Tag: بچے

  • والدین کے ساتھ سونا شیر خوار بچوں کی اموات میں کمی میں معاون

    والدین کے ساتھ سونا شیر خوار بچوں کی اموات میں کمی میں معاون

    واشنگٹن: ماہرین کا کہنا ہے کہ شیر خوار بچوں کی اچانک موت کا خطرہ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین ایک سال تک بچوں کو اپنے ساتھ ایک ہی کمرے میں سلائیں۔

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین ایک سال سے کم عمر بچوں کو اپنے کمرے میں ہی سلائیں لیکن انہیں ان کے پنگھوڑے میں علیحدہ سلایا جائے۔

    ماہرین کے مطابق شیر خوار بچوں کی حفاظت کے لیے سنہ 1990 میں رہنما اصول جاری کیے گئے تھے جن کے مطابق بچوں کو صاف ستھرے بستروں میں سلایا جائے اور سوتے ہوئے ان کے قریب سے تمام کھلونے اور دیگر چیزیں ہٹا دی جائیں۔

    baby-post-1

    ماہرین نے بتایا کہ ان رہنما اصولوں کے باعث شیر خوار بچوں کی اچانک اموات میں 50 فیصد کمی آئی۔

    تاہم اس کے باوجود دنیا بھر میں شیر خوار بچوں کی اموات کی شرح اب بھی بہت زیادہ ہے اور صرف امریکا میں ہر سال 3 ہزار 500 شیر خوار بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ والدین اور بچوں کا ایک ہی بستر پر سونا ہے۔

    ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بچے والدین یا ان کے قریب رکھے گئے کھلونوں کے نیچے دب کر سانس لینے سے محروم ہوسکتے ہیں اور ان کا دم گھٹ سکتا ہے۔

    baby-post-2

    اسی طرح ان کو اڑھائے گئے کمبل اگر بھاری بھرکم ہوں تو بچے کی حرکت کی صورت میں وہ ان کے منہ پر آسکتے ہیں اور ان کی سانس بند ہوسکتی ہے۔

    ماہرین نے تجویز دی ہے کہ اس ضمن میں کم از کم ایک سال تک بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد بچے خود کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ کر سکتے ہیں اور سوتے ہوئے اپنے اوپر آئی چیزوں کو ہٹا سکتے ہیں۔

  • سات ماہ سے پاناما کی بات ہو رہی ہے یہ آج بھی وقت مانگ رہے ہیں، عمران خان

    سات ماہ سے پاناما کی بات ہو رہی ہے یہ آج بھی وقت مانگ رہے ہیں، عمران خان

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ 7 ماہ سے پاناما کی بات ہو رہی ہے۔ حکومت آج بھی وقت مانگ رہی ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستانیوں کے ٹیکس کے پیسہ سے تنخواہ لے رہا ہے، اسے کس نے اجازت دی کہ وہ ایک کرپٹ خاندان کا کیس لڑے۔

    آج سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان حکومت پر برس پڑے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے بچوں کے جواب آنے تھے، وہ کیوں نہیں آئے؟ وزیر اعظم نے خود جواب جمع کروا دیا۔

    انہوں نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل کس حیثیت سے شریف خاندان کا کیس لڑ رہا ہے۔ وہ پاکستان کا ملازم ہے شریف خاندان کا نہیں۔ اٹارنی جنرل پاکستانیوں کے ٹیکس کے پیسہ سے تنخواہ لیتا ہے۔ اسے کس نے اجازت دی کہ وہ ایک کرپٹ خاندان کا کیس لڑے۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم 7 مہینے سے پاناما کی بات کر رہے ہیں۔ ابھی بھی نواز شریف نے تیاری نہیں کی اور عدالت سے لمبا وقت مانگ لیا۔ ہمیں کہتے ہیں کہ قوم کو تنگ کیا ہوا ہے، ہم نے نہیں آپ نے قوم کو تنگ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ درخواست کی حق سماعت کو چیلنج نہیں کریں گے لیکن انہوں نے چیلنج کیا ہے۔

    انہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کو قابل سماعت قرار دینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کا کرپشن زدہ ہونا بہت بڑا کرائسس ہے۔ دنیا بھر کے اخباروں میں ہمارے وزیر اعظم کی تصویر آئی کہ ان کا نام پاناما لیکس میں شامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے سوال کیا کہ قوم کو بتائیں ان کا پیسہ کہاں ہے، اس پر ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ آپ نے جو ہمارے کارکنوں پر شیلنگ کروائی اس سے خیبر پختونخوا میں بے پناہ نفرت پھیلی۔

    واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں وزیر اعظم نے اپنا تحریری جواب داخل کروا دیا۔ اپنے جواب میں انہوں نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔

    عدالت نے یکم نومبر کو تمام فریقین کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے اپنے ٹی او آرز جمع کروانے کی ہدایت کی تھی تاہم صرف عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے ٹی او آرز جمع کروائے۔

    عدالت نے تمام درخواست گزاروں اور وزیر اعظم کے وکیل کو پیر تک اپنے ٹی او آرز جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

  • ایبٹ آباد:چیئرلفٹ خراب،طالب علم فضامیں جھولتے رہے

    ایبٹ آباد:چیئرلفٹ خراب،طالب علم فضامیں جھولتے رہے

    ایبٹ آباد: صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہرایبٹ آبادمیں چیئرلفٹ خراب ہو نےسےبارہ طالب علم سواگھنٹے تک فضامیں جھولتےرہے۔

    تفصیلات کےمطابق خیبرپختونخواہ کےشہر ایبٹ آباد کے علاقے دم توڑ میں ندی پر قائم دیسی ساختہ لفٹ اسکول کےبچوں کوکنارے پرلےجا رہی تھی کہ اچانک راستے میں ہی خراب ہوکرہوامیں جھولنےلگی۔

    چیئر لفٹ خراب ہونےسےبارہ طالب علم سواگھنٹےتک فضامیں جھولتے رہےاس دوران طلبانے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سواگھنٹہ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے گزارا۔ریسکیواہلکارسواگھنٹےکی تگ ودوکےبعدچیئر لفٹ کودوبارہ چلانے میں کامیاب ہوگئے۔

    اےآروائی نیوزکی خبر پر نائب تحصیل ناظم سردارشجاع نے ایکشن لیتے ہوئے لفٹ آپریٹر زبیراوروحیدکی گرفتاری کےاحکامات جاری کئےاورلفٹ سیل کروادی۔

    مزیدپڑھیں: عمران خان نے مالم جبہ میں چیئرلفٹ کا افتتاح کردیا

    یاد رہےکہ گزشتہ ماہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مالم جبہ کی حسین وادی میں چیئرلفٹ کا افتتاح کیاتھا۔عمران خان کاکہناتھا کہ سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ افتتاح کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعلی پرویز خٹک کے ساتھ کی چیئرلفٹ سے حسین وادی کا نظارہ کیاتھا۔

  • دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر کی پہلی ترجیح ان کا گھر

    دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر کی پہلی ترجیح ان کا گھر

    آج کل کی مصروف زندگی میں جب والدین بہترین عہدوں پر فائز ہوں تو ان کی زندگی نہایت مصروف ہوتی ہے اور ان کے پاس عموماً اپنے بچوں اور خاندان کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔

    یہی حال مشہور شخصیات کا ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھر اور خاندان کے تمام امور کے لیے ملازمین رکھ لیتے ہیں۔ حد سے زیادہ سماجی سرگرمیوں کے باعث وہ اپنے اہلخانہ اور بچوں کے ساتھ بہت کم وقت گزار پاتے ہیں اور اس عمل کو باعث شرمندگی یا غلط نہیں سمجھتے۔

    لیکن مشہور فیشن ڈیزائنر وکٹوریہ بیکہم نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کر کے سب کو حیران کردیا کہ ان کی کوئی سماجی زندگی نہیں اور ان کی پہلی ترجیح ان کے بچے اور شوہر ہیں۔

    victoria-3

    victoria-4

    نوے کی دہائی کے مشہور میوزک بینڈ اسپائس گرلز میں شامل وکٹوریہ بیکہم ماڈل بھی رہیں اور اب وہ دنیا کی ایک کامیاب اور مشہور فیشن ڈیزائنر ہیں۔ ان کے شوہر ڈیوڈ بیکہم مشہور فٹ بالر ہیں۔ تاہم دونوں کے لیے پہلی ترجیح ان کے بچے ہیں۔

    وکٹوریہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کیرئیر اور خاندان کو موزوں وقت دیتی ہیں اور کبھی ان کا کیرئیر ان کے خاندان سے دوری کا سبب نہیں بنا۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کی 5 سالہ بیٹی ہارپر کو روز ڈیوڈ اسکول چھوڑنے جاتا ہے۔ ’ہم ان کاموں کے لیے ملازمین رکھ سکتے ہیں جن سے ہماری زندگی آسان ہوجائے گی، لیکن خود سے یہ کام کرنا ہمارے لیے اہم ہے‘۔

    victoria-2

    وکٹوریہ نے بتایا کہ بچوں کے اسکول میں پیرنٹس ۔ ٹیچر میٹنگ کے دوران وہ ہمیشہ وہاں موجود ہوتی ہیں۔ ’ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ میں اور ڈیوڈ بیک وقت بچوں سے دور ہوں۔ ہم میں سے کوئی ایک بچوں کے قریب ہوتا ہے‘۔

    وکٹوریہ اور ڈیوڈ بیکہم فلاحی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ حال ہی میں وکٹوریہ اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ایڈز یو این ایڈز کی مہم کے لیے اپنے بیٹے بروکلین کے ساتھ کینیا کا دورہ کر چکی ہیں جبکہ رواں برس نیویارک فیشن ویک میں اپنے ملبوسات کا کامیاب شو بھی پیش کر چکی ہیں۔

  • بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    ذہانت ایک خداداد صلاحیت ہے۔ یہ عموماً بغیر کسی وجہ کے کسی بھی شخص میں ہوسکتی ہے۔ بعض دفعہ یہ موروثی بھی ہوتی ہے۔ اگر خاندان میں ذہین افراد کی تعداد زیادہ ہے تو نئی آنے والی نسل بھی ذہین ہوگی۔

    لیکن ماہرین نے حال ہی میں ایک انکشاف کیا ہے کہ موروثی ذہانت کا تعلق دراصل والدہ کی جانب سے ملنے والے جینز سے ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بچہ اگر ذہین ہے تو اس کا کریڈٹ اس کی والدہ کو جاتا ہے۔

    mothers-2

    یہ نظریہ بڑے پیمانے پر کی جانے والی تحقیق کے بعد سامنے آیا جس کی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ نئے جسم کی تشکیل کا سبب بننے والے ایکس کروموسومز جو والدہ میں ہوتے ہیں، اپنے اندر ذہانت کے جینز رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی وائی کروموسومز میں نہیں ہوتی جو کہ والد میں ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلا کہ جن بچوں میں اپنی والدہ کی جانب سے موصول ہونے والی ذہانت ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے ان کا دماغ اور سر بڑا ہوتا ہے جبکہ ان کا جسم دیگر بچوں کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل نشہ کرنے والی خواتین کے بچے بدترین مسائل کا شکار

    مزید پڑھیں: دوران حمل پھلوں کا استعمال بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق کے مطابق ذہانت کا تعلق صرف وراثت سے نہیں ہوتا۔ اس کا انحصار بچپن میں میسر ہونے والے ماحول پر بھی ہوتا ہے تاہم اس کا تعلق بھی والدہ سے ہے۔

    جو مائیں بچپن سے اپنے بچوں کو مختلف ذہنی مشقیں کرواتی ہیں اور ان کے ساتھ ایسے کھیل کھیلتی ہیں جس میں دماغ کا استعمال ہوتا ہو ان بچوں کی ذہانت میں نشونما اور اس میں اضافہ ہوتا ہے۔

    mothers-3

    ماہرین نے بتایا کہ جن بچوں کا اپنی والدہ سے گہرا تعلق ہوتا ہے وہ جذباتی طور پر بھی مستحکم ہوتے ہیں اور زندگی کے تمام مسائل کا بہادری سے سامنا کرتے ہیں۔

  • باغبانی کے بچوں پر مفید اثرات

    باغبانی کے بچوں پر مفید اثرات

    باغبانی کے یوں تو بے شمار فوائد ہیں۔ یہ ایک صحت مند مشغلہ ہے۔ گھر میں پودے اور سبزیاں اگانے سے گھر کے ماحول میں ایک خوشگوار تبدیلی آتی ہے۔

