Tag: بچے

  • کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    بچوں میں کرونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں بچوں میں لانگ کووڈ کے حوالے سے معلومات ملی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 7 میں سے ایک بچے کو صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں لانگ کووڈ کی شرح کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 سے 17 سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی ہے ان میں 15 ہفتے بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران 11 سے 17 سال کی عمر کے 3065 کووڈ مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے 3739 بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے 14 فیصد نے 15 ہفتوں بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا، کنٹرول گروپ میں یہ شرح 7 فیصد تھی۔

    ماہرین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے 15 ہفتوں بعد متعدد علامات موجود ہوسکتی ہیں، مگر اس عمر کے گروپ میں لانگ کووڈ کی شرح توقعات سے کم ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

  • کیا آپ کا بچہ بیمار سا محسوس ہوتا ہے؟

    کیا آپ کا بچہ بیمار سا محسوس ہوتا ہے؟

    اکثر اوقات ہمیں اپنے گھر میں یا ارد گرد موجود بچے کچھ کچھ بیمار سے لگتے ہیں، والدین بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر بتاتا ہے کہ بچہ بالکل صحت مند ہے اور اسے کوئی بیماری نہیں۔

    لیکن اس کے باوجود بچہ بیمار اور سست سا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے لیے یہ جاننا باعث حیرت ہوگا کہ کسی بچے کے بیمار ہونے کی وجہ اس کا جسمانی طور پر غیر فعال ہونا بھی ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں ہر 4 میں سے 1 بچہ مناسب طور پر فعال نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کی زد میں ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے کچھ عرص قبل ایک پروگرام بھی شروع کیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں خاص طور پر بچوں میں جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ بچوں کو جسمانی طور پر فعال کرنے کے لیے ہمیں خاص کوششوں کی ضرورت نہیں۔ ایسا نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ تعلیم دی جائے یا کوئی طویل المدتی منصوبہ بنایا جائے۔ اس کے لیے صرف ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی دنیا کو ایسا بنائیں جہاں جسمانی سرگرمیاں فروغ پاسکیں۔

    ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زائد (بچے اور بالغ) افراد ایسے ہیں جو جسمانی طور پر سرگرم نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق ہمیں لاحق ہونے والی کئی بیماریاں ایسی ہیں جن سے صرف جسمانی طور پر حرکت کے ذریعے باآسانی چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے تجویز دی ہے کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنے کے لیے پیدل چلنا اور سائیکل چلانا بہترین طریقہ کار ہیں۔

  • کرونا وائرس: موت سے قبل ماں کی بچوں کے لیے آخری خواہش کیا تھی؟

    کرونا وائرس: موت سے قبل ماں کی بچوں کے لیے آخری خواہش کیا تھی؟

    امریکا میں ویکسین سے منحرف ماں کرونا وائرس کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئی، مرنے سے پہلے اس نے اپنے اہلخانہ کو تاکید کی کہ اس کے بچوں کو کووڈ ویکسین ضرور لگوائی جائے۔

    امریکی ریاست ٹیکسس میں 42 سالہ لیڈیا روڈرگز کے شوہر بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے۔ شوہر میں کووڈ 19 کی تشخیص ہونے کے 2 ہفتے بعد وہ خود بھی وائرس کا شکار ہوگئیں۔

    کچھ دن بعد دونوں یکے بعد دیگرے چل بسے۔

    اہلخانہ کے مطابق دونوں میاں بیوی کووڈ 19 کی ویکسین لگوانے سے انکاری تھے، لیکن بالآخر جب انہیں احساس ہوا کہ وہ غلطی پر ہیں تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

    لیڈیا کی بہن کے مطابق ڈاکٹرز جب انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر رہے تھے تب انہوں نے اپنی بہن سے آخری بات یہی کہی کہ ان کے بچوں کو کووڈ 19 ویکسین ضرور لگوائی جائے، جوڑے کے 4 بچے ہیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا میں کووڈ ویکسی نیشن کی مہم زور و شور سے جاری ہے تاہم چند قدامت پسند ریاستوں میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے اور ٹیکسس بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    دوسری جانب ٹیکسس ہی وہ ریاست ہے جو کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔

    امریکی طبی حکام کی جانب سے حال ہی میں ویکسین کی تیسری بوسٹر خوراک لگوانے کی منظوری بھی دی جاچکی ہے۔

