے ایک چمچ اٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزے دار چوٹیاں کھانے لگی۔ بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اتر آئی۔ دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے۔ ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔

    ہر طرف باغ ہی باغ نظر آرہے تھے۔ جن میں رنگ برنگ شربت کے فوّارے ناچ رہے تھے۔ فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرّد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔ اس نے ایک فوّارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔ پھر دوسرے فوّارے سے پھر تیسرے فوّارے سے ،کیوں کہ ہر فوّارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔

    اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ ایک کوئل اور ایک بلبل شیلا نے پکڑ کر کھائی اور پھر آگے بڑھی۔ آگے ایک بڑا خوب صورت بازار آگیا۔ جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آتی تھیں۔ شیلا ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔

    دکانوں پر بڑی بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔ رنگ برنگ پھول، تتلیاں، ستارے، موتی، کل سے اڑنے والے پنچھی، گل دان مربّے، جام، چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔

    یکایک شیلا کو ستارہ پری اپنے بچّوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔ وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لیے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔

    شیلا چلّا کر بولی۔ ’’ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چُرا رہی ہو۔‘‘

    ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی۔ ’’شیلا میرے قریب آؤ۔‘‘

    جب شیلا اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیے اور بولی۔ ’’شیلا جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔ جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔ جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔‘‘

    اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوب صورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ شیلا کی آنکھوں سے ہٹا لیے۔ شیلا ڈر گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔ اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔

    اس کے بھیّا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔ آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔

    (اس کہانی کے مصنّف راجہ مہدی علی خاں اپنے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے لیے مشہور ہیں، صحافت اور شاعری میں بھی انھوں‌ نے خوب نام کمایا)

  • ہم راجا ہیں راجا…

    ہم راجا ہیں راجا…

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی موگرا، موتیا وغیرہ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دل رُبا بنائے ہوئے تھے۔ شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔

    بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔ پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصّے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالاں کہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہیں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے، لیکن ہم تو راجا ہیں راجا، بغیر گھی مسالا کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹہل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم۔”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی:۔ سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی:۔ میں اپنی تعریف کیا سناؤں ، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کر تی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل: میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی: میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقت ور اور روغن دار ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے۔ پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتّوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا ہے۔ نامعلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (مصنف: نامعلوم)

  • جادو کا پتھر….

    جادو کا پتھر….

    بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی جس کا ایک بیٹا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر اس سے کہا: "بیٹے! ذرا جا کر بازار سے روٹی لے آؤ۔” لڑکا پیسے لے کر بازار جا رہا تھا کہ ایک چوراہے پر اس نے کچھ بچّوں کو بلّی کے ایک مریل سے بچّے کو ستاتے ہوئے دیکھا۔

    اسے رحم آ گیا۔ اور اس نے بچّوں سے پوچھا: "اس بلّی کے بچّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” بچوں نے جواب دیا۔ "کیا لو گے؟” لڑکے نے پوچھا۔

    "جو جی چاہے دے دو۔” بچوں نے کہا۔ لڑکے کے پاس جتنے پیسے تھے سب دے کر اس نے بلّی کے بچّے کو لے لیا اور اس کو گود میں اٹھائے واپس گھر آیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے روٹی؟”

    "روٹی تو نہیں لایا۔ بلّی کا بچّہ لایا ہوں۔” لڑکے نے جواب دیا۔ "ارے کیا کہہ رہے ہو، بیٹے! یہ تم نے کیا کیا؟” ماں نے حیران اور اداس ہو کر کہا۔

    لڑکے نے سارا حال اپنی ماں کو سنانے کے بعد کہا: "ماں! کوئی بات نہیں۔ ایک دن روٹی کھائے بغیر ہی رہ لیں گے۔” دوسرے دن ماں نے لڑکے کو پھر کچھ پیسے دے کر قصائی کی دکان پر بھیجا۔ راستے میں سڑک پر لڑکے نے دیکھا کہ کچھ لڑکے ایک پلّے کو پتھروں سے مار رہے ہیں۔ لڑکے کو اس پلّے پر رحم آ گیا اور اس نے لڑکوں سے پوچھا: "اے لڑکو! اس پلّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” لڑکوں نے جواب دیا۔ لڑکے نے اپنے ہاتھ کے سارے پیسے ان کو دے دیے اور پلّے کو لے کر گھر واپس آ گیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے گوشت؟”

    لڑکے نے کہا: "ماں! آپ ناراض نہ ہوں۔ آپ نے جو پیسے دیے تھے، ان کو دے کر میں یہ پلّا لایا ہوں۔”

    "ارے بیٹے!” ماں نے اداس ہو کر کہا۔ "ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ میں نے جانے کتنی مشکلوں سے وہ پیسے کمائے تھے۔ تم ان سے پلّا خرید لائے۔ بھلا یہ ہمارے کس کام کا؟ اور پھر اس کو کھلانے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں۔”

    لڑکے نے جواب دیا: "ماں کوئی بات نہیں۔ ہم ایک دن گوشت کے بغیر جی لیں گے۔”

    تیسرے دن پھر ماں نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دیے اور اسے تیل لانے کے لیے بازار بھیجا۔ وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ لڑکے چوہے کے ایک بچّے کو جو چوہے دان میں پھنس گیا تھا، ستا رہے تھے۔ اس کو چوہے کے بچّے پر رحم آ گیا۔ اس نے اپنے سارے پیسے دے کر اس کو لے لیا اور لیے ہوئے گھر واپس آیا۔

    ماں نے پوچھا: بیٹے! تیل لے آئے؟” تو اس نے بتایا کہ کس طرح اسے تیل کے بجائے چوہے کے بچّے کو لینا پڑا۔ ماں بیٹے سے بہت پیار کرتی تھی۔ اس لیے اس بار بھی اس نے بیٹے کو برا بھلا نہ کہا۔ بس ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔

    بہت دن گزر گئے۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ پلّا کتّا بن گیا، بلّی کا بچہ بڑا ہو کر بلّی بن گیا اور چوہے کا بچّہ بھی ایک اچھا خاصا چوہا بن گیا۔

    ایک دن نوجوان نے دریا میں مچھلی پکڑ لی۔ اس نے مچھلی کو کاٹا اور اس کی آنتیں نکال کر کتّے کے آگے پھینک دیں۔ کتّا آنتوں کو کھانے لگا تو اچانک ان میں سے ایک چھوٹا سا پتّھر مل گیا جو سورج کی مانند چمک رہا تھا۔

    نوجوان نے اس پتّھر کو دیکھا تو خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ کیوں کہ وہ ایک جادو کا پتھر تھا جس کے متعلق نوجوان نے لوگوں سے سن رکھا تھا۔ اس نے پتّھر کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھا: "اے جادو کے پتھر! مجھے کھانا کھلا!”

