Tag: بچہ

  • بچپن میں سر پر لگنے والی چوٹ بعد میں دماغی مسائل کا سبب

    بچپن میں سر پر لگنے والی چوٹ بعد میں دماغی مسائل کا سبب

    کھیل کود کے دوران بچوں کو مختلف چوٹیں لگ جانا عام بات ہے جو کچھ دن بعد مندمل ہوجاتی ہیں، تاہم بعض چوٹوں کا اثر ساری زندگی نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ مختلف مسائل پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

    اسی سلسلے میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں ماہرین نے بتایا کہ بچوں کو بچپن میں دماغ پر لگنے والی چوٹیں اور ضربیں ایک دہائی بعد مختلف دماغی مسائل کا سبب بن سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: جلدی سونے والے بچے ڈپریشن سے محفوظ

    ماہرین کے مطابق یہ چوٹیں نوجوانی میں بے چینی (اینگزائٹی)، ڈپریشن اور مختلف اقسام کے خوف (فوبیا) پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

    آسٹریلیا میں کی جانے والی اس تحقیق کی سربراہ مشیل کا کہنا ہے کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ دماغ پر لگنے والی چوٹوں کا اثر کچھ عرصہ تک باقی رہتا ہے، تاہم حالیہ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ یہ اثرات طویل المدتی اور دیرپا ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس کا دار و مدار اس چوٹ پر بھی ہے جس نے دماغ کو متاثر کیا۔ چوٹ جتنی زیادہ شدید ہوگی، بعد میں پیدا ہونے والے مسائل بھی اتنے ہی شدید ہوں گے۔ کم شدت کی چوٹوں کے اثرات آسانی سے کنٹرول کیے جانے کے قابل ہوں گے۔

    دوسری جانب نیوزی لینڈ میں دماغی صحت پر کام کرنے والے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والے مریضوں میں سے 90 فیصد افراد بچپن میں کسی جسمانی حادثے کا شکار ہوئے ہوتے ہیں جس نے ان کے دماغ کو بری طرح متاثر کیا ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن میں لگنے والی شدید چوٹ دماغی امراض کے امکان میں 5 گنا اضافہ کردیتی ہے، بہ نسبت ان کے جنہیں بچپن میں کوئی شدید چوٹ نہیں لگتی۔

    ماہرین کے مطابق اس چوٹ کے باعث جو دماغی امراض جنم لے سکتے ہیں ان میں خوف، گھبراہٹ یا بے چینی کا ڈس آرڈر، کسی چیز کا فوبیا اور ڈپریشن شامل ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    بچوں کی تربیت ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے جو نرمی اور سختی دونوں کی متقاضی ہے۔ تاہم حال ہی میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ والدین کے 2 قسم کے ’شدت پسندانہ‘ رویے بچوں میں نفسیاتی مسائل جنم دے سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق نارویجیئن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام کی گئی۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے جیلوں میں بند خطرناک جرائم میں ملوث قیدیوں کا طبی و نفسیاتی معائنہ کیا۔ ان مجرمان کو خطرناک ترین قرار دے کر سخت سیکیورٹی میں رکھا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    ماہرین نے ان قیدیوں کے ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق کے دوران انہوں نے دیکھا کہ ان تمام مجرمان کے ماضی میں ایک بات مشترک تھی۔ یہ تمام لوگ یا تو والدین کی مکمل طور پر غفلت کا شکار تھے، یا پھر والدین کا رویہ ان کے ساتھ نہایت سختی اور ہر معاملے میں نگرانی اور روک ٹوک کا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ دونوں رویے بچوں کو تشدد پسندانہ خیالات اور رویوں کا مالک بنا سکتے ہیں جو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور ایک عام زندگی کو متاثر کر سکتا ہے۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ یہ مجرمان اپنے بچپن میں جسمانی یا نفسیاتی طور پر تشدد کا شکار بھی ہوئے۔

