Tag: بچے

  • کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    بچوں کو کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 57 بچوں اور 51 بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف 37 فیصد بچوں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76 فیصد رہی۔

    ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد میں دیکھنے میں آیا۔

    اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020 میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کرونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں بھی ایسا ہو رہا ہے، اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ آخر بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔

  • ہکلاہٹ کا مرض: وجوہات اور علاج کیا ہے؟

    ہکلاہٹ کا مرض: وجوہات اور علاج کیا ہے؟

    زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایسا مرض ہے جس کی عموماً کوئی وجہ نہیں ہوتی، ہمارے آس پاس موجود افراد میں سے ایک نہ ایک شخص ضرور ہکلاتا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کی 1 فیصد آبادی اس وقت ہکلاہٹ یا زبان میں لکنت کا شکار ہے۔ زبان میں لکنت کا شکار افراد گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود کسی ایک حرف (عموماً شروع کے حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

    ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل ان سے غیر اختیاری طور پر سرزد ہوتا ہے۔

    زبان کی اسی لکنت کا شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانے کے لیے آج اس بیماری سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1998 میں کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق اس مرض کی 3 اقسام ہیں، ڈویلپمنٹل، نیوروجینک اور سائیکو جینک۔ پہلی قسم ہکلاہٹ کی سب سے عام قسم ہے جو زیادہ تر بچوں میں اس وقت ہوتی ہے جب وہ بولنا سیکھتے ہیں۔

    نیوروجینک کا تعلق بولنے میں مدد دینے والے خلیات کی خرابی سے جبکہ سائیکو جینک مختلف دماغی یا نفسیاتی امراض اور پیچیدگیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔

    ہکلاہٹ کی وجوہات کیا ہیں؟

    ماہرین اس مرض کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ ان مطابق یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے، اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں بھی ہکلانے لگتے ہیں جو جزوی ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔

    ہکلاہٹ کی ایک اور وجہ بچوں کی نشونما میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق 2 سے 5 سال کی عمر کے دوران جب بچے بولنا سیکھتے ہیں تو وہ ہکلاتے ہیں۔ 98 فیصد بچے نارمل طریقے سے بولنے لگتے ہیں لیکن 2 فیصد بچوں کی ہکلاہٹ مستقل ہوجاتی ہے اور باقاعدہ مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ زبان کی لکنت کی وجہ جسم میں موجود 3 مختلف جینز میں پایا جانے والا نقص ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جو ان کے لیے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

    لکنت کا سب سے پہلا علاج تو آپ کو خود کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔

    ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ تھراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے۔

  • شہزاد رائے نے بچوں کو کنچے کھیلنے کا مشورہ کیوں دیا؟

    شہزاد رائے نے بچوں کو کنچے کھیلنے کا مشورہ کیوں دیا؟

    معروف گلوکار و سماجی کارکن شہزاد رائے نے بچوں کو کنچے کھیلنے کا مشورہ دے دیا، انہوں نے کہا کہ گو کہ بڑے کنچے کھیلنے سے منع کرتے ہیں لیکن بزرگ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شہزاد رائے نے ایک بچے کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں بچے کو کنچے کھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    شہزاد رائے نے لکھا کہ جب میں چھوٹا تھا تو میں نے ہمیشہ اپنے بڑوں سے یہی سنا کہ گندے بچے کنچے کھیلتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حقیقت میں، یہ کھیل ہاتھوں سے آنکھوں کو ہم آہنگ کرنے میں مدد کرتا ہے اور چھوٹے بچوں میں مہارت پیدا کرتا ہے۔

    شہزاد رائے کا مزید کہنا تھا کہ بزرگ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتے لہٰذا احترام کے ساتھ سوالات پوچھیں اور بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

  • کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کرونا وائرس سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو بالکل ویسے ہی پھیلا سکتے ہیں جیسے کووڈ 19 سے متاثرہ کوئی بالغ شخص۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بچے کووڈ 19 سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو آگے بالغ افراد کی طرح ہی پھیلا سکتے ہیں۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل، برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل اور ریگن انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق میں سابقہ نتائج کی تصدیق کی گئی کہ نومولود بچے، چھوٹے اور بڑے بچوں کے نظام تنفس میں کرونا وائرس کی تعداد بالغ افراد جتنی ہی ہوتی ہے اور ان کے جسموں میں اسی شرح سے وائرس کی نقول بنتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 2 ہفتے سے 21 سال کی عمر کے 110 بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے بچوں میں چاہے ان میں بیماری کی علامات موجود ہوں یا نہ ہوں، وائرل لوڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ سوال پہلے سے موجود تھا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور زندہ وائرس کے درمیان تعلق موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب ٹھوس جواب دینے کے قابل ہوگئے ہیں کہ یہ زیادہ وائرل لوڈ متعدی ہوتا ہے یعنی بچے بہت آسانی سے کووڈ 19 کو اپنے ارگرد پھیلا سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر بچے اس وائرس کو جسم میں لے کر پھر سکتے ہیں اور دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ طالب علم اور اساتذہ اب اسکول لوٹ رہے ہیں مگر اب بھی بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات تلاش کرنا باقی ہے، جیسے
    بیشتر بچوں میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی علامات کا سامنا ہوتا ہے، جس سے یہ غلط خیال پیدا ہوا کہ بچوں سے اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے متاثر بچوں میں کرونا وائرس کے وائرل فیچرز کی جانچ پڑتال سے زیادہ بہتر پالیسیوں کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

  • اسکول نے اسکوئڈ گیم دیکھنے والے بچوں کے والدین کو خبردار کردیا

    اسکول نے اسکوئڈ گیم دیکھنے والے بچوں کے والدین کو خبردار کردیا

    امریکی اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس پر اس وقت جنوبی کورین سیریز اسکوئڈ گیم چھائی ہوئی ہے، تاہم اس سیریز کی وجہ سے بچوں میں پرتششد رجحانات فروغ پانے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

    انگلینڈ میں ایک اسکول نے والدین کو خط لکھا ہے اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اسکوئڈ گیم دیکھنے والے بچے اسی سیریز کی طرز پر کھیلنے لگے ہیں جس میں بچے فرضی طور پر ایک دوسرے کو گولیاں مارتے ہیں۔

    خط میں والدین کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ ہمارے علم میں آیا ہے کہ بچوں کی اکثریت نے نیٹ فلکس پر ویب سیریز اسکوئڈ گیم دیکھی ہے، ہم نے نوٹس کیا ہے بچے اسکول کے دوران اسی طرز کے کھیل کھیلنے لگے ہیں جس کے باعث دوستوں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔

    اسکول انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ سیریز میں پرتشدد مناظر دیکھنے کے بعد بچے بھی اسکول میں ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں جسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

    خط میں کہا گیا کہ پرتشدد مناظر کی وجہ سے ہی اس سیریز کو 15 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، یہ پرائمری اسکول کے بچوں کے لیے ہرگز موزوں پروگرام نہیں ہے۔

    اسکول کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ایسے بچے جو اس سیریز کی طرز پر کھیلتے ہوئے اور پرتشدد رویہ اپناتے ہوئے پائے گئے ان کے والدین کو طلب کیا جائے گا اور ضروری کارروائی کی جائے گی۔

    خط میں کہا گیا کہ یہ اقدام بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ کورین ویب سیریز اسکوئڈ گیم اس وقت دنیا بھر میں مقبول ہوچکی ہے اور یہ جلد ہی نیٹ فلکس کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سیریز بننے جارہی ہے۔

  • اسکول سے واپس آئے بچوں پر قیامت ٹوٹ پڑی

    اسکول سے واپس آئے بچوں پر قیامت ٹوٹ پڑی

    نئی دہلی: بھارت میں ایک گھر میں ہونے والی ڈکیتی اس وقت خونریز واردات میں بدل گئی جب ڈاکوؤں نے گھر میں موجود خاتون کو قتل کردیا، بچے اسکول سے گھر لوٹے تو ماں کو مردہ حالت میں پا کر ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ واقعہ غازی آباد میں پیش آیا جہاں 35 سالہ خاتون اپنے 3 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر پر اکیلی تھی۔ ان کا شوہر کام پر گیا ہوا تھا جبکہ 13 سالہ بیٹی اور 10 سالہ بیٹا اسکول گئے ہوئے تھے۔

