Tag: بچے

  • جمپنگ کیسل پر اچھلتے بچوں‌ کے ساتھ دل دہلا دینے والا حادثہ

    جمپنگ کیسل پر اچھلتے بچوں‌ کے ساتھ دل دہلا دینے والا حادثہ

    تسمانیہ: آسٹریلیا کے ایک شہر ڈیونپورٹ میں جمپنگ کیسل پر اچھلتے بچوں‌ کے ساتھ جان لیوا حادثہ پیش آیا ہے، جس میں 5 بچے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    تفصیلات کے مطابق آسٹریلوی ریاست تسمانیہ میں ایک باؤنسی قلعے سے گرنے سے 5 بچے ہلاک اور 4 زخمی ہو گئے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ جمپنگ کیسل تیز ہواؤں کی وجہ سے اڑ گیا تھا، مرنے والوں میں دو بچیاں اور دو بچے شامل ہیں۔

    آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے حادثے کو "دل دہلا دینے والا” قرار دیا، اور کہا کہ ایسے واقعے کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

    یہ حادثہ آج جمعرات کو ایک پرائمری اسکول کے تفریحی دن کے موقع پر ہوا کے تیز جھونکے کی وجہ سے پیش آیا، پولیس کا کہنا ہے کہ بچے 10 میٹر (32 فٹ) کی اونچائی سے گرے تھے۔

    حکام نے بچوں کی عمریں نہیں بتائیں لیکن کہا گیا کہ سبھی پانچوں یا چھٹے گریڈ میں تھے، جہاں عام طور پر 10 سے 12 سال کی عمر کے بچوں پڑھتے ہیں، یہ اگلے سال ہائی اسکول میں جانے کا جشن منا رہے تھے۔

    تسمانیہ کے پولیس کمشنر ڈیرن ہائن نے کہا کہ ہوا کے جھونکے نے مبینہ طور پر جمپنگ کیسل اور ہوا کے گیندوں کو فضا میں اچھال دیا تھا۔

    آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے رپورٹر کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں جمپنگ کیسل کے کچھ حصے دیکھے جا سکتے ہیں۔

    یہ پہلا موقع نہیں ہے جب تیز ہواؤں سے جمپنگ کیسل اڑ کر حادثہ پیش آیا ہو، ایسے واقعے میں امریکا میں مبینہ طور پر چار بچے زخمی ہوئے تھے، اسپین اور برطانیہ میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں بچوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

  • بچوں کے ساتھ جاتی ماں کی بائیک پٹریوں پر پھنس گئی، دل دہلا دینے والی ویڈیو

    بچوں کے ساتھ جاتی ماں کی بائیک پٹریوں پر پھنس گئی، دل دہلا دینے والی ویڈیو

    انڈونیشیا میں ایک ماں اپنے 2 بچوں کے ساتھ موٹر بائیک پر جاتے ہوئے اس وقت بال بال بچ گئی جب بائیک ریل کی پٹریوں پر پھنس گئی اور ٹرین سر پر پہنچ گئی۔

    سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ماں بائیک پر ایک بچی اور چھوٹے بچے کے ساتھ جارہی ہے، ریلوے ٹریک پار کرتے ہوئے بائیک کے پہیے پٹریوں میں پھنس جاتے ہیں۔

    ماں اسے نکالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے، اتنے میں سامنے سے ٹرین آتی دکھائی دے جاتی ہے۔ ماں کی ہدایت پر دونوں بچے جلدی سے بائیک سے اتر کر دور ہوجاتے ہیں اور ماں خود بھی اتر کر بائیک کو ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔

    اس دوران بچی بھی ماں کی مدد کرتی ہے لیکن ٹرین سر پہ پہنچ جاتی ہے جس کے بعد ماں بچی کو لے کر پیچھے ہٹتی ہے، اور اسی لمحے ٹرین زناٹے سے گزرتی ہے اور بائیک اس سے ٹکرا کر اڑتی ہوئی جھاڑیوں میں گرتی ہے۔

    حادثے کے بعد پولیس نے موقع پر پہنچ کر تحقیقات شروع کردیں، پولیس نے مقامی حکام کو ریلوے لائن کی جانچ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ہم نے خاتون سے پوچھ گچھ کی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