    مذکورہ تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر اینا گل ہیگن کا کہنا ہے، ’یہ افراد اپنے نگرانوں (والدین یا سرپرست) کے ہاتھوں جسمانی و ذہنی طور پر زخمی ہوئے‘۔ ان کے مطابق بچپن گزرنے کے بعد ان لوگوں کے اندر ابھرنے والا تشدد پسند اور مجرمانہ رویہ انہی زخموں کا ردعمل تھا۔

    ان کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کو بالکل نظر انداز کرنا، ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا اور یہ سوچنا کہ بچے خود ہی اپنی زندگی گزار لیں گے، یا والدین کا ہر بات پر روک ٹوک کرنا، ہر معاملے میں بچوں سے سختی سے پیش آنا اور بچوں کی مرضی اور پسند نا پسند کو بالکل مسترد کردینا، یہ 2 ایسے رویے ہیں جو بچوں کو بالآخر نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق والدین کو درمیان کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے، بچوں پر سختی بھی رکھنی چاہیئے اور ان کی پسند نا پسند کو اہمیت دیتے ہوئے ان کی بات بھی ماننی چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: باپ سے قربت بچوں کی ذہنی نشونما میں اضافے کا سبب

    ڈاکٹر اینا کا کہنا تھا کہ وہ اس تحقیق کے لیے جتنے بھی مجرمان سے ملیں وہ یا تو اپنے بچپن میں اپنے والدین کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیے گئے، یا پھر انہوں نے بے تحاشہ سختی اور درشتی برداشت کی اور انہیں اپنی پسند کا کوئی کام کرنے کی اجازت نہ تھی۔

    ماہرین کے مطابق کسی شخص کو مجرم بنانے میں حالات و واقعات کا بھی ہاتھ ہوتا ہے تاہم اس میں سب سے بڑا کردار والدین کی تربیت اور ان کے رویوں کا ہوتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پہلی اولاد دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین

    پہلی اولاد دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین

    کیا آپ کو لگتا ہے دنیا میں ہر نیا آنے والا بچہ پہلے آنے والے بچے کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور تیز طرار ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس غلط فہمی کو اب دور کرلینے کی ضرورت ہے کیونکہ ماہرین نے تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ والدین کا پہلا بچہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتا ہے۔

    اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ایڈن برگ میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق چونکہ کسی بھی جوڑے کا پہلا بچہ اپنے والدین کی تمام تر توجہ، نگہداشت اور دھیان پانے میں کامیاب رہتا ہے لہٰذا اس کی سطح ذہانت اپنے دیگر بہن بھائیوں کی نسبت بلند ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    یوں تو والدین اپنی تمام اولادوں کو یکساں توجہ اور شفقت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم تحقیق کے لیے کیے جانے والے سروے میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے ان کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے لاشعوری طور پر بچوں کے لیے ان کی توجہ کے لیے کمی آتی جاتی ہے۔

    پہلی بار والدین بننا چونکہ ان کے لیے نیا تجربہ ہوتا ہے لہٰذا وہ پہلے بچے کا حد سے زیادہ دھیان اور خیال رکھتے ہیں، اور معمولی معمولی مسائل پر بھی بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔

    آہستہ آہستہ دیگر بچوں کے ساتھ ان کا رویہ معمول کے مطابق ہوجاتا ہے اور وہ ان کا خیال تو رکھتے ہیں، مگر وہ غیر معمولی حد تک نہیں ہوتا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    والدین کی یہی اضافہ توجہ بڑے بچوں کو ذہین اور باصلاحیت بنا دیتی ہے۔

    ماہرین نے اس سے پہلے بھی اسی سلسلے کی ایک تحقیق میں آگاہ کیا تھا کہ اپنے والدین کے پہلے بچے زندگی میں نہایت کامیاب ثابت ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے امکانات اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

    بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

    کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر نئی آنے والی نسل پچھلی نسل سے زیادہ ذہین ہوتی ہے۔ ایک ہی گھر میں موجود بچوں میں سے بھی چھوٹا بچہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ چالاک اور سمجھدار ہوتا ہے۔

