Tag: بچہ

  • اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان سے گھر کے کام کروائیں

    اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان سے گھر کے کام کروائیں

    اکثر بچوں کو جب کوئی کام کہا جائے تو وہ سستی و آلکسی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں اور پھر نظر بچا کر اس کام کو چھوڑ کر دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    اگر آپ بھی ایسے ہی بچوں کے والدین ہیں تو پھر یقیناً آپ کو اس معاملے میں اپنی کوششیں تیز کردینی چاہئیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر کا کام کرنے والے بچے بڑے ہو کر کامیاب انسان بنتے ہیں۔

    اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر جولی ہیمز کے مطابق جب آپ اپنے بچوں سے گھر کے مختلف کام کرواتے ہیں، جن میں برتن دھونا، صفائی کرنا (خاص طور پر اپنے کمرے کی صفائی کرنا) یا اپنے کپڑے دھونا تو دراصل آپ انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ کام کرنے ضروری ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہیں۔

    جولی کہتی ہیں کہ جب بچے یہ کام نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر کا کوئی دوسرا فرد یہ کام انجام دے رہا ہے، یوں بچے نہ صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی نہیں سیکھ پاتے کہ گھر کے کام ہوتے کیسے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    ان کا کہنا ہے کہ جب بچے دیگر افراد کے ساتھ مل کر گھر کے کام کرتے ہیں تو ان میں ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہوتی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

    ایسے بچے بڑے ہو کر اکیلے مختلف ٹاسک لینے اور انہیں پورا کرنے سے بھی نہیں گھبراتے اور یہ تمام عوامل کسی انسان کو کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔

    کون والدین ایسے ہوں گے جو اپنے بچوں کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے، یقیناً آپ بھی اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہوں گے تو پھر آج ہی سے کامیابی کی طرف بڑھنے والا یہ قدم اٹھائیں۔

  • نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    امریکا میں گزشتہ چند دہائیوں میں زچگی کے دوران خواتین کی موت کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجوہات میں طبی عملے کی غفلت اور نسلی امتیاز جیسے حیران کن عوامل شامل ہیں۔

    امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا میں بسنے والی سیاہ فام خواتین میں حمل کے دوران موت کا خطرہ، سفید فام خواتین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سیاہ فام طبقے کے لیے طبی عملے کی لاپرواہی اور ان کی کمزور معاشی حالت ہے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام طبقے کو طبی عملے کا امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    زچگی کے دوران خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات صرف سیاہ فام خواتین تک ہی محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام امریکی ماؤں کے لیے حمل کے دوران خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر امریکی عورت کو حمل کے دوران، اپنی والدہ کے مقابلے میں 50 فیصد زائد سنگین طبی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل زچگی کے دوران اموات کی وجہ زیادہ خون بہنا اور انفیکشن ہوتا تھا، تاہم اب امریکی مائیں موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب، اور سی سیکشن کی شرح میں اضافے کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر سنہ 1990 سے 2015 کے دوران زچگی کے دوران ماؤں کی اموات میں 44 فیصد کمی آچکی ہے تاہم امریکا میں اس شرح میں اضافہ ہوا۔ امریکا میں چند دہائی قبل 1 لاکھ میں سے 12 ماؤں کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق ہوتا تھا تاہم اب یہ تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    رپورٹ میں ماہرین نے زچگی کے بعد ماؤں کے لیے طبی عملے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کی طرف ڈاکٹرز کی توجہ کم ہوجاتی ہے نتیجتاً وہ چھوٹے موٹے طبی مسائل جن پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، سنگین صورت اختیار کر کے جان لیوا بن جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ایک طرف تو حاملہ ماؤں کو صحت مند طرز زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، دوسری طرف طبی عملے کو بھی اس بات کی تربیت دی جائے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آخری وقت تک ماں اور بچے دونوں کو توجہ دی جائے۔

  • سبزیوں سے بیزار بچے ان سبزیوں کو نہایت شوق سے کھائیں گے

    سبزیوں سے بیزار بچے ان سبزیوں کو نہایت شوق سے کھائیں گے

    بچوں کو کھانا کھلانا ایک مشکل مرحلہ ہوسکتا ہے خاص طور پر اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے جنک فوڈ کے بجائے غذائیت بخش پھل اور سبزیاں کھائیں تو اس کوشش میں بچے آپ کو آٹھ آٹھ آنسو رلا سکتے ہیں۔

