Tag: بچے

  • باپ سے قربت بچوں کی ذہنی نشونما میں اضافے کا سبب

    باپ سے قربت بچوں کی ذہنی نشونما میں اضافے کا سبب

    پیدائش سے لے کر ایک سے دو سال تک کی عمر کے بچے گھر میں موجود تمام افراد کی توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ باپ سے قریب رہنے والے بچے چیزوں کو جلدی سمجھتے اور سیکھتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت سے لے کر 2 سال کی عمر تک کے وہ بچے جن کے والد ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں اور کھیل کود میں وقت گزارتے ہیں، ایسے بچوں کی ذہنی نشونما تیز ہوجاتی ہے۔

    baby-2

    یہ تحقیق آکسفورڈ یونیورسٹی اور لندن کے کنگز کالج کے ماہرین نے مشترکہ طور پر کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شیر خوار بچوں کی ماں سے قربت تو ایک عام بات ہے، تاہم اگر اس عمر کے دوران والد بھی ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں تو بچوں کی ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    تحقیق میں جن باپوں کو شامل کیا گیا انہوں نے دن کا کچھ حصہ بچوں کے ساتھ گزارا۔ اس دوران انہوں نے بچوں سے باتیں کیں، اپنے مطالعے میں انہیں شریک کیا اور اس دوران کھلونوں سے دور رہے۔

    ان بچوں نے بعد ازاں ذہنی مشقوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

    baby-3

    اس کے برعکس وہ والد جن کا رویہ بچوں کے ساتھ رسمی یا سختی کا تھا، ایسے بچوں کی کارکردگی میں تنزلی دیکھی گئی۔

    تحقیق کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ماں اور باپ دونوں بچے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں تاکہ وہ مستقبل میں ایک ذہین اور باصلاحیت فرد ثابت ہوسکے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بچوں پر چیخنا ان پر بدترین اثرات مرتب کرنے کا باعث

    بچوں پر چیخنا ان پر بدترین اثرات مرتب کرنے کا باعث

    والدین بننا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ پر اپنے بچے کی تربیت کی بہت بھاری ذمہ داری عائد کرتی ہے۔

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، لیکن اس کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب بچہ ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند ہو۔

    بعض والدین بچوں کے کھانے پینے کا خیال رکھتے ہوئے صرف ان کی جسمانی صحت پر دھیان دیتے ہیں لیکن ایسے موقع پر وہ ذہنی صحت کو بھول جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    جی ہاں، کم عمر اور کمسن بچے کی ذہنی صحت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہی آگے چل کر اس کی زندگی کا رخ متعین کرتی ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ بچوں پر آپ کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے؟

    جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔

    اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    مزید پڑھیں: اپنے بچوں کو یہ عادات ضرور سکھائیں

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اس کے برعکس ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ نرم مزاجی سے پیش آئیں اور پرسکون ہو کر ان کے مسائل کو حل کریں، ان والدین کے بچے خود بھی ذمہ دار اور ٹھنڈے مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بچوں کو نظر کی کمزوری سے بچانے کا آسان طریقہ

    بچوں کو نظر کی کمزوری سے بچانے کا آسان طریقہ

    اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کا بے تحاشہ استعمال ہمارے بچوں کی آنکھوں پر شدید منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کا سب سے پہلا نقصان قریب یا دور کی نظر کی کمزوری کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ وہ بچے جو باہر کھلی فضا میں کھیلتے اور مختلف سرگرمیوں میں اپنا وقت گزارتے ہیں، ان میں دور کی نظر کی کمزوری کا امکان کم ہوتا ہے۔

    برٹش جنرل آف اوپتھیمولوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لیے 5 ہزار سے زائد بچوں کا معائنہ کیا گیا۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے بچوں اور ان کے والدین کے طرز زندگی، ان کے معمولات اور دیگر عوامل کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ بچے جو باہر کھلی فضا میں کم وقت گزارتے تھے نتیجتاً ان میں وٹامن ڈی کی کمی ہوتی تھی، ایسے بچوں میں نظر کی کمزوری یا اس کا امکان زیادہ پایا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کھلی فضا میں کھیلنا بچوں کی جسمانی و دماغی صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔

    یہ ان پر بے شمار مثبت اثرات مرتب کرتا ہے جو آگے چل کر ان کے رویوں اور سماجی زندگی کو بہتر بناتے ہیں اور ان کی ذہانت و صلاحیت کا تعین کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹچ اسکرین سے کھیلنے والے بچے نیند کی کمی کا شکار

    اس سے قبل بھی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سبزہ زار میں وقت گزارنا بچوں کی ذہنی استعداد اور صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔

    تحقیق کے شریک سربراہ ڈاکٹر پیئم ڈیڈوانڈ کا کہنا ہے، ’فطرت سے تعلق ہماری دماغی صحت کو بہتر کرتا ہے‘۔

    تحقیق کے مطابق فطرت کے قریب وقت گزارنے والے بچوں میں مستقل مزاجی، مشکلات کا سامنا کرنا، تخلیقی مزاج، قائدانہ صلاحیتیں اور شخصیت کی مضبوطی جیسی صلاحیتیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں جن کے لیے لوگ برسوں محنت کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سیسہ ۔ ہمارے بچوں کا خاموش قاتل

    سیسہ ۔ ہمارے بچوں کا خاموش قاتل

    ہمارے گھروں میں اکثر بچے، اور بعض اوقات بڑے بھی، سیاہ پینسل سے کام کرتے ہوئے اسے چبانے لگتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بظاہر یہ بے ضرر سی عادت آپ کے بچے کی دماغی صلاحیت و ذہنی کارکردگی کو تباہ و برباد کر سکتی ہے؟

    دراصل پینسل کا سکہ (نب) ایک نہایت خطرناک مادے سیسے سے بنایا جاتا ہے جو انسانی جسم میں جا کر نہایت خطرناک اثرات مرتب کر سکتا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

    لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ خاموش قاتل کہلایا جانے والا سیسہ صرف پینسل کی نوک میں موجود نہیں ہے۔

    کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں میں پینے کے پانی میں ایسے آلودہ اجزا شامل ہوچکے ہیں جن میں سیسے کی آمیزش ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیسے کا زہر امریکی قومی پرندے کی موت کا سبب


    سیسہ کن اشیا میں پایا جاتا ہے؟

    اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی جو مختلف اشیا میں سیسے کے استعمال کو روکنے کے لیے مختلف مہمات میں مصروف ہے، اس سلسلے میں ایک تفصیلی گائیڈ لائن جاری کر چکا ہے۔

    اس گائیڈ لائن کے مطابق سیسہ رنگ و روغن اور گولہ بارود میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    یو این ای پی کا کہنا ہے کہ سیسہ اس وقت بھی نقصان پہنچا سکتا ہے جب مختلف برقی آلات کو ری سائیکل کیا جائے یا انہیں جلایا جائے، مختلف اقسام کی دھاتوں کو پگھلایا جائے، یا ایسڈ بیٹریز (جنہیں بنایا بھی سیسے سے جاتا ہے) کو ناقابل استعمال ہونے کے بعد تلف کیا جائے۔

    بعض معدنیات کی کان کنی کے دوران بھی کانوں یا معدنیات میں موجود سیسہ کھدائی کرنے والے افراد کو اپنے تباہ کن اثرات کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا مختلف ذرائع سے سیسے کی آمیزش مٹی، کھاد، پانی اور ہوا میں ہوسکتی ہے جو بلا تفریق سب کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔

    ان ذرائع کے علاوہ بھی سیسے کو مندرجہ ذیل اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    دیواروں پر کیا جانے والا روغن یا پینٹ

