Tag: بچے

  • قیدیوں کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بڑی خبر، ملک کا پہلا پروگرام شروع

    قیدیوں کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بڑی خبر، ملک کا پہلا پروگرام شروع

    کراچی: سندھ حکومت نے قیدیوں کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پاکستان کا پہلا پروگرام شروع کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی طرف سے سزا یافتہ قیدیوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کے لیے پاکستان کا پہلا پروگرام شروع کر دیا گیا۔

    پیغام پاکستان کے اشتراک سے قیدیوں کے 10 ہزار سے زائد بچوں کو پرائمری سے یونیورسٹی تک کی تعلیم میں مدد کی جائے گی، اس ضمن میں سینٹرل جیل کراچی میں منعقد ہونے والی تقریب میں وزیر تعلیم سندھ سردار علی شاہ اور وزیر جیل خانہ جات حسن علی زرداری نے شرکت کی۔

    پرائمری سے یونیورسٹی تک مفت تعلیم دینے کے حوالے سے یہ پروگرام محکمہ تعلیم سندھ، محکمہ جیل خانہ جات اور پیغام پاکستان کی مشترکہ کاوش سے شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت سندھ کی جیلوں میں قید 4684 سزا یافتہ قیدیوں کے بچوں کو پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی جائے گی۔

    پہلے مرحلے میں 100 بچوں کے اسکول ایڈمیشن لیٹرز جاری کر دیے گئے ہیں، جب کہ 2638 بچوں کا ڈیٹا بھی جمع کر لیا گیا ہے، جس کے تحت ان کے خاندان کی مشاورت سے ان کو داخلہ لیٹرز دیے جائیں گے۔ صوبائی وزیر تعلیم کے مطابق قیدیوں کے بچوں کو اسکول سے یونیورسٹی تک تعلیم دلوانے میں مدد کرنے والا یہ دنیا کا پہلا ماڈل ہے۔

    اس پروگرام کے تحت قیدیوں کے بچوں کا ڈیٹا لیا جا رہا ہے، جس کی بنیاد پر خاندان کی مرضی کے مطابق اسکول اور یونیورسٹی تک تعلیم میں 10 ہزار سے زائد بچوں کی مدد کی جائے گی، قیدیوں کے بچے سرکاری یا نجی اسکول یا یونیورسٹی کا انتخاب اپنی اپنی مرضی سے کر سکیں گے۔

    وزیر جیل خانہ جات سندھ علی حسن زرداری کے مطابق اس پروگرام کی مدد سے بچہ جیل میں قید بچوں کی تعلیم اور ہنر سیکھنے میں بھی مدد کی جائے گی، اس وقت سندھ میں 14 سزا یافتہ بچے قیدی ہیں جب کہ 56 بچے اپنے ماؤں کے ساتھ جیل میں رہ رہے ہیں، ان کی تعلیم کے لیے بھی اقدامات جاری ہیں۔

    پیغام پاکستان کے آرگنائزر پروفیسر محمد معراج صدیقی کے مطابق پروگرام کے تحت قیدیوں کے بچوں کو کاروبار کرنے کے لیے 5 لاکھ روپے تک کی مائکرو فنانسنگ اور سزا یافتہ قیدیوں کے خاندان کو ماہانہ 12 ہزار روپے تک کی معاونت فراہم کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ سندھ کے جیلوں میں 24 ہزار قیدی ہیں، جس میں سے 4102 سزا یافتہ قیدی ہیں، جب کہ 582 سزائے موت کے قیدی ہیں۔ ضمیر نامی قیدی نے اپنے تاثرات میں کہا آج ان کے لیے یہ بے حد خوشی اور اطمینان کا دن ہے جب ان کی غیر موجودگی میں ان کے بچے اسکول جائیں گے۔

  • یکم جنوری 2025 سے پیدا ہونے والی بچے کیا کہلائیں گے؟ حیرت انگیز معلومات

    یکم جنوری 2025 سے پیدا ہونے والی بچے کیا کہلائیں گے؟ حیرت انگیز معلومات

    دنیا میں ہر سیکنڈ اوسطاً 4.2 بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ یک جنوری 2025 سے 2039 تک کے دوران پیدا ہونے والی بچے کیا کہلائیں گے؟