    ایسی ہی مشکل سے دو چار ماں نے بھی اتفاق سے اس صورتحال کو دلچسپ بنا لیا۔ لیلیٰ نامی یہ خاتون جو اب باقاعدہ فوڈ آرٹسٹ کہلائی جاتی ہیں، نے اپنے 3 سالہ بیٹے کے لیے کھانے کو نہایت دلچسپ شکل دے دی۔

    لیلیٰ نے یوں ہی ایک دن اسنیکس کو شیر کی شکل میں پلیٹ میں رکھ کر اپنے بیٹے کو پیش کیا جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔

    اگلے دن اس نے ماں سے فرمائش کی کہ اس کے کھانے کو اس کے پسندیدہ فلم کے کردار جیسا تشکیل دیا جائے، اور اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔

    لیلیٰ سبزیوں کو مختلف شکلوں میں پیش کرتی جسے اس کا بیٹا نہایت شوق سے کھاتا۔ لیلیٰ نے سوشل میڈیا پر ان تصاویر کو پوسٹ کرنا شروع کردیا جہاں بہت جلد اسے لوگوں کی پذیرائی حاصل ہوگئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Daydreaming of our amazing time at @clubmedbintan – where mornings started with a cocktail 🍸 and swim and the evenings ended with amazing show and a limitless amount of delicious food. Where Jacob would get up and and the first thing he would say is “Mum- can I go to kids club?” And you just knew he was going to have the best time! We have stayed at many resorts but I have to say the #kidsclub at @clubmedbintan is one like no other! The GO’s are just incredible – they are not just staff they become your friends. They entertain, they even dine with you! From talent shows to acrobatics to pirate treasure hunts the children have entertainment from morning all the way through to night! @clubmedbintan is truly a remarkable place for both adults and children! We will definitely be back! ❤️ . . . #clubmed #clubmedbintan #bintanisland #travel #food #art #holiday #tourish #resort #foodstyling #foodphotography #healthychoices #beautifulcuisines #thechalkboardeats #happyandhealthy #glowlean #onthetable #organicmoments #colouryourplate #eattherainbow #wholefood #feedfeed #foods4thought #lovefood #organicfood #sundlivsstil #nemmad

    A post shared by LALEH MOHMEDI (@jacobs_food_diaries) on

    یقیناً آپ کے بچے بھی اس طرح سے سبزیوں کو کھانا پسند کریں گے لہٰذا اس طریقے کو آپ بھی اپنے گھر میں اپنا سکتے ہیں۔

  • معذور سعودی بچے کی نرم مزاجی نے اسے ہر دلعزیز بنادیا

    معذور سعودی بچے کی نرم مزاجی نے اسے ہر دلعزیز بنادیا

    ریاض : سعودی عرب میں پیدائشی طور پر ہاتھوں اور پاﺅں سے معذور بچے نے اپنے چہرے کی مسکراہٹ سے معذوری کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس موجود لوگوں کے دل موہ لیے۔

    تفصیلات کے مطابق معذوری نے ننھے سعودی ریان المعدی کو لوگوں میں گھل مل جانے، ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور تعلیم کے حصول سے نہیں روکا۔ وہ تیراکی کا خواہش مند، آرٹسٹ کے طور پر خاکے بنانا اور معذور بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لینا چاہتا ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ ریان المعدی اپنے بلند حوصلے کے باعث مستقبل میں بچوں کا ڈاکٹر بننے کے خواب بھی دیکھ رہا ہے۔

    ریان المعدی کی والدہ نے عربی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریان کی پیدائش سے قبل ہی مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ میں ایک معذوربچے کی ماں بننے والی ہوں، مگر مجھے اس میںکوئی پریشانی نہیں تھی کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جیسے چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے۔

    ریان کی والدہ نے بتایا کہ مجھے یقین تھا کہ معذور بچہ گھر میں باعث برکت ہوگا، ڈاکٹروں کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ بچے کی معذوری کی وجہ سے اس کی پیدائش کا عمل بھی انتہائی پیچیدہ ہوگا مگر پیدائش کے دوران ایسا کچھ نہیں ہوا۔

