Tag: بچے

  • بچے کی پیدائش میں غلطی، والدین نے کلینک پر مقدمہ کردیا

    بچے کی پیدائش میں غلطی، والدین نے کلینک پر مقدمہ کردیا

    واشنگٹن : متاثرہ خاندان نے عدالت میں دائر کردہ مقدمے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئی وی ایف سنٹر نے طبی ذمہ داریاں نبھانے میں غفلت برتی جس کے باعث ہمارے ہاں دوسرے والدین (دوسری نسل) کے بچے پیدا ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ میں مقیم ایک ایشیائی خاندان نے ’ان وٹرو فرٹیلائیزیشن‘ (آئی وی ایف) کے ذریعے پیدا ہونےوالے بچوں کی دوسری نسل سے مشابہت کے باعث علاج کرنے والی کلینک پر مقدمہ دائر کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایشیائی جوڑے نے 2012 میں شادی کی تھی، تاہم ان کے ہاں حمل نہیں ٹھہرتا تھا، جس کے باعث جوڑے نے بچوں کی پیدائش کےلئے مصنوعی طریقہ (آئی وی ایف) استعمال کیا۔آئی وی ایف کے دوران بچوں کا تولیدی عمل مصنوعی طریقے سے کیا جاتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہناتھا کہ مصنوعی طریقے سے بچوں کی پیدائش کا عمل دنیا بھر میں رائج ہے اور بیشمار جوڑے اس سے مستفید ہو رہے ہیں، اس طریقے سے دنیا کی معروف شخصیات بھی مستفید ہوتی رہی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آئی وی ایف کے ذریعے دوسری نسل کے بچے پیدا ہونے پر کلینک پر مقدمہ کرنےوالے ایشیائی جوڑے نے دعویٰ کیا کہ ان کے ہاں پیدا ہونےوالے بچے ایشیائی نسل سے نہیں ہیں۔

    متاثرہ جوڑے نے لاس اینجلس کے آئی وی ایف کے معروف سینٹر ’چا آئی وی ایف‘ پر دائر کئے گئے مقدمے میں ڈاکٹرز پر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی خلاف ورزی اور جوڑے کو جان بوجھ کر جذباتی تکلیف دینے کے الزامات لگائے ہیں۔

    فیملی نے مقدمے میں آئی وی ایف سینٹر کے 2 افراد کو مالک اور ڈائریکٹر کے طور پر نامزد کرکے ان پر طبی ذمہ داریاں نبھانے میں غفلت کا الزام لگایا ہے۔

    ایشیائی جوڑے نے نیویارک کی عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے اپنے نام وائی زیڈ اور اے پی کے طور پر ظاہر کئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ڈی این اے سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پیدا ہونےوالے بچے ان کے نہیں۔

    جوڑے کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئی وی ایف کا علاج کروانے کے دوران ایک لاکھ امریکی ڈالر یعنی پاکستانی ڈیڑھ کروڑ روپے تک خرچ کیا اور انہیں علاج کے ابتدائی چند ماہ میں ہی علاج میں غفلت کا اندیشہ ہوا۔

    ان کے مطابق انہوں نے علاج کے دوران حمل ٹھہرنے کے بعد ٹیسٹ کروایا تھا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کے ہاں بچیوں نہیں بلکہ بچوں کی پیدائش ہوگی۔

    جوڑے نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ٹیسٹ کے نتائج سے کلینک کو آگاہ کیا تاہم کلینک نے بتایا کہ ٹیسٹ درست نہیں آیا ہوگا۔ایشیائی جوڑے نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے بیٹوں نہیں بلکہ بیٹیوں کی پیدائش کےلئے علاج کروایا تھا اور انہیں درست علاج ہونے کی یقین دہائی کروائی گئی تھی۔

    مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے ہاں پیدا ہونےوالے بچے دوسرے والدین کے ہیں اور ان کے ہاں غلط آئی وی ایف استعمال کیا گیا۔جوڑے کی جانب سے مقدمہ دائر کرائے جانے پر آئی وی ایف کلینک نے تاحال کوئی بیان نہیں دیا۔

  • اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان سے گھر کے کام کروائیں

    اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان سے گھر کے کام کروائیں

    اکثر بچوں کو جب کوئی کام کہا جائے تو وہ سستی و آلکسی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں اور پھر نظر بچا کر اس کام کو چھوڑ کر دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    اگر آپ بھی ایسے ہی بچوں کے والدین ہیں تو پھر یقیناً آپ کو اس معاملے میں اپنی کوششیں تیز کردینی چاہئیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر کا کام کرنے والے بچے بڑے ہو کر کامیاب انسان بنتے ہیں۔

    اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر جولی ہیمز کے مطابق جب آپ اپنے بچوں سے گھر کے مختلف کام کرواتے ہیں، جن میں برتن دھونا، صفائی کرنا (خاص طور پر اپنے کمرے کی صفائی کرنا) یا اپنے کپڑے دھونا تو دراصل آپ انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ کام کرنے ضروری ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہیں۔

    جولی کہتی ہیں کہ جب بچے یہ کام نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر کا کوئی دوسرا فرد یہ کام انجام دے رہا ہے، یوں بچے نہ صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی نہیں سیکھ پاتے کہ گھر کے کام ہوتے کیسے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    ان کا کہنا ہے کہ جب بچے دیگر افراد کے ساتھ مل کر گھر کے کام کرتے ہیں تو ان میں ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہوتی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

    ایسے بچے بڑے ہو کر اکیلے مختلف ٹاسک لینے اور انہیں پورا کرنے سے بھی نہیں گھبراتے اور یہ تمام عوامل کسی انسان کو کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔

    کون والدین ایسے ہوں گے جو اپنے بچوں کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے، یقیناً آپ بھی اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہوں گے تو پھر آج ہی سے کامیابی کی طرف بڑھنے والا یہ قدم اٹھائیں۔

  • بچے ہمارا مستقبل ہیں، انہیں تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے، عثمان بزدار

    بچے ہمارا مستقبل ہیں، انہیں تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے، عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بچوں سے زیادتی اور غیراخلاقی ویڈیوز کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں سے زیادتی اورغیراخلاقی ویڈیو بنانے پرسخت نوٹس لیتے ہوئے زیادتی اور غیراخلاقی ویڈیوز کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کردی۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ گھناؤنے واقعات روکنے پرقابل عمل اور جامع ایکشن پلان مرتب کیا جائے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ بچوں سے زیادتی اور غیراخلاقی ویڈیوزکے واقعات پر بہت تشویش ہے، بچے ہمارا مستقبل ہیں، انہیں تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ پولیس ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرے، آر پی اوز اور ڈی پی اوز ایسے واقعات کا سدباب یقینی بنائیں۔

    پاکپتن: 4 سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل، ملزم گرفتار

    یاد رہے کہ رواں ماہ 16 جون کو پاکپتن کے گاؤں مگھر میں 4 سالہ بچی کے اغوا اور قتل میں ملوث ملزم کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

    ڈی پی او پاکپتن کا کہنا تھا کہ درندہ صفت ماموں نے بھانجی کو زیادتی کے بعد قتل کیا تھا، ملزم کی نشاندہی پر کھیتوں سے بچی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

  • کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔ ان پر اپنے بچے کی تربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی تربیت ہی معاشرے میں ایک اچھے یا برے شخص کا اضافہ کرے گی۔

    تاہم بعض افراد اس ذمہ داری کا مطلب نہایت غلط انداز سے لیتے ہیں اور اپنے بچے کے لیے نہایت حساس ہوجاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ صرف بچے کی نگرانی کرنا اور اس کے ہر کام میں مداخلت کرنا ہی ان کی ذمہ داری ہے۔

    یہ انداز تربیت بچوں کی شخصیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور ان کی شخصیت میں منفی پہلو پیدا کرتا ہے۔

    ماہرین نفسیات ایسے انداز تربیت کو ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ اور ایسے والدین کو ہیلی کاپٹر والدین کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ ہیلی کاپٹر کی طرح ہر وقت اپنے بچوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں ہیلی کاپٹر والدین کی وہ کون سی عادات ہیں جس سے وہ لاعلمی میں اپنے بچوں کا نقصان کر رہے ہیں۔