    یہ کہہ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ پلک جھپکتے میں اس کے سامنے ایک بیش قیمت دستر خوان پر ایسے انوکھے اور لذیذ کھانے چنے ہوئے تھے جن کو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ پھر وہ دوڑ کر گھر آیا اور وہ جادو کا پتھر اپنی ماں کو دکھایا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ اسی دن سے ماں اور بیٹا دونوں بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    ایک دن نوجوان شہر گیا۔ وہاں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک نہایت حسین جوان لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی نوجوان کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اس نے اس سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنا یہ ارادہ ماں کو بتایا۔

    "واہ ! تم بھی کیا باتیں کرتے ہو!” ماں نے حیرت سے کہا۔ "تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ لڑکی خود بادشاہ سلامت کی بیٹی ہے۔ نہ بابا! میں پیغام لے کر بادشاہ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔”

    لیکن نوجوان اصرار کرتا رہا اور آخرکار ماں مجبوراً راضی ہو گئی۔ اس نے کہا: "اچھی بات ہے۔ کہتے ہو تو چلی جاؤں گی، لیکن اتنا یاد رکھنا کہ بادشاہ کے محل سے آج تک کبھی کسی کو سکھ نہیں ملا۔”

    رات کے وقت ماں شاہی محل تک پہنچ گئی اور محل کے دروازے کے سامنے کی سڑک پر جھاڑو دے کر اس کی صفائی کر دی۔

    صبح کو بادشاہ محل سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ دروازے کے سامنے کی ساری زمیں صاف ستھری ہو گئی ہے۔ اگلے دن صبح پھر اس نے دیکھا تو یہی حال تھا۔ اس نے زیادہ تعجّب ہوا اور اس نے رات کو دروازے کے سامنے پہرے دار کھڑے کر دیے۔

    تیسرے دن صبح سویرے پہرے دار ایک عورت کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ بادشاہ نے عورت سے پوچھا: "بتاؤ تم روز رات کو میرے محل کے دروازے کے سامنے جھاڑو کیوں دیتی ہو؟”

    عورت نے کہا: "میں ایک غریب بیوہ ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے۔ میں آپ کی بیٹی سے اس کی شادی کی خواہش لے کر آئی تھی، لیکن آپ کے پاس یوں چلے آنے کی مجھے جرات نہیں ہوئی۔ اور پھر آپ کے پہرے دار بھی تو آنے نہ دیتے۔”

    کسی غریب عورت کی یہ گستاخی بھلا بادشاہ کیسے برداشت کرتا۔ اس نے غصّے میں آ کر حکم دیا کہ عورت کو قتل کر دیا جائے، لیکن اس کے دائیں والے وزیر نے کہا: "بادشاہ عالم! اس بیچاری عورت کو قتل کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اس کو کوئی ایسا کام بتائیے جس کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ ہو۔ بس پھر یہ خود ہی محل میں آنا بند کر دے گی۔”

    وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے عورت سے کہا: "جاؤ جا کر اپنے بیٹے سے کہنا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کے لیے چالیس اونٹوں پر سونا لاد کر لائے۔”

    "ہم بیچارے اتنا سونا کہاں سے لائیں گے؟” عورت نے اداس ہو کر سوچا اور محل سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر لوٹ کر اس نے بادشاہ کی شرط اپنے بیٹے کو بتائی تو اس نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔”

    اس نے جادو کے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس سے کچھ کہا۔ بس پھر کیا تھا، صبح ہوتے ہیں غریب بیوہ کی جھونپڑی کے سامنے سونے سے لدے ہوئے چالیس اونٹ کہیں سے آ کر کھڑے ہو گئے۔

    نوجوان نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ ان چالیس اونٹوں کو بادشاہ کے پاس لے جائیں۔” ماں کو بڑا تعجب ہوا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر ان چالیس اونٹوں کو ہانکتی ہوئی بادشاہ کے پاس لے گئی۔

    بادشاہ کو بھی بہت تعجّب ہوا، لیکن اس نے فوراً ہی ایک اور حکم صادر کر دیا۔ اس نے عورت سے کہا: "اپنے بیٹے سے جا کر کہنا کہ وہ اپنی دلہن کے لیے ایک محل بنوائے جو سارے کا سارا خالص سونے کا ہو۔ تب ہی شادی بیاہ کی بات ہو سکتی ہے۔”

    ماں اور زیادہ اداس ہو گئی اور گھر جا کر بادشاہ کی نئی فرمائش اپنے بیٹے کو سنائی۔ نوجوان نے ماں کی باتیں چپ چاپ سن لیں اور پھر اس سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔ خالص سونے کا محل بھی بن جائے گا۔”

    صبح سویرے دریا کے کنارے ایک عالی شان محل کھڑا ہوگیا جو سارے کا سارا خالص سونے کا تھا۔ ایسا محل اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

    ماں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا: "بادشاہ عالم لیجیے محل تیار ہے۔ ذرا باہر چل کر اس کو دیکھیے تو۔”

    بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ باہر آیا اور محل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اب تو اس کو ٹال مٹول کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے غریب نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔

    بادشاہ کے محل میں ایک چڑیل رہتی تھی۔ اس نے راز معلوم کرنے کا عہد کیا کہ ایک غریب نے راتوں رات ایسا عالی شان محل کیسے بنوا لیا، وہ بھی سونے کا۔ یہ عہد کر کے وہ مزاج پرسی کے بہانے شہزادی کے پاس آئی اور اس کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ اپنے شوہر سے کسی طرح یہ راز معلوم کرے۔ چناں چہ اپنی بیوی کے اصرار پر نوجوان نے بتایا!

    "میرے پاس جادو کا ایک پتھر ہے۔ اس کی مدد سے میں جو کچھ چاہوں حاصل کر سکتا ہوں۔”
    "تم اس جادو کے پتھر کو کہاں رکھتے ہو؟” بیوی نے پوچھا۔
    "میں اس کو اپنے منھ میں زبان کے نیچے رکھتا ہوں۔” نوجوان نے جواب دیا۔

    اگلے ہی دن شہزادی نے یہ سب باتیں چڑیل کو بتا دیں۔ اس روز رات کو نوجوان گہری نیند سو گیا تو چڑیل نے آ کر آہستہ سے اس کے منھ سے جادو کا پتھر نکال لیا اور فوراً اس کو حکم دیا۔ "اے جادو کے پتھر! سونے کے محل کو شہزادی کے ساتھ ہی بادشاہ کے باغ میں منتقل کر دو اور غریب نوجوان پہلے جہاں تھا اسے وہی پہنچا دو۔”

    ایک ہی لمحہ بعد سونے کا محل بادشاہ کے باغ میں کھڑا تھا۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ نہ محل ہے، نہ شہزادی اور وہ خود اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے اندر پڑا ہوا ہے۔ پاس ہی اس کی ماں بیٹھی رو رہی ہے اور ایک کونے میں کتّا، بلّی اور چوہا اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

    "ہائے میری بدقسمتی!” نوجوان مایوس ہو کر کہہ اٹھا۔ "جادو کا پتھر گم ہو گیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کتّے، بلّی اور چوہے کو نوجوان پر رحم آ گیا۔

    ان میں سے ہر ایک اپنے دل میں سوچنے لگا کہ اب آخر کیا کیا جائے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کتّا بھونک اٹھا، بلی میاؤں میاؤں کر اٹھی، چوہا چیں چیں کرنے لگا۔ وہ تینوں دوڑتے ہوئے جھونپڑی سے باہر نکلے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

    وہ تینوں تمام دن برابر دوڑتے رہے اور شام ہوتے ہوتے بادشاہ کے باغ تک پہنچے۔ انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دیوار کے اس طرف نوجوان کا سنہرا محل چمک رہا تھا۔ "اب ہم کو کسی طرح باغ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔” کتّے، بلّی اور چوہے تینوں نے آپس میں طے کیا۔

    لیکن باغ کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ ان کو پھاند کر اندر جانا ناممکن تھا۔ سب دروازوں پر اندر سے مضبوط تالے لگے تھے۔