    امریکی مردم شماری بیورو کے مطابق دنیا میں ہر سیکنڈ اوسطاً 4.2 بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے۔ یوں یومیہ دنیا کی آبادی لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ بڑھ رہی ہے۔ تاہم آج یعنی یکم جنوری 2025 سے 2039 تک 15 سال کے دورانیے میں پیدا ہونے والے بچے ایک الگ جنریشن کہلائیں گے۔

    دنیا میں عام طور پر کسی بھی نسل کا نام اس وقت کے تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی واقعات کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے۔ کسی نسل کی شروعات اور اختتام اس وقت کے کسی بڑے واقعہ (جنگ، اقتصادی ترقی یا پھر کوئی بڑی ٹکنالوجی تبدیلی) کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہ نسل عام طور پر 15 سے 20 سال کی مدت کی ہوتی ہے۔ 20 ویں صدی کے آغاز سے ہر نسل کو نیا نام دیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آج یعنی یکم جنوری 2025 سے ‘جنریشن بیٹا’ (Gen Beta) کا دور شروع ہو چکا ہے جو 14 سال یعنی 2039 تک جاری رہے گا۔ اس لیے آج سے اگلے 15 برس تک پیدا ہونے والا ہر بچہ اسی نئی نسل کا حصہ ہو گا۔ جس کو ’’جنریشن بیٹا کڈز (BETA KIDS)‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ بچے ایسی دنیا میں بڑے ہوں گے جہاں ٹیکنالوجی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہوگی۔ اس نسل کی زندگی میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا دخل زیادہ ہوگا۔

    جدید دنیا میں سب سے پہلے جس نسل انسانی کو نام دیا گیا وہ 1901 سے 1927 کے درمیان پیدا ہوئی۔ اس نسل کو ’’ دی گریٹیسٹ جنریشن‘‘ کا نام دیا گیا۔

    اس دورانیے میں پیدا ہونے والے افراد کے زیادہ تر لوگوں نے عالمی مندی (گریٹ ڈپریشن) کا دور جھیلا۔ اس دور میں پیدا ہونے والے زیادہ تر بچے فوج میں گئے اور دوسری عالمی جنگ کا حصہ بنے۔ اسی لیے اس دورانیے کی نسل کو گریٹیسٹ جنریشن کا نام دیا گیا۔

    اس کے بعد جو مختلف ادوار ہوئے اس میں آنے والی نسلوں کو درج ذیل نام دیے گئے۔

    45-1928 کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو ’’دی سائلینٹ جنریشن‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نسل نے بھی عالمی مندی کے ساتھ دوسری عالمی جنگ کو دیکھا اور خود انحصاری اختیار کی۔

    64-1946 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کو ’’بے بی بومرس‘‘ جنریشن کا نام دیا گیا۔ اس کی وجہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونا تھا۔ اس نسل نے دقیانوسیت کو ترک کر کے جدیدیت کو اوڑنا بچھونا بنایا اور اپنی نسل کی نئے طریقے سے پرورش کی۔

    80-1965 کی ڈیڑھ دہائی میں پیدا ہونے والی نسل ’’جنریشن ایکس‘‘ کہلاتی ہے۔ اس عہد میں انٹرنیٹ اور ویڈیو گیم کی شروعات ہوئیں مگر ٹیکنالوجی اس نسل کے لیے بھی نئی تھی۔ اس نسل کے لوگوں نے دنیا کو تیزی سے بدلتے دیکھا۔

    96-1986 کی مدت میں پیدا ہونے والے بچوں کو ملینیلس یا جنریشن وائی کا نام دیا گیا۔ اس نسل کے لوگوں سے ٹیکنالوجی کے ساتھ خود کو اپ ڈیٹ کرنا سیکھا۔

    2009-1997 کے دوران آنے دنیا میں آنکھ کھولنے والوں کو پیدائش کے فوری بعد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسا پلیٹ فارم ملا اور انہوں نے ڈیجیٹل عہد میں پرورش پائی۔ اس لیے اس نسل کو جنریشن زیڈ کا نام دیا گیا۔

