Tag: بچے

  • لاہور: تھانہ سندر کی حدود میں 2 ملزمان  کی 13 سال کے بچے سے مبینہ زیادتی

    لاہور: تھانہ سندر کی حدود میں 2 ملزمان کی 13 سال کے بچے سے مبینہ زیادتی

    لاہور: پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کے علاقے تھانہ سندر کی حدود میں 2 ملزمان نے 13 سال کے بچے کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے تھانہ سندر کی حدود میں تیرہ سالہ بچے کے ساتھ دو ملزمان نے زیادتی کی، جس پر متعلقہ تھانے میں بچے کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزمان شان اور بلال نے اسلحے کے زور پر بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    ایک دوسرے واقعے میں لاہور کے علاقے فیکٹری ایریا میں غیرت کے نام پر بیوی پر تشدد کرنے والے شوہر کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔

    آج کی خبریں پڑھیں:  لاہور میں گھریلو تنازعے کے باعث خاتون نے خودکشی کرلی

    پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون شازیہ پر اس کے شوہر سجاد نے مبینہ طور پر تشدد کیا، خاتون کی درخواست پر شوہر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، زخمی شازیہ جنرل اسپتال میں زیر علاج ہے، جب کہ ملزم کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

    ادھر لاہور ہی کے علاقے تھانہ گلشن راوی سے چند قدم کے فاصلے پر سر عام منشیات فروشی جاری ہے، اے آر وائی نیوز کو موصول فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بندروڈ گندے نالے کے قریب منشیات فروشی ہو رہی ہے۔

    فوٹیج میں منشیات فروش افراد نشہ کرتے اور بھنگ پلاتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، اہل علاقہ نے منشیات فروش عناصر کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

  • ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    کیا آپ والدین ہیں اور چاہتے ہیں کہ روز رات کو سونے سے قبل آپ کا بچہ چپ چاپ اپنا ہوم ورک مکمل کر کے سوئے؟ تو جان لیں کہ آپ نے اپنے بچے کو ایک غیر ضروری سرگرمی میں مصروف کر رکھا ہے جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔

    ایک طویل عرصے تک بے شمار تحقیقوں اور رد و کد کے بعد بالآخر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ہوم ورک یعنی اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام ایک ایسی شے ہے جس کا بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

    سنہ 1989 سے مختلف اسکولوں اور طالب علموں کا ڈیٹا کھنگالنے کے باوجود ماہرین کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہوم ورک نے بچے کی کارکردگی یا شخصیت پر کوئی مثبت اثر مرتب کیا ہو۔

    ماہرین نے اس ضمن میں طالب علموں کو 3 گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان کی طویل تحقیق کے مطابق ایلیمنٹری اسکول کے بچے یعنی 6 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ہوم ورک بالکل غیر ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس عمر کے بچے تعلیم اور نصاب سے متعلق جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اسکول میں ہی سیکھتے ہیں، ہوم ورک ان کے لیے صرف ایک اضافی مشقت ہے جو انہیں تھکا دیتا ہے۔

    یہی کلیہ مڈل اسکول کے بچوں کے لیے ہے۔ ہائی اسکول میں جا کر ہوم ورک کے کچھ فوائد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس ہوم ورک کا وقت صرف 2 گھنٹے ہونا چاہیئے۔ 2 گھنٹے سے زیادہ ہوم ورک بچوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ان میں تعلیم، پڑھنے، مطالعہ کرنے اور نیا سیکھنے سے محبت پیدا ہو۔ لیکن ہوم ورک الٹا اثر کرسکتا ہے اور بچوں میں ان تمام ضروری اشیا سے محبت کے بجائے چڑ پیدا ہونے لگتی ہے۔

