Tag: بچہ

  • اے آر وائی کی خبر کا اثر، جوتے پالش کرنے والے بچے کی سن لی گئی

    اے آر وائی کی خبر کا اثر، جوتے پالش کرنے والے بچے کی سن لی گئی

    کوئٹہ: اے آر وائی نیوز کی خبر کا اثر سامنے آگیا، کوئٹہ کی برف باری میں جوتے پالش کرنے والے بچے اسد اللہ کی سن لی گئی، وزیراعظم کی ہدایت پر بیت المال کی ٹیم بچے کے گھر پہنچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت پر بیت المال کا عملہ جوتے پالش کرنے والے بچے اسداللہ کے گھر پہنچا اور والد کو اپنے دفتر لے گیا۔ والد کا کہنا ہے کہ بیت المال کے عملے نے مالی معاونت کی یقین دہانی کروائی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بیت المال اور حکومت بلوچستان کا شکر گزار ہوں، گزشتہ روز حکومت بلوچستان نے نقد رقم اور راشن بھی فراہم کیا تھا۔ خیال رہے کہ معصوم اسد بہن بھائیوں اور والدین کا پیٹ پالنے کے لیے جوتے پالش کرتا ہے۔

    کوئٹہ، برفباری میں بوٹ پالش کرنے والے بچے کو شہریوں نے ڈھونڈ لیا

    خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی محنت کش بچے سے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ملاقات ہوئی تھی، وزیراعلیٰ بلوچستان نے محنت کش بچے کی مالی امداد کی۔ ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق بچے کو گرم کپڑے، ایک ماہ کا راشن بھی فراہم کیا گیا۔

    یاد رہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں شدید سردی کی لہر جاری ہے ایسے میں شدید برفباری کے دوران روزگار کمانے کے لیے باہر نکلے ہوئے ننھے بچے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

  • موڈ خراب ہونے پر ٹیچر کا ننھے بچوں سے انسانیت سوز سلوک

    موڈ خراب ہونے پر ٹیچر کا ننھے بچوں سے انسانیت سوز سلوک

    چین کے ایک کنڈر گارڈن میں ایک ٹیچر کو، ننھے بچے کو بالوں سے پکڑ کر جگانے اور زمین پر پٹخنے کے بعد پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    یہ افسوسناک واقعہ جنوبی چین میں واقع ایک کنڈر گارڈن میں پیش آیا۔ ٹیچر کی بے رحمی سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوگئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نے سوتے ہوئے بچے کو جھنجھوڑ کر اٹھایا اور زمین پر پٹخ دیا۔

    ٹیچر کی بے رحمی اس وقت سامنے آئی جب ماں نے بچے کے سر اور جسم پر زخموں کے نشان دیکھے اور کنڈر گارڈن کی انتطامیہ سے اس کی شکایت کی۔ ماں نے ان سے سی سی ٹی وی فوٹیج دکھانے کا مطالبہ بھی کیا۔

    ماں کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد بچے نے مستقل سر درد کی شکایت بھی کی جس کے بعد اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔

    مذکورہ ماں کی شکایت کے بعد دیگر والدین نے بھی شکایت کی کہ ان کے بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ والدین کی شکایت کے بعد جب انتظامیہ نے مزید فوٹیجز چیک کیں تو اس نوعیت کے مزید واقعات کے بارے میں علم ہوا۔

    ایک فوٹیج میں دیکھا گیا کہ ایک ٹیچر نے بچے کو سزا کے طور پر کئی گھنٹے تک بیڈ پر کھڑا رکھا۔ ایک اور ویڈیو میں ٹیچر نے سوتے ہوئے بچوں کو مار کر جگایا اور اس دوران اس نے لوہے کے اسکیل کا استعمال کیا جس سے بچوں کے سر پر مارا۔

    کنڈر گارڈن کی دوسری ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بچے کو پٹخنے والی ٹیچر یوں تو ایک خوش مزاج خاتون ہیں تاہم اس دن ان کا موڈ خراب تھا۔

    پولیس نے مذکورہ ٹیچر کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی ہے۔

  • محبوب کی شادی رکوانے کے لیے خاتون نے رشتے دار بچہ مشین میں ڈال کر قتل کردیا

    محبوب کی شادی رکوانے کے لیے خاتون نے رشتے دار بچہ مشین میں ڈال کر قتل کردیا

    نئی دہلی: بھارتی پنجاب میں ایک خاتون نے اپنے سابق محبوب کی شادی رکوانے کے لیے اس کا رشتہ دار بچہ واشنگ مشین میں ڈال کر قتل کردیا۔