    تینوں دیوار میں کوئی سوراخ تلاش کرنے لگے۔ سوراخ نہ ملا تو وہ تینوں مل کر دیوار کے نیچے زمیں میں ایک سوراخ بنانے لگے۔ سب سے پہلے چوہے نے اپنے پنجے کام میں لگا لیے۔ پھر بلّی، اور آخر میں کتّا اس کی جگہ کام میں لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرنگ تیار ہو گئی۔

    پہلے چوہا سوراخ سے ہو کر اندر گیا۔ پھر بلّی بھی اندر چلی گئی۔ کتّا باہر پہرہ دینے لگا۔

    بلّی اور چوہا دونوں سارے محل میں دوڑتے پھرے اور بالآخر اس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں شہزادی سوئی ہوئی تھی اور پاس ہی چڑیل پڑی سو رہی تھی، جس نے اپنے ہونٹ زور سے بھینچ رکھے تھے۔ عقل مند چوہا فوراً سمجھ گیا کہ جادو کے پتھر کو اس نے اپنے منھ میں زبان تلے دبا رکھا ہے۔

    چوہا دبے پاؤں جا کر چڑیل کی چھاتی پر چڑھ گیا اور اپنی دُم کی نوک سے اس کی ناک میں گدگدی کرنے لگا۔ چڑیل نے اپنا منھ کھول کر ایک چھینک ماری اور جادو کا پتھر اچھل کر فرش پر گر پڑا۔ بلّی نے فوراً اس کو منھ میں اٹھا لیا اور جب تک چڑیل ہوش سنبھالتی بلّی اور چوہا دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہوئے سوراخ کے راستے باہر سڑک پر آ گئے جہاں کتّا ان کا انتظار کر رہا تھا، کتّے نے فوراً جادو کا پتھر بلّی سے لے کر اپنے منھ میں دبا لیا اور تینوں آگے دوڑ پڑے۔

    ادھر محل میں کھلبلی مچ گئی۔ سب "پکڑو! پکڑو!” کر کے چیخنے لگے۔ چور کی تلاش ہونے لگی، لیکن انھیں یہ کیا معلوم تھا کہ جادو کا پتّھر کسی کتّے کے منھ میں پڑا ہوا ہے۔

    کتا، بلّی اور چوہا تینوں دوڑتے ہوئے تھوڑی دیر میں دریا کے کنارے پہنچے اور آپس میں اس بات پر بحث کرنے لگے کہ جادو کے پتّھر کو اس پار کون لے جائے؟

    بلّی کہتی تھی: "پتھر کو اس پار میں لے جاؤں گی۔”

    کتا کہتا تھا: "نہیں، تمھیں تو تیرنا بھی نہیں آتا، کہیں اس کو لیے ڈوب ہی نہ جاؤ۔

    چوہے کی بھی یہی خواہش تھی کہ جادو کے پتّھر کو اُس پار میں لے جاؤں۔ تینوں بہت دیر تک بحث کرتے رہے۔ کتّا اپنی بات پر اڑا رہا اور پتّھر اسی کے پاس رہ گیا۔ تینوں تیرتے ہوئے دریا پار کرنے لگے۔ اچانک کتّے نے پانی میں اپنا عکس دیکھ لیا اور کوئی دوسرا کتّا خیال کر کے زور سے جو بھونکا تو جادو کا پتھر اس کے منھ سے نکل کر پانی میں گر گیا۔ اسی وقت اچانک کہیں سے ایک بڑی سی مچھلی نکلی اور وہ پتھر کو نگل گئی۔

    "میں نے کہا تھا نا کہ پتھر کو تم ہر گز نہ لے جانا۔” بلّی نے مایوس ہو کر کتّے سے کہا۔ اب وہ تینوں پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ اپنے مالک کے پاس خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتے تھے۔ نزدیک میں ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ وہ تینوں حیران و پریشان چلتے ہوئے اس بستی میں گئے۔ تینوں کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔

    خوش قسمتی سے ایک مچھیرے نے ایک بڑی مچھلی پکڑ لی تھی۔ اس نے مچھلی کو کاٹ کر اس کی آنتیں پھینک دیں۔ کتا بلّی اور چوہا تینوں آنتوں کو کھانے لگے۔

    اچانک بلّی خوشی سے میاؤں کر اٹھی۔ معلوم ہوا کہ مچھلی کی آنتوں میں اس کو اچانک کوئی چمکیلا پتّھر مل گیا ہے۔ تینوں نے اس کو ذرا غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ انھیں کا جادو کا پتھر ہے، تینوں خوشی سے اچھلنے لگے۔

    بلّی نے پتھر کو اپنے منھ میں لے لیا اور تینوں اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ گھر پہنچتے ہی بلّی نے جادو کے پتھر کو نوجوان کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ نوجوان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اس نے کتّے، بلّی اور چوہے تینوں سے کہا:

    "تم لوگوں کا احسان میں جیتے جی نہیں بھولوں گا۔”

    "اور ہم جیتے جی تمھاری خدمت کرنے کو تیار ہیں، کیوں کہ کبھی تم ہی نے ہماری جانیں بچائی تھیں۔” کتّے، بلّی اور چوہے نے ایک آواز میں اس کو جواب دیا۔

    نوجوان نے جوش میں آ کر کہا: "ابھی میں پتّھر کو حکم دیتا ہوں، وہ سونے کا محل پھر سے آ جائے گا۔”

    ماں نے بیٹے کو روکتے ہوئے کہا: "رہنے دو بیٹے۔ سونے کے محل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔” تب نوجوان نے جادو کے پتھر سے کہا:

    "محل کو مٹا دو۔” تو بس پھر کیا تھا، نہ محل رہا، نہ چڑیل رہی اور نہ ہی بادشاہ اور اس کی بیٹی رہی۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔

    لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بعد نوجوان نے ایک مالی کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہ لوگ بڑے سکھ اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • بولتا درخت

    بولتا درخت

    ٹن۔ٹن۔ٹن۔ٹن….ٹن ٹن۔ اسکول میں چھٹّی کا گھنٹہ بجا۔ استادوں نے اپنی اپنی جماعت کے بچّوں کو قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ بچّوں نے گھنٹے کی آواز کے ساتھ ساتھ استادوں کے حکم کو انتہائی خوشی سے سنا اور جھٹ پٹ مُنّے منّے ہاتھوں اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکا کر لائنوں میں جا لگے۔ قومی ترانہ گایا گیا اور بچّے پرنسپل کو خدا حافظ کہہ کر قطار در قطار اسکول سے باہر نکلنے لگے۔

    پھاٹک سے باہر کچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ، دہی بڑے، مونگ پھلی، امرود کے کچالو۔ فالسے۔‘‘ کی آوازیں لگا رہے ہیں۔ بچّے ان کے ٹھیلوں پر ٹوٹ پڑے۔ ننّھا بختیار بھی ایک ہاتھ سے اپنا بستہ، دوسرے سے نیکر سنبھالے ایک ٹھیلے کے پاس رک گیا۔ جیب سے اِکَنّی نکالی اور ٹھیلے والے سے انگلی کے اشارے سے کہا۔

    ’ایک آنہ کے فالسے دے دو۔‘ فالسے والے نے جو لہک لہک کر آواز لگانے میں مگن تھا بختیار کے ہاتھ سے اِکَنّی لے اپنی گلک میں ڈالی اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیا میں فالسے ڈالے۔ ان پر نمک چھڑکا۔ دو چار دفعہ پڑیا کو اچھالا اور بختیار کو’’لو مُنّے‘‘ کہہ کر پکڑا دی اور پھر گانے میں مصروف ہو گیا۔ وہ گا رہا تھا:۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔‘‘