  • ننھے بچے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب

    ننھے بچے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب

    کرونا وائرس بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو کم متاثر کرسکتا ہے تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے نیا انکشاف ہوا ہے۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چھوٹے بچوں کا نوجوانوں کے مقابلے میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے تاہم اگر وہ کووڈ کے شکار ہوجائیں تو وہ اس وائرس کو اپنے گھر کے افراد میں پھیلا سکتے ہیں۔

    تحقیق میں اس بحث کا واضح جواب تو نہیں دیا گیا کہ بچے بھی بالغ افراد کی طرح اس وبائی مرض کو پھیلا سکتے ہیں یا وبا میں ان کا کردار ہے یا نہیں، مگر نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں یکم جون سے 31 دسمبر 2020 کے دوران کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں ریکارڈ ہونے والے کووڈ کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین نے پھر ان گھرانوں میں اس پہلے فرد کی شناخت کی جس میں کووڈ 19 کی علامات نمودار ہوئی تھیں یا وائرس کا ٹیسٹ مثبت رہا تھا۔

    بعد ازاں ایسے 6 ہزار 820 گھرانوں پر توجہ مرکوز کی گئی جہاں اس وائرس سے پہلے متاثر ہونے والے مریض کی عمر 18 سال سے کم تھی، جس کے بعد اسی گھر کے دیگر افراد میں کیسز کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ بیشتر کیسز میں وائرس کا پھیلاؤ متاثرہ بچے پر رک گیا مگر 27.3 فیصد گھرانوں میں بچوں نے وائرس کو گھر کے کم از کم ایک رکن میں منتقل کیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 14 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی جانب سے وائرس کو گھر لانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے یا کم از کم اس تحقیق میں کسی گھرانے میں سب سے پہلے متاثر ہونے والے 38 فیصد افراد کی عمریں یہی تھیں۔

    جن گھرانوں میں 3 سال یا اس سے کم عمر بچے سب سے پہلے بیمار ہوئے ان کی شرح محض 12 فیصد تھی مگر ان کی جانب سے وائرس کو آگے پھیلانے کا امکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق 3 سال یا اس سے کم عمر بچوں سے گھر کے دیگر افراد میں وائرس پھیلنے کاامکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ ننھے اور زیادہ عمر کے بچوں کے رویوں میں فرق ہے۔

    ننھے بچے گھر سے باہر بہت زیادہ گھومتے پھرتے نہیں اور جسمانی طور پر گھر والوں کے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے وائرس پھیلنے کا امکان بڑھتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس عمر کے بچوں میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہو یا وہ زیادہ مقدار میں وائرل ذرات کو جسم سے خارج کرتے ہوں۔

  • کیا ڈیلٹا کرونا بچوں کے لیے بھی خطرناک ہوسکتا ہے؟

    کیا ڈیلٹا کرونا بچوں کے لیے بھی خطرناک ہوسکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور متعدی ثابت ہورہی ہے اور اب بچوں پر بھی اس کے خطرناک اثرات سامنے آرہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی ڈیلٹا قسم بچوں میں بالغ افراد جتنی ہی متعدی ہوسکتی ہے۔

    چلڈرنز ہاسپٹل ایسوسی ایشن اور امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس کے ڈیٹا کے مطابق امریکا میں ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے ساتھ بچوں میں کووڈ کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    ڈیٹا کے مطابق 22 سے 29 جولائی کے دوران 18 سال سے کم عمر بچوں میں 71 ہزار سے زیادہ کووڈ کیسز رپورٹ ہوئے، ہر 5 میں سے ایک نیا کیس بچوں یا نوجوانوں کا تھا۔

    جونز ہوپکنز آل چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے بتایا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہم مریض بچوں کی نگہداشت میں بہت مصروف رہے، وبا کے آغاز کے بعد سے ہم نے اپنے اسپتال میں کووڈ کیسز کی سب سے زیادہ شرح کو دیکھا۔

    تاہم بچوں میں ڈیلٹا سے بیماری کی شدت کے حوالے سے رپورٹس ملی جلی ہیں۔

    امریکی ریاستوں کے ڈیٹا کے مطابق کووڈ سے متاثر بچوں کے اسپتال میں داخلے کی شرح اتنی ہی ہے جتنی سابقہ اقسام کے پھیلاؤ کے دوران تھی یعنی 0.1 سے 1.9 فیصد۔