    بھارتی پنجاب میں پیش آنے والے اس ہولناک واقعے میں ابتدائی طور پر پولیس کو بچے کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی۔ پولیس کو بتایا گیا کہ مذکورہ بچہ ادھیراج اپنی والدہ اور بڑے بھائی کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کے گھر آیا تھا جہاں 22 دسمبر کو اس کے انکل کی شادی ہونے والی تھی۔

    اہلخانہ کو بچے کی غیر موجودگی کا احساس ہوا تو انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے مذکورہ علاقے کی سیکیورٹی فوٹیج چیک کی تو علم ہوا کہ شادی کے ہنگاموں میں بچہ اپنے بھائی اور ایک اور چھوٹی بچی کے ساتھ پڑوس میں چلا گیا تھا۔

    فوٹیج سے یہ بھی پتہ چلا کہ پڑوسی کے گھر کے اندر جانے والے بچے 3 تھے، تاہم واپس آنے والے بچے صرف 2 تھے۔ پڑوس میں ایک اکیلی خاتون کافی عرصے سے رہائش پذیر تھیں۔

    پولیس نے فوری طور پر مذکورہ مکان پر چھاپہ مارا جہاں تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے واشنگ مشین میں کپڑوں کے ڈھیر کے نیچے سے بچے کا مردہ جسم برآمد کرلیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ادھیراج کا وہ انکل جو جلد شادی کے بندھن میں بندھنے والا تھا، پڑوسی خاتون کا سابق محبوب تھا اور اس کی شادی رکوانے کے لیے خاتون نے یہ مذموم حرکت کی۔

    ملزمہ نے پولیس کی حراست میں اعتراف کیا کہ اس نے بچے کو مشین میں ڈالا، اس کا ڈھکن بند کیا اور مشین چلا دی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ پر قتل کی دفعات عائد کی گئی ہیں اور جلد اسے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

  • بچے کی عمر کا پہلا سال والدین کے لڑائی جھگڑوں کی نذر

    بچے کی عمر کا پہلا سال والدین کے لڑائی جھگڑوں کی نذر

    والدین بننا زندگی میں تبدیلیاں لانے والا عمل ہے جو ساتھ ہی والدین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کردیتا ہے۔ تاہم اکثر والدین اس ذمہ داری کو سنبھالنے میں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    حال ہی میں ایک سروے سے علم ہوا کہ بچے کی پیدائش کا پہلا سال والدین کے لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوجاتا ہے۔

    امریکا میں کیے جانے والے اس سروے کے لیے 2 ہزار والدین کا جائزہ لیا گیا جس میں دیکھا گیا والدین ایک دن میں کم از کم 7 باتوں پر اختلاف کرتے ہیں جس کا اختتام چھوٹی یا بڑی لڑائی پر ہوتا ہے۔

    یہ اختلافات بچے کی پرورش، اس کی دیکھ بھال اور بچے کے حوالے سے دیگر امور پر ہوتے ہیں۔

    والدین کے درمیان اس بات پر بھی لڑائی ہوتی ہے کہ دونوں میں سے کون زیادہ تھکا ہوا ہے اور رات کے وقت کون بچے کے لیے جاگے گا۔ دونوں کے درمیان گھریلو کام بھی لڑائی کی وجہ بنتے ہیں۔

    سروے میں دیکھا گیا کہ ایسا جوڑا جو بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے پر یقین رکھتا ہے وہ بھی اس ایک سال کے دوران غلط فہمیوں اور لڑائی جھگڑوں سے نہیں بچ سکتا۔

    ماہرین کے مطابق بچے کی عمر کے پہلے سال میں والدین مسلسل دیکھ بھال کی وجہ سے نیند کی کمی کا شکار بھی ہوتے ہیں اور یوں وہ چڑچڑے ہو کر ذرا ذرا سی بات پر آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔

    سروے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اکثر والدین کو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بچے کی پیدائش میں جلد بازی کی اور انہیں مزید وقت لینا چاہیئے تھا، 10 میں سے 4 والدین کا خیال ہوتا ہے کہ انہیں والدین بننے سے قبل مزید تیاری کرنی چاہیئے تھی۔