    اس عہد کی نسل اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرتی۔ یہ نسل انٹرنیٹ کا استعمال کر کے پیسہ کمانے کا گر بھی اچھے طریقے سے جانتی ہے۔

    24-2010 کے 15 سال کے دوران پیدا ہونے والے بچے الفا جنریشن کہلائے۔ یہ دنیا کی پہلی نسل تھی، جن کی پیدائش سے قبل ہی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پلیٹ فارم تھا۔ اس نسل کے والدین بھی انٹرنیٹ، موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ساتھ بڑے ہوئے۔

    Urdu Blogs-  اردو بلاگز

  • غزہ میں ایک ہفتے کے دوران ٹھنڈ سے 7 بچے خالق حقیقی سے جا ملے

    غزہ میں ایک ہفتے کے دوران ٹھنڈ سے 7 بچے خالق حقیقی سے جا ملے

    غزہ: خون جماتی سردی غزہ والوں کے لیے امتحان بن گئی ہے، غزہ میں ایک ہفتے کے دوران ٹھنڈ سے 7 بچے خالق حقیقی سے جا ملے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں کمبل اور طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث ایک ہفتے کے دوران ٹھٹھرکر سات بچے جاں بحق ہو گئے۔

    فلسطینی مائیں بچوں کی جان بچانے کے لیے تڑپتی رہیں لیکن اسرائیلی جارحیت کے باعث ان تک امداد نہ پہنچ سکی، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل امداد پہنچانے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، اور امداد نہ ملنے کے باعث بچے بھوک اور ٹھنڈ سے شہید ہو رہے ہیں۔

    شدید سردی میں بارش نے غزہ والوں کی مشکلات مزید بڑھا دی ہے، دیرالبلح میں خیمیں اڑ گئے، جب کہ متعدد خیموں میں پانی بھر گیا، بچے اور بوڑھے سردی میں خیموں سے پانی نکالنے میں مصروف ہیں۔

    دوسری طرف اسرائیلی بمباری تھمنے کا نام نہیں لے رہی، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 27 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

    حماس کی بڑی کارروائی، کئی اسرائیلی فوجی ہلاک

    فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا نے طبی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ سردی سے شہید ہونے والوں میں دو ایسے جڑواں بھائی بھی شامل ہیں جو ایک ماہ قبل ہی پیدا ہوئے تھے، ان میں سے ایک ماہ کا علی البطران پیر کے روز وسطی غزہ کے الاقصیٰ شہدا اسپتال میں درجہ حرارت میں گراوٹ کی وجہ سے انتقال کر گیا، جب کہ ایک ہی دن قبل اس کا جڑواں بھائی جمعہ البطران دیر البلح کے بے گھر خاندان کے خیمے میں سردی سے جاں بحق ہو گیا تھا۔

    درندہ صفت اسرائیلی فورسز نے غزہ کے تقریباً 23 لاکھ تمام کے تمام باشندوں کو بے گھر کر دیا ہے، اور ان میں سے دسیوں ہزار ایسے ساحل پر عارضی خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں بارشیں ہو رہی ہیں اور تیز طوفانی ہوائیں چلتی ہیں۔

  • دنیا کا ہر چھٹا بچہ بندوق کی گولی کے سائے تلے رہنے پر مجبور

    دنیا کا ہر چھٹا بچہ بندوق کی گولی کے سائے تلے رہنے پر مجبور

    نیویارک: یونیسیف نے 2024 کو بچوں کے لیے بدترین سال قرار دے دیا ہے، اور ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ سال یونیسیف کی تاریخ کے بدترین سالوں میں سے ایک رہا۔

    اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے گزشتہ روز ایک تشویش ناک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے بچوں پر مسلح تصادم کے اثرات 2024 میں تباہ کن رہے اور یہ اثرات ماضی کی نسبت ایک ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے ہیں۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ اب پہلے سے کہیں زیادہ بچے یا تو جنگوں والے علاقوں میں رہ رہے ہیں، یا جنگوں اور تشدد کی وجہ سے زبردستی بے گھر ہوئے، یونیسیف کے مطابق اس وقت 47 کروڑ 30 لاکھ (473 ملین) بچے جنگی ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، یعنی دنیا کا ہر چھٹا بچہ بندوق کی گولی کے سائے تلے رہنے پر مجبور ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سب سے زیادہ تنازعات کا سامنا کر رہی ہے، 1990 کے بعد دنیا میں تنازعات کے باعث متاثرہ بچوں کی تعداد دُگنی ہو گئی ہے، 1990 کی دہائی میں 10 فی صد بچے تنازعات کا شکار تھے، آج 19 فی صد بچے تنازعات سے متاثر ہیں۔

    جنگ زدہ علاقوں میں ریکارڈ تعداد میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، وہ مارے جا رہے ہیں، بڑی تعداد میں زخمی ہو رہے ہیں، اسکول چھوڑنے پر مجبور ہیں، زندگی بچانے والی ویکسین (حفاظتی ٹیکوں) سے محروم ہیں، اور شدید غذائی قلت کا شکار ہویں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس تعداد تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

    انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جتنی امداد دی جاتی ہے، اس کا تقریباً 80 فی صد جنگ زدہ علاقوں میں جا رہی ہے، جنگوں کی وجہ سے محفوظ پانی، خوراک اور صحت کی سروسز سمیت ضروری اشیا تک رسائی میں شدید خلل پڑتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 2023 کے آخر تک جنگوں کی وجہ سے 47.2 ملین بچے بے گھر ہو چکے تھے، 2024 میں جنگوں میں شدت آنے کی وجہ سے نقل مکانی میں بھی زبردست اضافہ ہوا، جیسا کہ ہیٹی، لبنان، میانمار، ریاست فلسطین اور سوڈان میں شہریوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔

    بچے عالمی آبادی کا 30 فی صد ہیں، لیکن اس کے باوجود جتنے لوگوں کو ہجرت کرنی پڑی اس کا اوسطاً تقریباً 40 فی صد بچے تھے، اور اندرونی طور پر جتنے لوگ بے گھر ہوئے ان میں 49 فی صد بچے تھے۔ جنگوں سے متاثرہ ممالک میں اوسطاً ایک تہائی سے زیادہ آبادی غریب ہے (34.8 فی صد) جب کہ تنازعات سے متاثر نہ ہونے والے ممالک میں یہ شرح صرف 10 فی صد ہے۔

    یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا کہ تقریباً ہر حوالے سے 2024 یونیسیف کی تاریخ میں جنگ زدہ علاقوں میں گھرے بچوں کے لیے ریکارڈ طور پر بدترین سالوں میں سے ایک رہا، خواہ وہ متاثرہ بچوں کی تعداد کے حوالے سے ہو یا ان کی زندگیوں پر اثرات کے حوالے سے۔

  • بچوں کو کس عمر میں موبائل فون دینا چاہیے؟ والدین توجہ کریں

    بچوں کو کس عمر میں موبائل فون دینا چاہیے؟ والدین توجہ کریں

    والدین کو بچوں کی دماغی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس عمر میں انھیں موبائل فون دینا چاہیے اس حوالے سے تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔

    اس وقت دنیا کا چاہے کوئی بھی ملک ہو اس میں بچوں میں موبائل فون کا استعمال تقریباً عام ہوگیا ہے، اس کی مد نظر رکھتے ہوئے سعودی ادارے العربیہ ڈاٹ نیٹ نے بچے کو پہلا اسمارٹ فون دینے کے لیے مناسب عمر کے حوالے سے بچوں کی نشوونما کے ماہرین کے ایک برطانوی ڈیلی میل پول کا جائزہ لیا۔

    والدین اور اسمارٹ فون
    اعداد و شمار بتاتےہیں کہ 10 سال کی عمر سے پہلے 65 فیصد بچے اسمارٹ فون کے مالک ہیں، یعنی کہ بچے اوائل عمری سے ہی اپنے فون استعمال کرتے ہیں، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ والدین پانچ سے سات سال کی عمر بچوں کو بھی موبائل فون دے رہے ہیں۔