    آرٹی فیشل زیورات

    جدید برقی آلات بشمول موبائل فون

    مختلف اقسام کے برتن

    پانی کے نلکے یا مختلف پائپس

    بعض اقسام کے کھلونے

    ٹھوس پلاسٹک کی اشیا

    فیکٹریوں سے خارج ہونے والے مادے میں بھی سیسے کی آمیزش ہوتی ہے، یہ سمندروں میں جا کر سمندری حیات کو متاثر کرتا ہے اور سی فوڈ کی شکل میں ہماری طرف آتا ہے۔

    یہ مادہ بعض اوقات دریاؤں اور نہروں میں بھی جا گرتا ہے جو پینے کے پانی کا حصول ہیں۔ نتیجتاً ہمارے پینے کا پانی سیسے سے آلودہ ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بعض اوقات لپ اسٹکس میں بھی سیسے کی آمیزش کی جاتی ہے۔ ایک امریکی تحقیق کے مطابق امریکا میں 61 فیصد کاسمیٹکس کمپنیاں لپ اسٹکس میں سیسے کی معمولی مقدار شامل کرتی ہیں۔

    یہ کمپنیاں نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں اپنی مصنوعات کو فروخت کے لیے بھیجتی ہیں لہٰذا یہ کہنا غیر یقینی ہے کہ ہمارے ملک میں استعمال کردہ لپ اسٹک میں سیسہ شامل ہے یا نہیں۔


    سیسہ ۔ صحت کے لیے خطرناک ترین عنصر

    سیسہ ہماری صحت اور ماحول کے لیے بے حد نقصان دہ عنصر ہے جو بدقسمتی سے اتنا ہی زیادہ استعمال میں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی جاندار کے خون میں اگر 45 مائیکرو گرام سے زیادہ سیسے کی مقدار پائی جائے تو اس کے اثرات سے بچنے کے لیے فوری طور پر اس کا علاج کیا جانا ضروری ہے۔

    یو این ای پی کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 8 لاکھ کے قریب افراد سیسے کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق سیسے کا استعمال امراض قلب کے خطرے میں 4 فیصد اور فالج کے خطرے میں 6.6 فیصد اضافہ کرتا ہے۔

    یہ ہمارے جسم میں داخل ہونے کے بعد دماغ، جگر، گردوں اور ہڈیوں میں چلا جاتا ہے اور انہیں ناکارہ کرنے لگتا ہے۔

    ہڈیوں اور دانتوں میں جمع ہو کر انہیں تباہی کا شکار بنا دیتا ہے۔

    سیسہ تولید کے اعضا کو ناکارہ بنا سکتا ہے، جبکہ قوت مدافعت پر بھی حملہ کرتا ہے جس سے جسم بیماریوں کا آسان شکار بن جاتا ہے۔

    اس سے استعمال سے خون میں کمی جبکہ بلڈ پریشر میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔


    سب سے خطرناک نقصان

    اس کا سب سے خطرناک نقصان یہ ہے کہ یہ دماغ اور اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور دماغ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو کم کرنے لگتا ہے۔

    چھوٹے بچوں میں یہ زیادہ شدت سے دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ ان کی قوت مدافعت بڑوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔ بچوں کا نشونما پاتا جسم بڑوں سے 4 سے 5 گنا زیادہ سیسے کو جذب کرتا ہے۔ ان کا اعصابی نظام اور دماغ کمزور اور نازک ہوتا ہے اور جلدی نشانہ بن سکتا ہے۔

    سیسے کے استعمال کے بعد بچے کی دماغی صلاحیتیں آہستہ آہستہ ناکارہ ہونے لگتی ہیں، وہ پڑھائی اور دماغی سرگرمیوں میں کمزور اور کند ذہن ہوتا جاتا ہے۔

    یہی نہیں زندگی کے روز مرہ معمولات میں بھی اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ اس کی ذہانت کم ہوجاتی ہے اور اسے کسی بھی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔

    بچوں میں سیسے کے اثرات اس وقت ظاہر ہوتے ہیں اگر وہ مٹی کھاتے ہوں، سیسے سے بنے کھلونے منہ میں ڈالیں یا سیسے سے آلودہ کھانا یا پانی پئیں۔

    سیسے سے حفاظت تو ممکن ہے تاہم اس سے ہونے والے طبی نقصانات ناقابل علاج ہیں۔

    سیسہ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی ذہنی نشونما کو متاثر کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر سال سیسے کا استعمال 6 لاکھ سے زائد بچوں کو متاثر کرتا ہے۔


    اور کون متاثر ہوسکتا ہے

    اگر سیسہ مجموعی طور پر پینے کے پانی یا غذا میں شامل نہ ہو (ایسی صورت میں یہ پورے شہر کی آبادی کو نقصان پہنچا سکتا ہے) تو اس کا نقصان مندرجہ ذیل افراد کو ہوتا ہے۔

    بچے

    حاملہ خواتین

    رنگ و روغن کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد، ایسے افراد میں سانس کے ساتھ سیسے والی مٹی اندر چلی جاتی ہے جو ان کے خون میں شامل ہوجاتی ہے۔


    کیا اس سے حفاظت ممکن ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سیسے سے حفاظت ممکن ہے اگر

    بیٹریز اور الیکٹرانک ویسٹ کو ری سائیکلنگ کے لیے صحیح طریقے سے الگ کیا جائے۔

    سیسے کے خلاف قوانین پر عمل ہو۔

    حکومتوں پر زور دیا جائے کہ سنہ 2020 تک لیڈ کے استعمال کے قوانین ترتیب دیں۔

    سیسے کے استعمال پر صنعتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ضدی بچوں کے والدین کے لیے اچھی خبر

    ضدی بچوں کے والدین کے لیے اچھی خبر

    کیا آپ کا بچہ بے جا ضدیں کرتا ہے یا بعض اوقات آپ کی بات ماننے سے انکار کردیتا ہے؟ تو پھر یہ اچھی خبر آپ کے لیے ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ضدی بچوں کے والدین کو پریشان ہونا چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ ایسے بچے ممکنہ طور پر مستقبل میں نہایت کامیاب ثابت ہوسکتے ہیں۔

    برطانیہ میں ماہرین نے ایک تحقیق کی جس میں انہوں نے 700 مختلف افراد کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے ان افراد کی تنخواہوں، مختلف اداروں میں ان کے عہدوں اور ان کے بچپن کے واقعات کا مطالعہ کیا۔

    مزید پڑھیں: خشک لیکچر سے اکتائے ہوئے بچے کی انوکھی مصروفیت

    ماہرین نے دیکھا کہ اونچے عہدوں پر کام کرنے والے اور بھاری تنخواہیں لینے والے افراد وہ تھے جو اپنے بچپن میں نہایت ضدی تھے۔

    ماہرین کے مطابق اس کی ایک سیدھی سادھی توجیہہ ہے کہ کامیابی انہی افراد کو ملتی ہے جو اپنے حالات سے غیر مطمئن ہوتے ہیں اور انہیں بدلنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ عادت ان میں بچپن سے موجود ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی ان باتوں کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں جو انہیں پسند نہیں ہوتیں۔

    یہی نہیں وہ اپنے والدین کے منع کرنے کے باوجود وہی کام کرتے ہیں جو انہیں خوشی اور اطمینان فراہم کرتا ہے۔ بڑے ہونے کے بعد بھی ان میں یہ عادت برقرار رہتی ہے اور وہ معاشرے کے اصولوں اور اپنی قسمت کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیتے ہیں اور اپنی پسند کا مقام حاصل کر کے رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    ماہرین کے مطابق بچپن میں ضدیں کرنے والے افراد دراصل مضبوط قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں اور وہ زندگی کو ویسا ہی بنا کر رہتے ہیں جیسی ان کی خواہش ہوتی ہے۔