    دن میں کسی وقت ڈکیت گھر میں داخل ہوئے اور خاتون اور بچے کو یرغمال بنا کر گھر میں موجود 70 ہزار روپے مالیت کے زیورات اور 50 ہزار روپے نقد اپنے ساتھ لے گئے، خاتون نے ممکنہ طور پر مزاحمت کی جس پر ڈاکوؤں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    بچے جب اسکول سے گھر پہنچے تو انہوں نے ماں کو بے حس و حرکت صوفے پر پڑا ہوا پایا جبکہ چھوٹا بھائی فرش پر بیٹھا رو رہا تھا۔

    خاتون کے شوہر دلشاد کو پڑوسی کی جانب سے فون کیا گیا جس کے بعد وہ فوری طور پر گھر پہنچا۔

    دلشاد نے پولیس کو بتایا کہ اس نے قرض کی واپسی کے لیے کچھ رقم گھر میں جمع کر رکھی تھی جو ڈاکو اپنے ساتھ لے گئے۔

    پولیس نے ایف آئی آر درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کردی، اب تک پولیس آس پاس کے 30 سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرچکی ہے لیکن تاحال کوئی سراغ نہیں ملا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں نے ممکنہ طور پر خاتون کے منہ پر تکیہ رکھا اور دم گھٹنے سے ان کی موت واقع ہوئی۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے جس سے مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔

  • بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے تاہم ان میں علامات کم ظاہر ہوتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے مگر علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکی ریاست یوٹاہ اور نیویارک شہر میں بالغ افراد اور بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ملتا جلتا ہوتا ہے مگر بچوں میں اکثر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    تحقیق کے مطابق ہر عمر کے بچوں میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق ستمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران ہوئی جس میں ایک یا اس سے زائد تعداد والے بچوں پر مشتمل 310 مختلف گھرانوں کے 12 سو 36 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ان گھرانوں میں کووڈ 19 کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ایک گھر کے اندر کسی فرد کے کووڈ سے متاثر ہونے پر دیگر میں بیماری کا خطرہ 52 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    جب انہوں نے کووڈ کے مریضوں کی عمر کے گروپ کا تجزیہ کیا تو دریافت ہوا کہ ہر عمر کے ایک ہزار افراد میں بیماری کا خطرہ لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

    یعنی 4 سال کے ایک ہزار بچوں میں 6.3، 5 سے 11 سال کی عمر کے 4.4، 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں 6 اور بالغ افراد میں 5.1 میں اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں کرونا وائرس کی شرح لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہے اور اس سے بچوں میں ویکسی نیشن کی افادیت اور محفوظ ہونے کی برق رفتاری سے جانچ پڑتال کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں جب یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف عمر کے افراد میں علامات ظاہر ہونے کی شرح کیا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ 4 سال سے کم عمر 52 فیصد بچوں میں کووڈ سے متاثر کے بعد علامات ظاہر نہیں ہوتیں، 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 50 فیصد، 12 سے 17 سال کے گروپ میں 45 فیصد جبکہ بالغ افراد میں محض 12 فیصد تھی۔

  • ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    بیجنگ: چینی کمپنی کین سائنو کی کووڈ 19 کی ایک خوراک والی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار دی گئی ہے، تحقیق کے مطابق ویکسین کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چینی کمپنی کین سائنو کی ایک خوراک والی کووڈ 19 ویکسین کو کم مقدار میں بچوں کو دینا محفوظ اور بیماری سے بچاؤ کے لیے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے۔

    چین میں ہونے والی اس تحقیق میں 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں ویکسین کی کم خوراک کا استعمال کروایا گیا تھا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ بہت کم بچوں میں ویکسی نیشن کے بعد بخار اور سر درد کی علامات ظاہر ہوئیں جن کی شدت لیول 2 تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی خوراک کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔ اس تحقیق میں 150 بچوں اور 300 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    نتائج میں علم ہوا کہ ویکسین کی کم مقدار والی ایک خوراک سے ہی بچوں میں ویکسی نیشن کے 56 دن بعد بالغ افراد کے مقابللے میں زیادہ طاقتور اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوا۔