    ماہرین نے باقاعدہ اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ گھر میں اگائے گئے پودے طرز زندگی اور صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ گھر میں پودے لگانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا ہمارے مزاج و عادات پر بھی مثبت اثرات ڈالتا ہے جبکہ یہ فارغ وقت میں سر انجام دی جانے والی بہترین مصروفیت ہے۔

    ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ بچے جو باغبانی کا مشغلہ اپناتے ہیں ان کی دماغی و جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور باغبانی ان کی اخلاقی تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    آئیے دیکھتے ہیں بچے باغبانی سے کیا فوائد حاصل کرتے ہیں۔

    :احساس ذمہ داری

    gardening-4

    پودے لگانا، باقاعدگی سے ان کو پانی دینا اور ان کی دیکھ بھال کرنا بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے۔ بچپن میں پیدا ہونے والا یہ احساس ذمہ داری ساری زندگی ان کے ساتھ رہتا ہے اور وہ زندگی کے ہر معاملے میں اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    :ماحول دوست عادات

    gardening-3

    بچپن سے ہی باغبانی کرنا بچوں میں ماحولیاتی آگاہی پیدا کرتا ہے۔ وہ فطرت، زمین، مٹی، ہوا اور موسم کے اثرات و فوائد کے بارے میں سیکھتے ہیں جس کے باعث وہ بڑے ہو کر ماحول دوست شہری بنتے ہیں۔

    :خود اعتمادی

    gardening-2

    باغبانی کے دوران اگر بچے اپنے گھر میں خود سبزیاں اور پھل اگائیں تو یہ عادت ان میں خود مختاری اور خود اعتمادی کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ بچپن ہی سے خود اعتماد ہونے کے باعث وہ زندگی کے کسی شعبہ میں پیچھے نہیں رہتے۔

    :صحت مند غذائی عادات

    gardening-5

    باغبانی کرنا اور گھر میں سبزیاں اور پودے اگانا بچوں میں صحت مند غذائی عادات پروان چڑھاتا ہے۔ وہ تازہ پھل اور سبزیاں کھانے کو ترجیح دیتے ہیں اور باہر کی غیر صحت مند اشیا سے عموما پرہیز کرنے لگتے ہیں۔

    :سائنسی تکنیک پر عبور

    gardening-6

    باغبانی کے ذریعہ بچے مختلف زراعتی و سائنسی تکنیک سیکھتے ہیں جو ان کی تعلیم میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو بچے گھر میں باغبانی کی صحت مند سرگرمی میں مصروف تھے انہوں نے اسکول میں سائنس کے مضمون میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    آپ بھی اپنے بچوں کو باغبانی کی صحت مند اور مفید سرگرمی میں مشغول کر کے ان میں اچھی عادات پروان چڑھانے کا سبب بنیں۔

  • شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایک جنگ زدہ علاقہ میں، جہاں آسمان سے ہر وقت موت برستی ہو، کھانے کے لیے اپنوں کی جدائی کا جان لیوا غم اور پینے کے لیے صرف خون دل میسر ہو، وہاں بچوں کو کھیلنے کے لیے، اگر وہ جنگ کے ہولناک اثرات میں دماغی طور پر اس قابل رہ جائیں، بھلا تباہ شدہ عمارتوں کی مٹی اور پتھر کے علاوہ اور کیا میسر ہوگا؟

    جنگ زدہ علاقوں میں جہاں اولین ترجیح اپنی جان بچانا، اور دوسری ترجیح اپنے اور اپنے بچے کھچے خاندان کے پیٹ بھرنے کے لیے کسی شے کی تلاش ہو وہاں کس کو خیال آئے گا کہ بچوں کی معصومیت ابھی کچھ باقی ہے اور انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے درکار ہیں۔