    تو اگلی بار جب بھی آپ کا بچہ آپ کی بات ماننے سے انکار کرے تو غصہ ہونے کے بجائے سوچیں کہ بڑے ہونے کے بعد اس کا پھل آپ کو اس کی کامیابی کی صورت میں ملے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بچے وقت دیکھنا بھول گئے

    بچے وقت دیکھنا بھول گئے

    ڈیجیٹل دور کی آمد کے ساتھ ہی ہماری زندگی میں ہر شے ڈیجیٹل انداز سے غلبہ پا رہی ہے اور ہماری نئی آنے والی نسل ان چیزوں سے ناواقف ہے جو ان کے بڑوں نے اپنے ادوار میں سیکھیں۔

    ایسی ہی ایک شے وال کلاک بھی ہے جس میں چند عرصے قبل تک بچوں کو وقت دیکھنا اور اس کا حساب لگانا سکھایا جاتا تھا۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل گھڑیاں وجود میں آگئیں جس میں براہ راست لکھے ہندسے وقت بتا دیتے ہیں۔ تاہم ان گھڑیوں کا نقصان یہ ہوا کہ نئی نسل پرانی گھڑیوں سے بالکل ہی ناواقف ہوگئی۔

    بچوں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے انگلینڈ کے اسکولوں میں اینالوگ یعنی روایتی گھڑیوں کا استعمال ختم کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ ڈیجیٹل گھڑیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    امریکا کے معروف ٹی وی شو کے میزبان جمی کیمل نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا۔ ان کے پروگرام کے دوران چند بچوں کو روایتی گھڑی دکھا کر ان سے وقت پوچھا گیا۔

    یہ گھڑیاں چونکہ ان بچوں کے لیے نہایت اجنبی تھیں لہٰذا انہوں نے اپنی فہم کے مطابق الٹا سیدھا وقت بتایا۔

    ان بچوں میں سے صرف ایک بچہ بالکل درست وقت بتا سکا جس کے لیے حاضرین نے بے شمار تالیاں بجائیں۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں کہ بچوں نے اس گھڑی میں دیکھ کر کس طرح سے وقت بتایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • بچوں سے زیادہ شوہر حضرات خواتین کے لیے درد سر کا باعث

    بچوں سے زیادہ شوہر حضرات خواتین کے لیے درد سر کا باعث

    ننھے بچوں کی پرورش کرنا، ان کی شرارتوں اور غلطیوں کو درست کرنا اور 24 گھنٹے ان کا خیال رکھنا ماؤں کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کرسکتا ہے، تاہم حال ہی میں جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں سے زیادہ شوہر حضرات خواتین کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی اس تحقیق کے لیے 7 ہزار خواتین کی جانچ کی گئی۔

    تحقیق کے مطابق خواتین اس وقت ذہنی تناؤ کا شکار ہوتی ہیں جب انہیں روز صبح اٹھ کر بیک وقت بے شمار ذمہ داریاں سر انجام دینی ہوں، تاہم اس وقت ان کے تناؤ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب ان کے شریک حیات ان کی ذمہ داریوں میں ان کا ساتھ نہ دیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عنصر بعد ازاں جوڑے کے ازدواجی تعلق اور ان کی جسمانی و دماغی صحت پر بھی منفی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بہتر ازدواجی حیثیت فالج سے بچاؤ کے لیے معاون

    تحقیق میں کہا گیا کہ ازدواجی رشتے میں دونوں فریقین کے مطمئن رہنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کی ذمہ داریوں میں دونوں فریقین برابر طور پر شریک ہوں اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔

    اس سے پہلے بھی ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ بہتر صحت کے لیے اچھی اور مطمئن ازدواجی زندگی بے حد ضروری ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تنہا رہنا اور ایسے ازدواجی رشتے میں بندھے رہنا جس میں تعلقات خراب اور ناچاقی کا شکار ہوں جسمانی و دماغی صحت پر یکساں بدترین منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • درخت اگانے والی کتاب