    وہ حادثے کے بعد بہت خوفزدہ ہیں۔ حکام نے مذکورہ ریلوے ٹریک کو مزید محفوظ بنانے کے لیے کام شروع کردیا ہے۔

  • بچے کیسے بگڑتے ہیں؟

    بچے کیسے بگڑتے ہیں؟

    کسی شخص کی فطرت و عادات کا تعین بچپن میں کی گئی اس کی تربیت سے ہوتا ہے، تاہم وہ کیا عوامل ہیں جو کسی بچے کی عادات کو خراب کرتے ہیں اور بعد ازاں یہ بچہ بڑا ہو کر معاشرے کا ایک نقصان دہ حصہ بنتا ہے؟

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں چائلڈ سائیکولوجسٹ سیدہ دانش احمد نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ والدین اکثر بچوں کے سامنے ایسی عادات کا مظاہرہ کرتے ہیں جو بچوں کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہیں۔

    جیسے وہ انہیں جھوٹ بولنے کا کہتے ہیں، بات بات پر ٹوکتے ہیں یا اونچی آواز میں ان سے بات کرتے ہیں۔

    سیدہ دانش کا کہنا تھا کہ بچوں کا ایک دوسرے سے تقابل کرنا نہایت غلط عمل ہے، ہر بچے کی ذہنی صلاحیت مختلف ہوتی ہے، اگر وہ کسی ایک معاملے میں کمزور ہوگا تو دوسرے شعبے میں نہایت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا ان میں بچپن میں احساس کمتری اور بڑے ہونے کے بعد حسد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

    سیدہ دانش نے کہا کہ بچوں میں اسمارٹ فونز کا استعمال بھی بہت بڑھ گیا ہے، اس کا استعمال محدود کرنے کے لیے والدین کو کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے کہ کس طرح اس کے نقصانات سے بچا جائے اور بچوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے۔

  • فائزر ویکسین بچوں میں 4 ماہ بعد بھی مؤثر

    فائزر ویکسین بچوں میں 4 ماہ بعد بھی مؤثر

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بچوں کی بھی کووڈ 19 کی ویکسی نیشن کروائی جارہی ہے، فائزر اور بائیو این ٹیک ویکسین بچوں کو لگائے جانے کے حوالے سے ایک نئی تحقیق ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فائزر اور بائیو این ٹیک نے کہا ہے کہ ان کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کو بیماری سے طویل المعیاد تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    کمپنیوں کی جانب سے نیا ڈیٹا جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ اس عمر کے بچوں کو ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 4 ماہ بعد بھی 100 فیصد تحفظ حاصل تھا۔

    اس تحقیق میں 12 سے 15 سال کی عمر کے 2 ہزار 228 بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور کمپنی کی جانب سے اس ڈیٹا کے ذریعے اس عمر کے گروپ کے لیے ویکسین کی مکمل منظوری حاصل کرنے کی درخواستیں امریکا اور دنیا کے دیگر حصوں میں جمع کرائی جائے گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ دوسری خوراک کے استعمال کے کم از کم 6 ماہ بعد بھی ان بچوں میں تحفظ کے سنجیدہ تحفظات کا مشاہدہ نہیں ہوسکا۔

    فائزر کے سی ای او البرٹ بورلا نے ایک بیان میں بتایا کہ اس وقت جب دنیا بھر میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافی ڈیٹا بچوں میں ہماری ویکسین کے محفوظ اور مؤثر کے حوالے سے اعتماد کو بڑھائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس عمر کے بچوں میں کووڈ 19 کی شرح میں اضافے کو دیکھا گیا ہے جبکہ ویکسی نیشن سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

    امریکا میں مئی 2021 کو 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کے لیے فائزر ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی گئی تھی اور اب کمپنیوں کی جانب سے جلد مکمل منظوری کے حصول کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    امریکا میں 16 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے اس ویکسین کی مکمل منظوری دی گئی ہے۔

  • وہ غلطیاں جو والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کرتے ہیں

    وہ غلطیاں جو والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کرتے ہیں

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے، ان پر اپنے بچے کی تربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی تربیت ہی معاشرے میں ایک اچھے یا برے شخص کا اضافہ کرے گی۔