    انہوں نے بتایا کہ ریان المعدی نارمل طریقے سے پیدا ہوا اور اس کی پیدائش ہمارے لیے نیک شگون ثابت ہوئی۔ وہ جہاں جاتا ہے ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ ہرایک سے ملتا ہے۔

    والدہ کا کہنا تھا جب ریان المعدی بڑا ہونے لگا تو ایک دن اس نے مشکل سوال پوچھا کہ میں دوسرے لوگوں سے مختلف کیوں ہوں؟ میں جوتے کیوں نہیں پہن سکتا اور بازو پر گھڑی کیوں نہیں باندھ سکتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس کا جواب مشکل تھا مگر میں نے اس کے سوالوں کے جواب دیے اور اسے معذور افراد کی تصاویر دکھائیں جو اس کی طرح ہاتھوں اور پاﺅں سے محروم تھے۔

    معذور بچے کی ماں کا کہنا ہے کہ ریان المعدی کی پیدائش کے پانچ سال بعد معذوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے اسے اپنے ہاں رجسٹر کرلیا۔

    سعودی خاتون کا کہنا تھا کہ تنظیم کی طرف سے اسے معاون ٹیم اور معلمات فراہم کی گئیں، آج وہ 10 سال کا ہوچکا ہے اور لوگوں کا مرجع خلائق ہے، سوشل میڈیا پر اس کے فالورز ہزاروں میں ہیں جو مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

  • ناک سے محروم ایک آنکھ والے گائے کے بچے کی پیدائش

    ناک سے محروم ایک آنکھ والے گائے کے بچے کی پیدائش

    نئی دہلی: بھارتی ریاست مغربی بنگال میں انوکھی شکل کے گائے کے بچے کی پیدائش ہوئی جو ناک اور ایک آنکھ سے محروم ہے، مقامی افراد نے بچھڑے کو خدا معجزہ سمجھ کر پوجا پاٹ شروع کردی۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق بھارتی ریاست مغربی بنگال کے علاقے رانا گھاٹ میں ایک روز قبل گائے نے ایک بچہ دیا جو دکھنے میں غیر معمولی تھا کیونکہ اس کی ایک آنکھ سر کے درمیان تھی اور ناک سے محروم تھا اور سر بھی دیگر کے مقابلے میں بہت عجیب تھا۔

    مقامی لوگوں نے جب بچھڑے کو دیکھا تو اسے اپنا مذہبی پیشوا و خدا کا معجزہ تسلیم کرکے عبادت شروع کردی، گائے کے مالک کا کہنا تھا کہ اُس کے گھر لوگوں کا تانتا بند وہا ہے جو زیارت اور پوجا کے لیے آرہے ہیں اور بھاری نذرانے دے رہے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عجیب الخلقت بچھڑے کی ماں اپنے بچے سے محبت کا اظہار کررہی ہے جبکہ مقامی افراد اس کی پوجا کررہے ہیں۔

    مغربی بنگال کے ایک باسی کا کہنا تھا کہ گردن پر سب کچھ درست ہے لیکن سر بے ہنگم یا کریہہ النظر ہے، گاؤں کی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایسا عجیب الخلقت جانور پہلی بار دیکھا ہے‘۔

    گائے کے مالک کا کہنا تھا کہ ’پڑوسی گاؤں کے رہائشی بھی بچھڑے سے متعلق سن کر میرے گھر آرہے ہیں اور مجھ سے گائے کے بچے کی پوجا کی اجازت مانگ رہے ہیں‘۔

    مالک کا کہنا تھا کہ ’ہم سب کا خیال ہے کہ یہ خدا کا معجزہ ہے اور ہمارا خیال ہے کہ بھگوان برہما نے اس اوتار کو ہمارے گھر میں بھیجا ہے‘۔

    مزید پڑھیں : بھارت میں ایک آنکھ والے عجیب الخلقت بچھڑے کی پیدائش

    یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل بھی بھارتی ریاست مغربی بنگال میں ایک آنکھ والا اصول فطرت سے ہٹی ہوئی خلقت والا بچہ پیدا ہوا تھا جس کی ایک آنکھ اور ہندو برادری کے افراد نے اسے خدا کا اوتار سمجھ کر لوگوں کو پوجا کرنے کی اجازت شروع کردی تھی۔

  • بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    ہمارے یہاں اکثر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے اپنے کمرے کو بے ترتیب رکھتے ہیں، اپنا کوئی کام نہیں کرتے اور معمولی سے کام کے لیے بھی انہیں امی یا بہن کی مدد درکار ہوتی ہے۔

    یہ عادت نوجوانی تک ساتھ رہتی ہے اور کئی افراد بڑے ہونے کے بعد بھی اپنا کوئی ذاتی کام تک ڈھنگ سے انجام نہیں دے پاتے۔

    دارصل مائیں شروع میں تو لاڈ پیار میں بچوں کے سارے کام انجام دے دیتی ہیں لیکن عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ کام کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے اور اس وقت انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچے کو نہایت بدسلیقہ اور کاہل بنا دیا ہے۔

    ایسے بچے اس وقت پریشانی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جب انہیں ملک سے باہر اکیلے رہنا پڑے اور سارے کام خود کرنے پڑیں تب انہیں بھی احساس ہوتا ہے انہیں تو کچھ کرنا نہیں سکھایا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کو بچپن ہی سے نظم و ضبط میں رہنے کی عادت سکھائی جائے تو وہ آگے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات سے بچ جاتے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو کس طرح سے گھر کے کام سکھائیں جائیں؟ آسٹریلیا میں رہنے والی ایک خاتون جینی اس کا بہت شاندار طریقہ تجویز کرتی ہیں۔

    جینی 16 عدد بچوں کی والدہ ہیں، جی ہاں 16 بچے۔ جینی کا کہنا تھا کہ جب ان کے بچوں کی تعداد 7 ہوگئی تو انہوں نے سوچا کہ وہ تو سارا وقت ان کے کام کرنے میں مصروف رہیں گی اور ان کی زندگی میں کچھ باقی نہیں بچے گا۔

    چنانچہ انہوں نے سوچا کہ وہ بچوں کو بھی اپنے ساتھ کاموں میں مصروف کریں۔

    جینی کا کہنا تھا کہ اتنے سارے بچوں کی موجودگی کے باعث وہ انفرادی طور پر کسی پر توجہ نہیں دے سکتیں تھیں اور انہیں ڈر تھا کہ جب بچے بڑے ہو کر خود مختار زندگی گزاریں گے تو ان کے لیے زندگی مشکل ہوگی۔

    اب جبکہ جینی کے گھر میں 4 سے 28 سال تک کی ہر عمر کے افراد موجود ہیں، تو ان کے گھر میں ایک ہفتہ وار شیڈول تیار کیا جاتا ہے۔ اس شیڈول میں ہر شخص کو کام دیے جاتے ہیں کہ کس دن اس نے کون سا کام سر انجام دینا ہے۔

    یہ شیڈول دیوار پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ ہر شخص کو ہر بار نئے کام دیے جاتے ہیں تاکہ ہر بچہ تمام کام کرنا سیکھ جائے۔

    جینی کی اس حکمت عملی کی بدولت اب ان کا 12 سالہ بیٹا 20 افراد کے لیے باآسانی ڈنر تیار کرسکتا ہے اور اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    جینی کا کہنا ہے کہ جب بچے چھوٹے تھے تب انہیں سکھانے کی ضرورت پڑی تھی، اب بڑے بچے چھوٹے بچوں کو سکھاتے ہیں یوں تمام کام باآسانی انجام پاجاتے ہیں۔

    جینی دوسری ماؤں کو بھی یہی حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں پر فخر کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان کے بچے عملی زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں، بلکہ وہ گھر کے کاموں میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

    کیا آپ اس حکمت عملی پر عمل کرنا چاہیں گے؟

  • واضح نہیں کہ بچے کو پولیس کی گولی لگی یا ڈاکوؤں کی: پولیس کا مؤقف

    واضح نہیں کہ بچے کو پولیس کی گولی لگی یا ڈاکوؤں کی: پولیس کا مؤقف

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے 19 ماہ کے کمسن بچے کی ہلاکت پر پولیس کا کہنا ہے کہ شہری کی اطلاع پر ڈاکوؤں کا تعاقب شروع کیا گیا، ابھی واضح نہیں کہ بچے کو پولیس اہلکار کی گولی لگی ہے یا ڈاکوؤں کی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیڑھ سالہ بچے کی ہلاکت کا واقعہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر پیش آیا تھا۔