    درخت اگانے والی کتاب

    اگر آپ کتاب دوست انسان ہیں تو آپ نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں گی، کچھ کو سنبھال کر رکھا ہوگا، جبکہ کچھ کتابوں کو اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو دے دیا ہوگا۔

    تاہم ہر شخص یہ زحمت نہیں کرتا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتابوں کو بے مصرف جان کر ردی میں ڈال دیتی ہے جس سے اور کوئی نقصان ہو نہ ہو، ان درختوں کی قربانی ضرور ضائع ہوجاتی ہے جو اس کتاب کے کاغذ بنانے کے لیے کاٹے گئے ہوتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    اسی طرح نئے سال میں بچوں کی پرانی نصابی کتابیں بھی ردی میں دے دی جاتی ہیں جو بہر صورت ہمارے شہروں کے کچرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    تاہم ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کتاب کو ردی میں جانے سے بچانے کے لیے اسے کارآمد بنا ڈالا اور اسے درخت اگانے والی کتاب بنا دیا۔

    بیونس آئرس کے اس شہری نے بچوں کی اس کتاب کے کاغذات کو تیزاب کی آمیزش کے بغیر تیار کیا ہے۔ اس کے بعد اسے پرنٹ کر لینے کے بعد کاغذ پر ہاتھ سے جاکرندا نامی درخت کے بیج سی دیے جاتے ہیں۔

    جاکرندا نامی نیلے پھولوں کا یہ درخت وسطی و جنوبی امریکا کا مقامی درخت ہے۔

    کتاب کو پڑھ لینے کے بعد بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسے زمین میں دفن کردیں اور روزانہ اسے پانی دیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کتاب سے پودا اگ آتا ہے جو کچھ عرصے میں تناور درخت بن جاتا ہے۔

    کتاب کے اشاعتی ادارے کا کہنا ہے کہ درخت اگانے والی اس کتاب کے ذریعے وہ بچوں میں زمین کے تحفظ اور ماحول اور درختوں سے محبت کا شعور اجاگر کر رہے ہیں۔

    ادارے نے کتاب کے لیے ٹیگ لائن متعارف کروائی ہے، ’بچے اور درخت ایک ساتھ نشونما پائیں‘۔

    ان کے مطابق بچپن سے ہی کتاب کے ذریعے درخت کی دیکھ بھال بچوں کو ایک ماحول دوست انسان بننے میں مدد دے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس درخت سے ان کی جذباتی وابستگی بھی ہوگی جو مرتے دم تک انہیں درخت کا خیال رکھنے پر مجبور کرے گی۔

    جنگل میں مہمات پر مبنی اس کتاب کو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبولیت مل رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ٹچ اسکرین سے کھیلنے والے بچے نیند کی کمی کا شکار

    ٹچ اسکرین سے کھیلنے والے بچے نیند کی کمی کا شکار

    پیرس: آج کل کے جدید دور میں ننھے بچوں کا کھلونوں اور جھنجھنوں سے کھیلنا تو پرانی بات ہوگئی، اب بچے اپنے والدین کے اسمارٹ فونز سے کھیلتے ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عادت کمسن بچوں میں نیند کی کمی کا سبب بن رہا ہے۔

    جرنل سائنٹفک رپورٹس نامی جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق 6 ماہ سے 3 سال کی عمر تک کے بچوں پر ٹچ اسکرینوں کے استعمال سے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق جیسے جیسے بچوں کا اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس یا آئی پیڈز سے کھیلنے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے ان کی نیند کے دورانیے میں کمی آتی جاتی ہے۔

    اوسطاً ایک گھنٹہ ٹچ اسکرین کا استعمال 24 گھنٹوں کے دوران کی جانے والی نیند کے دورانیہ میں 16 سے 20 منٹ کی کمی کردیتا ہے۔