    ہیلی کاپٹر والدین بچوں کے چھوٹے چھوٹے کام خود کرتے ہیں۔

    یہ بچوں کے ہوم ورک اور اسکول کے پروجیکٹس بھی خود کرتے ہیں۔

    ایسے والدین اساتذہ کو مشورے دینے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ ان کے بچوں کو کیسے پڑھانا ہے۔

    اگر بچے کی دوستوں کے ساتھ لڑائی ہوجائے تو اس میں دخل اندازی کرتے ہیں۔

    بچہ کوئی نیا کام یا تجربہ کرنا چاہے تو ناکامی کے ڈر سے اسے منع کر دیتے ہیں۔

    اگر بچے کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو فوراً اس کی مدد کو پہنچتے ہیں یوں بچہ ہمیشہ والدین پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    بچے کے کھیل سے لے کر تعلیمی سرگرمیوں تک دخل اندازی کرنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

    یہ سلسلہ بڑے ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے، ایسے والدین بچے کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی دخل اندازی کرنے سے باز نہیں آتے اور اس کے پروفیشنل پروفائل اور انٹرویو کی تیاری اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔

    ایسے والدین بچوں کی شادی شدہ زندگی میں بھی مداخلت کرتے ہیں یوں جوڑے کے آپس میں اور بعض اوقات بچوں اور والدین کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    بچوں پر اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟

    ہیلی کاپٹر والدین کے بچے سست ہوجاتے ہیں اور ان سے اپنا کوئی کام کرنا محال ہوجاتا ہے۔

    بچے بڑے ہونے کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے سے کتراتے ہیں اور عدم اعتمادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچہ ذاتی اور پیشہ ورانہ کاموں کو خود منظم نہیں کر پاتا کیونکہ انہیں ایسا کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔

    بچہ آرام دہ ماحول کا عادی ہوجاتا ہے۔

    بچہ خود مختار نہیں ہو پاتا اور والدین پر انحصار کرتا ہے۔

    بچہ کسی سے صحت مندانہ تعلقات بنا نہیں پاتا اور تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔

    اپنی زندگی کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کے بعد بچہ (جو اب بڑا ہوچکا ہوتا ہے) مایوسی، پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے خصوصاً اگر وہ ایسے موڑ پر ہو جب والدین اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں۔

    یاد رکھیں، والدین کی ذمہ داری صرف بچے کو مشکلات سے بچانا نہیں ہے۔ مشکلات ہر شخص کی زندگی میں آتی ہیں چاہے ان سے بچنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے۔

    اہم یہ ہے کہ مشکل وقت کو گزارا جائے اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جائے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ بچے کو بغیر کسی سہارے کے اپنی سمجھ بوجھ اور حالات کے مطابق مشکلات کا سامنا کرنا سکھائیں۔

  • لاہور: ماؤں اور بچوں‌ کے لیے مصوری کی انوکھی کلاس

    لاہور: ماؤں اور بچوں‌ کے لیے مصوری کی انوکھی کلاس

    لاہور: شہر لاہور میں‌ ایک ایسی انوکھی کلاس کا انعقاد کیا گیا، جہاں ماؤں اور بچوں‌ نے ساتھ ساتھ مصوری کی تربیت حاصل کی.

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی ایک منفرد کلاس میں بچوں کے ساتھ ساتھ مائیں بھی اسکیچنگ کی تربیت حاصل کر رہی ہیں.

    اس بلامعاوضہ ورک شاپ کا اہتمام مصورہ سحر جبیں نے کیا، جن کا کہنا تھا کہ اس عمل کا مقصد بچوں‌ اور ان کی ماؤں کو ایک انوکھا تجربہ فراہم کرنا تھا.

    کلاس میں‌ خواتین اپنے بچوں‌ کے ساتھ اسکیچنگ کرتی دکھائی دیں. ایک جانب جہاں بچوں‌میں تجسس تھا، وہاں ان کے ماؤں نے بھی دل چسپی کا مظاہرہ کیا اور چند سبق سیکھ کر اسیکچنگ شروع کر دی.