    تاہم بعض والدین انجانے میں اپنے بچوں کی تربیت میں ایسی غلطیاں کردیتے ہیں جو بچوں کے لیے اور مستقبل میں خود والدین کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین نے ان سات غلطیوں کی نشاندہی کی ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔

    دوسروں کے ساتھ مسلسل موازنہ

    جب آپ بچے کو ہر وقت کہتے رہیں گے کہ فلاں کو دیکھو، وہ بھی آپ کی عمر کا ہے، اس کے نمبر آپ سے اچھے آتے ہیں، وہ زیادہ ذہین ہے وغیرہ، تو دراصل آپ بچے کا وہ اعتماد چھین رہے ہوتے ہیں جو اس کے پاس ویسے ہی کم ہوتا ہے۔ اس سے بچہ خود کو کمتر اور ناقابل قبول سمجھتا ہے۔

    بچے کو اس کی کمزوریاں گنوانے سے بہتر ہے کہ اس کے پاس بیٹھیں، اس کی مدد کریں، پڑھائی کو اس کے لیے دلچسپ بنائیں، اسے اعتماد دیں اور بتائیں کہ وہ بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ موازنے سے گریز کریں۔

    ذمہ داری نہ اٹھانے دینا

    اکثر لوگ اپنے بچے کو بہت چھوٹا اور معصوم سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان پر ہلکی سی بھی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے اسی لیے اس کو پڑھائی کے علاوہ کچھ نہیں کرنے دیا جاتا۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو چھوٹے موٹے کام کرنے دینا چاہیئے جیسے والدین کا ہاتھ بٹانا وغیرہ، اس سے بچے میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتا جاتا ہے اور آگے چل کر زندگی میں کام آتا ہے۔

    بچے کو نئی چیزیں دریافت کرنے کی اجازت نہ دینا

    کھیل بچے کی زندگی کا دلچسپ اور پسندیدہ ترین حصہ ہوتے ہیں، ان کو کھیلنے کودنے، نئی چیزیں آزمانے، غلطیاں کرنے سے مت روکیں بلکہ غلطی کے بعد اس سے سیکھنے کا طریقہ سکھائیں۔

    اہم ترین بات یہ ہے کہ بچے کو کبھی سوال کرنے سے نہ روکیں، بلکہ حوصلہ افزائی کریں۔ جس بچے میں تجسس زیادہ ہو وہی سوال پوچھتا ہے، جس سے اس کی ذہانت بڑھتی ہے، اسی طرح دیگر چھوٹے موٹے مسائل کا بھی سامنے کرنے دیں۔

    چیخنا چلانا اور دھمکانا

    بچوں پر چیخنا چلانا اور بات بات پر دھمکانا ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے، اگرچہ والدین ایسا اچھی نیت کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے مضر اثرات بہرحال بچے پر پڑتے ہیں۔

    اگر بچہ کوئی غلطی کرے یا آپ اس کو قواعد پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو یہ کام پیار سے یا جسمانی اور زبانی نقصان پہنچائے بغیر بھی ہو سکتا ہے، بچے کو یہ سمجھانا کہ کچھ باتیں خوفناک نتائج کا باعث بن سکتی ہیں اچھی بات ہے لیکن نظم و ضبط سکھانے اور سزا میں بہت فرق ہے۔

    نظم و ضبط بچے کو اعتماد دیتا ہے اور وہ مستقبل کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرتا ہے سزا اسے خود سے بددل کرتی ہے اور اس کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔

    زیادہ لاڈ کرنا

    جس طرح کچھ لوگ بچے پر چیخ چلا کر اور دھمکا کر غلطی کرتے ہیں اسی طرح ایسے والدین بھی ہیں جو بچے کو کچھ زیادہ ہی لاڈ پیار کرتے ہیں اور ایسی غلطیاں بھی نظر انداز کر جاتے ہیں جو دیگر لوگوں کو بھی متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ خود ان کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کی غلطیوں کو چھپانا انہیں مستقبل میں بڑی غلطیاں کرنے کی ترغیب دینا ہے، بچے کو غلط کام پر ٹوکنا اور اچھے انداز میں سمجھانا چاہیئے تاکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اسے غلطی کے نتائج برداشت کرنا پڑیں گے۔