    ان کے دل میں اسکول سے متعلق منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں جو بڑے ہونے تک برقرار رہ سکتے ہیں یعنی پڑھائی ان بچوں کے لیے بوجھ بن سکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہوم ورک بچوں کے کھیلنے کا وقت بھی محدود کرتا ہے چنانچہ وہ کھلی فضا میں جانے اور جسمانی سرگرمی سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوم ورک کسی خاندان کے رشتے کو بھی کمزور کرسکتا ہے۔ روز رات میں ہوم ورک کروانے کے لیے والدین کی آپس میں بحث، بچوں کا رونا، ضد کرنا اور والدین کی بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ ان کے تعلق کو خراب کرسکتی ہے۔

    دن کے اختتام کا وہ وقت جب پورا خاندان مل بیٹھ کر، گفتگو کر کے اور ہنسی مذاق کر کے اپنے رشتے کو بہتر اور مضبوط بنا سکتا ہے، اس جھنجھٹ کی نذر ہوجاتا ہے، ’کیا تم نے اپنا ہوم ورک کرلیا‘؟

    ماہرین نے ہوم ورک کے مزید مضر اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر ہوم ورک کے لیے بچوں کو کسی بڑے کی مدد درکار ہوتی ہے، یہ مدد بچے کی خود سے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی کرتی ہے اور وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    اسی طرح دن کے اختتام پر والدین کو بھی صرف یہی سننا ہے کہ ہوم ورک مکمل ہوگیا۔ اس ہوم ورک سے ان کے بچے نے کیا نیا سیکھا، اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ جاننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ بچوں کو ہوم ورک دینے کے بجائے گھر پر مطالعہ کرنے کا کہا جائے۔ یہ مطالعہ باآواز بلند ہو جس سے گھر کے دیگر افراد بھی اس سرگرمی میں شامل ہوجائیں گے۔

    یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہفتے میں کچھ دن بچے خود مطالعہ کریں، اور کچھ دن کسی اور سے مطالعہ کروائیں اور خود صرف سن کر آئیں۔ اس سرگرمی سے وہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جو ہم اپنی دانست میں ہوم ورک سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

  • وسطی افریقہ میں 19 لاکھ سے زائد بچے تشدد سے متاثر ہوئے، یونیسیف

    وسطی افریقہ میں 19 لاکھ سے زائد بچے تشدد سے متاثر ہوئے، یونیسیف

    نیویارک : یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مالی سے لے کر جمہوریہ کانگو تک صرف آٹھ ممالک میں نو ہزار سے زائد اسکول بند ہو چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ مغربی اور وسطی افریقہ میں بڑھتے ہوئے تشدد اور حملوں کی وجہ سے تقریبا بیس لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

    یونیسف نے حکومتوں، مسلح گروپوں، تنازعات کے فریقین اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اساتذہ، اسکولوں اور طالب علموں پر حملے روکنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ بات بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے یونیسیف کے ایک مطالعے میں سامنے آئی ، مالی سے لے کر جمہوریہ کانگو تک صرف آٹھ ممالک میں نو ہزار سے زائد اسکول بند ہو چکے ہیں،2017کے مقابلے میں یہ تعداد تین گنا زیادہ ہے۔

    یونیسف نے حکومتوں، مسلح گروپوں، تنازعات کے فریقین اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ اساتذہ، اسکولوں اور طالب علموں پر حملے روکنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

  • سخت گیر ماؤں کے بچے خوش ہوجائیں

    سخت گیر ماؤں کے بچے خوش ہوجائیں

    کہا جاتا ہے کہ والدین کو بچوں کا دوست ہونا چاہیئے، اور ان پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیئے۔ تاہم حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ سخت گیر والدین خصوصاً مائیں بچوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سخت گیر اور تنقیدی ماؤں کے بچے نرم مزاج رکھنے والی ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی مائیں جو اپنے بچوں کی غلطیوں پر سختی سے پیش آتی ہیں، ان کی کڑی روٹین رکھتی ہیں اور ان پر مختلف ذمہ داریاں ڈال دیتی ہیں، درحقیقت وہ مستقبل میں اپنے بچوں کے لیے کامیابی کی راہ ہموار کر رہی ہوتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    ایسے بچے بچپن میں اپنی ماؤں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ان کی والدہ نے ان کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے، لیکن یہی ’جہنم‘ ان کی آگے کی زندگی کو جنت بنا سکتی ہے جس کے لیے وہ اپنی والدہ کے شکر گزار ہوں گے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ گھر کا کام کرنے والے اور مختلف ذمہ داریاں اٹھانے والے بچے بھی بڑے ہو کر کامیاب انسان بنتے ہیں۔

    اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر جولی ہیمز کے مطابق جب آپ اپنے بچوں سے گھر کے مختلف کام کرواتے ہیں، تو دراصل آپ انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ کام کرنے ضروری ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہیں۔

    جولی کہتی ہیں کہ جب بچے یہ کام نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر کا کوئی دوسرا فرد یہ کام انجام دے رہا ہے، یوں بچے نہ صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی نہیں سیکھ پاتے کہ گھر کے کام ہوتے کیسے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب بچے دیگر افراد کے ساتھ مل کر گھر کے کام کرتے ہیں تو ان میں ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہوتی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، ایسے بچے بڑے ہو کر اکیلے مختلف ٹاسک لینے اور انہیں پورا کرنے سے بھی نہیں گھبراتے اور یہ تمام عوامل کسی انسان کو کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔

  • کراچی میں 12 ہزار بچے اسہال اور نمونیا میں مبتلا

    کراچی میں 12 ہزار بچے اسہال اور نمونیا میں مبتلا

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 10 دن کے دوران اسہال اور نمونیا کے 12 ہزار کیسز سامنے آگئے، متاثرین میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں 10 دن کے دوران 12 ہزار سے زائد بچے اسہال، نمونیا اور دیگر امراض کا شکار ہوگئے ہیں۔ عید اور بارش کے بعد مریضوں کی تعداد میں 300 گنا اضافہ ہوا۔

    10 دنوں میں سول اسپتال کی ایمرجنسی میں 2 ہزار سے زائد بچے لائے گئے جبکہ قومی ادارہ برائے امراض اطفال (این آئی سی ایچ) میں 2 ہزار 8 سو 89 بچے لائے گئے۔

    عباسی شہید اسپتال میں 28 سو، لیاری جنرل اسپتال میں 14 سو اور سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال میں ڈھائی ہزار سے زائد بچے لائے گئے۔

    این آئی سی ایچ کے سربراہ ڈاکٹر جمال رضا کے مطابق بارش اور عید الاضحیٰ کے بعد یومیہ ڈیڑھ سو کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ سیوریج کے پانی کی نکاسی کا نہ ہونا، کچرے اور گندگی کے ڈھیر بچوں میں ڈائریا اور گیسٹرو کی وجہ بن کر سامنے آئے ہیں۔

  • لکی مروت میں اغوا کے بعد بچے کا قتل، لواحقین کا شدید احتجاج، انڈس ہائی وے بند، چوکی نذر آتش

    لکی مروت میں اغوا کے بعد بچے کا قتل، لواحقین کا شدید احتجاج، انڈس ہائی وے بند، چوکی نذر آتش

    لکی مروت: گنڈی خان خیل سے اغوا ہونے والے بچے کی لاش آج کھیتوں سے برآمد ہونے کے بعد بچے کے لواحقین نے گنڈی چوک پر شدید احتجاج کیا جس میں شہر کی سول سوسائٹی تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا کے ضلع لکی مروت کے علاقے گنڈی خان خیل سے ایک بچے محمد اویس کو ایک ماہ قبل اغوا کیا گیا تھا، جس کی لاش آج ملی، لواحقین نے گنڈی چوک پر بچے کی لاش رکھ کر احتجاج کیا جس کے باعث ٹریفک معطل ہو گیا۔