    جونز ہوپکنز آل چلڈرنز ہاسپٹل کی نائب صدر اینجلا گرین نے بتایا کہ اگرچہ مجموعی کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر کووڈ سے ہسپتال میں داخلے کی شرح پہلے جیسی ہی ہے۔

    امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس کے مطابق اس بار بھی ایسا ہی نظر آتا ہے کہ بچوں میں کووڈ 19 سے بیماری کی سنگین شدت زیادہ عام نہیں۔

    ممفس کے لی بون ہیور چلڈرنز ہاسپٹل کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر نک ہاشمٹ کے مطابق ماضی میں عموماً بچوں میں کووڈ کی تشخیص کسی اور طبی مسئلے کے علاج کے دوران ہوتی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ کسی بیماری کے علاج کے دوران معمول کے ٹیسٹ سے کووڈ کی بغیر علامات والی بیماری کا انکشاف ہوتا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ڈیلٹا سے حالات میں تبدیلی آئی ہے اور حالیہ ہفتوں کے دوران ہم نے بچوں میں کووڈ کو دیکھا اور اسپتال میں داخل کیا، انہیں نظام تنفس کی علامات اور سانس لینے میں دشواری کے باعث ہسپتال میں داخل کیا گیا۔

    ان کے خیال میں ڈیلٹا میں کچھ ایسا ہے جو سابقہ اقسام سے کچھ مختلف ہے۔

  • لاہور کی 4 بچیاں کہاں سے برآمد ہوئیں، پولیس کا دل دہلا دینے والا انکشاف

    لاہور کی 4 بچیاں کہاں سے برآمد ہوئیں، پولیس کا دل دہلا دینے والا انکشاف

    لاہور: پولیس نے یہ دل دہلا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ لاہور کے علاقے ہنجروال سے اغوا شدہ 4 بچیاں ساہیوال میں ایک قحبہ خانے سے برآمد ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق ہنجروال سے لا پتا ہونے والی چار بچیوں کی ساہیوال سے بازیابی کے معاملے میں پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں ساہیوال کے ایک قحبہ خانے سے برآمد کیا گیا، جہاں انھیں بیچ دیا گیا تھا۔

    پولیس بیان کے مطابق ساہیوال پولیس نے قحبہ خانے پر چھاپا مارا تو ایک نوجوان شہزاد پکڑا گیا، اس نے از خود بتایا کہ چاروں بچیاں قحبہ خانے میں ہیں، شہزاد کی نشان دہی پر چاروں بچیاں قحبہ خانے سے برآمد ہوئیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے کی مالکن کے انکشاف پر رکشہ ڈرائیور قاسم، اور اس کی بیوی کو گرفتار کیا، معلوم ہوا کہ رکشہ ڈرائیور قاسم نے بچیاں قحبہ خانے کو بیچی تھیں، اس نے بچیوں کو لاہور سے اغوا کیا اور ساہیوال لے آیا۔

    ساہیوال : چار بچیوں کے اغوا کیس میں اہم پیش رفت، 6 ملزمان گرفتار

    ڈرائیور قاسم نے ایک رات بچیوں کو لاہور میں اپنے گھر رکھا، پھر ساہیوال لے آیا تھا، جب کہ قاسم ساہیوال جھال روڈ کا رہائشی ہے، اور لاہور میں کام کرتا ہے۔

    لاہور : بازیاب ہونے والی چاروں بچیوں کا گھر واپس جانے سے انکار

    واضح رہے کہ اس کیس میں اب تک گرفتار ملزمان میں رکشہ ڈرائیور، شہزاد، نعیم، آصف، شوکت علی، شازیہ اور زینت شامل ہیں۔

    بچیوں کو لاہور کے علاقے ہنجروال سے 30 جولائی کو اغوا کیا گیا تھا، جنھیں ساہیوال کے علاقے پاکپتن چوک سے بازیاب کرایا گیا، پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ رکشہ ڈرائیور قاسم کا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ رابطہ تھا، جس پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریش کے بعد پولیس تھانہ غلہ منڈی نے کارروائی کی تھی، بچیوں کو بازیاب کر کے لاہور روانہ کیا گیا۔