  • پرخطر سفر پر جانے والی ننھی شہزادیوں کی کہانی

    پرخطر سفر پر جانے والی ننھی شہزادیوں کی کہانی

    ہم نے اپنے بچپن میں شہزادوں اور بہادر افراد کی کہانیاں سنی ہیں جو پر خطر سفر پر جاتے ہیں، جانوروں اور بلاؤں سے لڑتے ہیں اور کامیاب اور کامران واپس لوٹتے ہیں۔

    لیکن ایسی تمام کہانیاں مردوں کے گرد گھومتی ہیں، ایسی کہانیوں میں لڑکیوں یا بچیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ ایک امریکی مصنفہ ڈی کے ایکرمین نے بچوں کے لیے ایسی کتاب لکھی ہے جو بہادر شہزادوں کے بجائے بہادر شہزادیوں کے گرد گھومتی ہے۔

    پرنسز پائریٹس یعنی قذاق شہزادیاں نامی یہ رنگ برنگی کتاب 3 شہزادیوں کے گرد گھومتی ہے جو ایک ایڈونچر پر جاتی ہیں۔

    اس کتاب کی مصنفہ ایکرمین کہتی ہیں کہ اب تک بچیوں کے بارے میں یہ پیش کیا جاتا رہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کیا کرتی ہیں۔ کئی بچیاں ایسے کھیل کھیلتی ہیں جن کے بارے میں مخصوص ہے کہ وہ صرف لڑکے ہی کھیل سکتے ہیں۔

    وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے کہ لڑکیاں بھی بہادر ہوسکتی ہیں اور مشکل ترین کام سرانجام دے سکتی ہیں۔

    اس کتاب کی شہزادیاں ہر فن مولا ہیں، وہ جنگل بھی پار کرتی ہیں، خطرناک جانوروں کا بھی مقابلہ کرتی ہیں تو دوسری طرف انہیں رقص کرنا اور خوبصورت لباس پہننا بھی پسند ہے یعنی ان کی کوئی حد نہیں۔

    ایکرمین کہتی ہیں کہ یہ کتاب چھوٹے بچوں کے پڑھنے کے لیے بھی ضروری ہے جو مخصوص کہانیاں پڑھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ لڑکیاں بہادر نہیں ہوسکتیں، ’صنفی تعصب اسی بچپن سے جنم لیتا ہے جو تاعمر ساتھ رہتا ہے‘۔

    مصنفہ نے اس کتاب کو بہت سی ماؤں کو پڑھوایا، جسے پڑھ کر کئی ماؤں نے کہا کہ وہ بھی بچپن میں ان شہزادیوں جیسے ہی کھیل کھیلا کرتی تھیں لیکن انہیں لگتا تھا کہ وہ کچھ عجیب کر رہی ہیں۔

    ایکرمین نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے یہ پروجیکٹ کک اسٹارٹر پر پوسٹ کیا، ان کا خیال تھا کہ انہیں بمشکل ایک ہزار ڈالرز موصول ہوں گے، لیکن جب انہیں ایک ہی دن میں 3 ہزار ڈالرز مل گئے تو وہ حیران رہ گئیں۔

    اس کتاب کی اشاعت کے بعد اب وہ اسی نوعیت کی دیگر کتابوں پر بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو ننھے ذہنوں کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کے بجائے وسعت خیال دیں۔

  • کیا ایک حمل ہوتے ہوئے دوسرا حمل ٹھہر سکتا ہے؟

    کیا ایک حمل ہوتے ہوئے دوسرا حمل ٹھہر سکتا ہے؟

    حمل ٹھہرنا اور بچے کی پیدائش ایک عام بات ہے۔ اکثر اوقات حاملہ مائیں دو یا تین بچوں کو بھی بیک وقت جنم دیتی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ایک حمل ہوتے ہوئے بھی دوسرا حمل ٹھہر سکتا ہے؟

    ایک حمل کی موجودگی میں دوسرا حمل ٹھہرنا سپر فیٹیشن کہلاتا ہے جس میں ایک جنین کی موجودگی کے باوجود دوسرا جنین نمو پانے لگتا ہے۔