    احتجاج کے باعث کراچی پشاور انڈس ہائی وے کئی گھنٹوں تک بند رہی، گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، مشتعل افراد نے پولیس چوکی اور ریسکیو 1122 پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کی، بعد ازاں مظاہرین نے پولیس چوکی کو نذرِ آتش کر دیا۔

    آج دن بھر بچے کے اغوا اور قتل کے خلاف لواحقین کی جانب سے احتجاج جاری رہا، مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر نے مظاہرین سے مذاکرات کیے۔

    تاہم مذاکرات کی ناکامی کے بعد احتجاج دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا، مظاہرین نے گنڈی چوک کے بعد کرم پل روڈ بھی بلاک کر دیا، احتجاج میں شہر کی مختلف سول سوسائٹی تنظیمیں بھی شریک ہو گئیں۔

    انتظامیہ اور کمیٹی ممبران نے مظاہرین سے مذاکرات کیے، کمیٹی میں ایم این اے مولانا انور، انور حیات، ضلع ناظم اور دیگر مشران شامل تھے، تاہم مظاہرین نے کمیٹی کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔

    بعد ازاں لواحقین کو یقین دہانی کرائی گئی کہ علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کیا جائے گا، اور واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی، بچے کا پوسٹ مارٹم ہوگا اور ملزمان جلد گرفتار کیے جائیں گے۔

    دوسری طرف مظاہرین نے کمیٹی کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ ملزمان کی گرفتاری تک احتجاج جاری رہےگا، ان کا مطالبہ تھا کہ مقدمے میں سیون اے ٹی اے کی دفعہ بھی شامل کی جائے۔

    دریں اثنا، مشتعل افراد نے ایک بار پھر پولیس چوکی پر دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی، پولیس چوکی کو آگ بھی لگا دی، جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی، مظاہرین کو حراست میں لینے کے لیے پولیس کی بکتر بند گاڑیاں بھی طلب کی گئیں۔

  • ننھے منے بچوں کو رنگ برنگے جوتے پہنانے کا نقصان

    ننھے منے بچوں کو رنگ برنگے جوتے پہنانے کا نقصان

    ننھے منے بچے یوں تو سب ہی کو پیارے لگتے ہیں اور بچے اگر سجے سجائے، رنگ برنگے کپڑے جوتے پہنے ہوئے ہیں تو ان پر اور زیادہ پیار آتا ہے۔

    اکثر ماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ننھے بچوں کی میچنگ میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑیں اور انہیں لباس کے ساتھ خوشنما رنگین جوتے بھی پہنائیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں شیر خوار بچوں کو جوتے پہنانا ان کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق شیر خوار بچوں کو جوتے پہنانا ان کی دماغی نشونما کو متاثر کرسکتا ہے۔

    میڈرڈ کی ایک یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ننگے پاؤں رہنے والے بچے زیادہ ذہین اور خوش باش رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ 1 دن سے 2 سال تک کا بچہ دنیا کو دریافت کرنے کے مرحلے میں ہوتا ہے۔ اس عمر کے دوران بچے نئی چیزوں کو دریافت کرتے ہیں اور انہیں نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں۔

    ایسے میں پاؤں کے اعصاب (نروز) بچے کی یادداشت اور دماغ میں معلومات جمع کرتے ہیں، لیکن جب بچے جوتے پہنتے ہیں تو ان کی حرکت اور محسوس کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوشش کریں جتنا ممکن ہو اپنے بچے کو ننگے پاؤں چلائیں، اگر فرش ٹھنڈا ہو تو بچے کو ہلکے موزے پہنائیں۔ ان کے مطابق بچے کی مختلف اقسام کی زمینوں پر چلنے کی حوصلہ افزائی کریں جیسے گھاس، یا ریت پر چلنے کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی اس دریافت کرنے کی عمر میں وہ جتنی زیادہ نئی چیزیں دیکھے گا اتنا ہی اس کی یادداشت اور ذہانت میں اضافہ ہوگا۔