    ایسی ہی کچھ کہانی ہالی ووڈ کی نئی اینی میٹد فلم ’دا باس بے بی‘ کی ہے جس کا ایک اور ٹریلر جاری کردیا گیا ہے۔

    فلم ایک 7 سالہ بچے کی کہانی ہے جس کے ماں باپ ایک ننھا بچہ گود لیتے ہیں۔

    baby-7

    سوٹ بوٹ میں ملبوس یہ بچہ نہ صرف اپنے ساتھ بریف کیس لیے گھومتا ہے بلکہ بہت تیزی سے باتیں بھی کرتا ہے اور اپنے آپ کو کسی باس سے کم نہیں سمجھتا ہے۔

    baby-6

    baby-2

    یہ اپنے آس پاس موجود بچوں کو جمع کر کے انہیں احساس دلاتا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور انہیں اپنی زندگی بدلنے کے لیے کچھ کرنا چاہیئے۔

    baby-5

    ٹریلر میں فلم کی کہانی اور فطری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت دلچسپ مناظر تخلیق کیے گئے ہیں۔

    جیسے ایک منظر میں باس بے بی اپنی سیکریٹری (ایک اور ننھی بچی) کو میٹنگ کے پوائنٹس دوبارہ پڑھنے کو کہتا ہے۔ لیکن جب وہ بچی اپنا لکھا ہوا اسے دکھاتی ہے تو وہ آڑی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ اتنی چھوٹی بچی کچھ پڑھ یا لکھ ہی نہیں سکتی۔

    baby-3

    اسی طرح ایک منظر میں باس دوسرے بچوں سے پوچھتا ہے کہ انہوں نے اب تک اپنی زندگی میں کیا سیکھا تو وہ جواب دیتے ہیں، ’اے بی سی ڈی‘۔

    baby-4

    فلم کے ہدایتکار ٹام مک گریتھ ہیں جو اس سے پہلے اینی میٹد سیریز مڈغاسکر اور شرک کا تیسرا حصہ تخلیق کر چکے ہیں۔

    فلم دا باس بے بی 31 مارچ کو سینما گھروں کی زینت بنے گی۔

  • خشک لیکچر سے اکتائے ہوئے بچے کی انوکھی مصروفیت

    خشک لیکچر سے اکتائے ہوئے بچے کی انوکھی مصروفیت

    آپ نے اکثر فلموں، ڈراموں یا عام زندگی میں بھی دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات بچے پڑھائی سے اکتا جاتے ہیں جس کے باعث وہ کلاس میں دھیان نہیں دے پاتے۔

    کلاس میں لیکچر کے دوران وہ عجیب و غریب کام سر انجام دینے لگتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق یا باتیں کرتے ہیں جس سے استاد الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے بچے خاموشی سے اپنی کوئی پسندیدہ سرگرمی سر انجام دینے لگتے ہیں۔

    ایسا ہی کچھ کام اس بچے نے انجام دیا جو چین کے کسی اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ کلاس میں لیکچر سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب اس نے استاد سے چھپ کر ننھے ننھے مجسمے تخلیق کر ڈالے۔

    kid-6

    kid-5

    kid-4

    اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ مجسمے ربر ڈسٹ سے بنائے گئے ہیں۔ یعنی ان کے لیے ربڑ کو رگڑ کر اس کا برادہ بنایا گیا اور ان سے یہ مجسمے بنائے گئے۔

    kid-3

    kid-2

    اب کلاس میں لیکچر کے دوران اس مصور بچے کو رنگ، برش یا پتھر کہاں سے میسر آتے، چنانچہ اسے جو دستیاب تھا اس نے ان ہی سے اپنی شاندار صلاحیت کا نمونہ تخلیق کر ڈالا۔

  • شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایک جنگ زدہ علاقہ میں، جہاں آسمان سے ہر وقت موت برستی ہو، کھانے کے لیے اپنوں کی جدائی کا جان لیوا غم اور پینے کے لیے صرف خون دل میسر ہو، وہاں بچوں کو کھیلنے کے لیے، اگر وہ جنگ کے ہولناک اثرات میں دماغی طور پر اس قابل رہ جائیں، بھلا تباہ شدہ عمارتوں کی مٹی اور پتھر کے علاوہ اور کیا میسر ہوگا؟