    ایسے میں عموماً حاملہ ماں جڑواں بچوں کو جنم دے سکتی ہے تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں بچوں کی پیدائش مختلف تاریخوں میں کچھ دن کے وقفے سے ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: جڑواں بچوں کی 77 دن کے فرق سے پیدائش

    یہ عمل جڑواں بچوں کی پیدائش سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جڑواں بچوں کا حمل ایک ساتھ ہی ٹھہرتا ہے اور پیدا ہونے والے بچوں کا وزن اور بلڈ گروپ عموماً یکساں ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ بچہ کسی پیدائشی بیماری کا شکار ہو تو وہ بیماری دونوں بچوں کو ہوتی ہے۔

    اس کے برعکس سپر فیٹیشن میں پہلے ایک اور پھر کچھ وقت کے وقفے کے بعد دوسرا حمل ٹھہرتا ہے۔

    دراصل عام حالات میں جب بیضہ دانی اور رحم کے درمیان انڈوں کا تبادلہ ہوتا ہے تو حمل ٹھہرتا ہے، حمل ٹھہرنے کے بعد یہ دونوں اعضا انڈوں کا تبادلہ بند کردیتے ہیں کیونکہ انہیں ہارمونز کی جانب سے رحم میں موجود بچے کی نشونما کا سگنل ملتا ہے۔

    البتہ کبھی کبھار یہ تبادلہ پھر سے انجام پاجاتا ہے جس کے باعث ایک حمل کے ہوتے ہوئے ہی دوسرا حمل ٹھہر جاتا ہے۔

    حمل ہوتے ہوئے حاملہ ہونے کے اب تک 10 کیسز ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔ آخری کیس آسٹریلیا کی رہائشی ایک خاتون میں دیکھا گیا جن میں 10 دن کے وقفے سے دو حمل ٹھہرے۔

    ان کے ہاں دو بچیوں کی پیدائش تو ایک ہی دن ہوئی تاہم دونوں کا وزن اور بلڈ گروپ مختلف تھا۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

    یہ عمل صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ جانوروں میں بھی انجام پاتا ہے۔ چوہے، کینگرو، خرگوش اور بھیڑ وغیرہ میں اس طرح کی ولادتیں عام ہیں۔

    اس عمل کا مشاہدہ سب سے پہلے لگ بھگ 300 قبل مسیح معروف فلسفی ارسطو نے خرگوشوں میں کیا تھا، اس نے دیکھا تھا کہ خرگوش کے ایک ساتھ پیدا ہونے والے بچے جسامت میں مختلف تھے۔

    ارسطو نے دیکھا کہ کچھ بچے واضح طور پر چھوٹے اور کمزور تھے، اس کے برعکس اسی وقت پیدا ہونے والے کچھ بچے معمول کی (نومولود) جسامت کے اور صحت مند تھے۔ بعد ازاں طبی سائنس نے اس پر مزید تحقیق کر کے مندرجہ بالا نتائج اخذ کیے۔

  • ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    کیا آپ والدین ہیں اور چاہتے ہیں کہ روز رات کو سونے سے قبل آپ کا بچہ چپ چاپ اپنا ہوم ورک مکمل کر کے سوئے؟ تو جان لیں کہ آپ نے اپنے بچے کو ایک غیر ضروری سرگرمی میں مصروف کر رکھا ہے جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔

    ایک طویل عرصے تک بے شمار تحقیقوں اور رد و کد کے بعد بالآخر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ہوم ورک یعنی اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام ایک ایسی شے ہے جس کا بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

    سنہ 1989 سے مختلف اسکولوں اور طالب علموں کا ڈیٹا کھنگالنے کے باوجود ماہرین کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہوم ورک نے بچے کی کارکردگی یا شخصیت پر کوئی مثبت اثر مرتب کیا ہو۔

    ماہرین نے اس ضمن میں طالب علموں کو 3 گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان کی طویل تحقیق کے مطابق ایلیمنٹری اسکول کے بچے یعنی 6 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ہوم ورک بالکل غیر ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس عمر کے بچے تعلیم اور نصاب سے متعلق جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اسکول میں ہی سیکھتے ہیں، ہوم ورک ان کے لیے صرف ایک اضافی مشقت ہے جو انہیں تھکا دیتا ہے۔