    خواتین کا کہنا تھا کہ اس تجربے سے ان کے اسکول کے زمانے کی یادیں تازہ ہوگئیں، اب وہ بچوں کو بہتر انداز ڈرائنگ سکھا سکتی ہیں.

    اس ورک شاپ میں بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے امیاں بھی کاغذ پر آنکھ، ناک کان بناتی نظر آئیں. ورک شاپ دو گھنٹے جاری رہی.

  • نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    امریکا میں گزشتہ چند دہائیوں میں زچگی کے دوران خواتین کی موت کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجوہات میں طبی عملے کی غفلت اور نسلی امتیاز جیسے حیران کن عوامل شامل ہیں۔

    امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا میں بسنے والی سیاہ فام خواتین میں حمل کے دوران موت کا خطرہ، سفید فام خواتین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سیاہ فام طبقے کے لیے طبی عملے کی لاپرواہی اور ان کی کمزور معاشی حالت ہے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام طبقے کو طبی عملے کا امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    زچگی کے دوران خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات صرف سیاہ فام خواتین تک ہی محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام امریکی ماؤں کے لیے حمل کے دوران خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر امریکی عورت کو حمل کے دوران، اپنی والدہ کے مقابلے میں 50 فیصد زائد سنگین طبی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل زچگی کے دوران اموات کی وجہ زیادہ خون بہنا اور انفیکشن ہوتا تھا، تاہم اب امریکی مائیں موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب، اور سی سیکشن کی شرح میں اضافے کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر سنہ 1990 سے 2015 کے دوران زچگی کے دوران ماؤں کی اموات میں 44 فیصد کمی آچکی ہے تاہم امریکا میں اس شرح میں اضافہ ہوا۔ امریکا میں چند دہائی قبل 1 لاکھ میں سے 12 ماؤں کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق ہوتا تھا تاہم اب یہ تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    رپورٹ میں ماہرین نے زچگی کے بعد ماؤں کے لیے طبی عملے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کی طرف ڈاکٹرز کی توجہ کم ہوجاتی ہے نتیجتاً وہ چھوٹے موٹے طبی مسائل جن پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، سنگین صورت اختیار کر کے جان لیوا بن جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ایک طرف تو حاملہ ماؤں کو صحت مند طرز زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، دوسری طرف طبی عملے کو بھی اس بات کی تربیت دی جائے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آخری وقت تک ماں اور بچے دونوں کو توجہ دی جائے۔

  • موبائل فون بچوں میں برین ٹیومر کا ممکنہ سبب

    موبائل فون بچوں میں برین ٹیومر کا ممکنہ سبب

    لاہور: جناح اسپتال لاہور کی معروف معالج کا کہنا ہے کہ موبائل فون بچوں میں برین ٹیومر کا سبب بن سکتا ہے، بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ مائیکرو ویو ریڈی ایشنز زیادہ جذب کرتے ہیں جس سے بچوں کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جناح اسپتال لاہور سے منسلک معروف معالج ڈاکٹر عائشہ عارف کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال بچوں کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ مائیکرو ویو ریڈی ایشنز زیادہ جذب کرتے ہیں، موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچوں میں نیند کی کمی، برین ٹیومر اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے ہمارے جسم پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر بچوں کی نشونما کے دوران اس کا استعمال مستقبل میں برین کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔

    ڈاکٹر عائشہ نے موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے متعلق بتایا کہ اگرچہ وائر لیس فون اب ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن گئے ہیں مگر اس کا کم سے کم استعمال ہمارے لیے بہتر ہے۔ ’موبائل فون کا کان سے دور رکھ کر استعمال صحت کے لیے بہتر ہے جو خطرات کو 1 ہزار فیصد کم کر دیتا ہے‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو موبائل فون کو پاﺅچ، پرس، بیگ یا بیگ پیک میں رکھنا چاہیئے، ایسی ڈیوائسز کو حاملہ خواتین سے بھی دور رکھنا چاہیئے۔ اسی طرح نرسنگ کے شعبہ میں یا بچوں کو دودھ پلانے کے دوران بھی خواتین کو موبائل فون کے استعمال سے گریز کرنا چاہیئے۔