    یقیناً کسی کو بھی نہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    تب مشرق کے سورج کی طرح ابھرتا دور سے آتا ’کھلونا اسمگلر‘ ہی ان بچوں کی خوشی کا واحد ذریعہ بن جاتا ہے جو سرحد پار سے ان کے لیے کھلونے ’اسمگل‘ کر کے لاتا ہے۔

    toy-2

    بچوں میں ’ٹوائے انکل‘ کے نام سے مشہور یہ اسمگلر دراصل 44 سالہ رامی ادھم ہے جو فن لینڈ کا رہائشی ہے لیکن اس کی جڑیں یہیں جنگ زدہ علاقوں میں مٹی کا ڈھیر بنی عمارتوں کے نیچے کہیں موجود ہیں، تب ہی تو یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک طریقے سے سرحد عبور کر کے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے آتا ہے۔

    toy-6

    سنہ 1989 میں اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے فن لینڈ کا سفر اختیار کرنے والے 44 سالہ رامی کا بچپن حلب کی ان ہی گلیوں میں گزرا جو اب اپنے اور بیگانوں کی وحشیانہ بمباری کا شکار ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’جب بچے مجھے آتا دیکھتے ہیں تو دور ہی سے ’ٹوائے انکل‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ میری آمد کی خبر لمحوں میں یہاں سے وہاں تک پھیل جاتی ہے اور جب میں تباہ حال شہر کے مرکز میں پہنچتا ہوں تو سینکڑوں بچے چہروں پر اشتیاق سجائے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے سبز بیگ میں سے کھلونے نکال کر بچوں میں تقسیم کرتا ہے اس وقت ان بچوں کی خوشی ناقابل بیان ہوتی ہے۔

    toy-3

    رامی ان کھلونوں کے لیے فن لینڈ میں عطیات جمع کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے ان کے بچوں کے پرانے کھلونے دینے کی بھی اپیل کرتا ہے۔ پچھلے 2 سال سے چونکہ شام کی سرحد کو بند کیا جاچکا ہے لہٰذا وہ قانونی طریقہ سے شام تک نہیں جاسکتا اور مجبوراً اسے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

    لیکن یہ اسمگلنگ ایسی ہے جو غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی غیر انسانی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک زندہ سلامت ہے اور کامیابی سے اس اسمگلنگ کو  جاری رکھے ہوئے ہے۔ رامی کے مطابق فن لینڈ اور ترکی میں اس کے کچھ واقف کار ہیں جو اسے بحفاظت سرحد پار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ اسے ’جوائے اسمگلر‘ یعنی خوشی کے اسمگلر کا نام دیتے ہیں۔

    toy-4

    پچھلے 5 سال سے جاری شام کی خانہ جنگی کے دوران رامی 28 مرتبہ بڑے بڑے تھیلوں میں بچوں کے لیے خوشی بھر کر لاتا ہے۔ اس دوران اسے 6 سے  7 گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کئی بار اس کے شام میں قیام کے دوران جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں جن کے دوران اسے گولیوں سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا اور چھپنا بھی پڑتا ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’شام کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان پر ٹوٹنے والے اس عذاب میں ساری دنیا شامل ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکے ہیں‘۔

    رامی نے فن لینڈ میں ایک ’گو فنڈ می‘ نامی مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ شام میں اسکول قائم کرنے کے لیے عطیات جمع کر رہا ہے۔ وہ یہ اسکول جنگ و جدل سے دور ترکی کی سرحد کے قریب بنانا چاہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ دورے میں وہ ایک اسکول کا بنیادی ڈھانچہ قائم کرچکا ہے۔

    toy-5

    اس رقم سے وہ اب تک حلب کے 4 اسکولوں کی بھی امداد کر چکا ہے جو مختلف تباہ شدہ عمارتوں اور سڑکوں پر قائم ہیں۔

    شامی نژاد رامی خود بھی 6 بچوں کا باپ ہے اور اس کا عزم ہے کہ جب تک شامی بچوں کو اس کی ضرورت ہے وہ ان کے لیے یہاں آتا رہے گا۔ ’میں اپنے مشن سے کبھی نہیں رکوں گا، نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی 5 سالہ خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 15 ہزار کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ شام اور عراق میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جنگی علاقوں میں محصور ہیں اور تعلیم و صحت کے بنیادی حقوق سے محروم اور بچپن ہی سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔

  • کینسر کا شکار بچے طویل العمر، بیماریوں سے محفوظ

    کینسر کا شکار بچے طویل العمر، بیماریوں سے محفوظ

    لندن: وہ بچے جو بچپن میں کسی قسم کے کینسر سے نبرد آزما ہوتے ہیں وہ طویل زندگی جیتے ہیں اور مختلف بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