    بختیار کو اس کی امّی اسکول کے لیے ایک آنہ روز دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے تو کوئی صاف ستھری چیز گھر پر لا کر کھا لے، ورنہ پیسے جمع کر کے اپنے لیے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خرید لے۔

    ننّھا بختیار اسی اِکَنّی کے فالسے کی پڑیا مٹھی میں دبا گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جا کر کتابوں کا بستہ مقررہ جگہ پر رکھا اور فالسوں کی پڑیا ماں کو دی، اپنی یونیفارم اور جوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے ماں سے کہا۔

    ’’امّی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنی مزے دار ہیں نا؟

    امّی نے کہا۔’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھر سے نمک چھڑکا۔ بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے۔ نہ جانے صاف تھے یا نہیں۔ کھانا کھا کر میں بھی دو چار کھالوں گی، باقی تم کھانا۔ فالسے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں صحّت کے لیے، مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہارا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیر دینا۔ تمہارے گھر میں فالسے ہی فالسے ہو جائیں گے۔‘‘

    بختیار کھانا ختم کر کے فالسے کھاتا جائے اور گٹھلیاں جمع کرتا جائے اور پھر اس نے وہ گٹھلیاں اپنی کیاری میں ڈال دیں۔

    کچھ دنوں بعدایک ننّھا سا پودا زمین سے نکلا۔ ننّھا بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑ کر امّی کو پکڑ لایا۔’’امی، دیکھیے میرے فالسے کا پودا نکلا۔‘‘ اسے دھیان سے پانی دیا کرو۔ کبھی کبھی زمین کی گڑائی کرتے رہا کرو۔ میں کھاد اور میٹھی مٹّی منگا کر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھر تمہارا یہ ننّھا پودا جلدی سے بڑا اور پھل دار درخت بن جائے گا۔‘‘

    ننّھا بختیار ہر روز اسکول سے آ کر دوپہر کو آرام کرنے کے بعد اپنے باغ میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرتا اور فالسے کی پتیوں کو محبت سے چومتا اور اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔

    ایک روز بختیار نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان پھولوں کا ذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔ دوستوں کا بھی دیکھنے کو جی چاہا۔ وہ بختیار کے ساتھ اس کے گھر آئے اور پھول دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ پھول توڑ کر گھر لے جائیں اور خوش ہوں مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آواز آئی جیسے کوئی درد بھری آواز سے کہہ رہا ہو’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    بچّوں نے ڈر کے مارے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہا ہو، مگر جب انہیں کوئی نظر نہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھر وہی آواز آئی۔ ’’ہائے ظالم ، مارڈالا‘‘

    اب تو سب بچّے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کو بھاگے۔ بیچارا بختیار اپنے گھر کے اندر بھاگا اور جا کر اپنی امّی کو سب حال بتا دیا۔

    امّی باہر آئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جو بچّوں کو ڈرا رہا ہے۔ امّی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کو اپنے پھولوں کے توڑے جانے کا درد ہے۔ انہوں نے بختیار کو سمجھایا ’’بیٹا یہ بھوت کی آواز نہیں ہے بلکہ درخت کہہ رہا ہے کہ میرے پھول نہ توڑو۔ ان کے توڑنے سے مجھے دکھ ہوگا، کیوں کہ پھولوں سے فالسے بنیں گے اور اگر انہیں توڑ لو گے تو میں پھول دار کیسے بنوں گا۔‘‘

    بختیار کو فالسے کے درخت سے بہت سے محبت تھی۔ فوراً ایک اچھے بچّے کی طرح اپنی ماں کی بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے ان پھولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔

    تھوڑے دنوں بعد اس درخت میں ہری ہری گٹھلیاں سی لگی ہوئی دیکھنے میں آئیں تو بختیار سمجھا کہ یہی فالسے ہیں۔ اس نے اسکول میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آرہے ہیں۔ اس کے دوستوں کو وہ پچھلا بھوت کا واقعہ کچھ یاد تو تھا مگر فالسے کھانے کے شوق میں اسکول سے واپسی پر وہ پھر بختیار کے ساتھ اس کے گھر پر آ ہی دھمکے۔ ہاتھ بڑھا کر فالسے توڑنا ہی چاہتے تھے کہ پھر وہی دردناک آواز سنائی دی۔

    ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ اوہو! بچوں کو اب پوری طرح یقین ہوگیا کہ بختیار کے فالسے کا درخت بھوتوں کا اڈّا ہے۔ بھاگے سب کے سب اور اپنے اپنے گھر جا کر ہی دم لیا۔

    ننھا بختیار یہ تماشا دیکھ کر باہر آیا۔ ’’امی سچ کہہ رہا ہوں، فالسے کے درخت کے اندر بھوت رہتا ہے۔ ابھی پھر اس میں سے آواز آئی تھی۔‘‘

    امی اپنی ہنسی روکتی جائیں اور پتّوں کو ہٹا کر دیکھنا چاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔ امّی کا ہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آگئیں۔ پھر اس میں سے آواز آئی ’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    امّی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں۔’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کا کچّا پھل توڑا جائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اس لیے یہ بچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘ ننھا بختیار کچھ سمجھا، کچھ نہ سمجھا، مگر چپ ضرور ہو گیا۔

    کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے بختیار نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آ رہا ہے۔ ہری ہری پتّیوں کی آڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اور پھلوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ بس اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اور خود بھی کھاؤں گا۔

    اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لایا۔ بچّے کہنے لگے۔’’بھئی تمہارا درخت تو بھوتوں کا اڈّا ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے؟‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھا کے فالسے توڑنے لگے، مگر اس بار درخت میں سے بڑی پیار بھری دھیمی دھیمی آواز آرہی تھی۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔ آؤ بچو…….‘‘ اور ڈالیاں تھیں کہ بچوں کے آگے محبت سے بڑھی آتی تھیں، جھکی جاتی تھیں۔

    اس روز سب بچّوں اور ننّھے بختیار نے خوب مزے لے لے کر اپنے درخت سے فالسے توڑ توڑ کر کھائے اور تھوڑے تھوڑے فالسے جیبوں میں بھر کر اپنے اپنے گھر لے گئے۔

    راستہ بھر ایک دوسرے سے کہتے تھے۔ ’’بختیار کا درخت بولتا درخت ہے، مگر ہے بڑے کام کا، ہم بھی اس کے فالسے کے بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔‘‘

  • دیہاتی اور لومڑی

    دیہاتی اور لومڑی

    ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آرہی تھیں۔

    تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک کے کنارے رکھا ہے اور اس پنجرے میں ایک شیر بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس آگیا۔

    اندر بند شیر نے جب اس کو دیکھا تو رونی صورت بنا کر بولا۔ ’’بھیا تم بہت اچھّے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ دیکھو مجھے کسی نے اس پنجرے میں بند کر دیا ہے اگر تم کھول دو گے تو بہت مہربانی ہوگی۔‘‘