    مگر فی الحال یہ واضح نہیں کہ ویکسین سے بچوں کو کووڈ 19 کے خلاف کس حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    کین سائنو کو ابھی تک چین میں بچوں کے لیے استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی گئی بلکہ سائنو ویک اور سائنو فارم کو 3 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو استعمال کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔

  • چینی ویکسین 3 سال کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار

    چینی ویکسین 3 سال کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار

    چین میں تیار کی جانے والی ایک کووڈ 19 ویکسین 3 سال تک کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار دی گئی ہے، چین میں اس ویکسین کا استعمال فی الحال 12 سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق چین کی ایک کمپنی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین 3 سال تک کے بچوں کے لیے محفوظ ہے، یہ بات سائنو فارم ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج میں سامنے آئی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں ٹرائلز کے نتائج شائع ہوئے جس کے مطابق یہ ویکسین 3 سے 17 سال کی عمر کے رضاکاروں میں محفوظ ثابت ہوئی۔

    چین میں اس ویکسین کا استعمال 12 سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔

    ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ 2 خوراکوں والی یہ ویکسین بچوں میں ٹھوس مدافعتی ردعمل اور بالغ افراد جتنی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔

    کمپنی اور چائنا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائلز کا ڈیٹا متحدہ عرب امارات سے اکٹھا کیا جائے گا جہاں 3 سال کے بچوں کو ویکسی نیشن پروگرام کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

    چائنا سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کے ویکسی نیشن پروگرام کے سربراہ وانگ ہواچنگ نے بتایا کہ چین میں ایک ارب افراد کی ویکسی نیشن مکمل کرنے کا سنگ میل طے کرلیا گیا ہے مگر اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اب بھی 12 سال سے کم عمر بچوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوسکی ہے اور ان کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جانا چاہیئے۔

    ان ٹرائلز کے پہلے مرحلے میں 288 جبکہ دوسرے مرحلے میں 720 بچوں کو شامل کیا گیا تھا۔

    نتائج میں بتایا گیا کہ ویکسین سے ہونے والا مضر اثر بیشتر بچوں میں معمولی سے معتدل تھا، بس ایک بچے کو شدید الرجک ری ایکشن کا سامنا ہوا جس میں پہلے سے فوڈ الرجی کی تاریخ تھی۔

  • آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں، وہ ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے

    آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں، وہ ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے

    آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں، وہ پٹھوں کی ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے۔

    مسکولر ڈسٹرافی (Muscular Dystrophy) کو ایک خاموش قاتل سمجھا جاتا ہے، آپ کی عمر 2 سال سے 60 سال تک ہے، اور آپ بڑی اچھی زندگی جی رہے ہیں، لیکن یہ قاتل آپ کے اور میرے جسم میں بھی چھپا یا سویا ہوا ہو سکتا ہے، جو کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے۔

    مسکولر ڈسٹرافی کو عام زبان میں پٹھوں کی بیماری کہا جاتا ہے، اسے ہمارے جینز میں چھپا ہوا قاتل سمجھا جاتا ہے، جو عمر کے کسی بھی حصے میں جاگ کر جسم کے چند حصوں یا پورے جسم میں تباہی مچا دیتا ہے۔

    اس بیماری کی 8 اقسام ہیں، مگر سب سے عام قسم ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی (Duchene Muscular Dystrophy) ہے، یہ ایک جنیٹک یعنی موروثی بیماری ہے، جو سب سے چھوٹی عمر میں ہوتی ہے، یہ ہمیشہ لڑکوں کو ہوتی ہے، جو انھیں ماؤں سے منتقل ہوتی ہے۔

    جیسے ہی لڑکے کی عمر 5 سال ہوتی ہے، ٹھیک ٹھاک بچہ اچانک پاؤں کی ایڑھی زمین سے اٹھا کر پنجوں پر چلنے لگتا ہے، چند ہی ماہ بعد بچہ چھاتی بھی باہر نکال کر چلنا شروع ہوتا ہے، جیسے پہلوان سینہ تان کر چلتے ہیں، والدین بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ یہ تم کیسے چل رہے ہو؟ ایڑھی نیچے لگاؤ سینہ پیچھے کرو، مگر بچہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