    یہ تحقیق برطانیہ میں کی گئی۔ ماہرین کے مطابق وہ بچے جو بچپن میں کسی قسم کے کینسر سے لڑ رہے ہوں اگر انہیں بہترین علاج میسر آسکے تو وہ دیگر افراد کی نسبت ایک صحت مند اور طویل زندگی جیتے ہیں۔

    ذہنی تناؤ اور پریشانی کینسر کا سبب *

    آم سے کینسر سے بچاؤ ممکن *

    تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر مرنڈا فڈلر کے مطابق بچپن کا کینسر بچوں کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ دیگر افراد کے مقابلے میں بڑھاپے کی عام بیماریوں کا شکار بھی کم ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے لیے تقریباً 35 ہزار ایسے افراد کا ڈیٹا جمع کیا گیا جو بچپن میں کسی قسم کے کینسر کا شکار رہے تھے۔ ایسے افراد میں دیگر بیماریاں تو کم دیکھی گئیں البتہ ان میں امراض قلب کی شرح زیادہ ریکارڈ کی گئی اور ان میں سے نصف افراد کی موت امراض قلب کے باعث ہی ہوئی۔

    کینسر کو شکست دینے والی ماڈل *

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بچپن میں کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی نے ان کے دل کے افعال کو سست کردیا ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل کی کارکردگی کمزور ہوگئی ہو۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ افراد جو ساری زندگی باقاعدگی سے اپنا چیک اپ اور اپنی صحت کا خیال رکھتے رہے ان میں اس کینسر کے پلٹ کر آنے یا کسی دوسرے کینسر کے ہونے کا امکان بھی کم تھا۔

  • بھارتی فوج’’چھوٹے بچوں‘‘ کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے،محبوبہ مفتی

    بھارتی فوج’’چھوٹے بچوں‘‘ کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے،محبوبہ مفتی

    سری نگر: مقبوضہ کشمیر کی خاتون وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج چھوٹے بچوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیرکے قریب ایک کالج کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا وزیراعلیٰ بننا آسان ہے لیکن اس کے بعد وہاں کے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہے۔

    انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کی کارروائیاں مسلح حریت پسندوں کے نہیں بلکہ ان ’’چھوٹے بچوں‘‘ کے خلاف جاری ہیں جو احتجاج کررہے ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر کےحوالے سے ایک سوال پر کہ موجودہ صورتِ حال میں اس سے بہتر حکمتِ عملی کیا ہوسکتی تھی،توانہوں نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ کوئی بھی حکومت اپنا فرض پورا کرنے کےلیے ان حالات میں اس سے بہتر کارکردگی نہیں دکھاسکتی تھی۔

    یاد رہے کہ محبوبہ مفتی مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی اتحادی ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ (پی ڈی پی) کے سربراہ اور مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیرِ اعلی مفتی محمد سعید مرحوم کی بیٹی ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے اپنے والد کی وفات کے بعد مقبوضہ کشمیر کا اقتدار تھالی میں سجا کر پیش کیا گیا۔

    بی جے پی کی نمک حلالی کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے مقبوضہ کشمیر میں خراب حالات کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔

    دوسری جانب وہ یہ تسلیم کیے بغیر بھی نہ رہ سکیں کہ بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پُرامن تھے اور پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات جاری تھے لیکن 2004ء کے انتخابات میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ عمل رک گیا۔

    یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نیا سلسلہ 8 جولائی 2016ء کے روز حریت پسند نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔

    واضح رہے کہ جولائی سے اب تک 90 سے زائد شہری شہید کیے جاچکے ہیں جبکہ بیلٹ گن کی فائرنگ سے معذور ہوجانے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔

  • جاپان کو ترقی یافتہ بنانے والے 10 حقائق

    جاپان کو ترقی یافتہ بنانے والے 10 حقائق

    جاپان دنیا کی عالمی طاقتوں میں سے ایک ملک ہے۔ ایک زمانے میں جاپانی دنیا بھر کی تجارت پر اس طرح چھا گئے تھے کہ کہا جاتا تھا کہ امریکی صدر کے الارم کلاک کے نیچے بھی ’میڈ ان جاپان‘ کی مہر لگی تھی۔