    جنگ زدہ علاقوں میں جہاں اولین ترجیح اپنی جان بچانا، اور دوسری ترجیح اپنے اور اپنے بچے کھچے خاندان کے پیٹ بھرنے کے لیے کسی شے کی تلاش ہو وہاں کس کو خیال آئے گا کہ بچوں کی معصومیت ابھی کچھ باقی ہے اور انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے درکار ہیں۔

    یقیناً کسی کو بھی نہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    تب مشرق کے سورج کی طرح ابھرتا دور سے آتا ’کھلونا اسمگلر‘ ہی ان بچوں کی خوشی کا واحد ذریعہ بن جاتا ہے جو سرحد پار سے ان کے لیے کھلونے ’اسمگل‘ کر کے لاتا ہے۔

    toy-2

    بچوں میں ’ٹوائے انکل‘ کے نام سے مشہور یہ اسمگلر دراصل 44 سالہ رامی ادھم ہے جو فن لینڈ کا رہائشی ہے لیکن اس کی جڑیں یہیں جنگ زدہ علاقوں میں مٹی کا ڈھیر بنی عمارتوں کے نیچے کہیں موجود ہیں، تب ہی تو یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک طریقے سے سرحد عبور کر کے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے آتا ہے۔

    toy-6

    سنہ 1989 میں اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے فن لینڈ کا سفر اختیار کرنے والے 44 سالہ رامی کا بچپن حلب کی ان ہی گلیوں میں گزرا جو اب اپنے اور بیگانوں کی وحشیانہ بمباری کا شکار ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’جب بچے مجھے آتا دیکھتے ہیں تو دور ہی سے ’ٹوائے انکل‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ میری آمد کی خبر لمحوں میں یہاں سے وہاں تک پھیل جاتی ہے اور جب میں تباہ حال شہر کے مرکز میں پہنچتا ہوں تو سینکڑوں بچے چہروں پر اشتیاق سجائے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے سبز بیگ میں سے کھلونے نکال کر بچوں میں تقسیم کرتا ہے اس وقت ان بچوں کی خوشی ناقابل بیان ہوتی ہے۔

    toy-3

    رامی ان کھلونوں کے لیے فن لینڈ میں عطیات جمع کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے ان کے بچوں کے پرانے کھلونے دینے کی بھی اپیل کرتا ہے۔ پچھلے 2 سال سے چونکہ شام کی سرحد کو بند کیا جاچکا ہے لہٰذا وہ قانونی طریقہ سے شام تک نہیں جاسکتا اور مجبوراً اسے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

    لیکن یہ اسمگلنگ ایسی ہے جو غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی غیر انسانی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک زندہ سلامت ہے اور کامیابی سے اس اسمگلنگ کو  جاری رکھے ہوئے ہے۔ رامی کے مطابق فن لینڈ اور ترکی میں اس کے کچھ واقف کار ہیں جو اسے بحفاظت سرحد پار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ اسے ’جوائے اسمگلر‘ یعنی خوشی کے اسمگلر کا نام دیتے ہیں۔

    toy-4

    پچھلے 5 سال سے جاری شام کی خانہ جنگی کے دوران رامی 28 مرتبہ بڑے بڑے تھیلوں میں بچوں کے لیے خوشی بھر کر لاتا ہے۔ اس دوران اسے 6 سے  7 گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کئی بار اس کے شام میں قیام کے دوران جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں جن کے دوران اسے گولیوں سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا اور چھپنا بھی پڑتا ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’شام کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان پر ٹوٹنے والے اس عذاب میں ساری دنیا شامل ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکے ہیں‘۔