    ڈاکٹر عائشہ کے مطابق نوجوانوں کو موبائل فون کا محدود استعمال کرنا چاہیئے اور بچوں کو ان کے بیڈ رومز میں موبائل کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیئے۔

  • بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    ہمارے یہاں اکثر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے اپنے کمرے کو بے ترتیب رکھتے ہیں، اپنا کوئی کام نہیں کرتے اور معمولی سے کام کے لیے بھی انہیں امی یا بہن کی مدد درکار ہوتی ہے۔

    یہ عادت نوجوانی تک ساتھ رہتی ہے اور کئی افراد بڑے ہونے کے بعد بھی اپنا کوئی ذاتی کام تک ڈھنگ سے انجام نہیں دے پاتے۔

    دارصل مائیں شروع میں تو لاڈ پیار میں بچوں کے سارے کام انجام دے دیتی ہیں لیکن عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ کام کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے اور اس وقت انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچے کو نہایت بدسلیقہ اور کاہل بنا دیا ہے۔

    ایسے بچے اس وقت پریشانی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جب انہیں ملک سے باہر اکیلے رہنا پڑے اور سارے کام خود کرنے پڑیں تب انہیں بھی احساس ہوتا ہے انہیں تو کچھ کرنا نہیں سکھایا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کو بچپن ہی سے نظم و ضبط میں رہنے کی عادت سکھائی جائے تو وہ آگے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات سے بچ جاتے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو کس طرح سے گھر کے کام سکھائیں جائیں؟ آسٹریلیا میں رہنے والی ایک خاتون جینی اس کا بہت شاندار طریقہ تجویز کرتی ہیں۔

    جینی 16 عدد بچوں کی والدہ ہیں، جی ہاں 16 بچے۔ جینی کا کہنا تھا کہ جب ان کے بچوں کی تعداد 7 ہوگئی تو انہوں نے سوچا کہ وہ تو سارا وقت ان کے کام کرنے میں مصروف رہیں گی اور ان کی زندگی میں کچھ باقی نہیں بچے گا۔

    چنانچہ انہوں نے سوچا کہ وہ بچوں کو بھی اپنے ساتھ کاموں میں مصروف کریں۔

    جینی کا کہنا تھا کہ اتنے سارے بچوں کی موجودگی کے باعث وہ انفرادی طور پر کسی پر توجہ نہیں دے سکتیں تھیں اور انہیں ڈر تھا کہ جب بچے بڑے ہو کر خود مختار زندگی گزاریں گے تو ان کے لیے زندگی مشکل ہوگی۔

    اب جبکہ جینی کے گھر میں 4 سے 28 سال تک کی ہر عمر کے افراد موجود ہیں، تو ان کے گھر میں ایک ہفتہ وار شیڈول تیار کیا جاتا ہے۔ اس شیڈول میں ہر شخص کو کام دیے جاتے ہیں کہ کس دن اس نے کون سا کام سر انجام دینا ہے۔

    یہ شیڈول دیوار پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ ہر شخص کو ہر بار نئے کام دیے جاتے ہیں تاکہ ہر بچہ تمام کام کرنا سیکھ جائے۔

    جینی کی اس حکمت عملی کی بدولت اب ان کا 12 سالہ بیٹا 20 افراد کے لیے باآسانی ڈنر تیار کرسکتا ہے اور اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    جینی کا کہنا ہے کہ جب بچے چھوٹے تھے تب انہیں سکھانے کی ضرورت پڑی تھی، اب بڑے بچے چھوٹے بچوں کو سکھاتے ہیں یوں تمام کام باآسانی انجام پاجاتے ہیں۔

    جینی دوسری ماؤں کو بھی یہی حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں پر فخر کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان کے بچے عملی زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں، بلکہ وہ گھر کے کاموں میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