    دیہاتی آدمی ڈر رہا تھا مگر اپنی تعریف سن کر اور قریب آگیا۔ تب شیر نے اس کی اور تعریف کرنا شروع کر دی۔ ’’بھیّا تم تو بہت ہی اچھے اور خوب صورت آدمی ہو۔ یہاں بہت سے لوگ گزرے مگر کوئی مجھے اتنا اچّھا نہیں لگا۔ تم قریب آؤ اور پنجرے پر لگی زنجیر کھول دو۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ دو دن سے یہیں بند ہوں۔‘‘

    اس آدمی کو بہت ترس آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔

    شیر دہاڑ مار کر باہر آگیا اور دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا۔ ’’ارے میں نے ہی تم کو کھولا اور مجھ ہی کو کھا نے جارہے ہو؟‘‘

    شیر ہنس کر بولا۔ ’’ اس دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو پاس لگے ہوئے پیڑ سے پوچھ لو۔‘‘

    دیہاتی نے پیڑ سے کہا۔ ’’بھیّا پیڑ! میں راستے پر جارہا تھا، شیر پنجرے میں بند تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کھول دو اور میں نے کھول دیا۔اب یہ مجھ ہی کو کھا نا چاہتا ہے۔‘‘

    پیڑ نے جواب دیا۔ ’’اسِ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ میرے پھل کھاتے ہیں اور میرے سائے میں اپنی تھکن مٹاتے ہیں مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو مجھے کاٹ کر جلا بھی دیتے ہیں۔ مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔‘‘

    شیر یہ سن کر پھر دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا۔ ’’رکو ابھی کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘اس نے راستے سے پوچھا۔

    ’’بھائی راستے! دیکھو کتنی غلط بات ہے کہ شیر کو پنجرے سے میں نے نکالا اور وہ مجھ ہی کو کھانا چاہتا ہے۔‘‘

    راستے نے کہا۔’’ہاں بھائی! کیا کریں، دنیا ایسی ہی ہے۔ مجھ پر چل کر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں، میں ان کو تھکن میں آرام دینے کے لیے اپنے اوپر سلا لیتا ہوں۔ مگر جب ان کو مٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو میرے سینے پر زخم ڈال کر مجھے کھود ڈالتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں نے کبھی آرام دیا تھا۔‘‘

    شیر یہ بات سن کر پھر جھپٹا۔ دیہاتی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ تب وہاں ایک لومڑی گھومتی نظر آئی۔ دیہاتی اس کی طرف لپکا اور بولا۔ ’’دیکھو یہاں کیا غضب ہورہا ہے۔‘‘لومڑی اطمینان سے ٹہلتی ہوئی قریب آئی اور پوچھا۔’’کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو۔‘‘

    ’’دیہاتی نے کہا کہ میں راستے سے جارہا تھا، شیر پنجرے میں تھا اور پنجرہ بند تھا۔ اس نے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ پیاسا ہوں مجھے کھول دو، اور جب میں نے اسے کھولا تو یہ مجھے کھانے کر جھپٹ رہا ہے۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں اور جب ہم نے پیڑ سے پوچھا تو وہ کہہ رہا ہے کہ یہی صحیح ہے اور جب راستے سے پوچھا تو اس نے بھی کہا کہ شیر کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘

    شیر کھڑا یہ سب باتیں سن کر یہی سوچ رہا تھا کہ دیہاتی کی بات ختم ہو تو اسے کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں۔

    لومڑی بولی۔ ’’اچّھا میں سمجھ گئی، تم پنجرے میں بند تھے اور پیڑ آیا اور اس نے تم کو۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ میں نہیں شیر بند تھا۔‘‘دیہاتی نے سمجھایا۔

    ’’اچّھا۔‘‘ لومڑی نے سر ہلایا اور پھر بولی۔ ’’شیر بند تھا اور راستے نے شیر کو کھول دیا تو تم کیوں پریشان ہو؟‘‘

    ’’ ارے نہیں۔ راستے نے نہیں، میں نے اس کو پنجرے سے۔‘‘دیہاتی الجھ گیا تھا۔

    ’’بھئی میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، کون بند تھا، کس نے کھولا، کیا ہُوا پھر سے بتاؤ۔‘‘ لومڑی نے کہا۔

    ادھر شیر نے سوچا یوں تو بہت وقت بر باد ہو رہا ہے۔ اس نے لومڑی کو سمجھانے کی غرض سے اپنی طرف متوجہ کیا اور بولا۔ ’’دیکھو! میں پنجرے میں۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پنجرے کی طرف گیا اور اندر گھس گیا اور لومڑی کو سمجھایا کہ وہ یوں اندر بند تھا اور۔۔۔‘‘

    لومڑی تیزی سے چند قدم اگے بڑھی اور پنجرے کا دروازہ بند کر کے زنجیر چڑھا دی۔ آخر اس کے بڑے اور اس کے خاندان کے کئی لوگوں کو بھی تو شیر نے اپنا شکار بنایا تھا۔ آج اسے بدلہ چکانے کا موقع مل رہا تھا۔ چالاک تو وہ مشہور تھی ہی اور آج پھر ایک انسان کے سامنے اپنی چالاکی اور ذہانت منوا لی۔

    اس مڑ کر دیہاتی سے کہا۔ اب تم اپنے راستے جاؤ۔ ہر ایک مدد کے لائق نہیں ہوتا۔

    دیہاتی کی جان میں‌ جان آئی۔ اس نے اپنی لاٹھی اٹھائی اوراحسان مندی سے لومڑی کو دیکھتا ہوا اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

    (ایک لوک کہانی)

  • بارہ بہنیں

    بارہ بہنیں

    ایک تھا بادشاہ، جس کی تھیں بارہ لڑکیاں، سب کی سب بڑی خوب صورت تھیں۔ سب ایک ہی ساتھ رہتیں اور ایک ہی کمرے میں سوتیں۔ جب لڑکیاں سو جاتیں تو بادشاہ آکر باہر سے کمرے کا دروازہ بند کر دیتا۔ بادشاہ ڈرتا تھا کہ لڑکیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اس لیے وہ ہر رات کو دروازہ بند کر دیتا تھا اور صبح سویرے ہی کھول جاتا۔

    ایک دن صبح کو جب بادشاہ دروازہ کھولنے آیا تو یہ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا کہ بارھوں لڑکیوں کے جوتے ایک قطار میں رکھے ہوئے ہیں، ہر جوتے کی ایڑی گھسی ہوئی ہے۔ جوتے گرد میں اٹے ہوئے ہیں۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ لڑکیاں ضرور رات کو کہیں گئی تھیں مگر لڑکیاں کیوں کر باہر گئیں، یہ اس کی سمجھ میں نہ آیا اور لڑکیوں سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔

    آخر اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی معلوم کرے گا کہ شہزادیاں رات کو کہاں جاتی ہیں، اس کی شادی اس شہزادی سے کی جائے گی جسے وہ پسند کرے گا۔ راج پاٹ بھی اسی کو دے دیا جائے گا، مگر شرط یہ ہے کہ تین دن کے اندر معلوم کر کے بتلائے، ورنہ پھانسی دے دی جائے گی۔

    بچوں کی مزید کہانیاں

    کچھ دنوں کے بعد ایک شہزادہ آیا اور اپنے آپ کو اس کام کے لیے پیش کیا۔ بادشاہ نے اس کا استقبال بڑی دھوم دھام سے کیا۔ شہزادیوں کا کمرہ دکھلایا۔ کمرے کے پاس ہی شہزادے کے سونے اور رہنے کا انتظام کیا تاکہ نزدیک سے شہزادیوں کی نگرانی اچھی طرح کرسکے۔