    لیکن جاپانیوں کو ترقی یافتہ ان کی کچھ عادات نے بنایا۔ جاپانی اقوام عالم میں سرفہرست کیسے بنے یہ 10 حقائق آپ کو وجہ بتائیں گے۔

    جاپان میں پہلی جماعت سے چھٹی جماعت تک بچوں کو اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے جس میں انہیں روزمرہ کے معاملات اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ کی اخلاقیات کے بارے میں سمجھایا اور بتایا جاتا ہے۔ وہاں پہلی سے تیسری جماعت تک بچوں کو فیل کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جاپان میں تصور یہ کیا جاتا ہے کہ ان چھوٹے بچوں کی تعلیم کا مقصد ان کی تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر ہے، ان کو تلقین کرنا اور روایتی تعلیم دینا نہیں۔

    جاپانی دنیا کی امیر ترین قوموں میں شمار ہوتے ہیں مگر ان کے گھر میں کام کاج کے لیے نوکروں کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ گھر میں رہنے والے تمام افراد گھر کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

    جاپانی بچے روزانہ اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر اپنے اسکول کی جھاڑ پونچھ اور صفائی ستھرائی کرتے ہیں۔ اس مشق کا مقصد انہیں اخلاقی اور عملی طور پر صفائی پسند بنانا ہوتا ہے۔

    جاپان میں ہر بچہ اپنا دانت صاف کرنے والا برش بھی اسکول ساتھ لے کر جاتا ہے۔ اسکول میں کھانے پینے کے بعد ان سے دانت صاف کروائے جاتے ہیں تاکہ وہ بچپن ہی سے اپنی صحت کا خیال رکھنے والا بنیں۔ یہی نہیں دیگر ممالک میں صرف باتھ رومز میں ہاتھ دھونے کے بیسن کے برعکس جاپان کے اسکولوں میں جگہ جگہ واش بیسن لگے ہوتے ہیں تاکہ بچے کھیلنے کے بعد اپنے آپ کو فوراً صاف کرسکیں۔

    japan-2

    اسکولوں میں اساتذہ اور منتظمین کھانے کا معیار جانچنے اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے طلبا سے آدھا گھنٹہ پہلے کھانا کھاتے ہیں۔

    جاپان میں صفائی کا کام کرنے والے کو ایک خاص نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ہیلتھ انجینیئر بنتا ہے۔ اس کی تنخواہ امریکی ڈالر میں 5000 سے 8000 کے درمیان ہوتی ہے۔ اس ملازمت کے لیے امیدوار باقاعدہ زبانی اور تحریری امتحان پاس کرتے ہیں۔

    جاپان میں گاڑیوں، ریستوران اور بند مقامات پر موبائل استعمال نہیں کیا جاتا۔ جاپان میں سائلنٹ موڈ پر لگے موبائل کو ایک خاص نام دیا جاتا ہے جس کا مطلب تمیز پر لگا ہونا (مینر موڈ) ہے۔ اگر ٹرین میں سفر کے دوران آپ کا موبائل فون بج اٹھا تو عین ممکن ہے کہ آپ کو اپنا فون ’مینر موڈ‘ پر رکھنے کا مشورہ دیا جائے۔

    japan-1

    جاپان میں اگر آپ کسی کھلی دعوت یا بوفے پر جائیں تو وہاں پر بھی یہی دیکھیں گے کہ لوگ اپنی پلیٹوں میں ضرورت کے مطابق کھانا ڈالتے ہیں۔ پلیٹوں میں کھانا بچا چھوڑنا جاپانیوں کی عادت نہیں ہے۔

    جاپان میں سال بھر گاڑیوں کی اوسط تاخیر 7 سیکنڈ تک ہوتی ہے۔ جاپانی وقت کے قدر دان لوگ ہیں اور منٹوں سیکنڈوں کی بھی قیمت جانتے ہیں۔

    جاپان میں کسی ٹرین یا بس میں سفر کے دوران کوئی معذور، بوڑھا یا حاملہ خاتون ٹرین میں داخل ہو تو ان کے لیے فوراً جگہ چھوڑ دی جاتی ہے۔