    رامی نے فن لینڈ میں ایک ’گو فنڈ می‘ نامی مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ شام میں اسکول قائم کرنے کے لیے عطیات جمع کر رہا ہے۔ وہ یہ اسکول جنگ و جدل سے دور ترکی کی سرحد کے قریب بنانا چاہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ دورے میں وہ ایک اسکول کا بنیادی ڈھانچہ قائم کرچکا ہے۔

    toy-5

    اس رقم سے وہ اب تک حلب کے 4 اسکولوں کی بھی امداد کر چکا ہے جو مختلف تباہ شدہ عمارتوں اور سڑکوں پر قائم ہیں۔

    شامی نژاد رامی خود بھی 6 بچوں کا باپ ہے اور اس کا عزم ہے کہ جب تک شامی بچوں کو اس کی ضرورت ہے وہ ان کے لیے یہاں آتا رہے گا۔ ’میں اپنے مشن سے کبھی نہیں رکوں گا، نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی 5 سالہ خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 15 ہزار کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ شام اور عراق میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جنگی علاقوں میں محصور ہیں اور تعلیم و صحت کے بنیادی حقوق سے محروم اور بچپن ہی سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔

  • بچوں کے اغوا پر مبنی ہالی ووڈ فلم ’کڈنیپ‘ کا ٹریلر جاری

    بچوں کے اغوا پر مبنی ہالی ووڈ فلم ’کڈنیپ‘ کا ٹریلر جاری

    بچوں کے اغوا پر مبنی ہالی ووڈ فلم ’کڈنیپ‘ کا پہلا ٹریلر جاری کردیا گیا۔ فلم لوئیس پریٹو کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے۔

    فلم کی کہانی ایک پریشان ماں کارلا کے گرد گھومتی ہے جو اپنے بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہوتی ہے۔ ایک دن اچانک پارک میں کھیلتے ہوئے اس کا بیٹا فرینکی غائب ہوجاتا ہے۔

    t4

    کارلا ایک اجنبی شخص کو دیکھتی ہے جو فرینکی کو اپنے ساتھ زبردستی لے کر جارہا ہوتا ہے۔

    کارلا پولیس اسٹیشن میں اغوا کی رپورٹ درج کروانے جاتی ہے جہاں وہ دیکھتی ہے کہ پہلے ہی سے کئی لاپتہ بچوں کے کیسز حل طلب ہیں اور اس کے بعد کارلا اپنے طور پر اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش کرتی ہے۔

    وہ اغوا کار کا پیچھا کرتی ہے اور اپنے بیٹے کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرتی ہے۔

    t-5

    ٹریلر سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم میں بچوں کے اغوا کے سنگین مسئلہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بچوں کا اغوا ایک خطرناک عمل ہے جس میں بچوں کو اغوا کر کے انہیں مختلف منفی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    ایک رپورٹ میں دنیا بھر میں سالانہ 8 لاکھ بچے لاپتہ ہوجاتے ہیں۔

    اغوا کی وارداتوں میں اضافہ، اپنے بچوں کو محفوظ رکھیں *

    اقوام متحدہ کے مطابق رواں برس کے صرف 7 ماہ میں جنوبی سوڈان میں دہشت گرد گروہوں نے 16 ہزار بچوں کو اغوا کیا۔ ان بچوں کو جبراً دہشت گرد گروہوں میں بھرتی کرکے ان سے مختلف مجرمانہ کارروائیاں کروائی گئیں۔

    سنہ 2015 میں نائجیریا کی شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے اسکول کی 300 لڑکیوں کو اغوا کر کے یرغمال بنالیا۔ یہ لڑکیاں تاحال بوکو حرام کی قید میں ہیں اور ان کے لیے جنسی غلام کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔

    حال ہی پاکستان کے شہر لاہور میں بھی بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا اور رواں برس کے صرف 6 ماہ میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے 652 بچوں کے اغوا ہونے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی۔

    فلم ’کڈنیپ‘ میں مرکزی کردار ہیلے بیری نے جبکہ بچے کا کردار ساگا کوریئا نے ادا کیا ہے۔ فلم ہسپانوی ڈائریکٹر لوئیس پریٹو کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے۔

    t2

    t-1

    ہالی ووڈ تھرلنگ فلم 2 دسمبر کو سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔

  • غریب اور امیر بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال میں فرق

    غریب اور امیر بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال میں فرق

    دنیا کی تیز رفتار ترقی کے بعد انٹرنیٹ کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ تقریباً ہر شخص اپنے دن کا آدھا حصہ انٹرنیٹ پر گزارتا ہے۔ حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق امیر اور غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے الگ طرح سے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔

    ایک بین الاقوامی ادارے او سی ای ڈی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں امیر اور غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے انٹرنیٹ کو مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    teen-2

    تحقیق کے مطابق وہ بچے جو خوشحال اور آسودہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر خبریں پڑھتے ہیں اور ایسی چیزیں سرچ کرتے ہیں جس سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔

    اس کے برعکس کم خوشحال یا غریب گھرانوں کے بچوں نے اپنا زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گیم کھیلتے اور دوستوں سے چیٹنگ کرتے ہوئے گزارا۔

    آن لائن گیمز بچوں کی تعلیمی استعداد بڑھانے میں معاون *

    تحقیق میں واضح کیا گیا کہ تجزیہ کیے جانے والے بچوں کو یکساں سہولت کے ساتھ انٹرنیٹ فراہم تھا۔ یہی نہیں ان کا انٹرنیٹ پر گزارا جانے والا وقت بھی یکساں تھا۔

    تحقیق سے پتہ چلا کہ امیر گھرانے کے بچوں نے اپنے سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے، اپنے اسکول کے مختلف پروجیکٹس کی تکمیل کے لیے، اور پڑھائی میں پیش آنے والی مختلف مشکلات حل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی مدد لی۔

    teen-3

    ماہرین کے مطابق یہ وہ عمل ہے جس سے ان بچوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا اور وہ اپنی پڑھائی اور دیگر معاملوں میں بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل ہوئے۔ یہ وجوہات آگے چل کر ان کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔

    سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب *

    دوسری جانب غریب بچوں نے معلومات کے حصول کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کم کیا۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر بے مقصد چیزوں میں وقت ضائع کیا جس کے باعث ان کی صحت، ذہنی توجہ متاثر ہوئی اور پڑھائی کے دوران ان کی کارکردگی میں کمی دیکھنے میں آئی۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ عادت آگے چل کر خاص طور پر نوکری کے حصول کے لیے ان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔

  • پیانو بجانے کا ماہر 5 سالہ ننھا فنکار

    پیانو بجانے کا ماہر 5 سالہ ننھا فنکار

    آپ نے بے شمار باصلاحیت فنکاروں کو دیکھا ہوگا جو گٹار، پیانو یا کوئی اور آلہ موسیقی بجانے کی شاندار صلاحیت رکھتا ہوگا۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک پیانسٹ سے ملواتے ہیں جس کی عمر صرف 5 سال ہے۔

    piano-4

    ایوان لے امریکی شہر کیلیفورنیا میں رہائش پذیر ہے۔ وہ حیران کن صلاحیتوں کا مالک بچہ ہے۔ ابتدا میں جب وہ کوئی اچھی دھن سنتا تو ایک بار سننے کے بعد ہی وہ اسے یاد ہوجاتی اور وہ اسے گنگنانے لگتا۔

    piano-3

    صرف 3 سال کی عمر میں اس نے پیانو بھی بجانا شروع کردیا اور پیانو پر اپنی پسندیدہ دھنیں بجا کر سب کو حیران کردیا۔

    اس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس کے والدین نے اسے باقاعدہ پیانو بجانے کی تربیت دلوانی شروع کی اور 5 سال کی عمر میں وہ خود اپنی موسیقی تخلیق کرنے لگا۔

    ایوان اب تک کئی ٹی وی پروگرامز میں پرفارم کرچکا ہے۔ پیانو پر اس کی ننھی ننھی انگلیاں اس قدر ماہرانہ انداز میں حرکت کرتی ہیں کہ سب ہی دنگ رہ جاتے ہیں۔