    امریکہ میں ایک بچہ اوسطاً اپنا پہلا فون 11.6 سال کی عمر میں استعمال کرتا ہے، ساڑھے 12 سال کے بچوں میں تو تیزی سے فون رکھنے کی شرح بڑھ رہی ہے، وہ بچے جن کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہیں وہ والدین سے ٹیبلیٹ جیسے آلات لے کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔

    طویل مدتی نقصان
    برطانوی کمیونیکیشن ریگولیٹری باڈی ’آف کام‘ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تین سے چارسال کی عمر کے 90 فی صد بچے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے 84 فی صد یوٹیوب دیکھتے ہیں۔

    ان اسباب کی بنا پر اسمارٹ فونز جلد طویل مدتی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں، بچوں کی خدمات اور مہارتوں کے لیے تعلیمی دفتر آفسٹڈ کی چیف انسپکٹر امانڈا سپیلمین کا کہنا ہے کہ میں چھوٹے بچوں کے لیے انٹرنیٹ تک لامحدود رسائی کے حق میں نہیں۔

    انھوں نے کہا کہ میں بہت حیران ہوتی ہیں جب ابتدائی عمر کے بچوں کے پاس اسمارٹ فون ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ہائی اسکول میں بھی بچوں کے پاس فون ہوتے ہیں۔

    بچوں کی نشونما میں رکاوٹ
    سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ بچوں کو بہت جلد اسمارٹ فون دینا ان کی نشوونما کو روک سکتا ہے، اگرچہ یہ سائنسی بحث تاہم شواہد بتاتے ہیں کہ اسمارٹ فون کے استعمال سے نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    موجودہ تحقیق بتاتی ہے کہ چھ سال کی عمر بچپن کی نشوونما کے لیے ایک اہم نکتہ ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے کسی بچے کو کسی بھی قسم کا انٹرایکٹو میڈیا دینا مناسب نہیں ہو سکتا، یعنی کہ 6 سال سے پہلے بچے کو موبائل فون سے دور رکھا جائے۔

    بل گیٹس کی رائے
    مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچے کو 14 سال کی عمر تک اسمارٹ فون رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے جب تک دماغ اچھی طرح سے نشو نما نہ پاچکا ہو۔

    تحقیق سے پتا چلا کہ چھ سال سے کم عمر بچے اسمارٹ فونز استعمال کرتے ہیں تو یہ ان کی نیند میں خلل ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے اور اس کے اثرات خاصے حساس ہوسکتے ہیں، جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کا دماغ مکمل طور پر نشوونما پاتا ہے اور کم متاثر ہو سکتا ہے۔

    خودکشی کے خیالات
    مغربی سیپین لیبز ریسرچ گروپ کے سائنسدانوں کی تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایک بچہ اپنا پہلا فون جتنی دیر میں حاصل کرے گا، بالغ ہونے کے بعد اس کی ذہنی صحت اتنی ہی بہتر ہوگی۔

    اس کے برعکس بچہ جتنا چھوٹا ہوتا ہے جب وہ اپنا پہلا فون حاصل کرتا ہے، اس کے بعد کی زندگی میں خودکشی کے خیالات کا سامنا کرنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔

    والدین کا طرز عمل
    تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ والدین اپنے سیل فون کو کس طرح استعمال کرتے ہیں بچہ بھی اس چیز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے، تھائی تحقیق جس نے فون کے استعمال اور بچون کی خراب نشوونما کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی، اس میں اس بات کا انکشاف کیا گہا کہ والدین جتنا زیادہ وقت اپنے فون پر گزارتے ہیں بچے اتنا ہی زیادہ وقت اپنا فون استعمال کرتے ہیں۔

    ماہریں کہتے ہیں کہ والدین اگر اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو یہ بچوں کے ساتھ ان کی بات چیت کو متاثر کرتا ہے، اور یہ بات قابل تشویش ہوتی ہے۔

  • بچوں سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کرانے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟

    بچوں سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کرانے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟

    بچوں میں سیکھنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے، اگر شروع سے ان سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کرائے جائیں تو یہ آگے جاکر کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔

    آج کے دور کے بچے نہ صرف اپنی چھوٹی سی عمر میں پچھلی نسل کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار ہیں بلکہ ٹیکنالوجی نے ان کی ذہانت میں بھی اضافہ کیا ہے، بچوں کی کی صحیح تربیت اور رہنمائی کی جائے تو نہ صرف وہ مستقبل میں کامیاب ہونگے بلکہ کام کرنے کی عادت انھیں کافی فائدہ بھی پہنچائے گی۔

    بچوں کو اگر کم عمری سے ہی چھوٹے چھوٹے کاموں کرنے کا عادی بنائیں تو سب سے بڑا فائدہ والدین کو یہ ہوتا ہے کہ بچوں میں فرمانبرداری آجاتی ہے اور والدین کی باتیں سن کر اس پر عمل کرنے کی عادت بناتے ہیں۔

    اپنے کام خود کرنے کے باعث بچوں میں دوسروں پر انحصار کرنے کی عادت بھی کم ہوجاتی ہے اور یہ عادت پختہ ہوجائے تو یہ زندگی میں آگے چل کر بہت کام آتی ہے۔

    بچوں میں کھیلنے کودنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بچے صحتمند اور چاق و چوبند ہیں اس لیے انھیں کھیلنے سے نہ روکیں بلکہ کھیل ہی کھیل میں اپنا کام خود کرنے کی عادت سیکھانے کی کوشش کریں۔

    جیسے کھانے کی میز پر یا دسترخوان پر بچوں سے چھوٹے چھوٹے کام لیے جاسکتے ہیں، مثلاً بچوں سے پانی کا گلاس رکھوائیں یا انھیں پلیٹ لاکر رکھنے کو کہیں۔

    گھر کی صفائی ستھرائی کے دوران بھی بچوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان سے چھوٹے چھوٹے کام لیے جاسکتے ہیں، بچے اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے ہیں لہٰذا ان کے ہر کام پر حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ خوشی خوشی سیکھنے کا عمل انجام دیں۔

    اکثر چھوٹے چھوٹے کام بچے خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں، اسی طرح آہستہ آہستہ بچوں کو کئی اور کام خود کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ جو کام بھی کریں درست طریقے سے انجام دینے کے اہل ہوتے جائیں۔

    بچوں کو صبح اسکول جاتے وقت انھیں خود تیاری کرنے کے مواقع دیں، ناشتے کی تیاری میں بھی ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے ان کی یونیفارم، اسکول بیگ اور تمام چیزیں ان سے ہی چیک کروائیں تاکہ کسی کمی کی صورت میں اس کا ازالہ کیا جاسکے۔

    جب بچہ اسکول سے واپس آئے تو یونیفارم کی تبدیلی ہو یا کوئی اور کام وہ بچے سےکروائیں، انھیں ذہنی طور پر تیار کریں کہ کسی طرح وارڈروب سے کپڑے نکالنے اور دوبارہ سلیقے سے رکھنے ہیں۔

    بچوں کو غلطی کی صورت میں ڈانٹنے کے بجائے پیار سے سمجھائیں کہ بیٹا یہ کام اسطرح نہیں بلکہ اس طور پر انجام دیا جائے، کھانے کے بعد دسترخوان سے پلیٹیں اٹھوانے میں بھی بچوں کی مدد لیں۔

    جیسے جیسے بچوں کی عمر بڑھے ان پر ذمہ داری بھی بڑھائیں تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو مگر ان میں ذمہ داری بڑھانے میں جلدبازی کا مظاہرہ نہ کریں، بالخصوص بچیوں پر خاص توجہ دیں کیونکہ مستقبل میں انھیں دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ بچوں کی پرورش بھی کرنی ہے۔