    رات کو شہزادیوں کے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا تاکہ شہزادہ ان کے سونے جاگنے کو اچھی طرح دیکھ سکے، لیکن ابھی تھوڑی ہی رات گئی تھی کہ شہزادے کی آنکھوں میں نیند بھر آئی اور وہ بے خبر ہوکر سو رہا۔

    شہزادیاں ہر رات کی طرح اس رات بھی گھومنے گئیں۔ جب صبح سویرے بادشاہ آیا تو اس نے دیکھا کہ لڑکیوں کے جوتوں پر گرد پڑی ہوئی ہے اور ایڑیاں گھسی ہوئی ہیں۔

    بادشاہ نے شہزادہ سے پوچھا کہ’’بتلاؤ لڑکیاں کہاں گئی تھیں؟‘‘ وی کوئی جواب نہ دے سکا۔ دوسری اور تیسری رات کو بھی شہزادیاں گھومنے گئیں اور شہزادہ ہر رات سوتا رہا۔ آخر چوتھے دن شہزادے کو پھانسی دے دی گئی۔

    اس کے بعد بہت سے شہزادے آئے، مگر کوئی بھی یہ نہ معلوم کرسکا کہ شہزادیاں کب اور کہاں گھومنے جاتی ہیں۔

    ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب سپاہی سڑک سے گزر رہا تھا۔ اس نے بھی بادشاہ کا اعلان دیکھا۔ جی میں آیا کہ کسی طرح یہ بھید معلوم ہوجاتا تو زندگی بڑے آرام سے گزرتی، لیکن یہ بھید کیسے معلوم ہو یہ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اسی سوچ میں چلا جا رہا تھا کہ ایک بڑھیا ملی، بڑھیا نے پوچھا۔ ’’سپاہی سپاہی کہاں جارہے ہو؟‘‘

    سپاہی نے کہا۔ ’’یہ تو مجھ کو بھی نہیں معلوم، مگر دل یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح شہزادیوں کے گھومنے کا بھید معلوم ہو جاتا تو بڑا اچھا ہوتا۔‘ بڑھیا نے کہا یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ بس تم ہمّت کر لو تو بیڑا پار ہے۔

    دیکھو رات کو کھانے کے بعد لڑکیاں شراب بھجوائیں گی، وہ نہ پینا، اس کے پینے سے بڑی گہری نیند آتی ہے۔ تم ہرگز ہرگز شراب مت پینا۔ بستر پر لیٹتے ہی سوتا ہوا بن جانا اور یہ ظاہر کرناکہ تم گہری نیند میں سو رہے ہو تاکہ شہزادیاں نڈر ہو کر گھومنے جاسکیں۔ یہ لبادہ بھی اپنے ساتھ لے جاؤ، اس میں خاص بات یہ ہے کہ جب تم اس کو اوڑھ لو گے تو تمہیں کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا اور تم سب کودیکھ سکتے ہو۔‘‘

    جب بڑھیا سب کچھ سمجھا چکی تو سپاہی کی ہمّت اور بڑھ گئی۔ وہ بادشاہ کے پاس خوش خوش گیا اور کہنے لگا میں معلوم کروں گا کہ شہزادیاں رات کو کہاں گھومنے جاتی ہیں۔ بادشاہ نے سپاہی کو عمدہ کپڑے پہنائے اور شہزادیوں کے کمرے کے پاس لے جا کراس کے سونے کا کمرہ بتلا دیا۔

    شام ہوتے ہی ایک شہزادی شراب کا پیالہ لیے ہوئے سپاہی کے پاس آئی اور ہنس کر پینے کو کہا۔ سپاہی نے اپنے حلق کے پاس ایک تھیلی باندھ رکھی تھی۔ سپاہی نے بڑی ہوشیاری سے شراب تھیلی میں انڈیل لی۔ چارپائی پر لیٹتے ہی گہری نیند میں سوتا ہوا بن گیا۔ شہزادیاں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔

    آدھی رات کے قریب شہزادیاں اٹھیں، کپڑے پہنے، بال سنوارے اور گھومنے جانے کے لیے تیار ہوگئیں۔ سپاہی اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شہزادیاں ہنستی ہوئیں کمرے سے باہر نکلیں اور گھومنے کے لیے جانے لگیں۔ سپاہی چپکے سے اٹھا۔ لبادہ اوڑھ کر شہزادیوں کے پیچھے ہولیا۔

    تھوڑی دور چلنے کے بعد سب سے چھوٹی شہزادی بولی،’’مجھے ڈر لگ رہا ہے، نہ جانے آج کیا بات ہے دل خوش نہیں۔‘‘

    بڑی شہزادی نے کہا۔ ’’تم بس یوں ہی ڈر رہی ہو۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر تمام شہزادیاں ہنستی ہوئی ایک باغ میں پہنچیں۔ باغ کے تمام درحت نہایت خوب صورتی سے برابر لگے ہوئے تھے۔ پتیاں چاندی کی طرح سفید تھیں۔ سپاہی نے ایک درخت سے چھوٹی سی شاخ توڑ لی۔ شاخ توڑنے سے آواز پیدا ہوئی۔ چھوٹی شہزادی سہم گئی اور دوسری بہنوں سے کہنے لگی ’’کیا تم لوگ یہ آواز نہیں سن رہی ہو۔ آج ضرور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ مجھے تو بڑا ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

    بڑی شہزادی نے پھر ہنس کر اس کی بات کو ٹالا اور کہا کہ کچھ نہیں بس تمہیں کچھ وہم ہوگیا ہے۔ چلتے چلتے شہزادیاں دوسرے باغ میں پہنچیں جہاں درختوں کی پتیاں سنہرے رنگ کی تھیں، باغ کے بیچ میں ایک خوب صورت چبوترا بنا ہوا تھا۔ سب شہزادیاں اس پر بیٹھ گئیں۔

    یہاں بارہ پیالے شربت کے بھرے ہوئے رکھے تھے۔ ہر ایک شہزادی نے ایک پیالہ پیا اور پھر آگے کی طرف چلیں۔ سپاہی نے یہاں بھی ایک ٹہنی توڑی اور ایک پیالہ اٹھاکر لبادہ میں رکھ لیا۔ چھوٹی شہزادی شاخ ٹوٹنے کی آواز پر پھر ڈری اور بڑی شہزادی نے پھر دلاسہ دیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد شہزادیاں ایک دریا کے کنارے پہنچیں۔ جہاں بارہ کشتیاں کنارے پر لگی ہوئی تھیں اور ہر ایک کشی میں ایک شہزادہ بیٹھا ہوا تھا۔ شہزادیاں ایک ایک کشتی میں بیٹھ گئیں اور دریا کے بیچ میں جاکر موجوں کا تماشا دیکھنے لگیں۔

    صبح ہوتے ہوتے شہزادیاں واپس آکر سو گئیں۔ بادشاہ نے صبح کو شہزادیوں کے گھومنے کا حال سپاہی سے پوچھا۔ سپاہی نے تفصیل سے تمام جگہیں بتلا دیں اور ثبوت کے طور پر درختوں کی شاخیں اور پیالہ پیش کردیا۔ بادشاہ نے لڑکیوں کوبلاکر پوچھا کہ ’’سپاہی جو کچھ کہہ رہا ہے ٹھیک ہے۔‘‘ لڑکیوں نے کہا ۔’’ہاں سچ ہے۔‘‘