    اسکول لائف کو نظر انداز نہ کریں

    بچہ اپنے دن کا بیش تر وقت اسکول میں گزارتا ہے جہاں اس کو تجربات حاصل ہوتے ہیں جو اچھے بھی ہو سکتے اور برے بھی، اس لیے والدین کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے ان کے بچے سکول میں کیا کر رہے ہیں۔

    بچے کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیئے کہ والدین اس کی اسکول کی زندگی کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ کو اسے یہ بات سمجھانی چاہیئے کہ وہ کوئی بھی ایسی بات چھپانے کی کوشش نہ کرے جو اسکول میں یا کہیں اور اسے پریشان کرتی ہے۔

    بچوں کے سامنے لڑائی نہ کریں

    میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جایا کرتا ہے تاہم کوشش کی جانی چاہیئے کہ اس پر بچوں کی موجودگی میں بات نہ ہو، خصوصاً جارحانہ انداز تو قطعی نہیں اپنانا چاہیئے، اس سے بچے کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے اور یہ رویہ انہیں دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی طرف لے جا سکتا ہے۔

  • بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا کہ بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات سے مستقبل میں ان میں مختلف دماغی امراض کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

    میساچیوسٹس جنرل ہسپتال (ایم جی ایچ) میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات اور موٹائی کو دیکھ کر مستقبل میں ان میں ڈپریشن اور دماغی امراض کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

    ایم جی ایچ کی ماہر ایرن سی ڈن نے اپنی حیرت انگیز تحقیق میں کہا کہ ابتدائی کم عمری میں بچوں کی مشکلات آگے چل کر ان کی شخصیت اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    بچوں کے ابتدائی ماہ و سال بہت حساس ہوتے ہیں اور کوئی بھی ناخوشگواری ایک تہائی دماغی عارضوں کی وجہ بن سکتی ہے جس کے واضح اثرات جوانی اور بلوغت میں سامنے آتے ہیں۔

    تحقیق کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ڈپریشن اور دیگر امراض میں مبتلا افراد سے ان کے بچپن کے واقعات اور مسائل کے بارے میں پوچھا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہرفرد کو اپنے بچپن کی باتیں یاد نہیں رہتیں، اس لحاظ سے یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمارے ساتھ بچپن میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے نقوش دانتوں پر آجاتے ہیں۔ یوں انہیں، زندگی کے اتار چڑھاؤ کا ایک ریکارڈ کہا جاسکتا ہے۔ بیماری ہو، ذہنی تناؤ ہو یا پھر غذائی قلت ان کا اثر دانتوں پر آتا ہے۔ درختوں کے تنوں میں دائروں کی طرح کی دھاریاں دانتوں میں بنتی ہیں جنہیں اسٹریس لائن کہا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں ایم جی ایچ کےماہرین نے 70 بچوں کا جائزہ لیا جس میں ایوون لونگٹیوڈینل اسٹڈی آف پیرنٹس اینڈ چلڈرن کے تحت برطانوی بچوں کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے والدین میں حمل کی سختیوں، والدہ کی نفسیاتی مسائل کی تاریخ، پڑوس کا ماحول، غربت اور رویہ اور معاشرتی سپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جن ماؤں نے تناؤ بھرا ماحول گزارا تھا اور بے چینی سے گزری تھیں ان کے بچوں پر اس کے اثرات دیکھے گئے اور ان کے دانتوں پر بھی اس کے اثرات دیکھے گئے تھے۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے بعد زور دیا ہے کہ بچوں میں دودھ کے دانتوں کے معائنے سے انہیں مستقبل میں کئی امراض سے بچایا جاسکتا ہے۔

  • 6 ماہ کے بچوں کے لیے کون سی کووڈ ویکسین محفوظ ہے؟

    6 ماہ کے بچوں کے لیے کون سی کووڈ ویکسین محفوظ ہے؟

    چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کووڈ ویکسین 6 ماہ اور اس سے زائد عمر کے بچوں کے لیے بھی مؤثر اور محفوظ قرار دے دی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 6 ماہ یا اس سے زائد عمر کے بچوں کے لیے محفوظ قرار دے دی گئی۔