    یہی کلیہ مڈل اسکول کے بچوں کے لیے ہے۔ ہائی اسکول میں جا کر ہوم ورک کے کچھ فوائد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس ہوم ورک کا وقت صرف 2 گھنٹے ہونا چاہیئے۔ 2 گھنٹے سے زیادہ ہوم ورک بچوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ان میں تعلیم، پڑھنے، مطالعہ کرنے اور نیا سیکھنے سے محبت پیدا ہو۔ لیکن ہوم ورک الٹا اثر کرسکتا ہے اور بچوں میں ان تمام ضروری اشیا سے محبت کے بجائے چڑ پیدا ہونے لگتی ہے۔

    ان کے دل میں اسکول سے متعلق منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں جو بڑے ہونے تک برقرار رہ سکتے ہیں یعنی پڑھائی ان بچوں کے لیے بوجھ بن سکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہوم ورک بچوں کے کھیلنے کا وقت بھی محدود کرتا ہے چنانچہ وہ کھلی فضا میں جانے اور جسمانی سرگرمی سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوم ورک کسی خاندان کے رشتے کو بھی کمزور کرسکتا ہے۔ روز رات میں ہوم ورک کروانے کے لیے والدین کی آپس میں بحث، بچوں کا رونا، ضد کرنا اور والدین کی بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ ان کے تعلق کو خراب کرسکتی ہے۔

    دن کے اختتام کا وہ وقت جب پورا خاندان مل بیٹھ کر، گفتگو کر کے اور ہنسی مذاق کر کے اپنے رشتے کو بہتر اور مضبوط بنا سکتا ہے، اس جھنجھٹ کی نذر ہوجاتا ہے، ’کیا تم نے اپنا ہوم ورک کرلیا‘؟

    ماہرین نے ہوم ورک کے مزید مضر اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر ہوم ورک کے لیے بچوں کو کسی بڑے کی مدد درکار ہوتی ہے، یہ مدد بچے کی خود سے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی کرتی ہے اور وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    اسی طرح دن کے اختتام پر والدین کو بھی صرف یہی سننا ہے کہ ہوم ورک مکمل ہوگیا۔ اس ہوم ورک سے ان کے بچے نے کیا نیا سیکھا، اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ جاننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ بچوں کو ہوم ورک دینے کے بجائے گھر پر مطالعہ کرنے کا کہا جائے۔ یہ مطالعہ باآواز بلند ہو جس سے گھر کے دیگر افراد بھی اس سرگرمی میں شامل ہوجائیں گے۔

    یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہفتے میں کچھ دن بچے خود مطالعہ کریں، اور کچھ دن کسی اور سے مطالعہ کروائیں اور خود صرف سن کر آئیں۔ اس سرگرمی سے وہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جو ہم اپنی دانست میں ہوم ورک سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

  • سخت گیر ماؤں کے بچے خوش ہوجائیں

    سخت گیر ماؤں کے بچے خوش ہوجائیں

    کہا جاتا ہے کہ والدین کو بچوں کا دوست ہونا چاہیئے، اور ان پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیئے۔ تاہم حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ سخت گیر والدین خصوصاً مائیں بچوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سخت گیر اور تنقیدی ماؤں کے بچے نرم مزاج رکھنے والی ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی مائیں جو اپنے بچوں کی غلطیوں پر سختی سے پیش آتی ہیں، ان کی کڑی روٹین رکھتی ہیں اور ان پر مختلف ذمہ داریاں ڈال دیتی ہیں، درحقیقت وہ مستقبل میں اپنے بچوں کے لیے کامیابی کی راہ ہموار کر رہی ہوتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    ایسے بچے بچپن میں اپنی ماؤں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ان کی والدہ نے ان کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے، لیکن یہی ’جہنم‘ ان کی آگے کی زندگی کو جنت بنا سکتی ہے جس کے لیے وہ اپنی والدہ کے شکر گزار ہوں گے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ گھر کا کام کرنے والے اور مختلف ذمہ داریاں اٹھانے والے بچے بھی بڑے ہو کر کامیاب انسان بنتے ہیں۔

    اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر جولی ہیمز کے مطابق جب آپ اپنے بچوں سے گھر کے مختلف کام کرواتے ہیں، تو دراصل آپ انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ کام کرنے ضروری ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہیں۔