  • کان چھدوانے کے طبی فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کان چھدوانے کے طبی فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    دنیا بھر میں خواتین کا کان چھدوانا معمول کی بات ہے، بعض اوقات مرد بھی اپنے کان چھدوانا اور اس میں مختلف زیورات پہننا پسند کرتے ہیں۔

    ہندو مذہب میں انسان کی زندگی میں جو 16 مذہبی و روایتی کام سر انجام دیے جانے ضروری ہیں، ان میں سے ایک کان چھدوانا بھی ہے۔ کان کو مختلف زیوارت سے سجانا نہ صرف شخصیت میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے، بلکہ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اس کے بے شمار طبی فوائد بھی ہیں۔

    دراصل کان کی لو جسم کے مختلف اہم حصوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، مختلف طریقہ علاج میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے کان کی لو نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کان چھدوانے کے کیا کیا فوائد ہیں۔

    دماغی نشونما میں معاون

    ماہرین کے مطابق بچوں کے کان چھدوانا ان کے دماغ کی بہتر نشونما میں مدد فراہم کرتا ہے۔ کان کی لو وہ مقام ہے جو دماغ کے بائیں حصہ کو دائیں حصے سے جوڑتی ہے لہٰذا اس مقام کو چھیدنا دماغ کو متحرک کرتا ہے۔

    ایکو پریشر کے اصولوں میں بھی دماغ کے خلیات کو صحت مند اور فعال بنانے کے لیے اسی مقام کو استعمال کیا جاتا ہے۔

    دماغی امراض میں کمی

    چونکہ کانوں کی لو کا دماغ سے گہرا تعلق ہے لہٰذا اس مقام پر دباؤ ڈالنا بہت سے دماغی امراض میں کمی کرتا ہے اور ان سے بچاؤ بھی فراہم کرتا ہے۔

    توانائی

    کہا جاتا ہے کہ مستقل طور پر کانوں میں بالیاں پہننے والے افراد کے جسم میں توانائی کا تناسب برابر رہتا ہے۔

    بہتر بینائی

    کانوں کی لو بینائی کا بھی مرکز ہے، اس حصے پر دباؤ ڈالنا بینائی میں بہتری پیدا کرتا ہے۔

    سماعت میں بہتری

    کان چھدوانا سماعت کو بھی بہتر کرتا ہے۔ کم عمری میں کان چھدوانا بڑی عمر میں کانوں میں بھنبھناہٹ اور سرسراہٹ محسوس ہونے کے مرض سے بچاتا ہے۔

    ہاضمے میں معاون

    کان کی لو پر دباؤ ڈالنا ہاضمے کے نظام کو بھی بہتر بناتا ہے۔ اس سے کھانا جلد ہضم ہوتا ہے جس سے موٹاپے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔

    تولیدی صحت میں بہتری

    ہندو آیورو ویدک کے مطابق کان کی لو کا مرکز، جسم کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کا تعلق تولیدی صحت سے ہے۔ کان چھدوائے جانا خواتین کی تولیدی صحت اور ماہانہ ایام کے سسٹم میں بہتری پیدا کرتا ہے۔

    مردوں کی زرخیزی میں اضافہ

    اسی طرح یہ عمل مردوں کی زرخیزی میں بھی اضافہ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض مذاہب و روایات میں چھوٹے بچوں کے کان چھدوائے جانا ایک لازمی عمل ہے۔

    کان چھدوانے کی صحیح عمر

    ماہرین طب کے مطابق دماغی و جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند یہ کام نہایت کم عمری میں ہی کردینا چاہیئے۔ اس کے لیے بچوں کی پیدائش کے دسویں، بارہویں یا سولہویں دن کا انتخاب کرلیا جائے، یا پھر بچوں کی عمر کے چھٹے، ساتویں یا آٹھویں مہینے میں ان کے کان چھدوائے دیے جائیں۔