    بادشاہ نے اپنا مقرر کیا ہوا انعام دینے کا اعلان کر دیا۔ سپاہی نے بڑی شہزادی کو پسند کیا۔ اس سے شادی کر دی گئی اور سپاہی کو سلطنت کا ولی عہد بنا دیا گیا۔

  • وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے سامنے کسی ملزم کو پیش کیا گیا اور کوتوال نے بادشاہ سے اجازت طلب کی کہ دربار میں اس کا مقدمہ سنایا جائے۔

    بادشاہ نے مقدمہ سنا اور ملزم کو موت کی سزا سنا دی۔ بادشاہ کا فیصلہ جان کر سپاہیوں نے ملزم کو پکڑا اور دربار سے باہر کی طرف لے کر چلے۔

    ملزم نے باہر جاتے ہوئے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ سچ ہے کہ جان کا خوف بڑا ہوتا ہے۔ کسی شخص کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کرنے کا حکم دیا جا چکا ہو اور وہ سپاہیوں کے نرغے میں مقتل کی طرف جا رہا ہو۔

    ملزم کو سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے کم از کم یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ اس کی بکواس بادشاہ سن لے یا کوئی دوسرا سن کر بادشاہ کو بتا دے تو وہ طیش میں‌ آکر اس کا سَر قلم کروا دے۔ یہ تو اب یوں‌ بھی ہونے ہی والا تھا۔

    بادشاہ نے قیدی کو کچھ کہتے دیکھا تو اس نے ایک وزیر، جو قیدی کے نہایت قریب تھا، سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا تھا؟ بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا۔ اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصّے میں‌ آجائے گا اور ممکن ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو جسمانی تکلیف اور آزار دے۔

    اس رحم دل وزیر نے جواب دیا۔ جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔

    بادشاہ کا ایک اور وزیر بھی دربار میں‌ موجود تھا جو اس رحم دل وزیر کا بڑا مخالف اور ایک تنگ دل انسان تھا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا۔

    یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں۔ اب اس نے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ سچ یہ ہے کہ وہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ اس نے غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہیں کی۔

    وزیر کی یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا۔ اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔

    یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو۔ وہ سچ جو فساد کا سبب ہو، اس سے بہتر نہیں‌ کہ وہ جھوٹ زباں پر آئے جو فساد اور اس کی تباہ کاریوں کا راستہ روک لے۔ حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔

    بادشاہ نے قیدی کو آزاد کرنے کا حکم بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ شاہانِ وقت ہمیشہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر وہ اسے اچھا مشورہ اور بھلی بات کہیں‌ تو یہ سب کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

    یہ حکایت حضرت شیخ‌ سعدیؒ سے منسوب ہے۔ تاہم اس حکایت کے بیان کا مدعا اور مقصود یہ ہے کہ مصلحتا اور نیک نیتی کے ساتھ کسی برائی اور بڑے فساد کو روکنے کے لیے جھوٹ بولا جاسکتا ہے، لیکن پیشِ نظر کوئی اعلیٰ و ارفع مقصد ہو تو اسے معاملہ فہمی اور تدبیر کہا جاسکتا ہے، ورنہ جھوٹ اور دروغ گوئی بدترین فعل ہی ہے۔

  • دو درویش اور دنیا داری

    دو درویش اور دنیا داری

    یہ ایک درویش کا قصہ ہے، ایک بہت پرہیز گار اور نیک انسان کا جنھوں نے خود کو ایک آزمائش میں‌ ڈال لیا تھا، مگر جلد ہی ان پر اپنے کیے کی حقیقت کھل گئی اور انھوں نے خدا کے کاموں میں مصلحت کو سمجھا اور اپنے دنیا میں آنے کا مقصد جان لیا۔

    کہتے ہیں اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ محنت کیے بغیر حلال رزق عطا ہو اور ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔ بزرگ نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے روز کی مشقت سے بچا اور حلال رزق عطا فرما، میں زیادہ عبادت نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ دن کا خاصا وقت معاش کی بھاگ دوڑ میں‌ گزر جاتا ہے۔

    اس رات جب بزرگ سوئے تو خواب میں کسی پہاڑ کے نزدیک جنگل دیکھا جس میں ایک جگہ بہت سے پھل دار درخت تھے، ان کی دعا قبول ہو گئی تھی اور یہ خواب ایک اشارہ تھا۔

    بزرگ نے جنگل جاکر بہت سے پھل توڑ لیے اور گھر لے آئے۔ وہ نہایت میٹھے اور فرحت بخش تھے اور ان کا شکم بھرنے کو بہت تھے۔

    درویش نے محسوس کیا کہ ان پھلوں کو کھانے سے ان کی گفتگو اور لب و لہجے میں بڑی تاثیر اور شیرینی پیدا ہو گئی ہے اور ان کا کلام سن کر لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں‌ اور ان سے بڑی محبت کرنے لگے ہیں۔ اب انھیں چاہنے والے ہر وقت گھیرے رہتے اور یوں ان کو عبادت کا وقت نہ ملتا۔

    بزرگ کے دل میں ایک اور خیال آیا اور انھوں دعا کی کہ اے پروردگار! مجھے وہ انعام عطا فرما جو سب سے پوشیدہ ہو۔ اس دعا کے بعد ان کی قوتِ گویائی جاتی رہی۔

    بزرگ کے دل کو اطمینان ہوا کیوں کہ پہلے ان کی گفتگو سننے کے لیے ہر وقت لوگ ان کے پاس حاضر رہتے تھے، لیکن اس طرح رفتہ رفتہ سب دور ہوگئے اور یوں ان کو عبادت کا زیادہ سے زیادہ موقع ملنے لگا اور قربِ خداوندی میں لطف آنے لگا۔

    اب بزرگ روزی کمانے اور محنت و مشقت کی فکر سے آزاد تھے اور لوگوں سے بھی چھٹکارا مل گیا تھا۔

    بزرگ کے پاس کمائی کے دنوں کا ایک درہم بچا ہوا تھا جسے انھوں نے اپنی آستین میں سی رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ان کا گزر جنگل کے قریب سے ہوا جہاں ایک لکڑہارے کو دیکھا جو بہت تھکا ہوا اور پسینے میں شرابور تھا، بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہ درہم اسے دے دوں؟ مجھے تو اللہ پاک رزق دے رہا ہے، لیکن اس درہم سے یہ لکڑہارا دو چار روز کی مشقت اور روزی کے غم سے بچ جائے گا۔

    جنگل میں ملنے والا وہ لکڑہارا دراصل ایک روشن ضمیر اور متقی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص کرم تھا، بزرگ نے خود یہ واقعہ بتایا کہ اس نے کشف سے میرے دل کی ہر بات جان لی اور غصے سے بھر گیا۔

    اس نے اپنی لکڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور دعا کی یہ سب سونے کی بن جائیں، اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہوش نہ رہا جب حواس بحال ہوئے تو وہ ولی اللہ دعا مانگ رہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری کرامت میری شہرت کا باعث نہ بن جائے، اس لیے ان لکڑیوں کو اپنی اصل حالت پر کر دے۔ اور اس بار بھی اس کی دعا قبول ہوئی، اس مرد نے مجھے دیکھا اور لکڑیاں لاد کر اپنی راہ چل دیا۔