    کیا آپ اس حکمت عملی پر عمل کرنا چاہیں گے؟

  • بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا ان کے لیے فائدہ مند

    بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا ان کے لیے فائدہ مند

    کیا آپ اپنے بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا چاہتے ہیں اور آپ نے ان کے پڑھنے، کھیلنے، ٹی وی دیکھنے اور سونے کا وقت مقرر کیا ہوا ہے؟ تو پھر آپ کے لیے ایک خوشخبری ہے۔

    اس سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ بچوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا والدین اور بچوں کے درمیان تعلق پر منفی اثر ڈالتا ہے تاہم اب نئی تحقیق نے اس بات کی نفی کردی ہے۔

    یونیورسٹی آف سڈنی میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا اور ان کی ہر سرگرمی کا وقت مقرر کرنا ان کی جسمانی و دماغی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    چائلڈ بی ہیویئر ریسرچ کلینک کے پروفیسر مارک ڈیڈز کہتے ہیں کہ مخصوص وقت کی تکنیک بچوں کو نظم و ضبط کا عادی بناتی ہے۔ ان کے مطابق اب تک سمجھا جاتا رہا تھا کہ ایسا کرنا بچوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے تاہم یہ غلط ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ جو بچے ذہنی صدموں جیسے مار پیٹ، والدین کی جانب سے نظر انداز کیے جانے یا والدین سے الگ کیے جانے کے صدمے کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی اس طرز زندگی سے معمول پر آنے لگتے ہیں اور ان کی ذہنی صحت میں بہتری واقع ہونے لگتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس طریقہ کار کا مطلب یہ نہیں بچوں کو الگ تھلگ کردیا جائے، درست طریقے سے اس تکنیک کو استعمال کرنا والدین اور بچوں دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

  • لندن : تین لاکھ سے زائد بچے جرائم پیشہ گروہوں سے منسلک ہیں، چلڈرن کمشنر

    لندن : تین لاکھ سے زائد بچے جرائم پیشہ گروہوں سے منسلک ہیں، چلڈرن کمشنر

    لندن : بچوں کے حقوق کیلئے کرنے والے کمشنر کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں تین لاکھ تیرہ ہزار بچے جرائم پیشہ گروہوں میں شامل میں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں بچوں کے حقوق کے کام کرنے والے کمشنر کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 10 برس سے 17 برس کی عمر کے ایسے 27ہزار بچوں کی شناخت ہوئی جو صرف انگلینڈ میں جرائم پیشہ گروہوں سے وابستہ ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں 3 لاکھ 13 ہزار کم عمر بچے گینگ ممبر ہیں اور 34 ہزار بچے ایسے ہیں جو پُرتشدد جرائم کا تجربہ کرچکے ہیں۔

    کمشنر اینی لانگ فیلڈ کا کہنا تھا کہ گینگ ممبران جرائم کی سطح میں اضافے اور بچوں کی ذہن سازی کے لیے مخصوص طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    برطانوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ’ہم حساس بچوں (جن کا ذہن جلد جرائم کی طرف مائل ہوجائے) کی حفاظت کو کسی بھی صورت میں یقینی بنانا ہے‘۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق 14 سالہ روس (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ جب وہ 12 برس کی تھی تو گھر کے ہی ایک فرد کی جانب سے جسمانی اور جنسی طور پر ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد وہ جرائم پیشہ گروہوں سے جڑ گئی تھی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ روس اب قاعدگی سے ہیروئن و کا استعمال اور فروخت کرتی ہے اور روس کا بڑا بھائی بھی جرائم پیشہ گروہوں کا حصّہ ہے۔

    مزید پڑھیں : برطانوی والدین بچوں پر ایک گھنٹہ بھی صرف نہیں کرتے:سروےرپورٹ

    رپورٹ کے مطابق روس روزانہ شراب نوشی کرتی ہے اور پیسوں کی خاطر ڈرگز کی فروخت کے لیے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر قبیح فعل بھی انجام دیتی ہے۔

    چلڈرن کمشنر نے برطانوی حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں کے مجرمانہ استحصال کا معاملہ قومی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