    جولی کہتی ہیں کہ جب بچے یہ کام نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر کا کوئی دوسرا فرد یہ کام انجام دے رہا ہے، یوں بچے نہ صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی نہیں سیکھ پاتے کہ گھر کے کام ہوتے کیسے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب بچے دیگر افراد کے ساتھ مل کر گھر کے کام کرتے ہیں تو ان میں ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہوتی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، ایسے بچے بڑے ہو کر اکیلے مختلف ٹاسک لینے اور انہیں پورا کرنے سے بھی نہیں گھبراتے اور یہ تمام عوامل کسی انسان کو کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔

  • ننھے منے بچوں کو رنگ برنگے جوتے پہنانے کا نقصان

    ننھے منے بچوں کو رنگ برنگے جوتے پہنانے کا نقصان

    ننھے منے بچے یوں تو سب ہی کو پیارے لگتے ہیں اور بچے اگر سجے سجائے، رنگ برنگے کپڑے جوتے پہنے ہوئے ہیں تو ان پر اور زیادہ پیار آتا ہے۔

    اکثر ماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ننھے بچوں کی میچنگ میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑیں اور انہیں لباس کے ساتھ خوشنما رنگین جوتے بھی پہنائیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں شیر خوار بچوں کو جوتے پہنانا ان کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق شیر خوار بچوں کو جوتے پہنانا ان کی دماغی نشونما کو متاثر کرسکتا ہے۔

    میڈرڈ کی ایک یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ننگے پاؤں رہنے والے بچے زیادہ ذہین اور خوش باش رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ 1 دن سے 2 سال تک کا بچہ دنیا کو دریافت کرنے کے مرحلے میں ہوتا ہے۔ اس عمر کے دوران بچے نئی چیزوں کو دریافت کرتے ہیں اور انہیں نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں۔

    ایسے میں پاؤں کے اعصاب (نروز) بچے کی یادداشت اور دماغ میں معلومات جمع کرتے ہیں، لیکن جب بچے جوتے پہنتے ہیں تو ان کی حرکت اور محسوس کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوشش کریں جتنا ممکن ہو اپنے بچے کو ننگے پاؤں چلائیں، اگر فرش ٹھنڈا ہو تو بچے کو ہلکے موزے پہنائیں۔ ان کے مطابق بچے کی مختلف اقسام کی زمینوں پر چلنے کی حوصلہ افزائی کریں جیسے گھاس، یا ریت پر چلنے کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی اس دریافت کرنے کی عمر میں وہ جتنی زیادہ نئی چیزیں دیکھے گا اتنا ہی اس کی یادداشت اور ذہانت میں اضافہ ہوگا۔

  • بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    اعصابی بیماری آٹزم دنیا بھر میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے، آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس مرض کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بچے کی نہایت کم عمری میں ہی اس میں آٹزم کا سراغ لگایا جاسکتا ہے، ایسے بچے بظاہر نارمل اور صحت مند دکھائی دیتے ہیں تاہم ان کی کچھ عادات ان کے آٹزم میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ وہ عادات یہ ہیں۔

    بار بار مٹھی کھولنا اور بند کرنا: یہ آٹزم کی نہایت واضح نشانی ہے۔

    اکثر پنجوں کے بل چلنا

    اپنے سر کو کسی چیز سے مستقل ٹکرانا: کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ بچے اپنے سر کو کسی سطح سے مستقل ٹکراتے ہیں۔

    لوگوں کے درمیان یا اجنبی جگہ پر مستقل روتے رہنا اور غیر آرام دہ محسوس کرنا

    اپنے سامنے رکھے پانی یا دودھ کو ایک سے دوسرے برتن میں منتقل کرنا

    بہت زیادہ شدت پسند اور ضدی ہوجانا

    آوازوں پر یا خود سے کی جانے والی باتوں پر دھیان نہ دے پانا: ایسے موقع پر یوں لگتا ہے جیسے بچے کو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا۔

    نظریں نہ ملا پانا: ایسے بچے کسی سے آئی کانٹیکٹ نہیں بنا پاتے۔

    بولنے اور بات کرنے میں مشکل ہونا

    کسی کھانے یا کسی مخصوص رنگ کے کپڑے سے مشکل کا شکار ہونا: ایسے بچے اکثر اوقات کپڑے پہنتے ہوئے الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کپڑے کے اندرونی دھاگے انہیں بے چینی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بچے نظر بچا کر کپڑوں کو الٹا کر کے بھی پہن لیتے ہیں۔

    مزید رہنمائی کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