    بزرگ نے کہا کہ میں نے اس واقعے کا بھید پا لیا، قدرت نے مجھے سمجھایا تھا کہ اس کا ایک باقاعدہ نظام ہے جس سے ہٹنا مسائل پیدا کرتا ہے۔ تب سے میں دوبارہ محنت کے ساتھ حلال روزی کی جستجو کرنے لگا اور جو وقت ملتا اس میں خشوع خضوع سے عبادت کرتا۔

    اس حکایت کو حضرت رومی سے منسوب کیا جاتا ہے جو ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ عبادات اور دنیاوی زندگی دونوں‌ میں توازن پیدا کرنا چاہیے اور دین میں فکرِ معاش اور حلال روزی کی کوشش ترک کرنے کو پسند نہیں‌ کیا گیا ہے۔

  • دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    کہتے ہیں کسی شہر سے نزدیک ایک گائوں میں دھوبی رہتا تھا جو قریبی ندی کے کنارے گھاٹ پر کپڑے دھوتا تھا۔ اس کے پاس کہیں سے ایک اچھی نسل کا کتا آگیا جو اسی کے ساتھ رہنے لگا۔ دھوبی صبح سویرے گھاٹ کا رخ کرتا اور کام ختم کر کے ہی لوٹتا۔ یہ اس کا برسوں سے معمول چلا آرہا تھا۔

    وہ کتا بڑا وفادار تھا اور دن رات اس کے گھر کی رکھوالی کرتا۔ جب صبح سویرے دھوبی گھاٹ پر چلا جاتا تو وہ اپنے مالک کی دہلیز پر جیسے اس کی واپسی کی راہ تکتے بیٹھا رہتا۔

    دھوبی کی بیوی روز گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا لیتی اور گھاٹ پر جانے لگتی تب کتا بھی اس کے ساتھ چل پڑتا، بیوی تو کھانا دے کر لوٹ آتی مگر کتا وہیں رک جاتا اور اپنے مالک کے ساتھ لوٹتا۔ یہ اس کی عادت بن گئی تھی۔

    دھوبی کی بیوی کھانا باندھتی تو ایک روٹی کتے کے لیے بھی ساتھ ہی باندھ دیا کرتی تھی کہ گھاٹ پر اس کا شوہر کتے کے آگے ڈال دے گا۔ اسے یقین تھا کہ جب وہ کھانا کھائے گا تو اس وقت کتا بھی تقاضا کرے گا۔

    دھوبی کی بیوی کھانا چھوڑ کر واپس آجاتی اور ادھر وہ بے زبان جانور گھاٹ پر اس انتظار میں رہتا کہ کب مالک روٹی نکالے اور اسے بھی دے۔ دھوبی کام سے فارغ ہو کر کھانا کھاتا، لیکن یہ سوچ کر کتے کو روٹی نہ ڈالتا کہ گھر پر دے دی گئی ہو گی۔

    دھوبی کتے کی بے چینی کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کتا کم زور ہونا شروع ہو گیا اور ایک روز مر گیا۔ گائوں والوں نے بڑا افسوس کیا۔ سب اس کی موت کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔

    ایک روز چند گاؤں والے جمع تھے کہ کتے کا ذکر نکلا کسی نے کچھ پوچھا، کسی نے کچھ، مگر ایک سیانے نے سوال کیا کہ اسے روٹی کتنی ڈالی جاتی تھی؟

    دھوبی نے بیوی کو بلایا کہ بتائو کتے کے آگے روٹی کتنی ڈالتی تھی؟ تب یہ راز کھلا کہ انجانے میں دھوبی سمجھتا رہا کہ گھر اور اس کی بیوی سمجھتی رہی کہ گھاٹ پر کتے کو روٹی مل رہی ہے۔ مگر ماجرا اس کے برعکس تھا۔

    یوں سب اس نتیجے پر پہنچے کہ کتے کی موت کا اصل سبب "بھوک اور فاقہ” ہے۔ تب کسی سیانے نے کہا:

    "یک در گیر و محکم گیر” (ایک در پکڑو اور مضبوط پکڑو) اور یوں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ "دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا”

    ARY News Urdu- انٹرٹینمنٹ، انفوٹینمنٹ میگزین

  • کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    آج ہانز کرسچن اینڈرسن کا یومِ پیدائش ہے اور اسی مناسبت سے دنیا ہر سال 2 اپریل کو بچوں کی کتب کا عالمی دن بھی مناتی ہے۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا ایک عظیم لکھاری اور ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔

    اس کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے۔ 1805 میں پیدا ہونے والے اینڈریسن نے غربت اور تنگ دستی دیکھی تھی اور ایک روز والد کا سایہ بھی سَر سے اٹھ گیا۔ وہ دس سال کا تھا جب معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    اینڈرسن اسکول میں چند ہی جماعتیں ہی پڑھ سکا تھا، مگر جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن کے تخلیقی جوہر اور اس کی صلاحیتوں کو بھانپ کر اس کے ایک محسن نے اسے کہانیاں لکھنے پر آمادہ کر لیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس کا یہ فیصلہ درست تھا۔

    اس نے بچوں اور بڑوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔ اس کی کہانیاں دل چسپ، بامقصد اور سبق آموز تھیں جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کے بارے میں‌ نہایت خوب صورتی سے کہانیاں تخلیق کیں جن میں اسنوکوئن، اگلی ڈکلنگ، ماچس فروش اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس لکھاری کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کے قلم کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے دنیا نے اس کے یومِ پیدائش پر بچوں کی کتب کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔ تاہم کرونا کی وبا کے باعث اس سال کہیں بھی اجتماع اور کتب میلوں کا انعقاد نہیں‌ کیا جاسکا ہے۔ ماضی میں اس دن کی مناسبت سے میلے اور دیگر تقاریب منعقد کی جاتی رہی ہیں۔

    آج زمانہ بدل چکا ہے، اور اب کتب بینی کا رجحان کم ہو رہا ہے یا مطالعے کے لیے برقی آلات کا سہارا لیا جارہا ہے، لیکن اس دور میں بھی کتب اور مختلف رسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید آلات اوراقِ رسائل اور کتابوں کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتے۔ ان کی اپنی اہمیت اور افادیت ضرور ہے، لیکن ہمیں اپنے مستقبل کو زیادہ باشعور، کارآمد اور مفید انسان بنانے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کے بہترین طریقے اپنانے کی ضرورت ہے اور کتابوں کو اس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

    دنیا بھر میں دانش وروں اور نابغہ روزگار شخصیات کا اصرار ہے کہ بچوں کی کردار سازی اور ان کی تعلیم و تربیت میں معیاری کہانیاں اور معلوماتی کتب بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    والدین کو چاہیے کہ وہ اسمارٹ فونز اور دیگر آلات کے غیر ضروری اور خاص طور پر بے مقصد استعمال کے نقصانات کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کو کتب بینی پر آمادہ کریں اور اس دن کی مناسبت سے بچوں کو دل چسپ انداز اور عام فہم انداز سے کتابوں کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کریں۔

    پاکستان میں چند دہائیوں قبل تک بچوں کے جرائد کی اشاعت اور مختلف رسالوں میں ان کے لیے گوشہ مخصوص ہوتا تھا جس کا ہر گھر میں‌ بچے بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔ یہ سب نونہالانِ وطن کی اخلاقی اور فکری تربیت، کردار سازی اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا اہم ذریعہ ہے جن کے قارئین کی تعداد کم ہوچکی ہے اور کئی ماہ نامے اور مختلف رسائل بند ہو چکے ہیں جو نہایت افسوس ناک اور قابلِ توجہ مسئلہ ہے۔