    کمپنی کے حکام نے بتایا کہ سائنو ویک کی جانب سے اکتوبر میں 3 سے 17 سال کی عمر کے بچوں پر ویکسین کی آزمائش کے ٹرائلز کے ابتدائی 2 مراحل کے نتائج ہانگ کانگ حکومت کے پاس جمع کروائے گئے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ٹرائلز میں بچوں کے مدافعتی ردعمل اور ویکسین محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    چین میں 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی ویکسی نیشن کو بھی ویکسین کے محفوظ ہونے کے ڈیٹا میں شامل کیا گیا تھا۔ سائنو ویک کے میڈیکل افیئرز ڈائریکٹر ڈاکٹر گاؤ یونگ جون نے بتایا کہ اب تک ہم نے بچوں میں کسی قسم کے مضر اثرات دریافت نہیں کیے جو ایک اچھی بات ہے۔

    سائنو ویک کی جانب سے اکتوبر میں ہانگ کانگ حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ ویکسی نیشن کے لیے بچوں کی عمر کی حد کم کی جائے جو ابھی 3 سال سے شروع ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر گاؤ یونگ نے بتایا کہ ٹرائلز کے تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ویکسین بچوں کے لیے بہت زیادہ محفوظ ہے اور اس سے کسی قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    تیسرے مرحلے کے ٹرائل کا آغاز ستمبر 2021 میں جنوبی افریقہ، چلی، فلپائن اور ملائیشیا میں ہوا تھا اور اس میں 6 ماہ سے 17 سال کی عمر کے 14 ہزار بچوں کو شامل کیا جائے گا۔

    ان میں ویکسین کی 2 خوراکوں کی افادیت، مدافعتی ردعمل اور محفوظ ہونے کو جانچا جارہا ہے۔ اب تک 2 ہزار 140 بچوں کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں اور 684 میں ویکسین کے محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    18.6 فیصد میں ویکسین سے جڑے مضر اثرات دریافت ہوئے جن میں سردرد اور انجیکشن کے مقام پر تکلیف نمایاں ہیں۔ یہ شرح ٹرائلز کے ابتدائی 2 مراحل کی 26.6 فیصد سے کم ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسین کی افادیت کے ڈیٹا کے تجزیے کے لیے مزید وقت درکار ہے اور عبوری رپورٹ آئندہ سال دستیاب ہوگی۔

  • جارج کلونی کی میڈیا سے اپیل

    جارج کلونی کی میڈیا سے اپیل

    ہالی ووڈ کے آسکر انعام یافتہ اداکار جارج کلونی نے میڈیا سے اپنے بچوں کی تصویر شائع نہ کرنے کی اپیل کردی، انہوں نے کہا کہ پریس میں ان کے بچوں کی تصاویر شائع ہونے سے ان کے بچوں کی حفاظت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

    اداکار جارج کلونی نے اشاعتی اداروں سے کہا ہے کہ ان کے بچوں کی تصویر شائع نہیں کیا کریں۔

    اس حوالے سے انہوں نے پریس کو ایک خط لکھا اور کہا کہ ان کی اہلیہ انسانی حقوق کی وکیل ہیں، ان کے کام کی نوعیت کی وجہ سے ہم اپنے خاندان کو محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتتے ہیں۔

    جارج کلونی نے کہا کہ اگر رسالوں کے سرورق پر تصویریں شائع ہوئیں تو وہ بچوں کی حفاظت نہیں کر پائیں گے۔ وہ اپنے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ نہیں کرتے کہ کہیں انہیں سیکیورٹی خدشات نہ لاحق ہوجائیں۔

    یاد رہے کہ جارج کلونی نے انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی سے سنہ 2014 میں شادی کی تھی، سنہ 2017 میں جوڑے کے یہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔

  • بچوں کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار دینے والا واحد ملک

    بچوں کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار دینے والا واحد ملک

    وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بچوں کے لیے کووڈ ویکسی نیشن لازمی قرار دے دی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کوسٹا ریکا کی حکومت نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ بچوں کو ویکسین لگانے کا معاہدہ کرلیا، جس کے تحت 5 سال سے زائد عمر کے بچوں کو لازمی ویکسین لگائی جائے گی۔