    مذکورہ تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ٹچ اسکرینوں کا استعمال کمسن بچوں کی صحت پر مزید کیا منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی بہتر ذہنی نشونما کے لیے نیند بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    وہ بچے جو بچپن سے ہی ویڈیو گیمز کھیلنے یا بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ نیند کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ذہنی نشونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    یاد رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 12 سال سے کم عمر بچے 6 سے ساڑھے 6 گھنٹے مختلف اسکرینز جن میں موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ شامل ہیں کے ساتھ گزارتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل کی اسکرین نیلے رنگ کی ہوتی ہیں اور یہ رنگ دیگر تمام رنگوں سے زیادہ توانائی کا حامل ہوتا ہے۔

    یہ نیلی اسکرینز بہت شدت سے نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کی آنکھوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ آنکھ کے پردے کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور ہمیشہ کے لیے نابینا بھی کر سکتی ہے۔

    مستقل روشن یہ اسکرین تمام عمر کے افراد کی آنکھوں پر نہایت خطرناک اثر ڈالتی ہیں اور یہ نظر کی دھندلاہٹ، آنکھوں کا خشک ہونا، گردن اور کمر میں درد اور سر درد کا سبب بنتی ہیں۔

    ان تمام بیماریوں کو ماہرین نے ڈیجیٹل بیماریوں کا نام دیا ہے جو آج کے ڈیجیٹل دور کی پیداوار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس اسکرین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا دماغی کارکردگی کو بتدریج کم کردیتا ہے جبکہ یہ نیند پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے۔

    موبائل کے متواتر استعمال سے بچے اور بڑے رات میں ایک پرسکون نیند سونے سے محروم ہوجاتے ہیں اور سونے کے دوران بار بار ان کی نیند میں خلل بھی پڑتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جلدی سونے والے بچے ڈپریشن سے محفوظ

    جلدی سونے والے بچے ڈپریشن سے محفوظ

    کیا آپ کا بچہ رات جلد سوجانے کا عادی ہے؟ تو جان لیں اس کی یہ عادت اسے زندگی میں بے شمار طبی مسائل سے محفوظ رکھے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بچے جو اپنے والدین کے طے کیے ہوئے شیڈول کے مطابق جلدی سوجاتے ہیں، ان میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    کولمبیا یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر بچوں کو جلد سونے کی عادت ڈالی جائے تو نو عمری اور نوجوانی میں وہ بے شمار مسائل اور پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن میں ڈالی جانے والی عادات پختہ ہوجاتی ہیں اور تاعمر قائم رہتی ہیں لہٰذا بچوں کو بچپن ہی سے مثبت عادات کا عادی بنانا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    دوسری جانب ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ نیند کی کمی شدید قسم کے جسمانی و ذہنی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈپریشن کی ایک وجہ نیند کی کمی ہونا بھی ہے۔

    نیند پوری نہ ہونے کے باعث دماغ دباؤ کا شکار رہتا ہے اور معمولی معمولی چیزوں کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ تھکن کا شکار دماغ معمولی مسئلوں کا حل نکالنے سے بھی قاصر رہتا ہے کیونکہ وہ سوچنے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔

    child-2

    تحقیق کے مطابق نیند پوری کرنا دماغی وجسمانی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہے اور زندگی میں پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ زیادہ جذباتی اور شدت پسند بچوں میں خودکشی کا رجحان بھی نمو پاسکتا ہے لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی نیند پوری ہو۔

    مزید پڑھیں: غریب اور امیر بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال میں فرق

    ماہرین نے دیکھا کہ رات کو دیر سے سونے والے نوعمر افراد اور بچوں میں بے وقت کھانے خاص طور پر آدھی رات کو بھوک لگنے اور جنک فوڈ کھانے کا رجحان بھی دیکھا گیا جس کے باعث انہیں موٹاپے سمیت صحت کے دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ والدین بچوں کے کھیلنے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے جلدی سونے کا بھی وقت مقرر کریں اور سختی سے اس کی پابندی کریں تاکہ بڑے ہونے کے بعد بچے مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