    چند ماہ بعد بچہ بیٹھے بیٹھے جب اٹھنے لگتا ہے تو اس سے اٹھا ہی نہیں جاتا، اور پیچھے گر جاتا ہے، ٹانگیں کم زور ہوتی جاتی ہیں، بظاہر تو ٹانگیں ٹھیک ہوں گی مگر اندر موجود مسلز کمزور ہو کر بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے سے بیماری کی شناخت شروع ہوتی ہے، اسے گاور سائن کہتے ہیں، لیکن تب تک بچے کی عمر 7 سے 8 سال ہو چکی ہوتی ہے یعنی 2 سے 3 سال مسلسل قاتل اپنا کام کرتا رہا تھا، اور جب تک بیماری کی مکمل تشخیص ہوتی ہے بچہ موت کے منہ میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔

    رفتہ رفتہ کندھوں کے جوڑ کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں، 10 سال کی عمر تک بازو کو کندھے سے حرکت دینا بہت مشکل اور کئی کیسز میں بلکل ناممکن ہو جاتا ہے، ٹانگیں اور بازو مکمل یا 90 فی صد مفلوج ہو جاتے ہیں، بچہ پانی بھی خود سے نہیں پی سکتا، کچھ بچوں میں دل کے پٹھے بھی کمزور ہونا شروع ہوتے ہیں، جس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔

    ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار بچے 10 سال تک کسی طرح چل لیتے ہیں، لیکن پھر وھیل چیئر یا چار پائی پر آجاتے ہیں اور دوبارہ کبھی بھی کھڑے نہیں ہو سکتے یا چل نہیں سکتے۔ بچے کو اگر اس دوران بخار ہو جائے، تو ساکت پڑے ہوئے بچے پر قاتل اپنا حملہ بہت تیز کر دیتا ہے، اور مسلز بڑی تیزی سے ضائع ہونے لگتے ہیں، اس لیے ان بچوں کو بخار میں ہر وقت لیٹنے نہ دیں، پیراسیٹامول دے کر بچوں کو تھوڑا تھوڑا چلائیں، کیوں کہ ایک دفعہ مسلز ضائع ہونے پر ٹوٹنے شروع ہوگئے تو ان کو پھر روکا نہیں جا سکتا۔

    دراصل اس بیماری میں ٹانگوں، کولہوں اور کمر کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم اپنے خود کار دفاعی نظام کے تحت ان پٹھوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بچے کو ایڑھیاں اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

    بچاؤ کیسے؟

    اس بیماری کا پوری دنیا میں کوئی علاج نہیں، ہاں اسٹیم سیل تھراپی شاید چند سالوں بعد اس کے علاج میں مددگار ہو۔ اگر شروع ہی میں اس بیماری کا پتا چل جائے اور کوالٹی آف لائف بہتر کر دی جائے، تو بچوں کی زندگی 30 سے 40 اور بہت کم کیسز میں 50 سال تک بھی جا سکتی ہے۔

    احتیاط

    مالش بالکل نہیں کرنی، کوئی بریس کوئی اسپیشل جوتا نہ پہنائیں، سرجری نہ کروائیں، بیکری کی تمام اشیا سے پرہیز ضروری ہے، چاول، کولڈ ڈرنکس، مصنوعی جوسز نہ دیں، بچوں کو موٹا بھی نہ ہونے دیں، کیوں کہ موٹاپے کا مطلب موت ہے اس بیماری میں۔

    اسکول آسانی سے جا سکیں تو بھیجیں، پڑھائی اور امتحانوں کے دباؤ اور ڈپریشن سے دور رکھیں، بچے کو اچھی طرح سمجھائیں کہ آپ کی زندگی اب وھیل چیئر کے ساتھ گزرنی ہے، پاور وھیل چیئر مل جائے تو آسانی ہو جائے گی۔

    ایسے بچے کیا کریں؟

    ان بچوں کو بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں، وائس اوور آرٹسٹ بن سکتے ہیں، نیوز کاسٹر بن سکتے ہیں، وی لاگنگ کر سکتے ہیں۔