    کوسٹا ریکا حکام کے مطابق مارچ 2022 سے کرونا وائرس کی ویکسین کو لازمی ویکسی نیشن کی فہرست میں شامل کرلیا جائے گا۔

    ملک میں پہلے ہی بچوں کو متعدد موذی امراض سے تحفظ کی ویکسین لگائی جا رہی ہیں اب بچوں کو کرونا سے تحفظ کی فائزر ویکسین بھی دی جائے گی۔

    معاہدے کے تحت کوسٹا ریکا کی حکومت 15 لاکھ ڈوز 5 سال سے زائد عمر بچوں کے لیے خریدے گی جبکہ باقی 20 لاکھ ڈوز بالغ افراد کو لگانے کے لیے خریدے جائیں گے۔

    حکومت کے مطابق اس وقت تک کوسٹا ریکا میں مجموعی طور پر 70 فیصد آبادی کو ایک ڈوز لگ چکی ہے جب کہ 55 فیصد لوگ مکمل طور پر ویکسی نیشن کروا چکے ہیں۔

    کوسٹا ریکا کی حکومت نے ویکسین کو بچوں کے لیے ایک ایسے وقت میں لازمی قرار دیا ہے جبکہ حال ہی میں امریکی حکومت نے 5 سال سے زائد عمر کے بچوں کو فائزر ویکسین لگانے کی اجازت دی تھی۔

    کوسٹا ریکا کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک نے تاحال بچوں کے لیے کرونا کی ویکسین کو لازمی قرار نہیں دیا، البتہ وبا سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کو ضروری قرار دے رکھا ہے۔

     

  • 26 بچے تہہ خانے میں چھپا کر رکھنے والی ڈے کیئر سینٹر کی مالکن گرفتار

    26 بچے تہہ خانے میں چھپا کر رکھنے والی ڈے کیئر سینٹر کی مالکن گرفتار

    امریکا میں ایک ڈے کیئر سینٹر کی مالکن کو گنجائش سے زائد بچے رکھنے پر 6 سال قید کی سزا سنا دی گئی، 26 عدد بچے بیسمنٹ میں موجود تھے جہاں پیاس اور گھٹن سے ان کی حالت ابتر تھی۔

    امریکی ریاست کولوراڈو میں ڈے کیئر سینٹر چلانے والی کارلا میری فیتھ نامی خاتون کو نومبر 2019 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فیتھ کو صرف 6 بچے رکھنے کا لائسنس دیا گیا تھا تاہم وہ اس سے کہیں زیادہ بچوں کو اپنے سینٹر میں رکھے ہوئے تھی۔

    ڈے کیئر سینٹر کی مالکن نے 26 بچوں کو بیسمنٹ میں رکھا ہوا تھا جبکہ بیسمنٹ کی سیڑھیوں کو ایک مصنوعی سلائیڈنگ دیوار کے پیچھے چھپایا گیا تھا۔ تہہ خانے میں موجود 12 بچوں کی عمریں 2 سال سے بھی کم تھیں۔

    بچے پسینے میں شرابور اور پیاسے تھے جبکہ ان کے جسم بھی سوجن کا شکار تھے۔ بچوں کی نگرانی پر صرف 2 ملازمین مامور تھے جنہیں پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    پولیس نے مذکورہ مکان پر اس وقت چھاپہ مارا جب انہیں اطلاع ملی کہ یہاں گنجائش سے زیادہ بچے رکھے گئے ہیں، پولیس کے پہنچنے پر فیتھ نے بچوں کی موجودگی سے انکار کیا اور تہہ خانے کے بارے میں پوچھنے پر کہا کہ گھر میں کوئی تہہ خانہ نہیں۔

    تاہم بچوں کے رونے کی آواز پر پولیس نے دیواروں کو دھکا دیا جس کے بعد مصنوعی دیوار اپنی جگہ سے ہل گئی اور پولیس تہہ خانے میں داخل ہوگئی۔

    فیتھ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پاس آنے والے والدین کو انکار نہیں کرسکی تھی لہٰذا سینٹر میں گنجائش سے زیادہ بچوں کو رکھا۔

    فیتھ اور اس کے دونوں ملازمین کو گرفتار کرلیا گیا جن کے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے، عدالت نے فیتھ کو 6 سال قید کی سزا سنائی ہے۔