  • کیا ویڈیو گیمز سے بچوں کی ذہنی حالت خراب ہو جاتی ہے؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    کیا ویڈیو گیمز سے بچوں کی ذہنی حالت خراب ہو جاتی ہے؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ جو بچے کھیل کے میدان کی بجائے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ پر زیادہ وقت گزارتے ہیں اور ویڈیو گیمز کے عادی ہیں، ان کے دماغ پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے دن بھر کمرے میں بیٹھ کر گیم میں مگن رہتے ہیں، اور بغیر پلک جھپکائے لمبے وقت تک موبائل پر ویڈیو گیمز کھیلتے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کا دماغ ٹھیک سے کام کرنے کی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔

    صحت کے ماہرین کے مطابق موبائل فون پر زیادہ دیر تک گیم کھیلنے کی وجہ سے ذہن پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے جس سے بچوں کو سر درد، بے چینی اور بھاری پن محسوس ہونے لگتا ہے، جس کے سبب پڑھائی میں ان کا دل بھی نہیں لگتا کیوں کہ ان کے ذہن پر ویڈیو گیمز حاوی رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو اس صورت حال میں توجہ دینی ہوگی، کیوں کہ اس سے بچوں کی ذہنی صحت خراب ہو رہی ہے، وہ چڑچڑے ہوتے جا رہے ہیں، اور ویڈیو گیمز کی وجہ سے بچے خاندان اور معاشرے سے بھی بالکل کٹ رہے ہیں۔

    رات کو دیر تک موبائل فون پر آن لائن گیمز کھیلنے کی وجہ سے آنکھوں پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بینائی متاثر ہو جاتی ہے، اور نیند کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، جس سے انھیں دن بھر تھکن اور بوریت کا احساس ستاتا رہتا ہے، والدین اور دوستوں سے دوری کی وجہ سے انھیں تنہائی کا احساس بھی ہونے لگتا ہے، یوں وہ اداس اور جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کا اسکرین ٹائم کم کرنے کی کوشش کریں، اور اسکرین ٹائم 2 گھنٹے سے زیادہ نہ ہونے دیں۔ ماہرین نے یہ دل چسپ حل بھی بتایا ہے کہ والدین بالخصوص مائیں اپنے بچوں کو گھر یعنی کچن کے چھوٹے موٹے کام میں پیار اور حکمت سے مشغول کروائیں، اور باہر کے کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں۔

    والدین خود بھی موبائل فون کا استعمال کم کر دیں، اور اپنے عمل سے بتائیں کہ یہ بھی دوسری چیزوں کی ایک چیز ہے جسے ضرورت کے وقت ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • بچے نے نٹ نگل لی، پھر کیا ہوا؟

    بچے نے نٹ نگل لی، پھر کیا ہوا؟

    طائف میں ایک دو سالہ بچے نے دھاتی نٹ نگل لی جس کے بعد بچے کی طبعیت بگڑ گئی۔

    سبق ویب سائٹ کے مطابق طائف میں کنگ عبدالعزیز اسپیشلسٹ اسپتال کے ڈاکٹروں نے دھاتی نٹ نگلنے والے دو سالہ بچے کی غذائی نالی سے نٹ نکال کر اس کی جان بچائی۔

    طائف کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ دو سالہ بچہ بہت بری حالت میں اسپتال لایا گیا تھا وہ مسلسل قے کررہا تھا، کھانے پینے سے قاصر تھا جبکہ بچہ گردن میں شدید درد میں مبتلا تھا۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ بچے کی صحت صورتحال اور ایکسرے کرانے  کے بعد پتہ چلا کہ بچے نے کوئی ایسی چیز نگلی ہوئی ہے جس کی شکل دھاتی نٹ جیسی ہے۔

    10 روز سے سیوریج لائن میں پھنسی بلی کو بچالیا گیا

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ والدین کو  اس حوالے سے پتہ ہی نہیں تھا کہ ان کا بچے تکلیف میں کیوں مبتلا ہے اور بچے نے یہ نٹ کب نگلا۔

    کنگ عبدالعزیز اسپیشلسٹ اسپتال کے ڈاکٹر آلا الھذلی نے دھاتی نٹ نکالنے کے لیے بچے کا آپریشن کیا گیا، اسپیشل آلے کی مدد سے بچے کے حلق سے دھاتی نٹ نکال لیا گیا۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اب بچے کی حالت بہتر ہے اور اسے اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ہے۔

  • پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت کے رجحان میں اضافہ

    پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت کے رجحان میں اضافہ

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے جبری مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 5 میں سے 1 بچہ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 16 کروڑ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

    اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی جنگیں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات، اور ہجرتیں ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔

    کووڈ 19 کی وبا نے بھی دنیا کی مجموعی غربت میں اضافہ کیا ہے اور کم آمدن والے طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔

    پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے، اسکول جانے سے محروم افراد کی تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ ہے اور یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں آؤٹ آف اسکول بچوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر کھڑا کردیتی ہے۔

    تعلیم سے محروم ان بچوں کی بڑی تعداد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے جن کی تعداد اندازاً 1 کروڑ 20 لاکھ ہے۔

    ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔

    ان کے مطابق لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے، اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہوگا۔

    پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیمی سہولیات کا استطاعت سے باہر ہونا اور غربت مزید بچوں کو جبری مشقت کی دلدل میں دھکیل سکتی ہے۔

  • لڑائی کے بعد میاں بیوی گھر چھوڑ گئے، ننھے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ دیا

    لڑائی کے بعد میاں بیوی گھر چھوڑ گئے، ننھے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ دیا

    کویت سٹی: کویت میں مقیم ایک مصری جوڑا آپس میں لڑائی کے بعد ایک ایک کر کے گھر چھوڑ گیا جبکہ گھر میں 6 بچوں کو اکیلا چھوڑ دیا، بچوں میں 3 ماہ کی شیر خوار بچی بھی شامل ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق کویت میں مقیم مصری جوڑا جھگڑے کے بعد اپنے دوستوں کے یہاں منتقل ہوگیا جبکہ اپنے 6 بچوں کو گھر میں تنہا چھوڑ دیا، پولیس نے بچوں کی نگہداشت میں لاپرواہی پر والدین کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

    کویتی وزیر داخلہ شیخ طلال الخالد نے رپورٹ ملنے پر مصری جوڑے اور ان کے بچوں کے اقاموں میں توسیع نہ کرنے اور تعلیمی سال کے اختتام تک عارضی اقامہ جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

    سماجی پولیس نے وزیر داخلہ کو رپورٹ دی تھی کہ مصری جوڑے میں اختلافات تھے، پہلے بچوں کا والد اپنے ایک دوست کے یہاں منتقل ہوگیا کچھ دنوں بعد والدہ بھی فلیٹ چھوڑ کر چلی گئی۔

    بچوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام نہیں تھا، ایک بچی 3 ماہ کی ہے۔ والدین کے جانے کے بعد دو بڑے بچوں نے شیر خوار بچی کی نگہداشت کی۔ ان میں سے ایک اسکول جاتا جبکہ دوسرا گھر میں رک کر اپنی بہن کی دیکھ بھال کرتا۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک بچے نے وزارت داخلہ آپریشن روم سے رابطہ کر کے صورتحال سے آگاہ کیا جس پر پولیس نے بچوں کے والد کو طلب کرلیا۔

    بچوں کے والد نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بے روزگار تھا، اسی وجہ سے اہلیہ کے ساتھ جھگڑے ہو رہے تھے۔ تھک ہار کر چار ماہ قبل گھر چھوڑ کر ایک دوست کے پاس چلا گیا تھا۔

    اہلیہ نے اس دوران بچوں کی نگہداشت کی کوشش کی لیکن آخرکار وہ بھی ہمت ہار گئی اور بچوں کو چھوڑ کر اپنی ایک سہیلی کے یہاں منتقل ہوگئی۔

    کویتی پولیس کا کہنا تھا کہ شیر خوار بچی کی نگہداشت میں لاپرواہی پر مصری جوڑے کے خلاف کیس درج کرلیا گیا۔

    پولیس کے مطابق فیملی کے اقاموں میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے تاہم تعلیمی سال کے اختتام تک انہیں عارضی اقامہ جاری کردیا گیا ہے، تعلیمی سال مکمل ہونے پر فیملی کو بے دخل کردیا جائے گا۔