    مقتول بچے کے والد کاشف کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی روڈ پر رکشے میں جا رہے تھے کہ اسی دوران پولیس کو فائرنگ کرتے دیکھا، کچھ دیر بعد بچے احسن کے جسم سے خون نکلنے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ خون بہنے کے بعد ہم اسی رکشے میں بچے کو لے کر اسپتال پہنچے مگر وہ اُس وقت تک دم توڑ چکا تھا۔

    مبینہ پولیس فائرنگ سے بچے کی موت پر پولیس نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں، ورثا سے رابطے میں ہیں۔

    پولیس کا مؤقف ہے کہ اہلکاروں کو شہری نے اطلاع دی آگے ڈاکو جا رہے ہیں، شہری کی نشاندہی پر اہلکاروں نے ڈاکوؤں کا تعاقب کیا۔ ڈاکوؤں نے فائرنگ کی، پولیس اہلکار نے جوابی گولی چلائی۔ اہلکار کے پاس نائن ایم ایم تھی، ڈاکو نے بھی پستول سے گولی چلائی۔

    پولیس کے مطابق ملزمان فرار ہوگئے، جائے وقوع سے گولی کا ایک خول ملا جسے فرانزک ٹیسٹ کے لیے لیب بھیج دیا گیا ہے۔ ابھی واضح نہیں کہ بچے کو پولیس اہلکار کی گولی لگی ہے یا ڈاکوؤں کی، فرانزک رپورٹ آنے پر صورتحال کچھ واضح ہوگی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوع کے اطراف کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جا رہی ہے، چاروں پولیس اہلکار حراست میں ہیں، تفتیش کی جا رہی ہے۔

    گزشتہ روز واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بچے کے جاں بحق ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سے فوری رپورٹ طلب کی تھا۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات افسوسناک ہیں جن کی روک تھام بہت ضروری ہے۔

  • ہری پور: 7 سالہ بچہ زیادتی کے بعد قتل، ملزم گرفتار

    ہری پور: 7 سالہ بچہ زیادتی کے بعد قتل، ملزم گرفتار

    ہری پور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ہری پور میں 7 سالہ بچے کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا، پولیس نے 15 سالہ ملزم کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ کے شہر ہری پور میں 7 سالہ عمر گزشتہ شام لاپتہ ہوا تھا جس کی لاش آج فجر کے وقت کھیتوں سے ملی۔ خیبر پختونخواہ حکومت اور پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے قاتل کو گرفتار کرلیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم مقتول کا پڑوسی ہے اور خود اس کی عمر بھی 13 سے 15 سال کے درمیان ہے۔

    انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخواہ محمد نعیم خان نے شفاف انکوائری کے لیے اعلیٰ سطح کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا ہے۔ زیادتی کا شکار بچے کا خان پور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال میں پوسٹ مارٹم ہوا جس میں زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔

    ترجمان خیبر پختونخواہ حکومت اجمل وزیر نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی نے واقعے کا نوٹس لیا جس کے بعد ملزم کو فوری گرفتار کیا گیا۔

    اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ ایسے درندوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، سخت سزا ملے گی۔ واقعے سے متعلق کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے میں گھناؤنا چہرہ سامنے آ رہا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، ’اس قسم کی درندگی ناقابل برداشت ہے‘۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل ہی صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں بچوں سے زیادتی کرنے، تصاویر اور نازیبا ویڈیو بنانے والے ایک اور گروہ کا انکشاف ہوا تھا۔

    فیصل آباد کے علاقے منصور آباد میں بچے کو نشہ آور مشروب پلا کر مبینہ طور پر اس کے ساتھ زیادتی کی گئی جبکہ ملزمان نے بچے کی تصاویر بھی وائرل کردی تھیں۔

  • بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا ان کے لیے فائدہ مند

    بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا ان کے لیے فائدہ مند

    کیا آپ اپنے بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا چاہتے ہیں اور آپ نے ان کے پڑھنے، کھیلنے، ٹی وی دیکھنے اور سونے کا وقت مقرر کیا ہوا ہے؟ تو پھر آپ کے لیے ایک خوشخبری ہے۔

    اس سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ بچوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا والدین اور بچوں کے درمیان تعلق پر منفی اثر ڈالتا ہے تاہم اب نئی تحقیق نے اس بات کی نفی کردی ہے۔

    یونیورسٹی آف سڈنی میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا اور ان کی ہر سرگرمی کا وقت مقرر کرنا ان کی جسمانی و دماغی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    چائلڈ بی ہیویئر ریسرچ کلینک کے پروفیسر مارک ڈیڈز کہتے ہیں کہ مخصوص وقت کی تکنیک بچوں کو نظم و ضبط کا عادی بناتی ہے۔ ان کے مطابق اب تک سمجھا جاتا رہا تھا کہ ایسا کرنا بچوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے تاہم یہ غلط ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ جو بچے ذہنی صدموں جیسے مار پیٹ، والدین کی جانب سے نظر انداز کیے جانے یا والدین سے الگ کیے جانے کے صدمے کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی اس طرز زندگی سے معمول پر آنے لگتے ہیں اور ان کی ذہنی صحت میں بہتری واقع ہونے لگتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس طریقہ کار کا مطلب یہ نہیں بچوں کو الگ تھلگ کردیا جائے، درست طریقے سے اس تکنیک کو استعمال کرنا والدین اور بچوں دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

  • شیر خوار بچوں کو پانی پلانا خطرناک ہوسکتا ہے

    شیر خوار بچوں کو پانی پلانا خطرناک ہوسکتا ہے

    یوں تو ہر انسان کو دن بھر میں زیادہ سے زیادہ سے پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم شیر خوار بچوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا کہ 6 ماہ سے کم عمر بچوں کو پانی پلانا نہایت خطرناک ہوسکتا ہے اور یہ بعض اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جب ہم بہت زیادہ پانی پی لیتے ہیں تو یہ خون میں شامل ہونا شروع ہوجاتا ہے جس سے خون میں موجود نمک یا سوڈیم کی سطح کم ہونی شروع ہوجاتی ہے۔

    جب خون میں سوڈیم کی سطح بے حد کم یعنی تقریباً فی گیلن کے حساب سے 0.4 اونس ہوجائے تو جسم ہائپونیٹرمیا کا شکار ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: شیر خوار بچوں کے لیے شہد سخت نقصان دہ

    اس کیفیت میں جسم کے خلیات اضافی پانی کو اپنے اندر جذب کر کے سوڈیم کی سطح معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجتاً جسم کے خلیات غبارے کی طرح پھول جاتے ہیں جس سے الٹی، متلی اور عضلات میں کھنچاؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

    یہ کیفیت ایتھلیٹس میں نہایت عام ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ اور مسلسل پانی پیتے ہیں۔

    ایسی صورت میں پانی دماغ کے خلیات تک بھی پہنچ سکتا ہے جس کے بعد دماغ کے خلیات بھی پھول جاتے ہیں اور کھوپڑی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے دماغ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ موت واقع ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

    تاہم پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایک مکمل بالغ جسم میں پانی کی زیادتی سے موت کا امکان نہایت کم ہوتا ہے البتہ شیر خوار بچے اس صورتحال کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بہت زیادہ گرم کپڑے پہنانا ننھے بچوں کے لیے مہلک

    بچوں کے گردے چونکہ مکمل طور پر نشونما نہیں پائے ہوتے لہٰذا انہیں پلائے جانے والے پانی کی تمام مقدار گردوں میں فلٹر ہونے کے بجائے خون میں شامل ہوجاتی ہے اور یوں چند اونس پانی بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    صرف براہ راست پانی ہی نہیں بلکہ اگر بچوں کو پلائے جانے والے فارمولہ دودھ میں بھی پانی کی مقدار زیادہ ہو تو یہی صورتحال پیش آسکتی ہے۔

    ایسی صورت میں ضروری ہے کہ فوری طور پر بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے جو انہیں خون میں سوڈیم کی مقدار معمول پر لانے کے لیے مختلف مائع جات استعمال کرواتے ہیں۔