  • پھیپھڑوں اور دماغ میں کیڑے گھس گئے، نومولود کی رونگٹے کھڑے کرنے والی کہانی

    پھیپھڑوں اور دماغ میں کیڑے گھس گئے، نومولود کی رونگٹے کھڑے کرنے والی کہانی

    ہنوئی: ویتنام میں ایک نوزائیدہ بچی کے پھیپھڑوں اور دماغ میں کیڑے مکوڑے گھس گئے تھے لیکن خوش قسمتی سے بچی کی جان بچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ویتنام سے تعلق رکھنے والے ایک نومولود کے پھیپھڑوں میں بھی کیڑے چلے گئے لیکن پھر بھی وہ زندہ بچ گئی، بچے کو اس کے والدین نے ایک تھیلی میں ڈال کر کھیتوں میں پھینک دیا تھا۔

    یہ لاوارث بچی اب تین سال کی ہے، اور صحت مند ہے تاہم اس کی زندگی کے ابتدائی مہینوں کی کہانی سن کر درد مند دل رو پڑتا ہے، جب سگے ماں باپ نے اسے ایک تھیلی میں ڈال کر کھیتوں میں چھوڑا تو فصل کاشت کرتے ہوئے ایک کسان نے اس کے رونے کی آواز سنی۔

    کسان نے دیکھا کہ ایک تھیلی میں بچہ پڑا ہے جس کو کیڑے اور لاروے کھا رہے ہیں، بچہ انتہائی شدید بری حالت میں تھا اور اس کی شکل بھی پہچانی نہیں جا رہی تھی۔

    کسان نے بچے کو اسپتال پہنچایا، جہاں ایکسرے اور الٹراساونڈز ہوئے اور معلوم ہوا کہ نوزائیدہ کے پھیپھڑوں، ناک، دماغ اور کانوں کے اندر تک کیڑے مکوڑے، لاروے اور لال بیگ گھس چکے ہیں، بچے کے جسم پر کتے کے کاٹنے کے نشانات بھی پائے گئے۔

    ٹیسٹس کرنے کے بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ بچی کو ہائیڈرا نینسیپلی hydranencephaly نامی بیماری ہے، جس میں اوپری دماغ کا آدھا حصہ غائب ہوتا ہے۔

    بچی کی نازک صورت حال دیکھ کر ڈاکٹرز نے بچی کو علاج کے لیے سنگاپور لے جانے کا مشورہ دیا، جس پر خطیر رقم خرچ ہونی تھی، تب ویتنام کی چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی منہائے تائے نامی خاتون سامنے آئیں، انھوں نے سوشل میڈیا پر بچی کے علاج کے لیے مدد کی اپیل کی، اور بچی کو اس طرح سنگاپور لے جایا گیا۔

    ویتنام میں مشہور ہونے والی یہ بچی اب تین سال کی ہو چکی ہے، مہنائے تائے نے بچی کے والدین کو بہت ڈھونڈا لیکن وہ نہ مل سکے، ان کا کہنا تھا کہ وہ بچی پر اتنا ظلم کرنے والے والدین کو سخت سزا دلوانا چاہتی ہیں۔

  • بچوں کی حفاظت کے لیے انسٹاگرام کے نئے فیچرز

    بچوں کی حفاظت کے لیے انسٹاگرام کے نئے فیچرز

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام نے نئے فیچرز متعارف کروائے ہیں جن کا مقصد بچوں کو محفوظ ڈیجیٹل اسپیس فراہم کرنا ہے۔

    انسٹاگرام کی ملکیت رکھنے والی کمپنی فیس بک نے گزشتہ روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے تین نئے فیچرز کا اعلان کیا ہے۔

    پہلے فیچر یہ ہے کہ اگر 13 سال یا اس سے کم عمر کا کوئی بھی بچہ انسٹا گرام پر اکاؤنٹ بنائے گا تو خود کار طور پر وہ پرائیویٹ ہوگا یعنی اس اکاؤنٹ پر لگائی جانے والی پوسٹس صرف دوسرے کم عمر بچے ہی دیکھ سکیں گے۔

    ان کے علاوہ صرف ان ہی بڑوں کی نظروں سے یہ پوسٹس گزر سکیں گی جنہیں یہ بچہ (صارف) خود اجازت دے گا۔

    دوسرے فیچر کے ذریعے انسٹاگرام پر مشکوک حرکتیں کرنے والے اکاؤنٹس کی نگرانی میں زیادہ سختی کی جائے گی اور انہیں کم عمر بچوں کو براہ راست پیغامات بھیجنے یا ڈی ایم کرنے سے بھی باز رکھا جائے گا۔