    بچوں اور بچیوں کے کان چھیدنے میں فرق

    بعض روایات میں بچے کے کان چھیدتے ہوئے پہلے دایاں کان چھیدا جاتا ہے، اور بچی کے کان چھیدتے ہوئے پہلے بایاں کان چھیدا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ نظریہ کار فرما ہے کہ دایاں حصہ مردانہ اور بایاں حصہ زنانہ اوصاف کا حامل ہوتا ہے چنانچہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلے درست حصے کی طرف کا کان چھیدنا مخصوص اوصاف کو متحرک کرتا ہے۔

  • بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    اعصابی بیماری آٹزم دنیا بھر میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے، آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس مرض کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بچے کی نہایت کم عمری میں ہی اس میں آٹزم کا سراغ لگایا جاسکتا ہے، ایسے بچے بظاہر نارمل اور صحت مند دکھائی دیتے ہیں تاہم ان کی کچھ عادات ان کے آٹزم میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ وہ عادات یہ ہیں۔

    بار بار مٹھی کھولنا اور بند کرنا: یہ آٹزم کی نہایت واضح نشانی ہے۔

    اکثر پنجوں کے بل چلنا

    اپنے سر کو کسی چیز سے مستقل ٹکرانا: کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ بچے اپنے سر کو کسی سطح سے مستقل ٹکراتے ہیں۔

    لوگوں کے درمیان یا اجنبی جگہ پر مستقل روتے رہنا اور غیر آرام دہ محسوس کرنا

    اپنے سامنے رکھے پانی یا دودھ کو ایک سے دوسرے برتن میں منتقل کرنا

    بہت زیادہ شدت پسند اور ضدی ہوجانا

    آوازوں پر یا خود سے کی جانے والی باتوں پر دھیان نہ دے پانا: ایسے موقع پر یوں لگتا ہے جیسے بچے کو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا۔

    نظریں نہ ملا پانا: ایسے بچے کسی سے آئی کانٹیکٹ نہیں بنا پاتے۔

    بولنے اور بات کرنے میں مشکل ہونا

    کسی کھانے یا کسی مخصوص رنگ کے کپڑے سے مشکل کا شکار ہونا: ایسے بچے اکثر اوقات کپڑے پہنتے ہوئے الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کپڑے کے اندرونی دھاگے انہیں بے چینی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بچے نظر بچا کر کپڑوں کو الٹا کر کے بھی پہن لیتے ہیں۔

    مزید رہنمائی کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔

  • نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے ایک کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، اور اس کے لیے وہ تمام کوششیں بروئے کار لاتے ہیں۔

    اکثر والدین کو لگتا ہے کہ ہر وقت سختی کا رویہ بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے مگر ان کی یہ سوچ ان کے بچوں کو بڑے ہو کر شدید قسم کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنا، ان پر چیخنا چلانا، ان کی بات کو رد کرنا اور ان کے معصوم جذبات کا خیال نہ رکھنا ان پر ذہنی تشدد کے برابر ہے۔

    تحقیق کے مطابق بچپن میں اس طرح کا ذہنی تشدد سہنے والے بچے بڑے ہو کر بے شمار نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے اینگزائٹی، ڈپریشن، ٹراما اور خودکش خیالات کے حامل ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کئی جسمانی مسائل جیسے سر میں درد،جسم میں درد اور ہاضمے کے مسائل بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف والدین ہی بچوں پر ذہنی تشدد کے باعث نہیں، والیدن کے علاوہ دیگر رشتے دار، پڑوسی، اسکول میں دوست یا ٹیچر یا باہر سے آنے والے افراد بھی والدین سے نظر بچا کر بچوں کے ساتھ برا سلوک کر سکتے ہیں۔

    ایسے افراد کے سامنے بچے نہایت غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آپ انجانے میں ایسے ضرر رساں افراد پر اپنے بچے کے حوالے سے بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر والدین کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