    تیسرے فیچر کے ذریعے اشتہار دینے والے اداروں کےلیے بھی آپشنز محدود کیے جائیں گے تاکہ انسٹاگرام استعمال کرنے والے بچوں تک صرف وہی اشتہارات پہنچیں جو ان کی عمر کے حساب سے ہیں۔

    اس اعلان سے منسلک ایک اور پوسٹ میں فیس بُک کی نائب صدر یوتھ پروڈکٹس پاؤنی دیوانجی نے واضح کیا ہے کہ اکاؤنٹ بنانے والے فرد کی درست عمر کا پتہ لگانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے گا۔

  • بچوں کو ورزش کروانے کا ایک اور فائدہ

    بچوں کو ورزش کروانے کا ایک اور فائدہ

    بچوں سمیت ہر عمر کے شخص کے لیے جسمانی سرگرمیاں نہایت اہمیت رکھتی ہیں اور حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کے حوالے سے ماہرین نے نیا انکشاف کیا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈیلا ویئر یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کچھ دیر کی ورزش بچوں کے ذخیرہ الفاظ کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    طبی جریدے جرنل آف اسپیچ لینگوئج اینڈ ہیئرنگ ریسرچ میں شائع تحقیق میں جسمانی سرگرمیوں یا ورزش کے بچوں کی زبان دانی پر اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔

    تحقیق میں 6 سے 12 سال کے بچوں کو سوئمنگ، کراس فٹ ایکسر سائز یا ڈرائنگ کرنے سے پہلے چند نئے الفاظ سکھائے گئے۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جن بچوں کو تیراکی کا موقع ملا، انہوں نے ان الفاظ کے ٹیسٹوں میں 13 فیصد زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قابل فہم ہے کیونکہ ورزش سے دماغی نشوونما تیز ہوتی ہے اور نئے الفاظ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

    تاہم کراس فٹ کے مقابلے میں تیراکی زیادہ مؤثر کیوں ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے محققین نے بتایا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی جسمانی سرگرمی کے لیے دماغ کو کتنی توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔

    سوئمنگ ایک ایسی سرگرمی ہے جو بچے آسانی سے کرلیتے ہیں بلکہ ان کو زیادہ ہدایات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، جبکہ کراس فٹ ایکسرسائز ان کے لیے بالکل نئی ہوتی ہے اور انہیں اس کو سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے ذہنی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم تحقیق کے نتائج کے حوالے سے بہت پرجوش ہیں کیونکہ اس کا اطلاق آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور والدین، استاد اور دیگر بچوں کو اس کی مشق کراسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ سادہ عمل ہے اور اس کے لیے کچھ بھی غیر معمولی درکار نہیں ہوتا، بس بچوں کو جسمانی سرگرمیوں کی جانب مائل کرنا ہی کافی ہوتا ہے۔

  • میانوالی میں 3 بچوں سے زیادتی، مقدمات درج

    میانوالی میں 3 بچوں سے زیادتی، مقدمات درج

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی میں 3 بچوں سے زیادتی کا واقعہ سامنے آگیا، ملزمان نے ویڈیو بنائی بعد ازاں ایک سال تک بلیک میل کرتے رہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی میں 3 بچوں سے زیادتی کی ایف آئی آرز سامنے آگئیں، ملزمان زیادتی کی ویڈیوز بھی بناتے رہے۔

    پہلی ایف آئی آر کے مطابق ملزمان سرفراز اور خرم نے گھر لے جا کر زیادتی کی، ملزمان نے ویڈیو بنائی بعد ازاں ایک سال بلیک میل کرتے رہے۔

    دوسری ایف آئی آر میں درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ 10 سالہ بیٹے سے ذیشان، حسن اور حمزہ نے زیادتی کی کوشش کی، ملزمان نے بیٹے کو برہنہ کر کے ویڈیو بھی بنائی۔

    تیسری ایف آئی آر میں 9 سالہ لڑکے سے 2 ملزمان پر زیادتی کا الزام لگایا گیا، درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ملزمان حسن اور ذیشان نے 9 سالہ بیٹے سے زیادتی کی۔

    پولسی کا کہنا ہے کہ زیادتی کے تینوں واقعات تھانہ موچھ کی حدود میں پیش آئے، 2 واردتوں میں حسن اور ذیشان نامی ملزم نامزد ہیں، مذکورہ دونوں وارداتیں ذیشان اور حسن کی بیٹھک پر ہوئیں۔